ادبی دنیا میں خواجہ الطاف حسین حالؔی ( وفات : دسمبر 1914 ء ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ۔ نظم و نثر ٬ تحقیق و تنقید اور سوانح نگاری کے میدان میں ان کے کارنامے بیحد اہم ہیں ۔ سر سید احمد خان ( بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ) مرزا غالب ٬ نواب مصطفیٰ خان شیفتہؔ اور شبلی نعمانی کے احباب اور فیض یافتگان میں سے تھے ۔ وہ غالؔب کو اپنا استاد مانتے تھے ۔ اردو شاعری پر ان کی کڑی تنقید نے شعرا کو اپنی سمتِ قبلہ بدلنے پر مجبور کیا ۔ ” مقدمۂ شعر و شاعری ” ان کی تنقیدی مہارت و بصیرت کی آئینہ دار ہے ۔ حالؔی نے اپنی مشہور مثنوی ” مد و زجرِ اسلام ” سر سید کی تحریک پر لکھی تھی ٬ جس نے علمی و ادبی حلقوں میں کافی شہرت حاصل کی ۔ سر سید کہتے تھے کہ ” اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کہ کیا لائے ہو تو حالؔی کی یہ مثنوی پیش کر دوں گا ” ۔ حالؔی تنقید اور سوانح کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں ۔ حالؔی کی ادبی عظمت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ ان کا شمار ” اردو ادب کے عناصرِ خمسہ ” میں ہوتا ہے ٬ جن کے نام یہ ہیں : میں سر سید ، حالی ، نذیر احمد ، شبلی نعمانی ٬ محمد حسین آزاد ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر حالؔی نے ” یادگارِ غالب ” اور ” حیاتِ جاوید ” نہ لکھی ہوتی تو غالبؔ اور سر سید آج پردۂ گمنامی میں پڑے ہوتے یا انہیں وہ مقام حاصل نہ ہوتا جو آج حاصل ہے ۔ حالؔی خاموش طبیعت ٬ صوفی منش اور سنجیدہ مزاج انسان تھے ۔ اسلام کے شیدائی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سچے عاشق تھے ۔ نعت گو شاعر کی حیثیت سے بھی ان کی ایک منفرد شناخت ہے ۔ انہوں نے امتِ مسلمہ کی بیکسی اور زبوں حالی پر جس انداز سے جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں فریاد و استغاثہ پیش کیا ہے ٬ اس سے ان کی حضور علیہ السلام سے گہری عقیدت اور قلبی وابستگی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ حالؔی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے ۔ غزل و نظم کی طرح ان کی نعتیہ شاعری بھی خاصے کی چیز ہے ۔ ” حالی کی نعتیہ شاعری ” کے عنوان پر ڈاکٹر تقی عابدی ( کنیڈا ) کی تحقیقی کتاب منظرِ عام پر آ چکی ہے ۔ حالؔی کے مندرجہ نعتیہ کلام کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی ۔ آج بھی محفلِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ میں آپ کا یہ گراں قدر نعتیہ کلام ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے :
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے در گزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کو زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
نظم اور نثر دونوں میدان میں آپ نے اپنی صلاحیتوں کے جلوے بکھیرے ہیں ۔ شاعری سے زیادہ نثر نگاری میں آپ نے نام پیدا کیا ہے اور گراں قدر علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا ہے ۔ ” مقدمۂ شعر و شاعری ” اور ” یادگارِ غالب ” کی تصنیف نے آپ کی غیر معمولی شہرت بخشی ۔ ” حیاتِ سعدی ” بھی آپ کی ایک بلند پایہ نثری تصنیف ہے ،جس میں فارسی زبان کے مشہور شاعر،معلمِ اخلاق ،مصلحِ امت ،عظیم فارسی نعت گو حضرت شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ کے احوال و معارف اور ان کی حیات و خدمات پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اردو دنیا کو اس عظیم المرتبت ہستی سے روشناس کرایا ہے ۔ حالؔی کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے ۔ حالؔی کی نثر نگاری اور ان نثری تصانیف پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر نور الحسن نقوی لکھتے ہیں :
اردو نثر کے فروغ میں مولانا الطاف حسین حالی کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ صحت کی خرابی کے باوجود وہ برابر لکھتے رہے اور نہایت توجہ کے ساتھ لکھتے رہے ۔ وہ بہت اچھے شاعر بھی تھے اور بلند پایہ نثر نگار بھی ٬ لیکن شاعری پر ان کی نثر کا پلّہ بھاری ہے ۔ حالؔی کی نثر نگاری کا آغاز ۱۸۶۷ ء سے ہوا ۔ سب سے پہلے انہوں نے مذہب سے متعلق ایک کتاب ( مولود شریف ٬ جس کا تعارف و تبصرہ یہاں مقصود ہے ) لکھی ٬ جس نے زیادہ شہرت نہیں پائی ۔ ان کی پہلی اہم نثری تصنیف ” مجالس النساء ” ہے ۔ یہ عورتوں کی تعلیم سے متعلق ہے ٬ لیکن انداز ناول کا ہے ۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی ۔ اس کے بعد انہوں نے سوانح نگاری اور تنقید کی طرف توجہ کی ۔ ” حیات سعدی ” لکھ کر انہوں نے اردو میں سوانح نگاری کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ واقعات کے سلسلے میں انہوں نے چھان بین سے کام لیا اور سائنٹفک انداز میں ایک عظیم فارسی شاعر ( حضرت شیخ سعدی شیرازی ) کے مستند حالات پیش کر دیے ۔ یہ کتاب ۱۸۸۲ ء میں لکھی گئی ۔ ” یادگارِ غالب ” مولانا کے قلم سے لکھی گئی دوسری کتاب ہے جسے غالب شناسی کی سمت میں پہلا قدم کہنا چاہیے ۔ اس سے مولانا کی غالب فہمی کا ثبوت ملتا ہے ۔ یہ البتہ درست ہے کہ غالؔب کی کمزوریوں کو وہ چھپا جاتے ہیں ۔ ایک تو ان کا مزاج عیب جوئی کا نہ تھا ، دوسرے غالؔب کو وہ اپنا استاد مانتے تھے ۔ ” حیاتِ جاوید ” سر سید کی ضخیم اور مبسوط سوانح عمری ہے ۔ مولانا حالی نے اس پر بہت محنت کی ، مواد کی فراہمی کے لیے بار بار علی گڑھ آئے اور کافی دنوں یہاں مقیم رہے ۔ انداز یہاں بھی وہی ہے کہ صاحب سوانح کی خامیوں پر اکثر پردہ ڈال دیتے ہیں ۔ اسی لیے شبلؔی اس کتاب کو طنز سے ” مدلل مداحی” اور کتاب المناقب ( یعنی تعریفوں سے لبریز کتاب ) کہتے تھے ۔ شبلؔی کی یہ سخت تنقید ” حیاتِ جاوید ” کی اہمیت اور افادیت کو گھٹا نہیں سکی ۔ مولانا حالی کی سب سے اہم تصنیف ” مقدمۂ شعر و شاعری ” ہے ۔ یہ ان کے مجموعۂ نظم کا مقدمہ ہے ٬ لیکن اب ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس میں شاعری کے اصول زیر بحث لائے گئے ہیں ۔ پروفیسر آل احمد سرور نے اسے ” اردو شاعری کا پہلا مینی فیسٹو ( منشور ) کہا ہے ۔
( تاریخ ادب اردو ٬ ص : 293 ٬ 294 ٬ ناشر : ایجوکیشنل بک ہاؤس ٬ علی گڑھ )
الطاف حسین حالؔی کی شعری و ادبی خدمات اور ان کے علمی و قلمی رُشحات پر آج کا ادبی طبقہ جان چھڑکتا ہے اور قلمِ حالؔی سے نکلنے والے ایک ایک جملے کی تائید و توثیق کرتا ہے ۔ حالؔی اس پایہ کے ادیب و شاعر ہیں کہ ان کی کتابیں یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں ۔ لوگ ان کے تنقیدی افکار و نظریات کو دلیل اور حوالے کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ حالؔی کی بلند پایہ تصنیف ” مقدمۂ شعر و شاعری ” اردو ادب اور بالخصوص اردو تنقید کی معتمد اور مستند ترین کتابوں میں سے ایک ہے ۔ آج کے ادبا و شعرا اور محققین و ناقدین کی زبانوں پر غالؔب ٬ سر سید ٬ حالؔی ٬ شبلؔی ٬ آزادؔ اور اقبالؔ وغیرہ کے چرچے عام ہیں ۔ کیوں کہ ان حضرات نے اردو ادب کی بیش قیمت خدمات انجام دی ہیں ۔ لیکن حیرت کے ساتھ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ان جیالوں کے مذہبی کتب و رسائل کے ساتھ تعصب اور دوہرا رویہ اپنایا جاتا ہے ۔ موجودہ ادبی طبقہ کی یہ الٹی منطق آج تک سمجھ میں نہیں آ سکی کہ غالؔب و اقبالؔ یا سر سید اور شبلؔی و حالؔی کا ایک ایک جملہ اور فقرہ ادب ہے اور مذہبیات پر ان حضرات کا علمی و قلمی سرمایہ خارج از ادب ! اس تعصب و تنگ نظری اور بد بختی پر جس قدر ماتم کیا جائے ٬ کم ہے ۔ میرؔ و غالؔب اور اقبالؔ وغیرہ غزلیں لکھیں تو ان میں ہمارے لکھاڑیوں کو دور ہی سے ادب نظر آ جائے اور جب یہی فنکار نعت و منقبت یا دیگر مذہبی عنوان پر اظہارِ خیال کریں تو ان لکھاڑیوں کو دور بین سے بھی ادب کا کوئی پہلو نظر نہیں آئے ۔ سچ کہا گیا ہے : الناس اعداء ما جھلوا ۔ دین و مذہب سے دوری ہی ان کرم فرماؤں کو غالؔب و اقبالؔ اور حالؔی وغیرہ کے فن پاروں میں ادب نظر نہ آنے کی بنیادی وجہ ہے ۔ لیکن حقیقت سے چشم پوشی کب تک ٬ حقیقت ایک نہ ایک دن سامنے آ ہی جاتی ہے ۔ حالؔی کی بلند پایہ مذہبی تصنیف ” مولود شریف ” کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا دوہرا رویہ اختیار کیا گیا اور اسے سرد خانے میں ڈالنے کی دانستہ کوشش کی گئی اور حالؔی کی نثری تصانیف میں اس مبارک کتاب کا ذکر کرنے سے قصداً گریز کیا گیا ۔ حالانکہ حالؔی کی پہلی نثری تصنیف ہونے کی حیثیت سے اس کا خوب خوب چرچا کیا جاتا اور اس کے مشمولات و مندرجات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا جاتا ٬ لیکن ایسا جان بوجھ کر نہیں ہوا ٬ کیوں کے ادب کے درمیان مذہب کی دیوار حائل ہو رہی تھی اور ہمارے نام نہاد ادیبوں اور ناقدوں کو یہ بالکل گورا نہیں ۔ لعنت ہے ایسے ادب پر اور تف ہے ایسی مسلمانی پر !
” مولود شریف ” حالؔی کی پہلی تصنیف :
اردو ادب کی نثری تاریخ میں ” میلاد نامہ ” یا ” مولود شریف ” لکھنے کی روایت قدیم ہے ۔ اگر اس عنوان پر تحقیق کی جائے تو میلاد شریف کے موضوع پر سینکڑوں اردو کتابوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے ۔ میلادِ اکبر ٬ میلادِ گوہر ٬ تحفۃ الرسول ( از : مولانا معین الدین آروی ) ٬ میلاد نامہ ( از : شیخ عبد الفتاح گلشن آبادی ) ٬ رسول بیتی ( از : خواجہ حسن نظامی ) ٬ میلادِ اکبر ( از : شاہ اکبر دانا پوری ) وغیرہم درجنوں میلادی کتابیں اس وقت مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔ زبان و بیان اور ادبی چاشنی سے لبریز عاشقِ مولانا معین الدین آروی کی کتاب ” تحفۃ الرسول ” لا جواب اور بے نظیر ہے اور راقم الحروف کے گاؤں میں محفلِ میلاد میں بڑے شوق و رغبت سے پڑھی جاتی ہے ۔ ” مولود شریف ” حالؔی کی پہلی تصنیف ہے جو آج سے ایک سو چار سال قبل ۱۳۴۲ ھ / میم پہلی بار حالی پریس ٬ پانی پت سے شائع ہوئی ۔ یہ کتاب اردو کے چند اہم میلاد ناموں میں سے ایک ہے ۔
ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی ( شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی ) مولود شریف کا تعارف پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : حالؔی کی تصانیف میں ” مولود شریف ” زیادہ معروف نہیں ہے ۔ ان کی تصانیف کے ذیل میں اس کا تذکرہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ بہت کم حضرات نے اسے سنجیدگی سے پڑھنے کی زحمت گوارا کی ہو گی ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ صورت کتاب کے موضوع کی وجہ سے پیدا ہوئی ٬ جس نے اس کی ادبی حیثیت پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ۔ یہی سبب ہے کہ یہ تصنیف تقریباً گمنام رہی اور اس کے بارے میں کہیں مفصل اور تشفی بخش معلومات بھی دستیاب نہیں ہوئیں ۔ راقم الحروف کو حالؔی کی نثری خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ ترتیب دینے کے دوران اس کے مطالعے کی ضرورت محسوس ہوئی ………. یہ کتاب حالؔی کے صاحب زادے خواجہ سجاد حسین نے اولاً حالی پر یس ٬ پانی پت سے اپنے تعارفی کلمات کے ساتھ 1932 ء میں شائع کرائی ۔ ان کے بقول انہیں حالؔی کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا اس کتاب کا مسودہ ہاتھ آ گیا اور اسی کی بنیاد پر ” مولود شریف ” کی اشاعت عمل میں آئی ۔ یہی خطی نسخہ بعد میں محمد اسماعیل پانی پتی کا مملوکہ نسخہ بنا ۔ میں نے اپنے مذکورہ مقالے میں اس کتاب کا اجمالاً تعارف پیش کیا ہے ۔ میری نظر میں یہ حالؔی کی اولین نثری تصنیف ہے اور ان کی ابتدائی کوشش ہونے کے باوجود ان کی نثری تصانیف میں اس کی اہمیت ہے اور اسے نظر انداز کر کے حالؔی کے ذہنی و ادبی نشو و نما کا واضح شعور حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ حالؔی کی نثری کاوش کا یہ نقش اول ہے ۔ اس سے ان کی ادبی شخصیت کی کونپلیں پھوٹیں ٬ بعد ازاں جس نے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لی ۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو حالؔی کے فکر و فن کے باب میں ” مولود شریف ” کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے ………. ” مولود شریف ” میں آیاتِ قرآنی و احادیث کے جا بجا حوالے دیے گئے ہیں ۔ نیز تلمیحات کا استعمال بکثرت ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ عربی و فارسی اشعار بھی اچھی خاصی تعداد میں بنیادی متن کے جزو بن گئے ہیں ۔ مشکل اور نامانوس الفاظ نیز اصطلاحات کی تعداد بھی کافی ہے جن کے مفہوم و معنی تک رسائی نسبتاً آسان نہیں ۔
( ابتدائیہ مولود شریف ٬ 9 ٬ 10 ٬ مطبع : ثمر آفسیٹ پرنٹرس ٬ دہلی ٬ تقسیم کار : انجمن ترقی اردو ہند ٬ نئی دہلی )
اگر چہ ” مولود شریف ” حالؔی کی ایک میلادی کتاب ہے ٬ لیکن انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فضائل و کمالات اور محاسن و مناقب کو جس عقیدت و وارفتگی کے ساتھ بیان کیا ہے ٬ وہ قابلِ دید اور لائقِ مطالعہ ہے ۔ کتاب کی سطر سطر سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عظمت و رفعت اور شان و شوکت مترشح ہوتی ہے ۔ سچ پوچھیے تو یہ ایک ” وہابیت شکن کتاب ” ہے ٬ جس نے خیمۂ وہابیت میں آگ لگا دی ہے ۔ اس کے مندرجات و مشمولات سے اہل سنت و جماعت بلفظِ دیگر بریلویت کے بہت سارے عقائد و نظریات کی تائید و توثیق ہوتی ہے ۔ اس کے مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ طبقۂ اہلِ سنت کی طرح الطاف حسین حالؔی بھی میلاد اور محفلِ میلاد کے قائل تھے ۔ اس کتاب میں حالؔی نے حضور علیہ السلام کو اپنا غوث ٬ جائے امید ٬ پناہ گاہ ٬ مقتدیٰ و پیشوا اور خاتم النبیین کہا ہے ٬ جو وہابی اور دیوبندی مکتبِ فکر سے متصادم ہے اور قصرِ وہابیت و دیوبندیت میں زلزلہ برپا کرنے کے مترادف ہے ۔ اس کتاب کی گمنامی اور اس کے ساتھ بے اعتنائی کی سب سے بڑی وجہ شاید یہی ہے ۔
میلاد کی حقیقت اور اس کی شرعی حیثیت :
میلاد کی شرعی حیثیت پر کلام نہیں کیا جا سکتا ۔ اس عملِ خیر پر سلفاً و خلفاً امت کا عمل رہا ہے اور اکابر علما و محدثین نے ” میلاد النبی ﷺ ” کے ثبوت و جواز پر گراں قدر کتابیں تصنیف کی ہیں اور مفتیانِ اہل سنت نے اس کے جواز و استحباب پر فتویٰ صادر فرمایا ہے ۔ عمدۃ الفقہاء و المحدثین حضرت علامہ ابنِ حجر مکی ہیتمی کی ” النعمۃ الکبریٰ علیٰ العالم بمولد سيد ولد آدم ” اور شیخ الدلائل حضرت علامہ عبد الحق الہٰ آبادی کی ” الدُّر المنظّم فی بیان حکم مولد النبی المعظم ” اپنے موضوع پر لا جواب تصنیف ہے ۔ان دونوں کتب میں قرآن و حدیث اور ارشادات ائمہ و محدثین کی روشنی میں مسئلۂ میلاد کو اس طرح منقّح و مبرہن کیا گیا ہے کہ مخالفین کو بھی مجالِ انکار نہیں ۔ میلاد کسے ہیں اور زمانۂ رسالت و عہدِ صحابہ میں اس کا وجود تھا یا نہیں ٬ اس سلسلے میں یہاں ایک ایسی شخصیت کی کتاب سے حوالہ پیش کرنا چاہوں گا جو مخالفین کے یہاں بھی قابلِ قبول ہیں ۔ جامعِ معقول و منقول حضرت علامہ عبد الحی فرنگی محلی اپنے ” مجموعۂ فتاویٰ ” میں تحریر فرماتے ہیں :
بعد تمہيدِ ایں مقدمات می گویم کہ نفسِ ذکرِ مولد بدعتِ ضلالت ( بدعتِ سیّئہ ) نیست بدو وجہ ٬ وجہِ اول : ذکر مولد عبارت است از ایں کہ ذاکر ( واعظ ) آیتے از آیاتِ قرآنیہ یا حدیث نبویہ تلاوت کرده در شرح آں قدرے از فضائلِ نبویہ و معجزاتِ احمدیہ و برخی از احوالِ ولادت و نسبِ نبوی و خوارقے کہ وقت ولادت و قبل زان ظاہر گردیدند و امثالِ آنہا بیان سازد كذا حققه ابن حجر المكی فی النعمة الكبرىٰ على العالم بمولد سيد ولد آدم وغيره من العلماء الماهرین و وجودِ ایں حقیقت در زمانۂ نبوی و زمانۂ اصحاب ہم بود اگرچہ مسمیٰ بایں تسمیہ نہ باشد ۔ بر ماہرینِ فن حدیث مخفی نہ خواہد بود کہ صحابہ در مجالس وعظ و تعلیمِ علم ذکرِ فضائلِ نبویه و کیفیاتِ ولادتِ احمدیہ می کردند ۔ در صحاح مرویست کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حسّان بن ثابت را در مسجدِ خود بر منبر نشانیدند و او شانِ مدائحِ نبویہ را کہ نظم کرده بودند خواندند و آں حضرت او شان را دعائے خیر دارند و فرمودند : اللهم ایدہ بروح القدس و بر ناظرِ دیوانِ حسّان مخفی نہ خواہد ماند کہ در قصائد شان معجزاتِ نبویہ و کیفیاتِ ولادت و ذکر نسب شریف و غیره موجود است ٬ پس خواندن ہمچو اشعار بر سرِ مجلس عین ذکر مولد است ۔
( مجموعۃ الفتاویٰ ٬ للعلامۃ عبد الحی فرنگی محلی ٬ جلد اول ٬ ص : 60 ٬ طابع و ناشر : المطبع العلوی ٬ لکھنؤ )
ترجمہ : ان مقدمات کی تمہید کے بعد عرض گذار ہوں کہ نفسِ میلاد بدعتِ ضلالت ( بدعتِ سیّئہ ) نہیں اور اس کی دو وجہیں ہیں ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ محفل نام ہے اس حقیقت کا کہ ذاکر ( یعنی واعظ میلادِ مصطفیٰ ﷺ سے متعلق ) قرآن کی کوئی آیت یا حدیث کی عبارت پڑھ کے اس کی توضیح و تشریح اس انداز سے کرے کہ اس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فضائل و معجزات ٬ آپ کی ولادتِ طیبہ ٬ نسبِ مبارک اور ان خوارق ( معجزات ) کا ذکر کرے جو وقتِ ولادت یا قبل از ولادت پیش آئے اور اس طرح کی ( سیرتِ طیبہ سے متعلق ) دوسری باتیں بیان کرے ٬ جیسا کہ ابنِ حجر مکی نے ” النعمۃ الکبریٰ علیٰ العالم بمولد سید ولد آدم ” میں اور دیگر علمائے کاملین نے اس کی وضاحت کی ہے ۔ اس طرح کی حقیقتِ میلاد زمانۂ نبوی و عہدِ صحابہ میں موجود تھی ٬ اگرچہ اس نام ( میلاد ) سے موسوم نہ تھی ۔ ماہرینِ علمِ حدیث پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ خود صحابۂ کرام اپنی مجالسِ وعظ و تعلیم میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فضائل و محاسن اور آپ کی ولادتِ مبارکہ کے احوال و کوائف بیان کیا کرتے تھے ۔ کتبِ صحاح میں مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنی مسجد میں منبر پر بٹھاتے اور وہ آپ ﷺ کی شان میں نظم کیے گئے اشعار پڑھ کر سناتے اور حضور علیہ السلام ( ان کے مدحیہ اشعار سماعت فرما کر ) ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے اور یوں ارشاد فرماتے : اللھم ایدہ بروح القدس . اے اللہ ! روح القدس ( حضرت جبرئیل امین ) کے ذریعے حسان کی نصرت و تائید فرما ۔ حضرتِ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعری دیوان کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ یہ بات مخفی نہیں کہ ان کے قصائد میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فضائل و معجزات ٬ کیفیاتِ ولادت اور آپ ﷺ کے نسب شریف وغیرہ کا ذکر موجود ہے ۔ لہٰذا حضور ﷺ کے فضائل و معجزات اور ولادت سے متعلق روایات و اشعار محفل و مجلس میں پڑھنا ( جیسا کہ آج کل طبقۂ اہل سنت میں رائج ہے ) عین ذکرِ میلاد ہے ۔
خواجہ الطاف حسین حالؔی نے اپنی بلند پایہ تصنیف ” مولود شریف ” کا آغاز اللہ رب العزت کی نعمتوں پر شکر کی ادائیگی سے کیا ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت و بعثت کو بنی نوعِ انساں کی عظمت اور بڑائی کا سبب بتایا ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
محمد از تو می خواہم خدا را
الہٰی ! از تو عشقِ مصطفیٰ را
الہٰی ! ہماری کیا مجال اور کیا تاب و طاقت جو تیری نعمتوں کا شکر ادا کر سکیں ۔ تو قدیم ٬ ہم حادث ٬ تو خالق ٬ ہم مخلوق ۔ تیری نعمتیں بے انتہا اور بے انتہا نعمتوں کا شکر بھی بے انتہا ۔ ہماری ابتدا بھی فنا اور انتہا بھی فنا ۔ اگر ہم نے زبان سے تیرا شکر ادا کیا یا دل سے تیرا احسان مانا یا بدن سے تیری خدمت بجا لائے تو اُس سے حق بندگی ادا نہیں ہوتا ۔ زبان تو نے دی ٬ دل تو نے بخشا ۔ بدن تو نے عنایت کیا ۔ شکر کی توفیق تو نے دی ۔ ہم سے تو اتنا ہو سکتا ہے کہ اپنے کو تیری شکر گزاری سے عاجز سمجھیں ٬ لیکن پھر جو دیکھتے ہیں تو یہ بھی غلط ٬ اگر تو نہ جتاوے ہم اتنی سمجھ کہاں سے لائیں ۔ ہر چند آدمی ، جانور ، درخت ، پتھر ، سورج ، زمین ، آسمان جو کچھ ہے تیری عنایتوں سے بہرہ مند اور تیرے فیض سے مالا مال ہے ۔ مگر آدمی کو جو خوبیاں تو نے عنایت کیں ٬ ان کا تو کیا ذکر ٬ ایک اپنی معرفت ایسی دی جس سے وہ اشرف المخلوقات ٹھہرا اور اس کو یہ شرف حاصل کرنے کے لیے عقل اور ادراک عنایت کیا اور عقل کی تقویت کو اپنے سچے نبی بھیجے ۔ اس سے بڑھ کر بنی نوعِ بشر کو تو نے یہ بڑائی دی کہ سارے جہاں کا سردار ٬ نبیوں کا پیشوا ٬ ایک تیرا بندہ اور سب کا آقا ٬ ایک تجھ سے چھوٹا اور سب سے بڑا ٬ وہ کون ؟ سید المرسلین ٬ امام المتقین ، قائد الغر المحجلین ٬ صاحب البلد الامین ٬ خاتم النبین ٬ رحمۃ للعالمین ۔ لراقمہ :
رسولی سیدی تقتی رجائی
ملاذی قدوتی غوثی امامی
ابو القاسم احمدِ مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ و سلم لباسِ بشری میں جلوہ فرما ہوا ۔
( مولود شریف ٬ ص : 3 ٬ 4 ٬ مطبوعہ : حالی پریس ٬ پانی پت )
اس کے بعد حالؔی نے محفلِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ منعقد کرنے کی فضیلت بیان کی ہے اور میلاد کے دینی فوائد اور دنیاوی برکات و ثمرات پر روشنی ڈالی ہے اور اس سلسلے میں علامہ ابنِ جوزی کے حوالے سے امتِ مسلمہ کے معمولات کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح عالمِ اسلام میں ربیع النور کا چاند طلوع ہوتے ہی ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کی خوشیاں منائی جاتی تھیں اور اہلِ ایمان اپنے نبی کی ولادت کی خوشی میں کس طرح میلاد کی محفلیں سجاتے تھے اور صدقہ و خیرات کر کے دینی و اخروی برکتیں حاصل کرتے تھے ۔ اس کے بعد آخر میں حالؔی نے اپنی پوری کتاب کا خلاصہ بیان کر دیا ہے اور وہ یہ کہ ذکرِ میلاد اور محفلِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا انعقاد و اہتمام دنیا میں سببِ برکات ٬ آخرت میں موجبِ نجات اور باعثِ رفعِ درجات ہے ۔ میلادِ مصطفیٰ سے محرومی گویا دنیا و آخرت کی دولتوں کے حصول سے محرومی ہے ۔ مذکورہ بالا مفہوم کی ترجمانی حالؔی کے الفاظ میں آپ حضرات بھی ملاحظہ کریں :
ابن جوزی کہتے ہیں کہ حرمین شریفین اور مصر اور شام اور یمن اور کل بلاد عرب میں قدیم ( زمانے ) سے یہ دستور چلا آتا ہے کہ ربیع الاول کا چاند دیکھنے کی کمال خوشی کرتے ہیں اور اس مہینے میں جا بجا ( میلاد کی ) مجلسیں منعقد ہوتی ہیں اور مال ٬ نقد ٬ جنس جو کچھ جس سے ہو سکتا ہے ٬ خیرات کرتا ہے اور ذکرِ مولد شریف کے لیے بڑی بڑی تیاریاں کرتے ہیں اور اس کی برکت سے سال بھر خیر و عافیت اور امن و امان سے گزرتا ہے ٬ رزق کی کشائش ہوتی ہے ۔ مال میں برکت ہوتی ہے ۔ بے اولاد اولاد پاتے ہیں ۔ حاجت مند اپنی مرادوں کو پہنچتے ہیں اور شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنے گھر میں آپ ( ﷺ ) کی ولادت کا قصہ لوگوں کے آگے بیان کر رہے تھے ۔ اتفاقاً آپ ( ﷺ ) تشریف لے آئے ۔ دیکھا کہ لوگ حضرت کا ذکر شریف سن کر خوش ہو رہے ہیں ٬ حمد الہٰی کر رہے ہیں اور درود پڑھ رہے ہیں ۔ ( یہ حال دیکھ کر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ) فرمایا : تم میری شفاعت کے مستحق ٹھہر گئے اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک دن آپ کے ہمراہ رکاب عامر انصاری کے گھر جا نکلے ۔ دیکھا کہ وہ اپنے اہل و عیال کو حضرت ( ﷺ ) کی ولادت کا قصہ تعلیم کر رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اے عامر ! اللہ نے تجھے اپنی رحمت کے دروازے کھول رکھے ہیں اور فرشتے تیرے حق میں استغفار کرتے ہیں ۔ لراقمہ :
بنے ہیں ذکرِ شہنشاہِ دو جہاں کے لیے
سخن زباں کے لیے اور زباں دہاں کے لیے
اسی سے ہوتا ہے ظاہر عیارِ استعداد
مُحک ہے حُبِّ نبی دل کے امتحاں کے لیے
کیوں حضرات ! اس مجلسِ عالی کے فضائل و برکات تم نے سنے ۔ اس قسم کی روایتیں اور حکایتیں اور بہت ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ذکرِ میلاد حضرت سید الاولین و الآخرین ٬ امام المرسلین صلوات الله وَ سَلامُہ عَلَيْهِ و آلہ و اصحابہ اجمعین دنیا میں مُثمرِ برکات اور آخرت میں موجبِ نجات اور باعثِ رفعِ درجات ہے ۔ اس سے محروم رہنا ٬ گویا دولتِ کونین سے محروم رہنا ہے ۔
( مولود شریف ٬ ص : 25 ٬ 26 ٬ مطبوعہ : حالی پریس ٬ پانی پت )
حضور سرورِ کائنات ٬ فخرِ موجودات ﷺ کے فضائل و خصائص کا ذکر حالؔی اس طرح کرتے ہیں :
جو سوتے میں سب کی باتیں سنتا تھا ۔ جس کے بدن پر کبھی مکھّی نہ بیٹھی ۔ جس کے کپڑوں میں کبھی جُوں نہ پڑی ۔ جس کا پسینہ مشک سے زیادہ خوشبو دارتھا ۔ جس کی برکت سے شیطان آسمان کی خبرین لانے سے عاجز ہوئے اور کاہنوں کا بازار سرد ہو گیا ۔ جس کی سواری کے لیے آسمان سے براق زین اور لگام سمیت اُترا اور مکے سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے آسمان پر راتوں رات گیا ۔ جس نے انبیا اور ملائکہ کو نماز پڑھائی اور بہشت و دوزخ کو دیکھا اور وہاں پہنچا جہاں کسی کا علم و ادراک نہ پہنچے ۔ جس کو دنیا ہی میں دولتِ دیدار ( الہٰی ) میسر ہوئی ۔ جس کے ہمراہِ رکاب فرشتے چلتے تھے اور فوج میں مل کر کافروں سے لڑتے تھے ۔ جس کو ظاہر و باطن کے خزانوں کی کنجیاں ملیں ۔ جس کی نبوت جن و انسان دونوں کو شامل تھی ۔ جس کو درختوں اور پتھروں اور جانوروں نے سلام کیا ۔ جس کا نسب اور سبب قیامت کے دن منقطع نہ ہوگا ۔ جس کے سوال کا جواب دینا نماز کی حالت میں واجب تھا ۔ جس کا وجودِ مسعود تمام عالم کے لیے رحمت تھا۔ جس کے مرضِ موت میں جبریلِ امین تین بار عیادت کو آئے ۔ جو وفات کے بعد قبر میں زندہ ہے اور اذان و اقامت کے ساتھ نماز پڑھتا ہے ۔ جس کی قبر میں درود و سلام پہنچانے پر فرشتے مامور ہیں ۔ جو قیامت کے دن قبر سے بہشت کے نفیس حُلّے پہنے براق پر سوار ( ہو کر ) نکلے گا ۔ جس کو شفاعتِ عظمیٰ کا منصب اور لوائے حمد ملے گا ۔ جس کو آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر صور کے نفخۂ اولیٰ تک جو کچھ ہوا اور ہوگا ٬ سب معلوم تھا ۔ جس کا نام مبارک اللہ جل شانہ نے آسمان اور زمین پیدا کرنے سے پہلے عرش پر اپنے نام کے ساتھ لکھا ۔ جس کا نام لے کر پکارنا کمالِ بے ادبی اور گستاخی شمار کیا گیا ۔ جس کی عمر کی اور جس کے شہر کی اور جس کے زمانے کی حق تعالی نے قسم کھائی ۔ جس کے حضور پکار کے بات کرنی ( یعنی بلند آواز سے باتیں کرنا ) حرام تھی ۔
( مولود شریف ٬ ص : 12 ٬ 13 ٬ مطبوعہ : حالی پریس ٬ پانی پت )
حالؔی نے اپنی ” مولود شریف ” میں فضیلتِ میلاد اور حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل و کمالات ٬ امتیازات و خصوصیات ٬ عادات و خصائل اور اخلاقِ حسنہ کا ذکر بڑے دل پذیر انداز میں کیا ہے اور اس سلسلے میں آپ ﷺ کی رحمت و شفقت ٬ عفو و در گزر ٬ خُلق و سیرت غیب دانی ،حیات بعد الممات، عظمت و شوکت، شفاعت اور معجزات و خوارق کا ذکر خصوصی طور پر کیا ہے ۔ جیسا کہ مذکورہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے ۔ آخر میں حالؔی نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیبہ کی پیروی کریں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ سر سید، شبلؔی اور دیگر وہابیت زدہ افراد کے ساتھ نشست و برخاست کرنے والے حالؔی نے ایسی وہابیت شکن کتاب کیسے لکھ ڈالی ۔ موجودہ ادبی طبقہ کو اس کتاب کا ایک بار ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ حالؔی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فضائل و خصائص سے متعلق جو باتیں لکھی ہیں ٬ الحمد للہ ہم اہل سنت و جماعت کا آج یہی عقیدہ ہے ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page