(محمد عشرت صغیر،شاہجہاں پور)
تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی سروں کاروں اور اقدار کی پامالی کے دور میں ادب کی مخصوص ہیئت پر ثابت قدم رہنا کسی سخت امتحان سے کم نہیں ہے۔یہاں ایسے ہی شاعر کے کلام کو ارزش و اہمیت کی کسوٹی پہ پرکھنا منظور ہیجس کے شعری سفر کا امتداد ایک طویل عرصے پر محیط ہے۔اس کے باوجود یہ شعر حالات کا آئینہ دکھا رہا ہیاور حال کی عکاسی کرتا ہو ا محسوس ہو رہا ہے؎
تقاضے الگ ہیں نئی زندگی کے
عبارت لہو سے لکھی جا رہی ہے
اسی وجہ سے شاعر کو یہ کہنے کی پوری آزادی ہیکہ؎
انوکھی نہیں میری آواز یاسرؔ
مگر دور تک یہ سنی جا رہے
شاعری سے متعلق شاہجہاں پور کے حوالے بہت مضبوطی سے پیش کئے جا سکتے ہیں۔اسی سرزمین میں ایک معتبر نام اصغر یاسرؔ کا بھی اپنی شناخت میں کسی تعارف کا محتاج تو نہیں پھر بھی ان کی ادبی شخصیت نے ادبی منظر ناموں کی ثانوی گہما گہمیوں سے کافی احتیاط کو ملحوظ رکھتی ہوئے صرف شاعری کے دامن میں اچھے اچھے اشعار ودیعت کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کے اشعار کی پختگی فن کے ہر پہلو سے موافقت رکھتی ہے۔وہ زمانے کی روش پر اپنی باریک نگاہ رکھتے ہوئے بڑی گہری بات کہہ جاتے ہیں اور تیر نشانے پر خود بہ خود جا لگتا ہے؎
نا تر اشیدہ جتنے بھی پتھر ہیں
سب کے سب تجربوں کی زد پر ہیں
برق رفتاری کے دور میں جہاں وقت کی قلت کا احساس ہر ایک شخص کو ہے،ایسے میں بات کو عجز بیان سے بچاتے ہوئے ترسیل کے تقاضوں کو پورا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔اصغر یاسرؔ اس راز سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ طریقہ کار سے بھی واقف ہیں وہ کہتے ہیں؎
جو خاص باتیں ہوں یاسرؔ انھیں ہی پیش کرو
نہ اوب جائے کوئی، قصہ مختصر رکھنا
اصغر یاسرؔ نے جدید اور قدیم کی اس کشمکش میں اپنی شاعری کو ایک نیا رنگ و آھنگ دینے کی کوشش کی ہے،جس میں اچھا بھلا شاعر اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے میں شش و پنج کا شکار ہو سکتا تھا۔غزل کیارتقائی پس منظر سے واقفیت رکھنے والے اس شکست و ریخت سے خوب واقف ہیں۔اصغر یاسر ؔنے بھی جب شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو کلاسیکی شاعری کی شمع روشن رکھنے والے شعرا بھی موجود تھے اور جدید رجحان سے متاثر ہونے والے نوجوان ذہن بھی اپنے پر تولنے کو آمادہ تھے۔جہاں تک میں شاہجہاں پور کی ادبی تاریخ کو مطالعہ کر پایا ہوں اور یہاں کے مزاج سے میری آشنائی ہے،جدید رجحان یہاں کے اساتذہ کے لیے ہمیشہ گراں بار رہا۔اس کو آپ روایت سے والہانہ لگاؤ بھی کہہ سکتے ہیں۔ایسے ماحول میں نئی راہوں پر گامزن ہونا کسی بھی شاعر کے لیے آسان مرحلہ نہیں ہوسکتا۔تاہم اساتذہ نے تنگ نظری کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا۔اصغر یاسرؔ نے بھی اپنے شہر کے اساتذہ سے جدید راہوں پرمفید مشورے حاصل کئے۔اپنے مشاہدے،مطالعے اور مشق در مشق شعر و سخن کے سفر پر ثابت قدمی سے چلتی ہوئے اصغر یاسرؔ نے خود کو اساتذہ کی ردیف میں کامیابی کے ساتھ شامل کر لیا۔ان کا یہ شعر ان کے شعری سفر کا غماز ہے؎
جلتے بجھتے چراغ دیکھتے ہو
بے تگ و دو کے روشنی نہ ملے
جناب اصغر یاسر ؔ صاحب نے اپنی زندگی کو ایک عملی زندگی کی شکل میں گزارنے کی حد درجہ کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔انھیں دیرینہ رفاقتوں کا پاس بخوبی رہتا ہے۔یوں تو میری ملاقات ادبی محفلوں میں ہی موصوف سے ہوئی تھی مگر اثنائے گفت و شنید جب انھیں معلوم ہو ا کہ میرے والدمحترم ان کے ہم سبق رہے ہیں تو انھیں ایام طفلگی کا وہ دور بے ساختہ یاد آ گیا،گردش ایام اگر چہ کچھ رفیقوں سے رابطوں کا سلسلہ بحال نہیں رکھنے دیتی تا ہم اگر کوئی پرانہ دوست کسی حوالے سے یاد آ جائے تو مخلص انسان کے جذبات مروت و اخوت جاگ جاتے ہیں۔اصغر یاسر ؔ صاحب کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بات ضمنی تو ہے مگر اس امر کو بیان کرنے میں مجھے ایک قسم کا فخر بھی محسوس ہوتا ہے کہ موصوف سے جب جب ملاقات ہوتی ہے وہ دیرینہ رفیق کی احوال پرسی ضرور کرتے ہیں۔
شعبہ بنیادی تعلیم میں معاون مدرس سے اپنی ملازمت کا آغاز کرنے والے اصغر یاسرؔ صاحب ایک سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے اور درس و تدریس کے میدان میں اپنی خدمات ذمہ داری سے انجام دیتے رہے۔مشاعروں کی بزم آرائیوں سے دوریوں کے اسباب میں ان کی ملازمت بھی شامل ہے۔البتہ اپنے شہر میں انعقاد پذیر ہونے والی شعری نشستوں میں اپنی با وقار شرکت سے توجہ کا مرکز بنے رہے۔مضمون لکھے جانے سے ایک ماہ قبل ہی اصغر یاسرؔ صاحب اپنی ملازمت سے سبک دوش ہو چکے ہیں۔ملازمت نے انھیں شہر کی حدود و قیود سے کہیں دور جانے نہیں دیا لیکن وہ مشق سخن کے ساتھ ایک پختہ گو شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان ادبی مجلوں اور رسالوں کے حوالے سے بنانے میں کامیاب ہوئے۔سال ۲۰۲۲ء میں ان کا شعری مجموعہ ـ’سایہ سایہ آنچ‘ شائع ہوا جسے ادبی حلقوں میں احترام سے نوازہ گیا۔اسی مجموعیمیں اظہار خیال کے عنوان سے اپنی بات میں لکھتے ہیں کہ ان کی شاعری کا آغاز ۱۹۸۰ سے ہوا،اس لحاظ سے ۴۲ سال کی طویل مشق و ریاضت کے بعد کتاب کے کل ۲۰۸ صفحات میں سے ۱۹۸ صفحات پر محیط کلام اصغر یاسرؔ شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے اہل نظر کو دعوت غور و فکر دے رہا ہے۔
اصغر یاسرؔ نے اپنی شاعری میں سایہ سایہ آنچ کا اہتمام کیوں کیا ہے،یہ بات بھی اسی کے مطالعے سے منکشف ہوتی ہے۔زندگی میں رنج و آلام کے سلگتے سورج سے بچنے کے لیے جہاں سائبانوں کی تلاش ہوتی ہے وہیں روشنی کے ساتھ ساتھ ہلکی سی حرارت بھی امیدوں کی کونپلوں کو تناور درخت بنانے کے لیے نہایت ضروری ہوتی ہے۔سائے او ر آنچ کا یہ توازن ہی انسان کو دلدل یا بنجر ہونے سے بچاتا ہے۔اسی توازن کو ان اشعار میں محسوس کیجئے؎
؎ دھوپ کا چھاؤں سے جو رشتہ ہے
تم سے شاید وہی ہمارا ہے
را ہ میں پیڑ لگانے کا عمل خوب رہا
جو مسافر بھی گزرتا ہے دعا دیتا ہے
؎ خوشی کی دھوپ راس آئی نہ جس کو
غموں کے سائباں تک آ گیا ہے
؎ میں نہ کہتا تھا ترے بس کا نہیں جادہء شوق
ہم سفر چار قدم چل کے ہراسان کیوں ہے
؎ یہ اور بات نہ تھا ان پہ برگ ِ سبز کوئی
ہمارے رستے میں یوں تو کئی شجر آئے
اصغر یاسر ؔ نے زمانے کی گردشوں سے گھبرانے کی بجائے ان سے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنے کو ہی اپنا خاص شیوہ بنا لیا ہے۔وہ جو دیکھتے ہیں اس کو اشاروں کنایوں کا پیرایہ عطا کرتے ہوئیاشعار میں تبدیل کرتے چلتے ہیں۔انھیں کے یہاں طنز کا لطیف انداز موجود ہے جو زمانے کی روش کو اجاگر کرتا ہو ا چلتا ہے؎
لوگ ظاہر کو سچ سمجھتے ہیں
کون باطن میں جھانکتا ہے یہاں
؎ تم مرے شہر سے نہیں واقف
جو بھلا ہے وہی برا ہے یہاں
؎
کسی کی رائے سے مجھ کو غرض کیا
میں اپنے ڈھب سے دنیا دیکھتا ہوں
؎ تجربے ہوتے رہے اور سفر کٹتا رہا
زندگی نے نہیں چھوڑا کبھی تنہا مجھ کو
شب و روز کے رونما ہو نے والے واقعات کو شاعر نے علامات کے سہارے بیان کرنیمیں اپنی قوت متخیلہ کو بہت حد تک بیدار رکھا ہے۔اسی سبب ان کی شاعری نیچر کیقریب ہوتی چلی گئی ہے۔شجر،حجر،چرند پرند،جھیلیں،سمندر،صحرا،دشت، گھر،چٹان،پربت جگنو،شبنم،پھول،پہاڑ وغیرہ علامات داخلی کیفیات کے ساتھ وارد ہوتی ہیں۔چند امثال دکھیئے۔
؎ چٹانوں سے اتر کر دیکھتے ہیں
ذرا نیچے اتر کر دکیھتے ہیں
؎ پہاڑوں پر ہوئی ہے سخت بارش
پڑے رستے میں پتھر دیکھتے ہیں
؎ پھولوں پر انگارے دیکھے
آئینے پر پتھر دیکھا
؎ کیوں پہاڑوں کی اوٹ سے مجھ کو
ایک آہٹ سنائی دیتی ہے
؎ نیا کیا ہے سلگ سکتی ہے شبنم
تماشا یہ تو اکثر دیکھتے ہیں
؎ ہمارے گھر کی اداسی شجر سے ظاہر ہے
دنوں سے کوئی پرندہ بھی چہچہاتا نہیں
؎سمندروں کے سفر کا تو اک بہانہ تھا
کسی طرح بھی اسے ساتھ چھوڑ جانا تھا
؎ جو نامراد چٹانوں سے لوٹ آیا ہے
بلندیوں کی حقیقت بتا رہا ہے مجھے
گھر کی علامت اصغر یاسر ؔ کے یہاں بڑی خوبصورتی سے ابھرتی ہے۔اس تنوع مندرجہ ذیل چنندہ اشعار میں ملاحظہ کیجیے؎
ایک دن ہم بھی تماشا کر لیں
گھر جلا کر ہی اجالا کر لیں
؎ اسی امید میں کی برسوں دشت پیمائی
ہمارے گھر کی طرف کوئی راستا جائے
؎ میرا گھر خوشبو میں آج نہایا ہے
کون تصور کے رستے میں آیا ہے
؎ یوں بھی گھر میںسمٹ گئے ہم تم
آج ماحول کچھ خراب سا ہے
؎ خلوص کس میں ہے کتنا یہ آزماؤں گا
میں گھرکی راہ میں کچھ کیکٹس لگاؤں گا
؎ سمندر لمس کا پیاسا تھا جن کے
ستم یہ ہینھیں کا گھر ہے پیاسا
آخر الذکر شعر میں گھر کے مجازی معنی کے ساتھ ساتھ کس طرح تجسیم کی گئی ہے وہ شاعر کی قادر لاکلامی پر دلالت کرتی ہے۔
نامانوس ترکیبوں سے بچتے ہوئے آسانی کے ساتھ اپنی بات کو شعر بنانے کا ہنر اصغر یاسرؔ کے یہاں موجود ہے۔انھوں نے جو پیکر استعمال کئے ہیں ان سے بیان کی سادگی مجروح نہیں ہوتی۔تجربات و حادثات کو بیان کرتے ہوئے اصغر یاسرؔ نہ تو کہیں اپنی آواز کو بہت بلند کرتے ہیں اور نہ ہی کہیں ان کا طرز سخن مبہم ہوتا ہے۔وہ جو کہتے ہیں بادی النظر عام فہم سا معلوم ہوتا ہے،اگرچہ اس میںرموز و اشارات کے کئی پہلو چھپے ہوتے ہیں۔اس طرح انھوں نے اپنی شاعری کو شور نہیں بننے دیا۔
؎ کبھی توزندگی انگڑائی لینے سے نہیں تھکتی
کبھی یہ باعث افسردگی معلوم ہوتی ہے
؎ زرد پتے جو شجر اپنے گرا دیتا ہے
موسم گل کے وہ آنے کا پتہ دیتا ہے
؎ مری ہی بات چٹانیں پلٹ کے کہتی ہیں
کہ بازگشت کی حد میں ہے مرحلہ اپنا
؎ ہرے درخت بھی آندھی نیکر دئے تاراج
نہ کام آیا یہاں کوئی تجربہ اپنا
؎ آنسوؤں میں چراغ روشن تھے
آگ بھی بہہ رہی تھی پانی میں
؎ کون جانے تری یادوں کی حسیں کشتی سے
کس نے خوشبو کے جزیرے پہ اتارا مجھ کو
؎ ہواؤں کو برا لگنے لگا ہے
گھروندا ٹوٹتا لگنے لگا ہے
؎ سمندر کی جانب بڑھی جا رہی ہے
وجود اپنا کھونے ندی جا رہی ہے
سحر کا بدن رات چھونے کو ہے اب
خوشی میری غم میں ڈھلی جا رہی ہے
اسی قبیل کی متعدد شعری مثالوں سے جناب اصغر یاسرؔ کا کلام مالامال ہے۔ایک اچھی اور سچی شاعری کی تمام جمالیات اصغر یاسرؔ کے کلام میں موجود ہیں۔دردمندی،مروت و اخوت،خلوص و وفا،انسان دوستی کے جذبات سیمملو ان کی شاعری ذہن و دل کو سکون دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔مثلاََان کا یہ شعر ناگوار موسموں میں بھی تبدیلی کی امید جگاتا ہے؎
کہنیکو ہر اک سمت بیابان بہت ہے
پھر بھی چمن آرائی کا امکان بہت ہے
اس مختصر سے تجزیہ میں،اصغر یاسرؔ کی شاعری کے نمایاں خد وخال دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ایک ہی نشست میں کسی اچھے شاعرکے تمام شاعرانہ پہلوؤں پر بات ممکن نہیں ہوتی۔زاویوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تہ در تہ مطالعہ دوسرے ابعاد کو بھی روشن کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اصغر یاسرؔ کی شاعری میں پائی جانے والی دیگر خصوصیات پر بھی تفصیلی بات ہو۔یقینی طور پر اہل زبان و ادب اصغر یاسرؔ جیسے با کمال شاعر کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔آخر میں ان کے منفرد لب ولہجے کی ترجمانی کرتے انھی کے چند اشعار پر اپنی بات ختم کرتا ہوں؎
؎ اس کا انداز ہی انوکھا تھا
بھیڑ میں تھا مگر اکیلا تھا
؎ مری سرشت میں شامل ہیں عشق کے آداب
وہ جب بھی سامنے آئے گا مسکراؤں گا
؎ ہم آج گردش دوراں سے یوں الجھ بیٹھے
کہ وہ بھی گیسوئے جاناں صفات ہوتی ہے
؎ کوئی دیوانہ تیری جستجو میں
گلابوں کی دکاں تک آ گیا ہے
؎ ابھی قدر اس طرح انسانیت کی ا
ابھی باقی محبت کا رہے گا بانکپن برسوں
؎ کسی بھی زاوئے سے بیٹھو یاسرؔ
وہ آنکھیں مسکرا کر دیکھتی ہیں
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page