محمد اکرام
9654882771
اظہار و بیان کے وسیلے کا سب سے مؤثر ترین ذریعہ شاعری ہے۔ شاعرانہ اندازمیں کہی گئی باتیں دل و دماغ پر بہت جلد اثر کرتی ہیں۔ شاعری کے حسن و قبح، اس کے محاسن و معائب سے نا آشنائی کے باوجود بھی اس سے سبھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شعرا نے شاعری کی سحر طرازی اور اس کی جادوبیانی جیسے اوصاف کے علاوہ نہ جانے کتنے اور اوصاف بیان کیے ہیں۔ اس تعلق سے عبادت بریلوی کےچند جملے میں یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں:
’’شاعری جذبات کی دل آویز موسیقی ہے، احساسات کی حسین مصوری ہے، تخیل کا ایک رقص دل فریب ہے۔ وہ جنت نگاہ بھی ہے اور فردوس گوش بھی، اس کا اثر دل و دماغ دونوں پر ہوتا ہے۔ وہ حواس کے تاروں کو چھیڑتی ہے اور روح پر سرخوشی بن کر چھا جاتی ہے۔ وہ جذب و شوق کی ایک لغزش مستانہ ہے ۔ عقل و شعور کا ایک تعین ارتعاش ہے، حسن و جمال کی ایک دل موہ لینے والی لطیف تھرتھراہٹ ہے… ‘‘
(شاعری کیا ہے؟: عبادت بریلوی، ادارہ ادب و تنقید، لاہور، دسمبر 1989 ، ص 9)
جب شاعری کی اتنی خوبیاں ہیں ، تو اس کی محبوبیت اور مقبولیت سے کسے انکار ہوگا۔ شاید اسی لیے کوثر مظہری نے بھی اظہار و بیان کے لیے شاعری کو ہی اپنایا۔ شاعری کی طرف ان کا رجحان کم عمری میں ہی ہوگیا۔ دسویں جماعت میں ہی کوثرمظہری نے آٹھ نو مصرعوں پر مشتمل ایک معریٰ نظم کہی تھی۔ ان کی پہلی تخلیق ایک نعت تھی جو ’البدر‘ کاکوری، لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ مسز اندراگاندھی کے قتل سے متاثر ہوکر بھی انھوں نے 72 مسدس کہے تھے جسے ان کے یہاں کے ایم ایل اے مطیع الرحمن صاحب (مرحوم) نے شائع کرایا تھا۔ پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا اور ان کی طویل طویل پابند موضوعاتی نظمیں، قومی تنظیم، سنگم اور پندار میں شائع ہونے لگیں۔ 1998 میں ان کی نعتوں کا مجموعہ ’عرش و طیبہ‘ منظر پر آیا۔ اس کے علاوہ دو او ر شعری مجموعے ’ماضی کا آئندہ‘(2008) اور’ رات سمندر خواب (2024)‘ بھی شائع ہوچکے ہیں۔
حمد و نعت پر مشتمل 30صفحات کے اس مختصر سے مجموعے میں ’جرأت شوق‘ کے علاوہ دو حمد، دو دعا کے علاوہ حضور کونین سرکار دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہے گئے نعت شامل ہیں۔ اس مجموعے کے منظر عام پر آنے کے پیچھے شاید ان کا مذہبی رکھ رکھاؤ ہے۔ ان کے گفتار و شعار میں بھی مذہبی افکار و اقدار کی پاسداری نظر آتی ہے۔ مذہب اسلام سے عقیدت اور محبت انھیں ورثے میں ملی ہے۔ کوثر صاحب کے والد مولانا محمد مظہرالحق تھے۔ یہ ان کے والد صاحب کا فیض ہی ہے کہ کوثر مظہری مولوی نہ ہوتے ہوئے بھی مذہب اسلام کے بارے میں بہت کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ یہ مجموعہ پڑھ کر شاید ہی کوئی کہے کہ کوثرمظہری صاحب کالج اور یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ نعت ایک ایسا موضوع ہے جس میں احتیاط کی بہت ضرورت ہے۔ حضور کی شان میں بیشتر نعتیہ کلام ایسے ہیں جس میں غلو سے کام لیا گیا ہے، انھیں ان کے درجہ بشریت سے آگے نہ جانے کہاں پہنچا دیا گیا ہے، بہت سے نعت گو شعرا کے یہاں تو شرکیہ کلمات بھی پائے جاتے ہیں۔ مگر میں کوثر مظہر صاحب کو داد دینا چاہتا ہوں کہ انھوں نے ان مبالغہ آرائیوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھا ہے۔ اس بابت کوثرمظہری ’جرأتِ شوق‘ میں لکھتے ہیں:
’’نعت گوئی ایک فن شیشہ گری ہے کہ اگر محتاط نہ رہیے تو انگلیاں زخمی ہوجائیں، فن نعت گوئی میں عقیدت و محبت کی پیش کش تو ہوتی ہے مگر جب امت محمدیہ اپنے احوال و کوائف دیکھتی ہےتو کبھی اسے پوری ملت کی بدحالی اور کبھی اپنا دامن گناہوں سے داغدار دکھائی دیتا ہے۔ کبھی جابر حکومت اور ناموزوں شب و روز کی آزمائشوں کو انہی عقیدت کے پھولوں کے ساتھ پرو دیتا ہے مگر شاعر بہت شوخ ہونے کے باوجود اپنے آقا کی مدح سرائی میں اپنے ہوش و حوا س پر قابو رکھتا ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ:
اگر یک سرِ موئے برتر پرم
فروغِ تجلی بسوزد پرم‘‘
(عرش و طیبہ، ص 1-2)
نبی اکرمؐ بشر ہیں، بشریت کے جو تقاضے ہوتے ہیں وہ حضور سے بھی بسااوقات سرزد ہوئے ہیں، باوجودیکہ ہم انھیں کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ہم اس قدر مبالغہ آرائی کردیتے ہیں کہ وحدانیت پر بھی حرف آنے لگ جاتا ہے۔ بہتر ہے کسی کی اتنی ہی عزت اور احترام کیا جائے جتنا اس کا حق ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے حضور کے اس سبق کی بہت خوب نشان دہی کی ہے ؎
تم اوروں کی مانند دھوکہ نہ کھانا
کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹا
سب انساں ہیں واں جس طرح سرفگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی ایک اس کا بندہ
کوثرمظہری کے پورے مجموعے کو پڑھ جائیے کہیں سے بھی حضور کی شان میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ ہاں اشرف المخلوقات میں حضورؐ کا جو درجہ ہے اس سے نظریں چرانا بھی مناسب نہیں ہے۔ وہ انسانوں میں سب سے اعلیٰ اور معزز ہیں، شاید اسی لیے رب العلمین نے انھیں پوری امت کے لیے ہادی اور رہنما بنا کر بھیجا تھا۔ان کی عقیدت میں کوثر صاحب لکھتے ہیں:
لبوں پر خدا کا کلام اللہ اللہ
ہمارے نبی کا پیام اللہ اللہ
فرشتے بھی حیراں تھے معراج کی شب
وہ انساں کا تھا احترام اللہ اللہ
یہ مہتاب و کوکب یہ مہر منور
کسے بھیجتے ہیں سلام اللہ اللہ
معطر معطر مدینے سے آئی
نسیم سحر کا خرام اللہ اللہ
فرشتے فلک پر محمدؐ کا چرچا
کریں شوق میں صبح وشام اللہ اللہ
پورے مجموعے کو پڑھ جائیے، اسلوب میں روانی، زبان میں چاشنی اور کلام میں پختگی نظر آتی ہے۔ انھوں نے عروضی پابندیوں کا بھی خیال رکھا ہے۔ اس مجموعے سے انھیں ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے ضرور یاد کیا جائے گا۔
ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ’ماضی کا آئندہ‘ ۔ اس مجموعے کی اشاعت 2008 میں مظہر پبلی کیشن کے زیراہتمام عمل میںا ٓئی تھی۔ یہ مجموعہ 152 صفحات پر مشتمل میں جس میں’میرا شعری کردار: کوثرمظہری‘، ’ماضی کا آئندہ کی پہلی قرأت:ڈاکٹر مولابخش‘ کے علاوہ حمد اور کچھ کے علاوہ بقیہ سبھی غزلیں اور نظمیں ہیں۔ نظموں میں موت محوِ خواب، ضرب ِپیہم، زندگی زندگی!، دشتِ تخیل کی نفی، سراب، اندر کا انسان، ولاتمشِ فی الارض مرحا، غیر مرئی طاقت، نشاطِ جنگ، پرستش رب الارباب کی، مری ماں جو ہوتی، حسینۂ عالم، اعلان حق، آبی شہر، آخری سانس تک، حقیقت عشق جیسی نظمیں شامل اشاعت ہیں جنھیں اردو کی جدید نظمیہ شاعری میں کوثر مظہری کا Contribution کہا جاسکتا ہے۔ اگر ہم بطور شاعر کے کوثرمظہری کو جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں، اس حوالے سے یہ مجموعہ زیادہ بہتر ہے۔ اس تعلق سے کوثرمظہری کے دوست پروفیسر مولابخش (مرحوم) ’ماضی کا آئندہ کی پہلی قرأت‘ میں لکھتے ہیں:
..سچائی یہ بھی ہے کہ ’ماضی کا آئندہ‘ کا شاعر شعر فہمی کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ شعر گوئی کا قابلِ ذکر ملکہ، ایسے بہت سے شعرا کے مقابلے کسی طرح بھی کم نہیں رکھتا جنھوں نے فقط شاعری ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ کوثر مظہری کا یہ پہلا مجموعہ ہے جس میں مستقبل کا ایک اہم شاعر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔‘‘
(ماضی کا آئندہ، ص 24)
پروفیسر مولابخش نے اس طویل مضمون میں کوثرمظہری کے شعری اختصاص و انفراد کو مختلف جہتوں سے آشکار کیا ہے۔ جگہ جگہ ان کی غزلوں اور نظموں کے حوالے بھی دیے ہیں تاکہ قارئین کوثرمظہری کے شعری التزامات اور جہات سے بخوبی واقف ہوسکیں۔
کوثر مظہری کی شاعری کے موضوعات میں تنوع ہے۔ سیاسی انتشار، بے اطمینانی، محرومی، نامرادی، بے بسی، بے روزگاری، مایوسی موجودہ دور کے معاشرے کے لیے خاص طور پر نوجوانوں کے مقدر بن چکے ہیں، یہ موضوعات کوثر مظہری کے ناول ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ میں بھی دیکھ جاسکتے ہیں۔ اس تعلق سے کچھ اشعار ملاحظہ کریں ؎
کیا بتاؤں کتنا شرمندہ ہوں میں
محو حیرت ہوں کہ کیوں زندہ ہوں میں
حال میرا ٹوٹ کر بکھرا ہوا
جانے کس ماضی کا آئندہ ہوں
ساعتِ موہوم سا جیسے وجود
وقت کا جیسے کہ کارندہ ہوں میں
اک سکوت شب نے سب کچھ دے دیا
اب خموشی ہی کا سازندہ ہوں میں
ایسا نہیں ہے کہ کوثرمظہری نے اپنی شاعری میں صرف غم و یاس کو ہی برتا ہے۔ ان کی شاعری میں عاشق و معشوق بھی ہیں، رقیب بھی، محرومی بھی ہے، زندگی بھی، خواب بھی ہیں، خوابوں کی تعبیر بھی، جستجو بھی ہے آرزو بھی، خاموشی بھی ہے بلند آہنگی بھی، پت جھڑ ہے تو خزاں بھی ہے، دھوپ ہے تو سایہ بھی، نہ جانے اس طرح کے کتنے موضوعات ہیں جن سے آپ محظوظ ہوسکتے ہیں۔ کچھ منتخب اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
دیکھ کے مجھ کو تبسّم نہ لبوں پر لاؤ
داستاں عشق کی اب عام ہوئی جاتی ہے
یہ رُت عجیب ہے کہ چاندنی بھی روتی ہے
خبر حبیب کو میرے، مرے رقیب تو کر
اک سنہرا خواب میری نیند کو درکار ہے
خواب کو بھی نیند ہی کی پاسبانی چاہیے
خواب میں اک چہرۂ زیبا نظر آیا تھا بس
بات اب آئی سمجھ میں، کس لیے پاگل ہوا
مرا سلام مرے دشمنوں کو پہنچادو
کہ جھوٹی شان میں جینا بھی کوئی شان ہے کیا
وہ ہلالِ عید اک لمحہ کو آیا تھا نظر
دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے پھر اوجھل ہوا
موسمِ گل تھا خزاں میرے لیے
آپ کے آنے سے مہکا گھر تمام
نشیلی آنکھ کا جب بھی خیال آتا ہے مجھ کو
تو پیاسے دل میں بادہ خوار جذبہ دیکھتا ہوں
اُسے تو ابر کا سایہ نصیب تھا ہردم
ہمیں تو دھوپ کو تن کا غلاف کرنا تھا
وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
وہ دھوپ تھا مرے رستے میں اور سایا بھی
کوثر مظہری کی شاعری میں لفظیات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً پانی، صحرا، موج، دریا، سمندر، آب، چشمہ، آنسو، برسات، طغیانی، آب فرات، چشم گریاں، کوتاہی تشنہ لبی، پیاس، ندی، وفورِ اشک، تیراک، غرقاب اور برف جیسے الفاظ ان کی شاعری میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لفظ ’پانی‘ اور ’پیاس‘ کو کہیں نہ کہیں انھوں نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل سے جوڑ کر دیکھا ہے۔ گویا انھوں نے پیاس کو یہاں اساطیری علامت اور تلمیحی بنا کر پیش کیا ہے۔ ’پانی‘ کی انسانی زندگی کے لیے کیا اہمیت ہے، یہ حضرت ہاجرہ کی تڑپ سے ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جب حضرت اسماعیلؑ کو پیاس لگتی ہے، صفا اور مروہ جیسی بے آب و گیاہ اور چٹیل میدان ہے، ایسے میں پانی کی تلاش ایک مشکل کام ہے، مگر حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں لاچار اور پریشان اِدھر سے اُدھر چکر لگاتی ہیں۔ حضرت اسمٰعیل کی برکت اور خالق کائنات کی برکت سے وہاں چشمہ جاری ہوجاتا ہے۔ حضرت ہاجرہ پانی کو روکنے کی لیے میڑھ باندھنے لگتی ہے، مگر اس کوشش میں ناکام رہتی ہیں۔ دنیا اسے آب زمزم کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ آج اس پانی (زم زم) سے پوری عالم انسانیت شرابور ہورہی ہے۔ گویا پانی انسانی تہذیب کا اساطیری تناظر ہے جس میں ایک ماں (ہاجرہؓ) اور بچے کا کردار (اسمٰعیلؑ) ابھرتا ہے۔ اس واقعے کو انسانیت نواز تہذیب سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ ’پانی‘ اور ’پیاس‘ آج بھی انسانی کرب اور جستجو کا استعارہ ہے۔ پانی کے تعلق سے کچھ اشعار ملاحظہ کریں اور یہ محسوس کریں کہ لفظ ’پانی‘ کن کن وادیوں اور صحراؤں کی سیر کراتا ہے ؎
پیاس کی آگ نے صحرا کو جلایا برسوں
تب تو صحرا ہوا ہے جوئے رواں کا طالب
اخلاص تھا چاہت میں اور پیاس میں شدت تھی
اللہ نے چاہا تو صحرا میں اٹھا پانی
میں نے سوچا کہ ستائے گی بہت پیاس مجھے
پی گیا جھونک میں بس آکے سمندر سارا
یہ میرا واہمہ ہے یا قیامت کی بشارت ہے
نظر آتا ہے مجھ کو تختِ عالم گیر پانی میں
دشت و صحرا کی کہاں اب زندگانی چاہیے
اور اگر ایسا ہے تو ہونٹوں کو پانی چاہے
’پانی‘ کا استعمال کبھی کبھار ’آنسو‘ کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ آنسو بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، کبھی خوشی کے اور کبھی غم کے، اب دیکھیے کوثر صاحب نے یہاں پانی کو کن معنوں میں استعمال کیا ہے؎
موجوں نے کہا ’پانی‘ ہم نے بھی سنا ’پانی‘
طوفان اٹھا دل میں آنکھوں سے بہا پانی
’ماضی کا آئندہ‘ کے تعلق سے کئی مشاہیر جیسے کمال احمد صدیقی، پروفیسر شہپر رسول، فرحت احساس، پروفیسر مولابخش وغیرہ نے اپنی قیمتی آرا بھی پیش کی ہیں۔ کمال احمد صدیقی لکھتے ہیں:
’’میں نے اس مجموعے ’ماضی کا آئندہ‘ کا ایک ایک شعر توجہ سے پڑھا ہے۔ کوثرمظہری کو ان کی کاوش کی داد دیتا ہوں اور ایک Chronic anti pessimist ہوتے ہوئے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ مایوسی کے حصار سے باہر آئیں گے— بھاگ کر نہیں، توڑ کر او رپھر جو نظمیں لکھیں گے وہ بھی اتنی ہی پرخلوص اور انسانی اقدارکی حمایت میں ہوں گی۔‘‘ (بیک ٹائٹل، ماضی کا آئندہ، 2008)
شاعری کے حوالے سے پروفیسر شہپر رسول کی رائے سے روشناس ہونا بہت ضروری ہے۔ شہپر رسول کوثر صاحب کے دوست ہیں۔ کوثر صاحب کی شاعری کے تعلق سے شہپر صاحب لکھتے ہیں:
’’…کوثرنے نظمیں بھی کہی ہیں اور غزلیں بھی۔ میرے خیال میں ان کی شاعری کا بہترین حوالہ ان کی غزلیں ہے۔ بعض اشعار ان کے یہاں ایک طرح کے سیل تجسس اور کچھ نیا کرنے کی شدید خواہش کا سراغ دیتے ہیں۔ ’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں‘ والے جذبے کے لشکارے کتنے ہی مقامات پر قاری سے اپنا اعتراف کراتے ہیں….. کوثر کے بیرونی و باطنی وجود کو شاعری نے جس طرح روشن کیا ہے اور وہ جس نوع کے شعور شعر کا ثبوت فراہم کرتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں اور آگے شاعر نہ ہوتے تو نقاد بھی نہ ہوتے۔‘‘(فلیپ، ماضی کا آئندہ، 2008)
تیسرا شعری مجموعہ’رات سمندر خواب‘ ہے۔ عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی کے زیراہتمام حال ہی میں اس کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔ 184 صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں ’انفرادی سچ کا حسی بیانیہ:پروفیسر شافع قدوائی‘،’شعری اظہار کی نثری توجیہ: کوثرمظہری‘ کے ساتھ ایک حمد، ایک نعت کے علاوہ بقیہ غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ ’کشمیر البم‘ کے تحت بھی کچھ نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ ’ماضی کا آئندہ‘ سے بھی کچھ غزلوں اور نظموں کو اس مجموعے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ کچھ پرانی بیاض سے بھی نظمیں اور غزلیں شامل ہیں، جو کہیں کھو سی گئی تھیں۔ اب انھیں مختلف حصوں میں شامل کیا جارہا ہے۔ حصہ اوّل (1991 سے 1994) کا کلام ہے، حصہ دوم میں (1987 سے 1990) کا کلام، جب کہ حصہ سوم (1982 تا 1986) کا کلام شامل ہے۔ مجموعے میں شامل کچھ نظمیں اس طرح ہیں : تماشاگاہِ عالم، آشفتہ مزاجی،رازِسربستہ، …تو اِک دیا جلادیا،مصافحہ معانقہ بھُلا دیا، غیرمرئی طاقت،سنو بیوقوفو!،ہمیں گھر اپنے جانے دو، جان عالم، فقیر بے دل، رات ہی رات(کولاژ)، شاید وہ گھڑی پاس ہو، کاش کہ ایسا ہوجائے، گُل مرگ کی کرنیں، ایک سوال،ایک اور سوال،یہ زمیں کس کی ہے؟،چار نظمیں،زلزلہ، بس اسی خواب پریشاں کا ہے چکّر سارا،امارت کا کوئی نشّہ نہیں تھا،کون سی دنیا میں ہوں، کس کی نگہبانی میں ہوں، کیا بتاؤں کتنا شرمندہ ہوں میں، لکیروں کو مٹانا چاہتا ہوں،پھر وہی شام و سحر منظر تمام، وہ ایک آگ، دشتِ تخیل کی نفی،پرستش ربّ الارباب کی، مری ماں جو ہوتی،زندگی نامہ، سرِّ حیات، خلش، گرداب وغیرہ۔ پرانی بیاض سے نظموں اور غزلوں کو شامل کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ کوثرمظہری کے آج کے کلام اور آج سے تقریباً چالیس سال قبل کے کلام میں کیا فرق ہے۔
موضوعات اور اسلوب و لفظیات کے لحاظ سے یہ مجموعہ بھی ’ماضی کا آئندہ‘ کے مماثل ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ’ماضی کا آئندہ‘ کے آگے کی ایک کڑی ہے۔ دونوں مجموعوں کے درمیانی فاصلے کو پاٹنے اور دونوں کی کڑی کو جوڑنے کی یہ ایک کامیاب کوشش ہے۔ اس مجموعے کے تعلق سے کوثرمظہری لکھتے ہیں:
’’یہ دوسرا مجموعہ اس لیے بھی ہے کہ پہلے مجموعے ’ماضی کا آئندہ‘ اور اس کے درمیان میں جو پرچھائیاں تھیں وہ کسی طرح پکڑ میں آسکیں۔ وہ سارے ایام اور لمحے خواب پریشاں کی طرح رقص کررہے ہیں اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ میرے وجود کو انہی لمحوں سے سہارا ملا ہے ؎
دولتِ خوابِ پریشاں بھی نشاط انگیز ہے‘‘
(رات، سمندر، خواب، ص 18-19)
کوثرمظہری کو لفظ ’پانی‘ کتنا محبوب ہے، اس کا اندازہ اس مجموعے کے اشعار سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اس مجموعے میں 8 اشعار پر مشتمل ایک پوری غزل ہی پانی پر ہے۔ اس غزل کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں اور یہ بھی غور کریں کہ یہاں ’پانی‘ کا استعمال کوثرمظہری نے کن کن معنوں میں لیا ہے ؎
کس کی یہ تصویر بے صوت و صدا پانی میں ہے
ذات بے ہمتا وہی، یعنی خدا پانی میں ہے
قطرے قطرے میں ہے پانی کے بھی جذبِ بے کلی
موجۂ بیتاب سے طوفاں اٹھا پانی میں ہے
برسر پیکار دنیا کو یہ سمجھاتا رہا
زندگی کچھ بھی نہیں، اک بلبلہ پانی میں ہے
میں ابھی خاموش تنہا ساحلِ دریا پہ تھا
دیکھتا ہوں چاند سا چہرہ بنا پانی میں ہے
اس غزل کے علاوہ بھی کئی غزلوں میں انھوں نے ’پانی‘ کا استعمال کیا ہے، اس تعلق سے کچھ اور اشعار ملاحظہ کرلیجیے ؎
جب وضو کے لیے ملتا نہیں پانی وانی
اُس گھڑی ہوتی ہے مومن کو فقط حاجتِ خاک
نیل کے پانیو! رستے میں نہ حائل ہونا
کیا پتہ ضربِ کلیمی سے ٹھکانے لگ جاؤ
اپنے ہونٹوں سے شب وصل جو پانی لکھنا
پیاس بڑھ جائے تو دریا کی روانی لکھنا
دریا کی عبوری تو مرے حق میں بھی آئی
پانی سے گزرنے کا سلیقہ نہیں آیا
پایابیٔ دریا پہ جو نازاں ہیں، انھیں بھی
پانی میں اترنے کا سلیقہ نہیں آیا
اس مجموعے میں کوثر مظہری نے سپر، تلوار، مٹی، خاک، خواب، صدا، سمندر اور مہتاب کا بھی خوب استعمال کیا ہے۔ ’مٹی‘ پر 12 اشعار پر بھی مشتمل پوری ایک غزل شامل کتاب ہے۔ ایسے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں، تاکہ قارئین کو ان الفاظ کے محل استعمال کا اندازہ ہوسکے ؎
اسی مٹی کو سپر میں نے بنا رکھا ہے
اور سن لو! مری تلوار میری مٹی ہے
میں ہوں میخوار کہ میخوار مری مٹی ہے
آج رسوا سرِ بازار مری مٹی ہے
چاق چوبند بہت رہنا ہے کوثر اب کے
ورنہ اٹھنے کی نہیں ہم سے تو اب تہمتِ خاک
اک صدا بھولی ہوئی کانوں سے ٹکرائی تھی کل
پہلے تو آنسو گرے، آواز پھر بھاری ہوئی
تجھی کو سنتے ہی گزری ہیں مدتیں کیا کیا
تری صدا جو نہ آئے توفاصلہ ہوجائے
دشت و صحرا میں سمندر کا سکوں در آیا
جب سے عنقا ہوئے سب خاک اڑانے والے
کئی دریا، کئی آفاق مرے اندر ہیں
کاش دنیا سے، سمندر سے، میں غافل ہوتا
اس کی پلکوں پہ جو چمکا تھا ستارہ کوئی
دیکھتے دیکھتے مہتاب ہوا جاتا ہے
بہت سے داغ ہیں سینے میں اب بھی
مگر، دیکھو تو اک مہتاب ہیں ہم
کوثرمظہری کی شاعری میں کلاسیکی اندازبھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے کئی ایسے اشعار ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے ہم کلاسیکی دور میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے یہاں فکر و فن کے توازن کے ساتھ ہنداسلامی تہذیب اور جمالیاتی قدروںکا اظہار جگہ جگہ نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتاہے۔بطور مثال چند اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
نیل کے پانیو! رستے میں نہ حائل ہونا
کیا پتہ ضربِ کلیمی سے ٹھکانے لگ جاؤ
نمازِ عشق مبارک مگر سنو زاہد!
جگر کے خون سے پہلے وضو تو کرلیتے
سجدہ گن گن کے ہی کرتے جو رہے کوثر بھی
بے گِنے کرتے تو سجدہ نہ یوں باطل ہوتا
اندھیرا کینچلی مارے ہوئے بیٹھا تھا باطن میں
زباں پر کس کا نام آیا کہ پھر سے روشنی نکلی
ہجومِ غم تھا یا پھر یاس کی پرچھا’حاں تھیں بس
ترا آنا تھا اور دنیائے غم روتی ہوئی نکلی
ان اشعار سے کوثر مظہری کے شعری اختصاص کا نہ صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ انھوں نے کلاسیکی اقدار کو نئی لفظیات کے پیراہن میں بہت عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ’رات سمندر خواب‘ میں نئے موضوعات نہیں ہیں۔ ہر عہد کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جب تقاضے بدلتے ہیں تو موضوعات میں بھی تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے۔ موجودہ دور سائنس کی نئی ترقیات اور ٹیکنالوجی کا ہے، جہاں مصنوعی ذہانت اور اے آئی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں ہمارے سامنے مختلف قسم کے چیلنجز ہیں، لوگ بے تحاشا اپنی منزل کی جانب بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ کچھ کو اپنی منزل مل جاتی ہے تو کچھ تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ نئی ترقیات سے صرف انسانی معاشرے کو فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہے، اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ’کورونا‘ جیسی وبا کو بھی ہم ٹکنالوجی کے بے اتھاہ استعمال کی دین کہہ سکتے ہیں۔اس مہلک بیماری ’کورونا‘ سے پورا طبی عملہ فیل ہوگیا تھا، کوئی ٹکنالوجی، کوئی مشین معاون ثابت نہیں ہورہی تھی۔ ایسے میں کوثرمظہری نے ’سنو بیوقوفو!‘ نظم لکھی تھی۔ نظم کے کچھ حصے پیش ہیں:
سنو بیوقوفو!
یہ دنیا تمھیں تو کرائے پہ دی تھی
مگر تم تو قابض ہوئے ایسے جیسے
یہ دنیا تمھاری بنائی ہوئی ہے
جہاں چاہا دیوار و دَر میں
ہزاروں طرح کی نُکیلی سی کیلیں بھی ٹھونکیں
سمجھتے ہو تم جیسے قبضہ تمھارا ہی دنیا پہ ہر دم رہے گا
پہاڑوں کو اور آبشاروں کو رَوندا
کہیں عیش گاہیں کہیں پر گناہوں کے اڈّے
تو کیا تم سمجھتے ہو میری ہی نظروں سے چھُپ کر
مِرے گھر میں، دنیا میں میری
چلاؤ گے یہ پُرفتن کارخانے؟
سیاست کرو گے تو سن لو! مرو گے
جب انسانیت مر رہی تھی
یہاں چارسوٗ قتل و غارت گَری تھی
تو میں نے بھی اک چھوٹی شے بھیج ڈالی
جسے تم ’کُرونا‘سے موسوم کرتے ہو،
سن لو!
اگر میرے گھر، میری دنیامیں رہنا ہے،
اٹھا دو یہ بازارِ نفرت، محبت بڑھاؤ!
زمیں بھی ہے میری، سمندر بھی میرے
یہ تنگ آچکے ہیں
پرند وچرند اب تو شرما رہے ہیں
تمھیں عقل ناقص ملی ہے
وہی عقلِ ناقص جسے تم سیاست سے موسوم کرتے رہے ہو
سنو، اور پھر سے سنو تم!
اگر تم نے توبہ نہیں کی،
بنائی سجائی ہوئی میری دنیاکو بھدّا بنایا
تو پھر کوئی شے اس ’کُرونا‘ سے بھی مائکرو
مائکرو شے، وہی وائرس پھر اتاروں گا سن لو!
تمھارے یہ سب لیب والے
جنھیں اپنی نالج پہ، تحقیق پر یعنی غرّہ بہت ہے
شب و روز محنت کریں گے،
وہیں مائکرو غیر مرئی سی شے زیر لب مسکراتی رہے گی
تمھاری سیاست زمیں دوز ہوگی
سنو بیوقوفو!
’کورونا‘ جیسی مہلک بیماری کے درمیان ڈر اور خوف کے سائے میں انسانیت (خاص طور پر مزدور، مجبور، کمزور) جس طرح شرمسار ہوئی تھی، وہ برسوں تک دنیا یاد رکھے گی۔ کوثرمظہری نے ان کے غم کو اپنا غم سمجھا اور ان کے غم میں برابر شریک نظر آئے۔ نظم ’ہمیں گھر اپنے جانے دو‘ اسی موقعےسے لکھی گئی تھی، دیکھیے کوثرمظہری نے اس دور کی کیسی سچی منظر کشی کی ہے:
ہمارا نام کوثرمظہری ہے
ہمیں مزدور کہتے ہیں، ہمیں گھر اپنے جانے دو
یہاں شہروں میں ہم بھوکے مریں گے
ہمیں روکو نہیں ٹوکو نہیں، جانے دو اپنے گھر
ہمارا نام کوثرمظہری ہے، ہمیں مزدور کہتے ہیں
یہ کچھ سامان سر پر بوریوںمیں، دوش پر بچّے
ہمارے ساتھ چلتی اور گھِسٹتی گھر کی عزت، یعنی بیوی
نہیں طاقت ہے چلنے کی مگر سڑکوں پہ آئے ہیں
کہیں کوئی سواری مل گئی تو ٹھیک ہے ورنہ
یونہی پیدل چلے جائیں گے اپنے گھر،
وہیں گاؤں میں گیہوں، دھان، سبزی
سب اگائیں گے، مزے لے لے کے کھائیں گے
یہاں شہروں میں مالک نے کہا ہے، ’’اب تمھاراکام ہی کیا
یہاں تو کاروبارِ زندگی بالکل معطّل ہے
تم اپنا راستہ دیکھو‘‘
سو ہم نے راستہ دیکھا ہے،
اور سڑکوں پہ آنکلے
یہاں کا رنگ دیکھا ہے،
زمیں سے آسماں تک بس خلا ہے
نہ گیہوں ہے، نہ گیہوں سے بنی روٹی
کہ دیکھیں آسمانوں کی طرف ہم بھی
من و سلویٰ اتر آئے
ہمارے پیٹ کے اندر ہیں آنتیں
اکڑتی جارہی ہیں، سوکھ جائیں گی
اگر ہم گھر نہیں پہنچے،
ہمارا نام کوثرمظہری ہے
ہمیں مزدور کہتے ہیں، ہمیں گھر اپنے جانے دو!
یہ نظم مزدوروں اور لاچار و مجبور انسانوں کے ان مصائب و آلام کی کہانی بیان کرتی ہے جو اپنے گاؤں کو چھوڑ کر دوسری جگہوں پر ملازمت کے لیے جاتے ہیں، جہاں نہ جانے کن کن آزمائشوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ کورونا کے دور میں جب سب کچھ بند ہوگیا تھا، زندگی ایک عذاب سی لگنے لگی تھی، دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہ تھی ایسے میں انھیں اپنے وطن کی یاد ستاتی ہے، وہ کسی بھی طرح اپنے گھر جانے کو بے قرار ہیں اس امید میں کہ کم سے کم وہاں دو وقت کی روٹی تو نصیب ہوہی جائےگی۔ وہ اپنے گھر جانے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ مزدوروں کے ان کیفیات کو مشہور فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے سیاسی، سماجی، اخلاقی پہلوؤں کے علاوہ مزید کئی اور زاویوں سے بھی سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس نظم کے تعلق سے پروفیسر خالد جاوید لکھتے ہیں:
’’یہ نظم ہمارے ضمیر کے صدر دروازے پر ایک بھیانک دستک ہے۔ اگر اسے پڑھنے والا اس سے متاثر نہیں ہوتا تو وہ ’انسان‘ ہی نہیں رہتا… ہندوستانی فلسفے میں اپنے ہونے یا ’آتم‘ کا تصور دوسروں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ نہ صرف دوسرے بلکہ تمام تہذیبی اور معاشرتی تشکیلات سے اس کا ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ ’آتم‘ سے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں اپنے کو دوسرے کے مخالف رکھ کر بیان دینا پہلے سے ہی غلط مانا جاتا ہے۔ اس لیے اپنے کو کسی بھی ایسے نام سے پکارنا جو دوسرے ناموں کے برعکس ہو ’آتم‘ کے روایتی تجربے کو نظرانداز کردینے جیسا ہے۔ کوثر مظہری کی نظم میں سارے مزدور جو لُٹے لُٹے، پریشان حال، پیدل میلوں کا سفر طے کرتے ہوئے اپنے گھر جارہے ہیں، ان سب کا نام کوثر مظہری ہے۔ کوثر مظہری اپنا نام سارے پریشان حال، غریب مزدوروں کو دیتے ہیں۔ یہ فرد اور ایک جماعت کے درمیان empathy یا ہمدردی کے رشتے کو تو بادی النظر میں بیان کرتی ہی ہے مگر یہ ’میں‘، ’تو‘ اور ’ہم‘ کی جھوٹی شناخت یا ان ضمائر کی شناخت کو ختم کرکے صرف ایک ہی سچے رشتے کے درمیان مکالمے کی صورت کو بھی ہموار کرتی ہے۔ یعنی انسان اور خدا کے درمیان کا رشتہ۔‘‘
(کوثرمظہری : اسرار و آثار، مرتب: مشتاق صدف، سنہ اشاعت2024، ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، ص 51)
کوثر مظہری کے ذہن کی کشادگی اور فکر کی بالیدگی خواہ وہ غزلیں ہوں یا پھرنظمیں، قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہیں، بالخصوص نظموں میں ان کے فن کا جادوبہت بلند نظر آتا ہے۔
ll
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page