موبائل : 9350924710
ترقی پسند تحریک وجود میں آئی اور اس کے اثرات اردو ادب کے تمام اصناف پر بجا طور پر نمایاں ہوئے۔ اردو شاعری بھی اس سے نہ بچ سکی خاص طور سے نظم کو حصول مقاصد کا وسیلہ بنایا گیا۔ یوں تو ہم واقف ہیں کہ ترقی پسندتحریک کا اصل مقصد مارکسی نظریات کی ترویج و اشاعت اور ادب سے زندگی کو بہتر بنانا تھا۔ اس لئے اس دور کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کے اس عہد کی شاعری میں یا یہ کہہ لیں کہ ترقی پسند فکر رکھنے والے شعرا کی شاعری میں مقصدیت کا غلبہ زیادہ اور اندازشاعری خطابانہ تھا۔
اسی دور میں راشد اپنے منفرد لب و لہجہ کے ساتھ منظر عام پر آئے۔ راشد نے شاعری کی مروجہ رجحان سے گریز کرتے ہوئے اردو شاعری کی کلاسیکی روایت کو اپنایا اور اردو نظم میںنئے امکانات اور نئے معانی کے در وا کئے۔ انہوں نے اپنے فکر و احساس کو ہیئت و تکنیک اور رنگ و آہنگ میں ڈھال کر نئے اسلوب میں پیش کیا اور نظم کو متنوع فکر سے روشناس کیا۔ان کی نظموں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں اسلامی تلمیحات و روایات کو علامت کے طور پر بہت عمدگی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی نظم؛’’نمرود کی خدائی‘‘،من وسلوی‘‘،’’سبا ویراں‘‘، ’’اسرافیل کی موت‘‘ اور ’’ابولہب کی شادی وغیرہ قابل ذکر ہیں اس مضمون میںمذکورہ بالا نظموں میں سے صرف ایک نظم’’ ابو لہب کی شادی ‘‘ کا تجزیہ مقصود ہے۔
جیسا کہ بالا سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ ن۔م۔راشد نے اپنی نظموں میں اسلامی تلمیحات و روایات کا بر محل استعمال کیا ہے۔ ابو لہب کا تعلق بھی اسلامی تاریخ سے ہے ۔ یہ محمد ﷺ کا حقیقی چچا تھا اور مذہب اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا ۔ قرآن میں اس کے حوالے سے ایک سورۃ بھی نازل ہوئی ہے جس کا نام سورۃ ’تبت‘(سورۃاللہب) ہے۔ اسے سورۃ مسد بھی کہتے ہیں۔ جس کا شان نزول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو من جانب اللہ حکم ہوا کہ اپنے آس پاس رہنے والے اور اپنے رشتے داروں کو تبلیغ کریں۔لہذا آپ نے صفا پہاڑی پر چڑھ کرندا دی’’یاصباحتہً!‘‘ اس زمانے میں اس طرح کی آواز کو خطرے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔باو جوداس کے آواز کو سن کر سارے لوگ جمع ہو گئے۔ جب سارے لوگ وہاںحلقہ بگوش ہو گئے تو حضور ﷺ نے فرمایا کے ائے لوگوں اگر میں تمہیں خبر دار کروں کہ اس پہاڑ کی پشت پر ایک گھڑ سوار فوج ہے جو تم لوگوں پر حملہ آور ہونے والی ہے توکیا تم میری بات کا یقین کروگے؟ تمام لوگو نے کہا کہ ہاں ہم لوگوں نے آپ کو کبھی جھوٹا نہیں پایا۔ تو پھر آپ نے لوگوں کو ایک بڑے عذاب سے آگاہ کیا اور فرمایا کہ میں تمیں ایک بڑے عذاب سے ڈرانے آیا ہوں(اگر کفر و شرک میں مبتلا رہے) یہ سن کر ابو لہب نے کہا:’ تباًلک!‘ تیرے لئے ہلاکت ہو تو نے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا؟ جس پر اللہ تعالی نے یہ سورۃ نازل فرمائی۔
ابو لہب کا اصل نام عبدالعزی تھا اپنے حسن و جمال اور چہرے کی سرخی کی وجہ سے اسے ابو لہب(شعلہ فروزاں) کہا جاتا تھا۔ اوراپنے انجام کے اعتبار سے بھی اسے جہنم کی آگ میں جلنا تھا جیسا کہ بالا سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ اسلام کا شدید دشمن تھا ۔ اس کی بیوی ’ام جمیل بنت حرب‘ بھی دشمنی میں اپنے شوہر سے کم نہ تھی۔ اس سورۃ میں ایک جگہید ایدً(ہاتھ) کا لفظ آیا ہے جس سے مراد اس کا نفس ہے یعنی جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں ہلاک اور برباد ہو جائے۔ یہ بد دعا اس کے جواب میں ہے جو اس نے صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غصے اور عناد میں بولا تھا ۔پھر ایک لفظ۔ وتب آیا ہے(جس کا معنی۱ور وہ ہلاک ہو گیا) اللہ تعالی نے اس بددعا کے ساتھ اس کی ہلاکت کی خبر دے دی چناچہ جنگ بدر کے چند روز بعد ہی اسے عدسیہ نام کی بیماری ہو گئی اس میں طاعون کی طرح گلٹی سی نکلتی ہے۔ اسی بیماری میں اس کی موت ہو گئی۔ تین دن تک اس کی لاش یوں ہی پڑی رہی حتی کہ لاش سخت بدبو دار ہو گئی بالآخر اس کے لڑکوں نے بیماری پھیلنے کے ڈر سے اس کے جسم پر دور سے ہی مٹی اور پتھر ڈال کر اسے دفن کر دیا۔ اس کی کمائی میں اس کی رئیسانہ حیثیت اور جاہ و جلال کے ساتھ اس کی اولادیں بھی تھیں جو کام نہ آسکیں ۔ یعنی جب اللہ کی گرفت آئی تو اس کی کوئی چیز اس کے کام نہ آسکی۔ اس سورۃ میں اس کی بیوی کا بھی ذکر آیا ہے جس کے لئے اللہ پاک نے یہ عذاب متعین کر رکھا تھا کہ وہ جہنم میں اپنے شوہر کی آگ پر لکڑیاں لا لا کر ڈالے گی تاکہ آگ مزید بھڑکے۔ یہ اللہ کی طرف سے ہوگا یعنی جس طرح وہ دنیا میں اپنے شوہر کے کفر و عناد میں مدد گار تھی اسی طرح جہنم میں اس کی مدد گار ہو گی( ابن کثیر) ۔بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ کانٹے دار جھاڑیا ں ڈھو ڈھو کر لاتی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رستے میں لا کر بچھا دیتی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اس کی چغل خوری کی عادت کی طرف اشارہ ہے چغل خوری کے لیے یہ عربی محاورہ ہے۔ یہ کفار قریش کے پاس جا کر آپ ﷺکی غیبت کرتی اور آپﷺ کی عداوت پرلوگوںکو اکساتی تھی ۔ ایک لفظ جداًآیا ہے۔یعنی ابو لہب کی بیوی اپنے گر دن میںآہنی یا مونجھ کی رسی پہنے رہتی ۔ایک لفظ مسد آیا ہے جس کے معنی مضبوط بٹی ہوئی رسی ،وہ مونجھ کی یا کجھور کی پوست کی ہو یا آہنی تاروں کی جیسا کے مختلف لوگوں نے ترجمہ کیا ہے ۔بعض نے کہا ہے کہ یہ دنیا میں اپنی گردن میںڈالے رہتی تھی جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ۔مگر زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جہنم میں اس کے گلے میں جو طوق ہوگا وہ آہنی تاروں سے بٹا ہوگا۔ مسداً سے تشبیہ اس کی مضبوطی کو بھی واضح کررہاہے۔ اتنی وضاحت کے بعد یہاں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نظم کو سامنے رکھا جائے : نظم کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے۔
شب زفاف ابو لہب تھی، مگر خدایا وہ کیسی شب تھی،
ابو لہب کی دلہن جب آئی تو سر پہ ایندھن،گلے میں
سانپوں کے ہار لائی، نہ اسکو مشاطگی سے مطلب
نہ مانگ غازہ،نہ رنگ روغن، گلے میں سانپوں
کے ہار اسکے، تو سر پہ ایندھن!
خدایا کیسی شب زفاف ابولہب تھی!
یہ دیکھتے ہی ہجوم بپھرا، بھڑک اٹھے یو غضب
کے شعلے،کہ جیسے ننگے بدن پہ جابر کے تازیانے!
جوان لڑکوں کی تالیاں تھیں۔نہ صحن میںشوخ
لڑکیوں کے تھرکتے پائوں تھر ک رہے تھے،
نہ نغمہ باقی نہ شادیانے!
ابو لہب نے یہ رنگ دیکھا ،لگام تھامی،لگائی
مہمیز ابو لہب کی خبر نہ آئی!
ابو لہب کی خبر جو آئی تو سالہا سال کا زمانہ
غبار بن کر بکھر چکا تھا!
ابو لہب اجنبی زمینوں کے لعل گوہر سمیٹ کر
پھر وطن کو لوٹا، ہزارا طرارا تیز آنکھیں، پرانے
غرفوں سے جھناک اٹھیںہجوم، پیرو جواں کا
گہرا ہجوم، اپنے گھروں سے نکلا،ابو لہب کے جلوس
کو دیکھنے کو لپکا!
’’ابو لہب‘‘! اک شب زفاف ابو لہب کا جلا
پھپھولا خیال کی ریت کا بگولا، وہ عشق برباد
کا ہیولا، ہجوم میں سے پکار اٹھی’’ابو لہب!
تو وہی ہے جس کی دلہن جب آئی، تو سر پہ ایندھن
گلے میں سانپوں کے ہار لائی؟
ابو لہب ایک لمحہ ٹھٹکا،لگام تھامی، لگائی
مہمیز، ابو لہب کی خبر نہ آئی!
مذکورہ نظم کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پوری نظم ایک علامتی نظم ہے جس میں ماضی کے المیہ کا اطلاق حال کے ایسے وقت یا ایسی جگہ کے سماجی نظام پر یا عوام پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی پوری شبیہ اس تاریخی قصے سے ملتی جلتی ہے۔
نظم میں کچھ ایسے الفاظ آئیں ہیں جن کی بازیابی اس لئے ضروری ہے کے ان کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو۔کیونکہ معنی اور مفہوم لفظوں کی بازیابی سے ہی برآمد ہوگی نظم میں جو اہم الفاظ ہیں جن سے نظم کا مفہوم آشکار ہوتا ہے۔ وہ اس طرح ہیں۔
ابولہب ،جو تاریخ میں شر کی علامت ہے، ایندھن اور شعلے، ان الفاظ سے تپش گرمی عذاب جیسے مفہوم مترشح ہوتے ہیں ۔ریت کا بگولہ ،بھی ایک طرح سے پریشانی اور تباہی کی علامت ہے۔،ہجوم اور جلوس، جمگھٹ مجمع ،امیروں اور بادشاہوں کی سواری ، شاہانہ ہشم کو دکھاتا ہے۔ عشق برباد ، برباد عشق ایسا عشق جس سے کچھ حاصل نہ ہو، ہیولا ،طبیعت کی ہیجانی ساخت،مزاج،برتائو ۔ مذکورہ الفاظ جو نظم میں آئے ہیں اپنے معانی کے اعتبار سے نظم میں ایک حزنیہ اورہائلہ فضا قائم کئے ہوئے ہے مگر یہ فضا ماضی کا المیہ نہیں بلکہ یہ حال کے اس المیہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جہاں ایک فرد اور اس کی رفیق اپنی بد شگونیوں سے کس انجام تک پہنچ جاتے ہیں ،یہ بظاہر ایک فرد کا المیہ ہے مگر اس فرد کی جبلت ہر زمانے میں ملک،قوم اور افراد کا المیہ رہا ہے ۔
نظم میں دو جگہوںپر شاعر نے ایک چیز کو پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’ ابو لہب نے یہ رنگ دیکھا ،لگام تھامی،لگائی مہمیز ابو لہب کی خبر نہ آئی ‘‘ا ور’’ ابو لہب ایک لمحہ ٹھٹکا،لگام تھامی، لگائی مہمیز، ابو لہب کی خبر نہ آئی!‘‘ ابولہب شر کی علامت ہے اور نظم میں دو جگہ اس کا جلوس کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوکر آنا ،پر غور کرتے ہوئے اسلامی روایت کامطالعہ کرتے ہیںتو ہم یہ پاتے ہیں کہ :
ابلیس جب اپنی صریح نافرمانی کی پاداش میں مردود ہوا تو اسے قوت اغوا کا بہت زعم تھا تو اس وقت اسے حکم ہوا کے اچھا تو میرے بندوں پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا لا ،یہ بھی کر کے دیکھ لے۔بیان میں گھوڑے کا ذکر ہواہے جو کہ گھوڑے کے معنی میں نہیں بلکہ پیادے کے مقابل ہے اور سوار کے معنی میں ہے۔یہ فقرہ اپنے لفظی معانی میں نہیں بلکہ مجازاً استعمال ہوا ہے۔ محاورے میں اس سے مرادمطلق لشکر ہوتا ہے ۔جیسے اردو میں کہا جائے کہ تو اپنا حملہ ان پر پوری طرح کر کے دیکھ۔ اور اگر کوئی یہ معنی لے کہ شیطان سوار ہو کر آتا ہے تو اس کے بھی امتناع پر کوئی دلیل نہیں۔تا بعین بلکہ بعض ایک بیان میں صحابیوں کے حوالے سے ایک حدیث یہ بھی منقول ہے کہ دنیا میں جو بھی سوار اور جو بھی پیادے معصیت کی راہ میں چلتے ہیں یہ سب شیطان ہی کے سوار اور پیادے ہیں۔نظم میں ابولہب کا گھوڑے کا سواری کرنا بھی اسی معنی کی طرف ذہن کو لے جاتا ہے۔
نظم میں ابو لہب کی بیوی کے گلے میں سانپ کا ذکر علامت کی شکل میں نظم میں ابھر کر آتا ہے سانپ کے بارے میں اسلامی تاریخ میں یہ ذکر ملتا ہے۔
’’سانپ میدان کے ہر جانوروں سے جنہیں خدا وند خدا نے بنایا تھا ۔ہوشیار تھا۔تب خدا وند نے عورت سے کہا کے تونے کیا کیا تو عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھ کو بہکایا تو میں نے کھایا۔اور خدا وند نے سانپ سے کہا، اس واسطہ کوتو نے بدنام کیا ہے تو سب مویشیوں اور میدان کے سب جانور کو ملعون ہو۔تو اب پیٹ کے بل چلے گا اورعمر بھر خاک کھائے گا۔ اور میں تیری اور عورت کی نسل کے درمیان دشمنی ڈالوں گا، وہ تیرے سر کو کچلے گی اور تو اس کے ایڑی کو کاٹے گا ‘‘
اسرائیلی روایتوں میں آتا ہے کہ شیطان حضرت آدم کے اغوا کے لئے جب جنت میں داخل ہوا تو وہ سانپ کے قالب میں تھا ۔اور اسی نے حضرت حوا کے توسط سے حضرت آدم کو گمراہ کیا جبکہ یہ تصریحات تو خود توریت میں موجود ہے۔
تفسیر میں یہ بات درج ہے کہ ابولہب کی بیوی اس کے شر میںمکمل طورسے مدد گار تھی اور اپنے قبیلے والوں کو حضور ﷺکے خلاف بہکایا کرتی تھی۔یہی وجہ ہے نظم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ طوق کی مانند اس کے گلے میں سانپ ہے اور مذکورہ بالا سطروں میں سانپ کو اس کی اسی خصلت کی وجہ سے ملعون کیا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے شاعر نے اسے ابولہب کی دلہن کے گلے میں دکھایا ہے۔ یہاں تک تو نظم میں جو معانی برآمد ہوتے ہیں اس کااسلامی تاریخ و روایت ہی ہے لیکن شاعر نے ابو لہب کی اس تلمیح کو ایک نئے معانی عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یا پھریوں کہیں کہ قرآن کے اس واقعے کی تفسیر کو ایک نئے جمالیاتی پیکر میں ڈھال کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نظم کے پہلے بند میں ابو لہب کی شادی کی پہلی رات کا ذکر ہے یعنی شب زفاف ہے۔ جس میں ابو لہب کی دلہن کے گلے میں سانپوں کا ہار اور سر پر ایندھن ہے۔ اگر قرآن کے اس واقعہ کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں تو سورۃ تبت کی تفسیر ہے، شب زفاف ابو لہب کی موت کے بعد کی رات ہے اور چونکہ اس عذاب کا تعلق اس کی بیوی سے ہے اور یہی ابو لہب کے جہنم کی آگ کا ایندھن ہے یہی وجہ ہے کہ ابولہب کی دلہن اس نظم میںعذاب کی علامت کے طور پر نظر آتی ہے۔
شاعر نے اس نظم میں ایک بے رونق اور قبیح صورت والی دلہن کا نقشہ پیش کیا ہے ۔ایک ایسی بدصورت دلہن جس کے گلے میں سانپوں کاہار ہے اور سر پر ایندھن ہے۔ نہ اس کو سجاوٹ اور سنگار سے کوئی مطلب ہے۔
پھر نظم میں شاعر متعجب ہو کر یہ کہتا ہے کہ یہ کیسی شب ہے کہ دلہن آئی ہے جس کی شکل کس قدر قبیح ہے۔ یہ فطری امرہے کیوں کہ شادی کی پہلی رات ہو اور دلہن کا اس طرح بے نور ہونا واقعی تعجب میںڈال دینے والی بات ہے۔ یا یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس شادی کو ایک المیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اسی حوالے سے اسے شاعری کے پیکر میں ڈھالا گیا ہے ۔چونکہ ابو لہب اسلامی تاریخ میں شر اور فتنے کی علامت ہے اس لئے اس کی شادی عذاب کی صورت اوردلہن کی آمدعام دلہن کے بر عکس خوشی کے بجائے عذاب کی صورت ہے۔ نظم کے شروع کے چنداشعار کو آسانی سے سمجھا جا سکتا مگربعدکے اشعار نسبتاً مشکل ہیں۔اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ شاعر ماضی سے حال کی طرف رجوع کر رہا ہے۔حالا نکہ راشد نے ہمیشہ ماضی کی تہذیبی تجربات کی نفی کی ہے وہ اس سلسلے میں خود کہتے ہیںکہ مجھے ماضی سے کوئی دلچسپی نہیں خاہ وہ کسی رنگ میں کیوں نہ نمودار ہو۔ اصل مسئلہ آئیندہ ہزار سالوں کا ہے۔ گذشتہ ہزار سالوں کا نہیں۔ ماضی کے اندر یا ماضی کے جمع کئے ہوئے تجربات کے اندر آئیندہ مسائل کی کلید کہیں موجود نہیں۔اس تیزرو اور گریز پا حال میں بھی ماضی کا کوئی تجربہ ہمارا دستگیر نہیں۔ راشد کے اسی قول کی طرف تبسم کاشمیری اشارہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’جب میں نے راشد کی تہذیبی منابع اور اساطیر کا سر سری طور پر جائزہ لیا تو بے حد حیرت ہوئی کہ ماضی کی نفی کرنے والا یہ شاعراپنی تہذیبی حوالوںکے بغیر بمشکل چل سکتا ہے اپنے حال کے مسائل کے اظہار کے لئے وہ قدم قدم پر وہ اپنے تہذیبی پس منظر کی طرف رخ کرتا ہے۔اقبال کے بعد کوئی ایسا شاعر مشکل سے ہی مل سکے جو راشد سے زیادہ اپنے تہذیب سے مستفیض ہوا ہو۔تہذیبی حوالے سے میرا مطلب ہے،عجمی عربی،اور وسط ایشیا کی تہذیبی روایت۔‘‘
( لا =راشد:تبسم کاشمیری،ص۹)
راشدکے قول کے مطابق انہوںنے ماضی کی تہذیبی تجربات کی نفی توکی ہے مگر اس بات سے بھی انکار کرنا ممکن نہیں کہ شعوری یالا شعور ی طور پر ہی سہی ماضی کے تہذیبی اور تاریخی تجربوںکااحساس ان کی نظموں میں جگہ جگہ پر ہوتاہے جس کا ذکر تبسم کاشمیری نے کچھ اس طرح کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’راشد کا تہذیبی لا شعور قرون وسطی کا ایک ایسا سحر آلود منظر نامہ ہمارے سامنے بتاتا ہے جو کسی اور جدید شاعر کے یہاں نظر نہیں آتا یوں لگتا ہے جیسے ہم ایک ٹائم ٹنل Time Tunnal کے ذریعے ماضی کی سمت مراجعت کرنے لگتے ہیں۔ وہ سب کچھ جو کبھی تھا وہ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا کی حساسیت سے آشنا ہو تے ہیںجسے ہم نے کبھی بھی دیکھا نہیں تھا۔ ہم ماضی کے اساطیری شہروں میں کبھی’’سبا‘‘ کی ویرانی میں’’سلیمان‘‘ کو ’’سربزانوں‘‘ دیکھتے
ہیں اور کبھی’’حسن کوزہ گر ‘‘کے ہم عصر بن جاتے ہیں۔اپنے عہد سے ماضی تک کا یہ سفر ہماری آنکھوں میں طلسم جیسی ایک کیفیت چھوڑ جاتا ہے۔ان مناظر میں ایک ایسی سحر کاری ہے جو جس سے سحر زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے(لا =راشد:تبسم کاشمیری،ص۱۷،۱۸)
یہاں ایک بات غور کرنے والی یہ ہے کہ ان کی نظموں میں جو علامتیں ہیں یا جن تہذیبی واقعات کا سہارا لے کر ن ۔م راشد نے اپنی بات یا اپنے عہد کے مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ان علائم کی طرف اشارہ کرتے ہو تبسم کاشمیری رقم طراز ہیں۔:
ان کی استعاراتی دنیا کے پیچھے واضح طور پر ایک باطنی اور تہذیبی پس منظرموجود رہتا تھا۔ اور یہ پس منظر اس عہد کا زندہ استعارہ بھی تھا۔
( لا =راشد:تبسم کاشمیری ،ص۱۸)
نظم کو پڑھنے کے بعد اس بات سے نفی کی گنجائش نہیں رہتی کہ اس نظم میں ماضی کی بازیافت کو علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ نظم کے درمیان سے شاعر ماضی سے سفر کر کے اچانک حال میں پہنچ جاتا ہے۔ راشد کے اس تجربے میں ماضی کی حسیت کچھ دیر کے لئے اچانک بیدار ہو جاتی ہے۔ ابو لہب کی علامت ماضی کے صحرا میں دور تک لے جاتی ہے راشد نے ابو لہب سے اپنے فکر اور اپنے اندر کی کیفیتوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ بقول شکیل الرحمن:
’’راشد کی شاعری میں ماضی کی حسیت بہت بے دار اور متحرک تو نہیں البتہ ان کی جمالیاتی رجحان میں ماضی کی حسیت موجود ہے اور اس حسیت کے تجربے متاثر کرتے ہیں۔ ‘‘(اساطیر کی جمالیات:شکیل الرحمن،ص۱۹۵)
دراصل اس نظم میں اساطیری فکر اور روایات کا سہارا لیکر موجودہ انسانی سماج اور افراد کی باطنی کثافت اور آلودگی کو بیان کیا گیا ہے۔ اس نظم میں ابو لہب موجودہ عہد کے انسان کی علامت ہے جو ہر طرف سے مادی کثافتوں میں مبتلا نیز ہر قسم کی روحانی اور اخلاقی اقدار سے عاری ہے۔ اس کا نفس بری طرح سے آلودگی اور آلائشوں کا شکار ہے جس طرح ابو لہب ہمیشہ کے لئے ایک بد دعا اور بد شگونی کے سائے میں گرفتار نظر آتا ہے۔ اسی طرح س عہد کا انسان بھی ایک بد دعا اور عذاب کے سائے میں اپنی زندگی گزرانے پر مجبور ہے۔ یہ نظم موجودہ عہد کے انسانوں کی روحانی اور اخلاقی زوال کا علامیہ ہے جسے ن۔م۔راشد نے ابو لہب کی تلمیح کے ذریعہ بڑی خوبی اور فنی چابک دستی کے ساتھ علامتی پیرائے میں بیان کیا ہے ۔جدید اردو نظم میں ن۔م۔راشد کی تخلیق ایک گراں قدر اضافہ تصور کی جاتی ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page