ڈاکٹر مستفیض احد عارفی
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو
ایل ایس کالج ،مظفرپور
آزادی سے پہلے اردو مشترکہ کلچر کی ایک عالمی زبان تسلیم کی جاچکی ہے۔ اس کا ادبی سرمایہ بے حد وقیع ہے۔ اس لئے کہ نئی اور پرانی قدروں کا اس میں ملا جلا روپ نظر آتا ہے ،ساتھ ہی اس میں روایات کے احترام کا جذبہ بھی، نئے جوش و ولولے اور نئی امنگیں بھی ہیں اور بعض صورتوں میں روایت شکنی بھی۔ یہ ساری چیزیں اس لئے ہیں کہ ہندوستان کی سماجی تاریخ اتار چڑھائو سے عبارت ہے۔ یہاں کا سماجی نظام کبھی کسی ایک دھراتل پر یا کسی ایک مرکز پر نہیں رہا بلکہ ہمیشہ اور ہمہ وقت تبدیل ہوتا رہاہے۔ تبدیلی وقت کی ضرورت بھی ہے اور زندہ قوموں کی پہچان کا ضامن بھی ہوا کرتی ہے۔اردو ادب میں تبدیلی کا یہ مرحلہ پندرہویں صدی عیسوی کے بعد آتا ہے اس لئے کہ احمد شاہ ابدالی کا زمانہ یہی ہے۔ اس کے بعد نادر شاہ درانی ۔ ۱۸۵۲ء کا غدر، جنگ عظیم کی ہولناکی ، روسی انقلاب ، ہندوستان کی آزادی اور تقسیم ہند کے اثرات یہ سب ایسے حقائق ہیں جس سے سماجی ، سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی اتار چڑھائو کے متعلق واضح تعین فراہم ہوجاتا ہے ۔ یہاں مجھے اس کی وضاحت مقصود نہیں ہے بلکہ بتانامقصود یہ ہے کہ اردو شاعری بھی انہیں اتار چڑھائو سے عبارت ہے۔ اس لئے کہ شاعر اور ادیب صرف ساحل کے تماشائی نہیں ہوتے بلکہ زندگی کی حقیقت اور اس کی اصلیت سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ معاشرے میں ان کی حیثیت ایسی ہے جیسے کہ انسانی جسم میں آنکھ کی ہوتی ہے، جسم میں کہیں بھی درد ہو آنکھ آنسو بہاتی ہے۔جاننا چاہیے کہ جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ ایسا تھا کہ پوری دنیا میں ایک ہلچل سی تھی ۔ زندگی نئی کروٹ سے دوچار تھی، اس پرہول اور تباہ کن معاشرے میں تقسیم ہند اور ہندوستان کی آزادی کے رد عمل سے دو چار ہندوستانی عوام، بے یار و مددگار تھے۔ چہار سمت اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ منتشر الخیالی اور لاشعوری کا عالم تھا ۔ ایسے میں جب عوامی سطح پر زندگی کا پیراہن چاک ہورہا تھا توادباء اور شعراء حضرات نے بھی اس پر آنسو بہائے اورزندگی کے چاک شدہ پیراہن کو رفو کرنے کی تدبیر یں بھی کر رہے تھے ۔ایسے پرہول ماحول میں عوام کے ساتھ ادباء اور شعراء بھی استقامت کے ساتھ کھڑے رہے۔ انسانیت میں بھی ا س کا عقیدہ بحال رہا۔ وہ محض اپنی قومی زندگی کے دامن کے رفو کی تدبیر ہی میں مصروف نہیں رہے بلکہ دنیا میں اور خصوصاً ایشیا میں جو کچھ ہورہا تھا اس سے بھی ان لوگوں نے اپنی آگاہی کا ثبوت دیا۔یہ ماننا چاہئے کہ زیر بحث دور فی الحقیقت نو آبادیاتی نظام کے خاتمے اور صدیوں سے مجبور عوام کی آزادی کی تحریکوں کے بار آور ہونے کا دور ہے۔ عالمی سطح پر جو کچھ ہورہا تھا ہندوستانی فنکارکی ان سے دلچسپی فطری اورلازمی تھی ۔ چین ہو یا کوریا ، ایران ہو یامصر یاپھر انڈونیشیا ،شاعر نے مظلوم عوام کے دکھ درد کو محسوس کیا اور اس شعر کے مصداق :
کہیں بجلی گرے وہ اپنا گلشن ہوکہ اوروں کا
مجھے اپنی ہی شاخ آشیاں معلوم ہوتی ہے
اس پر عمل کیا۔ اس نے استحصال کن طاقتوں کے خلاف عوام کی سرفروشی کی ستائش اور ان کی آزادی کی جدوجہد کی پرخلوص اور پرزور حمایت کی اور اس طرح اس نے شاعری میں سیاسی وسماجی مسائل کو موضوع بناکراقبالؔ کی اس روایت کو زندہ رکھا جو بالخصوص ان کی نظم ’’خضر راہ‘‘ سے تسلیم کی گئی ہے۔ اقبالؔ کی اس روایت کو ترقی تحریک اور حلقہ ارباب ذوق پر ایمان رکھنے والوں نے واضح رخ دینے کی کوشش کی تھی ۔ بقول ڈاکٹر اعجاز حسین :
’’آزادی کے سودائی کہیں بھی ہوں ہمارے شعراء ان کی جدوجہد کو اپنی کوشش سمجھ کر سراہتے رہے۔‘‘
یہ شعور کا ایک ایسا نظریہ اور ایک ایسا رجحان تھا جس میں مذہب سے زیادہ انسانیت اور آزادی کی قدر وقیمت کا احساس تھا۔ یہ رجحان کچھ خدا ترس، فراخدلی اور روایتی وسیع النظری کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس رجحان سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے شاعر کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ ساری دنیا ایک ہی زنجیر میں بندھی ہے اور اب جغرافیائی اعتبار سے خواہ کتنی ہی دور کوئی واقعہ یا حادثہ ہو دوسری جگہ اس کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ اس رجحان سے اس احساس کا بھی پتہ چلتا ہے کہ دراصل اقتصادی صورت حال ہی پر زندگی کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔ ایک ملک کی اقتصادی محکومی دوسرے ملکوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور جنگ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو سب کا اس سے متاثر ہونا لازمی ہے۔ میرے خیال میں انسان دوستی کا یہ شعور اردو شاعری میں ابتدا سے ہی چلا آرہا ہے اس لئے کہ صوفی ازم کے خمیر سے ہی اردو شاعری کا کونپل تیار ہوا تھا اس میں انسان دوستی، مساوات ، ہمدردی اور رواداری کو مذہبی عقیدت سے زیادہ اہمیت دیا گیا۔ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک اور تقسیم ہند کے بعد تک کسی نہ کسی پیرایہ میں انہیں موضوعات کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔ واضح ہو کہ ان موضوعات کا تعلق ۱۹۷۰ء سے پہلے کا ہے اس کے بعد جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے زمانے میں مصلحت پسندی اور حکمت پسندی کی میراث میںمذکورہ موضوعات کو پیش کیا گیا ۔ یہ اور بات ہے کہ اس پر مغربی تہذیب اور اس کی ارتقائی مرحلے کی شورش زیادہ ہے اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
آزادی کے بعد ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ تقریباً ۱۹۷۰ء سے قبل سماجی زندگی میں جو انتشار اور افراتفری کا ماحول پیدا ہوا اسکا تعلق ارباب ادب کے ماننے والوں نے اسے روسی انقلاب سے ملایا ہے۔ اس ضمن میں شارب رودولوی کاماننا ہے کہ :
’’۱۹۱۷ء میں روسی انقلاب کی کامیابی سے محنت کش عوام اور صدیوں سے استحصال کا شکار انسانوںمیں بیداری کی لہر آئی جس نے ہندوستان میں بھی آزادی کی تمنائوں کو تیز تر کردیا اور فضائوںمیں یہ آوازیں گونجنے لگیں۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اردو شاعری کی اس آواز نے آگے چل کر سامراجیت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جس میں ایک طرف اقبال زبان خضر سے سرمایہ داری کی برائیوں کو ظاہر کر رہے تھے اور بندئہ مزدور کو خضر کا پیغام پہونچا رہے تھے، دوسری طرف جوش اپنی پرزور بیان اور پرشور لہجے میں لوگوں کو برطانوی سامراجیت سے بغاوت اور انقلاب کے ساتھ ، خود اعتمادی ، عزت نفس اور بلند حوصلگی کا درس دے رہے تھے۔ اس پس منظر میں ترقی پسند نقطۂ نظر کی مقبولیت اور ہر خاص و عام کی اس سے ہمدردی اور حمایت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ یہی وہ حالات تھے جن میں ترقی پسندی نئی نسل کے خوابوں اور آرزئو ں کا حصہ بن گئی اور نظم ہو یا غزل ہر ایک میں ایک ہی نعرہ سنائی دینے لگا اور وہ تھا انقلاب کانعرہ۔ ‘‘
اصل میں سماجی، سیاسی اور معاشرتی سطح پر روسی انقلاب کی وجہ سے تبدیلیوں کا جو نقشہ ابھرا تھا اردو کے شاعر اور ادیب پر اس کا براہ راست اثر پڑا۔ جب تخریب کے شعلے تہذیب و شائستگی کے خرمن کو جلا رہے ہوں اور اس میں خرمن ہستی بھی جھلس گیا ہو تو نَے نوازی اور فنکار کے فکر وفن میں ندرت کی گنجائش کہاں۔ چنانچہ اردو شاعروں نے جنگ عظیم کے خاتمے اور غلامی کے بندھن ٹوٹنے پر جس جوش کا اظہار کیا اس میں والہانہ سرخوشی کے جذبات تو تھے لیکن اس سے زیادہ جن حالات میں آزادی ملی اور آزادی کے بعد ہمارے معاشرے پر جو کچھ گذرا اس کے رد عمل کے طور پر اضمحلال ، بے چینی اور برہمی کے آثار نمایاں تھے۔ شعری کارناموں میں فکر وفن کا وہ امتزاج ذرا کم دیکھنے میں آیا جو اقبال کی شاعری میںنمایاں ہوا تھا۔ ان میں گہرائی اور کسی شاعر کی انفرادی شان کے مقابلے میں سامنے کی حقیقت کا دوٹوک بیان اور یکسانیت زیادہ جھلکتی ہے ۔ جس سے اس دور کی ہنگامی کیفیت کی شدت کا پتہ چلتا ہے ۔ پھر بھی اس میں شک نہیں کہ ہمارے لکھنے والوں نے صحت مند تخلیقات پیش کرنے کا حوصلہ قائم رکھا۔ ان کی برہمی اور کبھی کبھی ناصحانہ انداز، زندگی سے قربت اور اپنے سماج سے ان کی یگانگت اور محبت کا ثبوت ہے۔
آزادی سے ذرا پہلے کے ادب کا تجزیہ کیا جائے تو سب سے اہم رجحان یہ نظر آتا ہے کہ فرقہ پرستی کا خاتمہ کیا جائے۔کیونکہ یہ انگریزی سیاست کی پیداوار ہے۔ یہی رجحان پیش نظر دور (۱۹۴۷ء تا ۱۹۶۲ء) کے اوائل کی اردو شاعری میں بھی نمایاں ہے۔ شعری ادب میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں ہمارے شاعروں نے نہ صرف برطانوی حکمت عملی سے خبردار کیا بلکہ قومی رہنمائوں پر کڑی تنقید بھی کی۔ آزادی کے بعد شعراء نے سماجی حقائق سے کیا اثر لیا؟ اور انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار مختلف شعری اصناف میں کس طرح کیا؟ یہاں اس کی تلاش و تجزیے کی کوشش کی گئی ہے ۔
آزادی کے بعد ملک میں ایسے حالات رونما ہوئے جنہوں نے تہذیب اور انسانیت کو شدید صدمہ پہنچایا ۔ یہ حالات اس قدر غیر متوقع اور اتفاقیہ تھے کہ ان کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اردو شعراء اس طوفان میں بھی بنیادی طور پر انسانی قدروں کا احساس دلاتے رہے۔ ان حالات میں بھی ترقی پسندی کے علمبردار دسمبر ۱۹۴۷ء (لکھنؤ) جنوری ۱۹۴۹ء (بھوپال)اور اپریل ۱۹۴۹ء (لکھنؤ) کی کانفرنسوں کے ذریعے بکھرے ہوئے جذباتی تہذیبی اور سماجی شیرازے کو یکجا کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ شارب رودولوی کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’آزادی کے ساتھ ملک میں جس طرح قتل و غارت گری اور تہذیبی اور سماجی بحران کا بازار گرم ہوا اس کے خلاف جنگ کی پہلی آواز ترقی پسند شعرا نے اٹھائی اور اس ہیجانی فضا کو اپنی شاعری اور دوسری تحریروں کے ذریعہ ختم کرنے کی کوشش کی۔ آزادی جس شکل میںملی تھی ۔ ترقی پسند شاعروں نے اس آزادی کو مانگی ہوئی رہائی کی طرح بے بال و پر اور کامن ویلتھ کی غلامی قرار دیا۔ اس لئے اس وقت کے شعراء کے یہاں جو احساس سب سے زیادہ شدت سے نظر آتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ آزادی، فریب آزادی اور رہنمائوں کی سازش ہے۔ یہ وہ آزادی نہیں ہے جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا۔‘‘
وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ:
’’اردو شاعری کوئی سیاسی یا سماجی انقلاب لانے میں کامیاب ہوئی یا نہیں لیکن ادب میں اسے انقلاب لانے میں ضرور کامیابی ملی۔ اس نے نہ صرف پورا ادبی منظرنامہ ہی بدل دیا بلکہ اس نے بنیادی فکر اوراس کے approachکو بھی متاثر کیا ۔ اردو شاعری جو آزادی سے پہلے نوجوان نسل کے خوابو ں کی تعمیر تھی اس نے آزادی کے بعد اختلافات کے باوجود جس بنیادی فکر پر زور دیا تھا وہ زندگی کا خوبصورت اور پر مسرت تصور ، فکر وفن کی آزادی،امن اور بقائے باہم کا جذبہ تھا۔ جو نہ صرف اس وقت اہم تھا بلکہ آج بھی اہم ہے۔ ‘‘
اس دور کے شعراء میں اقبال، جوش، فیض، جگر، سردار جعفری، اختر الایمان ، بلراج کومل، مجاز، جذبی، روش صدیقی، فراق گورکھپوری ، آنند نرائن ملا، پرویز شاہدی، جمیل مظہری ، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، اختر شیرانی، جاں نثار اختروغیرہ نے اہم کردار اداکیا۔ ان لوگوں نے مجموعی طور پر اتحاد و اتفاق ، یگانگت ، قومی بیداری، حب الوطنی اور انسان دوستی کے موضوعات کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ۔ یہ لوگ مختلف نظریوں کے حامی ہونے کے باوجود موضوعاتی سطح پر ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ شعری اظہار،ہیئتی تجربے، روایتی لفظیات کی عصری معنویت اور مختلف زاویوں سے سوچنے سمجھنے کا پیرایہ عطا کیا ۔ لیکن تقسیم ہند کی تاریک فضائوںمیں سب کے سب دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ اس سے ہم چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ آزادی کے بعد کی شاعری انہیں فضائوں کا اظہاریہ ہے لیکن انداز پیش کش اور اس کی نوعیت جدا جدا ہے۔ آزادی سے قبل نشاط و رجائیت کے جن جذبات سے ہمارے شاعر سرشار تھے وہ ٹھنڈے پر گئے، خواب بکھر گئے اور یہ محسوس کیا گیا ۔
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آ ج کل
ایسے میں آزادی اور اس کے ساتھ آنے والے بھیانک طوفان پر متذکرہ شعراء نے اپنا رد عمل جس طرح ظاہر کیا ہے وہ مندرجہ ذیل اشعار سے معلوم پڑتا ہے:
تم نے فردوس کے بدلے میں جہنم لیکے
کہہ دیا ہم سے گلستاں میں بہار آئی ہے
چندسکوں کے عوض چندملمعوں کے لئے
تم نے ناموس شہیدان وطن بیچ دیا
باغبان بن کے اٹھے اور چمن بیچ دیا
کون آزاد ہوا ؟
کس کے ماتھے سے سیاہی چھوٹی
٭٭
میرے سینے میں ابھی درد ہے محکومی کا
مادر ہند کے چہرے پہ اداسی ہے وہی
خنجر آزاد ہیں سینوں میں اترنے کے لئے
موت آزاد ہے لاشوں پہ گذرنے کے لئے
(سردارجعفری (فریب)
فیض اسے داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر قرار دیتے ہیں:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کایہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لیکر
چلے تھے یار کہ مل جائیں گی کہیں نہ کہیں
کہاں سے آئی نگار صہبا کدھر کو گئی
ابھی چراغ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدئہ دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
(فیض احمد فیض)
آزادی کے بعد کے اس دلخراش منظر کو جب جوش ملیح آبادی نے بیان کیا تو اس میں تلخ نوائی اس قدر در آئی کہ اس میں مرثیہ پن اور ہجو یہ اندازنمایاں ہونے لگتا ہے۔ مثلاً
اے ہم نشیں فسانۂ ہندوستاں نہ پوچھ
روداد جام بخشیٔ پیر مغاں نہ پوچھ
بربط سے کیوں بلند ہوئی ہے فغاں نہ پوچھ
کیوں باغ پر محیط ہے ابر خزاں نہ پوچھ
کیا کیا نہ گل کھلے روش فیض عام سے
کانٹے پڑے زبان میں پھولوں کے نام سے
سروِ سہی نہ ساز، نہ سنبل نہ سبزہ زار
بلبل نہ باغباں نہ بہاراں نہ برگ و بار
جیہوں نہ جامِ جم نہ جوانی نہ جوئے بار
گلشن نہ گلبدن نہ گلابی نہ گل عذار
اب بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ نو کی دعامانگتے ہیں لوگ
(جوش ملیح آبادی (نوبہار)
یہی دن ہے جس کے لئے میں نے کاٹی تھیں آنکھوںمیں راتیں
یہی سیل آبِ بقا، چشمۂ نادر ہے، جلوئہ طور ہے وہ!
اسی کے لئے وہ سہانے مدھر، رس بھرے گیت گائے تھے میں نے
یہی ماہ وش نشۂ حسن سے چور ، بھرپور ، مخمور ہے وہ!
وہی کس مپرسی وہی بے حسی آج بھی ہر طرف کیوں ہے طاری
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے یہ میری محنت کا حاصل نہیں ہے
ابھی تو وہی رنگِ محفل، وہی جبر ہے، ہر طرف زخم خوردہ ہے انساں
جہاں تم مجھے لے کے آئے ہو یہ وادیٔ رنگ بھی میری منزل نہیں ہے
شہیدوں کا خوں اس حسینہ کے چہرے کا غازہ نہیں ہے
جسے تم اٹھائے لیے جارہے ہو یہ شب کا جنازہ نہیں ہے
اخترالایمان (پندرہ اگست ۱۹۴۷)
امن سے برہم و برگشتہ یہ تیغوں کامزاج
رسم و تہذیب کی ہوتی ہوئیں قدریں تاراج
ہند کی کہنہ روایات کی لٹتی ہوئی لاج
خاک جمنا پہ بیہوش سا ہوتا ہوا تاج
اک سیاہی رخ روشن پہ ہے پھرنے کے قریب
چاند کے خود ٹوٹ کے افلاک سے گرنے کے قریب
(جاں نثار اختر (فریب بہار)
سفر
کہاں ہوگی سحر؟
اے قافلہ والو! زباں کھولو
یہ شب کی رہگذر ناگن
اماں اس سے کہاں لیکن۔۔۔۔۔۔
سفر معمولی
حرکت سے مگر عاری
ہمیشہ سمت سے خالی
نگاہ و دل کے ترکش میں
ہزاروں تیر ہیں لیکن
ارادوں کی کماں گر ہے (بلراج کومل )
ماں
کس نے ان آہنی دروازوں کے پٹ کھول دیئے
کس نے خونخوار درندوں کو یہاں چھوڑ دیا
کس نے آنچل پہ مرے ڈال دیے انگارے
ٹھیک سے کٹنے بھی نہ پایا تھا طوق گردن
ابھی تو صدیوں کا پامال تھا میرا خرمن
اس پہ ان وحشی لٹیروں نے سیہ کاروں نے
میرے ارمانوں کو تاراج کیا ، لوٹ لیا۔۔۔۔۔
بند ایوان تمدن کے دریچے کیوں ہیں
عارض لبیک بھی مانگوں تو میں کس سے مانگوں وامق جونپوری
ان مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر نے واقعات پر کبھی برہمی کا اظہار کیا کبھی انفرادی طور پر ان کا تجزیہ کرکے رجائی انداز میں سوچا لیکن آزادی کے مبارک موقع پر وہ وطن کے ان فدائیوں کو نہیں بھولا جو ’’فخر آدمیت‘‘ اور ’’افتخار زندگی‘‘ تھے ۔ ان کے ذہن کے نہاں خانوں میں حکیم اجمل خاں، تلک ڈیسائی، ٹیپو سلطان، بہادر شاہ ظفر، مولانا آزاد، محمد علی جوہر ، جھانسی کی رانی ، مہاتما گاندھی موجود تھے ۔ ان لوگوں نے بے دریغ وطن کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کی بازی لگائی تھی اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ حیران و پریشان برہمی کے عالم میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اس تباہی و بربادی کا ذمہ دار کس کو قرار دیا جائے۔ برہمی کی اس رو میں آزادی کو ہمارے شاعر نے مغربی شیطنیت کی چال اور فرنگی سیاست کا طلسم اور واعظ قوم کی ناکارہ قیادت کا فریب قرار دے دیا۔ تشکیک کی یہ آواز اردو شاعری کی غالب آوازی نہ بن سکی اور جلد ہی ڈوب بھی گئی۔ دراصل جب آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہو اور زندگی تمام تر بساط کار زار بنی ہوئی ہو تو رندی و رومانیت یا عشق و ہوس فراموش ہوجاتے ہیں۔ اس لئے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد اردو شاعری میں جس قدر نظمیہ شاعری کی بہتات ہوئی اس سے غزل گو شاعر اپنے مزاج کے اعتبار سے بے حد پریشان ہوئے اس درمیان ایسا بھی ہوا کہ غزل گو شاعروں نے غزلیہ فارم میں ہی غزل کہنا شروع کردیا یا پھر معنوی تسلسل کے پیش نظر غزل کے اوپر عنوان لگانا شروع کردیا۔ جگر مراد آبادی نے اس دور کو یوں بیان کیا ہے:
فکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کل
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
ساز حیات ساز شکستہ ہے ان دنوں
بزم خیال جنت ویراں ہے آج کل
آنکھیں تمام مشہد عشق و جمال ہیں
سینہ تمام گنج شہیداں ہے آج کل
دل کی جراحتوں کے کھلے ہیں چمن چمن
اور اس کا نام فضل بہاراں ہے آج کل
کیسا خلوص کس کی محبت کہاں کا درد
خود زندگی متاع گریزاں ہے آج کل
کانٹے کسی کے حق میں کسی کو گل و ثمر
کیا خوب رہنما پر گلستاں ہے آج کل
اس درمیان جہاں غزلیہ فارم میں معنوی تسلسل کو فروغ ملا وہیں آزاد نظم ، نظم معریٰ اور نثری نظم بھی خوب ترقی پایا لیکن مجموعی طور پر فنکاروں کا بس ایک ہی رجحان تھا کہ ہم نے جو خواب دیکھے تھے یہ آزادی اس خواب کی تعبیر نہیں ہے۔
واضح رہے کہ یہاں پر بات سیاسی فیصلوں کے صحیح یا غلط ہونے کی نہیں ہے بلکہ اس کی ہے کہ اردو کی شعری فکر اور وسعت اظہار پر اس کا کیا اثر پڑا۔ یہاں پر زیادہ مثالوں کی گنجائش نہیں ہے اس لئے میں نے اسی پر اکتفا کیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی توجہ کے لائق ہے کہ کوئی شخص مخالفت میں راست بیانی اور سیاسی بلند آہنگی کے حوالوں کے لئے قحط بنگال سے لے کر آزادی کے بعد کی شاعری تک صرف پر زور نعروں اور پرشور جذبوں کی مثالیں بھی دے سکتا ہے ۔ میرے خیال میں ان نظموں کی بھی ایک اہمیت ہے اس طرح فنکا ر وں نے اپنے زمانے میں سینکڑوں عاشقانہ اشعار اور ماورائی کیفیات سے لوگوں کو متاثر کیا یہ اس وقت کی ضرورت تھی اور آج تاریخ کا بیش قیمت حصہ ہے۔
اس سب کے باوجود تقسیم ہند کے بعد ہمیں جو چیز متاثر کرتی ہے وہ ہے شعری موضوعات میں تنوع اور وسعت۔ اس لئے کہ ۱۹۷۰ء تک قصۂ آزادی جو ایک رخ پر تھی اس میں کئی رخ پیدا ہوگئے۔ فسادات نے انسانی سائیکی میں ایسا خوف ، عدم تحفظ کا احساس اور بے اعتباری پیدا کردی جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھنے لگا۔ اس بے یقینی کے دور میں بھی بعض لوگوں نے رجائیت اور انسانیت کے فتح یاب ہونے کا پیغام دیا ہے ۔ آج اس سائیکی کو سمجھے بغیر اس کا اندازہ لگانا غلط ہوسکتا ہے لیکن جنہوں نے وہ حالات دیکھے ہیں وہ اس کی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ مثلاً
مسافر شب تار پہ روشن ہے
کہ اور بھی انہیں کرنا ہے ظلمتوں کا سفر
مگر تصور مہر جبیں کو کیا کہئے
کہ رات ہی سے درخشاں ہے تاک رہ گذار
ہے سطوت شب تاریک ریگ کی دیوار
ہوائے تند کے دامن میں پل رہی ہے سحر (پرویز شاہدی)
کچھ ہو امید کی سینے میں جھلک آج بھی ہے
دل میں بجھتے ہوئے شعلے کی لپک آج بھی ہے
پردئہ راز میں ہلکی سی دھنک آج بھی ہے
اب ذرا صبر کہ گل رنگ گھٹا چھائے گی
اس گلستاں میں کوئی سرخ بہار آئے گی
(جاں نثار اختر)
آزادی کے بعد اردو شاعری کا سب سے بڑا کارنامہ کلاسیکیت کے قفل کو توڑ کر نظم اور غزل دونوںمیں زبان ، اسلوب اور اظہار کے تجربوں کے دروازے کو کھولنا ہے۔ یہاں پر اس بحث سے میر ا تعلق یہ نہیں ہے کہ تجربے مغربی شعری اصناف کی نقل تھے یا اردو میں ترقی پسند شعرا سے پہلے کچھ لوگوں نے اس طرح کی نظمیں کبھی لکھی تھیں۔ لیکن چونکہ آزادی کے بعد کے شعراء نے ہی وسیع پیمانے پر اسے برتا ، اس کی مقبولیت کا سبب بنے اور اردو شاعری میں ایک ہیئت کی حیثیت سے اسے رائج کیا اس لئے یہ تجربے انہیں کے نام لکھے جائیں تو غلط نہیں ہے۔ انہوں نے روایتی شاعری کے دھارے کو ایک نئی فکری جہت دی اور ان کے ان تجربوں نے اردو شاعری کو براہ راست زندگی اور اس کے مسائل سے جوڑ دیا۔ آزادی ہند کے بعد شاعری کی اہمیت ان تجربوں سے جو بھی ہو لیکن اس کی بنیادی اہمیت موضوع اور موادکے تجربے کی ہے جسے ترقی پسند ی کا فکری رجحان بھی کہہ سکتے ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسے کئی خانوں میں بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ اہم نظریاتی رجحان ہے۔ جس کی بلند آہنگی اور سیاسی و نظریاتی شدت، اعتراضات کا ہدف بنی۔ جن شعراء نے اس رجحان کو فروغ دیا ان میں جوش ملیح آبادی ، سردار جعفری ، نیاز حیدر، کیفی اعظمی، فیض احمد فیض، مجروح سلطانپوری ، مخدوم ، جاں نثار اختر، وامق جونپوری اور پرویز شاہدی وغیرہ کے نام بہت اہم ہیں۔ ان شعراء نے نظموں میں سماجی معنویت اور ادیب کی سماجی ذمہ داری پر زور دیا اور انفرادی و ذاتی شکست و ریخت اور غم یاس کو آج کے بجائے اجتماعی تمنائوں اور آرزوئوں میں اپنے بھی غم کا مداوا تلاش کیا۔
تقسیم ہند کے بعد شعراء نے جس دوسرے رجحان کو عوامی مقبولیت دی وہ قوم پرستی کا رجحان ہے۔ اردو شاعری میں حب الوطنی کا رجحان نیا نہیں ہے۔ اقبال، چکبست ، تلوک چند محروم، سیماب اکبر آبادی اور دوسرے بہت سے شعراء کے یہاں حب الوطنی کے جذبات عام ہیں۔ لیکن عوامی سطح پر اس جذبے کو بیدار کرنے اور اسے ایک تحریک کی شکل دینے کا کام ترقی پسند شعراء نے کیا۔ اس لئے اس عہد میں ترقی پسند اور غیر ترقی پسند کی تفریق کے بغیر ایسا کوئی شاعر نہیں ملے گا جس کے یہاں قوم پرستی کا رجحان نہ نظر آئے ۔ ترقی پسند شاعری کی بلند آہنگی اور نظریہ سازی کا دور بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے وسط تک ختم ہوگیا اور اس کے بعد اس دور کا آغاز ہوا۔ جسے بعض لوگوں نے نئی ترقی پسندی کا نام دیا ہے۔ جہاں بلند آہنگی اور راست بیانی ایک نرم اور سبک دھارے میں تبدیل ہوگئی اس کے علاوہ خارجی اور انفرادی طور پر قوم پرستی اور عاشقی ایک دوسرے میں مدغم ہوکر غنائیت ، جمالیاتی قدروں کے احساس اور تخلیقی تہہ داری میں تبدیل ہوگئی۔ یہ تبدیلی آزادی کے بعد شعراء کی پہلی نسل اور بعد کی نسل دونوں کے یہاںنمایاں ہے۔ سردارجعفری ، فیض ، اختر الایمان ، فراق، مجروح ، مجاز، ن۔ م۔ راشد ، مخدوم، شمیم کرہانی، تاباں، ساغر نظامی ، رفعت سروش، سلام مچھلی شہری، مظہر امام، راہی معصوم رضا، قتیل شفائی اوراس میں ان کے بعد کے دوسرے شعراء بھی شامل ہیں۔ ان شعراء نے نظم اور غزل دونوںمیں اپنی فکر کے جوہر دکھائے اور خاص طور پر غزل جس پر روایت اور کلاسیکیت کی بندش زیادہ سخت تھی اسے اپنے فکری اور لسانی تجربوں سے وسعت آشنا کیا۔ اس عہد کے شعراء و شاعرات کے یہاں غزل میں تازگی اور معنویت کے ساتھ تجربے کی سچائی ہے۔ اس نئی غزل میں افسردگی، یاس، ناکامی اور بے دلی کے بجائے محسوسات کی ایک خوش رنگ دنیا ہے جسے آج کے شاعر نے اپنے تجربات و محسوسات سے دریافت کیا ہے۔ جس میں روایتی قافیہ پیمائی اور خیال آرائی نہیں۔ آج کے حالات سے نبرد آزما خود شاعر کی ذات ہے جہاں وہ عشق میں زخم ہی نہیں کھاتا ، مسکراتا بھی ہے اور دنیا صرف مرکز آلام و مصائب ہی نہیں بلکہ جینے کا حوصلہ اور مسرت و خوشیاں بھی دیتی ہے۔ اس لئے ان کی شاعری اپنی لفظیات ہی میں نہیں اپنی فکر میں بھی نئی ہے۔ ان کی زبان استعاراتی، علامتی اور کھردری ہوسکتی ہے اس لئے کہ وہ کئی قسطوں پر اپنا فکری سفر طئے کرتی ہے۔یہاں حالانکہ زیر بحث موضوع نظمیہ شاعری ہے اس لئے غزلیہ شعری روایت سے ترک تعلق چند مثالیں نظمیہ شعری کے اس نظام سے دی جارہی ہیں کہ اس کی ہو بہو آئینہ داری کرتا ہو۔ ساتھ ہی ترقی پسندی سے پیدا ہونے والے فکری اور موضوعی تنوع کا احساس بھی تازہ ہوسکے مثلاً شہریار کی نظم ’’فیصلے کی گھڑی‘‘ ملاحظہ کریں:
بارشیں پھر زمینوں سے ناراض ہیں
اور سمندر سبھی خشک ہیں
کھردری، سخت، بنجر زمینوںمیں کیا بوئے اورکیا کاٹئے
آنکھ کے اوس کے چند قطروں سے کیا ان زمینوں کو سیراب کرپائوگے
گندم و جو کے خوشوں کی خوشبو تمہارا مقدر نہیں
آسمانوں سے تم کو رقابت رہی
اور زمینوں سے تم بے تعلق رہے
فیصلے کی گھڑی آگئی کچھ کرو
تتلیوں کے سنہرے ، ہرے، سرخ، نیلے پروں کے لئے
آنکھ کی اوس کے چند قطروں سے بنجر زمین کے کسی گوشے میں
پھول پھر سے اگانے کی کوشش کرو ( شہر یار)
بلرام کومل کا شعری نظام پہلودار ہے۔ موضوعات کی سطح پر لفظیات کی سطح پر، او رہیئت کی سطح پر شعری معنویت میں تنوع لازمی ہے لیکن ان کی علامتوں کی گہرائی ان کے شعری معاشرے کا ایک حصہ ہے۔ مثلاً یہ نظم ملاحظہ ہو:
صبا کے ہاتھ پیلے ہوگئے
کیا اب لالہ و گل کی طرح شاید نہیں آتی
صبا شبنم ادا، تصویر پابستہ
در روزن میں آویزاںحسیں نازک بدن
روشنی منور ساحلوں پر اب نہیں بہتی
صبا لب کھولتی ہے، مسکراتی ہے
صبا سرگوشیوں میں
اب کسی سے کچھ نہیں کہتی (بلراج کومل)
مذکورہ اشعار میں سرحد کی دونوں جانب جدائی سے مرتکب روداد کو محسوس کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ اپنوں سے بچھڑنے کا غم، خاندان کے لٹ جانے کا غم ، ٹوٹنے بکھرنے کی روداد در و دیوار سے پرے بستی کا تصوراور جاگیرداری کا خاتمہ جیسے موضوعات کو اس سلیقے سے پیش کیا گیا ہے کہ اب زمانہ گذر جانے کے بعد آج کی داستان معلوم پڑتی ہے۔ حالانکہ یہ ایسی سچائی ہے جسے وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے ماحول کے اس انتشارات کا مشاہدہ کئے ہیں۔ اس درمیان ایک اور نیا موضوع جو اردو شاعری کا حصہ بنا وہ عورتوں کے مسائل تھے۔ ترقی پسند شاعری کے زیر اثر نہ صرف یہ کہ بہت بڑی تعداد میں شعر کہنے والی خواتین سامنے آئیں بلکہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ایسے مسائل اور ایسے سوالات اٹھائے جو اردو شاعری میں اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھائے گئے تھے۔ ان سوالات میں سب سے بڑا سوال مردوں کی بالادستی اور ان کے بنائے ہوئے قوانین سے ہے اس لئے کہ عورت کی شخصیت اور اس کے حقوق کا فطری تصور جو ہمارے سماج نے متعین کیا تھا آج کی عورتیں اس فریم میں خود کو فٹ محسوس نہیں کر پاتی ہیں وجہ جو بھی ہو عورتیں اپنا تحفظ اور بقا چاہتی ہیں چنانچہ انہیں حقوق کی حصولیابی میں عورتیں ان قوانین سے شدید طور پر احتجاج کرتی ہیں اور ایک ایسے قوانین کی خواہاں ہیں جو آج کے جملہ امو رپر فٹ بیٹھتا ہو ۔ تانیثیت کے تعلق سے آزادی کے بعد کی شاعری میں اس طرح کے موضوعات کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا گیا۔ ان شاعرات نے صرف احتجاج ہی نہیں کیا بلکہ اردو شاعری کو ایک نئی زبان اور فکر دی۔ ان کی شاعری کے موضوعات بھی اردو کے عام شعراء سے مختلف ہیں اور ان میں بڑا تنوع ہے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر پروین شاکر، کشور ناہید، ساجدہ زیدی ، بلقیس ظفیر الحسن، نسیم سیدہ، ادا جعفری وغیرہ کا نام ناقابل فراموش ہے۔ اشعار ملاحظہ ہو:
سمندر کی بیٹی
وسعتوں سے سدا اس کا ناتا رہا تھا
کھلے آسمانوں
کھلے پانیوں
اور کھلے بازوئوں سے ہمیشہ محبت رہی تھی
ہوا آگ، پانی، کرن اور خوشبو
وہ سارے عناصر جو پھیلیں تو ہر دو جہاں اپنی بانہوں میں لے لیں
سدا اس کے ساتھی رہے تھے
وہ جنگل کی الہڑ ہوا کی طرح راستوں کے تعین سے آزاد تھی
وہ تو تخلیق فطرت تھی
پر خوبصورت سے شوکیس میں قید کردی گئی تھی
قفس، رنگ ماحول کے حبس میں سانس روکے ہوئے تھی
کہ اک دم جو تازہ ہوا کی طرح ایک نوید سفر آئی۔ تو
ایک لمحے کو آزاد ہونے کی وحشی تمنا میں۔ وہ
ایک بچے کی صورت مچلنے لگی (پروین شاکر)
آدھی گواہی
عظیم منصف
ہماری قسمت کی ہر عدالت کا فیصلہ ہے
کہ ہم
جب اپنے بدن کی
بے حرمتی کی
فریاد لے کے جائیں
تو اپنا کوئی گواہ لائیں
گواہ ایسی گھڑی کا
جب وحشتوں سے
وحشت پناہ مانگے ( نسیم سید)
ھن لباس لکم انتم لباس لھن
اے سمیع بصیر علیم
تیرا خرماں انتم لباس الھن ہے اپنی جگہ
اور میں ہوگئی بے ردا
بے لباسی میری کس کے ہاتھوں ہوئی
میرا چہرہ خراشوں سے کیوں بھر گیا
کس نے نوچیں میری مینڈیاں
کس نے کھینچی مری بالیاں
سر برہنہ در در بھٹکتی ہوںمیں
اپنی کھوئی ردا ڈھونڈتی رہتی ہوں میں
مری لاج رکھ لے (بلقیس ظفیر الحسن)
ان مباحث کی روشنی میں اب اگر ایک نظر آزادی کے بعد اردو شاعری کی نصف صدی کے اس سفر پر ڈالیں تو یہ اندازہ ہوگا کہ اس سفر میں ترقی پسند،جدیداور مابعد جدیدشعراء اور ان کی شاعری میں حب الوطنی کا جذبہ اور اس سے ماخذ مختلف پہلوسامنے آتے ہیں ۔ یوں بھی حالات کی ستم ظریفی اور دنیا کے غم سے کس کو نجات حاصل ہے ا س نے اردو شاعری خصوصاً غزلیہ اور نظمیہ شاعری پر اپنے جواثرات چھوڑے ہیں وہ بے حد اہم ، دور رس، اورنتیجہ خیز ہیں۔ خاص طور پر آزادی کے بعد ہندوستان و پاکستان کی شاعری میں موضوع کے اعتبار سے جو تنوع آیا اور جو نئے ابعاد پیدا ہوئے ان سے ایک پر اعتماد شاعری کا دور شروع ہوا۔ جنس کے اعتبار سے عورت اور مرد صرف عاشق و محبوب، قاتل، بے وفا، اور ستمگرہی نہیں رہے بلکہ ایک دوسرے کے دوست اور ہم سفر کی شکل میں سامنے آئے۔ ان میں ہجر و وصال کی ایک نئی کیفیت، شکوہ کا ایک نیا اندازساتھ ہی اپنے جذباتی، سماجی اور معاشرتی حقوق سے متعلق نیا احساس بھی ملتا ہے۔ جو روایتی سماجی قدروں کے بجائے ایک نئی عصری حسیت اور عزت نفس کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نئے سائنسی تجربات ، عوامی سیاسی صورت حال، عالمی طاقتوں کی بالادستی اور صارفیت کے فروغ سے پیدا ہونے والے حالات نے موضوع او راسلوب اور زبان و بیان کے رویوں کو متاثر بھی کیا اور پیچیدہ بھی بنایا۔
آزادی کے بعد کی نظمیہ شاعری میں جہاںموضوعات ، لفظیات اور انداز پیش کش میں جدت اور معنوی جہتوں سے آشنائی کا نیا طریقہ سامنے آیا ہے وہیں شاعری میں تجربے کو زیادہ اہمیت دیا گیا ہے۔ اس درمیان نہ صرف ہیئتی تجربے ہوئے بلکہ رجحان سازی بھی تجربے کا اہم جز رہا ہے۔ رجحان سازی اوپر سے ٹپکتی نہیں اور نہ ہی ٹپکائی جاتی ہے بلکہ سماجی تہذیبی اور معاشرتی روپ ریکھا میں آئی تبدیلی کی وجہ سے از خود پیدا ہوئی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اسے نظریے کی کسوٹی پر رکھ کر اس کے اصول و ضابطے متعین کئے جاتے ہیں ۔ اردو ادب میں جب ترقی پسندی کا زمانہ لد گیا تو جدیدیت نے سرا ٹھایا اور پھر مابعد جدیدیت نے،حالانکہ جدیدیت کو بعض لوگوں نے ترقی پسندی کی توسیع بھی کہا ہے تو بعضوں نے یہ کہا کہ مغربی تہذیب کو اپنانے سے یہاں کا مشرقی کلچر مجروح ہوا ، جدیدیت اس کی روداد ہے۔ میرا ماننا ہے کہ مابعد جدیدیت تو بالکل ہی جدیدیت کی توسیع و تخریب میں پیش کیا جانے والا نظریہ ہے ۔لیکن اسے اب باضابطہ رجحان کا درجہ حاصل ہوگیاہے۔
جدیدیت اور مابعدجدیدیت کے اہم شعرا میں ابن انشاء، کلیم عاجز، ندا فاضلی ، حسن نعیم، شجاع خاور، عین تابش، بشیر بدر، شہر یار، عرفان صدیقی، مظہر امام، مخمور سعیدی ، سلطان اختر، شمیم قاسمی، فرحت احساس، عنبر بہرائچی ، خورشید اکبر، عالم خورشید، منور رانا، جمال اویسی ، خالد عبادی، راشد طراز، عبدالاحد ساز، عطا عابدی ، منصور عمراور راشد انور راشد وغیرہ نے اپنا ایک جگہ متعین کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور میں جدید شعرا اور مابعد جدید شعرا ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوا جیسا کہ ترقی پسند اورجدیدیت کے ساتھ ہوا تھا۔ مطلب یہ کہ آزادی کے بعد اردو ادب میں ایسا بھی دور گذرا ہے جب ترقی پسندی اور جدیدیت کے ماننے والے دونوں ایک ساتھ تخریب و توسیع کی معنویت سے آگے بڑھ رہے تھے اور شعری کائنات کی وسعتوں کو بال و پر عطا کر رہے تھے ٹھیک اسی طرح مابعد جدید شعرا کے ساتھ جدیدیت کے ماننے والے بعض شعرا بھی قدم سے قدم ملاکر شعری کائنات کو محفوظ رکھا ہے۔ اس سب کا تفصیلی جائزہ غزلیہ شاعری کے باب میں کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات عرض کرنی ہے کہ آزادی کے بعد کی شاعری کا کینوس صرف نظمیہ شاعری اور غزلیہ شاعری تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بڑے پیمانے پر قطعات ، رباعیات اور گیت وغیرہ بھی لکھے گئے ہیں۔ جس میں انسانی عظمت اور انسانی جاہ و جلال کے معدوم المیوں کو شاعروں نے اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ۔ ساتھ ہی مادہ پرستی ، بے حسی، بے ضمیری اور لاتعلقی کے عناصر کو حالیہ مزاج سے ہم آہنگ بنایا۔ اردو ادب میں اس کی اہمیت نہ صرف موضوعات کی وجہ سے ہے بلکہ رسم نظم اور غزل کی شعری کائنات کی طرح اسے بھی اعتبار حاصل ہے۔
٭٭٭
Dr. Mustafiz Ahad Arfi
Assistant Professor
Department of Urdu
L.S.College, Muzaffarpur – 842001
Mob: 9955722260
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page