رشیدہ منصوری،ہوڑہ
کسی بھی اچھے اور سچے شاعر پر لکھنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا کہ اچھی شاعری کرنا۔ اس لیے کہ صحیح لکھ دیا جائے تو ہم عصر خفا ہو جائیں اور جھوٹ لکھا جائے تو اپنا ہی ضمیر کوسنے لگے! ایسی صورت میں لکھنے والا بجائے اُس کی شاعری پر لکھنے کے جدید، قدیم اور مابعد جدیدیت کی بحث میں الجھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے اظہارِ خیال مکمل کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے شعروں میں ہزاروں سامعین و قارئین کے دلوں کی دھڑکنیں صاف سنائی دیتی ہیں۔ اور ہر شخص گویا محسوس کرتا ہے کہ یہی تو میں سوچتا تھا، کہنا چاہتا تھا۔ ایسے اچھے اور سچے شاعروں میں ایک نام بلند ؔ اقبال ہے جنھوں نے 1966ء میں کانکی نارہ، مغربی بنگال میں آنکھیں کھولیں۔ بطور پیشہ تجارت سے وابستہ ہونے کے باوجود انھوں نے شاعری کو اپنا مشغلہ بنایا۔ یہ غزل دیکھیں:
یوں ہی پھرتا ہے بدحواس کوئی
دل میں ٹوٹا ہے شاید آس کوئی
اے خدا میری آرزو ہے یہی
ہو نہ اب پیڑ بے لباس کوئی
فصل ِ گل کا گزر ہوا جب سے
پھر نہ دیکھا چمن اداس کوئی
مفلسی کا یہ حشر دیکھو تو
اب پھٹکتا نہیں ہے پاس کوئی
اہل ِ دل سنگ دل بھی ہوتے ہیں
کیوں کروں ان سے التماس کوئی
ایک مدت سے ڈھونڈتا ہوں بلندؔ
کاش مل جائے غم شناس کوئی
ہر اچھی شاعری میں ڈھائی الفاظ ہوتے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو بلند ؔ اقبال کی شاعری میں بھی ڈھائی الفاظ ہی ہیں۔ ان کے پہلے اور دوسرے حروف کی تفہیم تو آسان ہے مگر اس نصف حرف کے طلسمی اسرار کو سمجھنے کے لیے ذہن کی بہت ساری توانائیاں صرف کرنی پڑیں گی۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھیں:
گزرے پل کے اثر سے باہر آ
تو رہِ پُر خطر سے باہر آ
چاہتا ہے بھلائی سب کی اگر
خواہشوں کے نگر سے باہر آ
پھر دکھانا کوئی کمال اپنا
تو ذرا اپنے گھر سے باہر آ
یوں بھٹکتا رہے گا تو ورنہ
گمرہی کی خبر سے باہر آ
خواب پورا ہو چاہتا ہے اگر
مفلسی کے کھنڈر سے باہر آ
کیسے کیسے جہاں میں ہیں فنکار
اپنے باغِ ہنر سے باہر آ
کوئی لمبی کہانی لکھ اقبال
قصہ ٔ ِ مختصر سے باہر آ
اس نصف حرف کے پراسرار آہنگ کی جستجو ہر اس شخص کو کرنی چاہئے جو بلندؔ اقبال کے تخلیقی نظام اور طرزِ احساس کو ایک نئے زاویے اور نئے تناظر میں دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ روایتی، تنقیدی طریقہ کار سے الگ ہو کر ہی ان کے متن میں مضمر معانی کی تفہیم کی روشنی میں بات کی جائے تو شاید زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ بلند ؔ اقبال کی شاعری میں بہت کچھ وہ ہے جو دوسروں کی شاعری میں نہیں ہے۔ ان کی ’تخلیقی روح، کو تنقید کے میکانکی تصور کے ذریعہ سمجھنا مشکل ہے۔ ان کی شاعری کی تفہیم کے لیے صرف ادب ہی نہیں بلکہ داخلی کیفیت یا حسیات کا علم ہونا بھی ضروری ہے جہاں وہ ایک طرف زلف و رخسار کی بات کرتے ہیں وہیں دوسری طرف اس کے نفسیاتی پہلو کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کریں:
لفظوں کا رنگ شعر کا لہجہ اداس ہے
تم سے بچھڑ کے روح کا گوشہ اداس ہے
مہنگائیوں کا ملک پہ قبضہ ہے اس طرح
جائیں جدھر بھی جیب کا سکّہ اداس ہے
جس دن سے ننھے بچوں کا ٹی وی ہے پالنا
دادی کے لب پہ پریوں کا قصّہ اداس ہے
آئِنے پہ ہے گرد نہ نظروں کا ہے قصور
کیا کیجئے حضور یہ چہرہ اداس ہے
مشکل ہوا ہے جی کو لگانا کہیں بھی یار
تیرے بغیر اپنا دسہرہ اداس ہے
تصویر شاہکار وہ لاکھوں میں بِک گئی
جس میں بغیر روٹی کے بچہ اداس ہے
بلند ؔ اقبال کی شاعری میں انسانی اقدار و اخلاقیات پر بُرے اثرات کے پڑنے والے منفی اثرات کے خلاف سخت تخلیقی رد عمل کا اظہار ملتا ہے۔ یہ مکمل طور پر انسانی احساس و اظہار کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری میں ان ہی چیزوں کے منفی اثرات اور نتائج سے آگہی کے آثار نمایاں ہیں۔ جہاں ایک طرف نئی نسل کی بات ہے تو یہ ایک بہت بڑا معمہ ہے۔ کیونکہ اب شوشل میڈیا کا دور ہے۔ بچے والدین کی عزت کرنے کے بجائے موبائل چلانا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں۔ دادا دادی کی کہانیاں سننے کا اب وقت نہیں ہے ان کے پاس۔ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر رات گزارنا اچھا لگتا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے نہ صرف ذرائع کا استحصال ہوتا ہے بلکہ زرعی معیشت کا عدم استحکام، کثافت اور علاقائی توازن کا خاتمہ جیسے گمبھیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ٹی وی پر ہے رات گزرتی بچوں کی
کوئی کہانی سنتا کہاں اب دادی س
تم نمازوں کی بات کرتے ہو
لوگ سنتے نہیں اذان تلک
اس کے علاوہ سماجی اقدار اور ماحولیات کو بھی اس سے سخت خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس وجہ سے سماجی اور اقتصادی تضادات کی شکلیں بھی رونما ہوتی ہیں۔ چونکہ شہر ایک تیکنیکی نظام کا پابند ہوتا ہے۔ اس کا لے آؤٹ پلان بھی اس کی ایک علیحدہ شناخت کا مظہر ہوتا ہے۔ رہائشی زون کی تقسیم سے بھی شہری ذہنیت کی تفہیم ہوسکتی ہے۔ ان کی اپنی زبان اور اپنا کلچر ہوتا ہے، جہاں انسانی رشتے اور اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ بلاک، وارڈ اور کالونی میں تقسیم شدہ یہ شہر ایک نئے کلچر کا اشاریہ ہے۔ اور اس کی وجہ سے آبادیوں کے آپسی رشتے بھی مجروح ہوتے ہیں اور اب تو لفظ ‘شہر’ اپنے مفہوم اور معنی کے اعتبار سے بھی تنہائی، اجنبیت سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے جس میں انسانی رشتوں کی حرارت یا حدت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور اس کے علاوہ بورزوائیت کو فروغ دینے میں شہروں کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔
ایک جیسا مزاج ہے سب کا
کس کو کہئے کوئی شریف نہیں
پھر گِری برق آسمانوں سے
حال پوچھو ذرا کسانوں سے
مجھکو لگتا ہے زندگی کم ہے
غم زیادہ ہے اور خوشی کم ہے
جانتا خوب ہوں بلند ؔ کو میں
نیک ہے پر وہ فلسفی کم ہے
زیست کب اپنے اختیار میں ہے
سامنے موت انتظار میں ہے
نیک ورک سٹی، پوسٹ ماڈرن سٹی کی موجودگی نے لوگوں کے ذہنی، اخلاقی رویے میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات بھی بدل دی ہیں۔ آج دنیا کے غریب ممالک میں طبقاتی تنازعہ مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان نہیں اور نہ ہی ملکی اور غیرملکی مفادات کے درمیان ہے بلکہ اصل تنازعہ شہری اور دیہی طبقات کے درمیان ہے اور یہ خلیج مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ بلند ؔ اقبال نے شہر اور دیہات کے تضادات کی تصویریں اپنی شاعری میں کھینچی ہیں اور اپنی تہذیبی جڑوں کی جستجو کے چراغ کو روشن رکھا ہے۔ ان کی شاعری میں شہر کی سفاکیت کا استعارہ اور گاؤں کی معصومیت کی علامت موجود ہیں۔ انٹرنیٹ اور گلوبلائزیشن نے سماجی، اخلاقی صورت حال کو اور بھی خطرناک بنا دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے جو منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ اس کی وجہ سے اخلاقی قدریں زوال کا شکار ہوئی ہیں۔ یہ غزل دیکھیں:
اٹھنے لگی ہے باغ میں دیوار ایک پھر
تقسیم ہونے والا ہے گلزار ایک پھر
منزل قریب آئی تو رستے بدل گئے
مجھ سے بچھڑ گیا ہے میرا یار ایک پھر
ماحول میں تناؤ ہے پھر اپنے گاؤں کے
لایا ہے کوئی شہر سے اخبار ایک پھر
شاید کھلے گا پھر کوئی صحرا میں سرُخ پھول
دیوانہ ہنس رہا ہے سرِ دار ایک پھر
میری وفا و صبر و تحمل کے سنگ سے
ٹوٹا ہے کوئی شیشہ ٔ پندار ایک پھر
اپنے تمام شعر میں ان کو سنا چکا
پھر بھی ہے باربار یہ اصرار ایک پھر
نازاں ہے کوئی اپنی جفاؤں پہ اے بلندؔ
شرمندہ ہے وفا کا گنہ گار ایک پھر
نہ صرف ٹیکنالوجی کی ترقیات نے روایتی اخلاقی اقدار کو چیلنج کیا ہے بلکہ اس کی وجہ سے انسانی جسموں میں بھی کیمیاوی آلودگی پیدا ہو گئی ہے۔ انسانی رابطے کا خاتمہ، اسٹرکچرل بے روزگاری اور کثافت کے منفی اثرات آج پورے سماج میں نظر آتے ہیں اور جدید دور کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانیت جراثیم کی ایک کالونی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ گویا ٹیکنالوجی نے انسان کا رشتہ فطرت سے منقطع کر دیا ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے سماج اور معاشیات کا تعین زمین اور زراعت سے ہوتا تھا اور اب صنعتی انقلاب اس کی وجہ سے زمین سے عوام کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ انڈسٹریلائزیشن کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے خاندانی اکائی کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ بلند اقبال کی شاعری میں انڈسٹریلائزیشن صارفیت، بورزوائیت اور نو دولتیہ طبقہ کے خلاف شدید جذباتی رد عمل کااظہار ملتا ہے۔ انہوں نے کمرشیلائزیشن کے رویے کی وجہ سے نہ صرف پورے معاشرے کے بازار میں بدلنے کی روش پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے بلکہ بایوٹیکنالوجی ایج میں انسان کے بازار میں تبدیل ہونے کے رویے کو بھی اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے کہ بایو ٹکنالوجی نے انسانی جسم کو قابل ِ فروخت تحقیقی مواد اور طبی پروڈکٹ میں تبدیل کردیا ہے۔ میڈیکل کامرس میں انسانی اعضاء کی ڈیمانڈ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہماری اخلاقیات پر اقتصادیات حاوی ہو چکی ہے اور انسانی جسم بھی ’’متاع بازار‘‘ بن کر اپنا تقدس کھو چکا ہے۔ کنزیومر کلچر یا مارکیٹ کلچر کی وجہ سے ماحولیات، آب وہوا اور قدرتی ذرائع پر منفی اثرات پڑے ہیں۔ یہ کلچر صرف سماجی نظام کی شکست وریخت کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس نے فرد کے ذہنی نظام کے ساتھ خاندانی قدریں بھی تبدیل کردی ہیں۔ اتحاد کے بجائے انتشار کو جنم دیا ہے۔ مسابقت، مادیت پرستی اور بیگانگی کے رویہ کو فروغ دیا ہے۔ بلند ؔ اقبال نے اقتصادی مادیت، کنزیومر کیپٹل ازم کے خلاف اپنی شاعری کو ایک مؤثر اور متحرک ذریعہ بنایا ہے۔ بلند اقبال کی شاعری کی معنویاتی جہتیں نہ منکشف ہوسکتی ہیں اور نہ ہی ان کے فنی اور فکری اعماق کی تفہیم ممکن ہے۔ انہوں نے جس نظامِ فکر کو اپنا مطاف اور محور بنایا ہے وہ موجودہ دور کے گلوبلائزیشن کے نظام سے بالکل مختلف ہے۔ آج جبکہ ٹیکنالوجی نے انسانی ذہنوں سے اس کے خواب، اس کی یادیں، گم شدہ لمحے اور ماضی کو سلب کرلیا ہے، ایسے میں بلند اقبال کی شاعری میں گم شدہ لمحوں، چہروں اور اشیاء کو یاد کرنے کا عمل روشن ہے۔ ان حالات کا منظر نامہ کی پیش کش سے محظوظ ہونے کے لیے معروف و معتبر شاعر بلندؔ اقبال کی غزل دیکھیں:
حالِ دل پر ادب کے پہرے ہیں
اشک پلکوں پہ آکے ٹھہرے ہیں
کو بہ کو چیختی ہے مظلومی
منصف ِ وقت کتنے بہرے ہیں
لوگ سائے سے خوف کھانے لگے
چار سُو وسوسوں کے پہرے ہیں
مہرباں ایک سائباں بھی نہیں
اور بادل بھی سر پہ گہرے ہیں
دل کا سونا تو لُٹ گیا کب کا
حرف لب پہ مگر سنہرے ہیں
بارش اشک بھی مِٹا نہ سکی
دل کے داغوں کے رنگ گہرے ہیں
اڑ رہی ہے ہوائیاں منھ پر
وقت کی زد میں سارے مہرے ہیں
میری دنیا تباہ کرنے میں
جانے پہچانے چند چہرے ہیں
یاد آفرینی کے اس عمل نے ان کی شاعری کو ایک نئی تعبیر عطا کی ہے۔ یادیں ہی شاعری کو سانس عطا کرتی ہیں اور ذہن کی زندگی اور تابندگی بھی یادداشت پر منحصر ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی شاعری میں خواب زندہ ہیں اور خوابوں کی گم شدگی کائنات کا ایک بڑا المیہ ہے۔ خوابوں کا کھو جانا شخصیت کو زوال سے آشنا کرتا ہے یا انہدامی مرحلے سے گزارتا ہے۔ ماضی، خواب اور یادیں بلند ؔ اقبال کے تخلیقی محرکات ہیں۔ بلند ؔ اقبال اپنے عنصر سے الگ یا جدا نہیں ہیں۔ اسی لیے ان کی شناخت باقی ہے اور پہچان قائم ہے۔ وہ اپنے اقدار سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔ ان کے تخلیقی فکری نظام کے ساتھ روایت کی روشنی بھی ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں:
اپنی کہاں بساط کرم بولتا رہا
الہام ہو رہا تھا قلم بولتا رہا
کس نے کیا ہے کتنا کرم بولتا رہا
ڈھایا گیا ہے جو اُس پہ ستم بولتا رہا
گمنام ہوں خلوص کا ہیرا لئے ہوئے
بازارِ دوستی میں دِرم بولتا رہا
خاموش لب تھے بات مگر پھیل ہی گئی
رازِ نہاں کو دیدہ نم بولتا رہا
شہر ِ تعلقات میں برپا نہ ہو فساد
جب بھی مِلا میں یاروں سے کم بولتا رہا
پُرپیچ رہگزر ہیں بہت عشق کے بلندؔ
زُلفِ درازِ یار کا خم بولتا رہا
بلند ؔ اقبال کی شاعری میں ماضی کی آہٹوں کے ساتھ آج کی تاریخ، تہذیب اور تصویر قید ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی ساخت اور انفرادی احساس کا روز نامچہ ہے جس میں ایک ایک لمحے کا حال درج ہے۔ عصری حسیت سے معمور اس شاعری میں جو پولٹیکل آئرنی ہے۔ وہ ان کے داخلی احساس کی عکاسی ہی نہیں ہے بلکہ موجودہ سماجی و سیاسی سسٹم کے خلاف ایک ری ایکشن بھی ہے۔ بلند ؔ اقبال کے یہاں حیات و کائنات کے تضاد اور انتشار میں ایک ربط کی جستجو کا عمل روشن ہے۔ اس قوس قزح رنگ کی شاعری میں زندگی، سماج، مذہب اور اساطیر کی متضاد لہروں کا امتزاج ہے۔ بلند اقبال نے اپنی شاعری میں ان اساطیر، علامات اور تلمیحات کا استعمال کیا ہے جن سے نہ صرف ماضی روشن ہے بلکہ مستقبل کو بھی ان سے توانائی اور تحرک ملتا ہے۔ ماضی سے مستقبل کو مربوط کرنے کا یہ تخلیقی عمل بہت معتبر ہے اور کائنات کو ایک تسلسل میں دیکھنے کی روش بھی اس میں مضمر ہے۔ زمانہ بدل جاتا ہے مگر کردار کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہتے ہیں۔ ماضی کے حوالے سے حال اور مستقبل کی علامات اور اساطیر کا یہ تخلیقی استعمال دیکھئے: ان کے ہر شعر میں باطنی احساس کا آہنگ ہے۔ احساس کی تمام رگوں میں انہوں نے اتر کر دیکھا ہے۔ اس لیے ان کی شاعری میں حزنیہ رنگ آہنگ بھی ہے اور طربیہ لے بھی۔ انسانی وجود کے آہنگ سے آشنائی نے ان کی تخلیقی تیکنیک اور کینوس کو وسعت عطا کی ہے۔ بلندؔ اقبال کی شاعری میں پورے چاند کی رات روشن ہے۔ بانسری کی سریلی مدُھر آواز ہے۔ کنول کے پھول ہیں۔ پریم کی روشنی ہے۔ محبت کا سورج ہے۔ باطن کے آہنگ سے ان کے احساس و اظہار کا آہنگ جڑا ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں داخلی اور خارجی وجود کی وحدت اور ہم آہنگی ہے۔ ایک ہی تانت ہے جو بج رہی ہے۔ کبیر کی مانیں تو ان کی تخلیقی شخصیت انار کی طرح نہیں ہے جس کا باطن سفید اور ظاہر سرخ ہوتا ہے۔اس اختصاصی دور میں بلند اقبال کی عوامی اور غیر اختصاصی شاعری کی بھی اپنی الگ ادا اور اسلوب ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ ان تمام جذبات و احساسات کو پیش کیا ہے جو عوام سے جُڑے ہوئے ہیں۔عوام کے نفسی رجحانات اور رویے تک ان کی رسائی ہے اور عوامی سائیکی سے ان کی شاعری کا رشتہ بہت مضبوط ہے اس لیے ان کی شاعری میں نظیر اکبرآبادی کی طرح ایک اجتماعی کردار نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں گم ہوتے گاؤں اور غریب کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ گاؤں ان کی شاعری میں ایک رمز اور استعارہ ہے اور اسی کی تہہ میں ان کے ذہنی نظام کی جڑیں ہیں۔ ان کی شاعری میں زیادہ تر ایسے ہی تجربے بولتے ہیں اور مشاہدے مکالمہ کرتے ہیں۔ ایک ایک شعر میں کئی کہانیاں اور کئی حکایتیں چھپی ہوتی ہیں۔ ان کے اندر کا بچہ مرا نہیں، زندہ ہے۔ وہ ایک معصوم سا بچہ جو خاندان کی اکائی سے جڑا ہوا ہے اور ایک مربوط ذہن جس کے لیے خاندانی قدریں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ بلند اقبال کی شاعری میں ماں، بہن، بھائی، بیوی، بیٹی یہ سب زندہ کردار ہیں اور انہی کرداروں کے جذبوں اور احساسات کی کائنات پر ان کی پوری شاعری مشتمل ہے۔
یہ حقیقت نہیں بیان تلک
تجھ پہ قربان اپنی جان تلک
تھا نہ مجھکو کبھی گمان تلک
پیار پہنچے گا امتحان تلک
راستہ بھی ہے میری منزل بھی
تیرے قدموں کے کچھ نشان تلک
ہم ضرورت کی بھیڑ میں کھوئے
گھر سے جاتے ہوئے دکان تلک
خار محدود ہے بیاباں میں
منزلِ گل سے گلستان تلک
تیرے دیدار کی گزارش کو
کون جائیگا پاسبان تلک
تم نمازوں کی بات کرتے ہو
لوگ سنتے نہیں اذان تلک
دیکھا جائے تو ان کی شاعری میں وہ چراغِ لالہ ہے جس سے روشن ہے کوہ و دمن۔ احساس و اظہار کی سطح پر بلند اقبال نے نہایت شاداب تجربے کیے ہیں اور لفظیات کی سطح پر بھی توازن اور تناسب کا خیال رکھا ہے۔ ان کی شاعری میں نہ زیادہ بارش کا احساس ہوتا ہے اور نہ زیادہ تیز دھوپ کا۔ لیکن سمندر کی طرح ان کے ذہن کی لہریں مضطرب اور بے قرار ہیں۔ انہیں اپنے وجود کی خوشبو کی خبر ہے اسی لیے وہ اپنی ذات میں اور اپنے وجود کے اندر بھی کائنات کی جستجو کرتے ہیں۔ خاص طورپر اس صوت سرمدی کی جستجو جس کی وجہ سے کائنات میں روشنی ہے۔ بلند ؔ اقبال ایک معمولی احساس کو بھی اپنے تخیل کی قوت اور جدت سے غیر معمولی وقوعے میں تبدیل کردیتے ہیں۔ قاری کو بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سامنے کی بات ہے مگر جب اس کے اسرار کی تہیں کھلتی ہیں تو دیدۂِ حیراں وا ہوجاتے ہیں۔ بلندؔ اقبال کی شاعری میں انقلابی آہنگ، مزاحمتی رنگ اور وہ موجِ منصوری بھی ہے جس سے آج کے تخلیق کار محروم ہیں کہ زیادہ تر تخلیق کاروں کی رگوں میں کیڈمیم کی مقدار زیادہ ہے جس کی وجہ سے وہ ہر لمحہ ایک خوف یا بزدلی کی نفسیات کے زیر ِ اثر رہتے ہیں مگر ایک سچا تخلیق کار کبھی بھی سچ بولنے سے پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ وہ سر ِ دار بھی حرفِ حق بلند کرتا ہے۔ بلند ؔ اقبال کے یہاں بھی وہی شجاعت اور شہامت کی لہریں ملتی ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ ماحولیاتی بحران کی وجہ سے تخیل کا بحران جنم لیتا ہے اسی لیے انہوں نے انسانی تخیل اور ماحولیاتی حقیقت کے درمیان اس رشتے کی دریافت کی ہے جس کا عدم توازن کائنات کو نئی سطحوں پر بحران میں مبتلا کرسکتا ہے۔ طبعی ماحول کا انفرادی اور اجتماعی ادراک پر گہرا اثر پڑتا ہے اور منور رانا نے اپنی شاعری میں اس طبعی ماحول کی بہت ہی فنکارانہ انداز میں عکاسی کی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے لیے ایک نئی بشارت دی ہے اور یہی انسانی جذبہ اور احساس ان کی شاعری کو زندہ رہنے کی ضمانت عطا کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں سب سے بڑی لہر جو ہے وہ ہے انسانیت کی لہر۔ وہی سورج، وہی روشنی، وہی خوشبو، وہی پھول ہے جو انسانی وجود سے وابستہ ہیں۔ انسانی رشتے کی فطری خوشبو نے ہی ان کی شاعری کو تازگی، تحرک، توانائی اور تمکنت عطا کی ہے۔ اس کا منظرنامہ بلند اقبال کی اس غزل میں دیکھ سکتے ہیں:
جیسا مِرا خیال تھا ویسا نہیں ہے کچھ
دنیا کو میں نے ٹھیک سے سمجھا نہیں ہے کچھ
ٹوٹا ہزار بار مسائل کے سنگ سے
لیکن انا کے بار سے کہتا نہیں ہے کچھ
بیٹھا لبِ فرات پہ میں سوچتا رہا
یہ کاروبارِ عشق تماشا نہیں ہے کچھ
تدبیر ہو ہزار کریں لاکھ دوڑ بھاگ
مرضی نہ ہو خدا کی تو ہوتا نہیں ہے کچھ
کرنا پڑیگا ترکِ تعلق کا التماس
اسکے سوا اب اور تو رستہ نہیں ہے کچھ
دولت سے مرتبے کی ہے پہچان آج کل
کل تک سنا تھا یار کہ پیسہ نہیں ہے کچھ
ہر چند کچھ نہیں تھا مگر تیرا ساتھ تھا
ہر شئے ہے آج پاس تو تجھ سا نہیں ہے کچھ
رزاق کے کرم پہ بھروسہ ہے اس قدر
اپنے لئے فقیر نے رکھا نہیں ہے کچھ
دل کا سکون ڈھونڈنے نکلے تو ہو بلند ؔ
لیکن کہیں ملے گا بھروسہ نہیں ہے کچھ
انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ انسانی مستقبل کو تابناک بنانے کا کام کیا ہے کہ دراصل اس ترقی یافتہ ٹکنالوجی کے دور میں ثقافتی بحران کا حل شاعری ہی تلاش کر سکتی ہے۔ فطرت، ٹکٹکنالوجی اور انسانی رشتوں کے مابین مفاہمت تخلیق کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ انہوں نے اپنے تخیل کی قوت کو ضائع ہونے سے بچا لیا ہے۔ انہیں احساس ہے کہ ماحولیاتی بحران کی وجہ سے تخیل کا بحران جنم لیتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے انسانی تخیل اور ماحولیاتی حقیقت کے درمیان اس رشتے کی دریافت کی ہے جس کا عدم توازن کائنات کو نئی سطحوں پر بحران میں مبتلا کر سکتا ہے۔ طبعی ماحول کا انفرادی اور اجتماعی ادراک پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اور انھوں نے اپنی شاعری میں اس طبعی ماحول کی بہت ہی فنکارانہ انداز میں عکاسی کی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے لیے ایک نئی بشارت دی ہے اور یہی انسانی جذبہ اور احساس ان کی شاعری کو زندہ رہنے کی ضمانت عطا کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں سب سے بڑی لہر جو ہے وہ ہے انسانیت کی لہر۔ وہی سورج، وہی روشنی، وہی خوشبو، وہی پھول ہے جو انسانی وجود سے وابستہ ہیں۔ انسانی رشتے کی فطری خوشبو نے ہی ان کی شاعری کو تازگی، تحرک، توانائی اور تمکنت عطا کی ہے۔ ان کے ہی شعر پر بات تمام کرتی ہوں کہ
بہت قریب سے تکتا ہوں دوریاں اپنی
کسی کے صحن میں کھلتی ہیں کھڑکیاں اپنی
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page