ڈاکٹر صفدر امام قادری
استاد شعبۂ اردو،کالج آف کامرس آرٹس اینڈ سائنس ،پٹنہ
ایسا دوست جو جیتے جی محفل سے کنارہ کش ہو کر دوستوں اور دنیا سے بے زار ِمحض ہو کر اپنے گھر میں قید ہو گیا ہو،اس کے لیے ایسی خبر کا دھڑکالگا ہوا تو تھا ہی مگر خواہش یہی تھی کہ طارق متین اپنی مردم گزیدگی چھوڑ کر پھر سے معمول کی یار باش زندگی میں شامل ہو جائے گا مگر قدرت کو کچھ دوسرا ہی منظور تھا ۔۱۶ جنوری ۲۰۲۵ء کی شام اچانک یخ بستگی کا سامان فراہم کر گئی جب ایک ملاقاتی اور دوست نے فون پر بتایا کہ آپ کے دوست طارق متین نہیں رہے۔ ایک لمحے کے لیے یہ سوچا کہ ہمارا دوست ساری دنیا اور ادبی برادری سے نکل کر بہت پہلے ہی اندھیروں میں جا کر آرام کر رہا تھا۔ پھر بھی دل میں یہ خیال آیا کہ ایسا جی دار دوست بھلا کیسے مر سکتا ہے ؟مونگیر اقبال حسن آزاد صاحب کو فون کیا کہ کسی طرح اس خبر کے غلط ہونے کی اُن سے تصدیق ہو جائے مگر ٹھٹھرتی ہوئی شام اور گھنی ہو گئی جب اقبال حسن آزاد نے کہا کہ میں طارق متین کی رہائش پر اُن کی میّت کے سامنے کھڑا ہوں۔ اب بھلا کیا بچ گیا تھا۔ انھوں نے مزید اطلاع دی کہ اگلے روز نمازِ جمعہ کے بعد اُن کے آبائی وطن لکھمنیا میں تجہیز و تدفین عمل میں آئے گی۔ تھوڑے وقت کے بعد پھر میں نے فون کیا تو انھوں نے بتایا کہ مونگیر سے اُن کا جسدِ خاکی لکھمنیا کے لیے لے جایا جا رہا ہے۔
میں نے دوست کے آخری دیدار کے لیے صبح سویرے لکھمنیا جانے کا فیصلہ کیا ۔رات بھر۳۵۔۳۰برس کی رفاقتوں کے شب و روز چین نہ لینے دیتے رہے ۔ہزاروں واقعات، طارق متین کی ادائیں، ہم لوگوں کی آپسی نوک جھونک اور ایک ساتھ زندگی کے خواب اور تمناؤں کی تعبیر تلاش کرنے کی مہمّا ت میں اُلجھتا رہا۔آنکھیں بند ہیں مگر۸۹۔۱۹۸۸سے لے کر اب تک کے زندگی بد اماں واقعات لہراتے رہے۔ طارق متین کی دوست داریاں ،بے تکلفّیاں، ہمہ وقت اور ہمہ تن شعر وادب میں منہمک رہنے اور جینے کا حوصلہ ،نئے لکھنے والوں کی پشت پناہی اور روز روز ادبی محفل آرائی سے خوش ہونے والے شخص کی تصویر آنکھوں سے محو نہیں ہو سکتی تھی۔
ٔ ۱۷؍جنوری کی صبح سرد تھی۔ آسمان سے زمین تک کہاسا اس طرح سے چھایا ہوا تھا جیسے زمین و آسمان طارق متین کے لیے ماتم کناں ہوں۔ فضا میں بھاری پن پیدا ہو رہا تھا۔ ہائی وے پر چلتے ہوئے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ماتم ہر سُو ہے ۔سورج اپنے حجرے میں چھپا ہوا گویا مراقبے میں بیٹھا تھا۔تقریباً ڈیڑھ سو کیلو میٹر چل کر طارق متین کے گھر پہنچا۔میّت کو غسل دینے کا عمل آنگن میں چل رہا تھا ۔تھوڑی دیر کے بعد ان کے والد بزرگوار سے اجازت لے کر اپنے دوست کو آخری بار دیکھ لینے کے لیے گھر کے آنگن میں پہنچا تو طارق متین اسی طرح سفید لباس میں مجسم تھا جیسے وہ ہم سب کے بیچ ہمیشہ ہوتا تھا۔ اُس کے کپڑے پہ کوئی شکن نہیں ہوتی تھی ۔مگر یہ بے شکن لباس طارق متین کے لیے آخری لباس تھا ۔میں نے ایک پہلو سے ہی چہرے کو دیکھنے کی کوشش کی کیوں کہ اس سے زیادہ کچھ اور حوصلہ نہیں کر سکتا تھا ۔آخری یادگار کے طور پر ایک تصویر بھی موہوم سی کھینچ لی کہ اپنے یار کو اپنے البم میں محفوظ کر سکوں۔ چند ساعتوں کے بعد وہاں سے اُٹھ کر اُن کے والد صاحب کے پاس آکر پھربیٹھ گیا۔
ابھی چھے ماہ پہلے اُن کی والدہ کا انتقال ہوا ۔بہت سارے لوگوں نے بالخصوص اُن کے گاؤں والے اور رشتے داروں نے اُس موقعے سے طارق متین کوایک عرصے کے بعد دیکھا تھا۔سب کو ایک اضمحلال کی کیفیت محسوس ہوئی ۔چوڑے کندھے والا اور مضبوط قدموں سے تیز تیز چلنے والا شخص نڈھال اور ہڈی کا ڈھانچا ہو گیا تھا۔ان کے والد نے اپنے اوپر پڑے تمام مصائب کو بھلاتے ہوئے بڑی نپی تلی ہوئی بات مجھ سے کہی کہ جب سے اِنھوں نے شاعری ترک کر دی تھی ،اُس کے بعد سے سب کچھ بگڑتا ہی چلا گیا ۔مجھے یاد آیا کہ لکھمنیا کے کتنے مشاعروں میں ہم نے اُن کے والد کو ادبی حظ اُٹھاتے ہوئے دیکھا تھا اور اسٹیج سے اپنے بیٹے اور ان کے دوستوں کی شعرو شاعری پر وہ خوش ہو رہے تھے۔ میں نے بھی اُن سے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اُس موقعے سے اُس سے زیادہ کچھ کہا بھی نہیںجا سکتا تھا ۔اُن کے والد کی عمر اور صحت کو دیکھتے ہوئے صبر کی تلقین کے علاوہ ہمارے پاس تھا ہی کیا۔
طارق متین کے جنازے میں شامل ہونے کے لیے اُن کے قرابت دار اور متعلقین آتے جا رہے ۔ مونگیر،پٹنہ،مظفر پور اور آس پاس کے لوگ جمع ہوتے جا رہے تھے ۔جمعہ کے وقت مسجد پوری نیچے سے اوپر تک اور آس پاس کی سڑکوں تک نمازیوں سے بھری رہی۔مسجد کے باہری حصّے کے ایک میدان میں ندی کے کنارے نمازِجنازہ کا انعقاد ہوا ۔آس پاس کی سڑکوں میں بھی لوگ صف بناتے گئے ۔ہزاروں کی واقعتا بھیڑ تھی ۔جگہ دیکھنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ یہ وہی خالی جگہ ہے جہاں طارق متین نے ایک مشاعرہ منعقد کیا تھاجس میں عزم شاکری بھی شریک ہوئے تھے۔ابتدا میں کسی دوسرے نے نظامت کی تھی اور مشاعرہ کچھ اکھڑا اکھڑامعلوم ہو رہا تھا مگر مشاعرے کو سنبھالنے کے لیے طارق متین اسٹیج پر آیااور اپنی برجستہ نظامت سے مشاعرے کااس نے پورا ماحول بدل دیا ۔فجر تک ہم سب مبتلا ے شعر رہے۔ گرمی کا زمانہ تھا۔ میری کار میں طارق متین نے اپنے باغ کے کئی بورے آم بھی تحفے میںرکھوا دیے ۔عظیم آباد کے کئی شعرا اور ادبا کو بھی بعد میں طارق متین کی ہدایت کے مطابق یہ آم تحفتاً پیش کیے گئے ۔
لکھمنیا کا قبرستان اچھا خاصا بڑا ہے۔ سڑک کے ایک طرف طارق متین کا گھر اور اُن کے رشتے دار وںکے مکانات ہیں اور دس قدم پر دوسری جانب قبرستان ہے۔قبرستان کا دروازہ زیادہ چوڑا نہیں ہے اور قبرستان میں داخلے کے لیے پگڈنڈیاں اس سے بھی نحیف ولاغر ہیں۔انتظامیہ نے قبرستان میں آنے والوں کو قبرستان کی حقیقی زندگی کا اشارہ دینے کے لیے ایسے انتظامات غالباًکر رکھے ہوں گے ۔قبرستان میں داخل ہوتے ہی جنازے میں شامل افراد کئی ٹکڑوں میں بٹ گئے۔میں نے نمازِ جنازہ کے فوراً بعد ہی تابوت کو آخری کاندھا لگا کر اپنے دوست کو ایک نئی زندگی کے لیے الودع کہہ دیا تھا۔قبروں میں بڑے اطمینان سے طارق متین کو اتارا گیا ۔عام جگہوں کی قبر کے مقابلے یہاںکچھ زیادہ کشادگی معلوم ہوئی۔خدا کرے یہ کشادگی تاقیامت طارق متین کو میسّر رہے ۔تین مُٹھّی مٹّی ڈالتے ہوئے میںتھوڑی دیر کے لیے بھول گیا تھا کہ اپنے ہی جسم و جان کے ٹکڑے کو دفن کر رہا ہوں۔
قدرت کا بھی کیا انتظام ہے کہ ہزاروں کے ساتھ ہم جس اجتماعی انداز میں طارق متین کو قبرستان میں پہنچانے گئے تھے ،وہاں سے واپسی میں سب تنہا اور اکیلے تھے ۔سب کے سر جھکے ہوئے اور دل ملول تھے۔قبر کے اندر جیسے طارق متین تنہا تھا۔ہم سب اُسی طرح تنہا ئی میں ماتم خانہ بنے ہوئے تھے۔قبرستان سے نکلتے ہوئے جب آسمان کی طرف میری نگاہیں اُٹھیں تو دیکھا کہ موسم کا بھاری پن کم ہو رہا ہے،سورج کی شعاعیں معصومانہ انداز میں پھیل رہی ہیں۔شاید آسمان سے طارق متین کی قبر پہ انوارِ الہٰی برسنے کی یہ گھڑی تھی ،اس لیے موسم کی کیفیت بدل گئی اور فضامیں روشنی پھیل گئی۔
طارق متین عمر میں مجھ سے محض تین برس چھوٹا تھا ۔عمر کا یہ فرق رشتے میں آخر وقت تک قائم رہا حالاںکہ طارق متین کی اس معاملے میں خاص شہرت تھی کہ اپنے سے دس پندرہ برس بڑے اور اسی قد رچھوٹے لوگوں بالخصوص ادیبوں اور شاعروں سے اس کا دوستانہ رشتہ قائم ہو جاتا تھا جہاں فوراً’آپ ‘کی جگہ’ تم‘ کی مخاطبت عود کر چلی آتی تھی ۔جسے سگریٹ ،پان اور گٹکے سے شوق ہے، وہ طارق متین کا ہم رکاب ہو ہی جائے گا۔ اولاًاسی سے تکلف کی دیوار ٹوٹتی تھی مگر مجھ سے مخاطبت میں اوّل روز سے ’صفدر بھائی ‘کا جو سلسلہ قائم ہوا ،وہ بچا رہ گیا جب کہ میں دیکھتا رہتا تھا کہ مجھ سے بڑی عمر کے احباب کو طارق متین تم کہتا تھا۔ جانے کس مرحلے میںیہ رشتہ متعین ہوا۔ وہ ہمارے بچوں کا انکل ہوااور میرے عزیز شاگردوں کا ہمدردوغم گسار ،رہنما اور ہم رکاب۔
یہ ٹھیک ٹھیک اب یاد نہیں کہ طارق متین سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی ؟رسائل و جرائد میں اِدھر اُدھراس کی غزلوں کی اشاعت ہونے لگی تھی ہم سب اسی ادبی ریلے میں آگے پیچھے چل رہے تھے ۔غالباً ۱۹۸۸ء یا ۱۹۸۹ء کا کوئی لمحہ ہوگا جب خورشید اکبر اور شان الرحمان کے ساتھ ایک پختہ رنگ کے بانکے نوجوان کی ہمارے گھر آمد ہوئی۔ ابھی تو عمر کی دو دہائیاں مکمل ہو رہی تھیں۔ بیگو سرائے کے ایک کالج میں ایم ۔اے کی جماعت میں وہ انگریزی زبان و ادب کے درس میںشامل تھا۔ اس کے عظیم آباد آمد کے بعض ادبی مقاصد تھے ۔ریڈیو کے پروگرام میںشمولیت،ادباوشعرا سے ملاقات اور رمز عظیم آبادی کے حلقۂ اِدارت میں پہنچے کے امکانات ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو رہے تھے۔ مجھ سے رسالہ نکالنے کے سلسلے سے گفت و شنید ہوئی اور خاص طور سے رسالے کی اشاعت اور ادارت میں معاونت کے عہد وپیمان ہوئے ۔ہم دونوں کے درمیان شاعری، سگریٹ ،پان اور دیگر انداز کے تمباکو کے معاملات دیوار کی طرح کھڑے رہے جب کہ خورشید اکبر اور شان الرحمان شاعری اور سگریٹ کے راستے سے بے تکلف دوست بن چکے تھے۔چوبیس گھنٹے کی شاعرانہ وضع قطع میںجینے کی عادتیں اُس وقت بھی ہماری نہیں تھیں، اس لیے تعلق میں ایک رکھ رکھاو ،کم آمیزی اور ادبی صورتِ حال کے تئیں گفت وشنید کی حدیں قائم رہیں۔کئی گھنٹوں اور پورے دن کے ساتھ میں بھی یہ رکاوٹیں اور حدود ہم دونوں نے بچا کر رکھیں۔[جاری]
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page