صفر سے صفر تک / مظفر ابدالی – وسیمہ اختر
وسیمہ اختر،
ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو،
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
اردو شاعری کا سفر کئی صدیوں سے جاری ہے جس میں کئی ایسے شعرا منظر عام پر آئے جنہیں اردو زبان میں ایک عالمگیر حیثیت حاصل ہوئی۔گزشتہ چند برسوں میں اردو میں جن چند شعرا نے اچھی شاعری کے نمونے پیش کیے ہیں اور اپنے منفرد لب و لہجے سے قارئین کے ساتھ ساتھ اردو کے ادبا اور ناقدین کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے ان میں ایک نمایاں اور اہم نام مظفر ابدالی کا بھی ہے۔ مظفر ابدالی کے سلسلے میں کہی گئی اس بات کا اعتراف خود شمس الرحمن فاروقی صاحب کے تحریر کردہ ”در و دیوار سے آگے” میں شامل پیش لفظ کے اقتباس سے کیا جاسکتا ہے کہ:
”مظفر ابدالی کا کلام پڑھیے تو ایک تازہ مسرت اور تحیّر کا احساس ہوتا ہے۔ان کے یہاں نئے مضامین کی تلاش اور اظہار ذات کی ایک سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے ”۔
طالب علمی کے زمانے سے ہی گیا میں انہوں نے شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ وہاں اکثر نشستوں کا انعقاد ہوا کرتا تھا جس نے ان کے شعری سفر کو متحرک کر نے کا کام کیا۔
مذکورہ کتاب”صفر سے صفر تک” مظفر ابدالی کا تیسرا شعری مجموعہ ہے- اس سے قبل ان کے دو شعری مجموعے” آٹھواں دروازہ ”(2013) اور” در و دیوار سے آگے ”(2018)منظر عام پر آ چکے ہیں۔اس کتاب کا انتساب انہوں نے ان تمام شعراء و ادباء کے نام کیا ہے، جنہیں کورونا نے ہم سے ہمیشہ کے لیے دور کر دیا۔ اس مجموعے کا آغاز ”اپنی بات” اور چند خوبصورت اشعار کے ساتھ ہوتا ہے اس کے بعد مختلف موضوعات کے تحت 17 نظمیں اور 54 غزلیں شامل ہیں۔
اس مجموعے میں شامل زیادہ تر غزلیں اور نظمیں مظفر ابدالی کے اس زمانے کی تخلیقات ہیں جب سال 2020 اور 2021 پوری طرح سے کورونا کی نذر ہو گیا تھا۔ اس وبا نے جہاں نظم و نسق کی بہت ساری خامیوں کو اُجاگر کیا وہیں اس نے کچھ اچھے اقدار کو پھلنے پھولنے کا موقع بھی فراہم کیا۔مثلاً آن لائن مشاعروں نے خوب زور پکڑا۔ جو صرف نئی نسل تک محدود نہیں رہے بلکہ ان میں اساتذہ بھی شامل رہے یا یوں کہے لیجئے کہ اس وبا نے آن لائن مشاعروں کو زیادہ معتبر بنایا۔ ان دنوں مظفر ابدالی بھی شاعری سے جڑے رہے۔ اس سلسلے میں وہ خود اپنے اس شعری مجموعہ میں لکھتے ہیں :
”اس دوران یہ فقیر بھی شاعری سے جڑا رہا۔ حالانکہ خیالات کو مرکوز رکھنا دشوار تھا۔ باہری دنیا سے کٹ جانے کی وجہ سے موضوع بھی محدود ہوتے گئے۔ قنوطیت اور رجائیت میں جنگ جاری رہی۔ سیاسی اور سماجی انتشار نے رخنہ اندازی میں کوئی کسر نہ رہنے دیا۔اور تمام کشمکش کے بیچ جو بن سکا قلم بند کرتا رہا”۔
اس مجموعے کی باقاعدہ شروعات نظم ”زنجیر” سے ہوتی ہے۔ جس میں مظفرابدالی نے بڑی ہی خوش اسلوبی اور ہنرمندی سے اپنے عہد کے المیہ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس نظم کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ نظم میں زنجیر کو انہوں نے بطور کردار کے برتا ہے اور پوری نظم اسی لفظ زنجیر پر منحصر ہے جو کبھی پیروں میں پڑی رہتی تھی وہ اب اچانک سر کا تاج بن گء ہے۔ اگر اس نظم سے لفظ زنجیر کو الگ کر دیا جائے تو نظم کی روح نکل جائے گی، مظفرابدالی نے جس ندرت اور فنکاری سے اس پوری نظم کو ایک لفظ کا محتاج بنا دیا ہے وہ ایک مشکل عمل ہے جو کافی مشق وریاضت کے بعد ہی عمل میں آتا تھا، اس نظم کو پڑھتے وقت اگر آپ اس کے عہد و پس منظر سے واقف ہیں تو آپ محسوس کریں گے کہ صرف چودہ سطر کی سادہ و سلیس زبان کی یہ نظم اپنے عہد کے سیاسی و سماجی، مذہبی و غیر مذہبی حالات کی تفسیربن گئی ہے۔
نظم کچھ اس طرح ہے:
صبح زنجیر کی رات زنجیر کی
کو بکو چل پڑی بات زنجیر کی
مسجد و مدرسہ زور زنجیر کا
میکدے میں بھی ہے شور زنجیر کا
فکر زنجیر کی خواب زنجیر کے
رشک محفل میں آداب زنجیر کے
ڈھنگ سب سے نرالا ہے زنجیر کا
ہر طرف بول بالا ہے زنجیر کا
ہے ہواؤں میں جھنکار زنجیر کی
گلشنوں میں ہے سرکار زنجیر کی
یوں محبت سبھوں کو ہے زنجیر سے
یوں عقیدت سبھوں کو ہے زنجیر سے
قید رہنا کہ جیسے سزا ہی نہ ہو
جیسے آزاد رہنا روا ہی نہ ہو
یعنی صبح شام،دن رات، ہر وقت ہم کسی نہ کسی طرح سیایک قید و بند کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔گویا ہم کبھی کسی بھی کام کے لیے آزاد نہ ہوں اور ہمارے قدم پابہ زنجیر ہوں، ہمیں کھلی ہوا میں سانس لینے کا بھی حق حاصل نہ ہو اور اس بھیانک کرب کو،جبر کو اپنا مقدر تسلیم کر لیا ہو کہ جیسے ہم سبھی کو زنجیر سے محبت ہے اور عقیدت ہے قید رہنا ہمارے لیے سزا ہی نہیں کہ جیسے ہم کبھی آزاد تھے ہی نہیں۔ اس طرح شاعر کا یہ کرب اور درد نہ صرف یہ کہ اس تک ہی محدود رہتا ہے بلکہ ہمارے موجودہ عہد کا نوحہ بن جاتاہے۔
مظفر ابدالی اپنی شاعری میں صرف مصرے پر مصرع بٹھانے کا کام نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی داخلی واردات کو بھی بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھیے:
کچھ ہوا ہے جو یوں مجبور کھڑے ہیں ہم بھی
ان دنوں خواب سے کچھ دور کھڑے ہیں ہم بھی
پابہ زنجیر ہیں ہونٹوں پہ لگی مہریں ہیں
شہر میں تیرے بدستور کھڑے ہیں ہم بھی
مجموعے میں شامل ان کی غزلوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہ سکتے ہیں کہ ان کی غزلوں کو نظموں پر فوقیت حاصل ہے ۔ ہر طرح کے موضوعات ان کی غزل میں نظر آتے ہیں حسن و عشق کی باتیں ہوں، سماج کے کھوکھلے پن پر طنز ہو یا سیاسی لیڈروں کی نا اہلی پر طنز، غرض ان کی غزلوں میںیہ سب موضوعات ملتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی شاعری میں کچھ نقص بھی پائے جاتے ہیں اس سلسلے میں شمس الرحمن فاروقی ان کے دوسرے شعری مجموعے” در و دیوار سے آگے ”کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
”وہ آداب شعر سے اس قدر واقف نہیں جس قدر انہیں ہونا چاہیے لیکن پھر بھی میں ان کی غزل میں وہ نفاست اور شائستگی دیکھتا ہوں جس کی توقع ہمیں ان شعرا سے ہوتی ہیں جو آزمودہ کار ہوں۔”
ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے اس بات کا گمان بھی ہوتا ہے کہ یہ کسی عام شاعر کا کلام نہیں ہے بلکہ ایک مشاق اور زبان پر گرفت رکھنے والے شاعر کی تخلیق ہے۔ ان کی تحریر میں ایک انو کھا پن ہے۔ ان کی جدت فکر پریشان ذہنوں کو سکون بخشتی ہے، ہمارے بے چین دلوں کو پرسکون کرتی ہے اور دنیا کو مختلف زاویوںسے دیکھنے کے لیے مواقع فراہم کرتی ہے۔
ابدالی کی شاعری میں بڑے سادہ الفاظ وتراکیب کی کارفرمائی ہے۔وہ اپنی داخلی کیفیات کو ابھارنے کے لیے بھاری بھرکم الفاظ مبہم تشبیہات و استعارات اور گنجلک طرزاظہار کا سہارا نہیں لیتے بلکہ عام فہم، سادا، سلیس الفاظ کے استعمال پر ہی قناعت کرتے ہیں ۔ان کی زبان تصنع سے پاک ہے۔ عام بول چال میں ہی اپنی بات کہہ گزرتے ہیں جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔۔ آئیے ان کے چند اشعار دیکھتے چلیں:
آئینہ پھر دکھا رہا ہے کوئی
پھر کوئی آئینے سے برہم ہے
شرمارہے ہیں ان دنوں گھبرا رہے ہیں ان دنوں
حضرت شکست خواب سے ڈر جا رہے ہیں ان دنوں
داستاں کے جو کل خاص کر دار تھے
اب کتابوں میں ہیں حاشیے کی طرح
میں تمنا ہوں، مجھے روز ازل سے ہے خبر
میری پگڑی کوئی بستی میں اُچھالے گا ضرور
دلدلوں میں گزارتے ہیں حیات
کوئی شکوہ کنول نہیں کرتے
ان تمام باتوں کے علاوہ مجموعے میں ایک بھی غزل ایسی نہیں جس میں شاعر نے اپنا تخلص استعمال کیا ہو۔ مظفر ابدالی نے اپنے دیباچے میں اپنے تجربات و مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے دوستوں اور خیر خواہوں کی رہنمائی کا اعتراف کیا ہے اور غیر شاعرانہ ماحول میں شاعری کے لیے دوستوں کے ساتھ کو قدرت کا بخشا ہوا ایک انمول تحفہ گرداناہے۔
مظفر ابدالی کے شعری مجموعے ”صفر سے صفر تک” کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ شاعری میں ان کا مستقبل بہت روشن ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page