۱۹ویں صدی کے ربع آخر میں جدید اردو نظم نگاری کی داغ بیل پڑی۔ اس عہد کو اردو شاعری کا متوسط دور تصور کیا جاتا ہے۔ اس شاعری کو آغاز میں تو دربار شاہی کی سر پرستی حاصل رہی۔ اس لئے دہلی اور لکھنؤ میں اسے خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا۔ حالانکہ یہ دور غزل کی طرف اپنا میلان زیادہ رکھتا ہے۔
۱۸۵۷ کی ناکام جنگ آزادی، (جسے انگریزوں نے غدر سے موسوم کیا) کے بعد ہندوستان کی فضا مکدّر ہوگئی معاََ یہ دور تاریخ کا ایک اہم موڑ بھی ثابت ہوا۔ اس ضمن میں پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں :
’’۱۸۵۷ء کا انقلاب ایک خاموش، کسی حد تک غیر منظم اور مبہم قومی احساس کا وہ نقطۂ آخر تھا جس کے بعد سے ہندوسانی ذہن نے ایک نیا سفر شروع کیا اور گو اس میں قدیم افکار و خیالات اور چھوڑی ہوئی منزلوں میں قدم اٹھاتے وقت ایک نئے شعور کی رہبری ضرور کام آئی۔‘‘
(عکس اور آئینے۔ ۱۹۶۲ء ص ۱۰۹)
لہذا زندگی کے ہر شعبہ میں تغیر پیدا ہوا۔ تہذیبی، علمی، سیاسی اور ثقافتی نوعیت کی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ ہر ایک ہندوستانی میں احساس کمتری سے نجات کی کوشش کی ہمت پیدا ہوئی اور اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگی۔ اس عہد میں کچھ دانشور اور اکابر قوم و ملت نے اصلاح کی کوششیں کیں۔ ان دانشوروں اور مفکرین میں سرسید احمد خاں، شاہ عبدالعزیز، راجہ رام موہن رائے، سید احمد بریلوی، مولانا عبدالحئی، مولوی محمد اسماعیل وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ جب کچھ کٹّر مسلمانوں نے سرسید کے انگریزی طرز تعلیم کی مخالفت کی تو سرسید نے اپنے پرچے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں لکھا :
’’جہاں تک ہم سے ہوسکے یورپیئن لیٹریچر اور یورپیئن سائنس میں اعلا درجہ کی ترقی کریں۔ جہاں تک ہم کو یونیورسٹی کے سچے خطابات حاصل ہوسکتے ہیں، حاصل کر لیں۔ جب اس سے بھی زیادہ ہم میں ہمت ہو، تو آکسفورڈ اور کیمبرج کی یونیورسٹیوں میں تعلیم کو جائیں۔۔۔اپنے کو مہذب و تعلیم یافتہ جنٹل مین اس کے اصل و حقیقی معنوں میں بنائیں، اور جو فیض تعلیم و تربیت و تہذیب ہم نے ان مہذب ملکوں سے حاصل کیا ہے، اس کو اپنے ہم وطنوں اور قوموں میں پھیلائیں۔‘‘
(مقالات سرسید ۱۹۱۴؛ ص۷۳)
مفہوم و مقصود اس موقف کا یہ تھا کہ انگریزی قوم کی علمی، تہذیبی اور سائنسی بصیرت سے استفادہ کرکے خود کو بلندیٔ فکر سے آشنا کریں۔ جن لوگوں نے انگریزی ادب سے بلا واسطہ یا بالواسطہ استفادہ کیا تھا وہ لوگ صنف شاعری میں ڈکشن، اسلوب اور معنوی اعتبار سے تبدیلی کے خواہاں ہوئے۔ اردو نظم جو قدامت پسندی کا شکار تھی اس کے مدنظر محمد حسین آزاد ؔنے ۱۸۶۷ء میں ’’انجمن پنجاب‘‘ کے ایک جلسے میں اردو نظم نگاری کے باب میں تغیر کی ضرورت پر تقریر کی، ساتھ ہی انگریزی ادب کی افادیت کا ذکر کیا :
’’ملک ہمارا عنقریب آفرینش جدید کے وجود میں قالب تبدیل کیا چاہتا ہے۔ نئے نئے علوم ہیں، نئے فنون ہیں، سب کے حال نئے، دل کے خیال نئے۔۔۔ مگر اس عالم حیرت میں ایک شاہراہ پر نظر جاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب کی سواری شاہانہ چلی آتی ہے۔‘‘
’’انجمن پنجاب‘‘ کا قیام محکمۂ تعلیم لاہور کے ڈائرکٹر کرنل ہالرائڈ کے ایما پر ۲۱؍جنوری ۱۸۶۵ء کو عمل میں آیا تھا۔ پنڈت من پھول اس کے صدر تھے۔ کل ممبران کی تعداد اس وقت ۳۴ تھی۔ پنڈت جی نے اس کا نام ’’انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب‘‘ یعنی Society for the diffusion of useful knowledge in Panjab. رکھا لیکن اسے ’’انجمن پنجاب‘‘ سے ہی شہرت ملی۔ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ اردو شاعری کے فرسودہ مزاج کو بدلا جائے اور نئی قدروں اور نئی روشنی سے آشنا کیا جائے۔ بگڑی ہوئی شاعری معاشرے میں بگاڑ اور فساد کا باعث ہوتی ہے، جس کا اعتراف حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں بھی کیا ۔
’’انجمن پنجاب‘‘ کا پہلا مشاعرہ ۸؍مئی ۱۸۷۴ء کو منعقد ہوا۔ ’’برسات‘‘ کے موضوع پر آزاد نے ابرکرم کے عنوان سے نظم سنائی۔ دوسرے شعرا میں حالیؔ بھی شامل تھے۔ اس موضوعاتی مشاعرے کی اہمیت پر پروفیسر آل احمد سرور اظہار خیال کرتے ہیں :
’’برکھا رت‘‘ اور ’’حب وطن‘‘ سے اردو شاعری میں ایک نئے راگ کا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ راگ بالکل نیا تو نہ تھا کیوں کہ اس سے پہلے نظیر اکبرآبادی بھی اسے الاپ چکے تھے، مگر ان کی آواز کسی نے بھی نہ سنی۔ حالیؔ نے جب یہ نغمہ چھیڑا تو اس کا اثر ہوا اور ان کی اور آزاد کی کوششوں سے مقامی رنگ، منظر نگاری، وطن کی محبت اردو شاعری میں اپنی بہار دکھانے لگی۔‘‘
اس طرح آزادؔ اور حالیؔ نظموں پر (موضوع پہلے ہی دے دیا جاتا تھا) مشتمل مشاعرے منعقد کرنے لگے۔ ان اکابر شعرا کا مقصد اصلاح معاشرہ بھی تھا۔ حالی نے ’’مناجات بیوہ‘‘ اور ’’چپ کی داد‘‘ لکھی۔ ان میں معاشرے کے مسائل اور جذبات انسانی کی پیشکش ہوئی۔ ان نظموں کے علاوہ برکھارت، حب وطن، صبح امید، معرفت حق، شرافت حقیقی، اور اولوالعزمی کے لئے سد راہ نہیں، سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ، شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار، جیسی نظمیں کہیں جن میں معاشرے کے مسائل یا کسی اصلاحی پہلو کو پیش کیا گیا۔ آزادؔ اور حالیؔ میں حالیؔ کی نظموں میں خلوص اور شدت زیادہ ہے جبکہ آزاد کے یہاں یک رنگی اور مضمون کے دہرائے جانے کا عمل ملتا ہے۔
اس تحریک سے سر سید بھی بہت خوش تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنے خطوط میں اور تہذیب الاخلاق میں بھی کیا۔ کچھ لوگ اس کی اہمیت کا انکار کرتے ہیں کہ نظیر اکبر آبادی اس سے بہت پہلے موضوعاتی نظمیں کہہ چکے تھے۔ یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہئے کہ قلی قطب شاہ اس سے بھی بہت پہلے مختلف موضوعات پر نظمیں کہہ چکے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ جس فکر کے تحت انگریزی ادب و علوم کی روشنی سے متاثر ہوکر باضابطہ طور پر ’’انجمن پنجاب‘‘ کے تحت نظمیہ مشاعرے کا سلسلہ شروع ہوا اور جاری رہا ساتھ ہی انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے بھی ہوتے رہے، ایسا ہی پس منظر قلی قطب شاہ یا نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا نہیں رہا تھا۔ آزاد اور حالی نے تو ایک باضابطہ تحریک شروع کی تھی۔ ان دونوں سے اکبر الہ آبادی، شبلی نعمانی، نظم طبا طبائی، سرور جہان آبادی وغیرہ نے اثر قبول کیا۔ ان سبھوں نے کئی انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کئے۔ نظم کا مشہور منظوم ترجمہ گرے کی نظم کا ہے جو ’’گور غریباں‘‘ سے موسوم ہے۔ اردو میں مسمط کے بدلے انگریزی اسٹنزا کے فورم کا چلن بقول عبدالحلیم شررؔ نظم کے اسی ترجمے سے شروع ہوا۔ نظم نے ہمدردی اور ثابت قدمی، جوہر شرافت، دولت خدا داد افغانستان جیسے منظوم ترجمے پیش کئے۔مگر یہاں غلام مولا قلقؔ کا ذکر نہ کرنا ادبی بددیانتی ہوگی۔ ان کے منظوم ترجموں کا مجموعہ ’’جواہر منظوم‘‘کے نام سے ۱۸۶۴ء میں ہی شائع ہوگیا تھا۔ اس کتاب کی تاریخی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ جس انگریزی ادب سے متاثر ہوکر آزاد اور حالی نے منظوم ترجمہ نگاری اور موضوعاتی نظم نگاری کی تحریک ۱۸۷۴ء میں شروع کی اس سے دس سال قبل ’’جواہر منظوم‘‘ منظر عام پر آچکی تھی۔ قلقؔ کی قادر الکلامی کے لئے صرف ایک بند دیکھئے :
دیکھتے ہو عجائبات جہاں
کہتے ہو آفتاب ہے رخشاں
گرم پاتا ہوں اس کو میں لیکن
نہیں معلوم رات ہے یا دن
(داستان اندھے لڑکے کی )
اصل انگریزی متن :
You talk of wondrous things you see
You say the sun shines bright
I feel him warm but how can he
Or make it day or night ?
”The Blind Boy” (C.Cibber)
جدید نظم نگاری کا آغاز آزاد اور حالیؔ کی اسی تحریک سے ہوتا ہے۔ ’جدید‘ کے سلسلے میں کسی طرح کا احتمال نہیں ہونا چاہئے۔ پروفیسر خلیل الرحمن اعظمی کے مطابق :
’’شاعری کے سلسلے میں ’جدید‘ کی صفت بطور اصطلاح ہمارے یہاں اس وقت استعمال میں آئی جب آزاد اور حالیؔ نے شعوری طور پر مقصدی، افادی اور اصلاحی قسم کی نظمیں لکھنے اور اس کو فروغ دینے کی کوشش کی۔‘‘
(علیگڑھ میگزین ۸۲۔۱۹۷۹ء سے ماخوذ؛ ص ۱۰۶)
خود آزاد نے بھی اپنی تقریروں میں ’’نظم جدید‘‘ کا ذکر کیا ہے۔
اسماعیلؔ میرٹھی اور شبلیؔ نے قومی اور ملی مسائل اور تہذیبی و ثقافتی امور اور نشانیوں کو شعری قالب میں ڈھالا۔ شبلی کے نزدیک شاعری ’’تخیل اور محاکات‘‘ پر قائم ہے۔ ان کا نظریہ شعر وجدانی اور جمالیاتی ہے۔ اس کے باوجود ’’کلیات شبلی‘‘ اردو، کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں سیاسی، مذہبی، تہذیبی، اخلاقی، اصلاحی نوعیت کی نظمیں خوب ملتی ہیں۔ ماضی کی روایات اور تہذیبی اقدار کو انہوں نے اپنی نظموں میں سمونے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ’’صبح امید‘‘ ۱۸۸۴ء کے اوائل کی نظم ہے جس میں تہذیب و ثقافت اور مختلف علوم و فنون کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ کلیم الدین احمد نے ۳۵۳ اشعار پر مشتمل اس طویل نظم (مثنوی) کو مسدس حالی پر فوقیت دی ہے۔ مگر یہ بات بعینہٖ قبول نہیں کی جا سکتی۔ ’’شہر آشوب اسلام‘‘ (۲۴ اشعار) میں اقوام یورپ اور بلقان والوں کو مخاطب کیا ۔ حادثۂ کانپور والی نظم بھی تاریخی اور تہذیبی شعور پر مبنی ایک پر اثر نظم ہے اور جذبۂ صادق کی غمازی کرتی ہے۔
سرور جہان آبادی نے اپنی شاعری کو ریاکاری اور ملمع کاری سے بچائے رکھا۔ غم و الم کا بیان ہو یا ماضی کی تہذیبی قدروں کا، وہ ہمیشہ صداقت کے پاسدار رہے۔ کائنات اور مناظر قدرت کا بیان ہو یا مذہبی افکار و آثار کا، ان کا خلوص ہمیشہ ساتھ رہا۔ انہوں نے انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے بھی کئے۔ ان کی نظموں میں بدنصیب بنگال، بیر بہوٹی، جلوۂ امید، مادر ہند، قومی نوحہ، اجڑی ہوئی محفل، شیون عروس، پریاگ کا سنگم، لکشمی جی، بن باس کا سین، سیتا جی کی گریہ وزاری، فضائے برشگال وغیرہ لائق توجہ ہیں، ان نظموں کے تلازمے خالص ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے رشتہ استوار کرتے ہیں۔
اکبر الہ آبادی انگریزی طرز تعلیم اور تہذیب مغرب کے مخالف تھے۔ اسی لئے انہوں نے سرسید تحریک کی مخالفت کی، بلکہ ان کی شاعری سرسید اور ان کے تحریک کا رد عمل تھی۔ انہیں خوف تھا کہ علوم مغربیہ کے حصول سے مذہبی و قومی نیز تہذیبی و ثقافتی نقوش ناپید ہو جائیں گے۔ ایک قطعہ کا یہ ٹکڑا دیکھئے :
ہوتی تھی تاکید لندن جاؤ انگریزی پڑھو
قوم انگلش سے ملو سیکھو وہی وضع و تراش
لیڈیوں میں مل کے دیکھو انکے انداز و طریق
ہال میںناچو،کلب میںجاکے کھیلو ان سے تاش
بار بار آتا ہے اکبر میرے دل میں یہ خیال
حضرت سید سے جا کر عرض کرتا کوئی کاش
درمیان قصر دریا تختہ بندم کردۂ
باز می گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
مگر ان کی فکر کا تضاد تب سمجھ میں آتا ہے جب وہ اپنے بیٹے کو حصول تعلیم کی غرض سے لندن بھیجتے ہیں یا پھر جب ملکہ وکٹوریہ کی شان میں قصیدہ خوانی کرتے ہیں:
زمانے میں خوشی کا دور ہے عشرت کا ساماں ہے
برنگ گل ہر اک باغ جہاں میں آج خنداں ہے
کوئن وکٹوریہ کی جوبلی کی دھوم ہے ہر سو
ادھر ہے نغمۂ الفت ادھر نور چراغاں ہے
ہماری حضرت قیصر رہیں اقبال و صحت سے
کہ جن کا آفتاب عدل اس کشور پہ تاباں ہے
عظمت اللہ خاں نے انگریزی کا براہ راست مطالعہ کیا تھا بلکہ انگریزی میں انہوں نے نظمیں بھی کہیں جن کی تعریف انگریزوں نے بھی کی اور اعزاز سے نوازے بھی گئے۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ انہوں نے قصۂ چہار درویش کے رنگ میں نثر لکھ کر دادو تحسین بھی حاصل کی۔ جہاں تک اردو نظم نگاری کا سوال ہے، عظمت اللہ خاں کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے برج بھاشا کے نرم اور رس بھرے الفاظ و تراکیب کو استعمال کیا۔ ان کی نظمیں خاص تہذیبی پس منظر رکھتی ہیں۔ انہوں نے صنف نازک کے لطیف جذبوں کی ترجمانی کھل کر کی۔ ان کا ایک ہی مجموعہ کلام ’’سریلے بول‘‘ ہے۔ اس میں جو نظمیں ہیں انہیں لرک نظمیں (Lirics) کہا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اردو کی مروجہ بحروں سے انحراف کرکے ہندی اور سنسکرت کی بحروں کو استعمال کیا۔ بقول مسعود حسین خاں :
’’دراصل اردو نظم کا موجودہ دور صوری اعتبار سے عظمت اللہ خاں کا دور ہے۔ مختلف بحروں کا ایک ہی نظم میں استعمال، ہندی اردو اوزان کی آمیزش ان سب کی مثالیں ’’سریلے بول‘‘ میں مل جائیں گی۔‘‘
(سریلے بول، ص ۴۷)
اس طرح عظمت اللہ خاں نے اردو شاعری کو ہندی بحروں اور نئی ہیئتوں سے روشناس کرایا۔
چکبست نے کسی طرح کا کوئی ہیئتی یا شعری تجربہ نہیں کیا۔ ان کی بیشتر نظمیں مسدس کے فورم میں ہیں۔ وہ ہمیشہ ماضی کی روایات اور تہذیبی قدروں کے خواہاں رہے۔ حب الوطنی اور قو می یکجہتی کو فروغ بخشا۔ انہیں اسلامی تاریخ و تہذیب سے بھی شغف رہا۔ ’’آصف الدولہ کا امام باڑہ‘‘ کے مطالعہ سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔ امام باڑہ مسلم تہذیب و ثقافت کی پہچان بھی ہے اور فن تعمیر کا نمونہ بھی۔ اگر ان نظموں میں برق اصلاح، پھول مالا، کرشن کنھیا، وطن کا راگ، رامائن کا ایک سین وغیرہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ گنگا جمنی تہذیب اور قومی یکجہتی کے پاسدار ہیں۔
علامہ اقبال اپنے عہد کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ ان کی فکر کا کینوس وسعت کائنات کو محیط ہے۔ ان کی نظر میں صرف اسلامی تہذیب و ثقافت اس کائنات کو بامعنی بنا سکتی ہے۔ آغاز میں وطنی جذبات کی پیش کش انہوں نے بھی کی مگر جلد ہی اپنے اصل کی طرف لوٹ آئے اور اسلامی افکار اور علوم متفرقہ سے بہرہ مند ہو کر انسانی وجود کے اصل مقصد کی ترویج کو اپنا نصب العین بنا لیا۔ ان کی نظر ایک ایسے معاشرے کی تلاش میں تھی جہاں اسلامی تہذیب کا رنگ ہو۔ وہ فرنگی تہذیب کے نکتہ چیں تھے۔ ہر شے جو فرنگیوں سے کوئی رشتہ رکھتی ہو، اقبال کی نظر میں مشکوک تھی۔ ’’پیرس کی مسجد‘‘ سے یہ شعر ؎
حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے
تن حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ
ان کے یہاں جو تہذیب و ثقافت کا رنگ ہے وہ عشق سے تیار ہوا ہے۔ ’’مسجد قرطبہ‘‘ عشق کا شناخت نامہ ہے جو اسلامی ثقافت کا نمونہ بھی ہے :
اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یاخشت و سنگ چنگ ہو یاحرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
یہی معجزہ فن تہذیب و ثقافت کی معراج ہے۔ وہ مغربی تہذیب کا انجام خوب سمجھتے تھے۔ اقبال کی شاعری کے تلازمات و تلمیحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی افکار و نظریات اور ماضی کی روایات اور تہذیبی اقدار سے انہیں عشق ہے اور یہی عشق اسلامی ثقافت کی روح ہے۔
اختر شیرانی کی نظموں میں پرانی اقدار یا تہذیبی روایات کی پیش کش خال خال ہی نظر آتی ہے۔ انہوں نے گوشت پوست کی عورت کو موضوع بنا کر سلمیٰ اور ناہید کی شکل میں پیش کیا ہے۔ نظم ’’عورت فنون لطیفہ کی روشنی میں‘‘ میں اسی طرف اشارے ملتے ہیں۔ مگر اس کے علاوہ مزدور اور کسان کے مسائل بھی ہیں۔ ’’جھونپڑی کا دیا‘‘ بھی ہے اور ’’جوگن‘‘ کا نغمہ بھی۔ ان کی نظمیں کسان کا مستقبل، جوگن، نوید عید، نغمۂ امن، فانی و باقی، اے عشق کہیں لے چل! تہذیب و ثقافت اور انسانی ہمدردی و الفت کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ حفیظؔ جالندھری نے اپنی نظموں میں بھی گیت کا رنگ بھرا ہے مگر ساتھ ہی تاریخی و تہذیبی شعور کو بھی بروئے کار لاکر ایک پر اثر تناظر تیار کیا ہے۔ ان کی نظموں میں حب وطن کے جذبات بھی ہیں اور زندگی کے حقائق بھی، محبوب کا سراپا جمال بھی ہے اور اسلامی تاریخ کے نشانات بھی۔ اگر ان کی نظموں میں جلوۂ سحر (نغمہ زار)، ابھی تو میں جوان ہوں (نغمہ زار)، کرشن کنھیا، رقاصہ، پریت کا گیت اور سب سے وقیع تخلیق شاہنامہ اسلام (چار جلدیں) کا مطالعہ کریں تو ان کے وسعت مطالعہ، قادر الکلامی اور تاریخی و تہذیبی شعور کے مستحکم ہونے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ فنی اعتبار سے انہوں نے شاہنامہ اسلام کے علاوہ زیادہ تر مختصر بحروں کا استعمال کیا ہے جو گیت کے لئے زیادہ موزوں ہوتے ہیں۔
احسان دانشؔ کو شاعر مزدور کہا جاتاہے کہ انہوں نے کسان اور مزدور کے مسائل کو بڑے خلوص کے ساتھ برتا ہے۔ ان کا یہ جذبہ ترقی پسند تحریک سے پہلے منظر عام پر آچکا تھا۔ اس لئے ترقی پسندوں کا یہ دعوا کہ مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کو ان لوگوں نے سب سے زیادہ خلوص کے ساتھ پیش کیا، محض ایک ’بیان‘ ہے۔ احسان دانشؔ نے گاوں اور قصبے کی فضا کو تہذیب و تمدن کا قیمتی حصہ تصور کیا اور نظموں میں پیش کیا۔ جہاں عورتیں کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرتی ہیں ان پر احسان دانش طنز کرتے ہیں :
بوجھ اٹھانے کے لئے ہندوستاں کی لڑکیاں
تف ہے اس تہذیب پر لعنت ہے اس ادراک پر
مزدور کی دیوالی کا نقشہ ان چار مصرعوں میں دیکھیے:
بام و در تو کیا مکاں میں بھی نہیں روشن دیا
آ رہی ہے خستہ دیواروں سے جھینگر کی صدا
پُر خطر تاریکیوں میں ہے مکاں کھویا ہوا
گھر کا گھر گویا نصیبوں کی طرح سویا ہوا
احسان دانش اپنے ہم عصروں میں احساس کی اس منزل پر ہیں جہاں بہت کم لوگوں کو رسائی حاصل ہوسکی ہے۔ ان کی شاعری پروقار اور معصوم تہذیب و تمدن کا اشاریہ کہی جا سکتی ہے۔ انہوں نے بھی علامہ اقبال کی طرح تہذیب مغرب اور دہریت کو معاشرے اور قوم کے لئے سمّ قاتل کے مترادف تصور کیا۔ کچھ نظمیں یوں ہیں۔ چاند بی بی، تہذیبی اثرات، گھاس والی، دہریت اور اسلام، جادۂ نو، خندہ غرور، مزدور کی دیوالی، مزدور طالب علم، دیہات کی شام وغیرہ۔
جمیل مظہری نے فکر و فلسفے کی شاعری کی مگر مظلوم و مجبور ’’عورت‘‘ کی تصویر بھی پیش کی۔ طبقاتی کشمکش اور مارکسی نظریۂ حیات کو بھی موضوع بنایا۔ وہ فکری اعتبار سے تشکیک کے شکار رہے۔ کبھی وحدانیت اور اللہ کے وجود کا اقرار کیا اور کبھی شک میں مبتلا ہوگئے۔ ’’فریاد‘‘ (نقش جمیل) سے ایک شعر ؎
کشتہ ناز خرد ہے دل ناداں میرا
ابھی تشکیک کی منزل میں ہے ایماں میرا
ان کی فکری و فنی قوتوں، تہذیب انسانی اور فلسفۂ حیات کی تفہیم کے لئے مندرجہ ذیل نظمیں معاون ہوسکتی ہیں۔ گور رسیدہ، شاعر کی تمنا، تول اپنے کو تول، ڈرو خدا سے ڈرو، سفر، فسانۂ آدم، غریبوں کی عید وغیرہ۔
جوش کی شاعری لفظوں کا اسراف ہے۔ اسی سبب خلوص اور شدت کا فقدان ہے۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری ’’یادوں کی بارات‘‘ جس طرح ان کے احوال کا کھلا اور سچا اظہار ہے، اس کے بر عکس ان کی شاعری (کچھ ایک کو چھوڑ کر) کھوکھلے جذبات کا شاہانہ اظہار ہے۔ دوسری طرف انکی فکری کشمکش (خداہے؍ خدا نہیں ہے) نے ان کی شاعری کو وہ مقام حاصل نہیں ہونے دیا جس کے وہ حامل ہو سکتے تھے۔ ان کے مجموعۂ کلام کی تعداد اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ ہے۔ کچھ نظمیں ایسی جوش کے یہاں ملتی ہیں جہاں تہذیب و ثقافت کے تلازمے تلاش کئے جاسکتے ہیں جیسے : متولیان وقف حسین آباد سے خطاب (شعلہ و شبنم)، کافر نعمت مسلماں، شمع ہدایت، (شعلہ و شبنم)، خدا سے ایک سوال (نقش و نگار)، کسان (شعلہ و شبنم)، گرمی اور دیہاتی بازار، در آدمیت، مقتل کانپور (شعلہ و شبنم)، ترانہ آزادیٔ وطن، استقلال میکدہ (سرود و خروش)، کہستان دکن کی عورتیں وغیرہ۔
ترقی پسند تحریک کے تحت سماجی رویوں اور مقصدی شاعری کو اہمیت دی گئی۔ اس کا با ضابطہ آغاز ۱۹۳۶ کی کل ہند ترقی پسند مصنفین کانفرنس سے ہوا جس کی صدارت منشی پریم چند نے کی تھی۔ یہاں جن شاعروں کا ذکر اس باب کے تحت آیا ہے ان کے نام ہیں: فیض احمد فیض، مجاز لکھنوی، ساحر لدھیانوی، سلام مچھلی شہری، مخدوم محی الدین، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی۔
ترقی پسند شعرا میں سب سے زیادہ شہرت فیض کو ملی۔ انہوں نے عالم گیر محبت اور انسان کے سچے جذبات کو شاعر کا حصہ بنایا۔ جہاں ان پر انقلاب پسندی غالب آئی ہے، شاعری خراب اور بے رس ہوکر رہ گئی ہے۔ مگر ایسا کم ہی ہوا ہے۔ وہ صرف گاؤں یا ہندوستان کے سماجی اور تہذیبی و تمدنی مسائل کو ہی نہیں دیکھتے بلکہ ان کی شاعری میں عرب اسرائیل جنگ کا پس منظر بھی ہے، فلسطینی بچوں کے لئے لوریاں بھی ہیں اور کسانوں اور مزدوروں کا نغمہ بھی۔ ان کی فکر کی جڑیں صرف برصغیر ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی بہترین اعلا قدروں اور تہذیبی روایتوں تک پیوست ہیں۔ اس طرح ان کی نظموں میں آفاقی انسلاکات و تلازمات موجود ہیں۔ اس نوع کی نظموں میںکچھ کے نام اس طرح ہیں۔ ایرانی طلبا کے نام، کیا کریں، فلسطینی بچے کی لوری، گاوں کی سڑک، بیروت، ادھر نہ دیکھو، مرثیہ امام، شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں، موضوع سخن وغیرہ۔
فیض نے اپنی شاعری کو افکار و تجربات کے ساتھ ساتھ جمالیاتی شعور سے ہم آہنگ رکھا ساتھ ہی لفظیات کی صحیح تنظیم پر توجہ دی۔ فیض نے اپنے ہم عصروں اور بعد کے شعرا کو بھی متاثر کیا۔
مخدوم کی شاعری رومان سے انقلاب کی طرف سفر ہے۔ امنگ اور ترنگ کے ساتھ ساتھ انھوں نے زندگی کے مسائل اور قدیم تہذیبی اقدار کو بھی برتا ہے۔ وہ بھی جوش،ؔ مجازؔ، جمیل ؔ مظہری کی طرح مذہبی امور و احکام سے نالاں رہے ہیں:
اے خدائے دو جہاں اے وہ جو ہر اک دل میں ہے
دیکھ تیرے ہاتھ کا شہکار کس منزل میں ہے
کوڑھ کے دھبے چھپا سکتا نہیں ملبوس دیں
بھوک کے شعلے بجھا سکتا نہیں
(حویلی : سرخ سویرا)
سردارجعفری کی نظموں میں رومان کا انقلاب آسا تیور ملتا ہے۔ ڈکشن کے اعتبار سے وہ اقبال اور جوش کے قریب رہے ہیں۔ البتہ ان کا سماجی اور سیاسی وژن جوش سے زیادہ بالیدہ اور مستحکم رہا ہے۔ ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ نے اردو شاعری کو جس عورت کے کردار سے آشنا کیا وہ انقلاب پسند معصوم، پاکیزہ اور مشرقی اقدار کی حامل ہے۔ مریم کا کردار ایک مضبوط کردار ہے۔ اس کے اندر بغاوت کا جذبہ بھی ہے مگر تہذیبی شعور بھی ہے۔ ’’واقعات کربلا‘‘ سے مذہبی جذبے اور اسلامی تاریخ و تہذیب سے ان کی گہری وابستگی کا پتہ چلتا ہے۔ ’’ایشیا جاگ اٹھا‘‘ سے ایشیا اور بالخصوص ہندوستان کا تہذیبی و تمدنی تناظر تشکیل پاتا ہے۔ ان کا اصل کارنامہ نئی دنیا کو سلام، ہاتھوں کا ترانہ، اودھ کی خاک حسیں، ’’مشرق و مغرب‘‘ جیسی نظمیں ہیں۔ انھوں نے جدوجہد اور انسانیت کا پیغام تو دیا ہے مگر اس دھن میں کہیں کہیں مولویانہ طرز خطابت پیدا ہوگیا ہے۔
مثلاً نظم ’’رومان سے انقلاب تک‘‘ کا یہ حصہ دیکھئے :
شاعرو، ساتھیو / اپنے تاریک اندیش رومان کے ساز کو توڑ دو
اپنی مضراب کو پھینک دو / اس کے نغموں سے آنسو ٹپکتے رہیں گے
۔۔۔ گولیوں کی طرح اپنے الفاظ دشمن پہ برساؤ / سارے عالم پہ چھا جاؤ
اخترالایمان نے ترقی پسندوں اور حلقہ والوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اپنی الگ شناخت قایم کی۔ دونوں سے وابستہ بھی رہے اور الگ بھی، یعنی معنوی اعتبار سے کسی طرح کی وابستگی کو انھوں نے قبول نہیں کیا۔ دو متوازی میلانات کے بیچ ایک نیا اور جداگانہ رجحان جو صرف اخترالایمان تک محدود تھا، ان کی شاعری میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اردو شاعری کو قیمتی نظمیں عطا کیں۔ ان کے نزدیک اپنی تہذیب اور معاشرے کے مسائل اہم تھے۔ انھوں نے اپنے ماضی اور اس کی تہذیبی و ثقافتی روایات و اقدار سے اپنا رشتہ ہموار رکھا۔ انھوں نے ’وقت‘ کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ ماضی اور حال کے انضمام سے وہ مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں یعنی ماضی کی یادوں سے حال کو روشن کرتے ہیں۔’’تبدیلی‘‘ کے مطالعہ سے اس عہد میں صنعتی و مشینی Dominanceکا اندازہ ہوتا ہے جہاں رشتوں کی پامالی عام سی بات ہے۔اگر ان کی شاعری سے ماضی ہٹا دیا جائے تو Vacuumپیدا ہو جائے گا۔ ان کی شاعری میں غم زدہ انسانوں اور حُزن و ملال میں ڈوبی تہذیب کی داستان ملتی ہے۔ اخترالایمان کے ہم پلّہ کوئی دوسرا شاعر نہ ترقی پسند شعرا میں ہونہ حلقۂ ارباب ذوق کے شعرا میں۔
مجازؔ نے بھی سردار جعفری کی طرح ایک باغی اور انقلاب پسند عورت کا تصور پیش کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے باضابطہ آغاز (۱۹۳۶) سے تین سال قبل ۱۹۳۳ میں مجاز نے ’’انقلاب‘‘ لکھی جس میں سرمایا دارانہ نظام کے خلاف آواز ہے ساتھ ہی اس میں آفتاب حریت کو طلوع ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے ؎
ختم ہو جائے گا یہ سرمایا داری کا نظام
رنگ لانے کو ہے مزدوروں کا جوش انتظام
فیض کی طرح مجاز کا جمالیاتی شعور بھی ان کے ساتھ ساتھ رہا مگر کبھی کبھی باگ ڈھیلی پڑی اور ’’انقلاب‘‘ کے خون آلود مصرعے چاروں طرف نظر آنے لگے۔ مجاز کے مجموعۂ کلام آہنگ (سن اشاعت ندارد) کا دیباچہ فیض نے لکھا تھا اور کہا تھا :
’’مجازؔ انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں بلکہ انقلاب کا مطرب ہے۔‘‘
مجاز کو بنی نوع انسان سے محبت ہے اور قدیم تہذیبی اقدار کو بھی عزیز وہ رکھتے ہیں۔ ان کی کچھ اہم نظمیں یوں ہیں: آوارہ، خانہ بدوش، نوجوان خاتون سے، نذر خالدہ، لکھنؤ وغیرہ۔
مجاز نے اپنے محبوب کو اس شکل میں دیکھنا چاہا ہے ؎
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
سلام نے بھی ایسی ہی تمنا ظاہر کی تھی :
خطا معاف کہ جچتی نہیں نگاہوں کو
یہ دیویاں پس چلمن نظر جھکائے ہوئے
مجھے تو ہمدم و ہم راز چاہئے ایسی
جو دست ناز میں خنجر بھی ہو چھپائے ہوئے
سلام کی شاعری میں ناسٹلجیائی احساس ملتا ہے۔ ہندوستان کے کھیتوں، موسموں، پھولوں، پھلوں اور ندی نالوں سے انہیں گہرا لگاؤ ہے۔ یہ ایسے عوامل ہیں جو دیہی اور قصباتی تہذیب کی تعمیر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ اپنی نظموں میں جدید سائنس اور مشینی ترقی کے مثبت و منفی اثرات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ نظم ’’تیسری قوت‘‘ میں یہی احساس پیدا ہوا ہے جس میں روحانی قوت کو ’’تیسری قوت‘‘ سے تشبیہ دی ہے، جو انسانیت اور تہذیب کو بچاسکتی ہے۔ سلام کی اس نوع کی نظموں میں محدود سرخیاں، باغ کا وہی جھونپڑا، تاج محل، مسافر، سڑک بن رہی ہے وغیرہ لائق توجہ ہیں۔
کیفی کی شاعری حال اور مستقبل کی شاعری ہے۔ ان کی نظموں میں ماضی سے ان کا رشتہ کم ہی استوار ہے (الا ماشاء اللہ۔ میرا ماضی میرے کاندھے پر سوار)۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ماضی کی اعلا قدروں اور ثقافتی نقوش کا فقدان ہے۔ انہوں نے بھی مجاز، سردار، اور سلام (شرائط) کی طرح ایک باغی عورت کی تصویر (نظم عورت) پیش کی ہے۔ ’’عورت‘‘ بیشک اس کائنات کا جز لاینفک تصور کی جاتی ہے۔ تہذیب و تمدن کا نصف اول یہی عورت ہے۔ اس عورت کی کئی جہتیں ہیں۔ کیفی کی نظم ’’بیوہ کی خودکشی‘‘ ہمارے معاشرے کی فرسودہ اور کھوکھلی تہذیب کو بے نقاب کرتی ہے۔ ’لال جھنڈا‘ ایک علامتی نظم ہے۔ جو کمیونزم کا شناخت نامہ کہی جاسکتی ہے۔ کیفی نے کمیونزم اور ترقی پسند تحریک کے اصولوں کی ہمیشہ پابندی کی۔ کچھ قابل مطالعہ اور اچھی نظمیں اس طرح ہیں، جھنکار، تلنگانہ، بیوہ کی خودکشی، مکان، مژدہ، عورت، دائرہ، میرا ماضی میرے کاندھے پر سوار وغیرہ۔
ساحر نے سماج کی گھناؤنی تصویر پیش کی۔ مگر فیض کی طرح جمالیاتی حس اور اس کے عناصر کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور یہی وجہ ہے کہ نری جذباتیت اور انقلابیت سے ان کی شاعری محفوظ رہی۔ انہوں نے اپنی نظم ’’چکلے‘‘ کے صورت میں اردو شاعری کو ایک لازوال تحفہ عطا کیا جو ماضی، حال اور مستقبل کی فرسودہ و آلودہ تہذیب کا اشاریہ ہے۔ یہ نظم ’’ثنا خوان تقدیس مشرق‘‘ کے لئے زندہ و متحرک چیلنج ہے اور باعث شرم بھی:
یہاں پیر بھی آچکے ہیں اور جواں بھی
تنومند بیٹے بھی ابا میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں بھی
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہے؟
کیفی اعظمی نے لکھا ہے کہ ’چکلے‘ میں ساحر کی غیرت، اس کی روح، اس کے احساس کی تلملاہٹ بلندی کے انتہائی نکتے پر نظر آتی ہے
(فن اور شخصیت، ساحر نمبر۔ ۱۹۸۴۔ ص ۳، ۴)
ساحر مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و ثقافت کے لئے مہلک تصور کرتے ہیں ساتھ ہی پورے عالم میں امن اور سکون کا ماحول چاہتے ہیں۔ فیض بھی امن عالم کے خواہاں تھے۔ ساحر کی نظموں میں جاگیر، تلخیاں، تاج محل، پرچھائیاں، چکلے، اے شریف انسانو! بہت ہی پر اثر ہیں جن میں تہذیب و ثقافت اور انسانیت کے عناصر موجود ہیں۔
ترقی پسند تحریک کے ساتھ ساتھ ایک متوازی رجحان / میلان بھی کام کر رہا تھا۔ یہ در اصل ترقی پسند کا فریق تھا جو اول تو ’’بزم داستان گویاں‘‘ کے نام سے جانا گیا پھر ’’حلقۂ ارباب ذوق‘‘ سے موسوم ہوا۔ یہاں ن۔ م راشد، میرا جی، یوسف ظفر قیوم نظر، ضیا جالندھری، مختار صدیقی کی نظموں کے حوالے سے باتیں کی گئی ہیں۔
ن۔ م راشد کو حلقہ میں ان کی مفرس طرز شاعری اور احساس کو انگیخت کرنے والی فکر کی پیش کش کے سبب خاص اعتبار و مقام حاصل ہے۔ ماورا، گماں کا ممکن، ایران میں اجنبی اور لا= انسان، ان کے شعری مجموعے ہیں۔ ان کی شاعری کا جو مفہوم اور لب لباب ہے وہ یہ ہے کہ حضرت انسان کی عظمت اب بھی مشکوک ہے۔ ان کے شعری تلازموں میں آگ، صحرا، ریت اہم ہیں جن کی مدد سے صحرائی تہذیب اور ماضی کی قدیم روایات نظموں میں پیش کی گئی ہیں۔ میراؔجی بھی قدیم استعاروں اور تلازموں سے شعری منظر نامہ تشکیل دیتے ہیں مگر انہیں برندا بن، شیو اور پاربتی پسند ہیں جب کہ راشد کو حسن کوزہ گر، یوسف عطار جیسے کردار اور بغداد وتہران جیسے معاشرتی تناظر عزیز ہیں۔ جب میراؔجی جنگل اور دھرتی کی خوشبو کو نظموں میں سموتے ہیں تب راشد وطن سے دور کہیں صحرا کی آگ اور ریگ سے منظر تراش رہے ہوتے ہیں۔ راشد نے قومی و ملی بد حالی اور زوال آمادہ تہذیبی اقدار کو پیش کیا ہے۔ راشد اور میراؔجی دونوں کے یہاںاساطیری فضا بندی ملتی ہے ساتھ ہی دونوں کے یہاں ’’عورت‘‘ کے ماورائی اور افلاطونی تصور کو منہدم کرنے کی کوشش بھی ملتی ہے۔ حقیقی گوشت پوست کی عورت ہے جس کا قرب اور لمس محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرح سے یہ کہنا چاہئے کہ راشد اور میرا جی نے ذہنی ہیجان اور ابال کا مداوا تلاش کیا ہے۔ اس عمل میں وہ کہیں کہیں گمراہ بھی ہوئے ہیں۔ میرا جی جان بوجھ کر ماضی کی اتھاہ گہرائیوں میں جھانکتے ہیں جبکہ راشد ماضی سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’ماورا‘‘سے لے کر ’’لا= انسان‘‘ تک وہ ماضی کے تعاقب سے خود کو آزاد نہیں کرا سکے۔ ’’زندگی ایک پیرہ زن‘‘ میں ماضی ہی سے انحراف کی کوشش کی ہے۔
راشد اور میرا جی میں ’مذہب بیزاری‘ قدر مشترک ہے۔ دونوں ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں ہیں مگر دونوں اپنی اپنی دھن میں اپنی اپنی لیک پر نگاہیں نیچی کئے ہوئے۔ دونوں اپنے جہان باطن میں غوطہ زن، جہاں ظاہر کی دنیا بھی ہنگامہ خیزی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اردو نظم نگاری خصوصاََ چوتھی پانچویں دہائی کی تاریخ میں راشد اور میرا جی نے ڈکشن، ہیئت اور موضوعات کے لحاظ سے بیش بہا اضافے کئے۔ پہلی کرن، دل میرے صحرا نورد پیر دل، انسان، دریچہ کے قریب، نئی آگ، زندگی ایک پیرہ زن، اندھا کباڑی، مجھے وداع کر، تسلسل کے صحرا میں، ایسی نظمیں ہیں جن سے راشد کے فکرو فن، ماضی اور حال کے تہذیبی و ثقافتی رموز کی عکاسی ہوتی ہے۔
عکس کی حرکت، حرامی، نامحرم، کلرک کا نغمۂ محبت، کٹھور، برقع، یاتری، سمندر کا بلاوا وغیرہ میرا جی کی نظمیں اہم ہیں جن سے ان کی فکری اساس اور تہذیبی شعور کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان کی نظموں میں پیرہن اور ملبوسات کا ذکر جابجا آیا ہے جو ان کے لئے جنسی ترغیب کے ناگزیر اور موثر اجزا و عوامل ہیں۔
یوسف ظفر نے اپنی شاعری کو زندگی کا خلاصہ بنا کر پیش کیا ہے۔ اپنی نظموں میں تہذیب و تمدن کے حسن و قبح کو فنی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو علمیت اور ابہام کی پرتوں سے گراں بار نہیں ہونے دیا ہے۔ ان کی نظموں کی کئی جہتیں ہیں۔ ان کے آس پاس کہیں چاندنی محو رقص ہوتی ہے، کبھی ان کے سامنے فرنگی دوشیزاؤں کا ناچ ہوتا ہے اور کبھی کالے یتیموں اور بھوکوں اور نا داروں کی طرف ان کا ذہن مائل ہوجاتا ہے۔ چند لائق توجہ نظمیں ہیں۔ چاند کی کرنیں، فرنگی کی یہ دوشیزائیں، اپنی گدرائی ہوئی بانہوں پہ اتراتی ہیں، سائے وغیرہ۔
ضیاؔ جالندھری کی نظم ’’بڑا شہر‘‘ (خواب سراب) کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ایک مشینی اور سائنسی دنیا آباد ہے جہاں بے حسی اور ناآشنائی کا بازار گرم ہے۔ پس منظر ’کراچی‘ ہے۔
کراچی کسی دیو قامت کیکڑے کی طرح
سمندر کے ساحل پہ پاؤں پسارے پڑا ہے
نسیں اس کی فولاد آہن
بدن، ریت، سیمنٹ، پتھر
بسیں، ٹیکسیاں، کاریں، رکشا رگوں میں لہو کے بجائے
کہیں کہیں وہ ن۔ م راشدؔ کے ڈکشن کے قریب نظر آتے ہیں۔ جیسے:۔
عزّ و ناموس یہاں صورت سائل گریاں
سر بہ زانو ہیں کہ ان کا کوئی پر ساں نہ رہا
وحشتیں نعرہ زناں شہر میں انساں نہ رہا
(زوال۔ پس حرف)
جب وہ ویران عبادت گاہوں کو دیکھتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ ماضی کی مذہبی اور تہذیبی میراث اپنی شناخت کھوتی جا رہی ہے۔ نظم ’’ویرانے‘‘ اسی فکر کا اشاریہ ہے۔ ہابیل، ساملی۔۱، موج ریگ، دو روپ، زوال، نئی پود وغیرہ کے مطالعے سے ضیا کے تاریخی و تہذیبی شعور کے بالیدہ ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی نظموں کی تفہیم آسان ہے کہ علامتوں یا مبہم استعاروں کی دبیز پرتیں ان کے یہاں نہیں ہیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page