قومی اردو کونسل آپ کے دروازے پر
تغیرِ زمانہ کے ساتھ عصری تقاضوں کی پاسداری لازم : پروفیسر مشتاق احمد
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے زیر اہتمام سمینار و سہ روزہ نمائشِ کتب کا افتتاح
دربھنگہ،27 جولائی :اس دورِ عا لمیت میں دنیا لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہورہی ہے اور اس کے اثرات انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں نمایاں طورپر دکھائی دے رہے ہیں ۔ چوں کہ زبان وادب کا تعلق انسانی معاشرے سے ہے اس لیے جب کبھی کوئی انقلاب آتا ہے تو اس سے انسانی معاشرہ بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔دورِ حاضر جو جدید تکنیکی ایجادات کی صدی ہے اس سے شعبۂ حیات کا کوئی حصہ اچھوتا نہیں ہے اس لیے جدید ترین تکنیکی ایجادات کے استفادہ کی اشد ضرورت ہے کہ اس کی بدولت ہی ہم اپنی زبان کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ اردو زبان وادب کی بقا کے لیے یہ ضروری ہے کہ اردو معاشرہ جدید ترین تکنیکی ایجادات کو اپنائے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر محمد خواجہ اکرام الدین، استاد شعبۂ اردو ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی نے کیا ۔ پروفیسر اکرام الدین مقامی سی۔ایم کالج، دربھنگہ میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی کے زیر اہتمام منعقد یک روزہ سمینار بہ موضوع ’اردو زبان اور جدید میڈیا‘ کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ میں کیا ۔انھوں نے قومی کونسل کے اس علمی وادبی سمینار کے انعقاد کی غیر معمولی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل ٹکنالوجی نے ہماری زندگی میں انقلاب برپا کردیا ہے اور مجازی علائم ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔یہ صدی امکانات کی صدی ہے اور ہمیں اردو زبان کے حوالے سے کام کرنے کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ ہم سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا میں اپنی قابل ذکر موجودگی درج کرسکیں۔اردو زبان میں گزشتہ ہزار سال کا اعلیٰ ادب موجود ہے۔ریئل اور ورچوئل دنیا کے فرق کو دور کرنے میں ادب ہی ایک سہارا بن سکتا ہے۔انھوں نے اردو رسم الخط کے استعمال پر بھی زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے دور میں اردو کے اساتذہ ، طلبا وطالبات اور اردو آبادی کے ایسے دانشور جو اردو کے ذریعہ اپنی علمی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں انھیں اب جدید ترین ٹکنالوجی کو اپنانا ہوگا کہ اس کے بغیر ہم اس بدلتی دنیا میں اپنے وجود کو قائم نہیں رکھ سکتے۔
پروفیسر مشتاق احمد، پرنسپل کالج ہذا نے تمام شرکاء کا استقبال کرتے ہوئے موضوعِ سمینار کی غیر معمولی ادبی وعلمی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور انھوں نے قومی کونسل کے تئیں اظہارِ تشکر پیش کیا کہ شمالی بہار کے اس تاریخی ادارہ میں کونسل نے سمینار انعقاد کے ساتھ ساتھ سہ روزہ نمائش کتب کا بھی اہتمام کیا ہے جس سے اردو آبادی کو مستفیض ہونے کا موقع ملے گا۔ پروفیسر احمد نے کہا کہ تغیرِ زمانہ کے ساتھ عصری تقاضوں کو پورا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ اس کے بغیر ہم اپنی شناخت مستحکم نہیں کر سکتے۔ اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ عصری تبدیلی کو قبول کریں اور زبان وادب کے فروغ کے لیے جدید ترین تکنیکی ایجادات سے استفادہ کریں ۔ بالخصوص تعلیمی اداروں میں اس طرح کی مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ نئی نسل عالمی تقاضوں کے مطابق خود کو ذہنی طورپر تیار کرسکے۔
مہمانِ اعزازی جناب مشتاق احمد نوری ، سابق سکریٹری ، بہار اردو اکادمی، پٹنہ نے اپنے پرُ مغز خطاب میں جدید میڈیا اور اردو کے حوالے سے کہا کہ آج اردو زبان کے بغیر میڈیا ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتا۔انھوں نے کہا کہ اردو زبان کے فروغ کے لیے بدلتے وقت کے ساتھ ان ایجادات کو بھی اپنانا ہوگا جن کی بدولت نئی فکر ونظر سے آگہی ہوتی ہے۔کونسل کے گورننگ کونسل ممبر انجنئیر محمد افضل نے سہ روزہ نمائشِ کتب کا افتتاح کیا اور انھوں نے کونسل کے ذریعہ منعقد سمینار کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اردو آبادی کو یقین دلایا کہ کونسل اسی طرح کے عصری تقاضوں کے موضوع پر سمینار منعقد کرتی رہے گی اور اپنی مطبوعات اردو آبادی تک پہنچانے کی کوشش کرتی رہے گی۔
سمینار کی صدارت صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ معروف شاعر پروفیسر حافظ عبدالمنان طرزی نے کی۔ انھوں نے اس موقع پر اپنے منظوم خطاب میں قومی اردونسل کی ستائش کی اور کہا کہ ان کا یہ سمینار اردو میں نئی جان پھونکنے کے مترادف ہے۔قومی اردو کونسل کے ریسرچ آفیسر جناب شہنواز محمد خرّم نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ قومی اردو کونسل کا یہ پہلا پروگرام ہے جو سی۔ایم کالج میں منعقد ہوا ہے۔افتتاحی سیشن کی نظامت عبدالحی نے انجام دی جب کہ کلمات تشکر ڈاکٹر سعود عالم نے ادا کیے۔
سمینار کے تکنیکی سیشن کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو کے شعبہ لسانیات جے صدر پروفیسر محمد جہانگیر وارثی نے کہا کہ ہر عہد میں جدیدیت کا استقبال ہوتا رہا ہے ۔ دورِ حاضر تکنیکی جدیدیت کا عہد ہے اور اس نے زبان وادب کو بھی غیر معمولی طورپر متاثر کیا ہے ۔ یہ سمینار دعوتِ فکر پر مبنی ہے کہ اردو کے اسکالر جدید ترین تکنیک کے ذریعہ زبان وادب کی خدمت کر سکتے ہیں۔پروفیسر محمد علی جوہر (علی گڑھ) نے کہا کہ دورِ حاضر میں اردو کے طلبا خصوصی طورپر صحافت کے شعبے میں اپنی مستحکم شناخت کر رہے ہیں اور جدید ترین تکنیک کی بدولت لسانی فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔پروفیسر آفتاب اشرف نے سمینار کی عصری اہمیت ومعنویت پر روشنی ڈالی ۔دوسرے سیشن کی مجلسِ صدارت میں شامل پروفیسر صفدر امام قادری (پٹنہ) نے کہا کہ عالمی سطح پر اردو نے جدید ترین تکنیکی ایجادات کی بدولت ہی اپنی شناخت مستحکم کی ہے اور دیگر عالمی زبان کے مقابلے کھڑی ہوئی ہے۔ دنیا کی بیشتر یونیورسٹیوں میں جدید ترین تکنیکی ایجادات کی بدولت ہی اردو کے طلبا اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ڈاکٹر نسیم احمد نسیم( بتیا )، ڈاکٹر ڈاکٹر غلام سرور، صدر شعبۂ اردو متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ ،پروفیسر محمد افتخار احمد، پرنسپل ملّت کالج، دربھنگہ، ڈاکٹر محمد شمشاد اختر، ڈاکٹر حسن رضا، ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم، ڈاکٹر ناصرین ثریّا،ڈاکٹر مطیع الرحمن نے مقالے پیش کیے۔ اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر فیضان حیدر نے کی۔سمینار میں دربھنگہ اور گردو نواح کی کئی اہم شخصیات شامل ہوئیں ان میں محترمہ نازیہ حسن ، ڈپٹی میئر دربھنگہ، جناب امان اللہ خاں ڈپٹی میئر ، مدھوبنی ، ڈاکٹر رسول ساقی ، محمد صویراحمد، انور آفاقی، ڈاکٹر محمد بدرالدین، قیصر عالم، محمد زبیر عالم ، نثار احمد سندرپوری، احسان مکرم پوری وغیرہم۔واضح ہو کہ کالج میں سمینار کے ساتھ ساتھ 27جولائی تا29جولائی 2024ء کونسل کی جانب سے نمائشِ کتب کا اہتمام کیا گیاہے جس میں بڑی تعداد میں طلبا وطالبات اور اردو کے شائقین شامل ہو رہے ہیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |