ّّ شعری مجموعہ ’’ قیامت کے باوجود ‘‘ پر ایک نظر- محمد ناظم
عہد حاضر کے نوجوان شاعر صدام حسین مضمر ؔکا شعری مجموعہ’’قیامت کے باوجود‘‘پر نظر پڑتے ہی خوشی اور حیرت دونوں کا بیک وقت احساس ہوا۔خوشی اس لیے کہ ہر تخلیق کار کی پہلی تخلیق اس کی ایک نئی زندگی ہوتی ہے۔وہ تا حیات اپنی اس نئی زندگی کو بنانے اور سنوارنے میں مگن رہتا ہے۔حیرت اس لیے کہ یہ تو میرے علم میں تھا کہ مضمر کو شعر گوئی سے بلا کا شغف ہے ۔ مشاعروں میں ان کی غزل گوئی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر تیرتی رہتی ہیںلیکن اتنی جلد ان کا شعری مجموعہ منظر عام پر آجائے گا یہ حاشیۂ خیال میں بھی نہیں تھا۔ ایک شام حلقۂ یاراں میں عصری ادب پر گفتگو کے دوران زیر بحث مجموعے کا ذکر آیا تو میں نے بھی آواز میں آواز ملا دی کہ ہاں مضمر نے بہت عجلت سے کام لیا ہے۔اسی آواز اور مجموعے کے حیرت انگیز عنوان نے مجھے اس کی تہ میں اترنے پر مجبور کیا ۔
مجموعی طور پر زیر بحث مجموعہ غزلوں کی نمائندگی کرتا ہے ،حالانکہ آخر میں دس نظمیں بھی شامل ہیں۔غزلوں پر نظر ڈال کر مسرت ہوتی ہے کہ مضمر نے اپنے اساتذہ بالخصوص راشد انور راشد کی بات پر عمل پیرا ہونے کی کافی حد تک کوشش کی ہے۔ یعنی جب بھی کچھ لکھا جائے تو اس میں ندرت کا احسا س ہونا چاہیے۔مجموعے کی ورق گردانی کے وقت ایسے بیشتر اشعار سے ملاقات ہوجاتی ہے جن میں مضمر نے سخن گوئی اور ندرت خیال کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں۔ اس رنگ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
سب پھول ہی چنتے ہیں مری جان غنیمت
ہم تھوڑے الگ ہیں تو تبھی خار چنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرتا ہے بہت بات جو آباد گھروں کی
آباد گھروں کو وہی مسمار کرے ہے
ہٹ دھرم ہوں کرتا ہی نہیں کام وہ اکثر
کرنے پہ مرا دل جسے اصرار کرے ہے
کیا خوب ہی احمق ہیں جو کرتے ہیں محبت
یہ کام بھلا کوئی سمجھدار کرے ہے
’’قیامت کے باوجود‘‘ کی غزلوں سے اس بات کا شدید احسا س ہوتا ہے کہ ان کے خالق میں مضمون باندھنے کا سلیقہ اور حق گوئی و بے باکی کا جذبہ بدرجۂ اتم موجود ہے۔مضامین کے تنوع کے ساتھ شروع سے آخر تک یہ فضا چھائی رہتی ہے۔در اصل ہر ادیب و شاعر فطری طور پر اپنے عہد سے متاثر ہوتا ہے۔کسی نہ کسی صورت میں اس کی تخلیق میں اس کے ماحول کا عکس ضرور نظر آتا ہے۔بلا شبہ ہمارا عہد نہایت انتشار،خوف اور بے یقینی کا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں فرقہ واریت ،انسان دشمنی ،اور تشدد نے ملک کی فضا کو پراگندہ کردیا ہے۔بیشتر بڑے بڑے اداروں اور تنظیموں نے خاموشی اور مصلحت اندیشی میں پناہ تلاش کی ہے۔ ایسی آلودہ ہوا میں کسی حساس شخص کا سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔اس کے باوجود بھی وہ زندہ ہے تویہ معاشرے کے لیے لمحۂ فکر ہے۔دوسری طرف مادہ پرستی اور غم حیات نے بالخصوص نوجوانوں کی زندگی میں طوفان برپا کردیا ہے۔ آئے دن یہ قیامت کی اذیتوں سے دو چار ہوتے رہتے ہیں۔ گردش زمانہ سے ان کی تمنائیں اور آرزوئیں دم توڑتی رہتی ہے۔ لمحہ بہ لمحہ ان کے جذبات و احساسات کو پامال کیا جاتا ہے۔ دفعتاََ ان کے خوابوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔وہ اپنی شکستہ آرزوؤں اور بکھرے ہوئے خوابوں کی لاشوں کو اپنے ناتواں کاندھوں پر ڈھوتے ہے ۔ ان جاں گسل حالات کے باوجود نوجوان زندہ ہیں تو اس پر تخلیق کار کو حیرت ہوتی ہے اور وہ اس درد و کرب کو شعری پیکر میں ڈھال دیتا ہیـ:
زندہ ہوں دیکھ مجھ کو قیامت کے باوجود
حیرت ہے یار یعنی کہ میں مر نہیں رہا
اک وہ کہ مری ذات پہ بجلی گرائے ہے
اک میں کہ اس کے بعد بھی کچھ کر نہیں رہا
مضامین کی رنگا رنگی کے ساتھ مجموعے کی غزلیں عصری حسیت سے بھی لبریز ہے۔جن تلخ اور شیریں تجربات سے مضمر کا سابقہ ہوا یا جن مسائل سے معاشرہ دو چار ہے انھیں مضمر نے نہایت عمدہ شعری لباس پہنایا ہے۔اس قسم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
عجب سی اک وبا پھیلی ہوئی ہے
زمانہ مر رہا ہے تشنگی سے
چلو پتھر کے ہم تو ہو گئے ہیں
تمھیں بھی کیا ملا ہے دوستی سے؟
بہت ظالم طبیعت ہے ہماری
محبت کر نہ پائی یکسوئی سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کام آسان ہوگیا اس کا
جس نے تھوڑی بہت شجاعت کی
حوصلہ اور بڑھ گیا میرا
میرے اپنوں نے جب بغاوت کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ اجالوں کی خواہش میں دہلیز پر
بجھ گیا تھا میں شمعیں جلاتے ہوئے
زیر بحث شعری مجموعہ معاملات عشق کی نیرنگیوں کے ساتھ حیات و کائنات کے مسائل سے لبریز ہے۔مضمر نے حیات کی کشمکش اورفطرت انسانی کا مقدور بھر مشاہدہ و مطالعہ کیا ہے۔کامیابی و ناکامی کے درمیان کی منزل بالخصوص ’’خوف‘‘ پرکئی معرکہ آرا شعر کہے ہیں ۔یہاں اس قسم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
یہ بھی ممکن تھا کہ ہم ساتھ چراغاں کرتے
تم کو بھاتا ہے مگر آگ لگانے کا ہنر
جیت لینا تو ہے آسان دلوں کا لیکن
کتنا مشکل ہے سدا ساتھ نبھانے کا ہنر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنی ساری آرزوئیں توڑتی ہیں ہم میں دم
ہم ہیں مقتل خواہشوں کے ،زندگی بتلائیے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممکن ہے کہ گھر بار کا نقشہ ہی بدل جائے
ڈھاؤتو یہ دیوار میاں خوف و خطر کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستے میں بنی خوف کی دیوار گراکر
لایا ہے مرا شوق ہی یاں مجھ کو اٹھا کر
معاملات عشق میں زبان و بیان اور مضامین دونوں اعتبار سے جدت کا احساس ہوتا ہے۔اس مرحلے میں مضمر نے محض حسن و عشق کے روایتی قصے بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عاشق و معشوق کی نفسیاتی کشمکش اور معاملات عشق کی باریکیوں اور نکات کو بھی دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے۔چند اشعار دیکھیے :
تجھ سے بے لوث محبت کا صلہ ہے یہ بھی
ہوکے تیرا ہی نہیں آج میں تیرا پیارے
یہ تو ممکن ہی نہیں چھوڑ کے تجھ کو جاؤں
تجھ سے الجھا ہے مری سانس کا دھا گا پیارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تم پتھر کی مورت تو نہیں ہو
مجھے خدشہ ہوا ہے بے حسی سے
خفا خود سے ہی میں رہنے لگا ہوں
مجھے الفت ہوئی کیا پھر کسی سے؟
زیر گفتگو شعری مجموعہ غزلوں اور نظموں کا حسین گلدستہ ہے۔زبان و بیان اور مضامین دونوں اعتبار سے نئے پن کا احساس ہوتا ہے۔ یہ غزلیں تقریباََ ان کی چار سالہ محنت کا ثمرہ ہیں ۔ ایک ایک مصرعے میں تخلیق کار نے خون دل کی گلابی سے رنگ بھرا ہے۔البتہ الفاظ کے انتخاب اور ان کے استعمال کے سلسلے میں دو چارمقامات پر زبان رکنے لگتی ہے۔بالخصوص مضمر نے لفظ ’’ یعنی ‘‘ کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔بعض جگہ تو یہ بر محل استعمال ہوا ہے اور کہیں بس وزن شعری کے لیے ۔جیسے صفحہ ۱۰۴ پر تین اشعار میں لفظ ’’ یعنی‘‘ کا استعمال ہوا ہے۔حالانکہ غور و فکرکرکے دیگر الفاظ کو لایا جاسکتا ہے۔اس سے قطع نظر کرتے ہوئے کئی اشعار مجموعے میں شامل ہوگئے ہیںجن میں بلا کی کیفیت اور ایک عرصے تک ہمارا ساتھ دینے کی قوت ہے۔انھیں پڑھ کر یہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ یہ کسی نوجوان شاعر کے اشعار ہیں ۔اس قبیل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
کچھ نہ کچھ تو مل گیا ہے اس محبت میں ہمیں
تم کو نفرت سے بتاؤ جان جاناں کیا ملا
آگ میں جلتے محبت کی اگر جلنا ہی تھا
نفرتوں کی آگ میں جل کر بتاؤ کیا ملا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریکیِ شب پر ہے فقط ایک ہی بھاری
سینے میں اگر آگ ہے آنکھوں میں ضیا ہے
مقتل ہے مر ا جسم ذرا دور ہی رہنا
کتنوں کا ہوا خون یہاں ،حسن مرا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواہش کہاں ہے آپ سے گفت و شنید کی
میرے لیے تو آپ کا چہرہ کتاب ہے
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شعری مجموعہ ’’قیامت کے باوجود ‘‘ فکرو فن دونوں اعتبار سے قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔مضمر کی شاعری میں خلوص فکر بھی ہے اور ان کی لے میں دل بھی شریک ہے۔یہ ان کی پہلی کامیاب کوشش ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔اگر وہ اسی طرح صلہ و ستائش کی پروا کیے بغیر اپنی شعری سلطنت میں خوش ہوکر لگے رہیں تو جلد ہی انشاء اللہ ان کی شاعری کے مضمرات کھلنے لگیں گے۔
Mohammad Nazim
Research scholar
Department of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi
Mob:7037668786
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page