خوب صورتی اور ذہانت دونوں کا ایک جگہ ہونا اتفاق ہی ہوتا ہے اور ایسا اتفاق بھی سب کے ساتھ نہیں ہوتا اور اگر ان دونوں خصوصیات کے ساتھ خلوص کا مادّہ بھی شامل ہوجائے اور اس کی شکل دیکھنی مقصود ہو تو تصو ّر کے پردے پر جو عکس ابھرتا ہے ، وہ ایک ایسی شخصیت کا ہے ، جو بہت دور سے ہی اپنے قد، کانٹھی اور شائستگی سے پہچانی جاتی ہے اور وہ شخصیت نسیم عزیزی کی ہے۔انہوں نے خوب صورتی کو معلوم نہیں کیسے جکڑ لیا ہے ، ہاتھ سے جانے ہی نہیں دیتے۔دراز قد اور لمبے بال ، اس پر کالے فریم کا چشمہ اور چشمے سے جھانکتی دانش ور کی نگاہیں۔آنکھوں میں تجربات کی رمق،سلیقے سے اٹھتے قدم ،چہرے سے میل کھاتی ہوئی ناک جس پر چشمہ آکر ٹھہرتا ہے،کلین شیو اور ہمہ وقت مسکراتا دہن ۔ شرٹ اور جینس میں نہایت پُرکشش دِکھتے ہیں ۔کم گو اور نرم گو ہیں۔ بے پناہ صلاحیتیں ہونے کے باوجود خاموش رہتے ہیں۔ دل آزاری سیکھا ہی نہیں۔اللہ نے انہیں جو شعری بصیرت دی ہے کہ اچھے اچھے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔تخیل کی پرواز ،الفاظ کی حرمت کا پاس اور مثبت رویہ ، انہیں دوسروں سے ممیز کرتا ہے۔
خاکسار کو نسیم عزیزی صاحب سے ملاقات کے چند مواقعے ہی میسر آئے اور جب جب میں اُن سے ملا ، اُنہیں ویسا ہی پایا۔ کبھی کبھی مجھے وہ شوکیس میں سجی اُس مورت کے جیسی دکھائی دیتے ہیں ، جو کپڑے کے شو روم میں دروازے پر رکھی ہوتی ہے اور نفیس لباس زیب تن کئے کھڑی رہتی ہے۔ دیکھنے والے کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ اس مورت کے لباس پہن کر اُس جیسا دِکھے مگر یہ ممکن نہیں ۔ لباس مل بھی جائے تو اُس مورت جیسی دل کشی کہاں سے لائی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ نسیم عزیزی کے جیسا لباس پہن کر بھی اُن جیسا دِکھنا بہت دور کی بات ہے۔
نسیم عزیزی میں صبر کا مادّہ بہت زیادہ ہے اور ضبط کرنے کی قوت بے پناہ۔وقت کا ستم ہو یا زندگی کا کوئی فیصلہ ، ہر حال میں معتدل رہنا کوئی ان سے سیکھے۔ ایک ہم سفر ، جس نے زندگی کے ہر گام پر ساتھ رہنے کا عہد کیا تھا ، وہ بیچ سفر میں تنہا چھوڑ جائے تو اس کا مداوا کیا ہوسکتا ہے ؟ ایسی صورت حال میں زمین کھسکتی معلوم ہوتی ہے۔خوابوں کا ایک کارواں ہجوم کی شکل میں دکھائی دینے لگتا ہے ،جس کی تعبیر باقی ہو اور ہاں !صرف یہی نہیں ہوتا بلکہ اُس جانے والے کے ساتھ وہ بھی آدھا چلا جاتا ہے اور اب آدھے حصے سے پورا سفر کرنا انتہائی کرب ناک ہوتا ہے۔بچوں کی کامیابی نے وقت کے اُس گہرے زخم پر مرہم کا کام کیا ۔ زندگی کے شب و روز کو نظم کرنے میں ادب سے وابستگی نے راہیں ہموار کردی ۔ایک منظم اور توانا شخصیت بن کر ادب میں ایک مستحکم شناخت بنانے والے نسیم عزیزی نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا جب کہ وقت کی تیز آندھی ماضی کے پردے کو ہٹاتی رہی ۔ اکثر محفل شاعری کی نظامت کرتے ہوئے آپ کو دِکھ جائیں گے ۔ وہی پُرسکون شخصیت ، وہی دوسرے کو مقروض بنا لینے والی مسکراہٹ اور پیشانی پر بلا کا تیر کہ جس کی زد میں آنے سے مشکلیں ڈرتی ہیں ۔ بزرگوں سے مخاطب ہو ں تو میر کے آنگن کا سماں باندھ دیںاور ہم عصروں کو اپنے خلوص سے مملو کردیں ،چھوٹوں سے مخاطب ہو ں تو اپنی محبت کا گرویدہ بنالیں۔اردو شاعری پر ملکہ تو ہے ہی ، ہندی،بنگلہ اور انگریزی پر بھی مہارت رکھتے ہیں ، جس کا بیّن ثبوت اُن کے ترجمے ہیں، جو وہ متواتر کرتے رہتے ہیں ۔ اُن کے ترجمے پر ترجمے کا شائبہ تک نہیں ہوتا بلکہ اصل متن معلوم ہوتا ہے ۔
اردو زبان کا یہ سپاہی دوسری زبانوں سے منتخب ادب پارے کو اردو زبان کے دامن میں بھرتا ہے ، جو زبان و ادب کی بہت بڑی خدمت ہے اور جس کی اہمیت آنے والا وقت بتائے گا۔موصوف جوڑنے پر یقین رکھتے ہیں ، اس لئے اُن کی باتیں اور اُن کا نظریہ ، دونوں مثبت ہوتے ہیں۔ان کا ہاتھ اُٹھانے والوں کی صف میں ہے ، گرانے والے تو خود گرتے پڑتے رہتے ہیں ۔ اس کو حسن اتفاق ہی کہئے کہ اگر آپ موصوف کی نگارش دیکھ لیں تو عش عش کراٹھیں گے ۔ ایک بار میرے ایک کرم فرما دوست نے مجھے اُن کی تحریر دکھائی میں تو متحیر رہ گیا ۔ کبھی اُن کی تحریر دیکھتا ، کبھی اُن کی رباعی ،پھر رباعی دیکھتا اور پھر اُن کی تحریر۔ اس رباعی کی دلکشی تو الگ ، اس کی تحریر بڑی جان لیوا تھی ۔ بے ساختہ منہ سے،نکل پڑا : ’ یوں بھی کوئی لکھتا ہے!‘ قرطاس جس کا متمنی ہوکہ اس پر کب لکھا جائے ۔ یقین جانئے کہ جب تک ایسے لکھنے والے ہوں گے ، کوئی کیوں اپنی زبان کے مٹنے کا رونا روئے۔
کہی ہوئی باتوں کو دہرانے سے اُنہیں احتراز ہے ۔شاعری میں نئی بات نہیں ہوتی مگر طرزِ اظہار اُنہیں نیا پن دیتا ہے ۔ ملک کے معیاری رسائل میں اُن کی تخلیقات شائع ہوتی رہتی ہے۔ زیادہ شغف ترجمے سے رکھتے ہیں ، شاعری ان کی طبیعت کی محتاج ہے ۔ زود گوئی سے اجتناب برتتے ہیں۔ جاذبِ نظر خدوخال والے نسیم عزیزی کی آواز اتنی ہی خوب صورت ہے، جتنی ان کی غزلیں ہوا کرتی ہیں ۔ غزلوں کو گنگناتے وقت یا بے تکلف دوستوں کے درمیان کلاسیکی گیتوں کو پیش کرتے وقت بالکل پروفیشنل سنگر کا احساس کرا دیتے ہیں ۔ ریلوے کے بدلتے ٹریک کی طرح اپنی زندگی کی ریل کا ٹریک کبھی نہیں بدلا اور اس لئے ان کی گاڑی derail بھی نہیں ہوئی ۔ ممکن ہے اس ریلوے کی فضا نے اُنہیں دوسری زبانوں پر گرفت رکھنے کا موقع دیا ہو۔ انگریزی اخباروں کے کالم کو انتہائی باریک بینی سے پڑھتے ہیں اور اُن کے تجزیوں میں اردو ، ہندی ،بنگلہ اور انگلش ،چاروں زبانوں کے ادب سے نچوڑا ہوا عرق ملتا ہے ، جو بہت مشکل ہے۔ زبان و ادب کی خدمت کرنے والے اصل میں ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو بلا تفریق دوسری زبانوں کے ادب کو نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ حسب ضرورت ان سے اشتہاد بھی پیش کرتے ہیں اور اپنی رائے بہ زورِ گفتگو نہیں، بہ زورِ تقاضائے ادب اور تقاضائے زمانہ پیش کرتے ہیں۔صبح کو بازار کے لئے جب گھر سے نکلتے ہیں تو دیکھنے والا یہی سوچتا ہے کہ یہ سوتے بھی ہیں یا نہیں؟ ہمہ وقت جاگتی آنکھیں ایسا ہی سنکیت دیتی ہیں۔حال ہی میں اُن کی ایک رباعی اپنے عزیز دوست کی کتاب کی اشاعت کے حوالے سے دیکھی۔دم بہ خود رہ گیا اور اپنا لکھا سارا کچھ بے معنی اور فضول لگنے لگا۔ ملک کے مؤقر اخبارات اور رسائل میں ان کی تخلیقات کی اشاعت اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ نسیم عزیزی مغربی بنگال کے اردو ادب کے منظر نامے پر ایک گہرے نقش کا نام ہے ۔
ایسے بہت سے واقعات ہیں ، جہاں نسیم عزیزی کی نرم گفتاری نے بگڑے معاملات طے کرائے ہیں۔کمال خوبی یہ ہے کہ اگر یہ بنگلہ زبان میں گفتگو کریں ، تو انہیں دیکھ کر کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ یہ اردو زبان کے شاعر ہیں۔ زبان دانی اور معتدد زبانوں کے الفاظ پر اس قدر ملکہ رکھتے ہیں ، جیسے ریل کا انجن تمام بوگیوں پر رکھتا ہے۔ کیا مجال جو ایک حرف اِدھر سے نکل کر اُدھر ٹہلنے چلا جائے۔ اس اظہار میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ایسی شخصیات اس Artificial Intelligence کے دور میں عنقا ہیں ۔ ہر وہ شخص جس کو ان کی معیت حاصل رہی ہے ، اس بات کی گواہی دے گا کہ وہ نہایت شگفتہ طبیعت انسان ہیں۔ مجھے جب بھی اُن سے ملنے کا موقع ملا ہے ، میں نے اُن کو ہمیشہ مسکراتا پایا ہے۔ کبھی بھی اونچی آواز میں بات کرتے یا کسی پر غصہ ہوتے نہیں دیکھا ۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک انسان کی اعلیٰ خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی ہے۔ یہ ایک سچ ہے کہ کامیابی اپنے ساتھ تکبر کے عناصر لے کر آتی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ وراثتی عناصر اس کو زیر کرنے کا بھر پور مادّہ رکھتے ہیں۔
نسیم عزیزی مغربی بنگال کی ادبی سرزمین کا ایسا نام ہے جس کے بغیر آپ محفل شعر و شاعری کا تصوّر ہی نہیں کرسکتے۔ اُنہیں ایسے باکمال لوگوں کی صحبت حاصل رہی ہے ، جنھوں نے اُن کی شخصیت و شاعری کو دو آتشہ بنا دیا ۔ زمانے کو تسخیر کرنے والا بے شک بہادر ہوتا ہے ۔گرچہ وہ تیغ و تبر سے کام لیتا ہے مگر دلوں کو تسخیر کرنے والا بادشاہ ہوتا ہے ، جسے اپنی حکومت لوگوں پر تھوپنی نہیں پڑتی بلکہ لوگ اُس کے حسن اخلاق سے تسخیر ہونا باعثِ فخر و انبساط سمجھتے ہیں۔ انسان ، زندگی میں ترقی کے جتنے زینے چڑھ جائے ، کسی دوسرے کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا مگر جب کسی کی کامیابی کا گن گان ، کوئی دوسرا کرے تو اُس کی عظمت کا اعتراف کرنا انصاف پسندی ہی نہیں ، حق پرستی بھی ہے۔ کئی جہتوں سے ادب کی خدمت کرنے والے نسیم عزیزی، ادب خصوصاً بنگال کے اردو ادب میں ہوڑہ بریج کے وہ ستون ہیں جس پر بریج پسرا ہوا ہے۔ ہوڑہ کے اِس باسی کی ادبی خدمات کئی زبانوں کا ایک سنگم ہے جس کا حسن ، وقت کے ساتھ مزید جواں ہوتا جائے گا۔بلا شبہ ولیم شیکسپیئر نے جو بات اپنے دوست کے حسن کے تعلق سے اپنی نظم Shall I compare thee to a summer’s day میں کہی ہے ، وہی بات نسیم عزیزی کے ادبی حسن کے تعلق سے مناسب معلوم ہوتی ہے۔
But they eternal summer shall not fade,
Nor lose possession of that fair thou ow’st
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page