روزِ روشن کی طرح روشن ہے اس کا نیک نام
شیر شہ عالی حشم ، عالی ہمم ،عالی مقام
(ابو محمد مصلح سہسرامی)
’’شیر شاہ و ہرگاہ کہ ریش سفید خود را در آئینہ دیدنی گفتی کہ دولت و شاہی نزدیک بوقت ِشام بمن روی آوردہ پس دریں باب تأسف بسیار خوردی و شعر مضحکانہ و ہندوستانیانہ گفتی القصہ ساین بیت سجع نگین اوست ؎
شہ اللہ باقی ترا باد دایم
(بحوالہ تار یخ فرشتہ)
تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے بعض سلاطین نہ صرف بہترین عسکری اور انتظامی صلاحیت کے مالک تھے بلکہ محفلِ شعر و ادب سے بھی لطف اندوز ہوا کرتے تھے ،یعنی ان میں بعض صرف صاحب ِ سیف نہیں صاحبِ قلم بھی تھے اور بعض تو شعرو سخن کے حد درجہ دل دادہ تھے۔کہا جا سکتا ہے کہ گزران وقت کے چند سلاطین نہ صرف اپنی سلطنتی سرحدوں کو وسعت عطا کرنے میں چاق و چوبند تھے،ساتھ ہی زبان و ادب میں بھی با کمال گزرے ہیں۔شہنشاہ مغل شہاب الدین محمد شاہ جہاں (خرم-یہ وہی شہزادہ خرم ہے جس کا چند روزہ قیام سہسرام ،روہتاس میں تاریخی حیثیت کا حامل ہے ۔یہ بھی متحقق ہے کہ شہزادہ خرم نورالدین محمد سلیم المعروف بہ جہاں گیر [تاج پوشی:۱۶۰۵ء]کے حکم پر روہتاس سہسرام آیا تھا ۔چنانچہ اس کی آمد کی یادگار کے طور پر شہر سے چند میل کے فاصلے پر ’’خرّم آباد‘‘نام کی بستی آج بھی سانس لے رہی ہے۔)نے تاج محل بنوا کر اپنی محبتوں کو لا زوال ثابت کیا تو اس کے لختِ جگر دارا شکوہ المتخلص قادریؔ نے اپنے مختصر دورِ حکومت میں سلطنتی امور سے گہری دل چسپی نہ رکھ کر بزرگانِ دین کی صحبت میں صوفیانہ اسرار و رموز سے غیر معمولی وابستگی رکھی اور ایک دن رنگِ تصوف میں کلام بھی کہنے لگا۔اس طرح بادشاہِ وقت کا نام بحیثیتِ شاعر بھی محتاج تعارف نہ رہا۔
مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفراور سلطنت مغلیہ کے بنیاد گزار بابر کو بطورِ شاعر کون نہیں جانتااور پھر اسی سلطنت مغلیہ کی ایک شہزادی زیب النساء ایک باکمال شاعرہ تھیں ۔شہزادی زیب النسا تخلص مخفی کا فارسی دیوان مو جود ہے ۔موصوفہ نے آخری وقت سلیم گڑھ گزارا۔میں اور بھی کئی سلاطین ِ وقت کے نام ہیں ۔جیسے سکندر لودھی ،مرزا کامران سلیم شاہ وغیرہ ۔سلطنتِ مغلیہ کے زمانۂ زوال کا حکمرانِ وقت شاہ عالم بادشاہ بھی شاعر تھا جس کا تخلص آفتابؔ تھا اور جو مرزا رفیع سوداؔ کے تلامذہ میں تھا۔مرزا محمد رفیع سوداؔ کاشیر شاہ کی نگری میں اسی زمانے میں کئی بار آنا ثابت ہے۔ساتھ ہی شاہ عالم بادشاہِ ہند کا اس سرزمین سے والہانہ لگاؤتھا۔ جس کی تصدیق ذیل کی عبارت سے ہوتی ہے :
’’فرخ سیر کی طرح شاہ عالم بادشاہ کابھی سہسرام اور خانقاہ سے خاص لگاؤ تھا ۔۱۷۶۲ء کے آس پاس شاہ عالم بادشاہ بنفسِ نفیس سہسرام تشریف لائے ۔اپنے زمانے کے حاکم ِ شہر زمیندار دائم علی خاں نے بادشاہ کی آمد پر محلہ شیخ پورہ کی مسجد اور امام باڑہ کی بنیاد رکھی۔‘‘(الحمد اللہ اللہ کا گھر آج بھی آباد ہے۔البتہ امام باڑہ کے شکستہ درو دیوار بطور یادگار دیکھے جا سکتے ہیں ۔اسی جگہ پر مرثیہ خوانی اور ذکر اہلِ بیت ماہ محرم میں مخصوص ہے۔)
(تاریخ سہسرام)
بہر حال یہاں مجھے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ مغلیہ سلاطین کا زمانہ ہو کہ شاہانِ سور کا ،شعرو ادب سے ذہنی وابستگی رکھنے والے کئی نام تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں ۔شاعر شیخ جمالی کنبوی دہلوی اور ان کے صاحبزادے شیخ عبدالحیٔ بھی سلطنت سور میں بڑے مایہ ناز عا قل و فاضل اور شاعر تھے۔میرا ممدوح بھی اعلیٰ ادبی اور شعری ذوق رکھتا تھا۔تاریخِ فرشتہ اور دیگر ادبی دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ شیر شاہ بھی فی البدیہہ شعر یا ایک آدھ مصرعے کہہ لیا کرتا تھا۔اس کی اس قسم کی تک بندی کو ہم عمدہ شاعری کا درجہ تو نہیں دے سکتے لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ شعر گوئی کی طرف راغب نہ ہو اہو۔تاریخی و ادبی کتابوں کے مطالعے سے شیر شاہ کی گہری دل چسپی رہی ہے۔اس کا سبھی معتبر مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ شیر شاہ محض ایک عدل پسند حکمرانِ وقت ہی نہیں تھا بلکہ تاریخی و ادبی کتابوں کے مطالعہ کا رسیا بھی تھا۔اس کا شعری مذاق بھی کافی ستھرا تھا اور بقول عباس سروانی ،مؤرخ ’’تاریخ شیر شاہی‘‘ :
’’۔۔۔۔۔۔جون پور میں عربی زبان اور قاضی شہاب الدین کی مرتّبہ صَرف و نحو پڑھنی شروع کی ۔اس کے علاوہ شاہانِ سلف کے حالات بھی دل جمعی سے پڑھی ۔اس نے مختلف مذاہب کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا اور سکندر نامہ،گلستاں اور بوستاں وغیرہ حفظ کر لیں۔ہندوستان کا شہنشاہ بن جانے کے بعد بھی جب کوئی عالِم تلاشِ روزگار میں اس کے پاس آتا تو وہ اس سے’’ حاشیہ ہندیہ ‘‘کے بارے میں ضرور بات چیت کرتا تھا۔یہ کتاب اسے بہت پسند تھی۔بادشاہ بن جانے کے بعد بھی تاریخ اور شاہان ِ قدیم کے حالات کے بارے میں اس کی دل چسپی برقرار رہی ۔جب بھی کوئی شخص کسی خاص کتاب کی تعریف کرتا تو وہ اس کتاب کو منگوا کر غور سے پڑھتا تھا۔بڑا ہونے پر اپنی سلطنت کی توسیع کے لیے جنگ میں مشغول ہونا یا ملک کے انتظام کے بارے میں منصوبہ بندی نے کتابوں سے دل چسپی اور ان کے مطالعے کے ذوق کو آگے نہ بڑھنے دیا ،کتابوں میں تحریر شدہ باتوں سے وہ اپنی عام زندگی میں فائدہ اٹھانے کی کامیاب کوشش کرتا ۔اس لیے وہ قدیم جنگجوؤں اور فاتحین کی کہانیاں خاص طور سے زیرِ مطالعہ رکھتا تھا۔‘‘
کہتے ہیں کہ کسی تاریخی شہر کا شناخت نامہ ہو یا پھر کسی بھی معاشرہ کا اجتماعی شعور اس کے تاریخی وادیِ زخائر میں مضمر ہے۔تاریخ و ادب کا وسیع مطالعہ ہی ہمارے وسیلۂ اظہار کی بنیادی اسا س ہے ۔گویا تاریخی شعور کے بغیر کسی ملک،کسی مخصوص شہر کی نابغۂ روزگار ،تاریخی شخصیت ،یہاں تک کہ کسی مخصوص خطۂ ارض کی تاریخی،تہذیبی و ثقافتی اورتخلیقی سرگرمیوں کو ہم کُلی طور پر نہیں سمجھ سکتے ۔تو پھر ایسے میں ظاہر ہوا کہ کسی بھی موضوع/شخصیت پر قلم اٹھانے سے قبل ہمیں تاریخی و ادبی ذخیرۂ کتب میں صدیوں سے پوشیدہ متعلقہ فن پاروں اور تاریخی دستاویز کامطالعہ کرنا ہو گا۔چنانچہ تاریخی و ادبی کتابوں کے مطالعہ سے ہی یہ اشارہ ملتا ہے کہ شیر شاہ ایک موزوں طبع ذہن کا مالک تھا ۔مطالعۂ کتب کا جنون رکھتا تھا ،اس نے شاعرانہ مزاج پایا تھا ۔اپنے دَورِ حکومت میں بعض مقامات پر شیرشاہ نے جو برجستہ مصرعے/شعر پڑھے یا کہے اس سے عیاں ہے کہ اس کی فکر میں شعری موزونیت تھی ۔اور شاید اسی لیے عصرِ رواں کے جدید تاریخ داں و افسانہ نگار پرویز اشرفی اپنی تاریخی کتاب ’’ہندوستان کے مسلم حکمراں‘‘کے صفحہ ۱۳۰ پر لکھتے ہیں کہ :
’’۔۔۔۔۔جون پور میں رہ کر تھوڑے ہی دنوں میں شیر شاہ نے سعدی کی تصنیفات اور پورا سکندر نامہ نوکِ زبان کر لیا ۔علمِ انشا اور تاریخ میں مہارت حاصل کر لی ۔شعرو سخن کا نذاقِ سلیم بھی پیدا کر لیا ۔فارسی کے علاوہ عربی کی بھی چند ابتدائی کتابیں پڑھ لیں ۔علمِ اخلاق اور تہذیب کے کسب میں کثرت سے منہمک رہنا،علمِ باطنی حاصل کرنے کے لیے بزرگوں اور عالموں کی خدمت میں اکثر وقت خرچ کرتا۔‘‘
تاریخ فرشتہ کے مؤرخ محمد قاسم فرشتہ (متوفی ۱۶۲۰ء)نے اپنی مذکورہ کتاب میں شیر شاہ کے درج ذیل قبیل کے مصرعے/شعر کی روشنی میں کہا تھا کہ شیر شاہ مضحکہ خیز ’’ہندوستانی‘‘ زبان و طرز میں شعر بھی کہتا تھا ؎
شہ اللہ باقی ترا باد دائم
ہماں شیر شاہ بن حسن سور قائم
(تاریخ فرشتہ)
بزرگان مسافربجان پرورند
کہ نام نکویش بہ عالم برند
(بحوالہ تاریخ شیر شاہی عباس خاں سروانی ۔ص ۷)
فرید حسن را تو شاہی دہی
سپاہ ہمایوں بماہی دہی
(بحوالہ :حیات شیر شاہ۔ ۳۶-۱۹۳۴ء)
با ما چہ کرد دیدی ملو غلام گیدی
قولست مصطفیٰ را لاخیر فی عبیدی
(مطبوعہ:حیا ت شیر شاہ)
شیر شاہ کے شعری ذوق سے متا ثر ہو کر بطور خاص آخری شعر کی روشنی میں تایریخ صوبہ بہار و اڑیسہ کے مصنف سید اولاد فوق بلگرامی سہسرامی نے بھی اس کے ’’طبع موزوں داشت‘‘ ہونے کا اعتراف کیا ہے کہ ’’وہ کبھی کبھی شعر بھی کہہ لیتا تھا چنانچہ ملو خان غلام خلجی کے بھاگ جانے پر اس نے ایک حدیث کے پورے متن کی تضمین اپنے شعر میں کی ہے ۔شیر شاہ صاحب سواد بھی تھا اور اہل استعداد بھی۔‘‘ (ص۔۱۶۸)
مندرجہ بالا حقائق اور بقول قاسم فرشتہ کے :’’شیر شاہ مضحکہ خیز ہندوستانی زبان میں شعر کہتا تھا۔‘‘ اس سے اتنا تو واضح ہو ہی جاتا ہے کہ وہ بہر حال شاعری بھی کرتا تھا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اس کے اس قسم کے برجستہ یا فی البدیہہ مصرعے فن شاعری کے اعتبار سے اپنا کوئی اعلیٰ مقام نہیں رکھتے ۔چلیے،کچھ دیر کے لیے مان لیا جاتا ہے کہ وہ تُک بندی کرتا تھا ۔فی زمانہ تو ہمارے جدید ادبی و شعری معاشرہ میں ’’تُک بندی‘‘کرنے والے حضرات بھی ایک شاعر کا درجہ رکھتے ہیں ۔شیر شاہ کے عہد کی مروّجہ زبان غالباً یہی فارسی آمیز ’’ہندوستانی‘‘تھی جسے قاسم فرشتہ نے ہندوستانی فارسی سے موسوم کیا ۔یہ غالباً سترہویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی بات ہے۔ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں اردو نام سے کسی زبان کا وجود نہیں تھا ،لوگ جس زبان کو ہندی،ہندوی یا ہندوستانی کہا کرتے تھے وہی زبان کبھی کھڑی بولی تو کبھی پڑی بولی کے طور پر بھی ہمارے درمیان متعارف رہی تھی جس میں علاقائی زبان کی آمیزش اور چاشنی بھی تھی۔
مختصر یہ کہ عہد بہ عہد جو زبان ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے دلی کے لال قلعہ تک پہنچی تو اے اردوئے معلّیٰ سے موسوم کیا گیا ۔سند رہے کہ عوام میں اس کی مقبولیت کھڑی بولی کے طور پر ہوتی رہی۔’’تزک بابری‘‘ شاید پہلی مطبوعہ تاریخی تصنیف ہے جس میں پہلی بار لفظ ’’اُردو‘‘ پایا جاتا ہے۔اب یہ الگ بات ہے کہ گردشِ زمانہ کے ہاتھوں لسانی تغیر و تبدل کے زیرِ اثر اپنا ارتقائی سفر طے کرتا ہوا ہمارے زمانے میں لفظ ’’اُردو‘‘ معروف اور مستعمل ہوا۔بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ قاسم فرشتہ نے ہی شیر شاہ کی شاعرانہ تُک بندی کو دیکھ کر پہلی بار لفظ ’’ہندوستانی‘‘(زبان) کا استعمال کیا تھا۔اس نے عہد ِابراہیم عادل شاہ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ۔۔۔۔’’بہ نوع فارسی را خوب می گفت کہ با ’ہندوستانی‘متکلم نہ می شد۔‘‘جب کہ دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے حکومتِ برطانیہ کے زمانہ کے بعض ماہرِ لسانیات نے یہ لکھا کہ لفظ ’’ہندوستانی‘‘سب سے پہلے ٹام کارپیٹ نے ۱۴۱۴ء میں استعمال کیا۔
” The Hindustani on most volgar language ”
(Linguistic Survay of indian VOL IV-P I)
کہتے ہیں کہ اہلِ عرب ہمارے یہاں کی تقریباً تمام زبانوں کو ہندی یا ہندیا سے موسوم کرتے آئے ہیں۔سند رہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے والدِ محترم مغل شہنشاہِ وقت شاہ جہاں (۱۰۶۹ھ مطابق ۱۶۵۶ء)کے نام اپنے ایک مکتوب میں پہلی بار زبان ’’ہندی‘‘ کا ذکر کیا ہے۔: ’’آن فرمان عالی کہ در زبانِ ’ہندی ‘از دست خاص رقم فرمودہ ،شاہد این معنی است۔‘‘ جہاں تک اردو زبان اور اس کی مقبولیت کا تعلق ہے تو اسے سبھوں نے ایک مخلوط عام اور مشترک زبان تسلیم کیا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ اس میں شمالی ہندوستان کی تمام زبانوں کے علاوہ مقامی بولیوں ،جس میں بلا شبہہ اَوَدھی اور بھوجپوری بھی شامل ہے۔یہ کہنا درست نہیں کہ اردو کسی ایک مخصوص یا متعین زبان سے پھوٹ کر جلوے بکھیر رہی ہے۔بقول پروفیسر نصیر احمد خاں ،ماہر لسانیات جواہر لال نہرو یو نیور سٹی، دہلی:-
’’اردو دنیا کی واحد زبان ہے جو تین برّاعظموں کے چھ لسانی خاندانوں کی اٹھائیس زبانوں سے لسانی و ادبی رشتے رکھتی ہے۔‘‘
مشہورِ زمانہ تخلیق ’’پدماوت‘‘کے خالق ملک محمد جائسی(۱۵۴۲-۱۴۷۷ء)عہد شیر شاہ میں معروف گزرے ہیں ، انہوں نے شیر شاہ کی تخت نشینی کے بعد یعنی ۱۵۴۰ء کے آس پاس ’’پدماوت‘‘ لکھی۔وہ صوفی سنتوں کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔پیر فقیر جائسی نے اپنے زمانہ کی مروّجہ زبان اَودھی ،جس میں بھوجپوری زبان کا بانکپن بھی شامل تھا،پدماوت میں دھڑلّے سے استعمال کیا تھا،اسی وجہ سے بعض ماہرِ لسانیات کہتے ہیں کہ پدماوت کی زبان اردو زبان کے ارتقائی سفر کی بھی ایک عمدہ مثال ہے۔جائسی نے شیر شاہ سے مخاطب ہو کر بطور اظہارِ عقیدت یہ کہا تھا کہ :
’’بادشاہ تم جگت کے ۔جگت تمہارا محتاج‘‘
شایدشیر شاہ کی زبان سے ادا کیے جاتے رہے جملوں اوران کے بعض برجستہ مصرعوں کے پس منظر میں تاریخ فرشتہ کے مصنف نے اسے ’’ہندوستانی ‘‘کہا تھا۔سند رہے کہ جائسی کی پیدائش ۱۴۷۷ء ہے اور تقریباً ۶۵ سال کی عمر میں ۱۵۴۲ء کے آس پاس وہ آسودۂ خاک ہوئے۔
شیر شاہ کے سلطانِ ہند بننے یااس کے دور حکومت کا زمانہ ۴۵-۱۵۴۰ء یعنی محض پانچ سال ہے ،گویا تقریباً دو سال جائسی نے حکومتِ شیر شاہی کو قریب سے دیکھا اور ازحد متاثر ہوااور نہ صرف شاہ کو دعاؤں سے نوازا بلکہ عہدِ شیر شاہی میں لکھی گئی اپنی مثنوی (بہ زبان اودھی -بھوجپوری -دوہا رنگ میں) میں جائسی نے ’’پدماوت‘‘ کے ابتدائی صفحات پر شیر شاہ کی مدح لکھی ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ اودھی زبان کے اس شاعر کو شیر شاہ کے دور حکومت میں اس کی علم دوستی اور اس کے شعری ذوق سے بھی جائسی آشنا تھا۔سہسرام میں مستقل قیام پذیر ،اردو ادب و شعر سے گہری دل چسپی رکھنے والے ہندی کتھا کار شری نرمدیشور(سنگھ)نے چند روز پہلے فون پر دورانِ گفتگو یہ انکشاف کیا کہ ملک محمد جائسی کی ’’پدماوت‘‘ لکھنؤ کے میوزیم میں ایک شفاف شیشے کے مرتبان میں رکھی ہوئی ہے۔آج سے تقریباً چالیس سال قبل انہوں نے اسے قریب سے دیکھا تھا۔جس پر یہ واضح تھا کہ یہ مخطوطہ سہسرام سے حاصل ہوا ہے۔یہ ایک اعلیٰ درجہ کی عشقیہ کہانی ہے جس میں عشقِ مجازی کو عشقِ حقیقی میں بدلتے ہوئے دکھلایا گیا ہے۔سولہویں صدی کے اس عظیم شاعر جائسی ؔکو ہم صرف ہندی زبان و ادب تک محدود نہ کریں ۔پدماوت کی زبان سچ پوچھیئے تو یہ اَودھی ور بھوجپوری زبان کی آمیزش سے اپنی نشو ونما اور واضح پہچان کے لیے اپنے بال و پر نکالتی ہوئی اُردوزبان ہے ۔ہر چند کہ تاریخ فرشتہ نے اسے ’’ہندوستانی‘‘کا نام دے رکھا تھا۔اودھی،بھوجپوری اور اس زمانے میں مروجہ علاقائی زبانوں کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے بابائے اردو عبدالحق کا یہ قول ذہن نشیں رہے کہ: ’’اسّی(۸۰)فیصد ہندوستانی زبان کے الفاظ اردو زبان میں استعمال ہوتے ہیں تو اردو زبان کو بھی بھوجپوری زبان نے ہی جنم دیا ہے۔اہلِ بھوجپور (جس میں زمانۂ قدیم کا یہ سہسرام بھی شامل ہے ) صاحب ِ سیف و قلم تسلیم کیے جاتے ہیں ۔‘‘ (بحوالہ:ارضِ بہار اور مسلمان-۲۰۰۴ء)۔اسی زبان کا عظیم شاعر کبیر داس تھا اور بھوجپوری زبان کے ماہرِ لسانیات کبیر داس کو ہندی زبان کا بابائے آدم تصور کرتے ہیں جب کہ کبیر داس بھوجپوری زبان کا شاعر تھا۔بہر حال اسی پس منظر میں چند دوہا نما مصرعے جنہیں اہلِ سہسرام نے زمانۂ قدیم میں شیر شاہ کی تخلیق بتایا ہے اور صدیوں سے یہ گیت کے بند یا مصرعے کے خالق کے طور پر شیر شاہ کا نام لیا جاتا ہے ۔اور یہ روایت سینہ بہ سینہ اہلِ سہسرام میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہے۔کیمور کی پہاڑی کے دامن میں مشہور تفریح گاہ ہے جو ’’درگاہ تلے‘‘کے نام سے معروف ہے یہاں برسات کے دنوں میں بطورِ خاص عورتوں کا جھُنڈ آتا ہے ،جامن،کیتے اور املی وغیرہ کے تناور درختوں کی شاخوں پر رسّی باندھ کر عورتیں جھولے لگاتی تھیں اور شیر شاہ کے گیت گاتی تھیں جس کا ذکر عالمی شہرت یافتہ فکشن رائٹر زاہدہ حنا نے بھی اپنی کہانی ’’نا کجا آباد‘‘ میں کیا ہے۔۷۵-۱۹۷۰ء کے زمانے میں میں خود تفریحاً بلا ناغہ علی الصباح اس علاقہ کے سبزہ زار وں اورپہاڑی کی صحت مند ہوا سے لطف اُٹھانے کے لیے (morning walk) جایا کرتا تھا۔اس زمانے میں بھی شیر شاہ سے منسوب اس علاقائی گیت کے بول عورتوں کی مدُھر آواز میں سنا کرتا تھا۔جھولے ہوا کے دوش پر رقص کرتے تھے اور عورتوں کی سُریلی آوازیں میری سما عتوں میں رس گھولتی تھیں۔سند رہے کہ یہ مصرعے /گیت شیر شاہ کے نام سے منسوب رہے ہیں اور صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں: ؎
برکھا شب کے ہوت ہیں بھور بھی ہو گویں بھینگ
دل مارا مضطر ہوئے سبزۂ دولت پینگ
خوشتر ہوئے سارا عالم بد بختی بھی سوگوی نیند
(بحوالہ سلطان شیر شاہ سوری-احوال و آثار)
اس کے علاوہ گیت یا ملہار کے دو مصرعے میرے حافظہ کے جنگل میں اب تک ترو تازہ ہیں جو تقریباً دو صدیوں سے ’’درگاہ تلے‘‘ جھولے کی پینگ اچھالتے ہو ئے سن رسیدہ عورتیں اور کم عمر لڑکیاں گاتی گنگناتی رہی ہیں۔سینہ بہ سینہ گیت کا یہ مکھڑا شیر شاہ سے منسوب رہا ہے کیوں کہ اُس زمانے کی ایک ضعیفہ عورت نے جن کی عمر ۲۰۰۸ء میں تقریباً ۱۰۵ سال کی تھی،انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ اس گیت کاخالق شیر شاہ ہے اور ان سے قبل کے زمانے کی عورتیں ،خود ان کی نانی دادی بھی جھُو لا جھولتے وقت یہ دوہراتی تھیں کہ لڑکیاں بھی دوسرے جھولے پر شیر شاہ کا یہ گیت گائیں۔ذیل میں مُکھڑا یا گیت کا نمونہ درج کیا جا رہا ہے : ؎
ہَرہرَبِلّا کھِلت اَدھیٔ رات
بدل جاوے بیلا مہک جاوے رات
میری سمجھ سے اس گیت میںہَر ہَر بمعنی ہرا بھرا یا شاداب ۔ بِلّا درست تلفظ بیلا بمعنی بیلا ،چنبیلی کا پھول ادھیٔ رات یا آدھی رات تو واضح ہے یعنی نیم شب ۔دوسرے مصرعہ میںبیلا بمعنی وقت ہے ۔پورے گیت کے اس مکھڑے یا شعر کا یہ مفہوم ہوا کہ سرسبز و شاداب بیلے کے پھول نیم شب میں کھِلے ہیں ایسے میں گزرانِ وقت کے ساتھ رات خوشبوؤں سے معطر ہو جاتی ہے۔بہر حال اس شعر کا ذکر میں نے محض اس لیے کر دیاکہ سینہ بہ سینہ یہ مصرع شیر شاہ کے نام سے منسوب رہے ہیں ۔ممکن ہے کہ پورا گیت یا مزیدمصرعے بھی ہوں ۔اب قدیم زمانے کے رجال رہے نہیں کہ مزید تحقیق ہو۔واللہ اعلم۔۔۔۔
مذکورہ گیت یا تین شعر( بطرزملہار)اور دیگر حقائق جن سے شیرشاہ کے شاعرانہ مزاج کا پتہ چلتا ہے،جس کے تناظر میں شیر شاہ کو بطور شاعر کیوں نہ تسلیم کیا جائے جب کہ سترہویں سدی عیسوی کے حسینی شاہ جن کا تعلق مضافاتِ سہسرام سے تھااور جن کا ذریعۂ معاش بھی شعرو سخن ہی تھا،نے بھی اشارہ کیا ہے کہ شیر شاہ شاعر تو نہ تھا لیکن اس نے طبیعت موزوں پائی تھی۔(رسالہ ندیم ،گیا -۱۹۶۰ء)میرا ذاتی خیال ہے کہ طبیعت کا موزوں ہونا ہی شعر گوئی کی ایک خاص علامت ہے۔اب یہ الگ بات ہے کہ طبیعت کی یہ موزونیت ہم سے کس طرح کے شعر یا مصرعے کہلواتی ہے۔کوئی مصرعہ یا پورا شعر ادنیٰ بھی ہو سکتا ہے اور اعلیٰ بھی ۔عوام پسند بھی ہو سکتا ہے اور خواص پسند بھی ۔۔۔۔بہر حال اس طرح کے ٹوٹے پھوٹے مصرعوں کے خالق کو ہم شاعر تو گردان ہی سکتے ہیں۔پروفیسر حسن آرزو ، ـ مورخ و مصنف ’’ سلطان شیر شاہ سوری – احوال و آثار‘‘ (مطبوعہ : ۱۹۸۱ء) رقم طراز ہیں کہ :
’’ ۔۔۔۔ وہ ایک دردمند اور رحم دل انسان تھا ۔ اگر اکبر اعظم کے فارسی اشعار محمد عارف قندھاری اور ابوالفضل اپنی تحریروں میں پیش کرتے ہیں تو بدایونی ، گل بدن اور دوسرے مورّخین شیر شاہ کے فی البدیہہ اشعار پیش کرتے نظر آتے ہیں – ـ‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ شیرشاہ کی نگری یعنی تاریخ ساز شہرسہسرام شاہا ن سور کے عہد حکمرانی (سلطنت سور ۱۵۴۰ ء تا ۱۵۵۶ء)کے زمانے سے ہی علم و ثقافت اور علماء و فضلاء کا مسکن و مرکز رہا ہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس شہر سخن کی حیثیت دبستانی رہی ہے ۔اور بقولِ شاعر: ؎
دنیا جہاں کے فلسفیوں کے گروہ کو
دیتا تھا درس طفلِ دبستانِ سہسرام
(بابائے صحافت -مولانا ظفر علی خاں)
’’تاریخ سہسرام‘‘(جدید ایڈیشن) صفحہ ۹۱-۹۰ پر درج ہے کہ :
’’سلطان شیرشاہ سوری نے جس گلستانِ علم و ادب کو اپنے خون سے سینچ کر سر سبزو شاداب کیا تھا ۔ہمایوں کے علاوہ بعد کے مسلم سلاطین نے اس کی شادابی کو برقرار رکھا اور اس شہر کی نوک پلک کو سنوار کر اسے عالمی سطح پر متعارف کرانے کی سعی مشکورکی۔بلا شبہہ گلستانِ سہسرام آج جو آسمانِ تاریخ پر چمک رہا ہے وہ سلاطینِ سور بالخصوص شیر شاہ کا منت کش ہے۔‘‘
ادبی تاریخ شاہد ہے کہ دبستان سہسرام سے اپنے زما نہ کے کلاسیکی اور عہدساز استادفن شعراء ، خواجہ میر درد، مرزا رفیع سودا اور استاد شاعر ناسخ لکھنوی کا گہرا ادبی تعلق رہا ہے۔ناسخ اور درؔدکا تو کئی بار اس شہر میں ورودِ مسعود ثابت ہے۔جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس کا عروج و زوال دیکھا۔اور یہ بھی ثابت ہے کہ اس شہر کے بعض اکابرین ِ شعرو ادب ،استادِ فن داغ دہلوی،ناسخ لکھنوی،امیر مینائی اور سیماب اکبر آبادی وغیرہم کے تلامذہ میں رہے ہیں۔جن کے شاعرانہ وصف اور لب و لہجہ کی گہری چھاپ قدیم و جدید مشاہیر شعرائے سہسرام پر پڑی ہے۔یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اپنے زمانے کے رجحان ساز کلاسیکی طرزو ادا کے شعراء جیسے بطورِ مثال حضرت ناسخ لکھنوی ہمعصرداغ دہلوی ،خواجہ میر درد،مرزا محمد رفیع سودا اور نوح ناروی وغیرہ دبستان ِ سہسرام کے شعرا کی لیاقت و شعری ذہانت کو پہچانتے تھے۔متذکرہ استادان ِ فن شعرائے دہلی و لکھنؤ اسکول سے دبستانی حیثیت کے حامل تاریخی شہر سہسرام کے بعض شعرا ء نہ صرف ان کی شاعری سے متاثر تھے بلکہ بعض تو ان کے ارشد تلامذہ میں بھی تھے۔اور بعض ہم عصر ۔ان سب پر تفصیلی روشنی ڈالنا یہاںپر ممکن بھی نہیں۔مختصراً یہ ادبی تاریخ کا سچ ہے کہ زمانۂ قدیم سے رواں صدی تک سہسرام اپنی ایک دبستانی حیثیت رکھتا ہے اور اسی دبستان کا ایک ادنیٰ شاعر شیر شاہ بھی ہے۔
سہسرام کے معروف عالمِ دین مولانا حاذق ضیائی سہسرامی ،محقق و مؤلف ’’رجالِ سہسرام‘‘’مطبوعہ ۲۰۰۹ء : خدابخش اورینٹل لائبریری) نے واضح طور پر یہ اعتراف کیا ہے کہ : ’’سہسرام کا پہلا شاعر سلطانِ ہند شیر شاہ تھا۔‘‘اور پروفیسر خالد سجاد(رانچی یونیور سٹی) نے اپنے تحقیقی مقالے میں یہ صاف صاف لکھا ہے کہ ’’۔۔۔۔۔سہسرام کی ادبی تاریخ شیرشاہ سوری ہی کے دور سے شروع ہو جاتی ہے جو ہندوستانی طرز میں بر جستہ شعر کہنے پر قادر تھا اور اس طرح ادبی و شعری تخلیق کے ابتدائی نمونوں کا سراغ اسی دور سے مل جاتا ہے۔‘‘ (بحوالہ مانوس سہسرامی :شخص اور شاعر-۱۹۸۸ء)
تاریخ ہو کہ جہانِ شعرو ادب ان سب کا وسیع مطالعہ ہی ہمارا بہترین اور معتبر وسیلۂ اظہار ہے۔پیشِ نظر موضوع کے پس منظر میں تاریخی شہر سے متعلق ماضی کے سرمایۂ ادب کی کڑیوں کو ملانا بغیر معتبر حوالوں کے ممکن نہیں۔میرا تو ایسا ماننا ہے کہ ادب و تاریخ سے سروکار کیے بغیر شعرو ادب کی جدید عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی ہے اور یہی روایت بھی رہی ہے۔یعنی ادب کے نئے محراب و در ،کشادہ روشن دان کا تصور لیے نئی عمارت نئے انکشاف کا اظہار گزرانِ وقت سے رشتہ ہموارکیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا ۔چنانچہ مطالعۂ تاریخ و ادب سے یہ عقدہ کھلا کہ ۔۔۔۔۔میرا ممدوح یعنی شیر شاہ بحیثیت ہندوستانی زبان (جس میں بلا شبہہ اودھی اور بھوجپوری کی ادائے حسن شامل ہے)کے شاعر کے طور پر سرزمینِ سہسرام جو اس کا وطنِ مالوف بھی ہے ،میں متعارف کرایا گیا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ۔تاریخ فرشتہ(محمد قاسم فرشتہ)،سلطان شیر شاہ -احوال و آثار(مؤرخ پروفیسر حسن آرزو) قمر نعمانی۔شخصیت اور فن (ڈاکٹر مظفر حسن عالی) اور دیگر دستاویز کی روشنی میں یہ متحقق ہے کہ سولہویں صدی میں سہسرام کی سلطنتِ شاعری کا پہلا شاعر شیر شاہ ہے اور جسے صرف اہلِ سہسرام نے ہی نہیں ،بعض مؤرخین نے بھی متفقہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اور بطور شیر شاہ کے باطنی اوصاف اور اس کی علم و ادب سے ذہنی وابستگی اور مقامی زبان سے رغبت کو اجاگر کرتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ ،ماہرِ لسانیات ،مستند تاریخی مؤرّخ و مصنف نقشبند قمر نقوی نے بادشاہ جلیل القدر کو بقیدِ صنفِ حماسہ کچھ یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں : ؎
سلاطین دہلی میں پہلا وہ شاہ
کہ جس سے نہ سرزد ہوا اشتباہ
کیا مختصر دور میں اتنا کام
درخشاں ہے تاریخ میں اس کا نام
تھا اس کو بہت شوقِ علم اور فن
بنایا گلستانِ شعرو سخن
تھا دانشوروں کا بڑا سر پرست
کیا قدر افزائی کا بندو بست
مؤرخ ہیں سب علم کے معترف
کئی بادشاہوں سے تھا مختلف
تھا عربی زباں پر بھی اس کو عبور
رہا فارسی علم حاصل ضرور
مقامی زباں سے بھی تھا آشنا
تھی اردو کی بھی حالتِ ارتقا
(منظوم تاریخ ہندوستان و پاکستان-صفحہ: ۵۶-۳۵۵ )
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page