ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں اردو شعر و ادب کا کردار ناقابلِ فراموش ہے اردو شعرا نے تحریک آزادی کو پروان چڑھانے کے لیے نہ جانےکتنے ترانے گائے، مجاہدین آزادی کے اندر جوش بھڑنے کے لیے حسرت موہانی نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا یہی وجہ ہے ہے کہ انہیں جیل جانا پڑا انہوں نے جیل کے اندر یہ خوبصورت شعر کہا:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
تحریک آزادی میں اُردو شاعری کا کردار:
تحریک آزادی 1857 میں اردو شعراء نے عملی طور پر نمایاں کردار ادا کیا۔ بغاوت سےپہلے ہی اردو شاعری میں انگریز دشمنی میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا۔اور اس بغاوت کا سب سے زیادہ زور دہلی میں دیکھنے کو ملا۔ ڈاکٹر ضامن علی حسرت لکھتے ہیں کہ:
اس معاشی وسیاسی ابتری کے حالات میں بھی محمد شان رنگیلے شعروسخن کاپرچم تھامے رکھا اوربہادر شاہ ظفر کے زمانے تک دہلی میں سیکڑوں باکمال شعراء موجود تھے۔ ان میں بخش صہبائی، ابراہیم ذوق، صدرالدین آزاد،مرزا اسداللہ خاں غالب، مصطفی خاں شیفتہ، حکیم آغا جان بخش جیسے کہنہ مشق واستاد شاعر موجود تھے۔جو تحریک آزادی میں اپنے فن کی خوشبو کو پھیلائے ہوئے تھے۔ تحریک آزادی میں اردو شعراء کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے اپنے وطن کی بربادی سے متعلق اپنے شدید غم کا اظہار اپنی غزلوں کے ذریعے نہایت ہی موثر ڈھنگ سے کیا ہے۔ان شعراء میں شہاب الدین ثاقب، داغ، مرزا حسین علی خاں، قربان علی بیگ سالک، مصطفی خان شیفتہ،قادر بخت صابر،ظہیرالدین ظہیر،باقرعلی خاں کامل اور میر مہدی مجروح کے نام شامل ہیں۔یہ سارے ہی شعراء اپنے کلام کے ذریعے ملک کی عوام کو آزادی کا پیام دیتے ہوئے ان سے دردمندانہ اپیل کررہےتھے کہ وہ آزادی کی شمع کو اپنے دل میں جلائے رکھیں اور تب تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد نہیں ہوجاتا۔(ورق تازہ)
1857 کے زمانے میں اردو شاعروں میں مومن اس آزادی کی تحریک سے بے حد متاثر تھے۔مومن شاہ اسماعیل شہید کے ہم سبق اور امیر المومنین سید احمد بریلوی کے مرید تھے۔ مومن خان مومن کی تڑپ اور بیتابی پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر گوپی چند نارنگ رقمطراز ہیں کہ:
انگریزوں کے خلاف ملک میں جو مذہبی اور نیم مذہبی تحریکیں پیدا ہوئیں ، شاہ ولی اللہ دہلوی کی اصلاحی تحریک ان میں سب سے اہم تھی۔ یہ مذہبی اصلاح کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی بڑھتی ہوئی لہر کو بھی روک دینا چاہتی تھی۔ اردو شاعروں میں مومن اس تحریک سے خاص طور پر متاثر ہوئے۔ مومن، شاہ اسماعیل شہید کے ہم سبق اور مولوی سید احمد بریلوی کے مرید تھے۔ ان کے خیالات کا اثر مومن پر اتنا گہرا تھا کہ بقول خواجہ احمد فاروقی : ’’وہ غیر ملکی حکومت کے خلاف جہاد کو اصل ایمان اور اپنی جان کو اس راہ میں صرف کر دینے کو سب سے بڑی عبادت سمجھتے تھے۔‘‘
مثنوی جہادیہ کے چند شعر ملاحظہ ہوں :
عجب وقت ہے یہ جو ہمت کرو
حیات ابد ہے جو اس دم مرو
سعادت ہے جو جانفشانی کرے
یہاں اور وہاں کامرانی کرے
الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب
یہ افضل سے افضل عبادت نصیب
الٰہی اگرچہ ہوں میں تیرہ کار
پہ تیرے کرم کا ہوں امیدوار
یہ دعوت ہو مقبول درگاہ میں
مری جاں فدا ہو تری راہ میں
میں گنج شہیداں میں مسرور ہوں
اسی فوج کے ساتھ محشور ہوں
(ہندوستانی تحریک آزادی اور اردو شاعری ص:290/ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان(حکومت ہند)
اگر ہم غور کریں تو پائیں گے کہ تحریک آزادی کے وقت ہندوستانیوں کو ایک دھاگے میں باندھنے کا کارنامہ جن زبانوں نے کیا ان میں اُردو سرفہرست ہے۔ یہ وہی میٹھی اور دلکش زبان تھی جس کی تحریروں، تقریروں اور شاعری نے ہندوستانیوں کے دلوں کو چھونے، آزادی کے حقیقی معنی سمجھانے اور انگریزوں کے مظالم سے مطلع کرانے کے ساتھ ان کی نئی نئی سازشوں کا پردہ فاش کرنے کا کام کیا اور آزادی کی راہیں ہموار کی۔
وطن کی فکر کر ناداں، قیامت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
—
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
تحریک آزادی کے وقت مذہبی اتحاد، بھائی چارہ، آزادی اور وطن پرستی کی ایسی جھنکار اردو شاعری میں سنائی پڑتی ہے جس نے انقلاب کی شمع ہندوستانیوں کے دلوں میں جلا دی۔ اردو ادب نے لوگوں کو وہ سلیقہ دیا جس سے سوئے ہوئے اور مایوس لوگوں میں امید کی شمع روشن ہو گئی۔ اقبال کے ذریعہ حب الوطنی سے لبریز اور انگریز مخالف جذبات سے پُر شاعری پڑھ کر بھی لوگوں میں ایک جنون پیدا ہوا۔ انھوں نے غلامی پر جھنجھوڑ دینے والی اور خون کے آنسو رلانے والی نظمیں لکھیں۔ جب گاندھی جی نے تحریک عدم تعاون چلایا تو حسرت موہانی اور مجاز لکھنوی جیسے وطن پرستوں کی شاعری نے بھی لوگوں کو بیدار کرنے کا کام کیا۔ یہ وہ دور تھا جب اُردو شاعری میں انقلاب کی آگ نظر آ رہی تھی۔ مجاز لکھنو کے ان اشعار کو ہی دیکھ لیجیے
جلال آتش برق شہاب پیدا کر
ازل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو خود انقلاب پیدا کر
ایسے وقت میں اشفاق اللہ خان کی شاعری نے بھی ہندوستانی عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی اور ان میں نیا جوش پیدا کیا۔ 1857 کے انقلاب نے انگریزوں کے خلاف جس حیرت انگیز ماحول کو پیدا کیا تھا اسے اردو شاعری نے انگریز دشمنی میں بدل دیا۔ غالب اور میر نے بھی غلام ہندوستان کا نقشہ اپنی اُردو شاعری میں پیش کیا اور کچھ ایسے اشعار کہے جس نے لوگوں پر گہرا اثر ڈالا۔ دلّی کی بدحالی اور پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئےمیر تقی میر نے لکھا
دلّی میں آج بھیک بھی نہیں ملتی انھیں
تھا کل تک دماغ جنھیں تخت و تاج کا
—
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
میر کا درد کچھ اس طرح کا ہے جس میں ماضی کی سنہری یادوں کے ساتھ غلام ہندوستان کا رنج بھی ظاہر ہوا ہے۔
پریم چند، سعادت حسن منٹو، علی عباس حسینی، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی وغیرہ ایسے نام ہیں جنھوں نے اُردو میں اپنی لازوال تحریروں سے ملک کی آزادی کا پرچم بلند کیا۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ انگریزوں کی سازشوں کو بے نقاب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پریم چند کے پہلے افسانوی مجموعہ ’سوزِ وطن‘ (1905) کو انگریزوں نے ضبط کر کے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ کئی دوسرے مصنّفین اور صحافیوں کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ منٹو کی کہانیوں ’تماشہ‘، ’نیا قانون‘ وغیرہ میں بھی انگریزوں کے تشدد اور عام آدمی کی تکلیف کو دکھایا گیا جس نے لوگوں میں بیداری پیدا کی۔ اُردو زبان میں ہونے والے اس طرح کے کام سے انگریزوں کی پریشانیاں بڑھ رہی تھیں تو دوسری طرف آزادی کے متوالوں میں جوش بھر رہا تھا۔ تحریک آزادی زور پکڑرہی تھی۔ بڑی تعداد میں لیڈروں صحافیوں، مصنّفین اور لیڈروں کو گرفتار بھی کیا جا رہا تھا۔ لیکن چاروں طرف سے ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے گونجنے لگے اور ’سرفروشی کی تمنا‘ کی آواز ہر دل سے نکلنے لگی تھی۔ اس وقت اخبار و رسائل نے بھی اپنی ذمہ داری نبھائی اورلوگوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کیا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کی تقریروں نے تحریک آزادی میں جو کردار ادا کیااسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page