اردو فکشن کی دنیا میں جیلانی بانو کا نام نہایت ہی عزت و احترام کا حامل ہے ۔مصنفہ یوں تو بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں لیکن انہوں نے ناول نگاری کے میدان میں بھی ایک الگ شناخت قا ئم کی ہے۔’’ـــــــایوان غزل‘‘ان کا ایک شاہکار ناول ہے جو (۱۹۸۵) میں شائع ہوا۔اس ناول کا نام پہلیـــــ ’’عہد ستم‘‘ تھالیکن جس وقت یہ پریس میں تھا اس وقت ایمرجنسی کی وجہ سے کتابوں پر سنشر شپ عائد تھی اس لئے اس کا نام بدلنا پڑا اور یہ ناول ’’ایوان غزل‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔جیلانی بانو نے جس وقت اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا وہ تر قی پسند تحریک کے عروج کا آخری زمانہ تھا ۔حیدر آباد کے جاگیردانہ معاشرے کی جگہ ایک نئی تہذیب پنپ رہی تھی ۔اس ناول میں انہوں نے آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد حیدرآباد کی سیاسی و سماجی تبدیلیوں اور بدلتی تہذیب و ثقافت کو موضوع بنایا ہے ۔’’ایوا ن غزل‘‘کی تخلیق کے متعلق لکھتی ہیں ۔:
’’اس ناول کو میں نے ایک شدید کرب جیسی کیفیت سے شروع کیا تھا کیوں کے اس کا موضوع میرے ذہن
پر ایک بوجھ بنا رکھا تھا ۔میں چاہتی تھی کہ اس بکھرتے ٹوٹتے حیدرآباد کا سا را درد کسی طرح اپنی تحریر میں سمیٹ لوں تا کہ یہ ایک خواب کی طرح دماغ سے محو نہ ہوجا ئے ا س کے ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتی تھی کہ ایک مخصوص تہذیب کے
زوال پذیر ہونے کے جو محرکات تھے ان کو محسوس کروں ۔اس لیے مجھے ان بدلتے ہوئے حالات کے عوامل تلاش کرنے
تھے اور اس اخلاقی اور معاشی زوال کے اسباب بھی دیکھنے تھے جو حیدرآباد کی سماجی زندگی میں شروع ہوئے تھے ۔اس
لئے مجھے ناول میں ماضی کو پیش کرنا پڑا تا کہ میں ماضی کے سہارے حال اور مستقبل کے امکانات کو موضوع بنا سکوں ۔‘‘ ؎۱
’’ایوان غزل‘‘ ایک ایسا ناول ہے جس میں جیلانی بانو نے احمد حسین اور واحد حسین کے زوال آمادہ خاندان کی تصویر کو ہمارے رو برو کیا ہے۔اس ناول میں محمد حسین اپنی اہلیہ ،بی بی ،۔لنگڑی بہن گوہر اور بیٹے راشد اور اس کی بیوی رضیہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ان کی دونوں بہنیں بشیر بیگم اور بتول بیگم کی شادی مختلف رنگ ڈھنگ کے گھرانے میں ہوتی ہے ۔ایک قدیم خیالات کے پروردہ تو دوسرے نہایت مورڈن ٹائپ ۔بشیر بیگم کے شوہر حیدر علی خاں جو ترقی پسند خیالات کے حامل ہیں جب کہ بتول بیگم کے سسر اللہ والے ہیں اور ان کے شوہر ہمایوں بھی کچھ عجیب ہیں ۔اس ناول میں مرکزی کردار چاند اورغزل کے ہیں ۔چاند حیدر علی خاں کی بیٹی ہے اور غزل بتول بیگم کی بیٹی ہے جو اس ناول کی اصل ہیروئن ہے ۔جیلانی بانو کے اس ناول میں بہت سے کردار ہیں جو الگ الگ عمر کے اور الگ الگ طبقوں کی ترجمانی کرتے ہیں ۔
چاند اور غزل نہایت ہی حسین و جمیل لڑکیاں ہیں ۔چاند جو ایک طرف اپنے نانا نانی سے زیادہ اپنے ماموں راشد کی آنکھوں کا تارہ اور اپنی ممانی رضیہ کی دلاری اور دوسری طرف حیدر خاں کی محبت و شفقت کا محور اس کی پرورش ایک آزادانہ ماحول میں ہو تی ہے کیونکہ اس کے والد ایک ترقی پسندخیالات کے حامی ہیں ۔لیکن چاند کی فیشن پرستی نانا واحد حسین کو با لکل پسند نہیں ۔لیکن وہ اپنی عمر کے ایسے پڑائومیں داخل ہو چکے ہیں کہ جہاں ان کے لیے اپنی بات منوانے کی کوئی صورت ہی پیدا نہیں ہوتی ۔یہی وجہ ہے کہ وہ خامو شی کے ساتھ بس اس منظر کے تماشائی بنے رہتے ہیں ۔اپنے سے زیادہ چاند اپنے ماموں راشد کی شفقت کا مرکز بنتی ہے ۔راشد جو خود زندگی کے دور اہے پر کھڑا ہے۔اور نئی منزل کی تلاش کررہا ہے۔وہ چاند کی خوبصورتی کو اپنے بزنس کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔وہا ں اس کے لیے چاند ایک مفید ہتھیا ر ثابت ہو تی ہے۔:
؛وہ(راشد) بزنس کے اصول پڑھ رہا تھا اور جانتاتھا کہ چاند جیسی تہذیبب یافتہ اور فیشن ایبل لڑکیوں کا بھائو کتنا بڑھا ہوا ہے ۔
اتنا کہ لوگ چاہیں تو ان کے سہارے لا کھوں کا کنڑیکٹ لے لیں ۔‘‘ ۲ ؎
؛چاند کی اس خوبصورتی کے بدولت راشد کے بہت سے بگڑے کام سنور گئے تھے کیوں کہ وہ چاند جیسی خوبصورت لڑکی کا ماموں تھا۔ بڑے بڑے سرکاری فنکشنوں میں اس کا پروگرام ہوتا تھا ۔کالج کے ہر ڈرامے کی ہیروئن وہی ہوتی ۔اخبار اس کے آرٹ پر مضامین لکھتے تھے ۔اس طرح اونچے اونچے طبقے میں وہ خود پہنچ گئی تھی بلکہ اس نے راشد کو بھی پہنچا دیا تھا ۔‘‘ ۳ ؎
چاند کی زندگی میں ایک اہم موڑ سنجیوا سے ملاقات کے بعد آتا ہے ۔جس کی محبت میں گرفتار ہو کر وہ اپنا جسم ہی نہیں بلکہ اپنی روح کی ساری عفت نچھاور کر دیتی ہے ۔حیدر علی خاں جب اپنی سیاسی سر گرمیوں کی وجہ سے کمزور پڑ جاتے ہیں تو اپنی خیریت کہلوانے کے لیے سنجیوا کو چاند کے پاس بھیجتے ہیں ۔سنجیوا سے چاند کی پہلی ملا قات کا منظر دیکھیے۔:
’’خط پڑھ کر چاند نے نظریں اٹھائیں تو گھبراگئی ۔وہ سیام فام نو جوان اسے ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا چند سیکنڈکے بعد چاند نے گھبرا کر پوچھا ۔۔۔بابا آج کل کہاں ہیں ۔؟: بہت دور؛ اس نے اسی محویت کے عالم میں جواب دیا کیا آپ بھی بابا کے ساتھی ہیں ؟؛ہا ں میں ایک مجسمہ ساز ہوں ۔اپنا کام چھوڑ کر پارٹی میں شریک ہو گیا ہوں ؛لیکن ابھی آپ کو دیکھ کر خیال آیا کہ مجھے اپنا کام نہیں چھوڑنا چاہئے ‘‘کیوں ،چاند ہنس پڑی ۔اجنبیوں سے خوش اخلاقی برتنے میں وہ ماہر تھی ۔کیونکہ مجھے غافل پا کر خدا مجسمہ سازی کے فن میں بہت تر قی کر رہا ہے وہ آپ جیسی حسین شبیہ بنا نے لگا۔‘‘
یہ کمیونسٹ ورکر سنجیوا بھی کچھ عجیب و غریب قسم کا انسان تھا ۔وہ چاند کی خو بصورتی میں مد ہوش ہونے کے باجود اسے حاصل کرنے کی کوشش نہ کر سکا کیونکہ یہ ایک الگ سوچ رکھنے والا انسا ن تھا ۔اس کے لئے اپنے سیاسی مفید کے حصول کے پیش نظر جسمانی قربت کہ بہ نسبت ذہنی ہمدردی اور وابستگی زیادہ اہمیت رکھتی تھی ۔اس کا مقصد تھا غیر طبقاتی ریاست کا قیا م اور جاگیر دارانہ قسم کی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔چاند سنجیوا میں کشش محسوس کرنے کے باوجود اسے اپنے لئے تیار نہ کر سکی کہ وہ اسے اپنا ہمسفر بنالے۔اور سنجیوا اسے اپنے مقصد کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھ کر ٹھکرا دیتا ہے ۔اور پھر وہ واحد حسین کی نا جائز اولاد فاطمہ بیگم کی بیٹی قیصر سے شادی کر لیتا ہے ۔قیصر اور سنجیوا کے مزاج میں ایک حد تک مماثلت پائی جاتی ہے کیونکہ وہ معاشرے کے استحصال کا شکا ر نہیں ہوتی اور ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے ۔ان وجوہات کے پیش نظر قیصر جب ایک بچی کو جنم دیتی ہے جس کا نام کرانتی ہے تو وہ خود اسے چاند کے سپرد کر آ تی ہے کیونکہ سنجیوا اور قیصر کے سر پر ہمیشہ موت کی تلوار لٹکتی رہتی تھی ۔اور بلآخر قیصر کو بغا وت کے الزام میں پھانسی بھی ہو جاتی ہے ۔اور وہ بلا جھجھک موت کو گلے لگا لیتی ہے ۔ کیو نکہ وہ چاند اور غزل کی طرح معا شرے کے استحصال کا شکار نہیں ہونا چاہتی تھی ۔ایک جگہ وہ غزل سے کہتی ہے ۔:
’’رونا چھوڑو غزل ۔بلکہ اپنی روش بدلو ؛قیصر نے اسے گلے لگا کر کہا ؛ چاند کی طرح مرد وں سے کھیلنا چھوڑدو
جسم کے علاوہ دماغ بھی تو ہے تمہارے پاس وہ کیوں نہیں بیچتی‘‘ ۴ ؎
قیصر کا کردار اس ناول میں مختصر سا ہے لیکن بہت جاندار ہے ۔وہ نہ صرف دل و دماغ سے سوچتی ہے بلکہ حالات کو بدلنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے ۔ادھر چاند سنجیوا کی بے رخی کی وجہ سے ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔لیکن وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک سنجیوا کی یادوں کو اپنے سینے سے لگائے رہتی ہے کیونکہ سنجیوا سے اس کا رشتہ جسم سے زیادہ روح کا تھا ۔ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد وہ کسی کا م کی نہیں رہتی اس لیے اس کا ماموں راشد اور ممانی رضیہ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور آخر کار چاند سنجیوا کی بیٹی کرانتی کو گلے لگا کر مر جاتی ہے۔چاند کا کردار اس ناول میں بڑے ہی دلکش طریقے سے پیش کیا گیا ہے جو دو تہذیبوں کے درمیا ن مسخ ہو کر رہ جاتا ہے ۔چاند کی موت پر غزل کے احساسات ملاحظہ کیجیے ۔جو اسے اپنے لیے ایک قابل تقلید نمونہ تصور کرتی تھی ۔
’’غزل کو یوں لگا جیسے اس کی ماں آج پھر مر گئی ہو۔چاند آپا کو اس نے سب سے زیادہ چاہا تھا و ہ اس کا سورج تھیں ۔اس کی زندگی اس وقت چاند کے چہرے پر اس کی وہ مشہور روایتی خوبصورتی پھر لوٹ آئی تھی جس نے اسے سارے حیدرآبادمیں مشہور کر دیا تھا ۔اس کے چمکتے ہوئے چہرے پر پندرہ سولہ برس والی لڑکیوں کی معصومیت اور شادابی تھی ۔اس کے گلابی ہونٹ کنول کی کچی کلیوں کی طرح پاک لگ رہے تھے ۔اور اس کے نازک بدن پر کنوارے پن کا نکھار تھا ۔سفید کفن میں اس کے سیاہ بالوں کی لہرے دار لٹیں کانپ کر اس کی زندگی کا یقین دلا رہی تھیں ۔اور غزل سوچ رہی تھی اس موہنی صورت کو لوگ کیسے مٹی میں ملا دیتے ہیں ‘‘ ۵ ؎
غزل کا کردار چاند کی بہ نسبت زیادہ پیچیدہ اور مبہم ہے ۔چونکہ غزل کا بچپن چاند کے بر عکس فرسودہ ماحول میں گزرتا ہے۔اور اس کا تعلق بیک وقت الف لیلی اور ایوان غزل کے ماحول سے بھی رہا ہے ۔لیکن دونوں ہی جگہ اس کے وجود کی کوئی اہمیت نہیں رہی جہاں وہ ایک طرف اپنی ماں کی بے وقت موت کا صدمہ لیے پھر تی ہے و ہیں باپ کی بے حسی اور نفرت کا شکار ہے اور اس کے ماموں راشد کا ایک ناپاک ذہن ہے جو اسے ذخیرہ اندوزی کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔ایک مرتبہ چاند نے عزل کو نصیحت کرتے ہوئے بہت سہی بات کہی تھی ۔
’’میں تو صرف چھبیس برس میں موت کے کنارے کھڑی ہوں لیکن غزل تو خود چلنا چھوڑ دے ۔اپنی تقدیر خود بنانے کا حوصلہ ہر عورت میں نہیں ہوتا اس لیے اپنی باگیں بی بی کے ہا تھ میں تھما دے ورنہ راشد ماموں اور خالو پاشا تجھ سے اپنی کامیابیوں کی نقل کھولیں گے اور تجھے پھینک دیں گی۔ ‘‘ ۶ ؎
راشد اپنی بیٹی فوزیہ اور شاہین کے ذہن میں بھی غزل کے لیے نفرت پیدا کرتا ہے ۔غزل اپنے ماموں زاد بھائی بہن کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے ۔چونکہ وہ بچپن سے ہی محبت کی بھوکی رہتی ہے ۔اس لیے وہ جذباتی اور ذہنی طور پر بکھر جاتی ہے اور جیلا نی بانو کے الفاظ میں :۔
’’لیمو اور مٹھائی کھاتے دیکھ کر تو سب ہی کے منھ مین پانی آتا ہے مگر کسی بچے کو اس کی ماں سے پیار کرتے دیکھ
کر جیسے بھوک بھڑک ا ٹھتی ہے۔‘‘ ۷ ؎
اس اقتباس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ غزل محبت کی کتنی پیاسی ہے ۔ایسے میں جہاں کوئی اس سے دو چار میٹھے بول بولتا وہ فوراً پگھل جاتی اور محبت کے جھوٹے وعدوں پر ایمان لے آتی۔جیلانی بانو لکھتی ہیں :۔
’’وہ اپنی جانب محبت سے دیکھنے والی نگاہ پر سات خون معاف کر دیتی تھی کیونکہ ایسی نگاہیں بہت کم ملتی تھیں ۔‘‘ ۸ ؎
اور سب سے پہلے وہ بھان صاحب کی تیکھی نظر کا شکار بنتی ہے ۔اور وہ اس پر عنایتوں کی بارش کرنے لگتا ہے۔جس طرح اس نے چاند کو نشانہ بنایا تھا ۔چاند کے لیے اس نے راشد کی وساطت کا راستہ ڈھونڈا تھا اور غزل کے لیے وہ ہمایوں کی غربت سے فائدہ اٹھا کر غزل کو اپنے لیے وقف کر لیتا ہے ۔اس ڈرامے کے بیچ بلگرامی کی آمد ہوتی ہے ۔جو انتہائی خوب رو قسم کا نوجوان تھا ۔اور جب وہ غزل سے کہتا ہے کہ وہ اس کی خاطر یہاں آیا ہے تو غزل سوچتی ہے ۔
’’میری خاطر ،میری خاطر ،میرے لیے یہ اتنا خو بصورت آدمی ،اتنا بڑا آدمی ،اتنا مشہور ،اس کی ہر ادا پر چاند سے لے کر رضیہ ممانی تک مرتی تھیں ۔اس کے پیچھے عورتیں آٹو گراف بک لے کر پھرتیں ۔یہ خوبصورت شہزادوں کی صورت میرے لئے ۔یا اللہ آج کیا ہو رہا ہے کہیں میں مر نہ جاوئں ۔بلگرامی کا وہ جملہ جانے کتنے رنگوں میں ڈودبا کتنے چاند بن کر چمکا ۔بارش بن کر آسمان سے آیا اور غزل کے سارے وجود کو سرشار کر گیا اب کیا رکھا تھا اس میں جو وہ اس میں سینت کر رکھتی ۔‘‘ ۹ ؎
لیکن یہا ں بھی غزل کو دھوکہ ہوتا ہے بلگرامی اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اس سے شادی کرنے کے جھوٹے وعدے کرتا ہے اور ایک دن وہ اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے ۔ان سب واقعات کے پیش نظر جیلانی بانو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ کس طرح معاشرے میں عورتوں کے ساتھ استحصال کیا جاتا تھا اور مرد انہیں محض جنسی عیاشی کا ذریعہ سمجھتے تھے ۔اس معاشرے میں غیر عورتوں سے تعلق رکھنا ایک عام بات تھی ۔جیلانی بانو لکھتی ہیں ۔:
’’اس وقت قاعدہ تھا کہ سب ہی نواب دل بہلانے خوبصورت لڑکیوں کو محل میں شامل کر لیتے تھے ۔یہ لڑکیاں غریب ماں باپ کے یہاںفاقے کرتیں یا کسی نکمے جاہل آدمی سے بیاہی جاتیں تھیں ۔لیکن محلوں میں انہیں شاندار گھر ملتے ان کے نام پر جاگیریں ہوتیں ۔ان کی اولاد کا مستقبل د رخشاں ہو جا تا تھا ۔ان کے ماں باپ الگ بخشش سے قسمت سنوار لیتے تھے مگر پھر بھی دنیا میں روتے پھرتے کہ ان کی لڑکیوں کو زبردستی نواب لوگ اٹھالیتے ہیں ۔‘‘ ۱۰ ؎
اس اقتباس کی روشنی میں جیلانی بانو نے سماج کے اس دوغلے پن کو بھی بے نقاب کیا ہے جو اپنی بیٹیوں کا سودا کر کے عیش کرتے تھے اور دوسری طر ف سماج کی بری نظروں سے بچنے کے لیے جھو ٹا رونا روتے ۔یہاں غزل بھی اپنے باپ کی اس وحشیانہ حرکت کا شکا ر ہے ۔
کچھ عرصے کے لیے غزل راجہ شیوراج اور خورشید آ پا کا سہارا ڈھونڈتی ہے لیکن زند گی کے اس نشیب و فراز میں وہ اور بھی الجھتی جاتی ہے ۔اور ایک دن خورشید آپاجو نہایت ہی منھ پھٹ اور بے شرم قسم کی ہیں اور جن کے بارے میںکہا گیا ہے ؛۔ریڈیو ڈرامے میں بڑے ٹھٹے کے ساتھ کام کرتیں کیا مجال کہ ریہرسل کے وقت کوئی ڈائریکٹر کا بچہ چوں بول جائے ۔ایسی فحش گالیوں کی بوچھار کرتیں کہ ڈھیٹ سے ڈھیٹ مرد بھی شرما جائیں ۔‘‘ ۱۱؎وہ غزل سے کہتی ہیں ۔
’’راجہ شیوراج ہے نا وہ تم پر بری طرح مرتا ہے کئی با رمیرے پاس آیا مگر تم بلگرامی کے چکر میں پھنسی ہوئی تھی غزل جھینپ گئی ۔‘‘ ۱۱ ؎
اپنے مسحور کن حسن کی تعریفیں سن کر پگھل جانے والی یہ غزل راجہ شیوراج کی پیاس کا شکار نہ ہو پائی کیونکہ وہ اس کے لیے ہرگز تیار نہ تھا ۔شیوراج کے ہاتھو ںاپنی تذلیل کے بعد غزل کی ملاقات سرور سے ہوتی ہے جو حامد میاں کی بیوی کا سگا بھائی اور حیدرآباد کا ایک مشہور شاعر ہے ۔یہ مرد کچھ الگ خیالات کا تھا ۔اور ذہن و دل سے پاک وصا ف ہے ۔وہ غزل کے ساتھ ہو ئے تمام واقعات سے باخبر ہونے کے باوجود اسے اپنے تخیل کی وادیوں کی سیر کرانا چاہتا ہے اور اپنے شعری وجود کو اس میں تحلیل کر دینا چاہتا ہے ۔لیکن غزل کے ذ ہن میں اس وقت کچھ اور خیالات منڈلا رہے تھے ۔اس کی اس پیشکش پر چونک پڑتی ہے۔
؛وہ غزل کے سارے آنسو سب سسکیاں اپنے رومال میں سمیٹ کر چلاگیا ۔پلنگ پر سونے لیٹی تو ٖغزل نے سوچا وہ بائیس تئیس برس کا ہو گا ۔
مگر اس کا انداز کیا ہے جیسے وہ بڑائی کے قطب مینار پر کھڑا ہے۔یہ کیسا انوکھامرد تھا غزل نیآج پہلی بار ایک اجنی مرد ایسا دیکھا تھا جو اس کی جوانی کو بالکل راشد ماموں کی طرح نظر انداز کر رہا تھا ۔حالانکہ اسے دیکھتے ہی مرد اپنی عقل اور صبر دونوں کھو بیٹھتے تھے۔‘‘ ۱۲ ؎
لیکن غزل اس مرد کی شرافت پسندی کو د یکھ کر تذبذب میں پڑی ہوئی تھی وہ اس پر شک کرتی ہے کہ کہیں اس کے اندر بھی وہی وحشیانہ حرکت تو نہیں پوشیدہ ہے جس کا تجربہ اس سے پہلے اسے بارہا ہو چکا تھا ۔وہ امید کرتی ہے کہ سرور اسے اپنی آغوش میں آنے کی دعوت دے گا ۔اور اسے اپنی خوشیوں میں شریک کرے گا ۔لیکن وہ اسے اپنی تخیلی کائنات کے آب و رنگ اور تب و تاب کا واسطہ دینے لگا ۔
’’میں جانتا ہوں کہ کہ تمہیں مردوں نے اتنے دھوکے دیے ہیں کہ اب تمہیں کسی پر اعتبار نہیں رہا لیکن میری شاعری میںتم ہمیشہ زندـہ۔‘‘۱۳ ؎
سرور کے ان پاکیزہ جملوں ،سادگی ،شرافت ،اور جذبہ ایثار میں اسے ایک تصنع نظر آنے لگا۔اور اس طرح غزل نجات کے دروازے سے واپس لوٹ آتی ہے ۔
جان صاحب ،بلگرامی،شیوراج اور سرورکے بعد غزل کی ملاقات نصیر سے ہوتی ہے جب و ہ حیدرآباد میں اپنے چچا واحد حسین کے یہاں فوزیہ کی منگی میں شرکت کرتا ہے۔غزل کو دیکھ کر نصیر کے ہوش اڑ جاتے ہیں ۔اور اسے حاصل کرنے کے لیے اپنے جال بننے شروع کر دیتا ہے جیسے بھان اور بلگرامی نے بنے تھے ۔بھلا غزل ایسے جال سے بچ کر کہاں بھاگ سکتی تھی ۔نصیر اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کی خاطر اسے باقاعدہ رشتئہ ازدواج کا جھوٹا وعدو کرتا ہے اور غزل اسے اپنا سب کچھ سونپ دیتی ہے ۔
’’نصیر کے پیار کی گرمی اس کے لیے بہت پرانی سی با ت ہو چکی تھی وہ بالکل گرہست بیویوں کے انداز میں اپنا آپ اس کے حوالے کر دیتی تھی ۔اس نے تو اپنی روح پہلی بار ایک مرد کو سونپی تھی اور اس کے بعد ہر چیز بھول جانا چاہتی تھی ۔‘‘ ۱۴ ؎
لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی غزل کو دھوکہ ہوتا ہے اور ایک بار پھر وہ بد نصیبی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈھکیل دی جاتی ہے ۔اور یہاں اس کے جسم کے ساتھ روح کو بھی دھوکہ ہوتا ہے ۔کیونکہ نصیر ہی وہ شخص تھا جس میں غزل کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے امکانات نظر آرہے تھے ۔نصیر سے جدائی کے بعد ایک بار پھر وہ تنہائی کا شکا ہو جاتی ہے ۔ اور جب فوزیہ نکاح کے وقت روتی ہے تو غز ل سوچتی ہے؛
’’پاگل میں ہوتی تو اسی خوشی کے مارے مر جاتی کسی ایک کی ہو کر مر جانے کا سکھ کیسا ہوتا ہوگا !مجھے فوزیہ کی زندگی کا ایک ہی لمحہ مل جائے تو۔‘‘ ۱۵ ؎
غزل چاہتی تھی کہ اسے بھی کسی کا پر خلوص پیار ملے ۔لیکن پیار اور محبت کے نام پر اسے صرف دھوکے ہی ملتے ہیں ۔وہ مردوں کے لئے ایک کھلونا بن کر رہ جاتی ہے کی جب جی چاہا کھیلا اور پھر اسے پھینک دیا ۔مردوں کے اس غیرذمہ درانہ رویے نے غزل کو اس طرح مجبور کر دیا تھا کہ اس کا مردوں پر سے اعتبار اٹھ چکا تھا ۔اس لیے جب اس کا ماموں زاد بھائی شاہین اس سے شادی کرنے کو راضی ہوتا ہے تو وہ حیران رہ جاتی ہے۔غزل ننہال اور ددھیہال دونوں جگہ احساس کمتری کا شکا ر ہوتی ہے،اس لیے شادی کے بعد بھی اس کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔وہ سوچتی ہے ،کہ اوروں کی طرح جسم کا مطالبہ ہی اسے شاہین تک لایا ہے۔اس کا خیال تھا ک شاہین اسے ایک بیوی کی حیثیت سے اپنی زندگی میں درجہ دینے کے لیے تیار نہ تھا وہ اسے صرف ایک بازاری عورت تصور کرتا ہے۔غزل کی اس نفسیاتی کیفیت کی جھلک درج ذیل اقتباس میں ملاحظہ کیجیے ۔
’’اور اس عقد مسعود کی رات غزل بار بار سوچ رہی تھی کہ لڑکیاں کتنی جھوٹ بولتی ہیں اس وقت کے بارے میں ۔مجھے تو شہنائی کے سروں میں کوئی نشہ گھلتا بہیں لگ رہاہے،نہ تو چند تارے کہیں جھٹک رہے ہیں اور نہ میرے دل میں کہیں کلیاں لہک رہی ہیں ۔ایوان غزل کی ساری اداسی اور مایوسی کا اندھیرا میری طرف بڑھتا چلا آرہا ہے ۔گھبرا کر وہ نصیر والی ہیرے کی انگوٹھی کو بار بار اتارتی پھر پہن لیتی ۔تب شاہین اس کے پاس آیا اور اس کی ٹھوڑی اٹھا کر بولا غزل اب ڈرنا چھوڑدو
۔۔۔۔۔سوچنا چھوڑدو۔۔۔آج سے وہی ہوگا جو تم چاہوگی ۔۔۔۔نہیں نہیں وہ چلا کر روپڑی۔‘‘ ۱۶ ؎
شاہین اس کا بہت خیال رکھتا ہے۔وہ ہر بات اس سے پوچھ کر کرتا ہے۔مگر غزل جس کی محبت کو آج تک سارے مرد ٹھکراتے آ رہے تھے وہ بھا اتنی محبت کہاں سینت کر رکھتی ۔اسے شاہین کی ہر ادا میں مصنوعی پن کی جھلک نظر آتی ہے ۔اور اسے لگتا ہے کہ شاہین وہ مرد نہیں جس کے ساتھ اس نے زندگی گزارنے کے خواب دیجھے تھے ۔وہ شاہین کو بس فرض سمجھ کر نپٹاتی ہے ۔ادھر نصیر نے پاکستان جا کر نفیس بیگم سے شادی کر لی تھی ۔اور عیش و آرام کی زندگی گزار رہاتھا ۔وہ کچھ عرصے کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ ہندوستان آتا ہے اور پھر حیدرآباد پہنچتا ہے ۔غزل اور نصیر کچھ دنوں تک ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں ۔لیکن انتہائی خطرناک موڑ اس وقت آتا ہے جب نصیر تنہائی میں موقعہ پاکرغزل کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے ۔
’’جانے کتنی کوششوں کے بعد نفیس اور شاہین سے بچ کر وہ یہاں آیا تھا ۔آج پورے د س برس کے بعد نصیر اس کے سامے کھڑا تھا ۔اسے نفیس اور شاہین بھی یاد نہیں آرہے تھے ۔نصیر اس کے اور قریب آگیا اتنے قریب کہ اس سے وہ بے اختیار لپٹ گئی ۔مگر نصیر نے اپنی کمر سے اس کا ہاتھ نکال کر تھاما ،غزل یہ انگوٹھی مجھے دیدو اما جان کہتی تھیں کہ یہ انگوٹھی نفیس کو پہننا چاہئے ۔‘‘ ۱۷ ؎
اور آخر کار برسوں سے پڑی اس کی انگلی میں یہ انگوٹھی نصیر اتار لیتا ہے ۔غزل اس صدمے کو برداشت نہیں کر پاتی ہے ۔اور اس طرح محروم حسرت و ویاس سے بھری ایک تشنہ زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔جیلانی بانو نے غزل کو ناول کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کر کے ایک خاص عہد ا ور طبقے کی تمام خرابیو ں کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے ۔ساتھ ہی آزادی اور انقلاب کی جو تحریکیں پنپ رہی تھیں ان کی بھی نشاندہی کی ہے ۔
ناول میں کرداروں کی بھرمار ہے۔واحد حسین سے لیکر کرانتی تک ہر کردار اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے اور ناول کے موضوع اور اس کی رفتار کو آگے بڑھاتا ہے ۔یہا ں ایاز اور شہزاد بھی ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور فاطمہ کے شوہر غلام رسول بھی ،یہاں سایا اور مس ریڈی بھی اہم ہیں اور بی بی بھی۔لیکن جیلانی بانو نے چاند اور غزل کے کردار کے ذریعہ ایک بدلتے ہوئے سماج کی تصویر کشی بڑی خوبی کے ساتھ پیش کی ہے۔ جیلانی بانو نے ان تمام کرداروں کے ذریعہ معاشرے کے باریک پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے ۔اس لیے ایوان غزل؛کا قصہ روایتی ہونے کے باوجود دلچسپی اور دلکشی کے خاصے عناصر رکھتا ہے۔
حواشی
۱ ؎ جیلانی بانو سے ایک گفتگو ۔رسالہ ـــــ’’عصری ادب‘‘مئی ،اگست۔۱۹۷۷ئ۔ص۲۰
۲ ؎ ’’ایوان غزل ‘‘ از جیلانی بانو ص ۱۱۴
۳؎ ایضاً ص ۱۵۴
۴؎ ایضاً ص ۳۲۸
۵؎ ایضاً ص ۳۳۰۔۳۲۹
۶؎ ایضاً ص ۲۹۱
۷؎ ایضاً ص ۱۷۸
۸؎ ایضاً ص ۱۸۲
۹؎ ایضاً ص ۲۷۱
۱۰؎ ایضاً ص ۱۲۶
۱۱ ؎ ایضاً ص ۳۴۹
۱۲؎ ایضاً ص ۳۵۱
۱۳؎ ایضاً ص ۳۴۷
۱۴؎ ایضاً ص ۳۶۳
۱۵ ؎ ایضاً ص ۳۰۶
۱۶؎ ایضاً ص ۳۹۶
۱۷؎ ایضاً ص ۴۱۷
۱۸؎ ایضاً ص ۴۵۷
MD FAIZAN zeyai
S/O LATE DR MOZAFFAR HASAN AALI
MOH -BARADARI PO+PS SASARAM
DIST – ROHTAS( BIHAR )821115
E-mail : faizanzeyai.ssm@gmail.coms
MOB . 9570898311
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page