خدا کے گھر کا بٹوارہ – فائزہ عظیم احمد
فائزہ عظیم احمد
ایم اے شبلی کالج اعظم گڑھ
ادب میں زندگی کی رعنائیوں اور کرب کی عکاسی سماجی پس منظر میں کی جاتی ہے، یہ تخلیق کار کا کمال ہے کہ وہ زندگی کے کتنے متنوع رنگوں کو ادب کے کینوس پر بکھیر کر شاہکار تخلیق کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ تخلیق کے اس عمل میں زندگی کے قریب تر رہ کر حقائق کو رمزیت کے پیرائے میں یوں بیان کرنا کہ قاری اس کے زیر معنی تک بآسانی رسائی حاصل کرلے، افسانہ نگار کی مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب افسانوی مجموعہ "خدا کے گھر کا بٹوارہ ” تاج الدین محمد کی متاثر کن کاوش ہے۔ جس کی وجہ مصنف کی سماجی و معاشرتی مسائل پر گہری نظر ہے۔
تاج الدین محمد کا شمار دور حاضر کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔عمارت سازی ان کا پیشہ ہے، ساتھ ہی ان کے کئی افسانے ماہنامہ "آجکل” نئی دھلی "زبان و ادب” اور ملک کے دیگر رسائل کی زینت بننے کے ساتھ شوشل میڈیا کے کئی اہم پلیٹ فارم پر شائع ہوکر مقبول عام ہو چکے ہیں۔ زیر تبصرہ مجموعہ پچیس افسانوں پر مشتمل ہے، اور ہر افسانہ اپنی جگہ پر ایک عمدہ کہانی ہے، جس میں انہوں نے سماجی مسائل و موضوعات کو اپنی بامحاورہ زبان میں پیش کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے مجموعے کے کردار ہمیں اپنی سماجی زندگی میں ہر طرف متحرک دکھائی دیتے ہیں۔
اس مجموعے کے بیشتر افسانے موضوعات کے لحاظ سے ہمیں اپنے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں جیسے افسانہ ” بازگشت ” میں انہوں نے ایک ایسے سماجی مسئلہ کو موضوع بنایا ہے، جو آج بھی رائج ہے۔ آج بھی لوگ لڑکے کی خواہش میں بیٹیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیتے ہیں۔ وہیں افسانہ ” اپاہج” کی کہانی ایسے لڑکے کے گرد گھومتی ہے جسے اپنی جسمانی کمزوری کی وجہ سے ماں باپ کی توجہ نہ مل سکی۔ افسانہ اپنے اختتام پر قاری کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر ماں باپ اپنے ایسے بچوں پر توجہ دیں، تو وہ اپنی صلاحیت اور قابلیت کی وجہ سے ایک کامیاب انسان بن سکتا ہے۔
تاج الدین محمد کے افسانے کی یہ ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کہانی میں کسی بھی کردار کو پیش کر کے ایک موضوع یا مسئلے کو اچھے ڈھنگ سے افسانہ کا حصہ بناتے ہیں، اور کہانی کے پس پردہ ان کے افسانوں میں سبق آموز نصیحت بھی ملتی ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے معاشرے میں ہو رہی آپسی دشمنی، چوری، فریب، دغا اور مکاری و عیاری جیسے موضوع کو اپنے افسانوں میں بڑی فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ افسانہ” پنچر "،”دس روپے کا سکہ”،”رحم دل بوڑھا ” ،”میٹھے بول کا جادو”اور "انوکھی چوری ” اس کی بہترین مثال ہے۔ انوکھی چوری میں استاد شاگرد کو بتاتا ہے کہ
"چوری صرف یہ نہیں ہے کہ کسی کے گھر ڈاکہ ڈالا جائے کسی کا مال گھر یا دوکان سے بلا اجازت اٹھا لیا جائے، کسی کے روپئے نظر سے بچا کر اچک لئے جائیں، کسی کا پاکٹ مار لیا جائے، کسی کے حقوق غضب کر لئے جائیں، امتحان میں چوری سے لکھنا بھی ایک طرح کی چوری ہی ہے ”
انہوں نے افسانوں میں کائنات کے دیگر مسائل کے ساتھ عورتوں کے مسائل کو بھی گہرائی و گیرائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ "سائبان ” "نصیبوں جلی” اور "بد خصال” میں مصنف نے ان کی شخصیت کا قریب سے مشاہدہ کر کے اپنی وسیع النظری کا ثبوت پیش کیا ہے۔”نصیبوں جلی” میں انہوں نے ایسے مسائل پر روشنی ڈالی ہے جو معاشرتی لحاظ سے سطحی ہیں ۔ یہ افسانہ بچوں کی ناقدری پر ایک سبق ہے، جس میں ایک لڑکی کو بد صورتی کی وجہ سے بچپن سے ماں اور بھائی بہن کے طعنے سننے پڑتے ہیں، جس سے نجات پانے کے لئے وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
اسی طرح پیر صاحب کے حجرے اور بدخصال وغیرہ افسانے عورت کے مختلف روپ کے گرد گھومتے ہیں۔
افسانہ "تہی دست” گھریلو مسائل پر ایک بہترین افسانہ ہے، بیٹا کا ماں خلاف جاکر ایک بدتمیز بڑے گھر کی بیٹی سے شادی تو کرلیتا ہے اور پھر گھر کے ماحول کیسے ہوجاتے ہیں اسکی عبرت ناک کہاں پیش کی گئی ہے۔
افسانے کا آخری حصہ پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ تکنیکی طور میں انکے افسانوں میں واقعاتی سلسلہ نظر آتا ہے۔
شوشل میڈیا کے ذریعے فریب کا سلسلہ عروج پر ہے افسانہ ” عشق کے فریب میں ” مصنف نے ان کم فہم لڑکیوں کو آگاہ کیا ہے، جو شوشل میڈیا کے ذریعے لڑکوں کے فریب کا نشانہ بنتی ہے اور گھروں سے بھاگ کر اپنے گھر اور خاندان کی بدنامی کا سبب بنتی ہیں۔
دیگر موضوعات کے ساتھ اس مجموعے میں شامل افسانوی مجموعہ ” خدا کے گھر کا بٹوارہ "ایک اہم موضوع پر روشنی ڈالتا ہے جس میں مصنف حیران ہیں کہ الگ الگ مسلک اور فرقوں کے لوگوں نے اللہ کے گھروں کو بھی بانٹ دیا ہے۔مساجد کو مساجد کے نام سے نہیں بلکہ اب انہیں دیوبندی بریلوی الگ الگ فرقے کے تحت بانٹ دیا گیا ہے۔
تاج الدین محمد کے افسانوں میں موضوع کی وسعت ، فکر کی بلندی ، تجربے کی گہرائی، مشاہدے کی گیرائی، تاریخی اور سماجی شعور کی پختہ کاری ہے۔ اور پھر فنکار کی مخصوص ہنر مندی نے اس کے ڈھانچے میں زندگی بھر دی ہے۔ ان کے افسانے ایک مضبوط اور منظم پلاٹ کے ذریعے تشکیل دئیے گئے ہیں۔ افسانے کی زبان بھی سلیس اور رواں ہے۔ بحیثیت مجموعی ہم کہہ سکتے ہیں فکری و فنی لحاظ سے یہ ایک بہترین افسانوی مجموعہ ہے۔
کتاب کے مطالعہ کے بعد یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ تاج الدین محمد بہترین افسانہ نگار ہیں اور دلچسپ موضوعات سے قاری کو متوجہ کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ اس لئے افسانوی ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور مطالعہ کرنی چاھئے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page