قیُوّم خالد (شکاگو ، امریکہ)
نوٹ : یہ کہانی اس دور کی ہے جب سیل فون ایجاد نہیں ہوا تھا (قیُوّم خالد )
وہ بے بسی سے اپنے سامنے رکھے ہوئے بیسن کو دیکھنے لگا۔ بیسن میں خُون ہی خُون تھا۔ ابھی ابھی اُسے اُلٹی ہوئی تھی۔ اُس کا سارا سینہ درد سے کچّا ہورہا تھا۔ وارڈ بوائے کب آکر بیسن اُٹھاکر لے گیا اُسے پتہ نہیں چلا۔ تھکن سے نڈھال ہوکر وہ لیٹ گیا۔ اُس پر میٹھی سی غنودگی طاری ہونے لگی تھی اُس کے کانوں میں تالیاں سی گونجنے لگیں اور ایک شورسا بپا تھا۔
کُل ہِند مزاحیہ مُشاعرہ چل رہا ہے۔ لوگ اُس کے کلام پر داد پر داد دیئے جارہے ہیں۔ جب وہ مائک سے ہٹنے لگا تو لوگ بے تحاشہ تالیاں بجارہے ہیں۔ اُس کے ساتھ ہی مُعتمدِ مُشاعرہ کی آواز اُن تالیوں کو قابو میں کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اب مُشاعرے کے دُوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اِس دور میں صرف مہمان شعرا کو زحمت کلام دی جائے گی۔کُچھ لوگ اُٹھ کر گھروں کو جارہے ہیں۔ گھڑی ایک بجارہی ہے۔ بہت لُطف اُٹھا چکے اب چلنا چاہیے۔ دِل اور لُطف کا مُتلاشی ہے لیکن لوگ آج کل گھڑی کو دل سے زیادہ اہمیت دینے لگیں ہیں۔ ایک شاعر کلام پڑھ رہا ہے۔ لوگوں نے اُسے ہُوٹ کردیا ہے۔ اُسے آواز تک نِکالنے کا موقع نہیں دیا جارہا ہے۔ نہیں سُنینگے ہم اس بوگس شاعر کو نہیں سُنینگے۔ اُسے بُلانے کے لئے بار بار اِصرار ہورہا ہے۔ بار بار اُس کا نام لِیا جارہا ہے۔ اب اُس کے نام کا اعلان کیا جارہا ہے۔ وہ نشہ میں اتنا مست ہے کہ چلا نہیں جارہا ہے۔ دو آدمیوں نے اُسے پکڑ کر مائیک کے پاس لاکھڑا کیا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے۔ بھائیو میں بہت تھک گیا ہوں اب مجھ سے کھڑا نہیں جارہا ہے۔
”تو بیٹھ جاؤ“۔ کسی منچلے نے آواز لگائی۔
”بیٹھ جاؤں۔ بہت اچّھاشُکریہ“ وہ واپس جانے کے لئے مُڑا۔ ”ارے واپس کہاں جارہے ہو۔ بیٹھ کر کلام سناؤ“۔
وہ بیٹھ کر کلام سُنانے لگا۔ جاتے ہوئے قدم رُک گئے۔ نِگاہیں بے دِلی سے گھڑیوں کے چہروں کا طواف کرکے لوٹ آئیں۔ پھر ایک سلسلہ ساچل نکلا ایک نظم کے بعد دُوسری اُس کے بعد تیسری لوگ اُسے مائک چھوڑنے نہیں دے رہے ہیں۔ کوئی پانچ چھ نظمیں سُنانے کے بعد اُس نے معذرت چاہی۔ اب بس بہت تھک گیا ہوں باقی اگلے سال پھر سُناؤں گا۔ اُس کا گلا دُکھنے لگا تھا۔ اُس نے پیشانی سے پسینہ پوچھا اور بیٹھ گیا۔ مُعتمدِ مشاعرہ نے دوسرے نام کا اعلان کیا۔ لوگ پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں اُٹھ کر جانے لگے۔ اُسے سُننے کے بعد کسی دُوسرے کو سُننا فُضول تھا۔ اُس کی آنکھوں میں ممنونُیت کے آنسُو آگئے۔ مجبوراً مُشاعرے کے اِختتام کا اعلان کردیا گیا۔
دو شاعروں نے اُسے پکڑ لیا ہے۔ ارے اب تو جشن ہوگا جشن وہ اُسے اسٹیج کے پیچھے لے جانے لگے جہاں پِینے پِلانے کا اِنتظام تھا۔ ”بھئی مجھ سے اب اور پیانہیں جائے گا۔ اُسنے لڑکھڑاتے ہوئے مُعذرت کی“۔ یہ بہانہ نہیں چلے گا۔ تُم نہیں تو محفل میں خاک لُطف آئے گا۔ تُم نے تو آج مشاعرہ لُوٹ لیا۔ حاصلِ مُشاعرہ ہو۔ حاصلِ مُشاعرہ۔
ایک صاحب نے آکر مصافحہ کیا۔ بھئی آپ نے تو کمال کردیا کمال۔ کِس کی مجال ہے کہ آپ کے بعد اپنا کلام پڑھ سکے۔
”لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ عوام کا ذوق بہت اُوچھا ہوگیا ہے۔ توجّہ سے کچھ سُنتے ہی نہیں۔ بس ایک شور مچائے رکھتے ہیں۔ یہ وہ شاعر تھے جو ہُوٹ ہوچکے تھے۔ اُس نے اُن پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالی اور مُسکرا کررہ گیا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اُن سے اُلجھ جاتا لیکن اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔ اُسے تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ ہوا کی دوش پر اُڑا جارہا ہے۔ ساری کائنات جُھوم رہی ہے۔ کوئی بھی چیز اُس کی گِرفت میں نہیں ہے۔ حتیٰ کہ الفاظ تک اُس کی گرفت میں نہیں ہے۔
”ارے بھائی تُم تو کراؤڈپُلّرہوگئے ہو۔ تمہارا نام مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت بن گیا ہے۔ لوگ تو تُمہارے نام ہی سے جمع ہوجاتے ہیں“۔خطیب بھائی گُزر گئے۔ اب تو تُم ہی دکھنی شاعری کے شہنشاہ ہو شہنشاہ۔
”شہنشاہ“ …… اُسے یاد آیا کہ اُس کی جیب خالی ہے مُعتمدِ مُشاعرہ سے معاوضہ لینا ہے۔
ایک اور صاحب نے آکر بڑے ادب سے مُصافحہ کیا ”میں نے کل گھر پر ایک نِجی محفل رکھی ہے۔ آپ کی شرکت بے حد ضروری ہے۔ آپ کے بغیر لُطف نہیں آئے گا۔ بس چند باذوق احباب کو مدعو کیاہے۔
”ہاں بھائی باذوق سامعین کو کلام سُنانے کا لُطف ہی اور ہے“۔ اُس نے تِیکھے لہجے میں کہا۔
تو آپ کل تشریف لارہے ہیں نا۔ انہوں نے اپنا پتہ دیتے ہوئے اِصرار سے پُوچھا۔ ضرور ضرور اُسنے اُن پر نِگا ہیں جماتے ہوئے کہا۔ وہ اِتنی پی چُکا تھا کہ نِگاہیں تک نہیں جم رہی تھیں لیکن اُس نے اُنھیں پہچان لیا۔ اُن کا ذوق بس مُشاعروں کی حد تک محدُود تھا۔ لوگ جس طرح مُتعدی بیماریوں سے بچنے کے لئے سال میں ایک آدھ بار ٹیکا لگوالیا کرتے ہیں۔ اُسی طرح اپنے ذوق کو زِندہ رکھنے کے لئے سال میں دو ایک مُشاعرے اٹینڈ کرلئے اور ایک آدھ نِجی محفل برپا کردی۔ جس میں اپنے بارُسوخ دوستوں کومدعُوکرلیا۔ وہ ایسی بہت سی محفلوں میں شِرکت کرچُکا تھا۔ چند دولت مند احباب جمع ہوتے۔ پُر تکلّف دعوت ہوتی، پینے پلانے کا دور چلتا۔ کسی ایک شاعر کو بے تحاشہ داد دی جاتی۔ گھنٹہ دو گھنٹہ اُس سے دل بہلایا جاتا۔ پِھر یکایک لوگوں کو سونے چاندی کے چڑھتے اُترتے بھاؤ بلیک میں بِکنے والی سِمنٹ لوہے کے دام وغیرہ یاد آجاتے۔ اُس کے بعد سب اپنی اپنی کاروں میں ایک ایک کرکے رُخصت ہوجاتے۔ بے چارہ شاعر داد کے نشہ میں مست اپنی کسی نئی غزل کے قافیہ ردیف دُرست کرتے ہوئے دُوسری طرف پیدل نکل جاتا یا بہت ہوا تو کوئی اُسے احسان کے طور پر اپنی کار میں اُسے گھرچھوڑ جاتا۔ غُربت زدہ گلیوں میں گاڑی موڑتے وقت آنکھ بھوں چڑھ جاتی۔ گاڑی کی آواز سُن کر پاس پڑوس کی عورتیں اپنے اپنے دروازوں میں مورچہ جمالیتیں اور دروازوں میں سے تانک جھانک کرنے لگتیں۔ حیرت زدہ چھوٹے بچے عجیب سی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے اور گاڑی کو گھیر لیتے۔ خِفّت سی محسوس کرتے ہوئے شاعر گاڑی سے اُتر جاتا اور پھردوایک دِن اُس کی بیوی پڑوسنوں سے سیدھے مُنہ بات نہیں کرتی۔ دوایک دن اُسے پڑوسیوں کی نگاہوں میں خُصومت سی محسوس ہوتی۔
(۲)
وعدہ کرنے کے باوجود وہ اُن صاحب کی محفل میں شریک نہیں ہوا۔ داد سمیٹنے کے کھیل سے اب اُس کی طبیعت اُکتا چکی تھی۔ دوسرے دِن اُٹھنے تک ہی بارہ بج گئے تھے۔ اُٹھنے کے بعد اُس نے ناشتہ کیا اور اپنے گاؤں لوٹ گیا۔ اب اُسے گاؤں تو کہنا غلط تھا۔ گاؤں تھا ہوگا بیس پچیس برس پہلے‘ ضلع کا صدرمقام بننے کے بعد سے اب وہ چھوٹا موٹا شہربن گیا تھا۔
اُس نے معاوضہ کے پانچ سو روپیہ چُپکے سے بھابھی کی ہتیلی پر رکھ دیئے۔
”اُسے اپنے پاس رکھ لو۔ بھابھی نے کہا۔ ”نہیں میرے پاس رہیں گے تو یُونہی ختم ہوجائیں گے۔ پچھلے مہینہ بھی میں نے کچھ نہیں دِیا۔ پھر جب ضرورت پڑتی ہے تو آپ سے لے لیتا ہوں“۔ یہ بھابھی کا خُلوص و پیار تھا جس نے اُسے گھر سے باندھ رکھا تھا ورنہ اُس کے قدم تو کبھی کے اُکھڑ چکے تھے۔
”تُم نے پی تو نہیں“۔
”چکھی تک نہیں“۔
”جُھوٹ‘تُمہاری آنکھیں، بتا رہی ہیں کہ تُم نے پی ہے۔ سوچ لو زندگی ایک بار مِلتی ہے۔ پھر بیمار پڑوگے تو مُشکل ہوجائے گی“۔
”اب سال میں دو ایک بار بھی نہ چکھیں تو پھر زندگی کِس کام کی۔ سارے دوست جمع ہوتے ہیں“۔ اُس نے لنگڑا لُولاسا عُذر پیش کیا۔
”تُم لوگوں سے یہی تو مُصیبت ہے جہاں دوچارجمع ہوئے کہ پینے بیٹھ گئے“۔ کسی نے مُفت کی پِلادی اُس پر جان نِچھاورکردی“۔ ہاں یہی تو مُصیبت ہے۔ پھر بہانہ کتنا خُوبصورت کہ شاعر پئے گا نہیں تو لکھے گا کیا؟ — خاک۔ اگر شراب کی تلخی نہ پچا سکے تو پھر زمانے کی تلخیاں کیا پچاپائے گا اور کوئی پینے پِلانے سے تو بہ کرلے تو اُس کی ہنسی اڑائی جاتی ہے۔ ”اماں یارتُم نے تو ابھی سے توبہ کرلی۔ ابھی تو عُمر پڑی ہے توبہ کے لئے یہ کیا بُزدلی ہے۔ ڈر گئے زمانہ سے۔ ہمیں تو زمانہ سے لڑنا ہے، حقیقتوں سے آنکھ مِلانا ہے۔ زمانہ سے لڑنا ہے۔ کتنا پُر فریب جُملہ ہے۔ اپنے آپ کو سچائی کا نقیب سمجھ لیا اور لگے سائیوں سے لڑنے‘سمجھ لیا کہ زمانہ سے لڑ رہے ہیں۔ جہاں کہیں اُونچ نیچ دیکھی ایک نظم لِکھ ماری۔ کِسی نے قبرستان کی زمین ہڑپ کرلی آپ نے اُس کے خلاف نظم اخبار میں چھپوادی۔ دوستوں نے خوب پیٹھ ٹھونکی واہ کمال ہوگیا کمال“۔ ایک دن ترنگ ترنگ میں آکر بلدیہ کی کارکردگی کے خلاف اخبارمیں نظم چھپوادی۔ اب بلدیہ میں نوکررہ کراُس کے خلاف ہی نظم لکھیں گے تو نوکری جائے گی نہیں تو کیا ترّقی ہوگی۔ بڑے صاحب نے بُلاکرڈانٹ پِلائی۔ طیش میں آکر اُن کے خلاف بھی نظم لِکھ دی‘ صاحب نے نوکری سے برطرف کردیا۔ پہلے کون سا ڈھنگ کا کام کرتے تھے‘ اپنے ذمہ کے کام بھی دُوسروں کے سرڈال رکھے تھے۔ لوگ مُروّ ت میں کام کیا کردیتے تھے۔ خُود بیٹھے بس لوگوں کو نظمیں سُنایا کرتے تھے۔ سُنانے کی لت جوپڑ گئی تھی۔ ایک اور لت پڑ گئی تھی وہ تھی پینے کی۔ اعلیٰ سے دیسی۔ دیسی سے سیندھی اب تو بات ٹھرّے پرآگئی تھی۔ بن پئے چین نہ آتا تھا۔ نشہ اُترا کہ سارا بدن درد کرنے لگا۔ اسی لئے کبھی شام کو پی لی کبھی دِن کو پی لی۔
(۳)
پینے پِلانے سے تنگ آکر بیوی جاکر میکے بیٹھ گئی‘ جھگڑا بڑھ گیا‘ بات طلاق تک پہونچی لیکن مہرادا کرنے کے لئے پیسے کہاں تھے۔ تنگ آکر بیوی نے خُود خُلع لے لی۔ اُس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ بیوی خُلع لے لیگی۔ دونوں نے مُحبّت کی شادی کی تھی۔ اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف‘ سارے گھر والے ناراض ہوگئے تھے۔ ماں کو منانے کے لئے اُس نے ایک نظم لِکھدی۔ ماں ہنس کر چپ ہوگئی اور بیٹے کے لئے دِل کے دروازے کھول دیئے۔ شاعری میں تاثیر ہی ایسی تھی۔ بیوی بھی اُس کی شاعری پر فریفتہ ہوگئی تھی۔ شاعری میں دھڑکنے والے دِل کے تعاقُب میں سائیوں کے پیچھے نکل گئی تھی۔ بہت بعد میں پتہ چلا کہ شاعری کے سائباں تلے بیٹھ کرزِندگی کی دُھوپ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ خُلع کے حادثہ پرشاعروں کی مفلسی اوربے کسی پرایک مزاحیہ نظم لِکھ ڈالی۔ لوگوں نے خُوب پِیٹھ ٹھونکی۔ کیا حِسِ مزاح ہے۔ وہی آدمی بہادر ہے جو اپنے آپ پر ہنس سکے۔ اِس بہانہ لوگوں نے خُوب ہنسی اڑائی۔ وہ نظم شاہکارتسلیم کرلی گئی۔ خُوب شُہرت ملی اور اُس کے سوا ملا ہی کیا اِس شاعری میں۔ شُہرت کی بُھوک پیدا کرنے والی داد۔ داد سے زیادہ بے داد اورشُہرت وہ بھی بدنام سی۔ یہ شُہرت بھی کیا چیز ہے۔ کائی ہے کائی‘ ذرا چُوکے پاؤں پِھسلا اورچاروں خانے چِت۔ کائی لگے ہاتھ سہارے کے لئے کچھ پکڑ بھی نہیں پاتے۔ کوئی بھی تو اپنا نہ ہوا۔ بیوی نے خُلع لے لی ایک بیٹا تھا وہ بھی اپنا نہ ہوسکا۔ وہ اُس کی شہرت کے سائے میں سانس نہ لے سکا۔ لوگ اُسے باپ کے وسیلہ سے پہچانتے ضرور تھے لیکن نصیحت کرنا نہیں بُھولتے تھے۔ کہیں تم بھی شاعری کرنے لگو گے۔ تُمہارے باپ شاعر بُہت اچّھے ہیں مگرآدمی کسی کام کے نہیں‘ یکدم فالتُوبِالکُل بے کار۔ جب اُس کا دم گھٹنے لگا تو وہ گھر چھوڑکربھاگ گیا اور بمبئی کی بے چہرگی میں پناہ لے لی۔ ہاں اِتنا ہوا اُس کی زندگی سنورگئی۔ کِسی اچّھی کمپنی میں نوکری مل گئی۔ اب وہ ہر مہینہ سوپچاس باپ کو بھیج دیا کرتا۔
(۴)
اُسے کھانسی کا ایک اور شدید دورہ پڑا۔ بے چین ہوکر وہ اٹھ بیٹھا اورکھانستے کھانستے دوہرا ہوگیا۔ سانس سینے میں اُلجھ کر رہ گئی۔ اُس کا منہ بلغم سے بھر گیا لیکن وہ اُسے تھوکتے ہوئے بھی ڈررہا تھا اُسے یقین تھا کہ اُس میں خُون بھی ہوگا۔ مجبوراً اُسے بلغم تُھوکنا پڑا۔ بلغم کے ساتھ خُون تھا اُسے پتہ نہیں تھا کہ بات اتنی بڑھ جائے گی۔ گاؤں سے کسی کو ساتھ لے کرآنا چاہئے تھا۔جب ضِلع کے ڈاکٹر نے اُسے عثمانیہ میں جاکر شریک ہونے کا مشورہ دیا اُس نے کہاتھاکہ کِسی کوساتھ لے جانا‘اُسنے ہنستے ہُوئے کہا تھا کہ کِسے ساتھ لیکرجاؤں‘ سب اپنی اپنی زندگی میں مست تھے۔ اپنی اپنی جگہ مصروف۔ زندگی کے سفر میں وہ بِالکُل تنہا رہ گیا تھا۔ کِسی کے آرزو‘ کِسی کے ارماں، خواب تعبیر کچھ بھی تو اُس کی زِندگی سے وابستہ نہ تھے۔ زِندگی تو سرما کی سرد بے حِس لمبی رات کی طرح اکیلی اورسُونی تھی۔ اُسی لئے تو اُس نے ہنستے ہنستے بھابھی سے کہا بھی تھا۔ رہنے دو بھابھی میں اکیلے ہی چلا جاؤں گا۔ کوئی پہلی بارتھوڑی جارہا ہوں۔دواخانہ تو اپنی سسُرال ہے۔
بھابھی نے بھائی سے دیکھ آنے کو کہا بھی ہوگا لیکن بھائی نے بات ٹال دی ہوگی۔ اُس کی بیماری کونسی نئی بات تھی دوچار دن میں خُود ہی ٹھیک ہوکرآجائے گا۔ نہیں آنے کی صورت میں دیکھا جائے گا۔ بھائی کو اُس کی شاعری سے اک چِڑسی تھی۔ ایک اور شخص تھا جسے اُس کی شاعری سے چِڑ تھی وہ تھے اُس کے بہنوئی۔ شروع سے ہی دونوں کی نہیں بنتی تھی کیوں کہ اُس نے اُن کی شادی کے موقعہ پر جہیز اورگھوڑے جوڑے کی لعنت کے خِلاف نظم پڑھکراُن کی ہنسی اُڑائی تھی۔ ایک ہنگامہ ہوگیا تھا۔ وہ تو کہئے یہ سب کچھ نِکاح کے بعد ہوا تھا۔ بڑے بھائی نے بھی خُوب ڈانٹ پِلائی تھی۔ بے ہُودہ ہے۔ ذِمہ داری کِس چیز کا نام ہے نہیں جانتا۔ سمجھتا ہے کہ زِندگی صرف شاعری سے چلتی ہے۔ نظم جلاؤ تو ایک پیالی چائے بھی تیار نہ ہو۔ لہٰذا بہنوئی کے آنے کا سوال ہی نہیں تھا۔
سسٹردوا لے کر آئی۔ اُس نے چُپ چاپ دوا پی لی۔ پہلے وہ دوا پینے کے لئے بہت مزاحمت کیا کرتا تھا۔ روح تک کو کڑوی کردینے والی دواؤں سے اُسے نفرت تھی۔ کڑوی دوا ہی کیا ہر کڑوی بات کی مزاحمت کرتا تھا۔ کوئی اونچ نیچ ہو یا حق تلفی ہو تو اُس کا ذہن شِدّت سے سوچنے لگتا تھا۔ لیکن وقت تھوڑا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ وقت کے ہاتھوں اُس کی رُوح تک کڑوی ہوگئی تھی سوچتے سوچتے اب تو اُس میں ایک قسم کی خُودسُپردگی آگئی تھی۔
”سسٹر آج بھی گاؤں سے کوئی نہیں آیا“۔
”نہیں“۔ یہاں شہر سے بھی کوئی نہیں آیا۔ اُس کا دِل نہیں سننے کے خیال سے ہی اُداس ہوگیا۔
”نہیں آج آپ کے پاس کوئی بھی وِزیٹر نہیں آیا“۔ شہر سے توکِسی کو آنا چاہئے تھا چندایک دوستوں سے تو وہ خُود مِل آیا تھا اور پِھر اخبار میں بھی خبر چھپی تھی۔ جِس دن وہ ڈاکٹر کو دِکھانے شہر آیا تھا۔ ڈاکٹر نے اُسی دن شریک ہوجانے کا مشورہ دیا تھا۔ اُس نے ٹال دیا تھا۔ کل آکر شریک ہوجاؤں گا۔ شہر میں چند ایک دوست ہیں اُن سے مِل کر بُہت دِن ہوئے۔ آج مِل آتا ہوں کل شریک ہوجائیں گے۔ کونسی جلدی ہے۔ پھراُس کا سارا دِن دوستوں سے مِلنے مِلانے میں کٹ گیا۔ کِسی سے گھر پر کِسی سے دفترمیں مُلاقات کی۔ پھرشام کو جانے انجانے اُس کے قدم امجد کے دفترکی جانِب اُٹھ گئے۔ شُہرت کی لت لگی تو چُھوٹتی کہاں ہے۔ امجد نیوزایجنسی چلاتا تھا۔ باتوں باتوں میں امجد نے پوچھا کیسے آنا ہوا بھائی۔ وہ ڈررہا تھا کہ کہیں قرض نہ مانگ بیٹھے۔ عِلاج کے سلسلہ میں آیا ہوں۔ ڈاکٹرماتُھرنےعثمانیہ میں شریک ہوجانے کوکہا ہے۔ امجد نے سکون کی سانس لی۔ ارے آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ میں ابھی آپ کی علالت کی خبر بنواکربھیج دیتا ہوں۔ ویسے دیرتوہوگئی ہے لیکن اُمید ہے کہ کل کے اخبار میں جگہ مِل ہی جائے گی۔ دوسرے دن دواخانہ جانے سے پہلے وہ عابد شاپ گیا اور ایک اخبار کی دُکان سے اخبار اُٹھاکر یوں ہی دیکھنے لگا۔ اخبارمیں اِس کی علالت کی خبرچھپی تھی۔ سرسری نظرڈالتے ہوئے وہ کنکھیوں سے اخبار والے کو دیکھنے لگا۔ اس اُمید میں کہ وہ اُسے پہچان لے اور پُوچھے ارے آپ یہاں؟ آپ کے دواخانہ میں شریک ہونے کی خبر تو اخبار میں چھپی ہے لیکن اُس نے کُچھ بھی نہیں پُوچھا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ وہ اُسے نہیں جانتا تھا۔ دوسرے یہ کہ آپ اخبار بچنے والے سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ اخبار پڑھے گا بھی۔ اُسے تو اپنے منافع کے پانچ پیسے سے سروکار ہوتا ہے۔ اخبار والے نے اُسے ٹوک دیا۔ جناب اخبار لے کر جلدی ہٹئے بِکری کا وقت ہے۔ طیش میں آکر اُس نے اخبار خرید ڈالا۔
اُس نے تکیہ کے نیچے ہاتھ ڈال کرٹٹولا اخبارابھی تک تکیہ کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ اُس نے اخبارنکال کرپڑھنا چاہا لیکن اُس کے لئے اُٹھنا ضروری تھا جو مُمکن نہ تھا۔ اُس کا جسم سرد بے جان پتھرکی طرح بِسترپر پڑھا ہوا تھا جیسے اُس کی ساری قوّت نچوڑ لی گئی ہو وہ بے بسی سے اپنے بے جان ہاتھ پاؤں کی طرف دیکھنے لگا۔ یکایک اُسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے اندر سے اُس کے جسم کو بُری طرح جھنجھوڑدِیا ہے۔ ایک اورکھانسی کا شدید دورہ پڑا مُضطرب ہوکر وہ اُٹھ بیٹھا۔ سانس بگولہ کی طرح سینے میں پھنس گئی۔ اُسے محسوس ہوا کہ وہ ایک خالی اسٹیج پر مائک کے سامنے تنہا کھڑا ہے۔ اُس کے آگے ایک بسیط کھائی ہے۔ ایک تاریک خلا ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے لیکن آواز نہیں نکل رہی ہے جیسے سنّاٹوں نے اُس کی آواز دبوچ لی ہے۔ ایک عجیب سی بے حسی اُس کے پیروں کے ذریعہ اُس کے جسم میں دبے پاؤں سرایت کرتی جارہی ہے۔ اُس کے خِلاف مزاحمت کرنے کے لئے اُس نے ایک زورکی چِیخ ماری۔ اُس کی چِیخ وارڈ کے دیواروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئی۔ سہمی ہوئی رات نے گھبرا کر آنکھیں کھولدیں اورایک پل کے بعد آہستگی سے یوں آنکھیں مُوندلیں جیسے کچھ ہُواہی نہ ہو۔
(۵)
”یہی ہے وہ“ سوال کرنے والے کی آواز ہر جذبہ سے عاری تھی۔ ”ہاں ……!“ دوست کوایسا محسوس ہوا جیسے اُس کی آواز کسی خالی کنویں کی گہرائیوں سے ٹکرا کر نکلنے والی آواز کی بازگشت ہو۔ گاؤں میں ایک خالی کنواں تھا۔ بچپن میں وہ دونوں اُس کی منڈیر پر جُھک کر آوازیں لگایا کرتے تھے۔ اپنی ہی آوازوں کی گونجتی ہوئی بازگشت سُنا کرتے تھے۔ اب اس میں سے ایک آواز چھنّاکے سے ٹُوٹ کر ہمیشہ کے لئے بِکھر چُکی تھی۔ اپنی ”ہاں“ پر یقین کرنے کے لئے اُس نے ایک بار پِھر چہرہ پرنظرڈالی۔ وہی چہرہ تھا لیکن آنکھیں اندرکو دھنس گئیں تھیں۔ اُوپرکا ہونٹ سُکڑجانے کے باعث دو دانت باہر نکل آئے تھے۔ چہرے کے سارے نقوش پتھرا گئے تھے۔لاش مُردہ خانہ میں رکھی ہُوی تھی۔ مُردہ خانہ کی گھٹی گھٹی سی سیلن زدہ بدبُو سے اُس کا سرچکرانے لگا تھا۔
کیا میں نعش کوگاؤں لے جانے کا اِنتظام کرسکتا ہوں۔ اُس نے مُردہ خانہ سے باہر آتے ہوئے پوچھا۔
”آپ کا اُن سے کیا رِشتہ ہے“۔
”وہ میرے بچپن کے دوست ہیں …… تھے۔“ اُس نے بمُشکل تمام لفظ تھے ادا کرتے ہوئے کہا۔
”معاف کیجئے۔ احکامات کے مطابِق لاش صرف کِسی وارث کو یا پِھرکِسی رِشتہ دارکے حوالے کی جاسکتی ہے۔ آپ اُن کے رِشتہ داروں کو اطلاع دے دیجئے۔“
جب وہ باہر نِکلاتوسُورج غُروب ہورہا تھا۔ تھکی تھکی سرددُھوپ دواخانہ کی دیواروں پر رینگ رہی تھی اور بے رحم سائے اُسے دبوچنے کی فکر میں غلطاں اُس کے تعاقُب میں لگے ہوئے تھے۔ بسیروں کو لوٹنے والے پرندوں کی آوازیں پیڑوں کی شاخوں میں اُلجھی ہوئی تھیں۔
تیسرے دِن اخباروں میں یہ خبر چھپی ہوئی تھی۔ طنز و مزاح کے مشہور دکنی شاعر چرخ پتنگوی صاحب کی نعش کل شام 4:30 بجے اُن کے آبائی شہرروانہ کردی گئی۔ میّت کی روانگی کے وقت شاعروں ادیبوں اورصحافیوں کی کثیرتعداد موجُود تھی۔ چرخ پتنگوی صاحب کا ۲۱ دِسمبرکودواخانہ عثمانیہ میں انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن اُن کی نعش تین دِن تک کسمپرسی کی حالت میں مُردہ خانہ میں پڑی رہی۔ اُن کے ہم وطن دوست جب عیادت کے لئے دواخانہ عثمانیہ گئے تو دیر تک تلاش کے بعد انہیں اِس سانحہ کی اِطّلاع مِلی اوراُنہوں نے مرحُوم شاعر کے وارثوں کواِطّلاع کروائی۔
کئی دِن تک مختلِف ادبی انجمنوں کی طرف سے تعزیتی جلسہ مُنعقد کئے گئے انہیں خِراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ کسی نے اُن کو اپنے وقت کا ایک بہترین شاعرقراردیا۔ کسی نے اُن کی موت کو بے وقت ثابت کیا۔ کسی نے کہا کہ وہ مرگئے ہیں لیکن اُن کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اور اُن کی شاعری پرستارانِ ادب کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہے ورثہ ہے۔اِنہیں ادب میں وہ مُقام نہیں مِلا جِس کے وہ حقدار تھے، کیوں کہ مِزاح کو ادب میں وہ مقام نہیں مِل سکا جِسکا وہ حقدار ہے۔
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page