اُردومیں صنفِ ناول بھی مستعارصنف ہے۔اس کاآغازبھی یورپ میں ہوا۔بعدمیں اُردومیں اس کارواج ہوا۔اُردوزبان میں ڈپٹی نذیراحمددہلوی کے ناول ”مراۃ العروس “کو پہلا ناول کہاجاتاہے جو 1869ء کومنظرِ عام پر آیا۔اس ناول کی تخلیق پرڈپٹی نذیراحمد دہلوی اُردو کے پہلے ناول نگار کے طور پرسامنے آتے ہیں ۔اس کے بعد اُردومیں ناول نگاری کے فن کوفروغ ملااوردرجنوں ناول نگارسامنے آئے ۔ڈپٹی نذیراحمد دہلوی کااعزازیہ ہے کہ انھوں نے اس صنف کابیج بویاجوآج ایک پھل آوردرخت بن چکا ہے۔
ڈپٹی نذیراحمد دہلوی سرسیدتحریک کاحصہ تھے۔اوراصلاحی سوچ کے حامل تھے اس لیے یہ ناول بھی ایک اصلاحی سوچ کاحامل ناول ہے جس میں ڈپٹی نذیراحمدنے عورتوں کی اصلاح کابیڑااُٹھایا۔ناول میں عورت کے دوروپ دکھائے گئے ہیں ۔ایک بدمزاج،بدسلیقہ اورمنفی روپ،دوسراباشعور،باسلیقہ اورمثبت روپ۔عورت کے دونوں روپ اوراس سے جڑی تمام چیزیں ،تمام لوازمات،تمام گھریلومعاملات اورخانہ داری کے لوازمات بہترین اندازمیں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔فکری لحاظ سے نذیراحمددہلوی نے عورت کواس کے دونوں روپ دکھاکریہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس نے کون سا روپ دھارناہے جواس کے لیے اوراس کے اہل وعیال کے لیے بہتر ہو۔ناول نگارنے دونوں روپ دکھادئیے ہیں ۔اب عورت کی مرضی اورانتخاب ہے کہ وہ کون سا روپ پسند کرتی ہے اور یہ بات دکھانے اور اسے لفظوں میں ڈھالنے میں وہ مکمل طورپرکامیاب نظرآتے ہیں ۔
اس دور میں اصلاح معاشرہ کی ضرورت تھی لہذانذیراحمدنے ناول نگاری کے فن کومنتخب کرکے اصلاح معاشرہ کاکام لیا۔ادب زندگی کاآئینہ دارہوتاہے۔اس لیے جس چیزکی ضرورت تھی نذیراحمدنے اس کوٹھیک طورپرمحسوس کرتے ہوئے اپنے فن کے ذریعے اپنا کردار اداکیا۔عورت معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانندہے اوراس کے کردارسے انکارممکن نہیں ۔اگرعورت بدمزاج ،بدسلیقہ اوربے شعور ہوگی توگھریامعاشرہ کبھی بہترنہیں ہوگا،لہذاعورت کوباسلیقہ،باشعوراورمثبت بنانے سے ہی گھریامعاشرہ بہترہوگا۔اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے نذیراحمدنے یہ کام شروع کیااوراُن کے زیادہ ترناول عورتوں کے حوالے سے ہی ملتے ہیں ۔
ہمارے دیہی معاشرے میں آج بھی عورت کووہ مقام نہیں مل سکاجس کی وہ حق دار ہے۔ہمارے ہاں آج بھی عورت کوگھریلوملازمہ ہی سمجھاجاتاہے اوراس کی تعلیم وتربیت پرتوجہ نہیں دی جاتی حالانکہ عورت کاتعلیم یافتہ اورتربیت یافتہ ہوناگھر،معاشرے اورملک تینوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔عورت کے حوالے سے ایسے خیالات کے حوالے سے ڈپٹی نذیراحمدلکھتے ہیں۔
”لیکن اس بات سے یہ نہیں سمجھناچاہیےکہ عورتوں کو کھانے اورسورہنے کے سوا دنیاکا کوئی کام متعلق نہیں۔بلکہ خانہ داری کے تمام کام عورتیں ہی کرتی ہیں ۔مرداپنی کمائی عورتوں کے آگے لاکررکھ دیتے ہیں اورعورتیں اپنی عقل سے اس کو بندوبست اورسلیقہ کے ساتھ اٹھاتی ہیں ۔پس اگرغورسے دیکھوتودنیا کی گاڑی جب تک ایک پہیہ مردکا اوردوسراعورت کا نہ ہوچل نہیں سکتی۔“(1)
لڑکیوں کی تعلیم پرزیادہ زورنہیں دیاجاتااورنہ اُن کی تعلیم کوضروری خیال کیاجاتاہے،سچ تویہ ہے عورت کا تعلیم یافتہ ہوناپورے گھرکو جنت بناسکتاہے اورآنے والی نسل کوبھی مگرہمارے مشرقی معاشرے میں اس کونہ اہمیت پہلے دی گئی اورنہ اب ۔عورت کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے ڈپٹی نذیراحمددہلوی کے خیالات ملاحظہ کیجیے۔
”یہ تومردوں کا مذکور ہے جن کوپڑھ لکھ کرروٹی کمانی ہے۔عورتوں میں پڑھنے لکھنے کا چرچا اس قدر کم ہے دلی جیسے غدارشہر میں اگر مشکل سے سو،سواسو عورتیں وہ بھی شاید حرف شناس نکلیں بھی تو اس کوچرچانہیں کہہ سکتے ۔ پھراگر چرچانہ ہو خیر چنداں مضائقے کی بات نہیں ۔مصیبت تویہ ہے کہ اکثرعورتوں کے لکھانے پڑھانے کوعیب اورگناہ خیال کرتے ہیں ۔“(2)
مشرق میں عورت کوتعلیم نہ دلوانے کی وجہ کیاہے وہ بھی ذراڈپٹی نذیراحمددہلوی کے الفاظ میں ہی ملاحظہ کیجیے۔
”ان کوخدشہ یہ ہےکہ ایسا نہ ہو لکھنے پڑھنے سے عورتوں کی چارآنکھیں ہوجائیں ۔لگیں غیرمردوں سے خط وکتابت کرنے اورخدانخواستہ کل کلاں کوان کی پاک دامنی اور پردہ داری میں کسی طرح کا فتورواقع ہو۔“(3)
یہ سوچ اس دورکی تھی لیکن حقیقت میں ہمارے سماج میں آج بھی یہی سوچ پائی جاتی ہے۔آج بھی لڑکی کاپڑھناعیب شمارکیاجاتا ہے اوریہی وسوسے پائے جاتے ہیں کہ پڑھ لکھ کراسے شعورآجائے گااوروہ اپنی من مانیاں کرے گی لہذااس کوپڑھنے ہی نہ دیاجائے۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے جوبرائیاں خیال کی جاتی ہیں کہ ان میں یہ ملوث ہوجائے گی کیاوہ خرابیاں ایک ان پڑھ اورگھرمیں رہنے والی لڑکی میں موجودنہیں ہیں؟میرے خیال میں وہ ساری برائیاں ایک پڑھی لکھی کی نسبت ان پڑھ میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ہمیں ایسی سوچ سے نکلناہوگااوراسی میں ہماری بہتری ہے۔
فکری حوالے سے ناول ایک اصلاحی ناول ہے ۔اس میں عورت کے دونوں روپ ملتے ہیں ۔اس ناول میں دوبہنوں کی کہانی بیان ہوئی ہے ۔اکبری اوراصغری دوبہنیں ہیں ،اکبری بڑی بہن اوراصغری چھوٹی بہن ہے۔پہلے اکبری کی شادی ہوتی ہے اوروہ سسرال میں لڑجھگڑکرالگ ہوکراپناسب کچھ گنوادیتی ہے۔اس کے بعداسی گھرمیں چھوٹی بہن اصغری کی شادی ہوتی ہے اوروہ اپنے سسرال کوجنت بنادیتی ہے تمام کام ڈھنگ اورترتیب سے کرتی ہے۔بڑی بہن منفی کردارکے طورپراورچھوٹی بہن مثبت کردارکے طورپرنظرآتی ہیں اورپو ا ناول انھی کے گردگھومتاہے۔ (یہ بھی پڑھیں ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب کا کردار – پروفیسر ابو بکر عباد)
اکبری کی حماقتوں اوربدمزاجی کے متعلق ڈپٹی نذیراحمدکے الفاظ ملاحظہ کیجیے۔ایک کٹنی حجن کابھیس بناکرمحلے میں آتی ہے اس سے اکبری کامکالمہ سننیے اورسردھنیے۔
”کیوں بی،تمہارے کوئی بال بچہ نہیں ؟ مزاج دارنے آہ کھینچ کرکہا۔ہماری تقدیرایسی کہاں تھی؟حجن نے پوچھا۔بیاہ کوکتنے دن ہوئے؟مزاج دارنے کہا۔ابھی برس روز نہیں ہوا۔مزاج دارکی بے عقلی کااب حجن کویقین ہوااورکہنے لگی کہ اس نےتواولادکانام سن کرایسی آہ کھینچی جیسے برسوں کااُمیدوار۔۔“(4)
اسی طرح گھرکے معاملات میں بھی اس کوکوئی دل چسپی نہ تھی جوجہاں پڑاوہیں پڑااس نے دیکھناتک گنوارانہیں کیا۔اورسب کچھ تباہ وبربادکردیا۔
”اکبری کوجہیزمیں جوکپڑے ملے تھے ان کاحال سنے۔جب تک ساس کے ساتھ رہیں،ساس دسویں دن نکال کردھوپ دے دیاکرتی تھیں۔ شروع برسات میں الگ ہوکررہیں۔کپڑوں کاصندوق جس کوٹھڑی میں جس طرح رکھاگیاتھا،تمام برسات گزرگئی،اس کودیکھنانصیب نہ ہوا،وہیں اسی طرح رکھارہا۔جاڑے کی آمدمیں دولائی کی ضرورت ہوئی توصندوق کھولاگیا۔بہت سے کپڑوں کودیمک چاٹ گئی تھی۔چوہوں نے کاٹ کاٹ کربغارے ڈال دیے تھے۔کوئی کپڑاسلامت نہیں بچنے پایا۔“(5)
یہ منفی روپ دکھایاگیاہے جس میں ایک بدسلیقہ عورت اوراس کے طورطریقے دیکھنے کو ملتے ہیں ،اب آئیے ذرامثبت روپ کی چندمثالوں سے سلیقہ مندعورت اوراس کاکرداردیکھتے ہیں۔کہ اصغری نے گھرکے خرچے کس طرح کم کرنے میں کردار ادا کیا اور گھر کو سنبھالا دیا۔
”اصغری:ایساہی شب برات کاکرناضرورہے توفاتحہ کے واسطے پانچ چھ سیرکامیٹھا بہت ہوگا۔رہابھیجنابھجواناتوادھرسے آیاادھرگیا۔اورمحمودہ اب پٹاخوں کے واسطے ضدنہیں کریں گی،میں ان کوسمجھالوں گی۔غرض شب برات تومیری طرف سے آئی گئی ہوئی۔اس کے واسطے آپ قرض کافکرنہ کیجیے۔کسی معمول میں بھی کمی ہوتومجھ کوالاہنادیجیے۔“(6)
ماماعظمت جومولوی محمدفاضل یعنی اصغری کے سسرال میں ملازمہ تھی اس نے گھرمیں لوٹ مارمچارکھی تھی ہرطرف ادھارہی ادھارتھاوہ آدھاسوداسلف ادھرکولاتی اورآدھاہڑپ کرجاتی جس وجہ سے قرض اترنے کانام ہی نہ لیتا،اصغری نے ماماعظمت پرنظرر کھی اوراس کوپکڑلیااورگھرسے نکلوادیایہ اس کی سلیقہ مندی کامنہ بولتاثبوت ہے۔مولوی نذیراحمدکی زبانی ماماعظمت کے نکالے جانے کی داستان سنتے ہیں۔
”غرض ماماعظمت اپنے تکوں کے پیچھے یہاں سے نکالی گئی۔گھرپہنچی،توبیٹی بلا کی،میں نہ کہتی تھی اماں ،ایسی لوٹ تونہ مچاؤ۔سودن چورکے توایک دن بادشاہ کا۔ایسانہ ہوکسی دن پکڑی جاؤ۔تم کسی کی مانتی تھیں خوب ہوا۔جیساکیاویساپایا۔اب سسرال میں میرانام توبدمت کرو۔جہاں تمہاراخدالے جائے چلی جاؤ۔میرے گھرمیں تمہاراکام نہیں۔زیورکومیں نے صبرکیا۔تقدیرمیں ہوگاتوپھرمل رہے گا۔اس طورپرخداخداکرکے اصغری نے اپنے دشمن کونکال پایااورگھرکوعذاب سے نجات دی۔“(7)
حقیقت پسندی بھی اس ناول کاخاصہ ہے کیوں کہ اصلاح رومانویت اورخیالیت پسندی سے توممکن نہیں اس لیے حقیقت پسندی ضروری تھی ،پوراناول حقیقت پسندی کی تصویرپیش کرتاہے ۔صرف ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔میاں ،بیوی کے تعلقات کے حوالے سے گفت گوکرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
”تم نے بہشت اوردوزخ کانام سناہوگا۔سچ مچ کی دوزخ اوربہشت تودوسرے جہان کی چیزیں ہیں ،مرے پیچھے ان کی حقیقت کھلے گی لیکن ان کی شکلیں گھرگھردنیامیں بھی موجود ہیں ۔اوران کی پہچان کیاہے؟میاں بی بی کے آپس کاپیارواخلاص۔جس گھرمیں میاں بیوی محبت اورسازگاری سے زندگی بسرکرتے ہیں ۔بس سمجھ لوکہ ان کی دنیاہی میں بہشت ہے۔اوراگرآئے دن کی لڑائی ہے،یہ اس سے خفا،وہ اس سے ناراض،توجانوکہ دونوں جیتے جی جہنم میں ہیں۔“(8)
فکری حوالے سے یہ ایک مکمل اصلاحی ناول ہے۔جس میں نذیراحمدنے عورتوں کے روپ دکھاکران کوسمجھانے کی کوشش کی ہے اوراس کے لیے جن فنی چیزوں کوبروئے کارلانے کی ضرورت تھی ان کوبرتتے ہوئے کہانی کوخوب صورت اندازمیں پیش کرنے کی بھرپورسعی کی ہے۔ذیل میں ہم ناول کے فن پربات کرتے ہیں کیوں کہ فکروفن لازم وملزوم ہیں ۔فکرکے بغیرفن ادھوراہے اورفن کے بغیرفکرکسی کام کی نہیں ۔لہذانذیراحمدفکری وفنی حوالے سے بھرپورتھے لہذاانھوں نے فکرکوفن میں گوندھ کرخوب صورت بناکرپیش کیا۔
فنی حوالے سے ناول ”مراۃ العروس“کاجائزہ لیاجائے توبھی یہ ناول متعلقاتِ ناول پرپورااترتانظرآتاہے ،ناول کے لیے پلاٹ سب سے اہم چیزہے ۔پلاٹ واقعات کی منطقی ترتیب کوکہتے ہیں۔واقعات کوایک دوسرے سے جوڑنااوران میں منطقی ربط پیداکرناکہ کہانی میں دل چسپی اورربط وتعلق قائم رہےبڑی فن کاری اورمحنت کاکام ہے۔جب تک واقعات میں ربط نہیں ہوگاکہانی میں دل چسپی پیدانہیں ہوگی۔اس ناول کاپلاٹ کافی حدتک بہترہے،مگرکافی جگہوں پرخلاموجودہیں ،کئی واقعات میں ربط نہیں مگرپھربھی کافی حدتک واقعات کومنطقی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔کیوں کہ یہ پہلاناول تھااس سے پہلے کوئی مثال نہیں تھی لہذاان خامیوں کے باوجودبھی واقعات میں ربط موجودہے اورقاری کی دل چسپی قائم رہتی ہے کہیں بھی بوریت محسوس نہیں ہوتی،پلاٹ کومضبوط پلاٹ نہ سہی مگرمناسب پلاٹ ضرورکہاجاسکتاہے۔ناول کاپلاٹ پچیدہ نہیں سادہ پلاٹ ہے۔
ناول کے اسلوب کی بات کی جائے تونذیراحمدکے اسلوب کاکوئی مقابلہ نہیں،ان کااسلوب کمال کااسلوب ہے۔ان کی زبان پرگرفت ان کے اسلوب کوچارچاندلگادیتی ہے۔نذیراحمدحرف،لفظ،جملے اورلفظی باریکیوں کوخوب جانتے اوربرتنے کاہنررکھتے ہیں۔انھیں اس بات کااندازہ ہے کہ کہاں محاورہ بولناہے اورکہاں تشبیع سے کام چلے گا۔یہ کام وہی کرسکتاہے جس کوزبان پرکامل دسترس ہو۔نذیراحمدکوزبان کے اتارچڑھاؤ،دلی کے محاورات وروزمرہ اورلفظیات پرکامل عبورتھااوروہ جملہ بنانااوراس کوبامعنی بناناجانتے تھے۔انھیں اس بات کابھی علم تھاکہ کردارکیساہے اور اس کے منہ سے کیساجملہ اگلواناہے؟کیوں کہ کردارکے علم،رہن سہن،طرزبودوباش اورزمان ومکان کے مطابق جملے کاہوناضروری ہے وگرنہ اس میں وزن نہیں ہوگااوروہ عجیب لگے گا۔ڈپٹی نذیراحمدکے پورے ناول میں زبان وبیان اوراسلوب میں کہیں خامی نظرنہیں آتی۔ہرلفظ،ہرجملہ،ہرمحاورہ اورہربات مکمل نپی تلی نظرآتی ہے۔لہذاان کااسلوبِ بیاں ان کی فکرکوخوب صورت بنادیتاہے۔ہرآدمی سوچ رکھتاہے مگراس سوچ کولفظوں میں ڈھالنے کافن ہرکسی کوودیعت نہیں کیاگیا۔نذیراحمدکوفکراورسوچ کولفظوں میں ڈھالنے کاہنراورفن ودیعت کیاگیاتھاجس کوانھوں نے خوب استعمال کیا۔ان کے اسلوب کی چندمثالیں ملاحظہ کیجیے۔
”اسی طرح ہماری عورتوں میں حیاء،پاکدامنی،پردہ داری،نیکی۔جوکچھ سمجھوخداکے فضل وکرم سےبہترہی ہے۔مگربرامانویابھلامانوابھی تک ہے مجبوری کی۔“(9)
زندگی کی تلخیوں اوراس میں آنے والی پریشانیوں کے حوالے سے گفت گوکرتے ہوئے ان کاایک جملہ ملاحظہ کیجیے۔
”وہ پہاڑسی زندگی توآگے آرہی ہے جوطرح طرح کے جھگڑوں اورانواع واقسام کے بکھیڑوں سے بھری ہوئی ہے۔“(10)
اسی طرح عورتوں کے حوالے سے گفت گوکرتے ہوئے ان کی لفظیات اورالفاظ کاچناؤ دیکھیے۔
”عورت کادفتربالکل اٹھ گیا،یہ توبات ہی الگ ہے۔ملک کے عام دستور اور عام رواج کودیکھو۔سوعام دستورکے موافق ہم تم عورتوں کی کچھ خاص قدر دیکھتے نہیں۔ناقصات العقل توان کاخطاب ہے۔“(11)
تکرارلفظی بھی اسلوب کوبہتراوربامعنی بناتی ہے۔کیوں کہ جس چیزپرزوردیناہواس کودوہرایاجاتاہے،لہذانذیراحمدکے اسلوب میں اس کی مثالیں بھی بہت نظرآتی ہیں۔تکرارلفظی کے علاوہ محاورات کاتوگویادفترکھلا ہواہے،ہرجملے میں ایک نہ ایک محاورہ ضرور نظرآئے گا۔یہ محاورات ان کی تحریرکوخوب صورت اور بااثربناتے ہیں۔اس کے ذریعے طویل بحث کوایک لفظ میں سمویاجاتاہے اوراس تکنیک سے ناول نگارنے خوب فائدہ اٹھاہے۔مگران کوبرتناہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں ان کااستعمال وہی کرسکتاہے جس کوزبان پرکامل دسترس ہو۔نذیراحمدکے ہاں محاورات بڑے پیمانے پرملتے ہیں ۔چندایک مثالیں پیش کرتاہوں۔بتنگڑبنایا،سیرسواسیر،سوناکھرا،اوپرسے ملا سہاگہ،دفتراٹھا،سردھننا،آڑے ہاتھوں لیا،منہ دیکھنے لگا،بھڑوں کے چھتے کوچھیڑا،لت پت،دم ناک،ناک بھوں چڑھا،چراغ گل کیا،جھک مار،آفتوں کواپنے سرلینا،ریجھ جانا وغیرہ۔(یہ بھی پڑھیں اقبالیاتی تنقید کے رجحانات – عمیر یاسر شاہین)
اسلوب میں مکالمات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔مکالمہ نگاری بھی ایک فن ہے جس کوبرتناآسان نہیں مگرنذیراحمدنے ناول کے واقعات میں مکالمات سے بھی کام لیاہے جس سے اسلوب اوربامعنی اورپرتاثیرلگتاہے ۔نذیراحمدنے کرداروں سے مکالمات بھی کروائے ہیں اورخودبیانیہ تکنیک کے اندرمکالماتی اندازبھی اختیارکیاہے دونوں طرح کی ایک ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔پہلے مکالماتی انداز دیکھیے گا۔
”اے لڑکو!،وہ بات سیکھوکہ مردہوکرتمہارے کام آئے اوراے لڑکیو!ایساہنرحاصل کروکہ عورت ہونے پرتم کواس سے خوشی اور فائدہ ہو۔“(12)
اسی طرح اب کرداروں کے درمیاں مکالمہ سنیے۔
”اکبری:لواورسنو۔الٹاچورکوتوال کوڈانٹے!وہ میری کیاشکایت کرتیں؟شکایت کرتا ہےکمزور،شکایت کرتاہے وہ جس کاکچھ بس نہیں چلتا، شکایت کرتاہے مظلوم۔محمدعاقل:خدانخواستہ تم پرکسی نے کیاظلم کیا؟ کچھ بتاؤگی بھی؟اکبری:ایک ہوتوبتاؤں۔سارے دن ان کومیرا پیٹنا ہے۔محمدعاقل:تم نے کچھ معلوم بھی کیا کہ کیا چاہتی ہیں ؟“(13)
اشعارکااستعمال بھی ناول کے اسلوب کوبہتربنانے میں مدددے رہاہے۔نذیراحمدنے کئی جگہوں پراشعارکااستعمال کیاہے جس بات کااثرمزیدنکھرتاہے اورخوب صورتی مزید بڑھ جاتی ہے۔چنداشعارملاحظہ کیجیے۔
؎اگرنیک بودے سرانجام زن
زناں رامزن نام بودے نہ زن
؎گل جوچمن میں ہیں ہزار،دیکھ ظفرہے کیابہار
سب کاہے رنگ جداجدا،سب کی ہے بُوالگ الگ
مقامی لفاظی بھی اسلوب کوخوب صورت اور جان دار بناتی ہے اوراس کااستعمال بھی ان کے ہاں عام ملتاہے،چندمقامی الفاظ دیکھیے۔ہیٹی،ذری سی بات،کوارپنےوغیرہ۔اس کے علاوہ تشبیعات واستعارات کااستعمال بھی اسلوب کوبامعنی اورپرتاثیربناتاہے ۔مختصراََ ان کااسلوب کمال اورپرتاثیراسلوب ہے جوناول کوخوب صورت بنادیتاہے اورقاری کوپڑھنے میں لذت محسوس ہوتی ہے۔کیوں کہ نت نئی لفظیات ملتی ہیں مگرکہیں کہیں اکتاہٹ بھی محسوس ہوتی ہے اور اس کی وجہ قاری کی کم علمی ہی کہوں گاکیوں کہ پرانی لفظیات اورزبان پردسترس نہ ہونے کی وجہ سے کئی چیزیں اسے سمجھ نہیں آتیں جن کے لیے لغت کاسہارالیناپڑتاہے۔یہ کوئی عیب نہیں کیوں کہ اس دور کے لوگ ان لفظیات سے واقف تھے آج کے دور کے لیے یہ نئی ہیں اس لیے آج کے قاری کودقت محسوس ہوتی ہے ۔
تکنیک بھی ناول کے فنی اعضاکاحصہ ہے۔تکنیک اس طریقہ کاراوراندازکانام ہے جس سے کہانی یاواقعات کوچلایاجاتاہے۔اس ناول میں نذیراحمدنے بیانیہ تکنیک کااستعمال کیاہے ،یہ ناول بیانیہ اندازمیں لکھاگیاہے مگرکہیں کہیں فلیش بیک تکنیک اور مکالماتی اندازِ بیان بھی اختیارکیاگیاہے۔
ناول”مراۃ العروس“کی کردارنگاری کاذکرکیاجائے تواس کے تین مرکزی کردارہیں جن میں اکبری،اصغری اورماماعظمت اورانھی تینوں کرداروں کے اردگردکہانی چلتی ہے ۔باقی بہت سے کردارہیں مگران کاتعلق ضمنی ساہے۔ظاہرہے ایک پورے معاشرے کی تصویرکشی ضروری تھی جس میں مرکزی کرداروں سے جڑے تمام کرداروں کی ضرورت تھی۔لیکن یہ تین مرکزی کردارہیں اوراصغری کاکرداربطورہیروکاہے ۔کیوں کہ اصغری کوخیرکی علامت کے طورپرپیش کیاگیاہے اورنذیراحمدکامقصدبھی اصلاح معاشرہ تھااوریہی کرداراصلاحی کردارہے ۔باقی دونوں کردارشرکی علامت کے طورپردکھتے ہیں۔اس ناول میں تقریباَ53کردارنظرآتے ہیں جن کے نام یہ ہیں۔دوراندیش خان،دوراندیش خان کی بیوی،اکبری کی نانی،اکبری،محمدعاقل(اکبری کاخاوند)،اصغری خانم،محمدکامل(اصغری خانم کاخاوند)،مولوی محمدفاضل(عاقل اورکامل کاباپ)،مولوی محمدفاضل کی بیوی(اصغری،اکبری کی ساس)، چنیا، زلفن،رحمت،سلمتی، بخشو، مولوی کنجڑا،قاضی امام علی،حکیم شفاء الدولہ،منشی ممتازاحمد،مولوی روح اللہ،میرحسن رضائی،آغائی صاحب،بنو،اکبری کی خالہ،محمودہ(اصغری ،اکبری کی نند)،باسومنھیار،میاں مسلم،ماماعظمت(اصغری کے سسرال کی ملازمہ)،دیانت النساء،ہزاری مل،حکیم روح اللہ،مہاراجاپٹیالہ،فتح اللہ خاں (حکیم کے بھائی)،وائی اندور،منشی عموجان،جمال آراء،حسن آرا،نواب اسفندیارخاں(جمال آراکے خاوند)،نواب جھجر(حسن آراکاسسر)،شاہ زمانی بیگم(حسن آرا کی خالہ)،سلطانہ بیگم(جمال آرا،حسن آراکی ماں)،سوسن، گلاب، سنبل،علی نقی خان،سفین،فضیلت،عقیلہ،امتہ اللہ ،عالیہ،سلمہ،ام البنین،شکیلہ اور جمیلہ۔یہ سب اس ناول کے کردارہیں۔نذیراحمدنے کرداروں کے مطابق ان سے مکالمات کروائے ہیں ۔ان پڑھ،پڑھے لکھے،دیہی اورشہری کافرق لازم رکھاگیاہے۔
منظرنگاری بھی متعلقاتِ ناول میں سے ہے اور کوئی ناول ہی ایساہوجس میں کوئی منظرنہ آیاہووگرنہ ہرناول میں سین اورمنظرضرور ہوتے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ نذیراحمدکی منظرنگاری کیسی ہے۔ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔کٹنی ،اکبری کے ہاں موجودہے ذرامنظرملاحظہ فرمائیے۔
”مزاج دارنے بہت خاطرداری سے حجن کوپاس بٹھایااورسب چیزیں دیکھیں ۔سرمہ اورنادعلی،دوچیزیں مزاج دارنے پسندکیں ۔حجن نے مزاج دارکوباتوں ہی باتوں میں تاڑلیاکہ یہ عورت جلدڈھب پرچڑھ جائے گی۔“(14)
نذیراحمدکے ناول میں منظرنگاری بہت کم کم ہے کیوں کہ اس میں زیادہ ترکہانیاں اورواقعات ہیں ،مناظربہت کم ہیں مگرجہاں کہیں منظرپیش کیے ہیں خوب صورت اندازمیں منظرکشی ملتی ہے۔
ناول میں کمال جزئیات نگاری دیکھنے کوملتی ہے جونذیراحمدکی فنی مہارت کامنہ بولتاثبوت ہے۔انھوں نے ہرموقع اورواقعہ کوبڑی تفصیل سے پیش کیا ہے اور اس کی مکمل جزئیات میں گئے ہیں ۔چندایک مثالیں ملاحظہ کیجیے۔
مردوں کے کام کاج اور محنت مزدوری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کس قدرجزئیات نگاری میں گئے ہیں کہ ساری ذاتیں اور پیشے گنوادئیے ہیں ،ذراانھی کی زبانی سنتے ہیں ۔
”مردوں کودیکھوروپے کے لیے کیسی کیسی سخت محنتیں کرتے ہیں ۔کوئی بھاری بوجھ سرپراٹھا،کوئی لکڑیاں چیرتا،سنار،لوہار، ٹھٹھیرا، کسیرا،کندلہ گر،زرکوب دبکیہ،تارکش،ملمع ساز،زردوز،سلمہ ستارہ والا،بٹیہ ،جلدساز،میناساز،قلعی گر،سادہ گر،صقیل گر،آئینہ ساز، منہار،نعل بند،نگینہ ساز،کامدانی والا،سان گر،نیاریا،ڈھلیہ،بڑھئی،خرادی،ناریل والا،کنگھی ساز،بنس پھوڑ، کاغذی،جولاہا،رفوگر، رنگریز، چبھیی،دستاربند،درزی،علاقہ بند،نیچہ بند،موچی،مہرکن،سنگ تراش،حکاک،معمار،دبگر،کمہار،حلوائی،تیلی،تنبولی،رنگ ساز، گندھی وغیرہ جتنے پیشے والے ہیں کسی کاکام جسمانی اوردماغی تکلیف سے خالی نہیں۔اورروپے کی خاطر یہ تمام تکلیف مردوں کوسہنی اوراٹھانی پڑتی ہے۔“(15)
مردوں کی طرح اب عورتوں کے کاموں کی فہرست اورامورخانہ داری کے موضوع پرجزئیات نگاری کامنظرملاحظہ کیجیے۔
”خانہ داری منہ سے کہنے کوتوایک لفظ ہےمگراس کے معنی اورمطلب پرنظرکروتوپندرہ بیس کے فرق سے خانہ داری اور دنیاداری ایک ہی چیزہے۔خانہ داری میں جوکام کرنے پڑتے ہیں ان کی فہرست منضبط نہیں ہوسکتی۔شادی،غمی،تقریبات،مہمان داری،لین دین، نسبت ناطہ،پیسنا،پکانا،سیناپروناخداجانے کتنے بکھیڑے ہیں۔جس نے گھرکیاہواسی کوکچھ خبرہوگی۔لیکن اسی خانہ داری میں اولادکی تربیت بھی ہے۔“(16)
پورے ناول میں اس قدرجزئیات نگاری کاخیال اوراہتمام کیاگیاہے کہ کہیں بھی ،کوئی بھی منظریاواقع جزئیات کے بغیرنہیں گزرا۔عام موضوع میں شایدیہ جزئیات نگاری بوریت اورعیب نظرآتی مگراس موضوع کے لیے تویہ ضرورت تھی لہذانذیراحمدنے ضرورت کوخوب نبھایااورناول کوپرتاثیراورپڑھنے کے لائق بنایا۔
خاکہ نگاری یاحلیہ نگاری بھی اس ناول کاخاصہ ہے۔ڈپٹی نذیراحمدنے جہاں دوسری فنی باریکیوں کوخوب نبھایاہے اسی طرح وہ خاکہ نگاری کے بھی ماہردکھتے ہیں انھوں نے ناول میں جہاں جہاں خاکے کھینچے ہیں بڑی کمال کی مہارت دکھائی ہے۔خاکہ کوپڑھنے کے بعدیوں محسوس ہوتاہے جیسے جیتاجاگتاانسان نظرآتاہے۔یہ عام فن کارکے بس کی بات نہیں،یہ اعلیٰ فن کارکاکام ہے۔خاکہ نگاری کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔
”اُن کی عمرایسی کوئی چوالیس پنتالیس برس کی رہی ہوگی۔بہت ہی خوش روآدمی تھے۔کشیدقامت،بدن کے اکہرے،جامہ زیب، ڈاڑھی کھچڑی ہوچلی تھی۔ہم توسمجھے تھے کہ دادااورناناہوں گے توعجب نہیں مگرایسی بہت اولادبھی نہ تھی۔صرف دوبیٹے اور دوبیٹیاں ،یہ چاروں بچےگنگاجمنی کے طورپیداہوئے تھے۔یعنی سب سے بڑی پہلونٹی کی اکبری۔اس کے اوپر خیراندیش،اوپراصغری، اصغری کے بعدسب سے چھوٹامال اندیش۔“(17)
اس کے علاوہ بھی جہاں کہیں خاکہ پیش کیاہے کمال مہارت دکھائی ہے۔نذیراحمددہلوی فنی طورپرمکمل مہارت رکھتے تھے اورناول میں اس کاخوب مظاہرہ بھی کیاہے۔ایک جگہ اصغری خانم کے اوصاف کانقشہ کھنچتے ہوئے رقم طرازہیں ۔
”یہ لڑکی اپنی ماں کے گھر میں ایسی تھی جیسے باغ میں گلاب کاپھول،یاآدمی کے جسم میں آنکھ۔ہرایک طرح کاہنر،ہرایک طورکاسلیقہ اسے حاصل تھا۔دانائی،ہوشیاری،ادب،قاعدہ،غربت،نیک دلی،ملنساری،خداترسی،حیا،لحاظ،سب صفتیں خدانے اصغری کوعنایت کی تھیں۔“(18)
ناول میں وحدت تاثردینے کی بھرپورکوشش کی گئی ہے ،تمام حالات وواقعات کوعورت کے دونوں روپ کے گردرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ناول میں بہت حدتک وحدت تاثرملتاہے مگرکہیں کہیں پھربھی کچھ خامیاں نظرآتی ہیں جواتنی بڑی نہیں کہ عیب شمارکی جائیں بلکہ پہلے ناول میں اگرکمی بیشی رہ بھی گئی ہے تومسئلہ نہیں کیوں کہ اُردومیں یہ اپنی مثال آپ ہے۔ہاں البتہ نامیاتی وحدت تلاش کی جائے تواس کاسراغ ملنامشکل ہے ۔کیوں کہ تمام اعضایک جان نہیں ہیں ۔موضوع،کہانی اورفن ایک دوسرے میں گندھے ہوئے ہوتے تونامیاتی وحدت قائم ہوتی ،تمام اعضااس طرح یک جانہیں کہ نامیاتی وحدت کہاجاسکے۔
ناول میں مقامیت جگہ جگہ نظرآتی ہے ،جس کوعرف عام میں زمان ومکان بھی کہاجاتاہے لیکن زمان ومکان کہیں سے بھی لیے جاسکتے ہیں ،مقامیت کاتعلق خالصتاََاپنی مٹی،اپنی زمین اوراپنے وطن سے ہے۔اس ناول میں ہندوستان کی زبان ،لب ولہجہ،کرداراورباقی چیزوں کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت کارنگ بھی ملتاہے۔آئیے نذیراحمدکی زبانی سنیے۔
”ایک بار بڑے دن کی تعطیل میں دلی جانے کااتفاق ہوا۔ذراگورکھپوراور دلی کے فاصلے تودیکھواورباوجود گورکھپورسے دلی تک برابرریل نہ تھی ،آٹھ دن کی چھٹی میں آنے جانے کو اورپورے پانچ دن دلی میں ٹھہرنے کودیکھو۔بھلے کوانگریزی عملداری ہوگئی تھی کہ ہم نے بھی یہ آرام دیکھ لیے۔“)19)ص16
علاوہ ازیں نوآبادیاتی عہداوراس سے وابستہ کئی تصاویربھی ناول کاحصہ ہیں۔ناول میں انگریزدورکی خصوصیات بھی ملتی ہیں مگرساتھ ہندوستان کی خصوصیات کاتذکرہ کیے بغیربھی نہیں رہتے ،لہذاکہاجاسکتاہے کہ ملی جلی رائے رکھتے تھے اوراس دورکے لیے ضروری بھی تھی۔ناول سماجی رویوں،عصری صورتِ حال،معاشی اورمعاشرتی صورت حال سے مزین نظرآتاہے۔
مختصراََ فکری وفنی حوالے سے دیکھاجائے توایک بہترین ناول ہے۔جس میں ڈپٹی نذیراحمدکی کمال مہارت دکھتی ہے۔اورساتھ سرسید تحریک اوراس کے مقاصدواضح نظرآتے ہیں۔لوگ اس ناول کوکمزورگردانتے ہیں۔ان کے لیے اتناکہوں گاکہ اگرڈپٹی نذیراحمدبنیادنہ ڈالتے توشاید بعد میں لکھے گئے بڑے بڑے ناول آج نہ ملتے ،کسی چیزکی بنیادرکھنابھی آسان کام نہیں اوریہ ناول توفکری وفنی حوالے سے کافی منجھا ہوا ناول ہے جس کوبڑے بڑے ناولوں کے مقابل رکھاجاسکتاہے۔یہ ناول فکروفن کے لحاظ سے بہترین ناو ل ہے۔
حوالہ جات:۔
1)۔ڈپٹی نذیراحمددہلوی،مرآۃ العُروس،(لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز،2007ء)،ص7
2)۔ایضاَ،ص8،9
3)۔ایضاَ،ص9
4)۔ایضاَ،ص39،40
5)۔ایضاَ،ص45
6)۔ایضاَ،ص72
7)۔ایضاَ،ص82
8)۔ایضاَ،ص 12
9)۔ایضاَ،ص 10
10)۔ایضاَ،ص13
11)۔ایضاَ،ص 13
12)۔ایضاَ،ص 7
13)۔ایضاَ،ص 22
14)۔ایضاَ،ص 39
15)۔ایضاَ،ص 7
16)۔ایضاَ،ص 11
17)۔ایضاَ،ص 20
18)۔ایضاَ،ص 45
19)۔ایضاَ،ص16
عمیرؔیاسرشاہین
پی۔ایچ۔ڈی (اسکالر)
شعبہ اُردو،یونی ورسٹی آف سرگودھا
0303.7090395
Umairyasir28@gmail.com
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page