(رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، ۱۸۹۶ء تا ۱۹۸۲ء)
فراق صاحب کی موجودہ عزت و شہرت کے پیش نظر ان کے بارے میں کوئی اختلافی بات کہنا بھڑوں کا چھتہ چھیڑنا ہے۔ میں اپنے دفاع میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں یہ کام فراق صاحب کی زندگی میں بھی تھوڑا بہت کر چکا ہوں۔ بہت عرصہ ہوا میں نے لکھا تھا کہ ’’ہندوستان میں نئی غزل کی تاریخ یگانہ، فراق اور شاد عارفی سے شروع ہوتی ہے لیکن ان شعرا کا مزاج نیا نہ تھا، کیونکہ مسلسل استفسار اور تجسس، جو نئے مزاج کا خاصہ ہے، ان کے یہاں بہت کم ملتا ہے۔‘‘
یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب ایک حد تک میں فراق صاحب کی شاعری کا مداح تھا۔ اس کے باوجود میں نے یہ بھی لکھا کہ فراق صاحب کا اسلوب میر کے وجدانی اور جدلیاتی اسلوب کے بجائے سودا کے اسلوب سے قریب تر ہے، یعنی اس اسلوب سے جسے میں لفظی توازن اور الفاظ کی جامد منطق کا اسلوب کہتا ہوں۔ میں نے لکھا تھا کہ ’’فراق اصلاً ذاتی دنیا کے نہیں بلکہ عامۃ الناس کی دنیا کے شاعر ہیں، جہاں شاعری الٹ پھیر، بات میں بات پیدا کرنے، اعلیٰ درجہ کی حاضر جوابی، تناسب لفظی اور کتابی مشاہدے کا نام ہے۔‘‘ اس وقت میرا خیال یہ تھا کہ اپنی ’’اس افتاد مزاج کے برخلاف صاحب نے اپنی شاعری کا بڑا حصہ معنی آفرینی اور پیکر تراشی کی نذر کیا۔‘‘ ان کی غزل کے ’’نئے آہنگ، ان کی تکنیکی صلاحیت، ہوش مندی اور تفکر‘‘ نے نئی شاعری کے لیے راہ ہموار کی۔ فراق نہ ہوتے تو ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی اور ابن انشا کا وجود نہ ہوتا۔
یہ باتیں میں نے کوئی پندرہ سال پہلے کہی تھیں۔ ان کے بعد میں نے دو اور تحریروں میں فراق صاحب کا نسبتاً مفصل ذکر کیا ہے اور ان کی شاعری کے کئی ناگوار پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے۔ ان پندرہ برسوں میں میں نے کچھ سیکھا ہے اور کچھ کھویا ہے، مثلاً یہ درست ہے کہ فراق نہ ہوتے تو ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی اور ابن انشا کا وجود نہ ہوتا۔ لیکن اب میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ناصر کاظمی اورا حمد مشتاق، فراق صاحب سے بہتر شاعر ہیں۔ کم تر درجے کے شعرا بھی بعض اوقات اپنے سے بہتر شعرا کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا کے ادب کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
اب میں اس بات کو نہیں مانتا کہ فراق صاحب کا اسلوب لفظی توازن کا اسلوب ہے، یا یہ کہ لفظی توازن و تناسب صرف اس اسلوب کا خاصہ ہے جو غیراستعاراتی اور سطحی ہوتا ہے۔ اب میرا خیال یہ ہے کہ لفظی توازن و تناسب اردو شاعری کی روایت کا اہم حصہ ہے اور یہ ہمارے تمام بہترین شعرا میں موجود ہے۔ اب میرا خیال یہ ہے کہ فراق صاحب کا کلام لفظی توازن و تناسب کے حسن سے بڑی حد تک خالی ہے۔
میرا خیال اب بھی یہی ہے کہ فراق صاحب ذاتی دنیا سے زیادہ عامۃ الناس کی دنیا کے شاعر ہیں لیکن اب میں اس بات کو نہیں مانتا کہ فراق صاحب کے یہاں اعلیٰ درجے کی حاضر جوابی اور بات میں بات پیدا کرنے کی صفت پائی جاتی ہے۔ میرا خیال اب بھی یہی ہے کہ فراق صاحب کا عام اسلوب لفظوں کی جامد منطق کا اسلوب ہے، لیکن اب میں اس بات کو نہیں مانتا کہ فراق صاحب نے اپنی شاعری کا بڑا حصہ معنی آفرینی اور پیکر تراشی کی نذر کیا ہے۔
اب مجھے فراق صاحب میں تکنیکی صلاحیت بھی کوئی بہت زیادہ نظر نہیں آتی۔ اب میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ فراق صاحب نے جذبۂ عشق کے بعض ایسے پہلوؤں اور عشق کے تجربے کی بعض ایسی کیفیتوں کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش ضرور کی ہے جو بہت کم شعرا کی گرفت میں آ سکے ہیں۔ لیکن وہ بڑے شاعرنہ تھے۔ ان کے ہم عصر (فانی، یگانہ، جوش، حسرت وغیرہ) اوسط درجے کے شاعر تھے اور فراق صاحب ان ہم عصروں میں ممتاز ترین بھی نہیں ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اردو شاعری کی روایت سے پوری طرح بہرہ مند نہ تھے۔
ایک ایسے شاعر کے بارے میں جس نے میر، مصحفی، ناسخ، مومن اور ذوق وغیرہ پر مضمون لکھے ہوں اور ان شعرا کی قدر شناسی میں ہماری مدد کی ہو اور جس نے اردو کی عشقیہ شاعری پر پوری کتاب لکھی ہو، یہ کہنا کہ وہ اردو شاعری کی روایت سے پوری طرح بہرہ مند نہ تھا، حیرت انگیز معلوم ہوگا۔ لیکن حقیقت حال یہی ہے۔ ان شعرا (اور ان سے کم تر درجے کے بعض شعرا) پر اظہار خیال کرکے فراق صاحب نے انھیں اعتبار ضرور بخشا، اہم اور ’’عزت دار‘‘ ضرور بنایا۔ کیونکہ جب لوگوں نے دیکھا کہ فراق جیسا مشہور شاعر اور انگریزی کا پروفیسر ان کو قابل اعتنا سمجھتا ہے تو ضرور ان لوگوں میں کوئی بات ہوگی۔ لیکن فراق کی یہ تحریریں تاثراتی زیادہ تھیں، تنقیدی کم، ان میں فراق صاحب کا اسلوب اور انداز زیادہ نظر آتا ہے، اس شاعر کا کم، جس پر وہ اظہار خیال کرتے ہیں۔
فراق صاحب کی تنقید کو تاثراتی کہا گیا ہے، لیکن اس بات کو واضح نہیں کیا گیا ہے کہ فراق صاحب کی تنقید خود ان کے بارے میں تو ہمیں بہت کچھ بتاتی ہے لیکن اس شاعر کے بارے میں بہت کم، جوان کا موضوع سخن ہے، مثلاً میر شناسی میں فراق صاحب کا بڑا مرتبہ ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو، ’’میر کے بکھرے ہوئے آنسوؤں میں ہمیں بحر حیات کی وسعتوں اور گہرائیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ میر کی آہ وفغاں میں شش جہت کی ہواؤں کی سنسناہٹ ہے۔‘‘ زبان کے اغلاط سے قطع نظر، ان جملوں میں صرف سطحی گہرائی اور خالی ہوا کی سنساہٹ ہے۔ میر کے بارے میں جو تاثر ان الفاظ سے قائم ہوتا ہے وہ گمراہ کن بھی ہے۔
ہماری شاعری کی روایت سے بےخبری کے باعث فراق صاحب کا کلام عیوب واسقام سے بھرا ہوا ہے اور ان میں سے اکثر عیوب ایسے ہیں جن سے ہر وہ شاعر بچ سکتا ہے جسے روایت میں تھوڑا بہت بھی دخل ہو۔ واضح رہے کہ میں ’’غلطی‘‘ کو ’’عیب‘‘ سے مختلف شے سمجھتاہے ہوں۔ غلطی اور عیب پر بحث کرتے ہوئے میں نے ایک جگہ فراق صاحب کے معائب شاعری پر مختصراً اظہار خیال کیا ہے۔ فراق صاحب کے یہاں حشو وزوائد، عجزنظم، الفاظ میں عدم مناسبت، دوسرے شعرا سے مستعار مضامین کو پست کرکے بیان کرنا، اس قسم کے عیب عام ہیں۔
اگر فراق صاحب کو میر کا واقعی عرفان ہوتا تو ان کی وہ غزلیں جن پر انھوں نے ’’طرز میر‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے، اس قدر افسوسناک حد تک ناکام نہ ہوتیں، جیسا کہ میں نے ایک جگہ لکھا ہے، فراق صاحب کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا کوئی اسلوب نہیں ہے، وہ کبھی کسی رنگ میں جا نکلتے ہیں، کبھی کسی طرز کو اختیار کرتے ہیں۔ ان میں وہ پختگی تا حیات نہ آئی جس کے بعد شاعر اپنا انفرادی اسلوب مستحکم کر پاتا ہے۔
آل احمد سرور نے اس حقیقت کی طرف بہت عرصہ ہوا اشارہ کیا تھا، ’’اس زمانے کا اثر فراق کی غزلوں میں بہت کچھ نمایاں ہے۔ یہ شخص فانی کا سا المیہ احساس رکھتا ہے، مگر جدید ذہن ہرسلسلے میں جو الجھن دیکھتا ہے اور اجتماع ضد ین پاتا ہے، وہ انھیں فانی کے رنگ سے بچاکر ایک اور وادی میں لے گیا۔ فراق ہمارے ان شعرا میں سے ہیں جو مغربی سانچوں سے پوری طرح واقف ہیں مگر ان سے ان کی مشرقیت اور گہری ہو گئی ہے۔ ان کے خیال میں آپ کو بڑی گہرائی ملےگی۔ اتنی گہرائی کہ ان کی زبان اکھڑی اکھڑی اور الجھی الجھی سی معلوم ہوتی ہے۔ نیاز فتح پوری کو ان کی پختگی سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔ میں ان کی پختگی کا منتظر ہوں۔‘‘
یہ الفاظ ۱۹۴۳ء کے ہیں۔ میں ان پر اتنا ہی اضافہ کر سکتا ہوں کہ فراق صاحب کے خیال میں گہرائی اب بھی خال خال ہی نظر آتی ہے اور اسلوب کی جس پختگی کا سرور صاحب کو ۱۹۴۳ء میں انتظار تھا، وہ فراق صاحب کو تاعمر نصیب ہوئی۔ فراق صاحب کے بارے میں اپنی گذشتہ تین تحریروں کا حوالہ میں نے دو وجہوں سے دیا ہے۔ ایک تو یہ کہ فراق صاحب کے بارے میں اپنی موجودہ رائے سے ان رایوں کا ربط قائم کرنا تھا، تاکہ سلسلہ برقرار رہے اور دوسری یہ کہ آپ کو یہ خیال نہ گذرے کہ فراق صاحب کی زندگی میں تو یہ شخص چپ تھا، اور اب جب وہ ہم میں نہیں ہیں تو بڑھ بڑھ کر باتیں بناتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ فراق صاحب کی شاعری پر نسبتاً مفصل اظہار خیال کا یہ پہلا موقع ہے، اور میں اسے شمیم حنفی صاحب کی خاطر زرہ امتثال امر اور بادل ناخواستہ استعمال کررہا ہوں کیونکہ غیرضروری بت شکنی میرا شیوہ نہیں۔ فراق صاحب کی وقعت ان دنوں بہت ہے لیکن اب وہ کسی شاعر کے لیے نمونے کا کام نہیں دے رہے ہیں، لہٰذا فی الحال اس کا امکان کم ہے کہ ان کا کلام پڑھ کر کوئی گمراہ ہوگا۔
لیکن یہ بات حیرت انگیز ہے کہ فراق صاحب کا اسطور یعنی Myth جو بہت دیر میں قائم ہوئی، بہت جلد عالم گیر ہو گئی۔ جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، فراق صاحب پر پہلا مضمون نیاز فتح پوری کا تھا جو ۱۹۳۷ء میں ’’یوپی کے ایک نوجوان ہندو شاعر، رگھوپتی سہائے فراق‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ نیاز فتح پوری نے فراق کی شاعری میں ’’معنی آفرینی‘‘، ’’کیفیت اور حلاوت‘‘ کی صفات دریافت کیں۔
اسطور سازی میں پہلا قدم اسی عنوان ہی نے اٹھایا، جس میں فراق صاحب کو ’’نوجوان‘‘ شاعر کہا گیا تھا، حالانکہ اس وقت ان کی عمر چالیس سے تجاوز کر چکی تھی اور مصنف تھے نیاز فتح پوری، جنھیں معلوم تھا کہ میر کے دیوان اول میں جو چالیس سال سے کم عمر میں تیار ہو چکا تھا، پختگی کا رنگ تقریباً تمام و کمال وہی ہے جو دیوان ششم میں ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ غالب ۵۲ برس کی عمر تک اپنی بعض بہترین غزلیں کہہ چکے تھے۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ ۱۹ سالہ آتش کے بارے میں مصحفی نے کیا لکھا تھا۔ معاصرین میں اقبال کی مثال آنکھوں دیکھی تھی۔ پھربھی انھوں نے اکتالیس سالہ فراق کو ’’نوجوان‘‘ کے لقب سے نوازا۔ عسکری صاحب کو اس بات کا دھندلا سا احساس تھا کہ اس میں کچھ گڑبڑ ہے،
’’فراق کی شاعری کی یہ اٹھان ۱۹۳۸ء سے شروع ہوئی ہے۔۔ مگر لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ۱۹۳۸ء سے پہلے فراق کی شاعری محض نومشقی کی شاعری یا تجرباتی چیز تھی۔۔۔ فراق صاحب کے یہاں اس دور میں وہ رفعت، وہ گھلاوٹ اور رسیلاپن، وہ پہلودار شعر تو نہیں ہیں مگر پھر بھی۔۔۔ بیسیوں شعر ایسے ملیں گے جو بہت سے ’’استادوں‘‘ کے دیوانوں پر بھاری ہیں۔۔۔ بات یہ ہے کہ بڑی شاعری دفعتاً ظہور میں نہیں آ جاتی۔ بڑی شاعری مدتوں شاعر کی شخصیت میں پکتی رہتی ہے تب کہیں جا کے سامنے آتی ہے۔‘‘
عسکری صاحب یہ نہیں سوچتے کہ اگر ۱۹۳۸ء کے پہلے فراق صاحب کے کلام میں ’’رفعت‘‘، ’’گھلاوٹ‘‘، ’’رسیلا پن‘‘ اور ’’پہلوداری‘‘ نہیں ہے تو کس بنا پر وہ کلام استادوں کے دیوانوں پر بھاری ہے؟ یہ وہی عسکری صاحب ہیں جو بود لیئر اور شیکسپیئر کے ابتدائے عمر کے کلام سے واقف تھے، جنہیں معلوم تھا کہ ریں بو (Rimbaud) نے جو کچھ لکھا، سولہ سے انیس سال کی عمر کے درمیان لکھا۔ اور شیکسپیئر نے جب اپنے سانیٹ لکھے تو اس کی عمر تیس سے کم تھی اور اس نے ۴۶ سال کی عمر میں لکھنا بند کر دیا تھا۔ عسکری صاحب کو یہ بھی معلوم تھا کہ غالب کی بعض بہترین غزلیں نسخہ حمیدیہ میں شامل ہیں، جو غالب نے چوبیس سال کی عمر میں مرتب کیا تھا۔ آپ کو یاد نہ ہو تو بتادوں کہ نسخۂ حمیدیہ میں شامل بعض غزلیں حسب ذیل ہیں (ردیف الف)،
(۱) نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا، (۲) کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا، (۳) شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا، (۴) دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا، (۵) دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا، (۶) پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا، (۷) یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا، (۸) درد منت کش دوا نہ ہوا، (۹) عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا، (۱۰) ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا۔
ظاہر ہے کہ یہ سب غزلیں صرف اردو شاعری نہیں، بلکہ تمام شاعری کا طرۂ امتیاز ہیں اور پھر بھی عسکری صاحب کہتے ہیں کہ بڑی شاعری مدتوں شاعر کی شخصیت میں پکتی رہتی ہے، لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ نہ کہتے تو اپنے زمانے کے قریب تر زمانے میں فراق صاحب کی اچانک شہرت اور ترقی کی توجیہ کس طرح کرتے؟ یہ شہرت اور ترقی فراق صاحب کو (خود عسکری صاحب کے بقول ۳۸سال کی عمر سے حاصل ہونا شروع ہوئی) فراق صاحب کے ممدوح انگریز شاعروں میں کیٹس (Keats) کی موت پچیس سال کی عمر میں شیلی (Shelley) کی موت انتیس سال کی عمر میں ہو چکی تھی۔ اب اسطور کا پھیلاؤ دیکھیے۔ عسکری صاحب مزید فرماتے ہیں،
’’اس صدی کی تیسری دہائی میں ہماری شاعری میں نئی نظم نے اپنا ڈنکا بجایا۔۔۔ فراق صاحب غزل گوئی تو پچھلی دہائی سے کرتے چلے آ رہے تھے مگر اس دہائی میں آکر ان کی غزل نے ایک عجیب سی کروٹ لی۔ بات یہ ہے بڑا شاعر پیدا ہوتے ہی بڑا شاعر نہیں بن جاتا۔۔۔ فراق صاحب کا ۱۹۳۸ء تک کا زمانہ شاعری ریاضت کا زمانہ ہے۔۔۔ فراق صاحب اکیلی اردو غزل کی روایت سے استفادے پر قانع نہیں تھے۔ مختلف ادبی روایتوں اور مختلف تہذیبی سرچشموں سے اپنے آپ کو سیراب کر رہے تھے۔‘‘
لہذا اب فراق صاحب اردو شاعری اور تہذیبوں کی روایت کے علاوہ دوسری شاعریوں اور تہذیبوں سے مستفید دکھائی دیتے ہیں اور ۱۹۳۸ء کے پہلے وہ استفادے اور مطالعے کے عمل سے گزر رہے تھے۔ یہ کسی نے نہ دیکھا کہ اس استفادے کے اثرات فراق صاحب کی شاعری میں کہاں اور کس طرح ہیں؟ وہ کون سی ’’ادبی روایتیں اور مختلف تہذیبی سرچشمے‘‘ ہیں جن سے وہ خود کو سیراب کر رہے تھے؟ اور اس ’’سیرابی‘‘ کے عمل سے پہلے ان کے شاعری کس طرح کی تھی؟
یہاں سب سے پہلی فکر تو یہ تھی کہ ۱۹۳۷ء میں سرگرم عمل فراق صاحب کو یا تو نوجوان ثابت کیا جائے، یا یہ دکھایا جائے کہ چالیس سے پہلے کی عمر کا زمانہ انھوں نے اولیاء اللہ کی طرح ذہنی مجاہدے میں گذارا۔ کوئی شاعر جوانی ہی میں پختگی کی منزل تک پہنچتا ہے، کوئی بڑھاپے میں، مجھے اس میں کوئی شکایت نہیں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ فراق صاحب کے دیر میں مشہور ہونے کو بھی ادبی تاریخ کا ایک غیرمعمولی مظہرہ یعنی (Phenomenon) ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب دیکھئے سید محمد عقیل کہتے ہیں،
’’فراق صاحب کے ایک بڑے اور عہد آفریں شاعر ہونے میں کسی طرح کا شک کرنا، غزل اور اردو شاعری کی صحیح پرکھ سے دور ہوجانا ہے۔ فراق صاحب نے اپنا لہجہ اور اپنا انداز بیان یقیناً الگ کر لیا تھا۔ فراق نے غزل کو اس فرسودگی اور روایت پرستی سے بچاکر اس میں نہ صرف یہ کہ جمالیات کی ایک جہت پیدا کی بلکہ اس میں فکر اور سوچ کی وہ روایت زندہ کرنے کی کوشش کی جو غالب کی روایت تھی۔ پھر یہی نہیں، انھوں نے اپنے لیے الفاظ کی وہ دنیا بھی پیدا کی جو ان کے محسوسات اور ان کی فکر کو انگیز کرسکیں اور یہ ہر بڑا شاعر کرتا ہے۔‘‘
زبان کی خامیوں سے قطع نظر عقیل صاحب کا یہ ارشاد محمد حسن عسکری کے مندرجہ ذیل الفاظ کی صدائے باز گشت ہے۔ فرق یہ ہے کہ دونوں میں کوئی تیس سال کا فصل ہے، یعنی عسکری صاحب بہت پہلے ہیں۔ دوسرافرق یہ ہے کہ عقیل صاحب کا فتویٰ یہ ہے کہ جو فراق صاحب کو بڑا شاعر نہ مانے وہ ’’دائرہ اسلام سے خارج‘‘ ہے۔ عسکری صاحب نے لکھا (اور عقیل صاحب نے ان کی بات دہرائی)، ’’فراق صاحب اردو شاعری میں ایک نئی آواز، نیا لب ولہجہ، نیا طرز احساس، ایک نئی قوت، بلکہ ایک نئی زبان لے کر آئے کیونکہ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ فراق نے بہت سے نئے لفظ ہماری شعری زبان میں داخل کیے ہیں اور معمولی لفظوں کو ایک نئی معنویت اور نئی فضا دی ہے۔‘‘
فراق صاحب کا اسطور کس طرح اور کیوں قائم ہوا، اس پر بحث کا یہاں موقع نہیں۔ لیکن اس اسطور کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ فراق صاحب کے بارے میں یہ خیال عام ہو گیا کہ انھوں نے اردو غزل کی روایت میں اضافہ کیا، یعنی انھوں نے اس روایت کو پوری طرح سمجھا اور پھر اس میں نئے مضامین یا نئے طرز ادا یا دونوں کا اضافہ کیا۔ لیکن اس شور غل میں یہ سوال نظر انداز ہو گیا کہ اردو غزل کی روایت ہے کیا؟ پھر یہ مشکل بھی آپڑی کہ اگر کوئی شعر اس مفروضہ روایت کے خلاف جاتا نظر آیا تو فوراً کہہ دیا گیا کہ اسی طرح کے اشعار کی بنا پر تو ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ فراق صاحب نے نئی روایت کی بنا ڈالی ہے اور اگر کسی شعر میں مفروضہ روایت کی پابندی نظر آئی تو کہا گیا کہ یہی تو فراق صاحب کا طرۂ امتیاز ہے کہ وہ قدیم روایت کا لحاظ رکھتے ہوئے بھی نئی غزل کہہ رہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں جیت فراق صاحب کے حامیوں کی رہی۔
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اردو غزل کی روایت کے خد وخال بیان کیے جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ موضوع ایک پوری کتاب کا تقاضا کرتا ہے، ایک چھوٹے سے مضمون میں اتنی گنجائش نہیں۔ پھر بھی بعض بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس کے پہلے کہ میں اردو غزل کی روایت کی وضاحت کرنے کی کوشش کروں، یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کسی بھی روایت میں توسیع یا تبدیلی یا اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب شاعر خود اس روایت پر پوری طرح حاوی ہو۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ روایت میں توسیع یا تبدیلی، یا اضافے سے مراد یہ نہیں کہ کوئی بھی اینڈ ابینڈا شعر کہہ دیا جائے اور دعویٰ کیا جائے کہ صاحب ہم نے روایت میں تبدیلی، یا توسیع، یا اضافے کیے ہیں۔
تبدیلی ہو یا توسیع ہو یا اضافہ، اس کی شرط یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی نہج سے روایت کے ساتھ ہم آہنگ ہو، اس میں کھپ سکے۔ یعنی جو بھی تبدیلی ہو وہ روایت کی روح سے متغائر اور متحارب نہ ہو۔ اس سلسلے میں تبدیلی سے زیادہ تبدیلی کو برتنے اور داخل کرنے کا طریقہ (یعنی شاعر کا اسلوب) اہم ہوتا ہے، مثلاً حسرت موہانی اور محمد علی جوہر نے سیاسی موضوعات اپنی غزل میں داخل کیے، وہ کہیں کامیاب ہوئے، کہیں ناکام، معلوم ہوا کہ سیاسی موضوعات میں بذاتہ کوئی عیب نہیں، بلکہ معاملہ طرز ادا کا ہے۔ مجروح صاحب نے سیاسی رنگ میں یہ شعر کہاتو کامیاب ٹھہرے،
جست کرتا ہوں تو لڑ جاتی ہے منزل سے نظر
حائل راہ مرے کوئی بھی دیوار سہی
اور انھیں مجروح صاحب نے سیاسی رنگ میں جب یہ شعر کہا تو وہ غزل کیا، شاعری سے ہی خارج قرار پایا،
آ نکل کے میداں میں دورخی کے خانے سے
کام چل نہیں سکتا اب کسی بہانے سے
اگر فیض اور جذبی کے یہاں سیاسی موضوعات زیادہ کامیابی سے برتے گئے ہیں، ظہیر کاشمیری اور ساحر لدھیانوی کے یہاں نہیں، تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ فیض اور جذبی کے سیاسی موضوعات بہتر ہیں، لہٰذا اصل معاملہ یہ ہے کہ تبدیلی یا اضافے کو شعر میں اس طرح داخل کیا جائے کہ وہ کسی نہ کسی سطح پر روایت سے ہم آہنگ ضرور ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ تبدیلی یا توسیع یا اضافہ، روایت کا حصہ نہ بن سکےگا اور بانجھ ٹھہرےگا۔ واضح رہے کہ میں تجربے کی اہمیت کی نفی نہیں کر رہا ہوں۔ میں تجربے کو فی نفسہ ایک مثبت قدر مانتا ہوں لیکن تجربہ کامیاب نہ ہو تو بڑی شاعری نہیں بن سکتا۔
یہاں جو بات معرض بحث میں ہے، وہ یہ ہے کہ کیا فراق صاحب نے اردو غزل کی روایت سے پوری طرح استفادہ کیا تھا اور کیا انھوں نے اس میں کوئی ایسا اضافہ کیا (یعنی کوئی ایسا تجربہ کیا) جو اس روایت کی روح سے ہم آہنگ تھا اور کامیاب تھا، اور کیا اس کی بنا پر ہم ان کو بڑا شاعر کہہ سکتے ہیں؟ میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ محض اکا دکا اضافے سے کوئی شخص بڑا شاعر نہیں بن جاتا (ورنہ حسرت موہانی بڑے شاعر ہوتے۔) اضافے کو مستقل، مسلسل اور وسیع ہونا چاہیے اور شاعر میں بڑی شاعری کی دوسری صفات بھی ہونا چاہئیں۔ اگر شاعر میں بڑی شاعری کے دوسرے صفات نہیں تو محض اضافہ یا توسیع کی بنا پر اسے بڑا شاعر تو نہیں، لیکن اہم شاعر ضرور قرار دیا جائےگا۔
نظیر اکبرآبادی کی مثال سامنے کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ روایت میں تبدیلی یا اضافہ یا توسیع اکثر انھیں شاعروں کے ذریعہ عمل میں آتی ہے جو بڑے شاعر بھی ہیں لیکن یہ کوئی منطقی مفروضہ نہیں، محض تاریخی حقیقت ہے۔ آئندہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔ فراق صاحب نے ۱۹۵۰ء کے آس پاس نمایاں ہونے والی نسل کو متاثر ضرور کیا اور اس کے لیے وہ اہم شاعر یقیناً ہیں لیکن یہ ان کی شاید واحد اہمیت اور عظمت ہے۔
اردو غزل کی روایت پر مفصل اظہار خیال محمد حسین آزاد، حالی اور مسعود حسین رضوی ادیب کے یہاں ملتاہے۔ حالی نے براہ راست موضوع کو مخاطب کرکے باتیں کہی ہیں اور محمد حسین آزاد، مسعود حسن رضوی ادیب نے ’’آب حیات‘‘ اور ’’ہماری شاعری‘‘ میں مختلف موقعوں پر ایسی باتیں کہی ہیں جن سے اس روایت کا استنباط ممکن ہے۔ ان کے سوا امداد امام اثر، عبد السلام ندوی، یوسف حسین، نور الحسن ہاشمی، ابواللیث صدیقی وغیرہ کی کاوشیں قابل اعتنا نہیں۔
افسوس یہ ہے کہ حالی کا لہجہ مجموعی طور پر مخالفانہ ہے اور انھوں نے غزل کی فنی روایت پر براہ راست کوئی بحث نہیں کی ہے۔ محمد حسین آزاد جب اصولی اظہار خیال کرتے ہیں تو وہ بھی کم وبیش مخالف ہی نظر آتے ہیں لیکن انفرادی شعرا پر انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس سے کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کہ غزل کی روایت میں کیا کیا داخل ہے؟ مسعود حسن رضوی ادیب کے یہاں فکر کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی بیشتر توجہ حالی کے رد میں صرف ہوئی ہے۔
بقیہ لوگوں کے بارے میں کچھ نہ کہا جائے تو بہتر ہے۔ ان لوگوں سے اتنا بھی نہ ہوا کہ پرانے تذکرہ نگاروں نے جو اصطلاحیں استعمال کی ہیں (مثلاً ’’کیفیت‘‘، ’رنگینی‘‘، ’’معنی آفرینی‘‘، ’’شورش‘‘، ’’ادا بندی‘‘، ’’خیال بندی‘‘، ’’مناسبت‘‘، شیوابیانی‘‘، ’’تازہ خیالی‘‘ وغیرہ) انھیں کی فہرست بنا ڈالتے اور ان کے معنی متعین کرنے کی کوشش کرتے۔ غزل کا فن کیا چاہتا ہے، وہ اصلاً کس معنی میں قصیدے کے فن سے مختلف ہے؟ اس سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ ان لوگوں کی سطحیت کا یہ عالم ہے کہ یہ لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ غزل میں رعایت لفظی اچھی نہیں۔
ان لوگوں کی دیکھا دیکھی یہ خیال اب تک عام ہے کہ چونکہ میر نے کہیں یہ کہہ دیا تھا کہ میرے شعروں میں ایہام نہیں ہے، اس لیے میر ایہام سے تو بھاگتے ہی تھے، وہ تمام رعایات لفظی سے نفور تھے۔ ان صاحبان نے میر کے کلیات کا اگر ایک بھی صفحہ غور سے پڑھا ہوتا تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ میر رعایت لفظی کے بغیر لقمہ نہیں توڑ سکتے، لہٰذا ان حضرات کی تحریریں اردو غزل کی روایت کا تعین کرنے میں ہماری معاون نہیں ہو سکتیں۔ ان لوگوں کو کچھ معلوم ہی نہیں، اور جن کو معلوم ہے (یعنی حالی اور آزاد اور ایک حدتک مسعود حسن رضوی ادیب) انھوں نے باضابطہ طور پر کچھ لکھا نہیں۔
لیکن اردو غزل کی روایت کوئی ایسی خفیہ یا پراسرار چیز تو ہے نہیں، جس کا علم ہم کو نہ ہو سکے۔ پچھلے لوگوں نے جو کچھ منتشر اور غیرمربوط طور پر لکھا ہے اور جو کچھ غزل ہم نے پڑھی ہے، اس کی روشنی میں ہم ایک ہلکا سا نقشہ تو ترتیب دے ہی سکتے ہیں۔ اردو غزل کے بارے میں بہت سی باتیں تو ہم آپ کو بھی معلوم ہیں اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا تفاعل ہم دن رات دیکھتے رہتے ہیں لیکن ان کے پیچھے روایت کیا ہے اور اس روایت کے پیچھے نظریہ یا فکر کیا ہے، وہ ہم نہیں جانتے۔
پھر ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ کسی مانے ہوئے بڑے شاعر مثلاً میر کا کلام دیکھیں کہ اس نے فن غزل کے بارے میں اپنے اشعار میں کیا کہا ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ جو صفات غزل کی میر نے بیان کی ہیں وہ سب خود میر کے کلام میں موجود ہوں، لیکن اس میں تو کوئی شک نہیں کہ میر کے خیال میں غزل میں وہ صفات ہونا چاہئیں۔ ظاہر ہے کہ میر، جو ہمارے انتہائی معتبر غزل گو ہیں، ان کا قول غزل کی صفات کے بارے میں معتبر ہوگا۔
پہلی بات تو یہ کہ غزل کی روایت کی نشان دہی کے لیے دو طرح کی باتیں کہنا ضروری ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق ان باتوں سے ہے جو غزل میں کہی جاتی ہیں (یعنی غزل کے موضوع سے) اور دوسری وہ جن کا تعلق ان طریقوں سے ہے جو ان باتوں کو کہنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں (یعنی غزل کے فن سے۔) پہلی طرح کی زیادہ تر باتیں زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہیں۔ دوسری طرح کی وہ باتیں جن کا تعلق غزل کی ظاہری ہیئت سے ہے، وہ بھی اکثر لوگوں کو معلوم ہیں۔ میر کے اشعار میں غزل کے موضوع اور فن دونوں طرح کی باتیں ہیں۔ وہ اکثر ملی جلی ہوں گی۔ میں پہلے تو اصولی نکات پیش کروں گا جو نہایت مختصر ہیں۔ پھر میر کے اشعار نقل کرکے ان پر مختصر بحث کروں گا۔
(۱) غزل کا موضوع
(۱/۱) غزل میں تقریباً ہر طرح کا موضوع بیان ہو سکتا ہے لیکن عام طور پر اس میں عشقیہ مضامین نظم ہوتے ہیں۔ عشق کی کوئی تخصیص نہیں، یہ مجازی بھی ہو سکتا ہے، حقیقی بھی، اور ایک ساتھ دونوں بھی۔
(۱/۲) غزل کا عاشق، سچے عاشق کا آدرش ہوتا ہے۔ اسی طرح غزل کا معشوق اپنے حسن وخوبی کے اعتبار سے آدرش معشوق ہوتا ہے۔
(۱/۳) غزل کا عاشق بہت دکھ اٹھاتا ہے اور اکثر ناکام رہتا ہے۔
(۱/۴) غزل کا معشوق اکثر ظالم یا سرد مہر یا بے وفا ہوتا ہے۔ عاشق اس کا شکوہ کرتا ہے لیکن اکادکا موقعوں کے سوا وہ معشوق سے بیزار نہیں ہوتا۔
(۱/۵) تمام زمانہ عام طور پر عاشق کے خلاف ہوتا ہے۔
(۱/۶) غزل کا متکلم (جو عاشق بھی ہوسکتا ہے، لیکن یہ قطعاً ضروری نہیں کہ وہ خود شاعر ہی ہو) زمانے کے حالات پر کبھی کبھی اختلافی یا تنقیدی رائے زنی بھی کرتا ہے۔
(۱/۷) غزل کے عاشق کی معراج یہ ہے کہ وہ معشوق کے واسطے مرمٹے۔ معشوق کا معمولی کرشمہ یہ ہے کہ وہ عاشق کو مار ڈالتا ہے۔
(۱/۸) غزل کا متکلم (جو عاشق بھی ہو سکتا ہے، لیکن یہ قطعاً ضروری نہیں کہ وہ خود شاعر ہی ہو) دنیا داروں، ریاکاروں، جھوٹے عاشقوں، دنیا کے ظاہری رسم ورواج اور اس کی حمایت کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
(۱/۹) غزل کا متکلم (جو عاشق بھی ہو سکتا ہے، لیکن یہ قطعاً ضروری نہیں کہ وہ خود شاعر ہی ہو) نالہ وفغاں بہت کرتا ہے اور اس نالہ وفغاں کی وجہ آزار جسمانی یا آزار روحانی یا دونوں ہو سکتے ہیں۔
(۱/۱۰) غزل کے عاشق کو (جو متکلم بھی ہو سکتا ہے، لیکن یہ قطعاً ضروری نہیں کہ وہ خود شاعر ہی ہو) آزار میں لطف آتا ہے اور غزل کا معشوق آزار پہنچانے میں لطف اٹھاتا ہے۔
(۱/۱۱) غزل کی عام فضامحزونی یا مایوسی یا تفکریا تحیر سے عبارت ہوتی ہے۔
(۱/۱۲) غزل کے عاشق اور بقیہ تمام دنیا، حتی کہ اس کے معشوق کے درمیان عام طور پر ایک فاصلہ رہتا ہے۔ یہ فاصلہ روحانی بھی ہو سکتا ہے اور جسمانی بھی، یا دونوں طرح کے فاصلے بہ یک وقت کارفرما ہو سکتے ہیں۔
(۲) غزل کا فن
(۲/۱) غزل ایک پابند نظم ہوتی ہے جس میں قافیہ اور اکثر ردیف کا التزام ہوتا ہے۔ اس کا ہر شعر عام طور پر الگ مفہوم کا ہوتا ہے لہٰذا اس میں عام طور پر کوئی تسلسل نہیں ہوتا۔ غزل میں عام طور پر مطلع اور مقطع ہوتا ہے۔
(۲/۲) غزل میں بہت سی تشبیہیں، استعارے، فقرے اور الفاظ، مخصوص مفاہیم میں ایک مدت دراز سے رائج ہیں۔
(۲/۴) مخصوص مفاہیم والے الفاظ کی کثرت کے باعث غزل کا رجحان استعاراتی اور بالواسطہ ہو گیا ہے، لہٰذا وہ مخصوص الفاظ نہ بھی استعمال ہوں تو بھی غزل کا عام طرز اظہار بالواسطہ ہوتا ہے۔
(۲/۵) غزل کے شعر میں عام طور پر پیچیدگی اور تہہ داری ہوتی ہے۔
(۲/۶) قافیہ اور ردیف کو خوبی سے برتنا اور دونوں مصرعوں میں مکمل ربط ہونا غزل کے ہر شعر کا لازمہ ہے۔
(۲/۷) غزل کے شعر میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان میں ربط معنوی یا ربط لفظی یا دونوں (یعنی مناسبت) ہونا چاہیے۔
(۲/۸) غزل میں ایسے الفاظ کم لائے جاتے ہیں جن سے خطابت یا رسومیاتی شکوہ کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔
(۲/۹) غزل میں کثرت معنی، کیفیت اور جذباتی شورش (یا ان میں سے کوئی ایک چیز) ضروری ہے۔
(۲/۱۰) غزل میں بات کچھ بھی کہی جائے، اسلوب کا حسن شرط ہے۔
(۲/۱۱) غزل کے لیے متانت شرط نہیں، لیکن عام طور پر غزل متین ہوتی ہے۔ غزل میں طنزیہ، مزاحیہ، خوش طبعی کے شعر ناممکن نہیں ہیں۔
(۲/۱۲) غزل کے آہنگ میں وہ صفت ہوتی ہے جسے روانی کہتے ہیں۔
ان سب کے علاوہ ایک بات جو غزل کے طرز کلام کی بنیاد ہے، یہ ہے کہ غزل کے شعر کا متکلم اور شے ہے اور غزل کا شاعر اور شے۔ یہ بات اوپر کئی بار مذکور ہو چکی ہے، لیکن پھر بھی اس کا اعادہ ضروری ہے کہ غزل کے شعر میں جو کچھ بیان ہوتا ہے اسے شاعر کے ذاتی تجربے، عقیدے، یا باطنی واردات کا اظہار نہیں کہہ سکتے۔ یعنی غزل کا شعر شاعر کے ذاتی تجربے، عقیدے، یا باطنی واردات پر لازماً مبنی نہیں ہوتا۔
ظاہر ہے کہ موضوع اور فن کے بارے میں اوپر درج کردہ باتوں میں چند چیزیں ایسی ہیں جو جدید غزل (یا پچھلے پچاس ساٹھ برس کی غزل) میں کم نظر آتی ہیں۔ کچھ کی جگہ بعض اور چیزوں نے لے لی ہے اور بعض کی جگہ خالی ہے۔ لیکن عام طورپر یہ نقشہ اس غزل کا ہے جو فراق صاحب کے اوائل عمری میں رائج تھی۔ جو چیزیں اب بدل گئی ہیں یا غائب ہو گئی ہیں، ان میں سے کوئی ایسی نہیں ہے جس پر غزل کی ساری ہستی کا دارومدار ہو۔
آج کی غزل بھی کم وبیش مندرجہ بالا انھیں چیزوں کو محیط ہے، اس معنی میں کہ مندرجہ بالا عناصر یا خطوط میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کو آج بھی عملاً استعمال نہ کیا جا سکے۔ یہ بات بھی ہے کہ تبدیلیاں زیادہ تر موضوع میں ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ فن سے متعلق جو اشارے اوپر پیش کیے گئے ہیں، ان میں سے اکثر کا تعلق پورے فن شاعری سے ہے، محض فن غزل سے نہیں۔ لہٰذا ان میں تبدیلی کا امکان کم ہی رہا۔
جہاں تک غزل کے موضوع کی تبدیلی کا معاملہ ہے، وہاں بھی صورت یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کو اگر تجزیہ کی روشنی میں پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی اساس اوپر بیان کیے ہوئے ہی کسی اصول پر ہے، مثلاً آج کا غزل گو اگر زاہد، یاشیخ یا محتسب سے نبرد آزما نہیں ہے تو بھی وہ ابنائے زمانہ کی عام ریاکاری اور ان میں خلوص کی کمی کا شاکی ضرور ہے۔ اگر آج کی غزل میں معشوق کے ہاتھ میں تلوار یا خنجر نہیں ہے تو بھی وہ سرد مہر یا کم آمیز تو ہے ہی۔ آج کا عاشق اگر اپنے لیے مرغ اسیر کا استعارہ نہیں استعمال کرتا تو تنہائی اور دوری اور مجبوری اور رہائی کوشش کی بات پھر بھی کرتاہے۔ اس طرح اکثر موضوعات وہی ہیں، صرف اسالیب کچھ اور ہیں۔ اور بنیادی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی موضوع ایسا نہیں ہے جس کو آج بھی بجنسہ برتنا ممکن نہ ہو۔ بہت سے بہت یہ کہا جائےگا کہ ایسی غزل میں موضوعات کو ظاہر کرنے کے لیے جو اسالیب اختیار کیے گئے ہوں گے، وہ آج کے نہ ہوں گے۔ (اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں ایسے اسالیب یا موضوعات کو اختیار کرنے کی سفارش کر رہا ہوں۔) اب میر کے کچھ شعر دیکھیے۔ ان کی روشنی میں اوپر درج کیے ہوئے کئی نکات برآمد ہو سکتے ہیں،
(۱)
در ہمی حال کی ساری ہے مرے دیواں میں
سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا
(دیوان اول)
(۲)
نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و کیفیت و معنی
گیا ہو میر دیوانہ رہا سودا سو مستانہ
(دیوان اول)
(۳)
میر شاعر بھی زور کوئی تھا
دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب
(دیوان اول)
(۴)
عجب ہوتے ہیں شاعر بھی میں اس فرقے کا عاشق ہوں
کہ بے دھڑکے بھری مجلس میں یہ اسرار کہتے ہیں
(دیوان اول)
(۵)
دیکھو تو کس روانی سے کہتے ہیں شعر میر
در سے ہزار چند ہے ان کے سخن میں آب
(دیوان دوم)
(۶)
کیا جانوں دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میر کے
کچھ طرز ایسی بھی نہیں ایہام بھی نہیں
(دیوان دوم)
(۷)
سہل ہے میر کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے
(دیوان دوم)
(۸)
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد وغم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
(دیوان سوم)
(۹)
طرفیں رکھے ہیں ایک سخن چار چار میر
کیا کیا کہا کریں ہیں زبان قلم سے ہم
(دیوان سوم)
(۱۰)
زلف سا یہ دار ہے ہر شعر
ہے سخن میر کا عجب ڈھب کا
(دیوان چہارم)
(۱۱)
شاعر ہو مت چپکے رہو اب چپ میں جانیں جاتی ہیں
بات کرو ابیات پڑھو کچھ بیتیں ہم کو بتاتے رہو
(دیوان پنجم)
میں نے مشہور شعر بھی جان بوجھ کر نقل کر دیے ہیں تاکہ آپ کو یہ خیال نہ ہو کہ جان بوجھ کر فاروقی صاحب نے وہ شعر ترک کر دیے جو شاید ان کے نظریے کے خلاف جاتے، کیونکہ شعر (۶) میں میر نے شاعر کی دو خوبیاں بتائی ہیں، ’’طرز‘‘ اور ’’ایہام۔‘‘ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے از راہ مکر خود کو ان دونوں چیزوں سے بے بہرہ قرار دیا ہے۔ جو لوگ اس شعر کو اس بات کی دلیل میں لاتے ہیں کہ میر کے اشعار میں ایہام نہیں تھا اور ایہام ان کو پسند بھی نہ تھا، وہ اس شعر کو اس بات کی بھی دلیل میں کیوں نہیں لاتے کہ میر کے شعر میں کوئی’’طرز‘‘ نہیں؟ ظاہر ہے کہ اپنی شاعری پر رائے کی حد تک میر کا یہ شعر محض مکر ہے۔
دوسری بات یہ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ یہاں میر نے ایہام سے انکار کیا ہے، تو یہ بھی تو کہا ہے کہ ایہام ایسی چیز ہے جو دل کو کھینچتی ہے۔ جہاں تک شعر ۸ کا سوال ہے، یہ ہمارے کئی نکات کو محیط ہے، مثلاً ۳/۱، ۵/۱، ۱/۱۱، ۱/۱۲، اور ۷/۲۔ شعر نمبر ۱ سے ۶/۱ اور ۱۱/۱ مستنبط ہو سکتے ہیں۔ شعر نمبر ۴ سے ۱/۱ واضح ہوتا ہے۔ شعر نمبر ۳، نمبر ۷، شعر نمبر ۹ اور شعر نمبر ۶ سے بہت سے فنی نکات برآمد ہوتے ہیں، مثلاً ۲/ ۲، ۳ / ۲، ۴ / ۲ / ۲، ۶ /۱۰۔ شعر نمبر ۲سے ۲ /۹ برآمد ہوتا ہے۔ شعر نمبر ۵سے ۲ /۱۲ اور ۲ /۵ برآمد ہوتے ہیں۔ شعر نمبر ۱۱ سے ۲ /۱۱ نکلتا ہے۔
موضوع والے بعض نکات ان شعروں سے نہیں نکلتے، کیونکہ یہ موضوعات تو غزل کے اشعار میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ غزل کا عاشق آزار میں لطف حاصل کرتا ہے، غزل کا کوئی شعر نقل کرنا ضروری نہیں۔ میں نے صرف انھیں نکات کو روشن کرنے کے لیے اشعار لیے ہیں جو از خود پوری طرح واضح نہیں ہیں۔
مندرجہ بالا مختصر (مگر مجھے امید ہے کہ جامع) نقشے کی روشنی میں فراق صاحب کی غزل کا مطالعہ کیا جائے تو بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فراق صاحب میر کے بہت معتقد تھے اور میر سے بہت متاثر بھی ہوئے۔ لیکن میر پر ان کا فیصلہ ملاحظہ ہو، ’’میر کے یہاں قدر اول کے اشعار کی تعداد غالباً ڈھائی تین سو یا اس سے کچھ کم یا زیادہ تک پہنچتی ہے۔ لیکن میر کے نہایت اچھے اشعار کی تعداد تین ہزار اشعار سے کم نہیں ہے۔‘‘
یعنی ایسے شخص کی کم ازکم ستر برس کی مشق سخن، جس کو اکثر لوگ اردو کا سب سے بڑا شاعر کہتے ہیں، اس کا سرمایہ بس ڈھائی تین سو اشعار! فراق صاحب نے اپنے بارے میں ایک بار مجھ سے بیان کیا تھا کہ ان کا کلام ’’ہومر اور ڈانتے اور بالمیکی سے کم نہیں اور اگر کسی کو خیال ہو کہ وہ لوگ تو رزمیہ نگار ہیں اور میں غزل گو تو مصرعے ملاکر دیکھ لے، آواز سے آواز ملتی ہے۔‘‘ اول تو متفرق مصرعوں کو معیار بناکر شاعر کا مرتبہ طے کرنے کا طریقہ ہی مہمل ہے (اور یہ طریقہ بھی فراق صاحب کا اپنا نہیں، بلکہ میتھیوآرنلڈ Mathew Anrnold سے مستعار ہے)، لیکن رزمیہ شعرا کے مصرعوں سے غزل کے مصرعوں کا تقابل کرنے کا مطالبہ ہی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ غزل کی روایت سے فراق صاحب کی آگاہی کس قدر قلیل تھی۔
وہ زبان کے کیسے نباض تھے، اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ایک بار رشید احمد صدیقی نے کہیں بھولے سے یہ لکھ دیا تھاکہ فراق صاحب کو فارسیت کا ذوق کم ہے تو فراق صاحب نے رشید صاحب کو اپنے مضمون میں برا بھلا کہا۔ لیکن اس پر بھی ان کو اطمینان نہ ہوا تو عرصے تک محفلوں میں اپنے وہ شعر سنایا کیے جن میں فارسی عربی کے چھوٹے موٹے الفاظ ہوتے تھے۔ پھر وہ کہتے کہ دیکھو ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتا ہوں پھر بھی ایک صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے فارسی سے مس نہیں۔
چنانچہ میرے سامنے انھوں نے اپنے مندرجہ ذیل مصرعے میں ع دارالسلطنتوں کو بنایا دولت مند انسانوں نے۔۔۔ بڑے فخر سے لفظ ’’دارالسلطنتوں‘‘ کی ’’فارسیت‘‘ کی داد طلب کی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کے مداحوں کی اس خوش فہمی کے باوجود کہ انہوں نے غزل کو نئے الفاظ دیے یا اپنے اظہار کے لیے نئی زبان خلق کی، سرور صاحب کی وہ بات سچ ہی رہی کہ ان کی زبان اکھڑی اکھڑی اور الجھی الجھی سی معلوم ہوتی ہے۔
خیر، میر کے یہاں فراق صاحب کو قدر اول کا ڈھائی تین سو شعر مل گیا، لیکن مجھے فراق صاحب کے یہاں قدر اول کا دس بیس شعر بھی نہیں ملتا۔ ان کے کلام کا بڑا حصہ انھیں روایتی مضامین پر مشتمل ہے جو فراق صاحب کے اوائل عمری میں رائج تھے۔ ایک چھوٹا حصہ سیاسی اور انقلابی رومانی قسم کے مضامین پر مشتمل ہے لیکن سیاسی مضامین حسرت موہانی اور محمد علی جوہر کے ذریعہ غزل میں پہلے ہی داخل ہو چکے تھے۔
فراق کے کلام کاایک قلیل حصہ ایسا ضرور ہے جس میں عشق کے تجربے اور کیفیات کے ان رنگوں اور پہلوؤں کا اظہار ہے جو اس سے پہلے ہماری شاعری میں خال خال بیان ہوئے تھے لیکن زبان کے ساتھ عدم مناسبت اور عجز نظم اور غزل کے مزاج سے بےخبری یہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ان کے تینوں طرح کے کلام میں زبان کے ساتھ ایک طرح کی زبردستی تو ہے لیکن یہ زبردستی بھونڈی اور بے ڈھنگی ہے، خلاقانہ نہیں۔ کیونکہ جو الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ بعض اوقات نئے تو ہوتے ہیں لیکن وہ شعر سے یا آپس میں مناسبت نہیں رکھتے اور انمل بےجوڑ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ کثرت الفاظ، الفاظ کے صحیح تاثر اور استعمال سے ناواقفیت اور معمولی بات کو کہنے کے لیے بڑے دھوم دھڑاکے والے الفاظ کا استعمال، یہ عیوب ان کے یہاں کثرت سے نظر آتے ہیں۔
یہ بات قابل لحاظ ہے کہ فراق صاحب کی شہرت اسی زمانے میں بڑھی جب ترقی پسند تحریک کے زیر اثر شعر کی فنی حیثیت کم اہم رہ گئی اورخیال ہی خیال سب کچھ رہ گیا۔ خیال کا کیا ہے، خراب شعر میں بھی اچھا خیال بیان ہو سکتا ہے اور اچھے شعر میں بھی خراب خیال بیان ہو سکتا ہے۔ اقبال کے یہاں دونوں طرح کی مثالیں موجود ہیں۔ بہرحال چونکہ فیشن ایسی شاعری کا چل گیا جس میں خیال کی اہمیت زیادہ تھی، اس لیے فراق صاحب کے فنی اسقام پر لوگوں نے چنداں توجہ نہ کی۔
اثر لکھنوی غالباً وہ واحد نقاد ہیں جنھوں نے فراق کی عظمت کا کلمہ نہ پڑھا (نیاز فتح پوری تو اپنا مضمون لکھ کر الگ ہو گئے۔ بعد میں انھوں نے فراق صاحب کے بہت سے اشعار کو ناموزوں وغیرہ کہا لیکن نیاز صاحب اس وقت تک اپنی اہمیت کھو چکے تھے۔) اثر لکھنوی سے گڑبڑ یہ ہوئی کہ وہ فراق صاحب کے یہاں زبان وبیان اور محاورے، مذکر، مونث کی غلطیاں روایتی استادوں والے انداز میں نکالنے لگے۔ زبان وبیان کی اوقات اس زمانے تک یوں ہی زبوں ہو چکی تھی۔ پھر اثر کا قدامت پرستانہ نقطۂ نظر اور غیرمنطقی فکر۔ انھوں نے اصول کی رو سے یہ ثابت کرنے کی کوشش ہی نہ کی کہ زبان کی خوبی کے بغیر شعر کی خوبی ممکن نہیں۔
مزید ستم یہ ہواکہ انھوں نے اسی انداز میں فیض پر بھی نکتہ چینی کی۔ وہ اس بات کو نظرانداز کر گئے کہ فیض کے ’’اغلاط‘‘ اور طرح کے ہیں، فراق صاحب کے اور طرح کے۔ چونکہ یہ بات ظاہر تھی کہ ان ’’اغلاط‘‘ کے باوجود فیض کا اکثر کلام خوبصورت ہے، اس لیے فراق صاحب پر بھی اثر لکھنوی کے اعتراضات درخوراعتنا ٹھہرے (حالانکہ خود فراق صاحب نے اثر لکھنوی کے بعض اعتراضات کو مان لیا تھا۔)
فراق صاحب کے تمام مداحوں کو یہ بات تسلیم ہے کہ ان کے یہاں حکیمانہ میلان نہیں ہے لیکن وہ بات ضرور ہے جسے احتشام صاحب نے اپنے مخصوص مبہم انداز میں وہ ’’ریاض نفس‘‘ کہا تھا جو ’’علم اور وقوف‘‘ سے حاصل ہوتا ہے۔ احتشام صاحب کی اصطلاحات مجھ پر واضح نہیں ہوئیں لیکن انداز یہ لگتا ہے کہ ان کے خیال میں فراق صاحب اپنے محسوس کیے ہوئے تجربے کو فکر کا رنگ دے دیتے ہیں۔ عسکری صاحب نے اس بات کو اپنے انداز میں بڑے پرزور طریقے سے کہا ہے۔ مثال کے طور پر عسکری نے فراق کا یہ شعر نقل کیا ہے،
تارے بھی ہیں بیدار زمیں جاگ رہی ہے
پچھلے کو بھی وہ آنکھ کہیں جاگ رہی ہے
اگرچہ اس شعر کا خیال کوئی ایسا نیا نہیں کیونکہ اس طرح کے تمام اشعار کا سلسلہ کم سے کم غالب تک پہنچتاہے،
ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے
قابل غور بات یہ ہے کہ دوسرے مصرعے کے ڈرامائی تاثر نے عسکری صاحب کو ایسا گم کیا کہ انھوں نے یہ نہ دیکھا کہ رات کے پچھلے پہر کو تارے تو بیدار ہی رہتے ہیں، زمین البتہ سوئی رہتی ہے۔ اس لیے ’’تارے‘‘ کے بعد ’’بھی‘‘ کا محل نہ تھا، بلکہ ’’زمین‘‘ کے بعد تھا۔ پھر زمین کے جاگتے رہنے کا کوئی ثبوت کسی استعارے یا داخلی کیفیت کے ذریعے دینا تھا۔ اس وقت یہ محض ایک بیان ہے کہ زمین جاگ رہی ہے۔ پھر
’’کہیں جاگ رہی ہے‘‘ میں ’’کہیں‘‘ محض قافیے کی خاطر ہے، کیونکہ اس کے بغیر مفہوم پورا تھا۔
کہاں غالب کے یہاں تمام کائنات میں حرکت اور ذرے کی چمک اور جگمگاہٹ کو (جس کے گھٹنے بڑھنے کی بنا پر اسے دل سے تشبیہ دیتے ہیں) اس کی زندگی کا ثبوت قرار دینا اور کہاں ایک محض دعویٰ، وہ بھی ایسا کہ جس پر زور پہنچنے کے لیے جس لفظ (یعنی ’’بھی‘‘) کی ضرورت تھی، وہ کہیں اور۔ ذرے کی چمک پر یاد آیا کہ عسکری صاحب نے ایک اور شعر کے بارے میں ایسا ہی دعویٰ کیا ہے۔ فراق صاحب کے مندرجہ ذیل شعر پر،
دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست
خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا
عسکری صاحب یوں رقم طراز ہیں، ’’فراق کا عشق وقتی لگن اور طلب سے بہت بلند ہوکر پوری کائنات کے متعلق ایک رویہ، ایک انداز نظر بلکہ ایک مفصل فلسفۂ حیات بن جاتا ہے، جس میں زندگی کے سارے تضاد، سارا جبرواختیار، سارے جدلیاتی عناصر آ کے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔‘‘ مجھے نہیں معلوم کہ مندرجہ بالا شعر سے اتنے بڑے معنی کیونکر نکل سکتے ہیں، لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ فراق صاحب کا شعر میر سے مستعار ہے،
ہر ذرہ خاک تیری گلی کی ہے بے قرار
یاں کون سا ستم زدہ ماٹی میں رل گیا
میر نے ذرے کی گھٹتی بڑھتی چمک کے ذریعے اس کی بے قراری بھی دکھا دی اور عاشق کی بےقراری کا خاک کے دامن میں منتقل ہونا بھی دکھایا۔ عاشق کی بےکسی پر خاک کو ماتم کناں بھی دکھایا اور خاک کی چمک کا پھر بھی اشارہ قائم کر دیا۔ فراق صاحب کے شعر میں صرف ایک پہلو ہے اور انداز بھی خبر یہ ہے، جب کہ میر کے دوسرے مصرعے میں استفہام نے حسن کا ایک اور پہلو پیدا کر دیا ہے۔
مغربی ادب سے واقفیت فراق صاحب کے اسطور کا قدیمی حصہ ہے۔ کلیم الدین صاحب بھی اس کے سحر میں گرفتار ہوئے۔ انھوں نے ۱۹۲۴ء کے ایک مضمون میں اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ، ’’فراق صاحب مغربی ادب سے بھی واقف ہیں۔ یہ صرف شاعر ہی نہیں نقاد بھی ہیں اور اپنی شاعری پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور فن شاعری پر غوروفکر بھی کرتے ہیں اور اس غوروفکر میں مغربی خیالات سے استفادہ کرتے ہیں۔‘‘
لہٰذا کلیم الدین صاحب کے خیال میں غزل سے فراق صاحب کا شغف ’’باعث استعجاب وتاسف ہے۔‘‘ لیکن انگریزی یا مغربی ادب سے فراق صاحیب نے کیا حاصل کیا اور اسے کس طرح اپنی غزل میں داخل کیا، اس کے بارے میں کلیم الدین احمد بالکل خاموش ہیں۔ وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ فراق صاحب آرنلڈ سے متاثر ہوکر اس خیال پر عمل پیرا نظر آتے ہیں کہ شاعری زندگی کی تنقید ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فراق صاحب کی تنقید حیات میں ’’شاعرانہ صداقت اور شاعرانہ حسن‘‘ کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں ’’فراق کے خیالات میں اکثر خامی نظر آتی ہے۔‘‘
یہ سب باتیں صحیح ہوں یا غلط، لیکن ان میں ایسے شاعر کا نشان نہیں ملتا، جس نے اردو غزل کی روایت میں کوئی اضافہ کیا ہو۔ کلیم الدین صاحب فراق کی تعریف تو بہت کرتے ہیں لیکن ان کا سلسلہ زیادہ سے زیادہ امیر مینائی سے ملاتے ہیں۔ وہ فراق کے اپنے قول کی تائید کرتے ہیں کہ ان کے یہاں ’’اتحاد ضدین‘‘ اکثر نظر آتا ہے اور ’’یہ صفت انھیں موجود شعرا میں امتیاز کی حیثیت عطا کرتی ہے۔‘‘ یہ دونوں صاحبان بھول گئے کہ ’’اتحادضدین‘‘ (اگرچہ میں اس اصطلاح کو ناکافی سمجھتا ہوں) غالب کے یہاں جس درجے کا اور جس کثرت سے ملتا ہے، کسی اور شاعر کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی۔ بہرحال ’’اتحاد ضدین‘‘ کی مثال میں کلیم الدین صاحب نے مندرجہ ذیل شعر بھی پیش کیا ہے،
تھی یوں تو شام ہجر مگر پچھلی رات کو
وہ درد اٹھا فراق کہ میں مسکرا دیا
اس شعر کو محمد حسن عسکری نے بھی فراق کے تصور ہجر کی مثال میں پیش کیا ہے۔ یہ سب لوگ اس بات کو نظرانداز کر گئے کہ مصرع اولیٰ میں بہ یک وقت ’’شام‘‘ اور ’’پچھلی رات‘‘ کا رات کا ذکر ہے یعنی جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے وہ ہے تو شام ہجر کا، لیکن اسی شام کو مصرعے میں ’’پچھلی رات‘‘ بتایا گیا ہے۔ مصرعے کی نثر یوں ہوگی، ’’یوں تو وہ شام ہجر تھی مگر پچھلی رات کو وہ درد اٹھا۔۔۔‘‘ وقت کا ایک ہی منطقہ شام اور پچھلی رات کس طرح ہو سکتا ہے، اس کے بارے میں شعر بالکل خاموش ہے۔ فراق صاحب کے مداحان بھی خاموش ہیں۔ بہرحال، اسی ہجر کے موضوع پر ایک شعر کے بارے میں عسکری صاحب کہتے ہیں ’’یاد نہیں پڑتا کہ کسی شاعر نے فراق کی کیفیت کو اتنا وسیع، باعظمت اور ہمہ گیر بنایا ہو‘‘،
وہ بے قراری دل وہ فضائے تنہائی
وہ سرزمین محبت وہ آسمان فراق
شعر یقیناً اچھا ہے، دوسرے مصرعے میں کیفیت خوب ہے، لیکن پہلے مصرعے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر مصرع لگانا ہی تھا تو ’’بےقراری دل‘‘ جیسا رسمی اور بے جوڑ فقرہ کیوں رکھا؟ ’’فضا، ’’سرزمین‘‘، ’’آسمان‘‘ یہ سب غیروجود سے تعلق رکھتے ہیں اور عناصر فطرت بھی ہیں۔ ان تین ٹکڑوں کے ساتھ وجود سے متعلق ایسا پھس پھسا فقرہ (’’بے قراری دل‘‘) رکھنا فراق صاحب ہی کے بس کا روگ تھا۔ روایت سے ذرا بھی مس ہوتا تو ایسی سرسری بات نہ کہتے اور مناسبت کا اس طرح خون نہ کرتے اور اگر کرتے بھی تو کسی معنوی پہلو کی خاطر، جیسا کہ میر کے اس شعر میں ہے،
جب نام ترا لیجئے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
’’جگر‘‘ کی مناسبت سے پہلے مصرعے میں ’’خون‘‘ کا تلازمہ درکار تھا، یا پھر ’’چشم‘‘ کی مناسبت سے دوسرے مصرعے میں ’تری‘‘ یا ’’سیلاب‘‘ کا تلازم چاہیے تھا۔ لیکن چونکہ کثرت گریہ کے بعد ہی آنسو کی جگہ خون بہتا ہے اس لیے ’جب نام ترا لیجئے‘ کے ساتھ ’’خون‘‘ کی معنویت چنداں خوب نہ تھی اور ’’جگر آنا‘‘ جیسے برجستہ محاورے کی معنویت کے سامنے ’’سیلاب‘‘ وغیرہ کا تلازمہ پرزور نہ تھا۔ مزید یہ کہ جب آنکھوں سے لہو آنے کی نوبت آئے گی، کیونکہ معشوق کا نام بار بار لیتے ہیں اور ہر بار آنکھ بھر آتی ہے۔ اس لیے رفتہ رفتہ خون تو آئےگا ہی اور خون چونکہ جگر میں بنتا ہے اس لیے ’’جگر آنا‘‘ میں ایک اور معنی حاصل ہو گئے۔ فراق صاحب کے شعر میں ’’آسمان فراق‘‘ کی داد نہ دینا ظلم ہے (اگرچہ اس میں ایک حد تک ردیف کی بھی کارفرمائی ہے) لیکن فراق کے سامنے میر کا شعر تھا،
یک بیاباں برنگ صوت جرس
مجھ پہ ہے بے کسی و تنہائی
میر کے شعر میں ’’یک بیاباں‘‘ کی ترکیب، اس کی مناسبت سے ’’تنہائی‘‘ اور ’’صوت جرس‘‘ کا استعارہ، یہ سب مل کر ایک کائنات ہیں جس میں انسان واقعی اور مکمل طور پر تنہا ہے۔ تنہائی کے موضوع پر فراق صاحب کا ایک شعر کلیم الدین صاحب نے فراق کے اس قول کے ثبوت میں نقل کیا ہے کہ ان کے یہاں ’’اجتماع ضدین‘‘ پایا جاتا ہے۔
اک فسوں ساماں نگاہ آشنا کی دیر تھی
اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے
بھری دنیا میں تنہا نظر آنا اگر ’’اجتماع ضدین‘‘ ہے (یا جو کچھ بھی ہے) تو یہ بھی اس کا فیض ہے جس کے یہاں فراق صاحب کے خیال میں ڈھائی تین سو سے زیادہ شعر قدر اول کا مرتبہ پانے کے حق دار نہیں ہیں۔ میر کے دیوان چہارم میں ہے،
کوئی طرف یاں ایسی نہیں جو خالی ہووے اس سے میر
یہ طرفہ ہے شور جرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں
(دوسرے مصرعے میں ’’سے‘‘ بمعنی ’’کی طرح‘‘ ہے) ’’شور جرس‘‘ کی استعارتی معنویت اور معشوق کا تمام عالم میں موجود ہونا، یہ پہلو میر کے شعر میں مستزاد ہیں۔ لیکن کلیم الدین صاحب نے یہ غور نہیں کیا کہ فراق کے پہلے مصرعے میں ’’فسوں ساماں‘‘ اور ’’آشنا‘‘ دو میں سے ایک صفت غیرضروری ہے بلکہ اس سے تاکید الذم بما یشبہ ا لمدح کی صورت پیدا ہو رہی ہے۔ نگاہ یا تو ’’فسوں ساماں‘‘ ہوتی یا ’’آشنا‘‘ ہوتی۔ ان میں سے ایک ہی صفت نگاہ کے لیے کافی تھی کہ اس کے ذریعے ہم بھری دنیا میں تنہا نظر آنے لگیں۔ اس وقت تو کیفیت یہ ہے کہ معشوق کی نگاہ آشنا کافی نہیں، اسے ’’فسوں ساماں‘‘ بھی ہونا چاہئے تاکہ کارگر ہو، یا محض فسوں سامانی کافی نہیں، اس میں صفت آشنائی بھی ضروری ہے۔
’’فسوں ساماں‘‘ اور ’’آشنا‘‘ میں کوئی مناسبت یا رعایت بھی نہیں جس کا سہارا لیا جائے۔ مصرع دراصل یوں مکمل تھا ’’اک نگاہ آشنا کی دیر تھی۔‘‘ لیکن بحر کچھ اور ہوئی جاتی تھی۔ فراق صاحب کو مصرع پورا کرنا تھا، سو ’’نگاہ‘‘ کا خیال کرکے ’’فسوں ساماں‘‘ رکھ دیا اور مطمئن ہو گئے۔ اس افراط وتفریط سے معنوی عیب کیا پیدا ہو گیا، اس کی ان کو خبر نہ ہوئی۔ پھر اگر ہم اپنے آپ کو تنہا نظر آنے لگے تو شعر سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی جب تک اس میں ’’خود کو‘‘ یا ’’اپنے آپ کو‘‘ جیسا کوئی فقرہ مذکور نہ ہو اور اگر ہم دنیا والوں کو تنہا دکھائی دینے لگے تو اس بھری دنیا میں ’’ہم‘‘ کی ’’جگہ‘‘ اس بھری دنیا کو ہم کا محل تھا۔ میر نے ’’ہم تنہا ہوں‘‘ کہہ کر دونوں معنوی امکانات رکھ دیے ہیں۔ فراق کے یہاں ایک ہی معنوی امکان ہے اور وہ بھی سقیم ہے۔ فراق صاحب کے اس مشہور شعر،
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہوگئی ہے
کے بارے میں، میں نے فراق صاحب کی زندگی ہی میں لکھا تھا کہ جب مصرع ثانی میں ’’ہے‘‘ کے ذریعہ یہ اشارہ واضح ہے کہ بات عہد حاضر کی ہو رہی ہے تو مصرع اولیٰ میں ’’اس دور‘‘ کی تخصیص غیرضروری ہے۔ فراق صاحب اس پر ناراض بھی ہوئے تھے لیکن ظاہر ہے کہ ’’اس دور‘‘ برائے بیت ہے (برائے بیت تو ’’بشر کی‘‘ بھی ہے، لیکن اس پر بحث فی الحال مقصود نہیں۔) اس موقع پر ’’اس دور‘‘ کی بحث کا اعادہ اس لیے کر رہا ہوں کہ میر کے ایک شعر میں اسی ’’برائے بیت‘‘ فقرے کا استعمال دکھانا منظور ہے۔ دیوان اول کا شعر ہے،
یک قطرہ آب میں نے اس دور میں پیا ہے
نکلاہے چشم تر سے وہ خون ناب ہوکر
ظاہر ہے کہ ’’اس دور‘‘ یہاں بھی بہ ظاہر برائے بیت ہی ہے، لیکن پینے کا ذکر کرکے میر نے ’’دور‘‘ کو ’’دور شراب‘‘ فرض کرنے کا جواز پیدا کر دیا کہ اور لوگوں نے تو شراب پی اور میں نے اس دور میں صرف ایک بوند پانی پیا (ممکن ہے وہ صرف آنسو کی بوند رہی ہو) اور وہ بھی خون ہوکر بہہ نکلا۔ فراق صاحب اگر اس نکتے سے آگاہ ہوتے کہ غزل کا شعر اس بات کا شدت سے تقاضا کرتا ہے کہ اس میں ہر لفظ ایک دوسرے سے لفظی یا معنوی یا دونوں طرح کا ربط رکھتا ہو اور ہر لفظ پوری طرح کارگر ہو تو وہ بھی میر کی طرح کی کوئی ترکیب کرتے۔
میں نے اوپر لکھا ہے کہ قلیل تعداد میں سہی، لیکن فراق صاحب کے یہاں ایسے شعر ضرور ہیں جن میں عشق کے ایسے تجربات وکیفیات کا بیان ہے جو ان سے پہلے شاذ تھے، لیکن مشکل یہ ہے کہ زبان کے ساتھ عدم مناسبت اور غزل کے مزاج سے بےخبری یہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے، چونکہ میر کے کلام سے بعض مثالیں میں نقل کر چکا ہوں، اس لیے اب یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ فراق صاحب کے بہت سے اچھے شعروں پر کسی نہ کسی پیش رو کی چھاپ نظر آتی ہے۔ میر کی بعض مثالیں اوپر گذریں۔ اب بعض اور شعرا سے مثالیں ملاحظہ ہوں،
عشق کی آزمائشیں اور فضاؤں میں ہوئیں
پاؤں تلے زمیں نہ تھی سر پہ یہ آسماں نہ تھا
ایک آدھ خرابی کے باوجود میں اسے فراق صاحب کے اچھے شعروں میں گنتا تھا، کیونکہ دوسرے مصرعے کے پیکر میں غضب کی کیفیت ہے اور استعارہ اور پیکر دونوں بہت خوب دست وگریباں ہیں۔ لیکن ایک دن ’’طلسم ہوشربا‘‘ (جلد دوم صفحہ ۱۸۳) میں کسی گم نام شاعر کا یہ شعر دیکھا تو رنج ہواکہ فراق صاحب کے گنے چنے مولک Original شعروں میں ایک کم کرنا پڑا،
خرام ناز تمھارا بھی ایک آفت ہے
زمین پاؤں تلے سر پہ آسماں نہ رہا
فراق صاحب کے شعر میں چھوٹی سی خرابی کا ذکر میں نے کیا تھا۔ وہ یہ ہے کہ دوسرے مصرعے میں ’’آسماں‘‘ کے پہلے ’’یہ‘‘ بے محل اور غیرضروری ہے کیونکہ اس سے گمان گذرتا ہے کہ پاؤں تلے زمین تو بالکل نہ تھی لیکن سر پر آسمان تھا، مگر وہ آسمان نہ تھا جو ہمارے آپ کے سر پر ہوتا ہے۔ اگر یہی کہناتھا کہ کوئی اور آسمان تھا اور کوئی دیگر زمین تھی تو ’’زمین‘‘ کے پہلے بھی ’’یہ‘‘ لگانا تھا۔ ویسے بہتر تو یہ ہے کہ زمین اور آسمان دونوں کے پہلے ’’یہ‘‘ نہ ہوتا جیسا کہ ’’طلسم ہوشربا‘‘ والے شعر میں ہے، کیونکہ برجستگی اور معنویت دونوں کا تقاضا یہی تھا۔ چھوٹے چھوٹے الفاظ کے استعمال میں بدسلیقگی فراق صاحب کے یہاں اکثر نظر آتی ہے، مثلاً ان کا اچھا اور مشہور شعر ہے، اس پر خود فراق صاحب نے حاشیہ آرائی بھی کی ہے،
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
شعر اپنی کیفیت کے باعث بجا طور پر مشہور ہے لیکن پہلے مصرعے میں ’’شام‘‘ اور ’’حسن‘‘ دونوں کے ساتھ ’’بھی‘‘ کی قید لگنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ دل کو کہانیاں یاد آنے کے لیے شرط یہ ہے کہ شام بھی دھواں دھواں ہو اور حسن بھی اداس اداس ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ مہمل ہے، کیونکہ اصل مقصد تو منظرنگاری ہے کہ ایسا منظر تھا اور اس وقت دل کو کئی کہانیاں یاد آئیں۔ مصرع یوں کر دیجئے، ’’شام تھی دھواں دھواں حسن تھا اداس اداس۔‘‘ بحر بدل جائے گی لیکن مقصود پورا ہو جائےگا۔ پھر دوسرے مصرعے میں ’’سی‘‘ غیرضروری ہے، کیونکہ ’’یاد آکے رہ گئیں‘‘ کا مفہوم ہی یہ ہے کہ پوری طرح یاد نہ آئیں۔ اس پر ’’سی‘‘ لگانا محض تصنع اور طالب علمانہ انداز ہے۔ درد، میر اور مومن کے مشہور شعر ہیں، ان سے موازنہ کرکے دیکھیے،
درد، میرے تغیر حال پرمت جا
یوں بھی اے مہربان ہوتا ہے
میر، میرے تغیر حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
مومن، میرے تغیررنگ کو مت دیکھ
تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے
مومن نے بالکل نئی بات نکالی تھی۔ ان تین بڑے شعروں کے سامنے فراق صاحب نے اپنا چراغ روشن کیا، اور حق یہ ہے کہ خوب کہا،
اب نہ تم وہ رہے نہ ہم وہ رہے
اتفاقات ہیں زمانے کے
یعنی تقلیب حال کا اثر دونوں پر مرتب کرکے بظاہر ایک نئی بات پیدا کی۔ لیکن دراصل یہ خیال ناسخ کا ہے،
نہ میں ہوں مخاطب نہ تو ہے مخاطب
وہی میں وہی تو نہ میں ہوں نہ تو ہے
ممکن ہے فراق صاحب کے ذہن میں ناسخ کا شعر نہ رہا ہو، لیکن اولیت کا شرف بہرحال ناسخ کو ہے۔
میر کے بعض اشعار جو اب تک زیر بحث آئے ہیں، وہ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ فراق نے میر سے کوئی گہرا اور باطنی فیض نہیں حاصل کیا تھا۔ پھر بھی ان کے چند وہ اشعار بھی ایک نظر دیکھتے چلیں جن پر انھوں نے ’’طرز میر‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فراق صاحب نے میر کا محض اتباع کیا ہے یا میر سے آگے بڑھ گئے ہیں یا وہ میر سے کمتر درجے پر نظر آتے ہیں؟ سب سے پہلی بات تو یہ کہ فراق صاحب کے یہاں میر کی تہہ داری اور استعاراتی شدت اور پیکر کی رنگا رنگی مفقود ہے۔ کثرت الفاظ اور چھوٹی بات کو دھوم دھڑکے سے کہنے کی عادت یہاں بھی ان کی دامن گیر ہے۔ فراق صاحب کے انتقال کے بعد ان کا یہ شعر بعض حلقوں میں بڑے درد کے ساتھ پڑھا گیا تھا،
ایک شخص کے مر جائے سے کیا ہو جائے ہے لیکن
ہم جیسے کم ہووے ہیں پیدا پچھتاؤگے دیکھو ہو
لیکن یہ شعر میر کے اس لاجواب شعر کا ناکام چربہ ہے،
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہ وسکے
پچھتاؤگے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر
ناکام میں نے اس لیے کہا کہ فراق نے مضمون کو پست کر دیا ہے۔ میر نے دل کی بربادی پر اپنے کسی طرح کے رنج کا اظہار نہیں کیا ہے، صرف یہ کہا ہے کہ یہ شہر پھر آباد نہ ہوگا، تم اس کو اجاڑ کر پچھتاؤگے یعنی انھیں زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ معشوق کو پچھتاوا نصیب ہوگا۔ اس کے برخلاف فراق صاحب پہلے مصرعے میں تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ انھیں اپنے مارے جانے کا غم ہے، وہ خود کو یگانۂ روزگار بھی کہنے سے گریز نہیں کرتے۔ میر تو صرف شہر دل کا تذکرہ کرتے ہیں، یہ نہیں کہتے کہ یہ دل میرا ہے اور ایسا ہے۔ لیکن فراق صاحب اپنی انا کو ترک نہیں کرتے (محمد حسن عسکری نے میر پر اپنے ایک مضمون میں اس بات پر کئی صفحے صرف کیے ہیں کہ غالب کے برعکس، میر اپنی خودی کو عام انسانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں، اور اس لیے میر کو غالب پر فوقیت ہے۔ سلیم احمد نے اپنی کتاب ’’غالب کون‘‘ میں ایک پورا باب اس پر لکھا۔)
بہرحال، میر کو دل کے اجڑنے کا رنج نہیں، معشوق کے شرمندہ ہونے کا خوف ہے اور فراق صاحب کو اپنے اجڑنے کا غم ہے۔ پھر فراق صاحب کی لفظی لغزشیں دیکھیے۔ محل’’سنو ہو‘‘ کاتھا، لیکن قافیہ حارج تھا، اس لیے ’’دیکھو‘ کا نامناسب لفظ رکھ دیا جس میں دھمکی کا پہلو مزید بے لطفی پیدا کر رہا ہے۔ مصرع اولیٰ میں ’’مرجانے‘‘ یا ’’مرنے‘‘ کا محل تھا، لیکن میر کی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر ’’مر جائے‘‘ لکھ دیا۔
جس بحر میں فراق صاحب کی یہ غزل ہے اسے میر نے کثرت سے برتا ہے اور انھیں کے حوالے سے یہ مقبول بھی ہوئی ہے۔ عام طور پر اس کی تقطیع بحر متقارب میں کی جاتی ہے، لیکن چونکہ اس کے بعض لوازم ایسے ہیں جو بحر متقارب کی روایتی شکلوں میں نہیں ملتے، اس لیے میں نے ایک جگہ سفارش کی ہے کہ اس کا نام ’’بحر میر‘‘ رکھ دیا جائے۔ نام جو بھی رکھا جائے، لیکن اس بحر کے بعض لوازم میر نے اپنے تمام دیوانوں میں تقریباً ہمیشہ برتے ہیں، لہٰذا یہ حکم لگانا غلط نہ ہوگا کہ میر نے یہ لوازم یا تو خود مقرر کیے تھے، یا کسی قدیمی نمونے کو دیکھ کر دریافت کیے تھے، ان میں سے بعض لوازم حسب ذیل ہیں۔ اگر ان کو نہ برتا جائے تو مصرعے پر خارج از بحر ہونے کا حکم لگ سکتا ہے۔
(۱) ہر مصرعے میں آٹھ رکن ہیں اور تیس حرف، یعنی ماترائیں ہیں۔
(۲) کسی بھی مصرعے کا پہلا رکن فعولن نہیں ہو سکتا، نہ ہی کسی مصرعے کے دو رکن یکے بعد دیگرے فعل (بہ سکون عین) یا فعل (بہ تحریک عین) ہو سکتے ہیں یعنی کسی مصرعے میں فعل بسکون عین ایک کے بعد ایک نہیں آ سکتا۔ اسی طرح کسی مصرعے میں فعل تحریک عین بھی ایک کے بعد ایک نہیں آ سکتا۔
(۳) کسی بھی مصرعے میں کہیں بھی فعلن (بہ تحریک عین) نہیں آ سکتا۔ فراق صاحب کی وہ غزل جس کا شعر اوپر نقل ہوا اور جس کا مطلع ہے،
ہم سے فراق اکثر چھپ چھپ کر پہروں پہروں روؤ ہو
وہ بھی کوئی ہمیں جیسا ہے کیا تم اس میں دیکھو ہو
اس میں جملہ اکیس شعر یعنی ۲۴ مصرعے ہیں۔ تفصیل میں جانا طول طلب ہے، اس لیے مختصراً عرض کرتا ہوں کہ ان میں سے حسب ذیل مصرعے مندرجہ بالا لوازم کو پورا نہیں کرتے، اس لیے بحر سے خارج ہیں یا کسی اور وجہ سے بحر سے خارج ہیں (مثلاً کوئی حرف تقطیع میں نہیں آتا وغیرہ۔)
(۱) تیس سے زیادہ ماترائیں، مصرع نمبر ۷
(۲) تین مصرعوں میں فعلن (بہ تحریک عین) نظم ہوا ہے، مصرع نمبر ۱۲، نمبر ۶۲
(۳) جو مصرعے کسی اور وجہ سے خارج الوزن ہے، مصرع نمبر ۱۱، ۵۳، ۹۳
(۴) مصرعے جن میں فعل (بہ سکون عین) یکے بعد دیگرے آیا ہے، مصرع نمبر ۶، ۵۱، ۱۲، ۸۲
اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ ۲۴ میں سے دس مصرعے کسی نہ کسی مہلک عروضی عیب کا شکار ہیں یعنی چوتھائی سے کچھ کم۔ اس کے بعد آپ خود فیصلہ کریں کہ فراق صاحب پیروی میر میں کہاں تک کامیاب ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان اکیس میں سے بعض شعر بڑی کیفیت کے حامل ہیں لیکن مکمل طور پر بے عیب شعر، جس پر کسی اور کے شعر کا پرتو بھی نہ ہو، مشکل سے ملےگا۔ میر کی سی استعاراتی بلندی اور معنی کی تہہ داری تو بعد کی بات ہے، میر کی سی روانی اور بحر کی پابندی بھی فراق صاحب کے یہاں نہیں۔ خیر یہ کمی تو فانی کے یہاں بھی ہے لیکن فراق صاحب کے مداح تو ان کو فانی سے بہت بڑا شاعر بناکر پیش کرتے ہیں۔ میر کی روانی کا راز دریافت کرنے کا یہاں موقع نہیں، لیکن اس کی یہ ایک وجہ واضح کرنا ضروری ہے کہ وہ ہر طرح کے الفاظ استعمال کرنے پر قادر ہیں اور جس مصرعے کا صوتی ماحول جیسے لفظ کا تقاضا کرتا ہے ویسا لفظ لے آتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں محاورہ اور استعارہ یا پیکر ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ وہ صوتی آہنگ بھی جلد جلد بدلتے رہتے ہیں۔ یہ مثالیں ملاحظہ ہوں،
آج اس خوش پر کارجواں مطلوب حسیں نے لطف کیا
پیر فقیر اس بے دنداں کو ان نے دنداں مزد دیا
جلے کو آتی ہیں ستیاں میر سنبھل کر جلتی ہیں
کیا بے صرفہ رات جلی بے بہرہ اپنے شعور سے شمع
میر خلاف مزاج محبت موجب تلخی کشیدن ہے
یار موافق مل جاوے تو لطف ہے چاہ مزا ہے عشق
میر کا حال نہ پوچھو کچھ کہنہ رباط سے پیری میں
رقص کناں بازار تک آئے عالم میں رسوائی ہوئی
صبر کہاں جو تم کو کہیے لگ کے گلے سوجاؤ
بولو نہ بولو بیٹھو نہ بیٹھو کھڑے کھڑے ٹک ہو جاؤ
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
وحشی دشت وطیر اس کے سر تیزی ہی میں شکار ہے آج
ان تمام اشعار کا صوتی آہنگ اس قدر متنوع ہے کہ اکثر ایسا ہوا کہ میں نے مذکورہ بالا میں سے ایک آدھ شعر لوگوں کو سنائے تو سننے والے نے پوچھا یہ بحر کون سی ہے؟
فراق صاحب پراکرت الفاظ تو دوچار ایسے حاصل کر لیتے ہیں جو میر کی طرح کے ہیں لیکن یہاں بھی ’’ستیاں‘‘، ’’سنبھل کر جلتی ہیں‘‘، ’’لگ کے گلے سے سوجاؤ‘‘، ’’بولو نہ بولو‘‘، ’’بیٹھو نہ بیٹھو‘‘ جیسے الفاظ اور فقرے ان کی دست رس سے باہر ہیں۔ ’’خوش پرکار‘‘، ’’دنداں مزد‘‘، ’’بے صرفہ‘‘، ’’بے بہرہ اپنے شعور سے شمع‘‘، ’موجب تلخی کشیدن‘‘، ’’کہنہ رباط‘‘، ’’سرتیزی‘‘ جیسے فقروں کی تو ان کو ہوا بھی نہیں لگی ہے۔ فراق صاحب نے ایک بار بڑے جوش سے کہا تھا اور کوئی شک نہیں کہ بہت خوب کہا تھا،
وہ عالم ہوتا ہے مجھ پر جب فکر غزل میں کرتا ہوں
خود اپنے خیالوں کو ہمدم میں ہاتھ لگاتے ڈرتا ہوں
کاش کہ اس طرح کے خوبصورت شعر انھوں نے کثرت سے کہے ہوتے۔ ان کے کلام کا مجموعی عالم تو یہ ہے کہ وہ مناسب لفظوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے اور جھجکتے معلوم ہوتے ہیں۔
ابھی میں نے میر کی معنوی تہہ داری اور استعاراتی اسلوب کا ذکر کیا تھا۔ اسی مضمون میں پہلے بھی میر کی ان صفات کا تذکرہ آ چکا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ پوچھیں یہ معنوی تہہ داری اور استعاراتی اسلوب ہے کیا، اور میں یہ کیوں کہتاہوں کہ یہ خواص فراق صاحب کے یہاں بہت کم ہیں؟ ان سوالوں کا جواب تو میر اور فراق کے اشعار پر ان بحثوں میں موجود ہے جو اس مضمون کا ایک بڑا حصہ ہیں، لیکن اگر مزید تفصیل درکار ہو تو جہاں تک استعاراتی اسلوب کا مسئلہ ہے، اس کی وضاحت کے لیے اتنا کہنا کافی ہے کہ ایک بار جی کڑاکر کے آپ میر کے کلیات غزل کے کوئی چھے صفحے پڑھ لیجئے اور دیکھیے کہ ایک ہی تجربے، یا ایک ہی طرح کے تجربے (مثلاً معشوق کی سرد مہری، عاشق کی نارسائی، کائنات کا غیرہمدرد اور اجنبی ہونا) کے لیے کتنے استعارے میر نے استعمال کیے ہیں۔ پھر فراق صاحب کے کلیات پر یہی تجربہ کیجئے۔ حقیقت خود ہی کھل جائےگی۔ (استعارے سے میری مراد رسمی استعارہ نہیں کہ معشوق کو گل کہہ دیا، بلکہ انکشافی استعارہ ہے۔)
جہاں تک معنوی تہہ داری اور پہلو داری کا سوال ہے، تو یہ غور کیجئے کہ فراق صاحب کے کتنے شعر اس طرح کی تفہیم وتشریح وتبصرہ وتجزیے کے متحمل ہو سکتے ہیں جوغالب کے تقریباً ہر شعر اور میر کے ہزاروں شعروں کے لیے ممکن ہے؟ یا اگر فراق صاحب، اقبال کی طرح کے بڑے شاعر ہیں تو ان کے کلام کے کتنے حصے کی روشنی میں ہم انسان، کائنات، خدا، بزرگی نفس، روح انسانی وغیرہ کے بارے میں اس طرح کی بحثیں اٹھا سکتے ہیں جیسی اقبال کے بیشتر کلام نہیں تو اس کے ایک معتدبہ حصے کے بارے میں ممکن ہیں؟ یہ اور بات ہے کہ اقبال بھی محض خیالات کی وجہ سے بڑے شاعر نہیں ہوئے، انھوں نے بھی زبان کو غیرمعمولی خلاقانہ طرح سے برتا ہے۔
اوپر میں نے فراق صاحب کی فارسیت کے بارے میں رشید احمد صدیقی کا قول نقل کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ رشید صاحب نے فراق صاحب کی ایک بڑی بنیادی کمزوری پر انگلی رکھ دی تھی۔ اردو کا کوئی شاعر فارسیت کے بغیر مکمل اسلوب پر قادر نہیں ہو سکتا۔ اور فارسیت سے مراد یہ نہیں کہ وہ عربی فارسی الفاظ کے درمیان کسرۂ اضافت لگانا جانتا ہو۔ میر، میر درد، میر انیس، غالب اور اقبال کی فارسیت اور ہمارے زمانے میں راشد اور ایک حد تک فیض اور ظفر اقبال کی فارسیت کو چھوڑیے کہ وہ خلاقانہ فارسیت ہے۔ لیکن اتنا ضروری ہے کہ شاعر فارسی، اور عربی کے ذریعہ فارسی میں دخیل ان الفاظ کے مزاج اور ذائقے اور خوشبو سے واقف ہو جو اردو کا حصہ بن گئے ہیں۔ صرف یہ جان لینا کافی نہیں کہ ’’جام‘‘ اور ’’پیمانہ‘‘ اورپیالہ‘‘ تینوں فارسی ہیں۔ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ الفاظ کس قسم کا پیکر خلق کرتے ہیں، ان کے پیچھے تصورات کیا ہیں؟ ’’جام خوں‘‘ کہنا کیوں درست ہے اور ’’پیمانۂ خوں‘‘ میں کیا قباحت ہے اور ’’پیالۂ شراب‘‘ اور ’’پیالۂ آتش‘‘ میں کیا فرق ہے؟
اس طرح کے سوالات کا شعور اوران کے جوابات شاعر کی تخلیقی شخصیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ ایک لفظ ’’جلوہ‘‘ کو ہی لیجئے، دیکھیے اسے میر، درد اور غالب نے کس کس طرح استعمال کیا ہے۔ ’’جلوہ‘‘ کثیر المعنی لفظ ہے، اس معنی میں کہ اس کے کئی پہلو ہیں، تابندگی، مستعجل ہونا، کسی چیز کا پرتو ہونا یعنی Reality کے برخلاف Appearance ہونا۔ ’’جلوہ‘‘ اگر ان معنوں یا ان میں سے ایک یا چند معنوں کے ساتھ نہ استعمال ہو تو یہ لفظ ضائع ہی سمجھئے۔ اچھا شاعر الفاظ میں نئے معنوی پہلو ضرور ڈالتا ہے، لیکن اس طرح نہیں کہ لفظ کی اصل معنویت ہی خطرے میں پڑ جائے۔
درد،
آئینہ عدم ہی ہستی ہے جلوہ گر
ہے موج زن تمام یہ دریا سراب میں
میر،
دیکھا پلک اٹھا کے تو پایا نہ کچھ اثر
اے عمر برق جلوہ گئی توشتاب کیا
غالب،
وصال جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں
کہ دیجے آئینۂ انتظار کو پرداز
’’جلوہ‘‘ کے ان تینوں استعمالات میں فرق ہے لیکن اس سے ’’جلوہ‘‘ کے معنی کے مختلف پہلو روشن ہوتے ہیں، مسخ نہیں ہوتے۔ اس فرق کا شعور شاعرکو ضروری ہے۔ فراق صاحب کا معاملہ یہ تھا کہ وہ الفاظ اور ان کے سرسری لغوی معنی تو اکثر جانتے تھے لیکن ان کی روح اور مزاج سے بےخبر تھے، اسی لیے انھوں نے فارسی عربی الفاظ کو اس طرح برتا ہے کہ وہ شعر میں اپنا پورا فائدہ نہیں دیتے اور کبھی کبھی تو اس طرح برتا ہے کہ زبان کا مزاج داں اس کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ ’’جلوہ‘‘ کا استعمال ان کے یہاں ’’دیکھو ہو‘‘ والی غزل کے ایک شعر میں ہے۔ یہاں یہ لفظ شعر کا حسن بڑھانے کے بجائے مفہوم کو خبط کر رہا ہے،
کبھی بنادو ہو سپنے کو جلوؤں سے رشک گلزار
کبھی رنگ رخ بن کر یاد آتے ہی اڑ جاؤ ہو
مفہوم کو خبط کرنے سے میری مراد یہ ہے کہ ’’جلوہ‘‘ کی صفت رنگین ہونا نہیں، روشن ہونا ہے اور ’’گلزار‘‘ کی صفت روشن ہونا نہیں، رنگین ہونا ہے۔ فراق صاحب نے جلوؤں کو ’’رشک گلزار‘‘ کہہ کر دونوں الفاظ کا مفہوم بگاڑ دیا۔ پھر انھوں نے یہ بھی نہ خیال کیا کہ ’’جلوؤں‘‘ کے بجائے ’’جلوے‘‘ کافی تھا۔ معشوق کا ’’اڑ جانا‘‘ بھی خوب رہا، گویا معشوق نہ ہوا کوئی پرندہ ہوا۔ اب ایک اور غزل کے چند شعر دیکھیے۔ میں نے جان بوجھ کر ایسی غزل اٹھائی ہے جس میں فارسیت نمایاں ہے،
زہے آب و گل کی یہ کیمیا ہے چمن کہ معجزۂ نمو
نہ خزاں ہے کچھ نہ بہار کچھ وہی خار و خس وہی رنگ و بو
مری شاعری کا یہ آئینہ کرے ایسے کو ترے روبرو
جو تری ہی طرح ہو سربسر جو تجھی سے ملتا ہو موبہ مو
اسی سوزو ساز کی منتظر تھی بہار گلشن آرزو
ترے رنگ رنگ نشاط سے میرے غم کی آنے لگی ہے بو
وہ چمن پرست بھی ہیں جنھیں یہ خبر ہوئی ہی نہ آج تک
کہ گلوں کی جس سے ہے پرورش رگ خار میں ہے وہی لہو
ان اشعار میں ’’کیمیا‘‘، ’’رنگ و بو‘‘، سربسر‘‘، ’’سوز وساز‘‘، ’’رنگ رنگ نشاط‘‘، ’’پرورش‘‘ ایسے الفاظ اور فقرے ہے یں جو یا تو پوری طرح کارگر نہیں ہیں (مثلاً ’’رنگ و بو‘‘، کیونکہ اس میں اور ’’خار وخس‘‘ میں مناسبت نہیں اور ’’سربسر‘‘ کیونکہ مو بہ مو‘‘ جیسے خوبصورت فقرے کے سامنے یہ سر بلند نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی جس مصرعے میں یہ فقرہ استعمال ہوا ہے اس کا ایک ٹکڑا محض بھرتی کا ہے) یا نامناسب ہیں (مثلاً ’’کیمیا‘‘ جس کا تعلق ’’نمود‘‘ سے تو ہو سکتا ہے لیکن ’’نمو‘‘ سے نہیں۔ پھر جب ’’آب وگل کی کیمیا‘‘ کہہ دیا تو ’’معجزۂ نمو‘‘ کی کیا ضرورت تھی؟ یہی کیمیا تو معجزۂ نموہے اور ’’سوز وساز‘‘ جس کا بہار سے اور غم کی بو آنے سے کوئی تعلق نہیں۔ غم کی بو آنا بھی بہت بھونڈا ہے)۔ یہ غلط ہیں۔ (مثلاً ’’پرورش‘‘ کیونکہ خون سے پرورش نہیں ہوتی۔ صرف بعض طرح کی چمگادڑوں کی پرورش خون سے ہوتی ہے۔) اقبال نے کیا عمدہ کہا ہے، ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو۔
فراق صاحب اس کاچربہ بھی نہ اتار سکے اور ’’رنگ رنگ نشاط‘‘ اس کو ’’رنگ‘‘ اور ’’نشاط‘‘ کے درمیان اضافت دے کر پڑھیں یا یوں ہی پڑھیں، معنی کچھ نہیں بنتے (صرف ’’رنگ نشاط‘‘ ہوتا تو بات بنتی۔) جگر صاحب کچھ بڑے شاعر نہ تھے، لیکن فراق صاحب کے ’’چمن پرست‘‘ کی عدم موزونیت سمجھنی ہو تو جگر کو سنئے،
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں
’’چمن‘‘ کے معنی ’’نوراللغات میں حسب ذیل ہیں، وہ جگہ جہاں سبزہ یا پھول یا کچھ اور بوئے جائیں۔ چھوٹا کھیت۔ بیشتر باغ کے قطعات۔
گلزار کو، یا جہاں پھول بوئے جائیں، چمن کہتے ہیں، اگرچہ باغ نہ ہو۔ اب فرہنگ معین بھی دیکھ لیجئے، زمین سبز وخرم، مرغزار۔
ان تعریفات کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کر لیجئے کہ جگر کے شعر میں ’’گلشن پرست‘‘ کس قدر مناسب اور فراق صاحب کے شعر میں ’’چمن پرست‘‘ کس قدر نامناسب ہے۔ فراق صاحب قدم قدم پر اس طرح کے اناڑی پن کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اب رہی یہ بات کہ فراق صاحب نے ہندو تہذیب اور فلسفہ کے عناصر کو اردو غزل میں حل کیا، تو اردو کا کون سا شاعر ہے جس نے ہندو تہذیب اور فکر سے کچھ نہ کچھ حاصل نہ کیا ہو؟ اردو کا خمیر ہی ہند اسلامی ہے اور فراق صاحب اردو کے نہ پہلے ہندو شاعر تھے اور نہ آخری اردو شاعر ہوں گے۔ ہندو نظریۂ حیات، طرز فکر اور ادبی احساس ہم سب کے یہاں کم وبیش موجود ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اکثر یہ براہ راست نہیں ہے تو براہ راست تو فراق صاحب کی بھی غزل میں نہیں ہے۔ رباعیوں اور نظموں میں ہوگا، دیومالا وغیرہ بھی ہو گی، لیکن رباعیاں اور نظمیں اس وقت ہمارے دائرہ بحث میں نہیں ہیں۔ جہاں تک غزل کا معاملہ ہے، غالب کی غزل میں ہندو عناصر، فراق صاحب کی غزل سے کچھ ہی کم ہوں گے۔
یہ ساری حیات بعد موت سے عدم دلچسپی، دنیا سے کنارہ کشی، دنیا کے خارجی وجود سے مسلسل انکار، رعایت لفظی سے شغف، خیال کو پیچیدہ بنانا اور تجزیہ کار فکر کا استعمال، جو غالب کی خصوصیات ہیں، ہندو تہذیب کا عطیہ نہیں تو کیا انگریزوں سے حاصل ہوئی تھی؟ بجنوری نے وید مقدس اور دیوان غالب کو ہندوستان کی دوامی کتابیں کہا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ وید مقدس نہ ہوتے تو غالب بھی نہ ہوتے۔ آڈن (W. H. Auden) نے کارل کراوس Karl Krauss کا قول نقل کیا ہے کہ ’’میری زبان وہ آفاقی قحبہ ہے جس کو مجھے دوبارہ باکرہ بنانا ہے۔‘‘ اس کے بعد آڈن کہتا ہے، ’’یہ شاعری کا ننگ بھی ہے اور اس کی شان بھی کہ اس کا ذریعۂ اظہار (یعنی زبان) اس کی ذاتی اور نجی ملکیت نہیں ہے اور یہ کہ شاعر اپنے لیے لفظ ایجاد نہیں کر سکتا اور یہ کہ یہ الفاظ فطرت کی تخلیق نہیں ہیں، بلکہ ایک انسانی سماج کی جو انھیں ہزاروں مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔‘‘
آڈن مزید کہتا ہے کہ ایسی حالت میں شاعر کے لیے خطرہ یہ ہے کہ اس کے کان گندے یا ماؤف ہو جائیں اور وہ الفاظ کے آہنگ اور داخلی معنی کو نہ سن سکے۔ شاید کچھ ایسی ہی حالت فراق صاحب کی تھی۔ ان کے مداحوں نے دعویٰ ضرور کیا ہے کہ انھوں نے اپنے تجربات کے اظہار کے لیے نئی زبان دریافت کر لی لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ پرانی زبان کو اور پرانے وسائل کو بھی ٹھیک سے برت نہ پائے۔ آڈن اسی مقام پر یہ بھی کہتا ہے کہ قافیہ، بحر، بند کی ہیئت وغیرہ نوکروں کی طرح ہیں۔ اگر مالک ان کی محبت اور احترام حاصل کرلے تو ایسا گھر وجود میں آتا ہے جو منظم اور خوش وخرم رہتا ہے۔ اگر مالک بہت زیادہ سختی کرے تو نوکر بھاگ لیتے ہیں اور اگر مالک اقتدار کم رکھتا ہو تو نوکر گندے، گستاخ، شرابی اور بے ایمان ہو جاتے ہیں۔
فراق صاحب کے ساتھ کیا معاملہ گذرا، اس کا فیصلہ ہم آپ سے زیادہ تاریخ کے ہاتھ میں ہے۔ کلینتھ بروکس نے لکھا ہے کہ ہروہ شاعر جسے ہم پڑھتے ہیں، شاعری کے بارے میں ہمارے کلی تصور کو کسی نہ کسی حد تک بدل ضرور دیتا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اکثر شعرا ہمارے اس کلی تصور کو اتنا تھوڑا بدلتے ہیں کہ ہم مستقل یہی سمجھ کر گفتگو کرتے رہتے ہیں کہ ہمارا تصور بالکل ہی نہیں بدلا۔ میں سجھتا ہوں کہ فراق صاحب نے اچھے شعر تو بہت سے کہے لیکن ان کو پڑھ کر شاعری کے بارے میں میرے کلی تصور میں کوئی خاص تبدیلی نہیں پیدا ہوئی۔ ممکن ہے کہ یہ میری فہم کا قصور ہو۔ فراق صاحب کہہ ہی گئے ہیں،
وہ جھوٹ ہی سہی کتنا حسین جھوٹ تھا وہ
جو مجھ سے چھین لیا عمر کے تقاضے نے
(۱۹۸۲ء، نظر ثانی اور اضافے، ۲۰۱۰ء)
نوٹ
یہ مضمون پروفیسر شمیم حنفی کی مرتب کردہ کتاب ’’فراق، شخص اور شاعر‘‘ (مکتبہ جامعہ، ۱۹۸۳ء) میں شامل ہے ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page