ڈاکٹر صغیر اشرف کی کتاب "اردو تحقیق و تنقید کے حوالے سے” کا رسمِ اجراء
نئی دہلی (18/ نومبر) تحقیق کے لیے خون جگر صرف کرنا پڑتا ہے اور ڈاکٹر صغیر اشرف کی تازہ کتاب "اردو تنقید و تحقیق کے حوالے سے” کا مطالعہ اس بات کو محسوس کراتا ہے کہ ابھی ہمارے یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو تحقیق کے لیے خونِ جگر صرف کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار آج ملی ماڈل اسکول، ابو الفضل انکلیو میں منعقد رسمِ اجراء کی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سینیئر استاذ پروفیسر ندیم احمد نے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ انڈین پوسٹل سروس سے وابستہ افسران کی علم دوستی اور تحقیقی و تصنیفی کاوشیں قابلِ رشک ہیں۔ شمس الرحمان فاروقی کی خدمات سے زمانہ واقف ہے اور اب ڈاکٹر صغیر اشرف کی خدمات کے بھی لوگ معترف ہوتے جا رہے ہیں۔ متنوع موضوعات پر مشتمل یہ کتاب ان کی اس شناخت کو مزید مستحکم کرنے کا سبب بنے گی۔
تقریب کا آغاز محمد اطہر کی نعت رسول پاک سے ہوا۔ اور تعارفی کلمات ڈاکٹر خان محمد رضوان نے پیش کیے۔ تمام مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے ڈاکٹر خان محمد رضوان نے کہا کہ ڈاکٹر صغیر اشرف کی کتاب کی رسم اجراء کی تقریب میں آپ معززین کی شرکت نہ صرف ہماری حوصلہ افزائی کا باعث ہے بلکہ ہمیں یہ یقین بھی دلاتی ہے کہ کسی نفیس انسان کے کاموں کے تعارف کے لیے جب پیش قدمی کی جاتی ہے تو پڑھے لکھے لوگوں کا تعاون ملنا کوئی مشکل نہیں۔ ڈاکٹر صغیر اشرف اتراکھنڈ کے پہاڑوں میں اردو تحقیق و تنقید کی شمع جلائے ہوئے ہیں، ایسے میں ان کے اکتسابات سے اردو دنیا کو متعارف کرانا ہم سب کی ذمےداری ہے۔ ڈاکٹر محمد ریحان جو فرنچ ایکسپرٹ کی میٹا میں کا کر رہے ہیں انہوں نے اپنے مقالہ میں کہا کہ ڈاکٹر صغیر اشرف صاحب کا جو بھی تخلیقی سرمایہ ہے وہ فطرت کی آواز کو غور سے سننے کا نتیجہ ہے۔ تخلیقی ذہن ویسے تو خدا دیتا ہے مگر ڈاکٹر صغیر اشرف کی تخلیقیت کو پروان چڑھانے میں اتراکھنڈ کے قدرتی مناظر کا بھی اہم رول رہا ہے۔ ان کی نظم "شامِ نینی تال” کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جو فکری و فنی پختگی کی حامل ہے۔ انھوں نے کتاب کا تنقیدی جائزہ بھی لیا اور کئی مفید مشورے مصنف کو دیئے۔ معروف ناقد جناب حقانی القاسمی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صغیر اشرف ہندی اور اردو میں تواتر کے ساتھ لکھنے کی وجہ سے ذو لسانی فنکار کی حیثیت سے معروف ہیں۔ وہ کئی زبانوں کے ماہر ہیں تو انھوں نے ان تمام زبانوں سے خوشہ چینی کر کے اپنی تخلیقات و تنقیدات کو ایک اونچائی پر پہنچایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کا عہد ایسا ہے کہ اگر فنکار ایک سے زائد زبانوں کا ماہر نہیں ہے تو ان کا تحقیق و تصنیف کے میدان میں بہت آگے تک نہیں جانا ممکن نہیں۔ صدر شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی ڈاکٹر امتیاز وحید نے کہا کہ ڈاکٹر صغیر اشرف کے کاموں سے عرصے سے واقف ہوں، اس بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ صغیر نام سے ہیں لیکن کام سے کبیر ہیں۔ ان کے علاوہ جناب عشرت ظہیر( معروف فکشن تخلیق کار)سید ریاض حسین (مینیجر، سینٹ رومی پبلک اسکول، رام نگر، اتراکھنڈ)، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا( ہمہ جہت شخصیت اور فکشن تخلیق کار) معروف صحافی ڈاکٹر شکیل اختر (ریڈیو جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر صغیر اشرف نے اپنے تخلیقی و تحقیقی سفر کا تفصیل سے ذکر کیا۔ تقریب میں جناب احسان قاسمی، تاج الدین محمد، ڈاکٹر احمد علی جوہر، ڈاکٹر مصطفیٰ علی، ڈاکٹر شاہد حبیب، ڈاکٹر عبد الرزاق زیادی، ڈاکٹر ضیاء المصطفیٰ، ڈاکٹر اسعد اللہ، ڈاکٹر زاہد ندیم احسن، ڈاکٹر عبداللہ منیر عالم، ڈاکٹر مخمور صدری، آصف پھولپوری اور منتظر عالم وغیرہ نے شرکت کی۔ نظامت کی ذمہ داری جناب حامد علی اختر (ایڈیٹر ماہنامہ صلاح کار) نے بحسن و خوبی انجام دیا۔
***
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page