(۱)
شاعری کی اہمیت وعظمت کا اصل فیصلہ وقت کرتا ہے۔ میروغالب اپنے عہد میں ناقدری زمانہ کی برابر شکایت کرتے رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی عظمتوں کا نقش روشن ہوتا گیا۔ اسی معنی میں وقت یا زمانہ کوئی مجرد تصور نہیں، بلکہ کسی بھی معاشرے میں کسی شعری روایت سے فیض یاب ہونے والے صاحب الرائے حضرات کی پسند و ناپسند کا حاصل ضرب ہے۔ اس کے ذریعے بازیافت، تحسین، تفہیم اور تعین قدر کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
اس نظرسے دیکھیے تو بیسویں صدی میں اقبال کے بعد فیض واحد شخصیت ہیں جن کی اہمیت کا بالعموم اعتراف کیا گیا ہے۔ ان کے معاصرین میں دوسری اہم شخصیتیں بھی ہیں لیکن ان میں سے کسی کو وہ مقبولیت اور ہردل عزیزی نصیب نہیں ہوئی جو فیض کے حصے میں آئی ہے۔ اگر چہ مقبولیت ہی اہمیت کا واحد معیار نہیں۔ لطف سخن اور قبول عام کو خدا داد کہا گیا ہے مگر اس میں بڑا ہاتھ شاعر کے جوہر ذاتی کا ہوتا ہے۔ فیض کی شاعری نے اپنی حیثیت کو آہستہ آہستہ منوایا۔ ’’نقش فریادی‘‘ کے بعد دوسرا مجموعہ ’’دست صبا‘‘ اگر چہ ایک جست کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کے وجوہ محض سوانحی یا تاریخی نہیں، تخلیقی بھی تھے۔ تاہم اس زمانے کے تنقیدی مضامین میں فیض کا نام بارہویں پندرہویں نمبر پر لیا جاتا تھا۔ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب فیض کے شعری ابہام اورغنائی لہجے کو ہدف ملامت بنایا گیااور کھل کر اعتراض کیے گئے لیکن اس کے باوجود فیض کی اہمیت روز بروز بڑھتی گئی۔ دوسروں کے چراغ یا تو ماند پڑ گئے یا بجھ گئے اور فیض کی آواز اپنے عہد کی آواز تسلیم کی جانے لگی۔
اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
دست صیاد بھی عاجز ہے کفِ گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے
ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
تخلیق کا راستہ جس طرح پر پیچ اور پراسرار ہے، اسی طرح تنقید میں بھی شعری اہمیت کی گرہیں کھولنا نہایت دشوار اور دقت طلب ہے۔ ہر بڑی شاعری دراصل اپنا پیمانہ خود ہوتی ہے۔ بڑا شاعر یا تو کسی روایت کا خاتم ہوتا ہے یا کسی طرز نو کا موجد۔ وہ بہرحال باغی ہوتا ہے۔ فرسودہ روایات پر کاری ضرب لگاتا ہے۔ اظہار کے لیے نئے پیمانے تراشتا ہے اور نئی شعری گرامر خلق کرتا ہے۔ وہ یا تو اپنے زمانے سے آگے ہوتا ہے یا اپنے عہد کے دردوداغ وسوز وسازوجستجو وآرزو کی ایسی ترجمانی کرتا ہے کہ اپنے وقت کی آوازبن جاتا ہے۔ فیض کا کارنامہ کیا ہے؟ فیض کی شاعری کو اس تناظر میں دیکھیں تو کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ کیا وہ باغی شاعر تھے؟ شاید نہیں۔ کیا وہ اپنے وقت سے آگے تھے؟ اس کا جواب بھی اثبات میں نہیں ملےگا۔ ترقی پسند تحریک کی ابتدا ہو چکی تھی۔ خود فیض نے کئی جگہ کہا ہے کہ انہیں اس راہ پر ڈاکٹر رشید جہاں نے لگایا۔
جہاں تک ڈکشن کا تعلق ہے، فیض کا ڈکشن غالب اور اقبال کے ڈکشن کی توسیع ہے۔ فیض کی تمام لفظیات فارسی اور کلاسیکی شعری روایت کی لفظیات سے مستعار ہے، یا پھر اس کا ایک حصہ ایسا ہے جو تمام ترقی پسند شاعروں کے تصرف میں رہا ہے جس میں فیض کی اپنی کوئی انفرادیت نہیں۔ یہ سب باتیں جتنی صحیح ہیں، اتنا ہی یہ بھی صحیح ہے کہ فیض کی شاعری میں کچھ ایسی نرمی ودل آویزی، کچھ ایسی کشش وجاذبیت، کچھ ایسا لطف واثر، کچھ ایسی درد مندی ودل آسائی اور کچھ ایسی قوت شفا ہے، جو ان کے معاصرین میں کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ آخر اس کا راز کیا ہے؟
سماجی سیاسی احساس، سامراج دشمنی، عوام کے دکھ درد کی ترجمانی، سرمایہ داری کے خلاف نبرد آزمائی، جبر واستبداد، استحصال اور ظلم وبے انصافی کے خلاف احتجاج، امن عالم، بہتر معاشرے کی آروزمندی، یہ سب ایسے موضوعات ہیں جن پر کسی کا اجارہ نہیں۔ یہ عالمی موضوعات ہیں اور سرمایہ داری اور نوآبادیت کے خلاف دنیا بھر کی عوامی تحریکوں میں ان کا ذکر عام ہے۔ اردو ہی میں دیکھیے تو سب ترقی پسند شعرا کے یہاں یہ موضوعات قدر مشترک کے طور پر ملیں گے۔ فیض کا نظریۂ حیات اور ان کی فکر وہی ہے جو دوسرے ترقی پسند شعرا کی ہے، یعنی ان کے موضوعات دوسرے ترقی پسندشعرا کے موضوعات سے الگ نہیں، تو پھر فیض کی انفرادیت اور اہمیت کس بات میں ہے؟ یعنی فکری یا موضوعاتی سطح پر اگر ان میں کوئی ایسی خاص بات نہیں، جو ان کو دوسروں سے ممیزاور ممتاز کر سکے تو پھر وہ شعری طور پر دوسروں سے الگ اور ان سے ممتاز کیوں کر ہوئے۔
اس سوال کے جواب کی ایک صورت یہ ہے کہ شاعری میں نظریاتی یا فکری یکسانیت دراصل شعری یکسانیت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ فکری یکسانیت اور تخلیقی یا معنیاتی یکسانیت میں فرق ہے۔ کسی بھی شاعر کا معنیاتی نظام کوئی مجردوجود نہیں رکھتا۔ یہ اپنے اظہار کے لیے زبان کا محتاج ہوتا ہے۔ ہر بڑا شاعر اس معنی میں نئی زبان خلق کرتا ہے کہ خواہ وہ نئے لفظ بڑی تعداد میں ایجاد نہ کرے اور تمام اظہاری سانچے کلاسیکی روایت سے مستعار لے تاہم اگر وہ ان کو ایک نئی لذت اور کیفیت سے سرشار کر دیتا ہے، یا دوسرے لفظوں میں وہ ان میں نئی معنیاتی شان پیدا کر دیتا ہے تو ا س کا اسلوبیاتی امتیاز ثابت ہے۔
چنانچہ اسلوبیاتی امتیاز ثابت ہے تو معنیاتی امتیاز بھی لازم ہے کیونکہ اسلوب مجرد ہیئت نہیں۔ جو حضرات ایسا سمجھتے ہیں وہ اسلوب کو محدود طور پر لیتے ہیں اور اس کی صحیح تعبیر نہیں کرتے، اس لیے کہ اسلوبیاتی خصائص معنیاتی خصائص کے مظہر ہیں، ان سے الگ نہیں۔ پس اگر شعری اظہارات الگ ہیں تو معنیاتی نظام بھی دوسروں سے الگ ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فیض احمد فیض نے اردو شاعری میں نئے الفاظ کا اضافہ نہیں کیا، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے نئے اظہاری پیرایے وضع کیے اور سیکڑوں ہزاروں لفظوں، ترکیبوں اور اظہاری سانچوں کو ان کے صدیوں پرانے مفاہیم سے ہٹاکر بالکل نئے معنیاتی نظام کے لیے برتا اور یہ اظہاری پیرایے اوران سے پیدا ہونے والا معنیاتی نظام بڑی حد تک فیض کا اپنا ہے۔ اگر اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں تو فیض کی انفرادیت اور اہمیت خود بخود ثابت ہو جاتی ہے۔
یہ سامنے کی بات ہے کہ فیض نے کلاسیکی شعری روایت کے سرچشمۂ فیضان سے پورا پورا استفادہ کیا۔ ان کی لفظیات کلاسیکی روایت کی لفظیات ہے، لیکن اپنی تخلیقیت کے جادوئی لمس سے وہ کس طرح نئے معنی کی تخلیق کرتے ہیں، یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ تنقید جو صرف نظریے یا موضوع پر انحصار کرتی ہے اور فنی استعداد، تازہ کارانہ احساس اور اظہاری کمالات پر نظر نہیں رکھتی، فیض کے لطف سخن کے رازوں کو نہیں پا سکتی۔ آئیے اس بات کی وضاحت کے لئے ’’زنداں نامہ‘‘ کی ایک اچھی نظم ’’ملاقات‘‘ پر نظر ڈالیں،
یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے، تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں، گھر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب، اس کے سائے
میں اپنا سب نور، رو گئے ہیں
یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے، تجھ سے عظیم تر ہے
اس نظم کی بنیاد جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے رات اور صبح کے تصورات پر ہے۔ رات، درد وغم یا ظلم وبے انصافی کا استعارہ ہے اور صبح کا روشن افق فتح مندی کی نشانی ہے۔ تاریکی اور روشنی کا یہ تلازمہ اور اس کا سماجی سیاسی مفہوم فکری اعتبار سے کوئی انوکھی بات نہیں۔ رات اور صبح کا سماجی اور سیاسی تصور دنیا بھر کی شاعری میں ملتا ہے اور معنیاتی اعتبار سے غیرمعمولی نہیں۔ لیکن شاید ہی کسی کو اس بات سے انکار ہوکہ فیض کی نظم معمولی نہیں ہے۔ یہ لطف واثر کا مرقع ہے۔ اگرچہ ان علائم میں جن پر اس نظم کی بنیاد ہے کوئی ندرت نہیں، لیکن نظم کے اظہار ی پیرا یے اور معنیاتی نظام میں ندرت ہے، ظاہر ہے اس ندرت تک ہماری رسائی ان اظہاری پیرایوں ہی کے ذریعے ہو سکتی ہے جو شاعر نے استعمال کیے ہیں۔
شاعر نے ’رات‘ کو ’دررکا شجر‘ کہا ہے جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے۔ عظیم تر اس لیے کہ اس کی شاخوں میں لاکھوں مشعل بکف ستاروں کے کارواں، گھر کے کھو گئے ہیں۔ نیز ہزاروں مہتاب اس کے سایے میں اپنا سب نور رو گئے ہیں۔ رات، درد اور شجر پرانے لفظ ہیں لیکن رات کو درد کا شجر کہنا نادر پیرایۂ اظہار ہے۔ چنانچہ رات کا شجر، ستاروں کے کارواں اور مہتاب سے مل کر جو امیجری مرتب ہوتی ہے وہ حد درجہ پر تاثیر ہے۔ نیز ستاروں کے کاروانوں کا کھو جانا یا مہتابوں کا اپنا نور رو جانا استعاراتی پیرا یۂ اظہار ہے جو درد کی کیفیت کو راسخ کر دیتا ہے۔ درد کو مجھ سے، تجھ سے عظیم تر کہنا ذاتی نوعیت کا تجربہ نہیں بلکہ اس کا تعلق پوری انسانیت سے ہے۔ دوسرے بند میں فیض نظم کو معنیاتی موڑ دیتے ہیں،
مگر اسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد پتے
گرے ہیں اور تیرے گیسوؤں میں
الجھ کے گلنار ہو گئے ہیں
اسی کی شبنم سے خامشی کے
یہ چند قطرے، تری جبیں پر
برس کے، ہیرے پرو گئے ہیں
بہت سیہ ہے یہ رات لیکن
اسی سیاہی میں رونما ہے
وہ نہر خوں جو مری صدا ہے
اسی کے سایے میں نور گر ہے
وہ موج زر جو تری نظر ہے
لمحوں کو زر دپتے کہنا واضح طور پر مغربی شاعری کا اثر ہے جو فیض کی امیجری میں جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے، لیکن گیسو، گلنار، شبنم، قطرے، جبیں، ہیرے سب کے سب اردو کی کلاسیکی روایت سے ماخوذ ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے، پہلے بند کی امیجری کو دوسرے بند کی امیجری سے آمیز کرکے فیض نے جس معنیاتی فضا کی تخلیق کی ہے، کیا وہ ذہن کو نئی جمالیاتی کیفیت سے سرشار نہیں کرتی؟ فیض کے کمال فن کا ایک سامنے کا پہلو یہ ہے کہ وہ انقلابی فکر کو جمالیاتی احساس سے اور جمالیاتی احساس کو انقلابی فکر سے الگ نہیں ہونے دیتے بلکہ اپنے تخلیقی لمس سے دونوں کو آمیز کرکے ایک ایسی شعری لذت اور کیفیت کو خلق کرتے ہیں جو مخصوص جمالیاتی شان رکھتی ہے اور جس کی نظیر عہد حاضر کی اردو شاعری میں نہیں ملتی۔
نظم کے دوسرے حصے میں یہی جمالیاتی کیفیت جاری رہتی ہے۔ درد کی رات بہت سیاہ ہے لیکن محبوب کی نظر جس کو موج زر کہاہے، اسی کے سایے میں نور گر ہے۔ کوئی دوسرا شاعر ہوتا تو رات کے بعد صبح کے تصور کو سطحی رجائیت میں بدل کے رکھ دیتا۔ نظم کے پورے معنیاتی نظام اور ہر ہر مصرعے سے فیض کی ذہنی سطح اپنے عہد کے دوسرے شعرا سے الگ نظر آتی ہے۔ آخری حصے میں شاعر سحر کے عام رومانی تصور کو رد کرتا ہے کہ الم نصیبوں، جگر فگاروں کی صبح افلاک پر نہیں ہوتی، بلکہ،
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں
سحر کا روشن افق یہیں ہے
یہیں پہ غم کے شرار کھل کر
شفق کا گلزار بن گئے ہیں
فیض کا انفراد نظم اور غزل دونوں میں ثابت ہے۔ نظم کے بعد اب ایک نظم نما غزل ’’طوق ودار کا موسم‘‘ سے یہ اشعار دیکھیے،
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم بہار کا موسم
یہ دل کے داغ تو دکھتے تھے یوں بھی پر کم کم
کچھ اب کے اور ہے ہجران یار کا موسم
یہی جنوں کا، یہی طوق ودار کا موسم
یہی ہے جبر، یہی اختیار کا موسم
قفس ہے بس میں تمہارے، تمہارے بس میں نہیں
چمن میں آتش گل کے نکھار کا موسم
صبا کی مست خرامی تہِ کمند نہیں
اسیر دام نہیں ہے بہار کا موسم
بلا سے ہم نے دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن وصوت ہزار کا موسم
انتظارکی کیفیت فیض کی بنیادی تخلیقی کیفیات میں سے ایک ہے جس کا ذکر آگے آئےگا، یہاں صرف بعض کلیدی الفاظ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ روش، بہار، موسم، دل کے داغ، ہجران یار، جبرواختیار، جنوں، طوق ودار، قفس، چمن، آتش گل، فروغ گلشن، صوت ہزار، صبا کی مست خرامی، یہ سب کے سب الفاظ، تراکیب اور تصورات، غزلیہ شاعری کی یاد دلاتے ہیں۔ لیکن یہاں انتظار کا موسم یا بہار کا موسم، رومانی شاعری سے ہٹ کر ایک الگ سماجی سیاسی معنیاتی نظام رکھتے ہیں۔ طوق ودار کی رعایت سے اب جنوں، حب الوطنی، سامراج دشمنی یا عوام دوستی کی ترجمانی کرتا ہے، جبرواختیار کے معنی کی بھی تقلیب ہوگی ہے۔
اب قفس قید کی کوٹھری یا زنداں ہے۔ یہی وطنی قومی احساس، فروغ گلشن، صبا کی مست خرامی اور چمن میں آتش گل کے نکھار کی معنیاتی شیرازہ بندی کرتا ہے۔ واضح سما جی سیاسی مفاہیم کے لیے ان اسلوبیاتی سانچوں کے استعمال پر اب تقریباً چاردہائیاں گزر چکی ہیں اور ان کا معنیاتی نظام سامنے کی بات معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس معنیات کی تشکیل کے اس سفر میں اردو شاعری نے خاصا زمانہ صرف کیا ہے اور بعض لوگوں نے تو عمر یں کھپائی ہیں۔ دست صباہی سے یہ قطعہ ملاحظہ ہو،
ہمارے دم سے ہے کوئے جنوں میں اب بھی خجل
عبائے شیخ و قبائے امیروتاج شہی
ہمیں سے سنت منصور وقیس زندہ ہے
ہمیں سے باقی ہے گل دامنی وکج کلہی
صاف ظاہر ہے کہ کلاسیکی روایت کے بنیادی علائم ایک نیا معنیاتی چولا بدل رہے ہیں۔ عبائے شیخ، قبائے امیر وتاج شہی، اب مخصوص لغوی معنی میں استعمال نہیں ہوئے، بلکہ اپنے ایمائی رشتوں کی بدولت استحصالی قوتوں کے استعارے بن کر آئے ہیں۔ یہی معاملہ گل دامنی وکج کلہی کا ہے۔ سنت منصور وقیس بھی اہل جنوں سے اسی لیے زندہ ہے کہ موجودہ دور میں حق گوئی وایثار وقربانی کے تقاضوں کو پورا کرنے کا تقاضا اہل جنوں ہی سے کیا جا سکتا ہے۔
(۲)
راقم الحروف نے چند برس پہلے فیض کی شاعری کے بارے میں اپنے مضمون
TRADITION & INNOVATION IN URDY POETRY, FIRAQ GORAKHPURI & FAIZ AHMED FAIZ (IN POETRY & RENAISSANCE, MADRARS 1974)
میں جو کچھ لکھا تھا اس میں فیض کی شاعری کے معنیاتی نظام کی ساختیاتی بنیادوں پر بھی غور کیا تھا۔ یہ مضمون چونکہ انگریزی میں تھا اور بالعموم اردو والوں کی نظر سے نہیں گزرا، اس لیے اس امر کی وضاحت نامناسب معلوم نہیں ہوتی کہ اس میں میرا بنیادی معروضہ یہ تھا کہ ساختیاتی اعتبار سے اردو کی شعری روایت میں اظہاری پیرایوں کی ایک یادوسطحیں نہیں، بلکہ تین خاص سطحیں ملتی ہیں۔
کلاسیکی غزل کی لفظیات جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ دراصل وجود میں آئی تھی، جسم وجمال کے تذکرے اور عشق وعاشقی کے مضامین کے لیے لیکن چند صدیوں کے ارتقائی عمل میں اس لفظیات میں ایک نئی روحانی، متصوفانہ سطح کا اضافہ ہوا اور مزید تہہ داری پیدا ہو گئی۔ فارسی اور اردو غزل کی مثالی آزاد خیالی، وسیع المشربی، کٹرپن کی مخالفت اور انسان دوستی کے تصورات کی آبیاری میں، اس روحانی متصوفانہ معنیاتی سطح کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے یعنی عشق وسرمستی ورندی ورسوائی، شیخ وشراب، گل وبلبل، شمع وپروانہ اور ایسے سیکڑوں اظہارات مابعد الطبیعاتی ماورائی معنی میں استعمال ہونے لگے۔ ان دو سطحوں کے ساتھ ساتھ تیسری سطح کا اضافہ اس وقت ہوا جب اردو شاعری سیاسی و قومی شعور کی بیداری کے دور میں داخل ہونے لگی۔ کلاسیکی شعری لفظیات کی اس تیسری سطح کو سماجی وسیاسی احساس کی سطح کہا جا سکتا ہے۔
یوں تو اردو میں اس کا پہلا بھر پور اظہار راجہ رام نارائن موزوں کے اس شعر میں ملتا ہے جوسراج الدولہ کے قتل پر کہا گیا تھا، لیکن میروسودا، مصحفی وجرأت، غالب و مومن تمام کلاسیکی شعرا کے یہاں غزل کے پیرایے میں اس نوع کے اظہار کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ خواجہ منظور حسین نے توغزل کی اس معنیاتی جہت پر پوری کتاب ’اردو غزل کا خارجی روپ بہروپ‘ لکھ دی ہے۔ بہرحال بیسویں صدی میں حسرت، جوہر، اقبال، جگر، فراق اور بعد میں ترقی پسند شعرا کے یہاں سیاسی سماجی احساس کی یہ سطح عام طور پر ملنے لگتی ہے۔
اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ عاشقانہ شاعری کی بنیاد معنیاتی تثلیث پر ہے یعنی عاشق، معشوق و رقیب دو عناصر میں باہمی ربط اور تیسرے عنصر سے تضاد کا رشتہ جو تخلیقی اظہار میں تناؤ پیدا کرتا ہے اور جان ڈالتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس تثلیث کا معنیاتی تفاعل شعری روایت کے ساختیاتی نظام کی تینوں سطحوں پر ملتا ہے، یعنی عاشقانہ سطح پر، تصوفانہ سطح پر اور سماجی سیاسی سطح پر بھی اس تہہ درتہہ معنیاتی نظام کے بنیادی ساختیے، راقم الحروف کے نزدیک اٹھارہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فیض کی شاعری کے تناظر میں عاشقانہ اور متصوفانہ یعنی پہلے دو معنیاتی نظام کے سیاسیی سماجی یعنی تیسرے معنیاتی نظام میں منقلب ہونے کے ارتقائی عمل کو دکھانے کے لیے ان ساختیوں کا ذکرنا گزیر ہے۔
یہ چھ بنیادی سٹ جن میں سے ہرایک تثلیث کی شان رکھتا ہے، نیچے درج کیے گئے ہیں۔ پہلی سطر میں عام معنی دیے گئے ہیں، ان کے نیچے سماجی سیاسی توسیعی معنی قوسین میں درج کیے گئے ہیں۔ یہ محض اشاراتی ہیں، تمام معنیاتی ابعاوانہیں سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر افقی سطر ایک سٹ ہے۔ یعنی ہر معنی پورے معنیاتی نظام میں اپنے وجود کے مفہوم کے لیے دوسرے تمام معنیاتی عناصر سے اپنے تضاد اور ربط کے رشتے کا محتاج ہے اور بالذات یعنی محض اپنے طور پر کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اردو میں ساختیے یعنیStructure کے معنی بالعموم غلط لیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسٹرکچر (Structure) کا ظاہری ساخت یا ہیئت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ کم لوگوں کو یہ فرق معلوم ہے، اس لئے اس مختصر وضاحت کی ضرورت ہے کہ ساختیات، اسٹرکچرل ازم Structuralism کی وہ شاخ ہے جو تخلیقی اظہار کی اوپر ی سطح یعنی محض زبان یا ہیئت سے نہیں، بلکہ اس کی داخلی سطح یعنی معنیاتی نظام سے بحث کرتی ہے۔ معنیاتی نظام انتہائی مبہم اور گرفت میں نہ آنے والی چیز ہے۔ بحث ومباحثہ کی سہولت کے لیے اسے چند الفاظ میں مقید تو کیا جا سکتا ہے لیکن تمام معنیاتی کیفیات کا احاطہ نہیں کیاجا سکتا۔
اس بحث میں الفاظ کو محض اشاریہ سمجھنا چاہئے اس کلی معنیاتی نظام کا جو ان گنت استعاراتی اور ایمائی رشتوں سے عبارت ہے اور لامحدود امکانات رکھتا ہے، جنہیں تخلیقی طور پر محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن منطقی طور پردو اور دو چار کی زبان میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ فیض کے معنیاتی نظام کے بنیادی ساختیے درج ذیل ہیں۔
بعض حضرات یہ سن کرچیں بہ جبیں ہوں گے مگریہ حقیقت ہے کہ فیض کی شاعری کا کوئی مفہوم یا معنی کی کوئی پرت ان اٹھارہ ساختیوں سے باہر نہیں ہے۔ پورے معنیاتی نظام کے ساختیوں کو ان چھ سطروں میں سمیٹا جا سکتا ہے۔ البتہ ان کے شاعرانہ اظہار کی ان گنت شکلیں اور پیرایے ہیں۔ ساختیہ کی بنیادی پہچان یہ ہے کہ کوئی ساختیہ بالذات کوئی معنی نہیں رکھتا۔ معنی کا تصور تضاد سے پیدا ہوتا ہے، تضادنہ ہو تو مختلف معنی قائم ہی نہیں ہو سکتے۔ لیکن یہ تضاد بھی مجردبالذات نہیں کیونکہ یہ زبان کے کلی نظام (یہاں پر شاعری کے کلی نظام) کے تحت رونما ہوتا ہے۔ اس نظام میں ہر عنصر دوسرے عنصر سے متضاد ہے، اس لیے مختلف ہے، تاہم چونکہ ایک نظام کے تحت ہے اس لیے ربط کا رشتہ بھی رکھتا ہے۔ گویا معنیاتی امکانات ایک کلی نظام کے تحت ربط وتضاد کے باہمی رشتوں کی عمل آوری سے پیدا ہوتے ہیں یعنی کوئی لفظ بالذات طور پر بامعنی نہیں ہے۔ چنانچہ کسی لفظ کی مجرد تعریف ممکن نہیں۔ ذیل میں ہر سطر کو اسی نظرسے دیکھنا چاہئے۔ ان میں جونئے نئے معنیاتی امکانات پیدا ہوتے ہیں، وہ شاعرکے ذہن کی خلاقی کا کارنامہ ہیں۔
(۱) عاشق معشوق رقیب
(مجاہد/ انقلاب) (وطن /عوام) (سامراج /سرمایہ داری)
(۲) عشق وصل ، ہجر، فراق
(انقلابی ولولہ/ (انقلاب آزادی (جبر ظلم/
جذبہ حریت) /حریت سماجی تبدیلی) استحصال کی حالت/
یا انقلاب سے دوری)
(۳) رندشراب، مے خانہ، پیالہ، ساقی محتسب، شیخ
(مجاہد/ انقلابی/ باغی) سماجی اور سیاسی بیداری (سامراجی نظام
کے ذرائع) سرمایہ دارانہ/ ریاست
عوام دشمن حکومت/
رجعت پسند انہ نظام
ظلمت پسند یازوال
آمادہ ذہنیت)
(۴) جنون حسن، حق عقل
(سماجی انصاف/ انقلاب (سماجی انصاف/ انقلاب (مصلحت کو شی، کی خواہش /تڑپ) سماجی سچائی) منفعت اندیشی/ جابر نظام/ دفتر شاہی یا عسکری نظام سے سمجھوتہ بازی)
(۵) مجاہدزنداں، دار وسن حاکم
(مجاہد آزادی/ انقلابی) سیاسی قید/ پھانسی/ جان (سامراج /سرمایہ داری/ کی قربانی) تانا شاہی /عسکری نظام)
(۶) بلبل، عندلیب گل گلچیں، قفس
(جذبہ قومیت، حریت سے (سیاسی آدرش/ نصب العین) (سیاسی نصیب العین سرشار شاعر/ انقلابی) کے حصول میں رکاوٹ یا
رکاوٹ ڈالنے والے عوامل)
اوپر جلی حروف میں جو الفاظ درج کیے گئے ہیں، اردو کی عشقیہ شاعری کے صدیوں پرانے الفاظ ہیں۔ نیچے قوسین میں سماجی سیاسی مفاہیم کے امکانات کے اشاریے درج کر دیے گئے ہیں۔ عہد وسطی میں حکیمانہ اور متصوفانہ شاعری میں بھی انہیں علائم سے مدد لی گئی ہے اور مذہبی اجارہ داری، ریاکاری اور منافقت کے خلاف بھی انہیں الفاظ کے ذریعے باغیانہ آواز اٹھائی گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صدیوں کے چلن سے یہ الفاظ بڑی حد تک فرسودہ ہو چکے ہیں اور ان کی حیثیت بالعموم کلیشے کی ہے تاہم ان میں زیر سطح معنیات کا ایک زبردست نظام پوشیدہ ہے۔ تبھی تو موجودہ دور میں بھی قومی و سیاسی بیداری کے ساتھ ابھرنے والے نئے انقلابی مفاہیم بھی انہیں علائم کے ذریعے ادا کیے گئے۔
جہاں تک ان علائم کے استعمال محض کا تعلق ہے، یہ فیض احمد فیض اور اس دور کے متعدد ترقی پسند اور دیگر شعرا میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے لیکن فیض نے انہیں کو برتتے ہوئے انفرادی شان کس طرح پیدا کی اور معنی آفرینی اور حسن کاری کا حق کس طرح ادا کیا، اس کی طرف کچھ اشارہ شروع میں کیا گیا، مزید تفصیل آگے آتی ہے۔
(۳)
فیض کی شاعری کے معنیاتی ساختیوں پر نظر ڈال لینے کے بعد یعنی یہ جان لینے کے بعد کہ معنیاتی طور پر کون سے عناصر کلیدی ہیں، وہ کن دوسرے عناصر سے منسلک ہیں اور کن عناصر سے برسرپیکارہو کر نئے نئے معنی کی تخلیق کرتے ہیں یانئی نئی جمالیاتی جہات کو راہ دیتے ہیں، آئیے اب دیکھیں کہ فیض کی دنیائے شعر کی اصل کیفیات کیا ہیں، یعنی وہ جمالیاتی فضا اور وہ بنیادی کیفیت جو خاص فیض کی اپنی ہے اور کسی دوسرے شاعر کے یہاں اس کی پرچھائیں بھی نہیں ملتی۔ وہ ان ساختیوں کے ذریعے کیا رنگ پیدا کرتی ہے۔۔۔ نقش فریادی میں ’’سرودِ شبانہ‘‘ کے عنوان سے دو نظمیں ملتی ہیں۔ ان میں سے دوسری نظم کا شمار فیض کی بہترین نظموں میں کیا جا سکتا ہے،
نیم شب، چاند، خود فراموشی
محفل ہست وبود ویراں ہے
پیکر التجا ہے خاموشی
بزم انجم فسردہ ساماں ہے
آبشار سکوت جاری ہے
چار سو بے خودی سی طاری ہے
زندگی جزو خواب ہے گویا
ساری دنیا سراب ہے گویا
سو رہی ہے گھنے درختوں پر
چاندنی کی تھکی ہوئی آواز
کہکشاں نیم وانگاہوں سے
کہہ رہی ہے حدیث شوق نیاز
ساز دل کے خموش تاروں سے
چھن رہا ہے خمار کیف آگیں
آرزو، خواب، تیرا روئے حسیں
نظم میں رات کے پس منظر میں انتہائی موضوعی ذہنی کیفیت کا بیان ہے۔ پوری نظم امیجری کا شاہ کار ہے۔ یہ امیجری بھی شب اور نیم شب کی موضوعی کیفیتوں سے جڑی ہوئی ہے۔ نیم شب، چاند، بزم انجم، آبشار سکوت، چاندنی کی تھکی ہوئی آواز کا گھنے درختوں پر سونا، کہکشاں کا نیم وانگاہوں سے حدیث شوق نیاز کہنا، سازدل کے خموش تاروں سے خمار کیف آگیں کا چھننا، اور روئے حسیں کی آرزو کا سلسلہ جاریہ۔ یہ ہے وہ امیجری جو پوری نظم کو لطف واثر کی ایسی سطح عطا کرتی ہے جو اعلیٰ شاعری کی پہلی شرط ہے۔ ظاہر ہے کہ فیض کے جمالیاتی احساس کو شب اور نیم شب کے احساسات اور ان سے جڑی ہوئی کیفیات سے ایک خاص مناسبت ہے۔ اس سے پہلے جو نظم ’’ملاقات‘‘ پیش کی گئی تھی اس میں رات کی امیجری سیاسی سماجی ابعاد بھی رکھتی تھی۔
’’سرود شبانہ‘‘ خالص شخصی موضوعی نظم ہے۔ تاہم پہلی نظم کی طرح یہ بھی اعلیٰ درجے کی نظم ہے۔ ظاہر ہے کہ فیض کے یہاں سماجی سیاسی احساس کی شاعری بھی ہے اور شخصی اظہار کی بھی، لیکن یہاں اس کے ذکر سے یہ بتانا مقصود ہے کہ فیض کے یہاں سماجی، سیاسی اظہار دراصل گہرے جمالیاتی احساس سے جڑا ہوا ہے۔ جملۂ معترضہ کے طور پر یہ بھی دیکھتے چلیے کہ امیجری میں دو طرح کے عناصر بالمقابل ہیں۔ مرئی اورغیر مرئی۔ نیم شب اور چاند مرئی ہیں۔ خود فراموشی اور محفل ہست و بود کا ویران ہونا غیر مرئی۔ بزم انجم مرئی ہے اور خاموشی کا پیکر التجا ہونا مرئی۔ اسی طرح آبشار سکوت مرئی ہے اور چار سو بے خودی سی طاری ہے، غیر مرئی۔ یہ سلسلہ نظم کے آخر تک چلا گیا ہے، زندگی اور سراب کے مقابلے میں چاندنی کی تھکی ہوئی آواز، یا کہکشاں کے مقابلے میں حدیث شوق نیاز، یا ساز دل کے مقابلے میں خمار کیف آ گیں۔۔۔
امیجری کی یہ بافت اگرچہ بڑی حد تک غیرشعوری ہے، لیکن جمالیاتی احساس سے خودبہ خود ایک ڈیزائن بنتا چلا گیا ہے۔۔۔ آخری مصرعے سے اس کی مزید توثیق ہو جاتی ہے، یعنی آرزو اور خواب غیرمرئی ہیں اور محبوب کا روئے حسیں مرئی ہے۔ ہو سکتا ہے بعض حضرات اس نظم کی تعریف میں کہنا چاہیں کہ شاعر فطرت سے ہم کلام ہے یا اس میں روح کا ئنات بول رہی ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن حقیقتاً یہ منظریہ شاعری نہیں۔ اس کو یوں دیکھنا چاہئے کہ اس میں ایک شدید جمالیاتی کیفیت کا اظہار ہوا ہے، جو فیض کے رومانی ذہن کو سمجھنے کے لیے کلید کا درجہ رکھتی ہے۔
اس نوع کی شدید حسن کا رانہ امیجری فیض کی شاعری کا امتیازی نشان ہے۔ فیض کی شاعری میں شام، رات، شب، نیم شب، چاندنی، روئے حسیں، محض پیکر نہیں ہیں، یہ شدید نوعیت کے تخلیقی محرکات ہیں جو ایک خاص جمالیاتی فضا کی تشکیل کرتے ہیں۔ گھنے درختوں پر چاندنی کی تھکی ہوئی آواز سو رہی ہے، کہکشاں نیم و انگاہوں سے حدیث شوق نیاز سنا رہی ہے، ساز دل کے خموش تاروں سے خمار کیف آگیں چھن رہا ہے، اور روئے حسیں کی آرزو اس پوری کیفیت کا منتہا ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بنیادی جمالیاتی کیفیت شروع میں تو نمایاں ہے، نقش فریادی کے بعد جب انقلابیت کا اثر بڑھنے لگا تو جمالیاتی کیفیت دب گئی۔ یہ صحیح نہیں۔ میرے نزدیک اس کا سلسلہ نقش فریادی، دست صبا اور زنداں نامہ سے ہوتا ہوا آخری مجموعوں تک چلا گیا ہے۔ ذیل کی مثالوں سے یہ بات واضح ہو جائےگی۔
نقش فریادی
گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائےگی
اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہات
ان کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں
جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں
آج پھر حسن دل آرا کی وہی دھج ہوگی
وہی خوابیدہ سی آنکھیں، وہی کاجل کی لکیر
رنگ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غبار
صندلی ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر
اپنے افکار کی اشعار کی دنیا ہے یہی
جان مضمون ہے یہی، شاہد معنی ہے یہی
یہ بھی ہیں، ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے
لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کمبخت دل آویز خطوط
آپ ہی کہیے کہیں ایسے بھی افسوں ہوں گے
اپنا موضوع سخن ان کے سوا اور نہیں
طبع شاعر کا وطن ان کے سوا اور نہیں
(موضوع سخن)
تہہ نجوم، کہیں چاندنی کے دامن میں
ہجوم شوق سے اک دل ہے بے قرار ابھی
ضیائے مہ میں دمکتا ہے رنگ پیراہن
ادائے عجزسے آنچل اڑا رہی ہے نسیم
چھلک رہی ہے جوانی ہر اک بن موسے
رواں ہوں رگ گل تر سے جیسے سیل شمیم
دراز قد کی لچک سے گداز پیدا ہے
ادائے ناز سے رنگ نیاز پیدا ہے
اداس آنکھوں میں خاموش التجائیں ہیں
دل حزیں میں کئی جاں بلب دعائیں ہیں
(تہہ نجوم)
آج کی رات ساز درد نہ چھیڑ
(آج کی رات)
چاند کا دکھ بھرا فسانۂ نور
شاہراہوں کی خاک میں غلطاں
خواب گاہوں میں نیم تاریکی!
ہلکے ہلکے سروں میں نوحہ کناں
(ایک منظر)
اس سلسلے کی ایک اہم نظم ’’تنہائی‘‘ ہے۔ یہ بھی اگرچہ شدید طور پر ذہنی موضوعی نظم ہے، لیکن اس میں بھی ایک ذاتی انفرادی تجربہ ایک وسیع ترانسانی آفاقی کیفیت میں ڈھل جاتا ہے اور ذہن وروح کو اپنی حزنیہ کیفیت سے شدید طور پر متاثر کرتا ہے،
پھر کوئی آیا دل زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا، کہیں اور چلا جائےگا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑا نے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں، بڑھا دومے ومینا وایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئےگا
دل زار، راہ رو، تارے، خوابیدہ چراغ، راہ گزار، قدموں کے سراغ، یا شمع ومے ومینا وایاغ، غزل کی شاعری کے پرانے الفاظ ہیں جن میں کوئی تازگی نہیں۔ لیکن دیکھیے کہ فیض کی تخلیقی حس نے ان ہی پرانے الفاظ کی مدد سے کیسی تازہ کارانہ جمالیاتی اور معنیاتی فضا تخلیق کی ہے اور کلاسیکی روایت کے ان ہی فرسودہ عناصر کو کیسی تازگی اور لطافت سے سرشار کر دیا ہے۔ اس تخلیقی تقلیب کے جمالیاتی لطف واثر سے کوئی بھی صاحب ذوق انکار نہیں کر سکتا۔ ظاہر ہے کہ یہ جمالیاتی کیفیت فیض زیادہ تر اپنی امیجری سے پیدا کرتے ہیں۔ ڈھلتی ہوئی رات میں تاروں کا غبار بکھرنے لگاہے اور ایوانوں میں خوابیدہ چراغ لڑکھڑاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘رہ گزر‘‘ ایک معمولی لفظ ہے لیکن راستہ تک تک کے ہر ایک ’راہ گزار‘ کا سو جانا کچھ اور ہی لطف رکھتا ہے۔ اسی طرح خاک کو اجنبی کہنا اور اس اجنبی خاک کا قدموں کے سراغ کو دھندلا دینا، یا کواڑوں کو بے خواب کہنا، یا شمعوں کو گل کرکے مے و میناوایاغ کو بڑھا دینا، پرانے علائم کی مدد سے نئی امیجری کا جادو جگانا ہے۔
فیض کی امیجری نہ صرف انتہائی حسن کا رانہ ہے بلکہ طاقتور بھی ہے۔ چند مصرعوں کی مدد سے فیض ایسی رنگین بساط بچھا دیتے ہیں کہ حواس اس کے طلسم میں کھو جاتے ہیں۔ زیر نظر نظم ’’ تنہائی‘‘ کی اس توجیہ سے جو فیض کے مترجم وکٹر کیرنن نے پیش کی ہے، میرے معروضات پہ کوئی حرف نہیں آتا۔ جن اظہاری بنیادوں کی طرف خاکسار نے اشارہ کیا ہے، ان کو ذہن نشین کر لیا جائے تو کیرنن کی یہ تعبیر زیادہ معنی خیز معلوم ہوتی ہے کہ یہ نظم شاید فرسودہ کلچر، یا بکھرتے ہوئے سماجی ڈھانچے کے زوال کا اشاریہ ہے۔ سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزر، بقول کیرنن کے ان ناکامیوں کا نوحہ ہے، جن سے برصغیر کی تحریک آزادی اس وقت دوچار تھی۔ ’اجنبی خاک‘ سے مراد نو آبادیاتی نظام ہے۔ نظم امید سے شروع ہوتی ہے /پھر کوئی آیا دل زار /لیکن مایوسی پر ختم ہوتی ہے۔ /اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئےگا/گویا نظم اس یاس انگیز موڈ کو پیش کرتی ہے جو چوتھی دہائی میں ملک میں پایا جاتا تھا۔
اس موضوعی موڈ کو جو ہلکی اداسی، آرزو ئے شوق، شام، ستارۂ شام، نجوم، تہ نجوم، چشمۂ مہتاب، بیتی ہوئی راتوں کی کسک، شب، نیم شب وغیرہ سے عبارت ہے، میں نے فیض کے بنیادی تخلیقی موڈ کا نام دیا ہے، اس کی مزید شکلیں نقش فریادی کے بعد کے مجموعوں میں دیکھیے اور ان کلیدی الفاظ پر غور کیجیے جن کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
دست صبا
شفق کی رات میں جل بجھ گیا ستارۂ شام
شب فراق کے گیسو فضا میں لہرائے
کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلۂ روز وشام ٹھہرائے
صبا نے پھر درزنداں پہ آکے دی دستک
سحر قریب ہے، دل سے کہونہ گھبرائے
’’زنداں کی ایک شام‘‘ اور ’’زنداں کی ایک صبح‘‘ دونوں سیاسی نظمیں ہیں۔ ان میں بھی اسی بنیادی جمالیاتی کیفیت اور اس سے جڑی ہوئی امیجری کو دیکھیے اور غور کیجیے کہ اس کی بدولت نظم کس قدر حسین ہوگئی اوراس کی اثر انگیزی اورلطافت کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے،
شام کے پیچ وخم ستاروں سے
زینہ زینہ اتررہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحن زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں، محو ہیں بنانے میں
دامن آسماں پہ نقش ونگار
شانۂ بام پر دمکتا ہے!
مہرباں چاندنی کادست جمیل
خاک میں گھل گئی ہے آب نجوم
نور میں گھل گیا ہے عرش کا نیل
دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
موضوع کی رعایت سے یہاں فیض نے رات کے حوالے سے چاند کے استعارے کو مرکزیت دی ہے۔ /شانۂ بام پہ دمکتا ہے، مہرباں چاندنی کا دست جمیل / چاند /روشنی کی قندیل ہے اور روشنی زندگی کا استعارہ ہے /ظلم کا زہر گھولنے والے، چاند کو گل کریں تو ہم جانیں /ظاہر ہے کہ آخری بند کی معنویت اور لطافت، شروع کے بند کے ان مصرعوں سے جڑی ہوئی ہے جن کا محرک وہ جمالیاتی سرشاری ہے، جسے میں نے فیض کی بنیادی تخلیقی قوت کہا ہے۔ ’’زنداں کی ایک صبح‘‘ بھی ’’زنداں کی ایک شام‘‘ کی طرح واضح طور پر سیاسی نظم ہے لیکن دیکھیے، فیض کا تخلیقی احساس کیا کیفیتیں پیدا کرتا ہے،
رات باقی تھی ابھی جب سربالیں آکر
چاند نے مجھ سے کہا جاگ سحر آئی ہے
جاگ اس شب جو مے خواب تراحصہ تھی
جام کے لب سے تہ جام اترآئی ہے
عکس جاناں کو وداع کرکے اٹھی میری نظر
شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر
جابجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور
چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گرگر کر
ڈوبتے، تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہے
رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے
مجھے یقین ہے بہت سے صاحبان ذوق اس بند کا شمار فیض کے بہترین شعری پاروں میں کرتے ہوں گے۔ زنداں نامہ سے یہ انتہائی پرلطف غزل دیکھیے،
زنداں نامہ
شام فراق، اب نہ پوچھ، آئی اور آکے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
بزم خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی
آخر شب کے ہم سفر فیض نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی
دستِ تہہ سنگ
شام
اس طرح ہے کہ ہر اک پیڑ کوئی مندر ہے۔۔۔ الخ
(شام)
جمے گی کیسے بساط یاراں کہ شیشہ وجام بجھ گئے ہیں
سجے گی کیسے شب نگاراں کہ دل سرشام بجھ گئے ہیں
وہ تیرگی ہے رہ بتاں میں چراغ رخ ہے نہ شمع وعدہ
کرن کوئی آرزو کی لاؤکہ سب درو بام بجھ گئے ہیں
۔۔۔الخ
کب ٹھہرےگا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
سرِوادی سینا
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شب تنہائی کا
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہم راز کا رنگ
بالیں پہ کہیں رات ڈھل رہی ہے
یا شمع پگھل رہی ہے
پہلو میں کوئی چیز جل رہی ہے
تم ہو کہ مری جاں نکل رہی ہے
شام شہریاراں
اے شام مہرباں ہو
اے شام شہر یاراں
ہم پہ مہرباں ہو۔۔۔الخ
مرے دل مرے مسافر
یادکا پھر کوئی دروازہ کھلا آخر شب
کون کرتا ہے وفا عہد وفا آخر شب
۔۔۔الخ
(۴)
جیسا کہ وضاحت کی گئی رات کی معنیاتی کیفیات سے وابستہ امیجری فیض کے بنیادی تخلیقی موڈ کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔ ان حوالوں کو پڑھتے ہوئے یہ احساس تو ہوا ہوگا کہ یہ کیفیات رات کے بطن سے پیدا ہونے والی دوسری موضوعی ذہنی کیفیات مثلاً انتظار اور یاد کی کیفیات سے گھل مل گئی ہیں۔ مندرجہ بالا حوالوں میں کہیں کہیں تو یہ ربط خاصا واضح ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ رات کی امیجری ان کیفیتوں سے اور یہ کیفیتیں، شب یا نیم شب کی بنیادی کیفیتوں سے جمالیاتی معنی خیزی کا رس حاصل کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں فیض کی ایک اور شاہ کار نظم ’’یاد‘‘ کلیدی درجہ رکھتی ہے اور جس کی داد اس زمانے میں اثر لکھنوی نے بھی دی تھی۔ غزلوں میں اس کیفیت کی بہترین ترجمان ’’تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے‘‘ یا ’’رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام‘‘ کرتی ہیں، لیکن انہیں پر موقوف نہیں۔ یاد کی ٹیس یا انتظار کی کسک فیض کا مستقل موضوع ہے جس کا اظہار طرح طرح سے ہوا ہے۔ بیسیوں نظموں اور غزلوں میں یاد اور انتظار کی پرچھائیاں تیرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں اور حسن کاری کے عمل کو شدید سے شدید تر بناتی ہیں۔ پہلے ’’یاد‘‘ پر نظر ڈال لیجیے،
دشت تنہائی میں، اے جان جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے سراب
دشت تنہائی میں، دوری کے خس وخاک تلے
کھل رہے ہیں ترے پہلو کے سمن اورگلاب
اٹھ رہی ہے کہیں قریب سے تری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم
دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے ترے دلدار نظر کی شبنم
اس قدر پیار سے، اے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن، آبھی گئی وصل کی رات
اس سلسلے میں مزید دیکھیے،
نہ پوچھ جب سے ترا انتظار کتنا ہے۔۔۔ الخ
(قطعہ) دست صبا
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی۔۔۔ الخ
(قطعہ) دست صبا
تراجمال نگاہوں میں لے کے اٹھاہوں۔۔۔ الخ
(قطعہ) دست صبا
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
(غزل) دست صبا
اگرچہ تنگ ہیں اوقات سخت ہیں آلام
تمہاری یاد سے شیریں ہے تلخی ایام
(سلام لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام)
دست صبا
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہاتھ میں تیرا ہات نہیں
صد شکرکہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
(غزل) زنداں نامہ
تری امید، ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے
(غزل) زنداں نامہ
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
(غزل) زنداں نامہ
یہ جفا ئے غم کا چارہ وہ نجات دل کا عالم
ترا حسن دست عیسیٰ تری یاد روئے مریم
(غزل) دست تہہ سنگ
رہ گزر، سائے، شجر، منزل ودر، حلقۂ بام
بام پر سینۂ مہتاب کھلا، آہستہ
جس طرح کھولے کوئی بند قبا، آہستہ
حلقۂ بام تلے، سایوں کا ٹھہرا ہوا نیل
نیل کی جھیل
جھیل میں چپکے سے تیرا، کسی پتے کا حباب
ایک پل تیرا، چلا، پھوٹ گیا، آہستہ
بہت آہستہ، بہت ہلکا، خنک رنگ شراب
میرے شیشے میں ڈھلا، آہستہ
شیشہ وجام، صراحی، ترے ہاتھوں کے گلاب
جس طرح دور کسی خواب کا نقش
آپ ہی آپ بنا اور مٹا آہستہ
دل نے دہرایا کوئی حرف وفا، آہستہ
تم نے کہا ’’آہستہ‘‘
چاند نے جھک کے کہا
’’اور ذرا آہستہ‘‘
(منظر) دست تہہ سنگ
تم مرے پاس رہو
میرے قاتل، مرے دلدار، مرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے،
آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے
مرہم مُشک لیے، نشترالماس لیے
بین کرتی ہوئی، ہنستی ہوئی، گاتی نکلے
درد کی کاسنی پا زیب بجاتی نکلے
جس گھڑی رات چلے
جس گھڑی ماتمی، سنسان، سیہ رات چلے
پاس رہو
مرے قاتل، مرے دلدارمرے پاس رہو
(پاس رہو) دست تہہ سنگ
(۵)
یہاں تک آتے آتے رات، انتظار اور یاد کی ان بنیادی کیفیات سے ملی ہوئی ایک اور کیفیت کی طرف بھی ذہن ضرور راجع ہوگا۔ فیض کی شاعری کی جمالیاتی فضا میں بعض کیفیتیں اتنی ملی جلی اور ایک دوسرے میں پیوست ہیں کہ تانے بانے میں ان کو الگ الگ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ رات، آرزو، انتظار اور یاد سے ملی ہوئی یہ کیفیت دھیمے دھیمے سلگتے ہوئے درد کی ہے جس نے پوری شاعری کو ایک مدھم حزنیہ لے عطا کر دی ہے۔ یہ کیفیت نظم ’’ملاقات‘‘ میں، جس کا اس مضمون میں سب سے پہلے ذکر کیا گیا تھا، رات کی امیجری سے گندھی ہوئی موجود ہے اور بعد کے حوالوں میں بھی دھیمے دھیمے سلگتے ہوئے درد کی یہ کیفیت موج تہہ نشیں کی طرح جاری و ساری ہے۔
’’یہ رات اس درد کا شجر ہے‘‘ میں درد ہی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی نظموں سے اگر درد کے تصور کو خارج کر دیں تو ان کا پورا معنیاتی نظام درہم برہم ہو جائےگا۔ یہ کیفیت فیض کی کم وبیش تمام شاعری میں پائی جاتی ہے۔ اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہوکہ فیض کے یہاں درد کا احساس بھی ایک شدید تخلیقی محرک ہے۔ دھیمی دھیمی آنچ یا سلگنے کی کیفیت جس نے پوری شاعری میں سوگواری کی کیفیت پیدا کردی ہے اور جورات، یاد اور انتظار کی حسن کا رانہ امیجری کے ساتھ مل کر انتہائی پرکشش ہو جاتی ہے اور تاثیر کا جادو جگاتی ہے۔
اسلسلے میں نظم ’’درد آئےگا دبے پاؤں‘‘، ’’کہیں تو کاروان درد کی منزل ٹھہر جائے‘‘ (غبار خاطر محفل) یا ’’مرے درد کو جو زباں ملے‘‘ جیسی نظموں کو بھی دیکھ لیا جائے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ درد کی یہ کیفیت کلاسیکی غزل کے رسمی فراق یار سمی ہجر کی کیفیت سے ملتی جلتی ہے یا اس سے الگ ہے۔ میر ا خیال ہے مزاجاً یہ اس سے بالکل مختلف ہے اور کچھ اور ہی کیفیت ہے،
بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سرطلب سررہ گزار چلے گئے
نہ سوال وصل، نہ عرض غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
نہ رہا جنون رخ وفا، یہ رسن یہ دار کروگے کیا
جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
یہ درد ایک لذت ہے، یہ تخلیقی خلش بھی ہے اور قوت بھی، کیونکہ گناہ گاروں کو جرم عشق پر ناز ہے اور محرومی اور رسوائی لائق فخر ہے۔ گویا یہ عشق کی فراوانی اور آرزوئے روئے جمیل کا لازمہ بھی ہے۔ یہ انداز اگرچہ کلاسیکی روایت میں بھی ملتا ہے لیکن فیض کا موقف قدرے مختلف ہے۔ وہ یہ کہ غم کی شام اگرچہ لمبی ہے، ’’مگر شام ہی تو ہے۔‘‘ یعنی گزر جاےگی۔ جی جلانے یا دل برا کرنے کی ضرورت نہیں۔ غم کی رات کے ساتھ جینا بھی لازمۂ جہد حیات ہے۔ غرض فیض کے یہاں درد کا جو تصور ہے وہ کوئی محدود شخصی درد نہیں بلکہ ایک شدید تخلیقی قوت ہے جو وسیع انسانی آفاقی ابعادر کھتی ہے۔ یہ درد محبت ہی دراصل وہ بیچ کی ارتفاعی کڑی ہے جو فرسودہ عاشقانہ علائم کا رخ عالمگیر سماجی یا سیاسی مفاہیم کے تازہ کارانہ جمالیاتی اظہار کی طرف موڑ دیتی ہے۔ یہ بیچ کی کڑی نہ ہو تو اوپر جو ساختیے پیش کیے گئے تھے، ان سے رمزیہ اور استعاراتی سطح پر جو ہمہ گیر سماجی یا سیاسی، معنیاتی نظام پیدا ہوتا ہے وہ تخلیق ہی نہ کیا جا سکے۔ ذرا ان اشعار کو دیکھیے،
کب ٹھہرےگا درداے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
کب جان لہو ہوگی، کب اشک گہر ہوگا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی
واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہوگی
مطلع خالص عاشقانہ ہے لیکن دوسرے شعر ہی سے غزل کی سماجی معنویت کی گرہیں کھلنے لگتی ہیں۔ یہ کون ’دیدۂ تر‘ ہے جس کی شنوائی کی بات کی جا رہی ہے۔ یا یہ کس گھڑی کا انتظار ہے جب جاں لہوہوگی، جب اشک گہر ہوگا۔ یا شاعر کیسے شہر کا ذکر رہا ہے جس میں واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے۔ ان علائم کے معنی کی جو تقلیب ہوئی ہے ا س کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مقطع دیکھیے یہ کس قامت جانانہ کا ذکر ہے جس کی راہ دیکھی جا رہی ہے۔ یہ بات معمولی قاری بھی جانتا ہے کہ یہاں قامت جانانہ سے گوشت پوست کا محبوب مراد نہیں،
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہوگی
(۶)
اس شاعری کی جمالیاتی کشش اور لطف واثر کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس میں اگر چہ ’قامت جانانہ‘، ’حشر‘، ’دیدۂ تر‘ وغیرہ علائم کے معنی کی تقلیب ہو جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذہن وشعور یا دوسرے لفظوں میں ذوق سلیم اس نوع کے رمزیہ اشعار کی لطافت سے صرف ایک معنیاتی سطح پر متاثر نہیں ہوتا۔ اگر ایسا سمجھا جاتا ہے تو یہ سادہ لوحی ہے۔ شاعری یا آرٹ سے لطف اندوزی کے مراحل میں بہت سے نفسیاتی امور ابھی تک علوم انسا نیہ کی زد میں نہیں آئے، تاہم اتنا معلوم ہے کہ ذہن وشعور معنیاتی طور پر کئی کئی سطحوں سے بیک وقت متاثر ہوتے ہیں۔ گویا قامت جانانہ، گوشت پوست کا محبوب بھی ہو سکتا ہے جو حسن وجمال، رنگینی و رعنائی کا مرقع ہے اور ذہن وشعورمیں ایک روشن نقطہ بن کر چمکتا ہے، نیز بیک وقت وطن وقوم ک ایا آزادی وانقلاب کا وہ تصور بھی ہو سکتا ہے جو ولولہ انگیز ہے اور سنگین حالات کا مقابلہ کرنے کی بشارت دیتا ہے۔
فیض نے ایک جگہ کہا ہے /ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے، ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے /شعر میں سنوارنے کا عمل دراصل تقلیب کاعمل ہے۔ یہ تقلیب اعلیٰ شاعری کا بنیادی جوہر ہے /ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے /میں اشارہ دراصل گفتگو سے زیادہ سماعت کی طرف ہے، جو ذہنی تخلیقی عمل کی پہلی سیڑھی ہے۔ لیکن فیض کی شاعری میں بات صرف اتنی نہیں کہ خطاب محبوب کی جانب سے ہویا وطن وقوم کی جانب سے اور فن کی سطح پر اس کی شعری تقلیب ہوئی ہو، بلکہ یہ خطاب فنکار کی جانب سے بھی ہے، بنام محبوب اور بنام وطن یاانسان۔۔۔۔ اصل خوبی یہی ہے کہ یہ دونوں معنیاتی سطحیں ایک تخلیقی وحدت میں ڈھل جاتی ہیں اور ذہن وشعور کو ایک ساتھ مل کر سرشار کرتی ہیں۔ فیض کی کامیابی کا سب سے بڑا رازیہ ے کہ ان کے یہاں عاشقانہ سطح محض عاشقانہ سطح نہیں اور انقلابی سطح محض انقلابی سطح نہیں۔ فیض کی تمام شاہکار نظموں یا غزلوں میں یہ امتیاز موجود ہے،
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزر رہی ہے۔۔۔ الخ
رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام۔۔۔ الخ
نہ گنواؤ ناوک نیم کش، دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا۔۔۔ الخ
قطع نظر ان نہایت عمدہ غزلوں کے اس سلسلے کی بہترین نظم ’’نثار میں تری گلیوں کے‘‘ ہے۔ اس کا سماجی سیاسی احساس اس کے عنوان ہی سے ظاہر ہے، لیکن دیکھیے کہ وطنی وقومی احساس کو فیض کس طرح عاشقانہ اظہار عطا کرتے ہیں اور عام فرسودہ عاشقانہ علائم کو کس طرح سماجی سیاسی درد سے سرشار کرکے ایک ہمہ گیر جمالیاتی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ بات دیکھنے سے زیادہ محسوس کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس جمالیاتی سرشار کی اکا دکا مثالیں فیض کے معاصرین کے یہاں بھی مل جاتی ہیں لیکن یہ تقلیب کسی دوسرے کے یہاں اتنے بڑے پیمانے پر، اتنے ترفع اور جمالیاتی رچاؤ کے ساتھ رونما نہیں ہوئی جیسی کہ فیض کے یہاں ہوئی ہے۔ فیض کے یہاں یہ تخلیقی تقلیب دو طرفہ ہے۔ غور طلب ہے کہ دونوں طرف اس کی آمدورفت کس آسانی اور سہولت سے جاری رہتی ہے، گویا یہ فیض کے شعری عمل کی وحدت کا ناگزیر حصہ ہے،
نثارمیں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چراکے چلے، جسم وجاں بچاکے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست وکشاد
کہ سنگ وخشت مقید ہیں اور سگ آزاد
جسم وجاں، اہل جنوں، اہل ہوس، منصف، سب کلاسیکی روایت کے گھسے پٹے الفاظ ہیں، لیکن فیض نے انہیں کی مدد سے نئی شعری فضا خلق کی ہے اور کیسے اچھوتے پیرایے میں اپنی بات کہی ہے،
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے، نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے
مخاطب کی شانِ محبوبی تو پہلے بند ہی سے ظاہر ہے، لیکن تیسرے بند تک پہنچتے پہنچتے یہ تصور اور بھی نکھر کے سامنے آتاہے۔ اس کے بعد آگ میں پھول کھلانا یا ان کی ہار اور اپنی جیت کی بشارت دینا، فلک کا گلہ نہ کرنا یا فراق یار میں دل برا نہ کرنا اسی جمالیاتی رچاؤ کی توسیعی شکلیں ہیں۔ فیض اپنے فنی رچاؤ اور جمالیاتی احساس کے معاملے میں غیر معمولی طور پر حساس تھے۔ فن ان کے نزدیک ایک مسلسل کوشش تھی۔ دست صبا کے دیباچے میں غالب کے اس خیال سے کہ جو آنکھ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتی، دیدہ بینا نہیں بچوں کا کھیل ہے، بحث کرتے ہوئے فیض نے فن کے بارے میں لکھا ہے۔۔۔ طالب فن کے مجاہدے کا نروان نہیں۔ فن ایک دائمی کوشش ہے، ایک مشکل کاوش۔۔۔ فیض کے یہاں فن کو ایک دائمی کوشش کے طور پر برتنے کا تخلیقی رویہ خاصا نمایاں ہے، تبھی تو ان کے یہاں وہ رچاؤ اور وہ کشش پیدا ہوسکی جو دلوں کو مسحور کرتی ہے۔
(۷)
آخرمیں یہ سوال اٹھانا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ شاعری چونکہ تاریخ کی ایک لہر کے ساتھ پیدا ہوئی ہے اور اس کے معنیاتی نظام کی سماجی سیاسی جہت یقیناً اپنے عصر سے نظریاتی غذا حاصل کرتی ہے تو کیا یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’’وقتیا’’ سکتی ہے یعنی Dated ہو سکتی ہے۔ ہنگامی شاعری کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا اثر بڑی حد تک زائل ہو جاتا ہے۔ وطنی قومی شاعری کا ایک حصہ طاق نسیاں کی نذر اس لیے ہو جاتا ہے کہ وقت کی دیمک رفتہ رفتہ اسے چاٹ لیتی ہے۔ شاعری اور آرٹ میں ہر وہ چیز جو صرف تاریخی شعور یا صرف سماجی معنی یا محض موضوع کے زور پر پروان چڑھتی ہے، یا زندہ رہنے کا دعویٰ کرتی ہے اور فن پارے میں اپنا کوئی تخلیقی جوہر نہیں ہوتا تووہ وقت کے ساتھ ساتھ کالعدم قرار پاتی ہے۔
البتہ اگر فن کار نے اپنے درجہ کمال سے اس میں کوئی جمالیاتی شان پیدا کر دی ہے، یا دوسرے لفظوں میں خون جگر کی آمیزش کی ہے، اپنے فنی اخلاص پر کچھ ایسی مہر لگا دی ہے جو لطف و اثرکا سامان رکھتی ہے، تو ایسا فن پارہ زندہ رہنے کا امکان رکھتا ہے۔ یہ بات ایک مثال سے واضح ہو جائےگی۔ شام شہریاراں میں، جو آخری دور کا کلام ہے، پانچ شعر کی ایک مختصر سی غزل ہے، ملاقاتوں کے بعد، برساتوں کے بعد، فیض نے اسے نظمیہ عنوان دیا ہے ’’ڈھاکہ سے واپسی پر‘‘ اس عنوان کی بدولت اس غزل کا تاریخی تناظر ذہن پرثبت ہو جاتا ہے۔ اگر یہ عنوان نہ ہوتا تو مطلع خاص تغزل کا رنگ لیے ہوئے تھا لیکن عنوان قائم ہو جانے کی وجہ سے تمام اشعار تاریخ کے محور پر سانس لینے لگتے ہیں۔ دوسرے شعر میں، بے داغ سبزے کی بہار، اورخون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد سے درد کی لہر واضح ہو جاتی ہے،
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظر میں آئےگی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پرشکست دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کرلیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے جان صدقہ کیجیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
مہرباں راتیں، بے مہر صبحیں، شکست دل، گلے شکوے، جان صدقہ کرنا اور اصل بات کا ان کہارہ جانا، کون کہہ سکتا ہے یہ سب اظہارات شدید جمالیاتی رچاؤ نہیں رکھتے۔ ظاہر ہے کہ فیض نے ایک خالص تاریخی سانحے کو جذبات کاری سے انتہائی ارفع اور ہمہ گیر جمالیاتی احساس میں ڈھال دیا ہے۔ فیض کے یہاں تاریخی شعوریا سماجی احساس یا انقلابی فکر کوئی محدود اور وقتی چیز نہیں، بلکہ یہ جمالیاتی اظہار کی راہ پاکر ایک عام انسانی آفاقی کیفیت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
فیض کی فکر انقلابی ہے لیکن ان کا شعری آہنگ انقلابی نہیں۔ وہ اسی معنی میں باغی شاعر نہیں کہ وہ رجزخوانی نہیں کرتے، ان کے فن میں سخن سنجی اور نرم آہنگ نغمہ خوانی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ وہ اس درجہ کمال کے شاعر ہیں جہاں ’’برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائیت‘‘ شعری ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔ ان کا لہجہ غنائی ہے۔ ان کا دل درد محبت سے چور ہے۔ ان کاشعری وجود ایک روشن الاؤ کی طرح ہے جس میں دھیمی دھیمی آگ جل رہی ہے۔ اس کے سوزدروں میں سب ہنگامی آلائشیں پگھل جاتی ہیں اور جمالیاتی حسن کاری کی آنچ سے تپ کر تخلیقی جوہر تابندہ وروشن ہو اٹھتا ہے۔
فیض کی اہمیت اس میں ہے کہ انہوں نے جمالیاتی احساس کو انقلابی فکر پر قربان نہیں کیا اور اس کے برعکس بھی صحیح ہے یعنی فیض نے انقلابی فکر کو جمالیاتی احساس پر قربان نہیں کیا۔ فیض نے اپنے تخلیقی احساس سے ایسی شعری وحدت کی تخلیق کی جس کی حسن کاری، لطافت اور دل آویزی تو احساس جاں کی دین ہے لیکن جس کی درد مندی اور دل آسائی سماجی احساس سے آئی ہے۔ انہیں سب عناصر نے مل کر فیض کی شاعری میں وہ کیفیت پیدا کی ہے جسے قوت شفا کہتے ہیں۔ فیض کی شاعری کا نقش دلوں پر گہرا ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا کچھ حصہ دھندلا جائےگا، تاہم اس کاایک حصہ ایسا ہے جس کی تابندگی کم نہیں ہوگی بلکہ اس کا امکان ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا نقش اور روشن ہوتا جائےگا،
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہرمیں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page