بخار کی تمازت سے اسکا چہرہ دہک رہا تھا۔ جھریوں بھرے چہرے پر زمانے بھر کی تھکن اور زندگی کے نشیب وفراز کے واضح نقوش تھے۔ اسپتال میں بہت رش تھا، کافی دیر انتظار کے بعد اسکا نمبر آیا۔ جائیے اندرجائیے! نرس خشک وترش لہجے میں بولتی چلی گئی۔۔۔
غریبوں سے اسی لہجے میں بات کی جاتی ہے۔ تلخ سوچوں میں گھرا وہ کیبن میں داخل ہوا،دس روپیے جمع کرائے، اپنی کیفیت بیان کی۔ جواب میں ڈاکٹر نے ڈھیروں ہدایات کے ساتھ گولیوں کی ایک لمبی فہرست تھمادی اور کئی ٹیسٹ بھی لکھ ڈالے۔
مکمل پانچ دن کا کورس۔۔۔! اوہ خدایا۔۔۔! میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں۔۔۔!اُف یہ بیماری بھی غریب کا در ہی کیوں کھٹکھٹاتی ہے۔۔۔؟ مختلف سوچوں میں گھرا بامشکل وہ میڈیکل کی جانب قدم بڑھانے لگا۔دس روپئے فیس جمع کرانے کے بعد جیب میں محض ۲۵ روپیے باقی بچے ہیں۔وہ دل ہی دل میں رب کے حضور دعائیں کرنے لگا۔۔۔میرے اللہ۔۔۔! دوائیوں کا دام کم کر دے۔۔۔! کمزوری کے سبب چلنا اُس کے لیے محال تھا مگروہ اپنے رب کے حضور التجائیں کرتا ہوا،ڈگمگاتے قدموں کیساتھ میڈیکل جا پہنچا اور کانپتے ہاتھوں سے پرچی دکان دار کی جانب بڑھائی۔
دوائیں نکالنے کے بعد دکاندار نے کہا۔۔۲۲۵روپیے نکالیے۔۔۔!
۲۲۵ روپیے۔۔۔ اتنے روپے تو نہیں ہے میرے پاس۔۔۔!
پیسے نہیں ہے۔۔۔؟تو یہاں کس لیے آئے ہو۔۔۔؟ فضول اتنا وقت ضائع کردیا۔میڈیکل والا بڑبڑاتا ہوا دوائیں واپس رکھنے لگا۔
شرمندگی کے مارے اُس سے سر نہیں اٹھایا جارہا تھا اور کمزوری سے قدم۔۔۔اُس کی سوچ گہری ہوتی چلی گئی۔سوچا زندہ رہنے کے لئے شرمندگی تو اٹھانی ہی پڑے گی۔۔۔ جانے کے لیے واپس پلٹا تو اچانک خیال آیا کہ عقیدت سے کھائوں گا توشاید ایک گولی میں ہی شفا مل جائے۔نحیف سے آواز میں کہا۔۔۔ بیٹا ایک ایک گولی ہی دے دو۔۔۔!
میڈکل والا جھنجلا اُٹھا۔۔۔تلخ لہجے میں کہا۔۔۔اب کہاں سے آگئے ر وپیے۔۔۔پچاس روپیے لگیں گے۔۔۔!
میرے پاس تو اتنے۔۔۔اُس نے آہستہ سے کہا۔۔۔
جاؤ بابا وقت ضائع نہ کرو۔۔۔
بوڑھے نے کچھ کہنا چاہا مگر بات اُس کے منہ میں ہی رہ گئی۔ میڈیکل والا دوسرے گراہکوں کی جانب متوجہ ہوگیا۔
وہ بمشکل قدم اٹھاتا ہوا،اپنی قسمت کو کوستاہوا قدم بڑھانے لگا۔۔۔ایک تو بیماری کی کمزوری،سورج کی تپش،اُس کے پائوں تھکن سے چور چور ہوچکے تھے کہ اچانک اُس کے کانوں میں اذان کی آواز سنائی دی۔ اُس نے اپنے اطراف کا جائزہ لیا۔۔۔وہ چلتا ہوا منظور پورہ علاقہ میں آچکا تھااُس کے قدم خود بخود نورانی مسجد کی جانب اُٹھ گئے۔وہ اکثریہاں جمعہ کی نماز اداکیا کرتا تھا۔ یوں بھی کمزوری کے باعث قدم اٹھائے نہیں جا رہے تھے۔وہ نورانی مسجد کے گیٹ کے سہارے مسجد میں داخل ہوگیا۔
نماز ختم ہوچکی تھی،لوگ مسجد سے چلے گئے تھے۔وہ بھی مسجد کی اندرونی جالیوں کے سہارے کھڑا ہوااور دیوار کے سہارے باہر جانے لگا۔مسجد کے صحن میں چندلوگ باتیں کررہے تھے۔
امجد صاحب، کامران صاحب ایک بات بتائیے آپ لوگ اتنے مطمئن اور ہشاش بشاش کیسے نظرآتے ہیں۔
اُن لوگوں کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کردیا۔
پانچ سے چھ لوگوں کے ہجوم میں ایک کم عمرنو جوان،اُن دونوں سے مخاطب تھا۔
اس نے بغور ان کی جانب دیکھا،پُر سکون مطمئن چہرے،بارعب شخصیت،عاجزی عیاں۔۔۔
نوجوان کے سوال نے سے اُن کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوگئی تھی۔
ہنہ امیر لوگ مطمئن اور پُر سکون ہی ہوتے ہیں۔۔۔ ساری بے سکونی تو ہم غریبوں کا مقدر ہوتی ہے۔۔۔ تلخ سوچوں نے پھر دھاوا بول دیا تھا۔۔۔اس سے پہلے کے مزید کچھ سوچتا کمزوری سے لڑکھڑا کے گر گیا۔۔۔
دونوں نوجوان اُس کی جانب دوڑے۔۔۔ اُس نے بھی دونوں کو اپنی جانب آتے دیکھا اُن میں سے ایک نے اس کا ہاتھ پکڑ کر، سہارا دے کر بیٹھایا۔۔۔
ارے آپ کو تو تیز بخار ہے۔۔۔!چلیے اوپر ہی ہمارا دواخانہ ہے۔
ہنہ۔۔۔! دوا خانہ ۔۔۔ یعنی بھاری فیس!وہ بڑ بڑا یا۔۔۔
وہ اُسے دواخانہ لے جانے لگے۔۔۔
ارے۔۔نہیں۔۔۔میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔۔۔
گھبرایے مت۔۔۔! یہاںمعمولی فیس لی جاتی ہے۔۔۔اُن میں سے ایک نے کہا۔۔۔
بوڑھا بولا۔۔ کم فیس لیتے ہیں مگر دوائیوں کے نام پرمہنگی دوائیں لکھ دیتے ہیں۔۔۔وہ تلخیٔ سے بڑبڑا تا ہوا کہنے لگا۔۔۔ مگر پورے الفاظ ادا بھی نہ کرپایا تھا کہ کمزوری کے سبب بیہوش ہوگیا۔۔۔
جیسے ہی آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو ہسپتال کے صاف ستھرے کمرے میں پایا اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ میں سوئی کی چبھن کا احساس بھی ہوا۔۔۔!
اف۔۔۔! یہ سلائن کا خرچ۔۔۔ شرمندگی کے احساس نے اُسے پھر گھیر لیا تھا۔۔۔
اُسے آنکھیں کھولتا دیکھ۔۔۔ایک منحنی سی شخصیت کی مالک،خوبصورت لڑکی اُس کی جانب بڑھی،وہ ڈاکٹروں والا ایبرون پہنے ہوئے تھی۔ایک پیاری سی مسکراہٹ نے اُس کا استقبال کیا۔ امجد صاحب قریب ہی کھڑے تھے انھوں نے سہارا دے کراُسے بیٹھایا۔ کچھ دیر کے آرام اور سیلائن کے باعث اب وہ قدرے بہتر محسوس کر رہا تھا۔۔۔مگر سوچوں میں کھویا ہوا۔۔۔شرمندگی کا احساس اُسے پریشان کررہا تھا۔
کچھ دیر بعدڈاکٹر نے اسکا چیک اپ کیا اور دوائیاں تھماتے ہوئے ہدایات دینے لگا۔
مگر بوڑھا تو اپنی ہی پریشانی میں تھا۔۔۔شرمندگی کا احساس اُسے مزید پریشان کررہا تھا۔۔۔وہ بڑی مشکل سے کہہ پایا۔۔۔ یہ دوائیاں۔۔۔ میرے پاس تو پیسے بھی نہیں ہے۔
ارے نانا جان۔۔۔! یہاں دودن کی دوائیں مفت دی جاتی ہیں۔۔۔
وہ تو ٹھیک ہے۔۔پر آپ کی فیس۔۔۔
وہ آپ کی دعائیں ہیں نا۔۔۔ آپ کو کچھ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔!
یا میرے اللہ!۔۔۔ تو کس کس طرح سے بندے کی ضروریات پوری کر دیتا ہے۔۔۔ مارے تشکر کے اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
کامران صاحب نے اٹھ کر انہیں اپنے گلے لگا لیا اور تسلی دینے لگے۔۔۔ اب جب بھی ضرورت ہو وہ یہاں آسکتے ہیں۔۔۔
گولیاں اٹھا کر وہ جانے لگا تودونوں صاحبان اُسے نیچے گیٹ تک چھوڑنے آئے۔۔۔گھر چھوڑنے کاپوچھا تو اُس نے کہا کچھ دیر مسجد میں رکوں گا۔۔۔وہ دنوں واپس اسپتال چلے گئے۔۔۔
بے اختیاراُس کے دل سے دعا نکلی۔۔۔ مولا ان لوگوں کو صدا خوش رکھنا۔جس طرح میری مشکل حل کی ہے ان کی بھی ساری مشکلات حل کرنا۔۔۔!اور باہر کی جانب چلا چند قدم چل کر پھر واپس پلٹا اور مسجد میں سوال کرنے والے نوجوان کو مخاطب کر کے کہنے لگا بیٹا تم پوچھ رہے تھے نہ یہ دونوں اتنے مطمئن کیوں رہتے ہیں۔۔۔ اپنی دوائیوں کی جانب اشارہ کرکے کہا۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے۔۔۔!
امجد صاحب اور کامران صاحب دواخانے کی گلیلری سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔۔بے ساختہ مسکرا دیے،دل ہی دل میں رب کا شکر ادا کیا کہ انھیں اس قابل بنایا،اُن کادل رب کی باگارہ میں سجدہ ریز ہوگیا تھا،آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور فضا خلوص کی خوشبو سے مہکنے لگی اور نوجوان کو اپنے سوال کا جواب بھی مل گیا اور زندگی گزارنے کی صحیح راہ بھی۔۔۔
تزئین فاطمہ نورالغوث نقشبندی
اورنگ آباد (دکن)مہاراشٹر
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page