ستیہ گرہ اور اَہِنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنانے والی ایک عظیم شخصیت کا نام گاندھی ہے جو بہت بڑے محب الوطن بھی تھے۔ وطن عزیز ہندوستان کی آزادی کے مجاہدین میں انتہائی نمایاں نام مہاتما گاندھی ہے۔ گاندھی جی بیک وقت ہندوستانی تحریکِ آزادی کے فعالیت پسند لیڈر، سیکولر سیاست دان، وکیل، مصنف اور نظام امن کے پیشوا تھے۔ گاندھی جی نے ہمیں جو عملی پیغام دیا اور جس پر خود بھی زندگی بھر عمل پیرا رہے، ان میں قومی اتحاد ، فرقہ وارانہ خیر سگالی، عدم تشدد کا فلسفہ ، ستیہ(صداقت) اور ستیہ گرہ قابلِ ذکر ہی نہیں بلکہ ہر عہد میں قابلِ تقلید بھی ہیں۔ جگ ظاہر ہے کہ یہی طریقۂ کار ہندوستان کی آزادی کے اسباب بنے۔ نیز پوری دنیا میں حقوق انسانی اور آزادی کی تحاریک کے لیے روح رواں ثابت ہوئے۔ لہذا وطنِ عزیز ہندوستان میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی جی یا باپو کہا جاتا ہے۔ ‘مہاتما’ کے معنی عظیم روح ہے جب کہ ‘باپو’ بہ معنی راشٹر پِتا یعنی بابائے قوم کے ہیں۔ قابلِ ذکر طور پر انھیں حکومت کی طرف سے راشٹر پِتا کے لقب سے نوازا بھی گیا ہے۔
گاندھی جی کا مکمل نام موہن داس کرم چند گاندھی ہے۔ گاندھی جی 2؍اکتوبر 1869 کو پوربندر گجرات میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کرم چند اتم صاحب پوربندر راج کوٹ کے دیوان تھے۔ گاندھی جی کے دادا اتم چند گاندھی پوربندر اور جونا گڑھ کے دیوان رہ چکے تھے۔ ان کی والدہ پُتلی بائی بڑی مذہبی خاتون تھیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گاندھی جی پر ان کی ماں کا اثر تاحیات رہا۔ موہن داس گاندھی کی شادی 13 سال کی عمر میں شریمتی کستوربا سے کر دی گئی جو راجکوٹ کی رہائشی تھیں اور شادی کے وقت ان سے ایک سال بڑی یعنی 14 سال کی تھیں۔
عام رہنماؤں سے الگ گاندھی جی اَہنِسا کے عملی پجاری تھے لہذا تاعمر امن اور غیر تشدد کی تبلیغ کرتے رہے۔ انھوں نے 1914ء میں نسلی امتیاز کے خلاف محاذ آرائی بھی کی۔ واضح ہو کہ بڑی سے بڑی لڑائی کو بھی ستیہ، ستیہ گرہ اور غیر تشدد طریقے سے لڑا اور جیت کر امن کے پیغامات کو اجاگر کیا۔ کارخانۂ دنیا ، مختلف محاذِ زیست ، فیکٹری یونین اور مختلف شعبۂ حیات سے لے کر ہمارے وطنِ عزیز ہندوستان جیسے اتنے بڑے دیش میں بھی نظامِ امن کے قائل رہے۔ یہی نہیں بلکہ دیش کے مختلف حصوں میں عملی حکمت سے کامیاب ہو کر مثالیں قائم کرتے ہوئے امن کے نظام کے روح رواں ثابت ہوئے۔ نتیجے میں ہمارے مادرِ وطن کی شان اور وقار بنے گاندھی جی۔ لہذا راقم المضمون نے معروف شاعر کیف احمد صدیقی کے زیر نظر شعر کے پہلے مصرعے سے اپنے مضمون "نظام امن کے روح رواں تھے گاندھی جی” کے عنوان کو مستعار لیا۔
نظامِ امن کے روح رواں تھے گاندھی جی
وقارِ مادرِ ہندوستاں تھے گاندھی جی
آج 2/ اکتوبر گاندھی جینتی ہے۔ گاندھی جی کی یوم پیدائش ہمارے بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس دن گاندھی جی کے نظریۂ عدم تشدد کو اس طرح سے بیان کیا جاتا ہے کہ نئی نسل بھی ان کے اس فلسفہ سے آگاہ ہو سکے۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم یہ جانیں کہ گاندھی جی کس طرح کے ہندوستان کا خواب دیکھتے تھے۔ اور یہ بھی سوچیں کہ کیا آج کا ہندوستان واقعی گاندھی جی کے خوابوں کا ہندوستان ہے؟ جہاں ہر طرف نفرت کا زہر پھیلا ہوا ہے!۔ آئے دن دیش کے مختلف گوشوں سے تشدد، بدامنی اور انسانیت و دیش کو شرمسار کرنے والی مزید دل سوز واقعات رونما ہونے کی خبریں سننے ، پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں…! اب حد سے تجاوز کرنے والی بات بھی طشت از بام ہوئی کہ نئے سنسد یعنی سیاسی مندر میں ایک سانسد (ایم پی) نے اپنی ہی سیاسی برادری کے دوسرے سانسد(ایم پی) کو دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ سانسَدوں کے سامنے گندی گالی اور غیر مہذب فقرے و جملے استعمال کر ڈالا!!! ڈوب مرنے والی بات یہ ہے کہ باقی دیگر ایم پی چند چُسکی لیتے ہوئے، چند مسکراتے ہوئے اور کچھ تو ہنس کر اس گندی کرتوت کی حوصلہ افزائی کرتے کیمرے میں مقید ہوئے۔۔۔! مزے کی بات کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ذمہ دار سانسَد اسپیکر کی ذمہ دار کرسی پر بیٹھ کر جمہوریت کا مذاق اڑانے والے کو صرف وارننگ دے کر چھوڑ دیتا ہے۔ اس سے دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی شہہ ملتی ہے۔۔۔! کیا ایسے بھارت کی کلپنا گاندھی جی و دیگر مجاہدینِ آزادی نے کی تھی؟ کیا ایسے بھارت اور سنسد کو دیکھ کر گاندھی جی کی آتما خوش ہوتی ہو گی؟
واضح ہو کہ گاندھی جی کی تصنیف "انڈیا آف مائی ڈریمز” (راج پال اینڈ سنس ) میں مہاتما جی یوں کہتے ہیں:
"جس دن ہندوستان تشدد میں یقین کا اعلان کر دے گا، میں ہندوستان چھوڑ دینے کو ترجیح دوں گا (اگر میں زندہ رہا)۔ تب ہندوستان پر مجھے کوئی فخر نہیں ہو گا۔ میری حب الوطنی میرے مذہب کی تابع ہے۔ اگر میرا یہ یقین مستحکم ہے، تو یہی یقین ہندوستان سے میری محبت کو دو بالا کر دے گا۔”
مہاتما گاندھی ایک تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے اپنے قول ، مضبوط عزائم اور اصولوں کی پابندی کا مظاہرہ کر کے ہندوستان کو غیر ملکی حکومت سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی دوسرے ممالک کو بھی غیروں کی غلامی سے آزاد ہونے کی راہیں دکھائی۔ گاندھی نے مذہبی رواداری اور تمام مذاہب کی آزادی کی بنیاد پر ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا ۔ گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک کی اپیل پر ہندوستانی معاشرے کے تمام تر طبقات اور مذاہب کی حمایت ملنا شروع ہو گئی تھی۔ اس تناظر میں معروف شاعر کیف احمد صدیقی کے مزید ایک شعر کو بھارت ماتا کے سچے سپوت ، اچھے باغبان اور وقارِ مادرِ وطن کی نذر کرتا ہوں:
ہمارے ملک کے وہ باغباں تھے گاندھی جی
وقارِ مادرِ ہندوستاں تھے گاندھی جی
مگر افسوس صد افسوس کہ (اہنسا کے اس پجاری کو) 1948ء میں 30 جنوری کے روز جب گاندھی جی دہلی کے برلا ہاؤس میں ایک دعائیہ تقریب کے لیے جا رہے تھے تو ان پر ایک ہندو بنیاد پرست ناتھو رام گوڈ سے نے پستول سے فائرنگ کیا۔ گاندھی کے سینے میں تین گولیاں لگیں۔ اس طرح سے پرتشدد اور آتنکی طریقے سے عدم تشدد کے علمبردار گاندھی جی کا قتل کر دیا گیا۔
ان سب سے پرے ہم ہندوستانیوں کے لیے فخر و انبساط کی بات ہے کہ عدم تشدد ، ضبط و تحمل ، مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کے اصولوں کو یاد رکھنے کی غرض سے امریکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ہدایت پر دنیا بھر میں عدم تشدد کا عالمی دن 2 اکتوبر کو مہاتما گاندھی کے یومِ پیدائش پر منایا جاتا ہے جو انڈیا کی تحریک آزادی کے عظیم رہنما اور عدم تشدد کے فلسفے اور حکمت عملی کے بانی تھے۔
مقصود الذکر بات ہے کہ گاندھی جی کے اصولوں پر پوری دیانت داری کے ساتھ آج بھی اگر عمل کیا جائے تو ملک کے اندر بھی اور ملک کے باہر بھی دونوں جگہوں پر پنپنے والے تشدد اور عدم برداشت کے ماحول کو دور کیا جا سکتا ہے۔
طالبِ دعا
علی شاہدؔ دلکش ،
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج ،
ضلع کوچ بہار ، مغربی بنگال ، انڈیا
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page