ہمارے زمانے میں ایک ہیئت کے طور پر طویل نظم کا مسئلہ اتنا ہی مبہم اور پیچیدہ ہے جتنا کہ طویل مختصر کہانی کا۔ کوئی ایسامتعین ضابطہ نہیں جس کے مطابق یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ نظم کون سی حد یاشکل اختیار کرنے پر طویل ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں جدید نظم نگاروں کے یہاں طویل نظم کے مختلف اسالیب کی گونج ایک ساتھ سنائی دیتی ہے۔ ایک طرف پرانی اور روایتی صنعتوں مثلاً قصیدہ، مرثیہ، مثنوی کا سایہ صاف نظر آتا ہے۔ عبدالعزیز خالد کی فارقلیط، حرمت الکرام کی کلکتہ کے ایک رباب، راہی معصوم رضا کی ۱۸۵۷ء کاوش بدری کی کاویم اور عنبر بہرائچی کی مہابھنشکر من تک ایسی بہت سی مثالیں سامنے ہیں۔
خلیل الرحمن اعظمی، قاضی سلیم اور وحید اختر جو ایک نئے طرز احساس کے ترجمانوں کی حیثیت سے سامنے آئے، انہوں نے بھی پرانے اسالیب کا استعمال ایک نئی تخلیقی سطح پر کیا۔ ساقی نامے یا مثنوی یا قصیدے کے انداز میں ان کی بعض نظمیں یہ تاثر قائم کرتی ہیں کہ انہیں احساس کے دائرے کو وسیع کرنے کی جستجو بھی ہے اور یہ اپنے تجربوں میں پرانے تجربوں کے آہٹ بھی محسوس کر رہے ہیں۔ اپنے عہد کے آشوب کا یہ ادراک، اظہار کی پرانی صورتوں کو پھر سے بامعنی بنا دیتا ہے۔ یہ قصہ نظم اور نثر دونوں میں ایک ساتھ چلا۔ نظم کے پرانے اسالیب کی طرح نثر کے پرانے اسالیب کی بازیافت بھی ہوئی۔ انتظار حسین کا خیال ہے کہ اس طرح، ’’گویا نئے لکھنے والے کھوئی ہوئی روح کو ڈھونڈتے ہیں۔ قدیم اصناف سخن، متروک الفاظ، گمشدہ لہجے، رد کئے ہوے اسالیب بیان، یہ سارا کھڑاگ اس لئے پھیلایا گیا ہے کہ کوئی شے گم ہو گئی ہے اور اسے ڈھونڈا جا رہا ہے۔‘‘
دوسری طرف وہ نئے شعراء ہیں جنہوں نے اپنی طویل نظموں کے واسطے سے ایک نئی شعریات وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور سے ۱۹۶۰ کے بعد کی بیشتر طویل نظمیں نئے شاعروں کے وجدانی مطالبات کی تکمیل کے لئے نئے راستے تلاش کرتی ہیں۔ ا س سے پہلے، ترقی پسندوں نے بھی نئی ہیئتوں کی تشکیل اور پرانی ہیئتوں کی بازیافت کا سلسلہ ایک ساتھ آگے بڑھایا تھا۔ مگر سردار جعفری، نیاز حیدر، ساحر لدھیانوی کی طویل نظموں کے ساتھ ساتھ ہم راشد اور اختر الایمان اور ان کے بعد نمایاں ہونے والے شعرا کی نظموں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ طویل نظم کی روایت اب ۱۹۶۰ء کے ایک بعد ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔
۱۹۶۰ء کے بعد کی نظم میں طویل نظم سے شغف بہت نمایاں رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ طویل نظم کی روایت میں سب سے زیادہ فنی تجربے پچھلے تیس پینتیس برسوں میں ہی سامنے آئے۔ ایسا لگتا ہے کہ طویل نظم کے واسطے سے ہمارے نظم گویوں کو اپنے باطن کی تفتیش و تفہیم کا ایک نیا زاویہ ہاتھ آ گیا تھا اور وہ اپنی حسیت، اپنے داخلی محرکات کو ایک نئی سطح پر سمجھنا چاہتے تھے۔ بہ قول محمد حسن عسکری، یہ ایک طلب تھی ایسے تجربوں تک رسائی کی جو نئے اسالیب کے متلاشی ہوتے ہیں اور یہ طلب ہمارے نظموں گویوں کو پرانے وسیلوں پر قانع نہیں ہونے دیتی تھی۔ ناصر کاظمی نے سر کی چھایا کو کتھا کا نام دیا۔ طویل نظم لکھنے والوں نے نثر اور نظم کی کئی صنعتوں، مثلاً آپ بیتی، کہانی، داستان، سفر نامے، ڈرامے، شہر آشوب کی گنجائش طویل نظم میں پیدا کرلی۔
سلیم احمد کی مشرق، جیلانی کامران کی استانزے، جعفر طاہر کی نظم ٹھٹھ، عمیق حنفی کی شہر زاد، شب گشت، سند باد، پتھروں کی آتما، سیارگاں، صوت الناقوس، صلصلۃ الجرس، اور سرگجا، وحید اخترکی شہر ہوس کی شہید صدائیں، کمار پاشی کی ولاس یاترا، ضیاء جالندھری کی ہم، شجاع خاور کی دوسرا شجر، فہمیدہ ریاض کی کیا تم پورا چاند دیکھوگے، زبیر رضوی کی پرانی بات ہے، وزیر آغا کی آدھی صدی کے بعد۔۔۔ ان سب نظموں میں تجربے اور طرز اظہار دونوں کا نیاپن ہے۔ یہ نظمیں ہمیں پرانے اسالیب سے آگے لے جاتی ہیں۔ ہمارے زمانے کا تہذیبی، معاشرتی، جذباتی، فکری اور سیاسی ماحول ا ن نظموں میں پرانی طویل نظموں کی بہ نسبت کہیں زیادہ منظم، مربوط اور مفصل پس منظر کے طور پر ابھرا ہے۔
یہ نظمیں ہمارے حواس کو شعر ی حدود سے آگے ایک نیم علمی، نیم دستاویزی، نیم فلسفیانہ سطح سے دوچار کرتی ہیں۔ یہ ایک طرح کے Creative Dissertation ہیں جن کی معنویت کا تعین محض ادبی معیاروں کی مدد سے ممکن نہیں۔ ان نظموں کو پڑھتے وقت ہم اس احساس سے خود کو الگ نہیں کر سکتے کہ ایک تو یہ نظمیں ہمارے عہد میں فکری شاعری کے نعم البدل کی حیثیت رکھتی ہیں، دوسرے یہ کہ طویل نظم کی ہیئت ہمارے عہد کی ضرورتوں سے ایک خاص مناسبت رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ سوال بھی پیدا ہوتے ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔
(۱) کیا طویل نظم کے لئے صرف طویل ہونا کافی ہے۔
(۲) طویل نظم میں رزمیے کے عناصر کی شمولیت، والٹ وہٹمن کے نزدیک ناگزیر کیوں ٹھہری تھی؟
(One simple trail of idea, epical makes the poem)
(۳) کئی نظم گویوں نے مختصر نظموں کے ایک (Sequence) سلسلے کو نظم کی طوالت کا ذریعہ بنایا ہے۔ مختلف چھوٹی چھوٹی نظمو ں میں ایک جیسے تجربوں کے بیان سے اس طرح کا بہانہ پیدا کر لینا کیا مناسب ہے؟
(۴) کیا طویل نظم کاایک مرکزی حوالہ بھی ہوتا ہے یا نہیں؟
(۵) کیا طویل نظم ایک باضابطہ منصوبہ بندی کے بغیر بھی وجود میں آ سکتی ہے؟
(۶) کیا طویل نظم سے قطع نظر نظم کی کسی اور صنف میں بھی بہ قول ایلیٹ Widest possible variation of intensity کے اظہار کی گنجاش اس حد تک پیدا کی جا سکتی ہے۔
یہ سوالات ۱۹۶۰ کے بعد کی طویل نظم کے سیاق میں خاص طور پر اہم ٹھہرتے ہیں، کیونکہ ان میں تجربے کے ساتھ ساتھ وسائل اظہار سے گہری دلچسپی کی شہادت بھی ملتی ہے۔ اجتماعی تجربوں کے لئے بھی انفرادی ہیئتوں کے تلاش نے ۱۹۶۱ء کے بعد کی طویل نظموں میں اتنی وسعت اور رنگارنگی پیدا کی ہے۔ لکھنے والے کی توجہ صرف اپنے تجربے تک محدود رہے اور اسے نئے اسالیب کی دریافت تک نہ لے جائے تو نتیجتاً بیشتر صورتوں میں ایک مستقل یکسانیت اور اکتاہٹ کاماحول مترتب ہوتا ہے۔ ۱۹۶۰سے پہلے طویل نظم کے شاعروں میں یہ وصف صرف اقبال، سردار جعفری اور راشد کے یہاں ملتا ہے کہ ان کے تجربے اور ان کے اسالیب تلاش اور تعبیر کے ایک ہمہ گیر اور مشترکہ عمل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
۱۹۶۰ کے بعد کی طویل نظموں میں ایسی نظمیں جو اپنے مرکزی موضوع کے ساتھ اپنے آہنگ اور اسلوب کے واسطے سے بھی ہمیں تازہ کار اور لائق توجہ نظر آتی ہیں، ان کی تعداد اس عرصے میں لکھی جانے والی طویل نظموں کے حساب سے بہت زیادہ نہ سہی، مگر پھر بھی خاصی ہے۔ سلیم احمد کی نظم مشرق، وحید اختر کی نظم شہر ہوس کی شہید صدائیں، عمیق حنفی کی کم و بیش تمام طویل نظمیں، بالخصوص پتھروں کی آتما، سند باد اور صلصلۃ الجرس، زبیر رضوی کی پرانی بات ہے اور فہمیدہ ریاض کی کیا تم پورا چاند دیکھوگے، نہ صرف یہ کہ اپنی پہچان الگ سے قائم کرتی ہیں، یہ نظمیں اپنے تجربے، طرز احساس، آہنگ اور اظہار ہیئت کے لحاظ سے بھی ممتاز ٹھہرتی ہیں۔ اقبال کی خضر راہ، مسجد قرطبہ اور ذوق و شوق، جعفری کی نئی دنیا کو سلام، راشد کی حسن کو زہ گر، اختر الایمان کی جیونی کی طرح یہ نظمیں بھی طویل نظم کی روایت پر ایک پائدار نقش ثبت کرتی ہیں۔
عمیق حنفی نے جس دور میں طویل نظم کو تواتر کے ساتھ اختیار کیا، اس دور میں ہمارے یہاں گنس برگ کی Howl، ملے رائے چودھری کی زخم، مکتی بودھ کی طویل نظم اندھیرے میں، اگیے کی اسادھیہ دینا، راج کمل چودھری کی مکتی پر سنگ، رگھوویر سہائے کی آتم ہتیا کے وِرُدھ، شری کانت ورما کی سمادھی لیکھ کا چرچا بہت تھا۔ ہندوستان میں جدیدیت کے میلان کی شروعات، نئے اور پرانے کی آویزش، عمیق حنفی کی سند باد کی اشاعت اور گنس برگ کی Howl اور ملے رائے چودھری کی زخم کی اشاعت تقریباً ساتھ ساتھ ہوئی، یعنی کہ ساتویں دہائی کے ابتدائی برسوں میں۔
یہ دور اپنی مجموعی ذہنی اور جذباتی فضا کے اعتبار سے شدید ذہنی خلفشار، برہمی اور ملال کا دور تھا۔ ان کیفیتوں کا اظہار اس دور کی تمام شاعری سے بھی ہوتا ہے اور اس معاملے میں صرف اردو کی تخصیص نہیں ہے۔ بنگال کی بھوکی پیڑھی، اڑیسہ کے دگمبر کوی اسی دور میں نمایاں ہوئے۔ یہ تمام شاعر ہنگری جنریشن کے بعض شعرا، بالخصوص گنس برگ، فرلنگ ہٹی، کور سو اور جارج میکبتھ سے متاثر تھے۔ عمیق حنفی کی سند باد پر بھی یہ اثرات موجود ہیں اور ان کی تصدیق بھوکی پیڑھی کے شاعروں کے ایک مجموعہ مکاتیب سے بھی ہوتی ہے جس میں عمیق حنفی کے دو تین خط شامل ہیں۔
بنگال میں ساتویں اور آٹھویں دہائی کو آتش فشاں دہائیوں کا نام دیا گیا تھا۔ ذہنی تناؤ کی ایک کیفیت اس دور کی اردو نظموں میں عام ہے۔ اس دور کے ادبی مباحث سے بھی یہ کیفیت سامنے آتی ہے۔ نئے شعرا ان دنوں سرگرم بہت تھے اور اپنی برہمی، ملال اور بے چینی کا اظہار ایک اخلاقی اور ایک ادبی قدر کے طور پر کرتے تھے۔ یہ دور ترقی پسندی کے رسمی تصور اور ترقی پسندوں کی قائم کردہ روایات سے انحراف کی ایک شعوری کوشش کا دور بھی کہی جا سکتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ تجربہ پسندی کی روکا بھی اس دور میں خیر مقدم کیا تھا۔ یہ تجربہ پسندی ہیئت پرستی کے اس میلان سے بہت مختلف تھی جس کا ظہور حلقہ ارباب ذوق کے بعض نمائندوں کی شاعری سے ہوا تھا اور جس کی ایک اور مثال عبدالمجید بھٹی کی معروف نظم برہمن ہے۔
اردو کے تمام نظم گویوں میں کسی طویل نظم کے واسطے سے اس دور کی عکاسی کا عمل عمیق حنفی اور وحید اختر کی نظموں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ دونوں کے یہاں شدت احساس بہت ہے۔ ایک جذباتی ابال اور تناؤ کی کیفیت بھی دونوں کے یہاں ملتی ہے۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے مطالعے کی وسعت اور اپنی باخبری کے لحاظ سے بھی یہ دونوں پیش پیش تھے۔ عمیق حنفی کی طویل نظموں میں تو اسکالرشپ اور ایک طرح کی فکری منصوبہ بندی کی روش صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس کا اثر سند باد، شہر زاد، شب گشت، پتھروں کی آتما کی مجموعی ساخت پر بھی پڑا ہے۔ نثریت کا رنگ جو عمیق حنفی کی مختصر نظموں میں ایک عیب کی صورت ابھرتا تھا، طویل نظموں میں ایک واضح فکر ی جہت کی شمولیت کا ذریعہ بنا ہے۔ بیان کی شاعری یا ایسی شاعری جس میں شاعر کی حیثیت ایک سماجی مبصر کی بھی ہوتی ہے، اسے یہ رنگ شاید خاص طور پر راس آتا ہے۔ سلیم احمد کی نظم مشرق (۱۹۷۱ء) بھی ہمیں اسی ذہنی اور جذباتی سیاق میں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ نظم کی شروعات اس طرح ہوتی ہے،
کپلنگ نے کہا تھا
مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے
کیا مغرب مشرق کے گھر آنگن میں آ پہنچا ہے
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آئے ہیں
میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے
میں بیدل اور حافظ کے بجائے
شیکسپئر اورر لکے کی باتیں کرتاہوں
اخباروں میں
مغرب کے چکلوں کی خبریں اور تصویریں چھپتی ہیں
مجھ کو چگی داڑھی والے اکبر کی کھسیانی ہنسی پر رحم آتا ہے
اقبال کی باتیں (گستاخی ہوتی ہے) مجذوب کی بڑ ہیں۔
وارث شاہ اور بلہے شاہ اور بابا فرید؟
چلئے جانے دیجے، ان باتوں میں کیا رکھا ہے
مشرق ہار گیا
برہمی کی اس کیفیت کا یہ اظہار بھی دیکھئے۔
قبلا خاں تم ہار گئے
اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا
لالچی مار کو پولو
جیت گیا ہے
اکبر اعظم تم کو مغرب کی جس عیارہ نے تحفے بھیجے تھے
اور بڑا بھائی لکھا تھا
ان کے کتے ان لوگوں سے افضل ہیں
جو تمہیں مہابلی اور ظل اللہ کہا کرتے تھے۔
ایک اور اقتباس اس طرح ہے،
مشرق کیا تھا
جسم سے اوپر اٹھنے کی اک خواہش تھی
شہوت اور جبلت کی باریکی میں
اک دیا جلانے کی کوشش تھی
میں سوچ رہا ہوں
سورج مشرق سے نکلا تھا
مشرق سے جانے کتنے سورج نکلے تھے
لیکن مغرب ہر سورج کو نگل گیا
میں ہار گیاہوں
میں نے اپنے گھر کی دیواروں پر لکھاہے
’’میں ہار گیا ہوں‘‘
میں نے اپنے آئینے پر کالک مل دی ہے
اور تصویروں پر تھوکا ہے
ہارنے والے چہرے ایسے ہوتے ہیں۔
شہر ہوس کی شہید صدائیں، سند باد اور شہر زاد کا بنیادی مفہوم بھی ایک گہرے اخلاقی حزن اور تہذیبی زوال کے احساس سے جنم لیتا ہے۔ سلیم احمد کی نظم کا ڈھانچہ دو رویوں اور دو تہذیبوں کی آویزش کے تصور پر قائم کیا گیا ہے۔ عمیق حنفی اور وحید اختر کی نظموں میں بنیادی مسئلہ وجودی ہے اور ایک پورا عہد، مشرق و مغرب کے امتیازات سے قطع نظر، یہاں مجرم دکھائی دیتا ہے۔ ان نظموں میں المیے کا احساس، وجود کی ناقدری اور فرد کی بے بسی اور بےچارگی کے تجربے سے پیدا ہوتا ہے۔
صلصلۃ الجرس اپنے موضوع اور برتاؤ اور تناظر کے لحاظ سے عمیق حنفی کی طویل نظموں میں ہی نہیں اردو کی طویل نظموں میں بھی الگ سے پہچانی جاتی ہے۔ اس نظم کے آہنگ اور اسالیب میں ایک عجیب و غریب سرشاری کی کیفیت سمائی ہوئی ہے۔ طبیعی سے مابعد طبیعی تک، مادے سے خیال تک ایک انوکھے سفر کی روداد ہے جواردو کی نعتیہ شاعری اورنئی شاعری میں ایک جہت کی خبر دیتی ہے۔ عالم خوند میری نے سندباد اور صلصلۃ الجرس میں ایک گہرے معنوی ربط کی نشاندہی کی تھی اور اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ یہ دونوں نظمیں اپنے اپنے طور پر زندگی میں معنی کی تلاش کو بنیاد بناتی ہیں۔ ’’سند باد نے اپنے نفس کی اندرونی گہرائیوں میں معافی کی تلاش کی تھی۔ اب وہ (عمیق حنفی) پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتے ہیں اور ایک ایسے عہد آفریں شخص سے رشتہ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جس نے انسان کے اندر اور باہر، انفس اور آفاق میں معنوی ربط تلاش کر لیا تھا۔‘‘
اس نظم کے ایک ابتدائی حصے میں جس پر عمیق حنفی نے بگولے رقص کرتے ہیں، کا عنوان قائم کیا ہے، ایک ایسی جہت بھی نکلتی ہے جو اسے سلیم احمد کی نظم مشرق کے قریب لے جاتی ہے۔ یہ جہت ہے مشرق اور مغرب کے مابین اس مکالمے کی جس سے مشرق کا آغاز ہوا تھا۔ عمیق حنفی کہتے ہیں،
یہ جن پتھ سے گزرتی لڑکیاں
اور کھجر ا ہوا کی دیواروں پہ ابھری شوخ مدرائیں
او رامراء القس کی ام ربابی اور عنیزہ اور فلاں بنت فلاں
بدن، تحریر اور تصویر کے اعصاب پر شہوات کی شدت
خطوط و رنگ و صوت و سنگ میں یکسانی حدت
کہاں سے امڈے آتے ہیں رئی شعرائے عہد جاہلی کے
ابھی تو میں مکاں میں تھا
زماں کے فاصلے طے ہوں گے کیسے
در تاریخ پردستک نہ د ی تھی اپنا ماتھا کھٹکھٹایا تھا
زماں اور مکاں کی قید کو یہ نظم جس طرح توڑتی ہوئی ایک ابدی اور آفاقی رمز میں منتقل ہو جاتی ہے، جابجا بدلتے ہوئے اسالیب اور بحروں کے ساتھ دھیان کی بدلتی ہوئی لہروں کو جس صناعی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اس میں اظہار کی جو طاقت اور توانائی ملتی ہے، وہ عمیق حنفی کی بصیرت اور طویل نظم کی حالیہ روایت، دونوں کا نقطہ عروج ہے۔
نئے زمانے کی اور زندگی کی پیچیدگی نے روایتی کلاسیکی ہیئتوں پر جو سوالیہ نشان ثبت کئے تھے، ان کے جواب کا ایک اور قابل توجہ نمونہ زبیر رضوی کی پرانی بات ہے، کے واسطے سے سامنے آیا۔ مکتی بودھ، راج کمل چودھری، رگھوویر سہائے اور اگیئے کی طویل نظموں کا ذکر کرتے ہوئے، ہندی شاعری کے ایک نقاد نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ہمارے زمانے کی طویل نظم کا ظہور ہی دراصل نئی صداقتوں اور نئے تقاضوں سے نمٹنے کی کوشش کے دوران ہوا تھا۔ نئی حسیت اپنے لئے ایک نیا پیرا یہ ڈھونڈ رہی تھی اور اس سے وابستہ تجربے چونکہ پرانی ہیئتوں کی گرفت میں نہیں آ سکتے تھے، اس لئے نئی ہیئتیں وضع کرنے (یا پرانی ہیئتوں کو ایک نئی سطح پر برتنے) کی ضرورت تھی۔
پرانی بات ہے، کا اسلوب بیک وقت نیا بھی ہے اور پرانا بھی ہے۔ اس نظم کا حکائی لہجہ، اس کی اساطیری فضا، مشاہدے کے ساتھ ساتھ تخیل اور یادداشت کی سرگرمی، پرانے عزائم کو نئے معنوں سے ہم کنار کرنے کی کوشش، اجتماعی واردات کو ایک شخصی حوالے کے ساتھ پیش کرنے کا ایک سلسلہ، جو بکھراؤ میں داخلی نظم اور ترتیب پیدا کرتا ہے۔ پھر سب سے زیادہ یہ کہ ذہنی اور حسی کیفیات میں کہانیوں کی دریافت نے اس نظم کو معاصر عہد کی شاعری اور خود زبیر رضوی کی عام شاعری سے علیحدہ ایک منفرد حیثیت دی ہے۔ اس کا ایک قطعہ ’’خطاے بزرگاں‘‘ یوں ہے،
پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
ہوا اک باریوں
ان کے بزرگوں نے
زمیں میں کچھ نہیں بویا
فقط انگور کی بیلیں اگائیں
اور مٹی کے گھڑوں میں مے بنائی
رات جب آئی
وہ سب مدہوش تھے
ان کے بدن ننگے تھے
پہلی بار مے کا ذائقہ ہونٹوں نے چکھا تھا
حکایت ہے
برہنہ دیکھ کر اپنے بزرگوں کو
جواں بیٹوں نے آنکھیں بند کرلیں
اور مٹی کے گھڑوں کو توڑ ڈالا
صبح سے پہلے
زمیں ہموار کی
اور اس میں ایسے بیج بوئے
جن کے پھل پودے
کبھی ان کے بزرگوں کے نہ کام آئے
اس سلسلے کے ہر قطعے یاہر نظم ک امحور اپنی جگہ پر ایک مکمل اور خود مکتفی تجربہ ہے۔ مگر ایک سی فضا ان تمام تجربوں کا احاطہ کرتی ہے اور نظم کا بنیادی آہنگ ایک ہی داخلی رو میں تمام تجربوں کو سمیٹتا جاتا ہے۔ علامت اور واقعے یار مز اور بیانیے کا توازن پوری نظم میں برقرار ہے۔ چنانچہ نظم کی وحدت کا تاثر بھی شروع سے اخیر تک قائم رہتا ہے۔
فہمیدہ ریاض کی نظم کیا تم پورا چاند نہ دیکھوگے، زمانی اعتبار سے بھی اور اپنی ہیئت و اسلوب کے اعتبار سے بھی ہمارے زمانے کی طویل نظم کے سفر کا ایک نیا موڑ ہے۔ اس نظم کی احتجاجی لے، بیان میں طنز کے ایک مستقل عنصر کی شمولیت، بات چیت کی زبان کا آہنگ، شاعرہ کے سماجی سروکار (Concerns)، نظم کا واضح اور ٹھوس تاریخی حوالہ اس نظم کے واسطے سے اردو کی طویل نظم کے سرمایہ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتے ہیں۔ یہ نثر کے اسلوب میں دو ٹوک سیاسی بیانات کی شاعری ہے۔ مگر اپنی داخلی بنت، اپنے احساسات کی شدت اور غصے اور طنز میں چھپی ہوئی دردمندی اس نظم کے شعری آداب کو محفوظ رکھتی ہے۔ نثری اسلوب اور بیان پر استوار ہونے والی یہ نظم نثر میں شاعری کے سوال سے وابستہ کئی مسئلے اٹھاتی ہے۔ یہ سوال ایک علیحدہ بحث کا موضوع ہے۔ اس کی ایک بہت دلچسپ اور معروف مثال سومتر موہن کی طویل نظم لقمان علی ہے، جو ہندی میں ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ فہمیدہ ریاض کی یہ نظم پہلے پہل دیوناگری لپی (ہندی) میں ہی شائع ہوئی تھی۔ جہاں تک اردو کی نثری نظم کا تعلق ہے تو وہ ابھی تک بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے اور عجیب بات ہے کہ اس کی صنفی حیثیت اردو قارئین ہی نہیں، خود شاعروں کے ایک حلقے میں بھی ابھی تک نامقبول ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page