جو حالات آزادی سے پہلے تھے،وہ اب بالکل مختلف ہوگیے ہیں ،یہ زندگی کے تمام شعبوں میں دیکھا جارہا ہے،یونانی اور ویدک طب کے معاملے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ ۱۳فروری۱۹۲۱ کو آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج کادہلی کے قرول باغ میں گاندھی جی کے ہاتھوں افتتاح ہواتھا، اُس وقت اس کالج کا یہ سب سے بڑا امتیاز تھا کہ یہاں یونانی اور ویدک دونوں طبوں کی تعلیم ہوتی تھی اوریہ کالج اپنے زمانہ میں یونانی اور آیوروید کی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز ہوا کرتا تھا،اُس وقت ملک میں یونانی اور ویدک کی کیا صورت حال کیاتھی؟ اس کالج کے حالات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔یہاں سال 20 – 21 تعداد چالیس اور سال 21-22 میں پچیس تھی اور یہ سب طلبہ ہندو تھے۔جب کہ یونانی طب کے شعبہ میں سال 20-21 میں کل طلبہ کی تعداد ایک سو سینتس(۱۳۷)تھی جن میں ۱۱۲مسلمان ،انیس ہندو اورچھ سکھ تھے۔سال 21- 22 میں یونانی شعبہ میں ایک سو پندرہ مسلمان،پچیس ہندو اورچار سکھ طلبہ نے داخلہ لیا تھا،ان کی مجموعی تعداد ۱۴۴ تھی۔ یہ اعداد و شمار اس رپورٹ سے مأخوذ ہیں جو حکیم اجمل خاں نے ۲۵فروری ۱۹۲۳ کو کالج کے ایک اجلاس میں پیش کی تھی۔اس رپورٹ کے ذریعہ کئی ایسے خلاصے ہوتے ہیں جو بے حد چشم کشا ہیں،درج بالا روداد سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی سے پہلے آیوروید صرف ہندو مذہب کے ماننے والوں تک محدود تھی اور وہی اس کے پڑھنے پڑھانے والے تھے،جب کہ یونانی طب بلاتفریق تمام ہندوستانیوں کے درمیان مقبول تھی اور سبھی مذاہب کے ماننے والے اسے پسند کرتے تھے،مذکورہ رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہندو برادران جتنی تعداد میں آیوروید پڑھ رہے تھے تقریباً اسی تناسب میں وہ یونانی طب کو بھی پڑھ رہے تھے۔ ڈیمانڈ اور پروڈکشن کے اصولوں کی روشنی میں ویدک اور یونانی کے شعبوں میں طلبہ کے داخلہ کے رجحانوں سے عوامی پسندکا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر آزادی کے بعدجب سب کچھ بدل رہا تھا تو یونانی اور آیوروید کے حالات میں بھی بدلاؤ آیا،چنانچہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اِس وقت آیوروید کا جو معاملہ ہے وہ آزادی سے پہلے کے حالات سے بالکل مختلف ہے،آزادی کے بعد یکایک آیوروید کیسے ترقی کی راہ پر چل پڑی ،اہلِ نظر سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے۔آزادی کے بعد جب نئے ہندوستان میں زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے وسائل کی تقسیم ہورہی تھی تو عوامی مقبولیت کے لحاظ سے یونانی طب کا حصہ مقرر ہونا چاہیے تھا،مگر اسے جائز حق سے محروم رکھا گیا اور وہ شیئر آیوروید کو دے دیا گیا جس کی مستحق یونانی طب تھی ۔اس وقت آیوش سسٹم میں آیوروید کی اتنی بالادستی ہے کہ اس کا بچا کھچاہی دوسروں کے حصہ میں آرہاہے اور آیوش کے بیشتر وسائل پرایک طرح سے آیوروید ہی کی اجارہ داری دکھائی دے رہی ہے، آزادی سے پہلے اس ملک میں یونانی اور آیوروید کی جو حیثیت کی تھی ،وہ صرف ان کی عوامی مقبولیت کے لحاظ سے تھی ،ظاہر ہے اس وقت ان میں سے کسی کے ساتھ سرکاری مشنری کی پشت پناہی نہیں تھی۔آزادی کے بعد یونانی طب کے ساتھ سب سے بڑا ستم یہ ہوا کہ اسے صرف مسلمانوں کا طریقۂ علاج بتا کر اسے مطعون کرنے کی وہی سازش کی گئی جو اردو زبان کے ساتھ ہورہی ہے کہ اسے مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کے خلاف مذہبی منافرت کا کھیل کھیلا جارہاہے،جب کہ سچائی یہ ہے کہ آزادی سے پہلے یونانی اس لحاظ سے صحیح معنوں میں ہندوستانی طب تھی کہ کسی مذہبی تفریق کے بغیر تمام ہندوستانیوں میں مقبول تھی جب کہ آیورید کا دائرہ ایک مذہبی حلقہ تک سمٹا ہوا تھا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page