ڈاکٹرمخمورصدری
sadrijnu@gmail.com
(M)9911685615
’’دہلی اردواخبار‘‘،شاہ جہاں آباددہلی کاپہلا اور شمالی ہندکادوسرا اردو اخبار ہے۔ مولوی محمدباقر نے 1836 میں اس اخبارکا اجرا کیا۔۱؎ یہ ہفتہ واراخبار یکشنبہ کو4 / 30×20 سائزکے چار صفحات پر دو کالم میں چھپتاتھا۔ ’’قیمت ماہواری دو روپیہ ، پیشگی شش ماہی گیارہ روپے اور بیس روپے سالانہ تھی ۔ اس کا پہلا نام ’’اخبارِدہلی‘‘ تھالیکن یکشنبہ10؍مئی1840 (نمبر168،جلد3)سے اس کا نام ’’دہلی اردو اخبار‘‘ ہو گیا۔ کاغذ قدرے سفید اور کتابت قدرے جلی اورکشادہ ہوگئی۔12؍جولائی1857 نمبر28جلد19 سے ’’ بنظر ِمرحمتِ خسروانی نام اس کا’’اخبارالظفر‘‘ ہوا‘‘ ۔ 2؎ اس کے ساتھ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ بھی درج کیاجاتا رہا۔ اخبار کا نمبر اور جلد کا شمارہ وہی رہاجو’’دہلی اردو اخبار‘‘ کا تھا۔3؎ لیکن اخبار پرمولوی محمدباقرکانام بحیثیت مالک اور مدیر کبھی شائع نہیں ہوا۔ جنوری سے اگست۱۸۴۰تک کے شماروں میں پرنٹر کے طورپر سید معین الدین کانام درج ہے۔19؍ اگست سے اس نام کے ساتھ امدادعلی بیگ کانام اضافہ ہوگیا۔23؍ اگست سے موتی لعل کانام چھپنے لگا۔ 1857سے باہتمام بندہ محمدحسین(مولوی محمدباقرکے بیٹے) پرنٹر اور پبلشر مکان متعلقہ امام باڑہ وقفی مولوی محمد باقر میں چھپنے لگا۔12؍جولائی 1857 (نمبر28،جلد19)سے جب اس کانام ’’اخبارالظفر‘‘ ہو گیا تو بطور مہتمم سید عبداللہ کانام شائع ہوتارہا۔
نیشنل آرکائیوزآف انڈیا،نئی دہلی میں ’’دہلی اردواخبار‘‘کے متفرقات شمارے موجودہیں۔ان میں چندشماروں کے مکمل متن محمدعتیق صدیقی نے اپنی کتاب ’’اٹھارہ سوستاون اخباراوردستاویز‘‘میں۔محفوظ کردیاہے۔شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی کے پہلے صدرپروفیسرخواجہ احمدفاروقی نے ’’دہلی اردواخبار‘‘ 1840کے دستیاب شماروں کو محنت اور جانکاہی سے ترتیب دے کر1972 میں شائع کیا۔اس اخبارکی اہمیت وافادیت پربہت جامع اور مدلل گفتگو بھی کی ہے۔اس کے 40سال بعد’’دہلی اردواخبار‘‘ 1841 اور 1857 کے محفوظ شماروں کی بازیافت ، ترتیب وتدوین کرکے سابق صدرشعبۂ اردواورڈین آف فیکلٹی پروفیسر ارتضیٰ کریم نے بڑے جوکھم اور دن رات کی محنت شاقہ سے خون پسینہ بہاکر اشاعت کی۔ارتضیٰ کریم نے اس کی اہمیت وافادیت پرروشنی بھی ڈالی ہے۔موصوف کی تیسری مرتب کردہ کتاب’’دہلی اردواخبار‘‘ 1851زیرطبع ہے جوجلدہی منظرعام پرآنے والی ہے۔
’’دہلی اردواخبار‘‘ اپنے عہد کا ایک مکمل اخبار تھا۔یہ اخبار سماجی ،مذہبی،سیاسی اورادبی خبروںکوبڑی تفصیل سے بیان کرتاتھا۔ صوفیاء کی درگاہوں کاکافی حالات ہمیں اس اخبارمیں جابجاملتے ہیں۔اس اخبار کے مخصوص عنوان ’حضور والا‘اور ’صاحب کلاں‘ تھے۔ ’حضور والا ‘کے عنوان کے ماتحت بادشاہ دہلی بہادرشاہ ظفر کے حرکات سکنات واحکام اور قلعہ معلی کے حالات درج ہوتے تھے۔صاحب کلاں کے ماتحت ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران مثلاً گورنر کے احکام اور دربار کے حالات لکھے جاتے تھے۔ غیرممالک کی خبریں زیادہ ہوتی تھیں ہندوستانی ریاستوں اور دربار کی خبروں کے ساتھ ان کی بدانتظامیوں پرسنجیدگی اور آزادی کے ساتھ تبصرے ہوتے تھے۔ ایڈیٹر کے قلم کی زد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکام بھی آجاتے تھے۔4؎
’’دہلی اردواخبار‘‘کے دستیاب فائلوں(1840،1841،1851) کا بنظر غائر مطالعے سے یہ واضح ہوتاہے کہ’’ دہلی اردواخبار‘‘ 1857 تک بہت احتیاط کے ساتھ خبریں شائع کرتاتھا۔ اس عہدکے اخبارات پوری طرح سیاسی رنگ میں رنگا ہوا نظر نہیں آتے ہیں۔کمپنی کی مخالفت اورسیاسی موضوعات پراظہارخیال میں اعتدال سے کام لیاجاتا تھا۔ اس کی وجہ شایدیہ تھی کہ اخبارکے مالک انگریزی سرکارکے ملازم تھے لہٰذاملازم پیشہ ہونے کی بنیادپر اخبار میں کمپنی کی بے جا تنقید اور سیاسی شعبدہ بازی سے پرہیز کیا جاتا رہا جب کہ اخبارمیں پرنٹر اور پبلشر اور ایڈیٹرکی حیثیت سے ان کانام شامل نہیں تھا مگر کمپنی کے تمام عہدیداران یہ جانتے تھے کہ اخبارمولوی محمدباقر کی نگرانی میں نکلتاہے اوراخبارمیں شائع مواد ان کی مرضی کے بغیرشامل اشاعت نہیں کیا جاتا۔اس طرح مولوی محمد باقر احتیاط کادامن نہ تھامتے تو ان کی ملازمت خطرہ میں پڑ جاتی اوراخبار کو شائع کرناناممکن ہوجاتا۔دوسری بات مولوی محمد باقر کا کمپنی کے افسران سے گہرے روابط تھے ،اس کا لحاظ رکھنا بھی اخلاقی ذمہ داری تھی لہٰذاکمپنی کی پالیسیوں اور حکومتی طریق کارپربراہ راست تنقیدنہیں کی گئی بلکہ بعض واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے خبرمیں اشارتاً تنبیہ کردی جاتی تھی۔بقول محمدعتیق صدیقی:
’’اوائل میں’’دہلی اردواخبار‘‘ کی وفاداریاں مکمل طورپر انگریزوں کے ساتھ تھیں اوراس کا رجحان ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ امن پسندانہ تھا۔ خبروں کا انتخاب اور اس کے پیش کرنے کا طریقہ سیدھا سادہ تھا۔کسی خبرسے نہ تو انگریزدشمنی کی بو آتی ہے، اورنہ کسی قسم کی بے اطمینانی کا اظہار ہوتا تھا، بلکہ بسا اوقات تودیسی اخباروں میں ہونے والی ’’گرم‘‘ خبروں کی تردید کردینا بھی وہ ضروری سمجھتا تھا ۔‘‘5؎
’’دہلی اردواخبار‘‘ہی نہیں بلکہ اس زمانے کے بیشتر اخبارات اسی طریقۂ کارکو اپنائے ہوئے تھے جن سے انگریزی سرکار خوش ہواورخاص طور پر جنگ کی خبروں میں ہندوستانی مجاہدوں کو پسپا ہوتے ہوئے دکھایا جاتا تھا۔ان کی بہادری یا فتوحات کی خبریں بہت کم چھپتی تھیں اور جو چھپتی تھیں ان میں بھی برائی اور شکست کا پہلو نمایاں کیا جاتا تھا ۔6؎
یہی نہیں بلکہ جہاں کہیں مقامی نوابوں کی جانب سے کمپنی کے خلاف سازش یا بغاوت کی اطلاع ملتی تھی ’’دہلی اردو اخبار‘‘ اس اطلاع کوشائع کرتے ہوئے کمپنی کے متعلق اپنے خیرخواہانہ جذبات کا اظہار بھی کردیا کرتا تھا۔ مثلاً مدراس کے ایک نواب نے کمپنی کے خلاف سراٹھایا۔ گورنر مدراس نے نواب کو گرفتار کرا کے قلعے میں قید کر دیا اور نواب کی جاگیریں ضبط کرلیں۔’’دہلی اردو اخبار‘‘کمپنی کے اس قدم کو سراہا۔ اس اخبارمیں بہت سی ایسی خبریں ملتی ہیں جن میں اخبارکا جھکاؤ واضح طورپرکمپنی کے حق میں نظرآتاہے۔ کبھی کبھی ’’دہلی اردو اخبار‘‘انگریزوں کی طرف داری میں انصاف کادامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا تھا۔ ایک درپیش واقعہ میں ایک انگریز شکاری کے ہاتھوں نشانہ خطا ہوجانے کی وجہ سے ایک دیہاتی عورت کی موت ہوگئی، مجسٹریٹ نے واقعے کی تفصیل سن کر شکاری انگریز کو قتل کے الزام سے بری کردیا۔’’دہلی اخبار‘ ‘ (19؍ اپریل 1840، نمبر165، جلد3) نے اس واقعے کی خبر شائع کرتے ہوئے ملزم کے بیان کو ’’عذرمعقول‘‘کے عنوان سے خبرکو شائع کی۔ جب کہ فارسی اخبار’’ماہ عالم افروز‘‘ نے عدالت کے اس فیصلے پرکڑی تنقیدکرتے ہوئے لکھا تھا کہ آئندہ بھی ایساحادثہ پیش آیا ملزم اسی طرح بری ہوجایا کریں گے۔7؎
’’ دہلی اردواخبار‘‘1857سے قبل سرکارکمپنی کے خلاف محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے تھااورانگریزی نظام کے خلاف خبریں نہیں لکھی جاتی تھیں،بعـض خبروں میں سیاسی مصلحت کے پیش نظرانگریزی افسران کی جابجاتعریف بھی کردی جاتی تھی۔فوج ظفر، موج انگریز،لشکرِظفرِپیکر،گورنربہادردام اقبالہ،رونق بخش،بہادردام اجلالہم جیسے القابات وخطابات اخبار کے ہرصفحات پربھرے پڑے ہیں۔لیکن اس دور کے اخباروں کے مطالعے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اخباراس محتاط رویہ کے پیش نظر اصل واقعہ سے انحراف کرتے ہوئے حقیقت کو چھپانے یامسخ کرنے کاکام نہیں کرتاتھا۔جن خبروں میں یہ محتاط رویہ نظرآتاہے ان میں بھی اخباراعتدال کادامن نہیں چھوڑتا اورجہاں کمپنی کوتنبیہ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی اس سے بھی بازنہیں آتا۔’’دہلی اخبار‘‘ (17؍جنوری 1841، نمبر 204،جلد4) کے شمارے میں ’’راجپوتانہ‘‘ کے عنوان سے ایک خبرسے اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
’’بسبب کثرت فساداوربے انتظامی اورسرکشی کے جواس ضلع میں ہوتی رہتی ہیں تین صاحب یعنی کرنیل صدرلینڈ،میجر روبنسن اور کپتان لینگ رسول کیے گئے ہیں واسطے تجویزکسی مشورے کے، جس سے آئندہ کویہ بے انتظامی رفع ہو۔یہ صاحب لوگ بہت لئیق اور عاقل ہیں اور اغلب ہے کہ ان کی تجویز سے رفع فسادہوگا……. ،بعضوں کی رائے یہ ہے کہ اگران لوگوں پرکچھ ٹیکس یعنی جزیہ مقرر کیا جاوے اوران کی سرزنش بھی سرکارکی طرف سے ہوتی رہے تو البتہ یہ لوگ روبہ راہ آجاویں ……..اس سے تو بہتر یہ ہے کہ ہر ایک کو ان میں سے فراخورِحوصلہ زمینِ افتادہ واسطے کشت کارمل جاوے اورتین چار برس تک محاصل ان سے نہ لیاجاوے۔غرض کہ اس میں زمین بھی درست ہو جاوے گی اوروہ لوگ بھی جب کشت کارمیں مصروف رہیں گے توتاخت وتاراج میں کوشش نہ کر سکیں گے اورچونکہ زمین زرخیزہے یقین ہے کہ بہ شرطِ ترددمحاصلِ کثیرہواکرے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صاحبانِ موصوفین اس باب میں تدبیر شائستہ عمل میں لاویں گے۔‘‘
اخبار کا یہ محتاط رویہ ا ور انگریزی اقتدارکی خوشامد پسندی اٹھارہ سو ستاون سے قبل کے تمام شماروں میں ہرجگہ دکھائی دیتی ہیں۔یہی نہیں بلکہ ایسی خبروں کو اہمیت دیتاتھاجو انگریزی سپاہ کی فتوحات پر مشتمل ہوتی تھیں۔ آگرہ کے علاوہ دیگر قلعوں کے محاصروں کی خبریں،غلبہ پانے کے بعدعوام پرظلم و تعدی کابیان اوردیگر اہم ہرہفتہ اخبار کے ذریعہ عوام تک پہنچ رہی تھیں۔اس عہدمیں شہروں اور دیہاتوں کی، انگریزی فتوحات کی خبریں تواتر سے ’’دہلی اردو اخبار‘‘ میں شائع ہوتی تھیں۔خواجہ احمد فاروقی نے1857کے تعلق سے اس اخبارکی پالیسی پریوں رائے زنی کی ہے:
’’1857کی بغاوت سے قبل اس اخبارکا رویہ انگریزوں کے خلاف معاندانہ نہیں،متحیرانہ تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کی حیرت ،مخالفت میں بدل گئی۔‘‘8؎
1857کے انقلاب سے پہلے انگریزی سرکار نے اخبارات کو جتنی آزادی دے رکھی تھی،’’دہلی اردو اخبار‘‘ان سے تجاوزکرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتا تھا بلکہ بعض خبروں اورتبصروں میں تو وہ صریحاً انگریزحکومت کی حامی اور طرفدار نظر آتا ہے۔تاہم ایسی خبریں بھی ملتی ہیں جن میں اس نے جرأت مندی سے حکومت پر تنقید کی۔اخبارکمپنی کے ارباب اقتدار کے سامنے جتنا محتاط تھاقلعہ معلی کے متعلق اتناہی بے باک تھا۔اس نے کمپنی کے ارباب اقتدار کے سامنے مغل بادشاہ کی بے بسی کی تصویر مختلف زاویوں سے پیش کیا ہے۔قلعے کے فیصلوں کا کڑا ناقد بھی رہا۔لیکن جنگ آزادی چھڑتے ہی اخبارنے اعتدال وتوازن کی پالیسی بالائے طاق رکھ دی اوربادشاہ کے پرجوش حامی اورکمپنی کے کٹر مخالف اورجانی دشمن کی حیثیت سے میدان جنگ میں اتر آیا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنا نام بھی بادشاہ سے منسوب کردیا۔9؎
مولوی محمدباقر کمپنی کے عہدمیں تحصیلدارکے معززعہدہ پرفائزتھے لیکن11؍مئی1857کودہلی میں جنگ آزادی کی ابتدا ہوئی تومولوی محمد باقرنے اپنے’’دہلی اردواخبار‘‘ہی کو نہیں بلکہ خود کوبھی اس کے لیے قربان کردیا تھا اور بہادرشاہ ظفرکے معتمد علیہ ہوگئے۔انگریزکے مخبر جیون لال نے اپنے 11؍مئی1857 کے روزنامچہ میں مولوی محمدباقر کے متعلق لکھاہے کہ
’’آج کے دن(11؍مئی1857)بادشاہ نے مولوی محمدباقراورمولوی عبدالقادرکوباریاب ہونے کی عزت بخشی کیونکہ انہوں نے اپنے فرائض منصبی کو نہایت ذہانت اوربہادری سے سرانجام دیا تھا۔ موخرالذکرنے اطلاع دی کہ میں ایسے انتظام کر آیاہوں جن کی وجہ سے باغی خودبخود شہر چھوڑ کرچلے جائیں گے۔بادشاہ نے مولوی باقر کو خلعت عنایت کیااورمولوی عبدالقادرکونہایت تزک واحتشام کے ساتھ شاہی ہودہ میں بٹھا کران کے گھرروانہ کیا۔‘‘10؎
مولوی ذکاء اللہ دہلوی نے اپنی کتاب ’’تاریخ عروج سلطنت انگلیشیہ ہند ‘‘میں مولوی محمدباقر کے متعلق لکھاہے کہ
’’بادشاہ کے پاس مخبرخبرلائے کہ گورگانوہ میں تلنگوں کی کمپنی کئی لاکھ روپیہ کاسرکاری خزانہ لے کر چلی تھی کہ راستہ میں میواتیوںسے مٹ بھیڑ ہوئی اورلڑائی ٹھنی۔بادشاہ نے حکم دیاکہ مولوی باقر دو کمپنیاں پیدلوں اورایک تراب سوارو ںکالے جاکرخزانہ لے آئے چنانچہ خزانہ آگیا۔‘‘11؎؎
1857کی جنگ آزادی میں ’’دہلی اردواخبار‘‘میں پرجوش وولولہ انگیز باغیانہ مضامین چھپتے تھے۔ عوام اورمجایدین کے جذبات کوابھارنے والی نظمیں ، علمائے کرام کے فتوے اورروحانی بزرگوں کے خواب جس میں سرکارکمپنی کے خاتمہ کی بشارت دی جاتی تھی ۔اسی طرح ایران کا بادشاہ عن قریب انگریزوں پر ہندوستان میں حملہ کرنے والا ہے۔ اس قسم کی خبریں چھاپی جاتی تھیں۔ہندوستان کے ہرگوشے سے دہلی میں بہادرشاہ کی امداد کے لیے مجاہدین کا آنا،ان کے بہادرانہ کارنامے اورجنگی معرکے کی تفصیل شائع ہوتی تھی ۔ مولوی محمد باقرنے انگریزوں کے ظلم و زیادتیوں کے خلاف خوب لکھا۔ انگریزوں کو ’’کافر،’’کفارناہنجار‘‘کے نام سے پکارا۔ لیکن 24؍مئی 1857کو ہندوستانی سپاہیوں نے دہلی کے بازاروں، لوگوں کے گھروں اور دلی کالج کی لائبریری کو لوٹا تو مولوی محمدباقر نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
1857کی جنگ آزادی میں عوام کے دلوں میں جذبہ حریت بیدارکرنے میں چربی والے کارتوسوں کا سانحہ ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتاہے۔1856 کے اواخر میں سرکارنے نئے کارتوس رائج کرنے کا فیصلہ کیا،جن پرسپاہیوں کے خیال میں واقعی گائے اور سور کی چربی لگی ہوئی تھی۔ 12؎ ا ورجن کے استعمال سے وہ اپنی ذات اور اپنے دین سے محروم ہوجائیں گے۔پس ایک اتفاقیہ چنگاری، مگر آگ لگانے والی،آتش گیرمادے پرگرپڑی اور آگ بھڑک اٹھی۔ 13؎ فیلڈ مارشل لارڈرابرٹس نے تسلیم کیاہے کہ:
’’حکومت ہندکے سرکاری کاغذات میں مسٹرفارسٹ کی حالیہ تحقیقات سے ثابت ہوتاہے کہ کارتوسوں کی تیاری میں جوروغنی محلول استعمال کیاگیا،واقعی وہ قابل اعتراض اجزا یعنی گائے اور خنزیرکی چربی سے مرکب تھا اور ان کارتوسوں کی ساخت میں فوجیوں کے مذہبی تعصباب اور جذبات کی مطلق پرواہ نہیں کی گئی۔‘‘14؎ ؎
ساورکرنے لکھاکہ دیسی سپاہ کے حق بجانب شبہات بڑھتے رہے کیونکہ حکام ایماندای سے یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اس میں قابل اعتراض اشیاشامل نہیں۔مزیدیہ کہ اسی زمانے میں آٹے میں ہڈیاں ملانے کی افواہیں بھی پھیلنے لگیں ۔گورکھا رجمنٹ میں یہ کارتوس دیئے گئے۔انگریز افسروں نے دھمکیاں دیں کہ دیسی سپاہ کوزبردستی استعمال پر مجبور کیا جائے۔ایسابھی ہواکہ بعض مقامات پرسپاہ کے انکار پر پوری رجمنٹ کوسخت سزادی گئی۔15؎
اٹھارہ سوستاون میں کئی عوامل کار فرما تھے۔چربی والے کارتوس محض ایک بہانہ تھا۔نفرت کی یہ آگ جو پلاسی کے بعد دب گئی تھی اوراس وقت سے سلگ رہی تھی،یکبارگی بھڑک اٹھی۔16؎ اس موقع پردیسی سپاہیوں نے جس طرح منظم ہوکرفرنگی تسلط کاخاتمہ کرنے کامنصوبہ بنایا تھا اسے انگریز مؤرخوں نے جگہ جگہ نہایت تفصیل سے لکھاہے ۔ بقول مؤرخ میڈلے:’’لیکن حقیقت میں زمین کے نیچے ہی نیچے جو بارودکئی (وجہوں) سے بہت دنوں سے تیارہورہی تھی اس پرچربی لگے ہوئے کارتوسوں نے صرف دیاسلائی کاکام کیا۔17؎ کارتوس کی خبرسبھی فوجی چھاؤ نیوں میں پہنچ چکی تھی۔ پہلے بارک پور اور انبالہ کی چھاؤنیوں میں اشتعال پھیلا،پھردوسری چھاؤنیوں میں آگ بھڑکی اورآخرمیں میرٹھ میں جنگ آزادی کالاوا پھوٹ پڑا۔’’ دہلی اردو اخبار‘‘ (12؍اپریل 1857، نمبر15، جلد19)میں ’’موقوفی رجمنٹ 19پیادگان ہندستانی‘‘ عنوان سے ایک خبرشائع ہوئی تھی:
’’تحریراتِ بارکپور اوراخبارانگلش مین وغیرہ سے تحقیقاً معلوم ہواکہ رجمنٹِ مرقومہ الصدر بموجب جنرل آرڈرِ نواب گورنرجنرل بہادر کے بعلتِ قصورعدول حکم وبلوہ پردازی ومقابلہ و سرتابی کی ۳۱تاریخ مارچ کو موقوف کی گئی ——-جنرل آرڈرنواب گورنرجنرل بہادر سے واضح ہوتا ہے کہ جرم رجمنٹ ۱۹کایہ تھاکہ ۲۲؍تاریخ فروری کو حکم پریڈ کا واسطے قواعد کے ہوا اور شفی نفرپندرہ خالی کارتوس ملی لیکن انھوں نے ان کے لینے سے بایں اظہار انکار کیاکہ ان میں چربی خوک اورگائے کی لگی ہوئی ہے اورہرچندمیجرجنرل کمان افسرنے انہیں بہت فہمایش کی اور دھمکی بھی دی لیکن انھوں نے نہ مانا اورسلاح اٹھاکے ازراہِ سرکشی واسطے مقابلہ اوربلوہ کے آمادہ ہوئے اور بعد اس کے کہ رجمنٹ سواروں کی اور توپ خانہ ان کے سامنے کیاگیااور فہمایش بھی عمل میں آئی انھوں نے سلاح رکھ دیے اورلین میں چلے گئے لیکن نظربرعدول حکمی اورسرکشی اس رجمنٹ کے نواب گورنرجنرل بہادر ان پرمطلق اعتبار نہیں رکھتے اور اس لیے حکم ان کی موقوفی کاصادر فرماتے ہیں اورحکم دیتے ہیں کہ تنخواہ ان کی مل جاوے اور روبرو تمام سپاہ کے چھاؤنی سے نکال دیے جاویں اوریہ آرڈر ہر ایک رجمنٹ اورترپ اورکمپنی ملازم سرکارکو سنا دیا جاوے۔‘‘
لکھنؤ کی چھاؤنی میں دو رجمنٹوں کے موسیٰ باغ والے پیادہ سپاہیوں میں کارتوسوں کے متعلق اندیشہ ظاہرکیا کہ آٹے میں پسی ہوئی ہڈیاں ملائی جاتی ہیں،جس پربلوہ کیا۔ صبح آٹھ بجے سپاہ کو پریڈ پر بلایا گیا۔ چاروں طرف مسلح گورہ فوج نے گھیرلیا، سامنے توپ خانہ نصب ہوا، اورگولہ باری کے لیے مہتابیں روشن کی گئیں ۔زیادہ ترسپاہی جان بچانے کے لیے بھاگے تو ان کاپیچھا کیا گیا۔ چالیس سپاہی پکڑے گئے ۔کارتوس کے اس ردعمل میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں آگ لگنے کی وارداتوں کی خبریں’’دہلی اردو اخبار‘‘میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مختلف چھاؤنیوں ، ہسپتالوں ،گوداموں ـ اورمکانوں میں آگ لگی مگر باجودکوشش مجرموں کا پتہ نہ لگ سکاتو چیف کمشنر بہادر لاہورنے ایک اشتہارجاری کیا کہ جو شخص آگ لگانے والے کو پکڑ کر لائے گا یا اس کا پتہ بتائے گا۔اس کو انعام دیاجائے گا جو 10؍ مئی 1857دہلی اردواخبارمیں مذکور ہے:
’’چیف کمشنربہادر لاہور نے ابنالہ میں اشتہار انعام ایک ہزارروپیہ کا واسطے سراخ لگانے والے اور ثابت کرنے والے آتش زن کے جس کہ وہاں کے بنگلوں وغیرہ میں آگ لگائی ،جاری کیا ہے۔‘‘
اردوکے بیشتراخباروں نے اس موقعہ پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا اور انہوں نے اس سازش کے خلاف عوامی بیداری پیداکرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔چربی والے ان کارتوسوں کو ہی دراصل1857 کی جنگ آزادی کانقطہ آغاز قراردیاجاتا ہے۔گارساں دتاسی نے لکھا ہے کہ
’’ان منحوس کارتوسوں کی تقسیم کے موقعہ پرہندوستانی اخبارات نے ،جوبددلی پھیلانے والوں کے آلہ کار تھے،اپنی غیرمحدودآزادی سے فائدہ اٹھایااوراہل ہندکوکارتوسوں کو ہاتھ لگانے سے انکار کرنے پر اکسایا اوریہ باورکرایاکہ اس حیلے سے انگریز ہندوستانیوں کو عیسائی بناناچاہتے تھے۔ یہ حیلہ تھایا واقعہ ہم سمجھ نہیں سکتے۔بہرحال ان لوگوں کی بے احتیاطی ضرور قابل افسوس ہے۔‘‘ 18 ؎ ؎
گوکہ10؍مئی1857کومیرٹھ میں فوجی بغاوت سے جنگِ آزادی کاآغاز ہوا۔یہ محض چند چھاؤنیوں میں ہونے والی فوجی بغاوت نہیں تھی جس کا آغاز کچھ فوجیوں کی حکم عدولی سے ہوا۔ اگر بات محض اتنی ہی ہوتی تواس بغاوت پرآسانی سے قابو پایا جاسکتا تھا یہ محض کچھ فوجیوں کی حکم عدولی والی بغاوت نہیں تھی۔ اس کی پشت پر پورا ناراض ہندوستان جس میں آبادی کے تمام طبقات کا غم وغصہ شامل تھا۔یہ محض فوجی نہیں عوامی ــ بغاوت تھی جس میں فوجی، غیر فوجی،ہندومسلم، امرا رؤسا، کاشتکار، دستکار اور ہنر پیشہ سب ہی شامل تھے اوران سب کے اجتماعی غیظ وغضب کی کیفیتوں کی عکاسی اورترجمانی دیسی زبانوں کے اخبارات خصوصاً ’’دہلی اردواخبار‘‘میں ہو رہی تھی۔
میرٹھ کے بعددہلی میں جو واقعات پیش آئے، ان معلومات کو فراہم کرنے میں’’دہلی اردو اخبار‘‘ نے نمایاں رول ادا کیا۔17؍مئی کے شمارے میں جنگ کی پوری تفصیلات بیان کی گئی تھیں۔اس میں بتایا گیا کہ کس طرح عام لوگوں نے سپاہیوں کی رہبری کر کے اس کے ہاتھوں انگریزوں کو قتل کرانے میں ان کی مددکی اورکیسی خوشی کا اظہارکرتے تھے۔اس شمارے سے انبالہ، میرٹھ، سہارن پور اور رڑکی کے حالات بھی معلوم ہوتے ہیں۔ 24؍مئی کے شمارے سے دہلی میں رونما ہونے والی باغیانہ سرگرمیوں کاہمیں کافی علم ہوتا ہے۔
میرٹھ کے انقلابی سپاہی جب ۱۱؍مئی کو جمنا کا پل پارکرکے لال قلعے کے نیچے زیرجھروکہ کھڑے ہوئے۔بقول ساورکر تقریباً دو ہزار سوارسپاہی وپیدل میرٹھ سے آئے اوربہادرشاہ ظفرسے رہ نمائی کی درخواست کی۔جب بہادرشاہ نے خزانہ اورفوج نہ ہونے کا عذر کیا تو انہوں نے کہاکہ ’’ہم تمام انگریزی خزانے لوٹ کر آپ کے قدموں میں ڈال دیںگے۔جب بادشاہ نے رہ نمائی قبول کی تو مسرت انگیز شور سنائی دیا۔ 19؎ بہادرشاہ ظفرکی نگرانی میں شائع ہونے والا’’سراج الاخبار‘‘(17؍مئی 1857) میں بھی دہلی میں مجاہدین کے پہنچنے کی تفصیل ملتی ہے۔
17؍مئی1857 کو’’دہلی اردواخبار‘‘ کا شمارہ منظرعام پرآیاتواس کے صفحات11؍مئی کی جنگ کی خبروں سے پُرتھے۔ اخبار میں دہلی شہر کے مفصل چشم دیددرپیش واقعات بیان کیے گئے تھے۔رپورٹنگ کا اسلوب معروضی تھا اور ہر واقعات کی جزئیات کوپیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ویسی جامع رپورٹ ہندستان کے کسی اخبار میں شائع نہیں ہوئی تھی۔جس کی تصدیق ’’دہلی اردو اخبار‘‘(17مئی 1857،نمبر20،جلد19)کی اس رپورٹ کے ایک ایک لفظ سے عیاں ہوتی ہے:
’’۱۱؍مئی ۱۸۵۷مسیحائی کوکہ سات بجے کے بعدمیرِ بحری یعنی داروغہ ٔ پل نے آن کرخبردی کہ صبح کو چند ترک سوارچھاؤنی میرٹھ کے پل سے اترکر آئے اورہم لوگوں پر ظلم زیادتی کرنے لگے اور محصول مجتمع کالوٹنا چاہا میں نے بہ لطائف الحیل ان کو باتوں میں لگایا اورکشتی ِ لب پل کی قفلی کھول دی کہ آگے نہ آسکے وہ لوگ جو آئے تھے انہوں نے محصول گھرسڑک کااوربنگلہ صاحب سڑک کا کہ واقعہ سڑک سلیم پورکے پھونک دیا۔ صاحب سن کر متامل ہوئے اوراٹھ کرجوائنٹ مجسٹریٹ کے پاس کہ دوسرے کمرے میں اجلاس کرتا تھا چلے گئے اور کچھ غٹ پٹ کرکے خزانہ کے کمرہ میں گئے اورصاحب خزانہ سے مصلحت کرکے گاردمتعینہ خزانہ کو حکم ِ کمر بندی دیا۔ انھوں نے فی الفورحسب الحکم گولیاں بندوقوں میں بھرلیں تیار ہو گئے اور ایک ایک پہرہ جنگی دروازہ کچہری پر بھی کھڑا ہوگیا اورتمام کچہری اوراہل عملہ میں کھلبلی پڑگئی۔صاحب مجسٹریٹ معلوم ہواکہ کمشنرکے پاس گئے۔ اس اثنا میں سنا گیا کہ وہ ترک سواراب زیرِ قلعہ مبارک پیش جھروکہ جمع ہیں اور حضوروالاحضرت ِظل سبحانی سے مستدعی و خواستگارہیں کہ ارک معلی میں بار پاویں اس عرصہ میں صاحب مجسٹریٹ بھی آگئے اوراپنی میم اوربچوں کو کوٹھی سے کہ زیر ِدیوارکچہری ہے طلب کرلیا اور بعدتھوڑی دیرکے نیم گاردکشمیری دروازہ میں کہ وہاں بھی کمربندی تھی بھجوا دیا اسی اثنامیں لباس صاحب سیشن جج بھی آگئے اور کچھ دیرتک گرکچہری کے گردش کرکے کوٹھی میں چلے گئے۔اورکچہری کو برخاست کاحکم دیا اور ادھر قلعدارخدمت حضرت ظل سبحانی میں حسب الطلب (حسب المطلب) حاضر ہوا تمام حال وہاں کا بھی سن کر اورہجوم سواران وسپاہیان دیکھ کر چاہاکہ ان لوگوں کو زیرقلعہ جاکرفہمایش کرے مگرحضور اقدس ازراہ ِرحم وکرم کہ منجملہ صفات عطیہ الٰہی سے ہے نیچے جانے کو مانع ہوئے انجام کارقلعداررخصت ہوامیں سناکہ قلعدار اور بڑے صاحب و ڈاکٹر صاحب ومیم لوگ وغیرہ دروازہ میں مارے گئے اورسوارقلعہ میں چلے آئے۔حضور اقدس بھی دستار مبارک زیب سر اورشمشیر ولایتی زیب کمرفرماکرتشریف فرمائے دربار ہوئے۔ شہر میں اول چند سوار آئے اور دریا گنج کے انگریزوں کے مارتے ہوئے اوردو بنگلہ جلاتے ہوئے پیش اسپتال زیر قلعہ آئے اور(کذا) ڈاکٹرکوبھی دارالشفااصلی میں پہنچا دیا کہتے ہیں کہ بڑے صاحب وقلعدار و ڈاکٹر وغیرہ چند انگریز کلکتہ دروازہ پر کھڑے ہوئے دور بین لگائے سڑک میرٹھ کا حال دریافت کر رہے تھے کہ دو سوار آئے اس میں سے ایک نے تپنچہ اپناجھاڑا اورایک انگریز کو مار گرایا اورباقی جو بچ کر آئے حسب تحریر مذکور الصدر دروازہ قلعہ میں آکرمارے گئے اور پھر اور سواربھی آپہنچے اور شہرمیں غل ہوگیاکہ فلاں انگریز وہاں مارا گیا اور فلاں انگریز وہاں پڑا ہے۔ راقم آثم بھی یہ چرچادیکھ کراور آواز بندقوں کی سن کربپاس دین وحمیت اسلام اپنے کلبۂ احزاں سے باہرنکلا تو بازار میں عجب عالم دیکھا کہ جانب بازار کشمیری دروازہ سے لوگ بلاتحاشا بھاگے چلے آتے ہیں، مگر چونکہ حقیرکوتفریح طبع اور پاس خاطر اپنے ناظرین کا جان عزیزتر تھا لہذا بے تکلف واسطے دریافت حال کے سیدھااسی طرف روانہ ہواکہ زیرکوٹھی سکندر صاحب پہنچ کر ایک آواز بندوقوں کی باڑ کے سامنے سے سنائی دی اورآگے چلا تو دیکھا کہ صاحب بہادرجیوپیدل شمشیر برہنہ درکف سراسیمہ وبدحواس بے تحاشا بے تحاشابھاگے چلے آتے ہیں اور پیچھے پیچھے اون کے چندتلنگے بندوقیں سرکرتے چلے آتے ہیں۔ اور عوام شہربھی کسی کے ہاتھ میں لکڑی اورکسی کے ہاتھ میں پلنگ کی پٹی کسی کے ہاتھ میں بانس کاٹوٹہ اوس کے درپے چلے آتے ہیں۔بلکہ بعضے بعضے آدمی شہرکے جی چلا کردور سے ماربھی بیٹھتے ہیں وہ سب انگریزکو لیے ہوئے جانب زینت باڑے سے نہرکی طرف لے چلے اور حقیر بجانب میدان نصیر گنج چلا وہاں پہنچارتودیکھ کہ فخرالمساجدکے آگے بیس پچیس تلنگہ متفرق کھڑے ہیں اورلوگ اون کو طرف مسجدکے اشارہ کرتے ہیں، غرض دیکھاکہ چندتلنگہ مسجدمیں گئے اور پیہم بندوقیں مارکرسب کو وہاں بندوق کی راہ سے سیدھا ملک عدم کوپہنچادیا۔ آگے بڑھ کرپیش گرجا گھر اورزیرکوٹھی کالنس صاحب دیکھاکہ دوسوتین سوترک سواراورتلنگہ کھڑے ہوئے ہیں اور ان میں سے متفرق ہوکرادھر ادھر پھیلتے جاتے ہیں۔ اورایک ایک سے سوال ہے کہ بتلاؤ انگریز کہاں ہیں اورجوکوئی پتانشان بتلاتا تھا انہیں میں سے دوچارسپاہی فوراً اس کے ساتھ ہولیتے تھے۔اورایک آناً فاناً میں دیکھا گیاکہ جس کوچہ میں دیکھو دو تین انگریزیاکرانی مرے ہوئے پڑے ہیں۔ایک ایک کوٹھی میں گھس گھس کر انگریزوں کو معہ زن وفرزندتہ تیغ کیا اوربچ کرکسی کے گھرکے کوچہ و بازار کی موریوں میں جاچھپا وہ اس وقت بچ رہا۔تمام کوٹھیوں کا مال اسباب لٹ گیا گر جا گھر اور کچہری کی تمام کرسیاں اورمیزیں اور بلکہ فرش زمین وغیرہ سنگ مرمرتک بھی لوگ اٹھا لائے۔ بعد تھوڑی دیرکے حقیر بطرف میگزین گیا تو مسجد نواب حامدعلی خاں سے آگے بڑھ کردیکھاکہ نکنس صاحب سردفترکمشنری کالاشہ پڑاہے اورکسی ظریف نے ایک بسکٹ بھی اوس کے منہ کے پاس رکھ دیا ہے۔میگزین کی بارک میں عمل مجاہدین ہوگیا تھااورسناکہ اندرمیگزین کے چندانگریزمعہ اکثرخلاصیوں کے دروازہ بندکئے بیٹھے ہیں۔‘‘
اسی اخبارمیں یہ بھی مذکورہے کہ ہندستانی سپاہیوں نے دہلی کے بازاروں، لوگوں کے گھروں ،دلی کالج ،اس کی لائبریری، تجربہ گاہ،آلات وادویات کولوٹ لیا۔ یہاں تک کہ چوکٹ دروازے تک نکال لے گئے:
’’—–جانب مدرسہ جونظرکی تو دیکھا کہ تمام اسباب میزکرسی وتصاویرصدہاوہزارہاروپیہ کے آلات وادوات تجربہ اورہزار ہا روپیہ کاکتب خانہ انگریزی وفارسی اورنقشجات سب لوگ لوٹے لئے چلے جاتے ہیں،انجام کو یہاں تک نوبت پہنچی کہ شطرنجی وغیرہ۔ ۔۔ ۔ ۔ اور چوکٹ دروازہ تک نکال لے گئے۔غرض یہ تمام حالات دیدۂ عبرت دیکھتا ہوا حقیر غریب خانہ آیا۔‘‘
انگریزوں کے پاس دلی میں گولہ بارودکابہت بڑاذخیرہ تھااورانقلابیوں کی کوشش تھی کہ کسی طرح اس پر قبضہ کر لیا جائے۔ 11؍مئی کو دوپہر بعد میگزین پر انقلابی سپاہ اورعوام نے حملہ کیا۔پہلے میگزین کے انگریز افسروں کو پیغام بھیجا گیاکہ وہ ہتھیارڈال دیں، جب ادھرسے انکارہوا تو انقلابیوں نے سیڑھیاں لا کر دیواروں پر چڑھنا شروع کیا۔20؎ بقول پنڈت کنہیالال میگزین کاتمام ہندوستانی عملہ اور خصوصاً دربان رحیم بخش درپردہ انقلابیوں کا حامی تھااور باہرکے انقلابیوں کوہدایات دے رہاتھا۔21؎ میگزین ایک انگریز افسر لفننٹ جی۔ولوبی (Lt.G.Willoughby) نے جب بچنے کی کوئی صورت نہ دیکھی توپورا میگزین بارودسے اڑا دیا۔22 ؎ ؎ 17 ؍مئی1857 کے ’’دہلی اردواخبار‘‘ میں مولوی محمدباقر نے اس حادثے کوبیان کیا ہے:
’’—–اورہردم چاروں طرف سے آوازبندوق کی چلی آتی تھی کہ بعدتین کے ایک آواز توپ کی آئی اہل جلسہ متامل تھے کہ دوسری آواز اورآئی۔حقیرفی الفوربرائے دریافت حال کوٹھے پرگیاکہ دفعتہ ایک زلزلہ عظیم بآواز مہیب اورقدرصدمے سے معلوم ہواکہ میں نے جانا حضرت اسرافیل نے صور پھونک دیا۔غرض دیکھا تو معلوم ہوا کہ میگزین اڑگیاغبارتیرہ و تاریک تاسطح کرہ ہواچھاگیا۔ اور اس میں پتھر اورسنگہائے دیوارمثل طیور وبرگہائے درخت کے ،کہ اندھی میں اوڑتے ہوں،معلوم ہوتے تھے۔ حقیر بدیںخوف کہ مباداًپتھراوس کے یہاں بھی گرکر صدمہ پہنچے اسمائے متبرکہ وردزبان کرتاہوانیچے اوتر آیا۔‘‘
17؍مئی کے شمارہ میں مسٹرٹیلرکی موت کے متعلق بھی خبردرج ہے ۔ مورخین نے لکھاہے کہ1857کی جنگ آزادی کے دوران دلی کالج کا پرنسپل مسٹرہنری ٹیلردوسرے انگریزوں کے ساتھ دہلی کے میگزین میں محصور تھے۔جب میگزین کواڑا دیاگیا تو چند انگریز مارے گئے اور باقی نکل گئے۔نکلنے والوں میں ٹیلر بھی تھا۔مولوی ذکاء اللہ دہلوی نے اپنی کتاب ’’تاریخ عروج انگلیشیہ ہند‘‘میں لکھا ہے کہ’’جب میگزین اڑا تو مسٹرایف ٹیلرصاحب اور مسٹرسٹیزصاحب اس سے باہر زندہ نکلے۔ سٹیزصاحب تو فصیل کی دراڑ میں سے جو میگزین کے اڑنے سے پڑی تھی،نکل کرجمنا سے پار ہوکرزندہ میرٹھ پہنچ گئے۔ٹیلرصاحب میگزین سے نکل کراول اپنے کالج کے احاطے میں آئے اوراپنے بوڑھے خانساماں کی کوٹھری میں گئے اور ان کو مولوی محمدباقرکے گھر پہنچا دیا جوان کے بڑے قدیمی دوست تھے۔ مولوی صاحب نے اپنے امام باڑے کے تہ خانے میں ایک رات ان کو رکھا مگر محلے میں یہ مشہور ہو گیا کہ ٹیلرصاحب کو مولوی صاحب نے چھپا دیا ہے اس لیے مولوی صاحب ان کو اپنے گھرمیں نہیں رکھ سکے۔ ہندوستانی صورت ان کی بناکے گھرسے باہرکیا۔وہ بیرام خان کی کھڑکی سے باہر نکلے تھے کہ اپلون کی ڈنڈی پراہل شہرنے پہچان کر لاٹھیوں کے مارے ان کاکچلانکال دیا۔‘‘ 23؎ مولوی ذکاء اللہ دہلوی کے اس اقتباس کوتمام محققین نے بھی کم وبیش اسی طرح پیش کیاہی مگرسرعبدالقادرنے اپنی کتاب ’’”Famous Urdu Poets and Writesمیں مولوی محمدحسین آزاد کے حوالہ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ ٹیلر نے مولانا کے مکان سے نکلنے سے پہلے انہیں کاغذات کاایک بنڈل دے کر کہا کہ اگردہلی پرانگریزفوج کا قبضہ ہو جائے توجو انگریز پہلے ملے اسے یہ بنڈل دے دیا جائے۔جب مولوی باقرنے یہ بنڈل انگریزکرنل کے سپرد کیا تو کرنل نے بنڈل پرلاطینی زبان میں ٹیلرکی لکھی ہوئی یہ سطور دیکھیں۔ ’’مولوی محمدباقرنے پہلے پہل مجھے اپنے مکان میں پناہ دی لیکن پھرحوصلہ ہاربیٹھے اورمیری زندگی بچانے کو کوشش نہیں کی‘‘۔اس پر کرنل نے فوراً مولوی باقر کو گولی مار دی۔ٹیلرکے موت کے سلسلہ میں جو رپورٹ ’’دہلی اردواخبار‘‘کے 17؍ مئی 1857 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ اس سے بالکل دوسرارخ سامنے آتاہے۔بقول مولوی محمدباقر :
’’سناگیاکہ ٹیلرصاحب پرنسپل مدرسہ بھی یہیں بند تھے اس دن تک کچھ آب ودانہ باقی تھا اور کوئی دن دنیاکی ہوا کھانی تھی کہ دوسرے دن یوم سہ شنبہ قریب دوپہراسی تھانہ کے علاقے میں مارے گئے۔ یہ شخص مذہب عیسوی میں نہایت متعصب تھااور اکثر ناواقف لوگوں کو اغوا کیاکرتا تھا چنانچہ ڈاکٹرچمن لال کا خون اسی کی گردن پررہا۔عجیب شانِ ایزدی ہے کہ یہ شخص نہایت مالدار تھا قریب دو لاکھ کے روپیہ اس کا بینک کلکتہ ودہلی میں جمع تھا اورچند بنگلہ وغیرہ کرایہ کثیرکے چھاؤنی میں تھے اوریہ روپیہ بھی اس سعی وکوشش سے جمع کیاتھا۔ صرف ڈیڑھ آنہ یاچارپیسے روزاپنی ذات کے صرفِ طعام میں لاتے تھے باقی سب داخل بینک ۔دن رات میں جو وقت ِفرصت ہوتاتھا اسے حساب کتاب زرِبینک میں صرف کرتے تھے۔کپڑے بھی صرف ضرورتاًقابل اہلِ جلسہ کے پہنتے تھے لیکن قابل عبرت ہے حال دنیائے دوںکاکہ باجوداس زرِکثیرکے دن بھرلاشہ برہنہ خاک وخون میں غلطاں پڑارہا۔ دیکھنے والے کہتے تھے کہ فقیری لباس اس وقت تھا اورمنہ پرخاک ملی ہوئی تھی۔‘‘
اس خبرسے یہ واضح ہوتاہے کہ مولوی محمدباقرکوپرنسپل ٹیلرکے میگزین میں پناہ لینے سے قتل ہونے تک کے واقعات کی اطلاع دوسروں کی زبانی ملی۔خاص طورپرآخری فقرے سے بھی یہی ظاہرہوتا ہے۔اگروہ پرنسپل ٹیلرکو خود ہندوستانی لباس پہنا کر رخصت کرتے تویہ لکھنے کا کوئی جوازنہ تھاکہ’’دیکھنے والے کہتے ہیںکہ فقیری لباس اس وقت تھا‘‘ ۔ حقیقت یہ ہے کہ پرنسپل ٹیلر کا قتل کیسے اورکن حالات میں ہوا،مولوی محمدباقرکواس کاکوئی علم نہیں تھا۔اس کا ایک اورثبوت ’’دہلی اردواخبار ‘‘(31؍مئی1857، نمبر 22، جلد19) کی ایک اور خبر سے ہے۔خبرکاعنوان ’’اختلاف خبرہائے بوقلموں‘‘اوراس میں پرنسپل ٹیلرکے قتل کاواقعہ غیریقینی انداز میں مذکور ہے:
’’بعضے کہتے ہیں کہ مدرسہ کے ٹیلرصاحب پرنسپل کی لاش سربازارمزبلہ پردیکھی ۔بعض کہتے ہیں کہ میگزین میں جن انگریزوں نے پناہ لی تھی بعد اڑانے سرنگ اورلال پٹارہ کے جواڑ گئے اس میں وہ اڑگئے بعض کہتے ہیں کہ چند انگریزجو وہاں سے بچ کردریاکی طرف گئے وہ بھی ان میں گئے اور آگرہ پہنچے بعضے کہتے ہیں میرٹھ پہنچے واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔‘‘
مذکورہ دونوں خبروں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مولوی محمد باقر کو کوئی مصدقہ اطلاع پرنسپل ٹیلرکے متعلق معلوم نہیں تھی کہ اس کی میگزین ہی میں موت ہوئی یا وہاں سے بھاگنے کے بعد مارے گئے۔ اورمارے بھی گئے یا زندہ ہیں اورآگرہ یامیرٹھ پہنچ گئے ہیں۔ اگر پرنسپل ٹیلران کے گھرپناہ لیتے اور بعدازاں فرار ہونے میں مارے جاتے تو انہیں اتنے افسانے تراشنے کی ضـرورت نہ تھی۔اس لیے کہ جس اخبار کا مدیربہ یک وقت انگریزوں اورشہردلی کے لٹیروں کے خلاف تندوتیزتحریریں چھاپ رہاہو،اسے پرنسپل ٹیلر کے قتل کااصل ماجرا بیان کرنے میں کیاخوف اورمصلحت لاحق ہو سکتے ہیں۔24؎ بہرحال جوبھی معاملہ رہا ہوہماری رائے میں یہ الزام انگریزوں نے مولوی محمدباقر کو شہید کرنے کے بعد تراشاتھا۔ انگریز پرنسپل ٹیلر قتل نہ کیاجاتا تو بھی مولوی محمدباقرکایہی انجام ہوناتھا۔25؎
اس دوران شہرکے سبھی عیسائی ہندوستانیوں اور یورپین لوگوں کو ماردیاگیا۔دریاگنج کاعلاقہ جہاں زیادہ آبادی یورپین اور اینگلو انڈین کی تھی ،وہ بالکل مقتل بن گیا اورہرعیسائی کوقتل کردیاگیا۔ 26؎ سرکاری بینک شمروبیگم کے باغ کی کوٹھی میں تھا۔بینک منیجر برسفرڈاوراس کے بیوی بچوں کو بے رحمی سے ہلاک کیا اور تمام روپیہ جو چودہ لاکھ کے قریب تھے ایک گھنٹہ کے عرصہ میں سب لوٹ لاٹ کر برابر کردیا۔خزانہ کے صندوق تک اٹھاکرلے گئے ۔ 27 ؎ ؎ ایک مقامی اخبار (دہلی گزٹ)کے دفترپرحملہ کرکے سبھی کمپوزیٹرس کوماردیاگیا۔28؎ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ (17مئی 1857، نمبر20، جلد19)نے اس منظر کویوں پیش کیاہے:
’’برسفرڈصاحب بنک والہ یہ انگریزمیگزین میں پہنچ گیا تھا مگر پھر ازبسکہ قضابہت نزدیک تھی باوجود فہمایش اور انگریزوں کی برائے انتظام ِکوٹھی وخزانہ بنک بذاتِ خودگیاکہ میم اوربچوں کو لے کر آتا ہوں۔سنا گیا کہ کوٹھی میں جا کرایک اورانگریزسے باتیں کر رہاتھا کہ خانساماں نے جا کر اس حال کی خبردی۔پوچھاکہ کتنے ایک سوارآئے ہیں،اس نے کہاکہ ابھی توبیس پچیس سنے گئے ہیں چیں بہ چیں ہوکرکہاکہ اوہم جانتا ہے اپنے واسطے خرابی لائے گا ہماراکیاکرسکتاہے اوراپنے بھائی بندوں کانقصان کرے گایہ کہہ کرکہ اچھا خزانہ کا بندوبست کرو سب کنجیاں وغیرہ لے کرمع میم کہ کچھ لڑکیاں نوجوان اورچھوٹے چھوٹے بچے تھے اوپر کوٹھی کے کمرہ میں چلے گئے اورخانساماں سے کہہ دیاکہ اگرکوئی پوچھے تو کچھ نہ بتلاناکہ صاحب کہاں گئے ہیں۔انجام کارسناگیاکہ ایک سوارغازی وہاں کہ ہنگامہ میں زخم برچھی میم کے ہاتھ سے شہید ہوا اور باقی ان سب کو مار ڈالا اور کوٹھی بینک لٹ گئی اورآگ لگائی گئی کہ جل کرخاک سپاہ ہوگئی۔‘‘
بہت سے انگریزمرد اورعورتوں نے کشن گڑھ کے راجہ کے مکان میں دو دنوں تک پناہ لیں۔بعد میں بادشاہ نے اپنے لڑکے کو ان لوگوں کو بحفاظت نکالنے کے لیے بھیجا۔وہ اس مقام پردیرسے پہنچا یااس کی باتوں کا کوئی اثرنہیں ہوا اورسبھی پناہ گزیں مار دیے گئے۔ تقریباًپچاس قیدیوں کو محل میں لے جایا گیا جہاں کچھ دنوں کے بعدانہیں پھانسی دے دی گئی۔
’’اکثرانگریزمع میم لوگوں کے وہاں پناہ لیے بیٹھے تھے۔اگرچہ شہرمیں یہ قتل رہا مگر وہاں توپ بھری ہوئی وہ انگریز محفوظ تھے اور غازیان شہربھی خبرگیری شہرمیں مصروف رہے۔کسی نے ادھر توجہ نہیں کی ،مگرقریب شام پلٹن چھاؤنی جو شہرمیں داخل ہوئی تو اس نے ان سب کوفی النار کیا، اورداخل قلعہ معلی ہوئے۔‘‘
لیکن کچھ لوگ معجزاتی طورپراپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ان میں نمایاں شخصیت سرتھیو فیلس مٹکاف جوائنٹ مجسٹریٹ کی تھی۔ 29؎ ؎ مٹکاف کے متعلق’’ دہلی اردواخبار‘‘میں کئی خبریں ملتی ہیں۔پہلی خبر 17؍مئی 1857کے اخبار میں مولوی محمد باقرنے اس طرح بیان کیاہے:
’’مٹکاف صاحب ولد طامس صاحب یہ شخص بروقت۸بجے کے کچہری میں آیا تھااوربعداس کے شہر میں بہ مراد تمام گیا۔اس وقت اور انگریز میگزین میں پناہ لیتے تھے سب نے اس کو بھی ساتھ بندکر لینا چاہا تھا اور سمجھایا مگر چونکہ موت سرپرچڑھی ہوئی تھی زبردستی انتظام انتظام کہتا ہو انکل گیااورنگم بود دروازہ تک جاکر انجام کولوگوں سے واسطے پناہ کے ہاتھ جوڑنے لگا اور ایک ایک کے گھرمیں گھستا تھاکہ آخرکو ایک سوار ایجنٹی سے گھوڑا مانگ کرسیدھا بھاگااورایک ترک سوارکہ اس کی جان کا عزرائیل تھاباگ اٹھا کر پیچھے ہوا۔کہتے ہیں اس وقت ننگے سر تھا اور بے تحاشابھاگے جاتاتھا او ر پیچھے ملک الموت اس کااس سے بھی سو قدم آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتاتھا۔آخراجمیری دروازہ پرپہنچ کرایک نجیب کی ٹوپی اٹھاکرسرپررکھ لی اور انسدادِدروازہ کاحکم دے کرباہربھاگ گیاکہ اس عرصہ میں یہ ترک سواربھی جا پہنچا اور جاتے ہی نجیب کو تپنچہ دکھایاکہ اس نے فوراً دروازہ کھول دیا۔ آخر کار پہاڑی دھیرج پر جاکر اپنے منزل ِ آخرکوپہنچ گیااوربعضے کہتے ہیں کہ زندہ نکل گیا۔‘‘
31؍مئی1857کے’’ دہلی اردواخبار‘‘میں مٹکاف کے بارے میں دوسری خبر یوں مذکورہے:
’’بعضے کہتے ہیں کہ مٹکاف صاحب جوائنٹ مجسٹریٹ دہلی میں مارا گیا بعضے کہتے ہیں کہ زندہ نکل گیا۔ جھجر کو گیا وہاں سے انبالہ کویاپہاڑ کی طرف۔بعض ایسے گرم کہ اپنی آنکھ سے لاش مری پڑی دیکھنے،دھیرج کی پہاڑی پاس ظاہرکرتے ہیں اب اعتبار کیا جاوے توکس بات پر۔‘‘
دہلی چھاؤنی کی دیسی سپاہ بھی بغاوت پرکمربستہ ہوچکی تھی ،جس کے انگریز افسر انبالے روانہ ہوئے۔بہت سے راہ میں پانی پت اورکرنال میں مارے گئے اورصرف تین انگریزانبالے تک پہنچے۔ چھاؤنی کی باغی سپاہ نے کشمیری دروازے کے انگریزوں کو قتل کیا اور قلعے میں آگئے۔30 ؎ 17؍مئی1857کے’’ دہلی اردواخبار‘‘کی یہ خبرملاحظہ ہو:
’’—-بہت سے انگریزاہل پلاٹن چھاؤنی لیامن صاحب سیشن جج کے یہاں سے رستہ کاٹ کربراہ نالہ وغیرہ کوٹھی گیاتھا سہ پہرکووہ بھی چھاؤنی میں جاملا اور وہاں سے پہرا اور جمعدار وغیرہ کو رخصت کردیا تھا اور مکوٹرصاحب کلکٹر پانی پت اوربہت سے میم وبچے وغیرہ شام تک جمع تھے اور ایک اور پلٹن بھی اگرچہ برسر پرخاش کمربندتھی مگر یہ انگریزلوگ باوٹہ پرموجودتھے اوراہل پلٹن ان کے شہرکو آئی کہ جب مذکور بالانیم گارڈ کشمیری دروازہ کے انگریزوں کو مار کرداخل قلعہ معلی ہوئی۔معلوم ہوا کہ ان انگریزوں میں دو تین انگریز تھے کہ جن کے ہاںڈاک کا کارخانہ تھا بروزشنبہ ایک شخص خاص اس محلہ کاکہ ان کے کوچیانوں میں نوکر تھا یہاں پہنچا، اس کی زبانی تحقیق معلوم ہواکہ سب انگریز روانہ انبالہ ہوئے اورکچھ پانی پت اورکچھ کرنال میں مارے گئے۔انجام کوتین انگریز مرکھپ کر انبالہ تک پہنچے اورتربِ گورہ میں جا شامل ہوئے۔‘‘
بغاوت کے ہنگامے میں شہرمیں پوری طرح بدنظمی پھیلی ہوئی تھی ۔بدکردار اور بدقماش قسم کے لوگ پورپین اور عیسائیوں کو تلاش کرنے کے بہانے دولت مندلوگوں کو پریشان کررہے تھے ۔دکانیں بند تھیں اور سارا تجارتی کام ٹھپ ہوگیاتھا۔31؎ بدمعاش شہر کے پوربیوں کو ہمراہ لیے ہوئے بھلے مانسوں کے گھرلٹوارہے تھے اور جس کو مالدار دیکھا اس کے گھرپرپوربیوں کو لے جاکر کھڑا کر دیاکہ ’’یہاں میم چھپی ہوئی ہے‘‘۔32 ؎ اسی دوران بہادرشاہ ظفر نے ہاتھی پرسوار ہو کر جلوس کے ساتھ گشت کیا۔انتظامات درست کرنے کے لیے اقدام کئے گئے۔17 ؍مئی1857 کے’’ دہلی اردو اخبار‘‘ میں ہے کہ:
’’—-حضوراقدس ۱۷؍تاریخ برائے تشفی اپنی رعایاکے سوارہوئے۔۱۸؍تاریخ صدراعلیٰ مفتی محمد صدرالدین خاں بہادر اورجناب مولوی عباس علی صاحب وجناب کرم علی خاں صاحب منصف برائے انتظام عدالت فوجداری ودیوانی مقررہوئے۔‘‘
مغل شہزادے کوانقلابی فوج کے کمان اوران کو خلعت دیے جانے کی بھی خبریں’دہلی اردو اخبار‘میں ملتی ہیں۔مولوی ذکاء اللہ نے بھی18؍مئی کے حوالے سے اپنی کتاب’’تاریخ انگلشیہ‘‘میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ مرزا مغل کمانڈرانچیف بنا ئے گئے اوردوسرے شہزادوں کو اعلیٰ فوجی مقام عطا کیے گئے۔ 33؎ وہ خبراس طرح ہے:
’’۲۳؍تاریخ کو شاہزادگانِ والاتبارومرشدزادگانِ آفاق جناب مرزاخضرسلطان بہادرو جناب مرزا عبداللہ بہادر وجناب مرزاابوبکر بہادروجناب مرزا امیدہوبہادروجناب مرزا کوچک سلطان بہادر ادام اللہ اقبالہم سالاری پلاٹن ورسالہ بربہ ترتیب مفصل مقررہوئے اور نقارہ وغیرہ سامان توزک اورحتشام مرحمت ہوئے اور۲۴؍تاریخ کومرۂ باصرہ دولتِ قاہرہ فروغ مملکت باہرہ مرزا جواںبخت بہادر (کذا) اللہ اقبالہم کوقلمدانِ وزارت مع خلعت فاخرہ (کذا) مرزا (کذا) شاہ کو خلعتِ فاخرہ (کذا) پلٹن وغیرہ مرحمت ہوئی۔‘‘
12؍مئی کو بہادرشاہ ظفرکی طرف سے شاہی اعلان جاری کیاگیا۔عہدہ داروں کو قیام امن پرمامور کیا گیا اور اعلان نامہ کو سارے شہر میں منادی کرائی گئی تھی ۔چنانچہ تین چارآدمی معززین اورچندسرکاری آدمی ان سواروں کے ہمراہ کئے گئے اورکوتوال شہرکے آگے ڈھنڈورچی کو بلوا کرحکم سنایاگیاکہ شہر میں منادی پھیردے خلق خداکی ملک بادشاہ کاحکم بادشاہ کاکوئی کسی پر ظلم وزیادتی نہ کرنے پائے۔اب جوشخص کسی کے جان ومال پردست اندازی کرے گا تو گنہگار سرکار ہوگا اور ہرکاروں نے گھروں سے بلا بلاکر حلوائیوں کی دوکانیں کھلوا دیں اور بقالوں کی دوکانیں بھی کھل گئیں اوران پرپربیوں کے پہرے بیٹھ گئے…..ہم دونوں آدمی سوار ہوکر بازار میں آئے اور فتحپوری کی مسجدتک پہنچے تو امن امان پایا ۔‘‘ 34ؔ؎ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ (24؍مئی1857، نمبر21، جلد19 ) میں یہ منادی شائع ہوئی تھی:
——کل کے دن تمام شہرمیں درباب تین باتوں کے منادی ہوگئی۔اول یہ کہ پتلی شاہی روپیہ پربٹہ لگے اور سکہ سلطانی بے کم وکاست حسبِ دستورِ سابق جاری ہوجاوے،دوئم یہ کہ کوئی شخص اہل شہرمیں سے بدمعاشان و بدمظنہ لوگوں کو بہ پشت گریِ مفسدین اپنے مکان پرجمع نہ کرے اور مرتکب دنگہ وفساد واردات کانہ ہو۔ درصورت وقوع حادثاتِ کذائی توپ سے باندھ کراڑایا جائے گا۔سوئم یہ کہ مالِ مفروتہً میگزین جس کسی نے اس طوفان بے تمیزی میں لوٹا ہو اور اس کے پاس ہو،لازم ہے کہ بے تامل کوتوالی شہرمیں پہنچادے وے۔مکانات انگریزوں کے جتنے ہیں بہت مال واسباب وہاں کا لوٹا گیاا ور جلا دیے گئے اورابھی تک کوٹھیاں جلائی جاتی ہیں—- آج سنا گیا کہ طامس صاحب کی کوٹھی کوبھی کسی نے آگ لگادی۔نہایت تعجیل اورکوشش اس باب میں چاہیے کہ سپاہی ِ جرار اور ہوشیارسب اس قسم کے مکانات پر بٹھائے جاویں—-کول میں گیارہ لاکھ روپیہ کاخزانہ لوٹ میں ضائع ہوا۔نہایت افسوس ہے کہ مدد اضلاع میں نہیں جاتی اور انتظام نہیں عمل میں آتا۔‘‘
اس طرح بہت سی دکانیں کھل گئیں۔باغیوں نے امن کے لیے کوشش کی اورپہرے بٹھادیے۔ کہیں کہیں بدنظمی جاری رہی لیکن انقلابی فوجی عام لوٹ مارمیں حصہ نہیں لے رہے تھے،یہ کام شہرکے بدمعاش کررہے تھے۔ 35؎ اور انقلابی فوجیوں نے ان کی جوتوں سے تواضـع کی۔36ؔ؎ؔ
بہادرشاہ ظفرکی طرف سے اسی طرح کا دوسرا حکم نامہ مرزا ظہیرالدین بہادرکے نام جاری ہواتھا جو دہلی اردواخبار‘‘ (21؍جون 1857، نمبر25،جلد19) میں ملتاہے:
’’جناب مرزاظہیرالدین بہادرکوحکم قضاتواَم ارشادہواکہ شہرمیں گشت کرکے ایسا انتظام کریں کہ اقویا، ضعفا پرکسی طرح زبردستی نہ کرسکیں اورکوتوالِ شہرکے نام حکم ہواکہ شہرمیں منادی کردے کہ جس کے گھرمیں اسباب میگزین ہوئے وہ حضورکاربندگانِ سلطانی میں حاضرکردے ورنہ مجرم ِ سرکار ہوگا اورسزا واجبی پاوے گا۔‘‘
جوبغاوت میرٹھ میں10؍مئی1857کوشروع ہوئی بڑی تیزی کے ساتھ پھیل گئی۔بغاوت بپا ہونے کے ایک ہفتے کے اندرہی شمالی ہندوستان میں انگریزی سلطنت کے مٹنے میں تھوڑی ہی کسرباقی تھی۔بنگال اور پنجاب کی حدودکے درمیان صرف آگرہ کے گردونواح میں چندمیل تک ہی انگریزحکومت کاسکہ چلتاتھایاکچھ دوسرے الگ تھلگ مقامات میں جہاں انگریزی دستے موجودہوتے تھے۔اودھ کا انتظام حکومت ریت کے گھروندے کی طرح تہس نہس ہو گیا۔ برطانوی حکومت صرف صوبائی دارالخلافہ اوراس کے گردونواح تک محدود ہوگئی ۔ روہیلکھنڈ میں سارا دیہاتی علاقہ بغاوت کی لپیٹ میں تھا۔ خان بہادرخاں نے شہنشاہ ہندکے نائب ہونے کا اعلان کیا ۔ تقریباً تمام بندھیل کھنڈنے انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھالیے ،سارا دوآب انقلاب کی کشمکش میں مبتلا تھا۔کانپورمیں ناناصاحب نے باغیوں کی ’’ راہنمائی کی ۔ گردو نواح کے دیہاتی مرہٹہ پنڈتوں کی اشتعال انگیزی پرجونانا صاحب کی طرف سے جہادکی تلقین کر رہے تھے، باغیوں کے ساتھ صف آرا ہو گئے۔ جھانسی میں لکشمی بائی نے بغاوت کا جھنڈا بلند کیا ۔پٹنہ میں وہابیوں اور بنارس میں برہمنوں کا مذہبی اثر اتنا زیادہ تھا کہ یہ دوشہر مزاحمت کے گڑھ بن گئے۔37؎ ؔ لہٰذا 24؍مئی اور31؍مئی کے ’’دہلی اردو اخبار‘‘ میں دہلی اور بیرون دہلی کے مختلف شہروں اور مقامات کے حالات ِجنگ پیش کیے گئے ہیں۔ اخبارات جنگی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ ان میں کول، بلندشہر، کانپور، لکھنؤ، آگرہ، جھجر،سکندرہ،غازی آباد،بلب گڑھ ، میرٹھ ،ہتک اور کرنال شامل ہیں۔24؍مئی 1857 کے ’’دہلی اردواخبار‘‘(24؍مئی 1857)سے چندمثالیں درج ذیل ہیں:
’’سناگیاہے کہ چارکمپنیاں کول کی بھی انگریزوں کا کالا منہ کرکے حضورسلطانی میں آحاضرہوئی یعنی جوانگریز پایا اسے موت کے گھر پہنچایا اورخزانہ خوب لٹایا۔تمام رعایا نے وہاں کی خوب لوٹا اورجس نے پایا خوب کمایا۔جس پلٹن کی یہ سپاہ ہے اس پلٹن کانام بہ جالیسرمنسوب ہے باقی سپاہی بھی قریب انشاء اللہ آنے کو ہیں —- بلند شہر میں بھی سناکہ سپاہ نے انگریزوں کومار ڈالا،جو کوئی قسمت سے بھاگ گیا سو بھاگ گیا، باقی سب مارے گئے قیدی جیل خانہ کے تمام چھوٹ گئے اور کوٹھیاں انگریزوں کی تباہ برباد ہوئیں —- کانپورکاحال بھی مثل سب جگہ کے سنا گیا۔ جہاں انگریز پایا جاتا ہے ماراجاتاہے —– سنا جاتاہے کہ لکھنؤمیں انگریزوں کا وہی حال ہوا جو کہ یہاں دیکھا گیا۔ یہ بھی افواہ ہے کہ وہ بھائی گدی نشینِ معزول کا(کذا)کہ دیوانہ مشہورتھاگدی پر بیٹھا اور عملداری اس کے نام ہے—-سکندرہ ،وہاں کاخزانہ بھی لٹ گیا۔ انگریز مارے گئے۔دفترجلادیاگیا—– غازی آباد، گوجروں نے کسی طرح ایک دوتوپ قبضہ میں کر کے غازی آبادکواڑادیااورخوب لوٹ کی۔‘‘
جہاں کہیں بغاوت شروع ہوتی سرکاری خزانہ،گودام اوراسلحہ خانہ لوٹ لیاجاتا۔بیرکوں اور سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کردیاجاتااورجیل خانوں کے پھاٹک کھول دیے جاتے ،ہر جگہ سرکاری دستاویزات کی طرف باغیوں کا وہی رویہ ہوتا جو بنیوں کے بہی کھاتوں کی طرف تھااور دونوں صورتوں میں وجہ ایک ہی تھا۔ان کی نگاہ میں یہ دستاویزات جابرانہ ٹیکسوں کی وصولی اورضبط وامن کے قیام کے وسائل تھے جو انہیں ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ اس لیے سرکاری دستاویزات کوتباہ کردیتے اور ان کے ہاتھوں بنیوں کے بہی کھاتوں کا بھی یہی حشر ہوتا۔بے دخل کیے گئے زمینداروں نے اس موقعہ کو غنیمت جاناجس کے وہ مدت سے منتظرتھے۔انہوں نے اپنی رعایاکو اکٹھا کیا اور مغرور دولت نو دولتیوں کو ماربھگایاجنہوں نے ان کی جائدادیں خریدلی تھیں اوراس طرح فاتحانہ اندازسے اپنے آبائی گھروں میں آباد ہوگئے۔گستاخ قرض داروں کے ہجوم بنیوں پرٹوٹ پڑے اورانہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تاجروں کو مجبور کیاجاتا کہ اپنی جان بچانے کے لیے باغیوں کی مدد کریں۔ 38ؔؔ؎ 31؍مئی 1857 کے دہلی اردواخبار میں’’ہرفرعونے راموسیٰ‘‘کے عنوان سے اسی طرح کی خبر ملتی ہے :
’’—— کسی نے خزانہ میں سے کسی نے بینک میں سے کسی نے انگریزوں کی کوٹھیوں میں سے غرض جہاں سے جس طرح بناکسی سپاہی نے یاکسی نے سپاہی کی صورت جعلی بناکے غرـض کس کس طرح روپیہ جمع کیاکہ بیان سے باہرہے۔‘‘
31؍مئی1857کے ’’دہلی اردواخبار‘‘کی ایک خبرسے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ابتدائے جنگ میں تقریباً روزانہ دہلی میں انگریزقتل کیے جاتے تھے اورجہاں کہیں بھی کوئی انگریزکسی ہندوستانی کی نظر میں آجاتا وہ اس کو موت کے گھاٹ اتاردیتاتھا۔چنانچہ ’’شہر دہلی خاص‘‘کے عنوان سے ایک خبرملاحظہ ہو:
’’شہردہلی خاص:۔ابھی تک یہی انگریزروزشب ایک دوچھپے چھپائے نکل آتے ہیں اوراپنی سزا کو پہنچائے جاتے ہیں،ہرروزاور ہر ساعت اور ہرلمحہ چشم عبرت بین کونصیحت ہے۔نمونہ قدرت الٰہی کا نمایاں ہے۔ ایک شخص خربوزہ فروش کی دکان پر منہ لپیٹے خربوزہ خریدنے لگا۔ دو چارآدمی اوربھی خریدار کھڑے تھے ۔ ایک دوسرے پر پیش قدمی کرتا تھا۔وہ شخص بے تحاشایہ بولاکہ تم چپ رہے گا سویہ کلمہ سنتے ہی سب لوگ متفرس ہوگئے کہ یہ انگریز ہے۔ فوراً بازار کے لڑکوں نے چار طرف سے مارگرایا—–چارانگریزمرزاحسن کے مقبرہ میں پوشیدہ تھے ایک سقہ نے دیکھ لیا اسے مار ڈالا آخر تلنگی خبرپاکرجاپہنچے اورمارڈالا۔ایک فرنگی رات کومکان دہلی گزٹ کی طرف پھرتاتھا چوکیدار وغیرہ لوگوں کے ہاتھ آناً فاناً میں داخل نیران ہواوقس علی ہذا ہرروزایک دواسی طرح مارے جاتے ہیں۔‘‘
انگریزاوران کے جاسوسوں نے دوران جنگ دہلی میں ایک اشتہارمشتہرکیاتھاجوشہرکے مختلف محلوں، مسجدوں، تھانوں اور چوکیوںپر چسپاں کیے گئے تھے۔جس میں اس بات کاذکرتھا کہ بغاوت انگریز حکومت کے نمک حرام سرکش نوکروں نے کی ہے۔ باغیوں نے انگریز عورتوں بچوں کو قیدی بنایا اوراسے تہ تیغ کیا۔رعیت پرظلم وستم روارکھااوربادشاہ کوبھی اپناقیدی بنالیا۔دوسری بات یہ کہ اس قتل وغارت گری کوکیا تم ’’جہاد‘‘کانام دے رہے ہو؟ ۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہم انجیل کی قسم کھاکرکہتے ہیں کہ چربی لگے کارتوس کودینا میرا مقصدنہ تھا۔ مسلمانوں سپاہیوں کے مذہب بگاڑنے میں ہمارا کیا فائدہ ہوگا۔چوتھی بات اس میں یہ کہی گئی ہے کہ اسلام میں خنزیر کھاناحرام ضرور ہے لیکن کوئی مسلمان اسے کھالے تو دائرے اسلام سے خارج تو نہیں ہو جاتا۔پانچویں یہ کہ یہ بغاوت دراصل ہندؤں کی سازش کانتیجہ ہے۔اس لیے ہمارے ساتھ متحد ہو کر ہندؤں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ گوکہ اس اشتہار میں دہلی کے عوام کو مجاہدین سے برگستہ کرنے ، جنگ آزادی کو غیرشرعی ثابت کرنے ، مسلمانوں کو ہندؤں کے خلاف ابھارنے اورکمپنی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں پرلعنت و ملامت کی گئی تھی۔اس اشتہارکی نقل اوراس کا جواب مولوی محمدباقر نے سنی اورشیعہ حضرات کی کتابوں سے جنگ آزادی1857میں شرکت اورجہادکوثابت کیاہے اوراس میں ان وجوہات کی نشاندہی کی جو انقلاب کے سبب بنے تھے ۔جو5؍جولائی1857کے دہلی اردواخبارمیں اس اشتہارکی تفصیل موجودہے۔ 39ؔ؎ مجموعی طورپراس اشتہارکاخلاصہ یہ ہے کہ انگریزوں نے عیسائیت کوفروغ دیااوراس کے لیے ترغیب وتحریص کے تمام اچھے ہتھکنڈے اختیارکیے،جس کے نتیجے میں ہزارلوگ دین سے بے دین ہو گئے۔رعایاکی جاگیریں حیلے بہانے سے ضبط کرلی گئیں، حالانکہ وہ یہ وہ جاگیریں تھیں جن کے وہ دوامی مالک تھے۔ انگریزوں کی غاصبانہ اورجبروتسلط کی پالیسی سے ہزارآدمی نان ِشبینہ کو محتاج ہوگئے۔مذہبی شعائر پرپابندیاں لگائی گئیں۔مذہبی رسومات ممنوع قراردے دی گئیں۔مثلاًہندوؤں میں ستی کی رسم اور مسلمانوں میں عیدالاضحی کے دن قربانی کرنے پرجبری پابندی عائدکی گئی۔بادشاہ کو ناقابل اعتماد سمجھا گیا اور کوئی موقع ان کی توہین کاہاتھ سے نہیں جانے دیاگیا۔بادشاہ سلامت کواتنا مجبور و بے بس کردیا گیا کہ انہیں دلی سے باہر جانے تک کی اجازت نہ تھی۔وہ ریزیڈنٹ کے بغیربراہ راست گورنرجنرل اورملکہ سے خط وکتابت تک نہیں کر سکتے تھے۔کوئی راجا یا رئیس بادشاہ سے شرف ملاقات حاصل نہیں کرسکتا تھا وغیرہ۔ 40ؔ؎
مختلف جگہوں سے انقلابی فوجیں بغاوت کرکے دہلی میں داخل ہونے لگیں وہ لوگ اپنے ہمراہ خزانے لاتے اور شاہی خزانے میں داخل کردیتے۔ چنانچہ علی گڑھ،آگرہ،متھرا،مین پوری اورنصیرآبادوغیرہ سے اس طرح فوجیں دہلی آگئیں۔اس کی کئی مثالیں’’دہلی اردو اخبار‘‘ میں ملتی ہیں۔
دہلی سے ملحق جنوب مغرب میں ایک لمبی پہاڑی تھی اوردومیل میں پھیلی ہوئی تھیں۔اس کی سطح دہلی سے ساٹھ فٹ اونچی تھی۔ یہ حملہ کے لیے مناسب جگہ تھی اورحفاظت کے لیے بھی مناسب تھی۔اس پہاڑی کے گرد انگریزی فوجوں نے پڑاؤ ڈالا اور پہاڑی پر قبضہ رکھنے کاانتظام کیا۔اس کے بعد جہاں اب فتح گڑھ واقع ہے بھاری توپیں لگائی گئیں۔شمال کی طرف بھی مضبوط مورچہ بندی کردی صرف محلہ سبزی منڈی سمت جومورچہ تھاوہ بہت کمزور تھا۔اس لیے کہ ادھرگھنی آبادی اورباغات تھے۔جس کی وجہ سے انقلابی ادھرسے حملہ کرسکتے تھے اورپنجاب جانے والی سڑک کوبھی بندکرسکتے تھے۔ انگریزوں نے پہاڑی پرایک نہایت مناسب جگہ پرقبضہ کرکے وہاں مورچہ بنایا۔ اور وہاں سے شہرپرگولہ باری شروع کی۔ انگریزوں کا یہ مورچہ بہت مضبوط تھا،مورچہ پر زبردست حملہ کیے،پہاڑی پر جب پہلے دن انگریزوں نے مورچہ جمایاتواسی دن انقلابیوں نے شہرسے باہرنکل کر ہندوراؤکی کوٹھی پھر ایک زوردارحملہ کیامگراسی دن انگریزوں کی کمک آگئی تھی،اوراس لیے سخت مقابلے کے بعد انقلابیوں کو پسپاہوناپڑامگرانہوں نے انگریزی فوج کو کافی نقصان پہنچایا۔14؍جون1857کے ’’دہلی اردو اخبار‘‘ میں اس جنگ کی ایک خبرملتی ہے:
’’۔۔۔۔ انبالہ وکرنال سے جمعیت گورہ آتی ہے ظاہراعلی پورکی طرف وہ آپہنچی اور میرٹھ والے جوہینڈن کے پل پرتھے وہ بھی ان سے جاملے انجام یہ کہ قریب سبزی منڈی آگئے۔یہاںکی فوج باوصفے کہ مورچوںکوگئی لیکن اخیرکاردرگاہ پیرغیب وکوٹھی ہندوراؤاورباوٹہ قریب چھاؤنی گرد شہر گوروںنے مورچہ ہائے متعددکیے۔پندرہویں تاریخ صبح سے گولہ زنی گوروں نے شروع کی۔ ادھرسے بالائے کشمیری دروازہ موری دروازہ کابلی دروازہ سے توپ زنی ہوئی اوردن رات آج تک ہوتی ہے۔ ہنوزروزاول ہے۔ہر روز حملہ فوج منصور کاگوروں پر ہوتا ہے۔ طرفین میں کشتہ وخستہ ہوتے ہیں آخر کار شام کوفوج ِمنصورہ شہرمیں آ داخل ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ گورہ مع گھسیارہ، سوار پیادہ سب قریب دویا ڈھائی ہزارکے تھے۔اب گھسیاروں سمیت کوئی چارپانچ سو ہوں گے لیکن نہایت افسوس ہے کہ تحقیق شمار تک بھی اب تک معلوم نہیں۔اس تعداد کا اصلایقین نہیں۔فوج نصیرآبادآنے کوہے ،سرسہ سے،انبالہ سے،بریلی سے ،لکھنؤسے فوج عنایت الٰہی سے آگئی ہے اب ان کاحملہ مشہور ہے کہ ہوگا۔ شہرمیں ظاہراً لوگ ہواخواہان انگریزوں، مزدور اورسقہ وغیرہ سے کثرت ِ فوج گورہ سنتے ہیں اور ہراساں ہوتے ہیں۔ علی الخصوص دن رات کی گولہ زنی سے لوگوں کو بہت اذیت اورکھلبلی ہوتی ہے اور بعضے لوگ کہتے ہیں کہ سرنگ بھی گورہ کھود رہے ہیں۔ان کے لیے مسدودی اور چار طرف سے گھیرا پرضرور ہے اور فوج کا صرف شہر میں بیٹھا رہنا ہرگزنہیں چاہیے۔مہلت اصلاًدینی نہیں چاہیے وہ ہرگزمددطلبی ِ بمبئی و مدراس وغیرہ سے غافل نہ ہوںگے اوران کی چھٹیاں ہرطرف جاری ہوںگی۔الغرض جتنی تعجیل ان کے استیصال میں ممکن ہو واجب ہے—-اگردوتین پلٹن اورکچھ رسالہ ہائے سواران علی پورکی طرف سونی پت کے رستہ میں تعین ہوں اور ایک ایک رسدرساں ومددگارگرفتاروسزایاب ہو سب کو عبرت ہوجاوے۔ تحصیل دار لوگ علاقوں پرتعین ہوں۔رسدفوج منصورہ کودیویں زمیندار کو دباغت ہو سب زمیندارکانپ اٹھیں گے سب کام درست ہو جاویں گے۔اب کے حملہ میں انشاء اللہ تمام گوروں کو صبح وشام میں گور کنارہ پہنچادیاجاناہے—- اور انگریزوں کے رعب و فریب میں ہرگزنہ آویں۔‘‘
ـ 7؍جون1857کوانگریزی فوجیں متحد ہوکر علی پورسے دہلی کی طرف بڑھیں انقلابی فوج نے دہلی سے شمالی سمت پانچ میل دوربادلی پرمقابلہ کیا۔انگریزی جاسوس تمام اطلاع پہنچا چکے تھے اور انقلابیوں کی ہرنقل و حرکت اورتوپوں کی پوزیشن معلوم ہوچکی تھی۔ ان کے پاس اعلیٰ درجہ کی توپیں اور سامانِ جنگ تھا وہ تعداد میں انگریزی فوج سے کہیں زیادہ تھے۔یہ اندازہ کرنے کے بعد برنارڈ نے ان کی توپوں پر نمائشی حملے کاحکم دیا۔انقلابی دلیری سے اپنی توپوں کے گردجنگ کرنے لگے ان کی پوری طاقت ادھرلگا کر انگریزی لشکر بائیں طرف سے حملہ آورہوا۔ساتھ ہی ہوپ گرانٹ نے اپنی سوارفوج اور توپ خانہ لے کر پیچھے سے حملہ شروع کردیا۔یہ عمل اس قدر فیصلہ کن تھاکہ انقلابیوں کا اگلا حصہ فوراً بکھر گیا اوروہ پیچھے ہٹ گئے۔ یہاں بھی ایک چھبیلامغل شہزادہ کمان کررہاتھا۔وہ اس سے بری طرح شکست کھا کرہٹے کہ26 بہترین تو پیں اورسامان جنگ وغیرہ چھوڑگئے۔اب وہ دہلی کی چہاردیواری میں بند اور انگریزبہ آسانی شہرکے سامنے پہاڑی پرقابض ہوگئے ۔بقول سین گرچہ ان کی تعدادزیادہ تھی اوروہ میدانی علاقہ میں تھے لیکن مہارت کے سبب فتح ہوئی۔جبکہ انگریزوں کی طرف سے کل چار افسرمارے گئے اورکئی زخمی ہوئے۔ جو مارے گئے ان میں کرنل چسٹربھی تھا جوآرمی کا ایڈجوئنٹ جنرل تھا۔اسی دن فاتح فوج آگے بڑھی اوراس نے رج پرقبضہ کرلیا۔وہ چھوٹی پہاڑیاں جودلی کا حصارکرتی ہیں سپاہیوں کے پاس عزم کی کمی نہیں تھی لیکن ان کے پاس کوئی ایسی فوجی صلاحیت نہیں جوان کی رہنمائی کرتی ورنہ رج کو بغیرکسی مزاحمت کے یوںنہ چھوڑدیتے۔برٹش فوج 11؍مئی کودلی کے باہری علاقوں سے گزرتے ہوئے 8؍ جون کو کینٹونمنٹ پہنچی ۔ صرف ایک مہینے میں۔41؎ ’’دہلی اردواخبار‘‘(21؍ جون1857، نمبر25، جلد19) میں ان تمام جنگوں کی رودادہمیں ملتی ہیں:
’’روزشنبہ 13؍تاریخ شوال کومرشدزادہائے آفاق جناب مرزاظہیرالدین بہادرو مرزا خضرسلطان بہادرو مرزا ابوبکربہادر—-حکم قضا تواَم افسران پلاٹن کوہواکہ مقام علی پورمیں پہنچ کرایساانتظام اورہنگامہ کارزارگرم کریں کہ پھربے انتظامی وبدنسقی نہ ہوئے اورواسطے سامان رسدکے حکم ہوا،سو عرض ہوئی کہ کل کی رات فوج روانہ علی پور ہووے اورسامان رسدبھی خوب پہنچتاہے اوربھی عرض ہوئی کہ افواج ِ پلاٹن ،بمقابلہ ٔ فوج انگریزی مقام شمع پور میں گئی۔مگرفوج ِ انگریزی نے اپنے مورچے بطرف ِعقب فوج باندھے ہیں۔‘‘
ایک طرف انقلابی افواج ہمت اوردلیری سے لڑرہی تھیں تو دوسری جانب انگریزجنگی چالیں اور فریب و دغاکے حربے کا استعمال کررہے تھے جس کی وجہ سے ان کی بہادری ہرجگہ مات کھاجاتی تھی۔ چنانچہ ایک ایسی ہی جنگ کاحال جو سبزی منڈی سے آگے کے علاقے یعنی باغ محلدارخاں کے ترپولیہ (موجودہ پرتاپ باغ)کے قریب پیش آیاتھا۔اسی اثنامیں لکھنؤ والارسالہ تازہ دم ہماری مدد کو پہنچا اورکہاتم بیچ میں سے میدان چھوڑدو۔ ہمیں ان پر دھاوا کرنے دو، جو سوارتم کودباتے آتے ہیں۔ہم نے میدان دے دیااوروہ رسالہ گھوڑے اٹھاکر سولجروں کے رسالوں پر جاگرا اور باہم دست بدست کی لڑائی ہونے لگی۔42؎ 21؍جون 1857کے ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کی خبرمیں مذکورہ جنگ کی طرف اشارے ہیں:
’’15؍تاریخ عرض ہوئی کہ فوج انگلستان زاآمدِمقام علی پورنے اول مثلِ موروملخ بہ فریب ودغا حملہ کیا مگر آخر فوج ِمنصورہ نے انہیں پسپا کیا اوردادمردانگی وجسارت اداکی۔سامان ِرسدکے لیے تاکیدارشاد ہوئی اورواسطے بھیجنے کمک کے حکم محکم صادرہوا۔پھرسواران ِہرکارہ اخبارمختلف لائے اور سوارانِ لکھنؤنے ایسی داد شجاعت و مردانگی دی کہ بیان امکان میں نہیں آتی اوربہت خستہ وکشتہ ہوئے۔‘‘
حالانکہ مذکورہ خبرمیں فتح کی بات کی کہی گئی ہے لیکن واقعہ اس کے بالکل برعکس تھا۔اس جنگ میں نہ تودلی شہر اور نہ رج کے پاس دشمن فوج پرکوئی قبضہ کیاگیااورمتھرا روڈ تو ہمیشہ کھلی رہی اس لیے ادوھ اورروہیل کھنڈ،جھانسی سے لے کر کانپورتک اور نصیرآبادسے نمچ تک باغی فوجیں دہلی آکران کی تعداد میں اضافہ کرتی رہیں۔مذکورہ اخبارکی ایک خبرہے:
’’—-افواج ظفرامواج ِ جنگی آمدنمچ بیرون شہرفروکش ہوئی۔ارشادہواکہ کل دربار میں افسران فوج مرقوم حاضر ہوویں۔ان کوحکم پہنچا دیا جاوے اوررسدبھی بھیجی جاوے —-جرنیل سدھارے سنگھ وغیرہ افسران پلٹن ہائیِ جنگی اور سواران نمچ حاضردربارہوئے۔نذریں گزرانیں اور حالات واخبارات قتل قمع کفارناہنجارہرجگہ سے جہاں جہاں رستہ میں تھے عرض کیااور چالیس زنجیر فیل پیش کش گزرانیں۔ بندگان ِاقدس سے ایک ہزارروپیہ مرحمت ہوااور حضّار رخصت—-تین کمپنی آمدکانپور مع نورنجیرفیل اور چندسوارحاضر ہوئے۔ اوربذریعہ گورنر صاحب بہادر شرف ملازمت حاصل کی—-دوسوسوارلکھنؤکی طرف سے آئے بعد سماعت ِعرض حکم ہواکہ سپہ سالار بہادرپا س بھیجے جاویں ۔‘‘
گوکہ18؍جون کونیمچ اورنـصیرآباداورمرارکی باغی فوجیں دہلی پہنچیں جوجنرل سدھاری سنگھ اور غوث محمدخاں کی کمان میں تھیں۔نیمچ کی باغی فوج کا ایک سرداربھاگیرت مصربھی تھا۔یہ فوجیں آگرہ ہوتی ہوئی دہلی پہنچیں۔ ان متحدہ فوجوں نے دہلی آکر انگریزوں پر پے درپے حملے کئے۔مصرنے ایسی بہادری دکھلائی کہ اس کو پانچ رجمنٹوں پر بریگیڈیر جنرل بنادیاگیا۔20،19جون کو نصیرآبادکی فوجیں حملے کے لیے نکلیں اورانگریزی فوج پرپیچھے سے (سبزی منڈی) حملہ آورہوئیں۔ان کاحملہ بے پناہ تھا انہوں نے انگریزوں کی کئی توپیں چھین لیں اوربعض اہم مقامات پرقبــضہ کرلیا۔ پنجابی ریاستوں کی فوجوں نے بار بار ان پرحملہ کیا مگربری طرح پسپا ہونا پڑا۔ رات ہوگئی مگرگھمسان کی جنگ جاری رہی۔
جب 12؍جولائی کا ’’دہلی اردواخبار‘‘کاشمارہ منظرعام پر آیا تو اس میںایک بنیادی تبدیلی دیکھنے کویہ ملی کہ اس کانام ’’اخبارالظفر‘‘ رکھ دیا گیاہے۔نام کی تبدیلی کے بارے میں مولوی محمدباقرنے لکھاکہ یہ نام بہادرشاہ ظفر نے اپنے دستخط کے ساتھ تجویزکیا ہے۔اس کے بعد اخبارکا لب و لہجہ اور زیادہ جارحانہ ہوگیا۔ مجاہدین کی حمایت تویہ اول روزسے کرہی رہاتھا،اب اس میں ایک مجاہدانہ شان بھی پیدا ہوگئی تھی۔ پہلے اس میں اخباریت پائی جاتی تھی تواب یہ صرف مجاہدین کے کارناموں اور ان کے پروپیگنڈے کاذریعہ بن گیا تھا۔ اسلامی تاریخوں کے حوالے سے مجاہدین کی مختلف شہروں میں پیش قدمی اور معرکے سر کرنے کی خبریں ہرشمارے میں نظر آنے لگیں۔43؎ اسی شمارے میں جنرل بخت خاں کی دہلی آمدکاذکر ملتا ہے۔ مسٹرمیلیسن نے اپنی کتاب ’’میوٹنی ان انڈیا،جلددوم‘ ‘ میں لکھاہے کہ جنرل بخت خاں یکم جولائی 1857کودہلی میں وارد ہوا۔’’داستان غدر‘‘میں ظہیر دہلوی تحریرکرتے ہیں کہ بخت خاں چودہ ہزارکاکمپو،چندتوپیں او رتین رجمنٹیں سواروں کو لے کردوسری جولائی کو دہلی پہنچے تھے۔ ’’قیصرالتواریخ‘‘ کے مصنفف کے نزدیک بخت خاںچار پلٹنوں،چھ رسالوں اور ایک دیسی توپ خانہ اورچھ لاکھ روپے کے ساتھ دہلی میں داخل ہوئے تھے۔ بخت خاں کے ہمراہ ناناصاحب کے بھائی بالاصاحب بھی دہلی آئے،اور ایک سوکے قریب علماء بھی ان کے ہم رکاب تھے۔جس کی رہنمائی مولانا سرفراز علی کررہے تھے۔جب بادشاہ نے بخت خاں کی آمدکی خبرسنی تو اپنے خسرنواب احمدعلی خاں،حکیم احسان اللہ خاں، صمدیار خاں ابراہیم خاں اورغلام علی خاں کو ان کے استقبال کے لیے روانہ کیا۔بخت خاں بادشاہ کے حضورمیں باریاب ہوئے ۔بادشاہ کی طرف سے ان کوخلعت عطا ہوا اور عہدۂ جرنیلی پرسرفرازکیے گئے اوران کی پوری فو ج کودعوت دی گئی اورچارہزارروپے بطور انعام بھی جیبِ خاص سے فوج کومزحمت فرمائے۔اخبارالظفر (19؍شہرذیقعدہ الحرام1273ھ، مطابق 12؍ جوالائی 1857)میں اس کی تفصیل موجودہے:
صمصام الدولہ بہادرپیشوائے جناب جرنیل محمدبخت خاں بہادرکے لیے روانہ ہوئے اوراپنے ساتھ لائے۔جناب بہادرممدوح مع افسروں کے حدادب وآداب وکورنش بجا لائے اورحالاتِ انتظام سب جگہوں کے عرض کیے۔حضورِ اقدس خاں بہادر وشجاعت نشان کی باتوں سے بہت خوشنودومحظوظ ہوئے اورسپروشمشیراورچار ہزار روپیہ نقدواسطے شیرینی کے عطا فرمائے اوراس تاریخ خطاب سپہ سالار بہادر افسر کل پلاٹنِ جنگ مخاطب فرمایا…..‘‘
اس کے بعدبہادرشاہ ظفرنے تمام افسروں کے نام فرمان جاری کیاکہ’’ متابعت وانقیادِخانِ موصوف میں ہوکرکار بندِحکم ان کے رہیں اور کوئی متنفس خلافِ مرضی ان کے رستہ نہ چلے‘‘۔اس کے بعدشقہ سالار بہادر جنرل بخت خاں کے نام حکم صادرہواکہ’’ اول تدبیرِ شکست مورچہ ہائے مخالفین اورتدبیرِنساری معاندین ِمبین ہر وقت وہرلمحہ مطمح نظررہوے۔ دوسرے سواروں اور سپاہیوں کی جوکہ قلعہ مبارک کے اندراور شہرمیں بہ جبروتعدی گھس آئے ہیں ایسی تدبیرکروکہ یکسر باہرشہرپناہ کے قیام کریں اورتاخت وتاراج اورتکلیف دہی رعایاسے ان کو ممانعت اورسرزنش کرو کہ کوئی مرتکب ایسی امردورازکارکانہ ہووے۔تیسرے ایسی تدبیرِشائستہ کروکہ جلد تقسیم تنخواہ ملازمان قدیم وجدیدکی ہووے،چوتھے انتظام ِ تحصیلات اورتھانہ جات بیرون جات کااورانتظام غارت گری کا ساتھ بھیجنے پلٹنوںکے عمل میں لاؤ۔پانچویں اکثر مدمعاشانِ شہرکہ بہ لباس تلنگان آن کرآمیزش کرکے بسبب بہانہ گھرمیں رکھنے مخالف کے یارسدرسانی کے یااخبارنویسیِ حریف کے مہتمم کرکے شرفاونجباکے گھروں میں گھس جاتے ہیں اورمال واسباب ان کالوٹ لیتے ہیں اب باب میں بخوبی تحقیقات کرکے سزائے واجبی دو۔‘‘اس کے سدباب کے لیے بخت خاں نے ایک اشتہارجاری کیاجواخبارالظفر (12؍ جولائی 1857، روزیکشنبہ، نمبر28،جلد19)میں شائع ہواتھا:
’’یہ بات سب پرظاہراورواضح ہوئی کہ اکثرلوگ اس شہراوربیرون جات میں جاگیرداراور پنشن داراورمعافی داراراضی وغیرہ کے جورہتے ہیں اگر ان کوبسبب جاتے رہنے کفارفرنگ کے کچھ تامل اپنی اوقات گزاری کاہووے اوراسی خیال سے وے لوگ خیرخواہ انگریزکے ہوکرکسی طرح کی سازش یاخبررسانی یارسدرسانی کاپیشہ رکھتے یاکرتے ہوںتواس کاکچھ تعجب نہیں ہے۔پس اس واسطے یہ حکم عام دیاجاتا ہے کہ وے لوگ کل بہرحال مطمئن رہیں کہ بروقت فتح یابی کے بصورتِ ثبوت اورمعائنہ دست آویزسابقہ اورحال کے جوکہ جس کامقرر ہے بدستورجاری ہوگا اوربسبب بدعملی کے جتنے روزوں کا بند رہا ہے وہ بھی ان کودیاجا وے گاپس ان درین صورت بعد اطلاع یابی اس حکم کی جوکوئی شخص کسی طرح کی خبررسان ییارسدرسانی وغیرہ انگریزوں کو کرے گا تو وہ آدمی حسب التحریرسرکارکے بھاری سزاپاوے گا۔اس واسطے بنامِ گوتوال شہرنفاذ حکم ہوتاہے کہ تم اپنے اپنے علاقہ کے جاگیرداروںاورمعافی داروں اورپنشن داروں کو اطلاع دے دو اوران سے پشت اطلاع نامہ پر’’العبداطلاع یابی‘‘کالکھواکرجلدحضورمیں روانہ کرو۔
اسی دوران بہادرشاہ ظفرنے جنرل بخت خاں اور علامہ فضل حق کے مشورہ سے’’کنگ کونسل‘‘نامی ایک تنظیم کی تشکیل دی اورعلامہ کواس کا ایک اہم رکن بنایا۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کا بگل بجانے کے لیے بہادرشاہ نے بخت خاں سے مشورہ کیا اورطے پایاکہ یہ ذمہ داری حـضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کودی جائے۔ علامہ فضل حق خیرآبادی اس تاریخی کارنامے کوانجام دینے کے لیے دہلی کی جامع مسجدمیں جمعہ کوخطبہ کے دوران انگریزی ظلم وستم کے خلاف خوب جم کر تقریرکی اورانگریزوں کے خلاف فتوی جہاد اکابر علما کرام کی موجودگی میں پیش کردیا۔جس پرمفتی صدرالدین آزردہ، صدالصدور دہلی، مولوی عبدالقادر،فیض اللہ دہلی، مولوی فیض احمدبدایونی،ڈاکٹرمولوی وزیرخاں اکبر آبادی،سیدمبارک شاہ رامپوری نے اس فتوی جہادپردستخط کیے۔اس فتوے کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔ 44؎ حالانکہ’’مولانا فضل حق خیرآبادی کے دہلی پہنچنے سے پیشتربھی لوگوں نے جہادکا پرچم بلندکر رکھا تھا۔ مولاناپہنچے تو مسلمانوں کو جنگ آزادی پرآمادہ کرنے کی غرض سے باقاعدہ ایک فتوی مرتب ہواجس پردہلی کے دستخط کے لیے میراخیال ہے کہ یہ فتوی مولانافضل حق ہی کے مشورے سے تیارہوا تھا اور انہوں نے علماکے نام تجویز کیے جن پر دستخط لیے گئے۔‘‘45؎ 1857میں دیگرسیاسی،سماجی اورمذہبی عوامل کے ساتھ ساتھ انگریزی اقتدارکے خلاف ملک گیر ماحول بنانے اورمسلمانوں میں جوش وجذبات برانگیختہ کرنے میں علماء کے فتوؤں نے کلیدی کردارادا کیا ہے۔بقول ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر ’’جب کبھی کوئی ایسافتوی حکومت کے خلاف شائع ہواتواس کانتیجہ دنیاکی سخت ترین اورنہایت خوں ریز بغاوتوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔‘‘ 46؎
تاریخ کی مستندکتابوں سے انقلاب اٹھارہ سو ستاون میں علما کے ایسے چندفتوؤں کی نشاندہی ہوتی ہے،جن میں انگریزوں کے خلاف جہادکو جائز و واجب قراردیتے ہوئے مسلمانوں کوحرکت وعمل کی ترغیب دی گئی تھی۔ لیکن ’’صادق الاخبار‘‘، دہلی (27؍ جولائی 1857)میں شائع ایک فتوے کے علاوہ کسی بھی فتوے کامتن دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔تاریخ میں انگریز مخالف ایسے تین فتوؤں کا ذکر ملتا ہے جوانقلاب اٹھارہ سوستاون میں دیے گئے۔ پہلا فتویٰ وہ ہے جس کاذکرسرسیدنے کیاہے:
’’دلی میں جوجہادکا فتویٰ چھپا،وہ ایک عمدہ دلیل جہادکی سمجھی جاتی ہے…..اس پہلے فتوے کی میں نے نقل دیکھی ہے۔‘‘ 47؎
دوسرافتویٰ وہ ہے جس کاذکرمولوی ذکاء اللہ دہلوی نے اپنی کتاب میں کیاہے:
’’(بخت خاں)جب دہلی میںآیاتواس نے یہ فتویٰ لکھایاکہ مسلمانوں پرجہاد اس لیے فرض ہے کہ اگرکافروں کو فتح ہوگی تووہ ان کے سب بیوی بچے قتل کرڈالیںگے۔اس نے جامع مسجد میں مولویوں کوجمع کرکے جہادکے فتوے پردستخط ومہریںان کی کرالیں۔اس فتوے کااثر یہ تھا کہ جاہل مسلمانوں میں جوش مذہبی زیادہ ہوگیا۔‘‘ 48؎
1857کے دوران علمائے کرام کامذکورہ فتوے جن کی نقلیںدہلی کی جامع مسجدکی دیواروں اورمختلف مقامات پرچسپاں کی گئی تھیں’۔سیدجمیل الدین ہجرؔنے اس فتوے کاسوال اورعلمائے کرام کاجواب دونوں ۔’ صادق الاخبار، دہلی‘‘ (27؍جولائی1857) میں شائع کیے تھے۔تیسرافتویٰ وہ ہے جو 26؍ جولائی 1857کو’’دہلی اردواخبار‘‘(اخبارالظفر)میں شائع ہوا تھا۔’’ اخبارالظفر‘‘ کا یہ شمارہ اب تک مجھے دستیاب نہیں ہو ا۔البتہ سید خورشیدمصطفی رـضوی نے اپنی کتاب’’تاریخ جنگ آزادی ہند1857‘‘ میں’’اس فتوے کو’’اخبارالظفر‘‘ کے حوالے سے نقل کیاہے۔چنانچہ بخت خاںکے آنے کے بعدجامع مسجدمیں جو جہاد کا فتوی مرتب ہواتھا اس کامتن حسب ذیل ہے:
’’نقل استفتاازاخبارالظفردہلی
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس امرمیں کہ اب جوانگریزدلی پرچڑھ آئے اوراہل اسلام کی جان ومال کاارادہ رکھتے ہیں۔اس صورت میں اب اس شہروالوں پرجہادفرض ہے یانہیں اور اگر فرض ہے وہ تو فرض عین ہے یانہیں اور اور لوگ جواورشہروں اور بستیوں کے رہنے والے ہیں ان کو بھی جہادچاہیے یانہیں۔بیان کرو،اللہ تم کوجزادے۔
جواب:درصورت مرقومہ فرض عین ہے اوپرتمام اس شہرکے لوگوں کے اوراستطاعت ضرورہے اوس کی فرضیت کے واسطے چنانچہ اب اس شہر والوں کو طاقت مقابلہ اورلڑائی کی ہے بہ سبب کثرت اجتماع افواج کے اور مہیا اور موجود ہونے والے آلات حرب کے، توفرض عین ہونے میں کیا شک رہااوراطراف وحوالی کے لوگوں پر جو دور ہیں باوجود خبرکے ،فرض کفایہ ہے۔ہاںاگراس شہرکے لوگ باہر ہو جائیں اس مقابلے سے یا سستی کریں اورمقابلہ نہ کریں تو اس صورت میں ان پربھی فرـض عین ہو جائے گااوراسی طرح اوراسی ترتیب سے سارے اہل زمین پرشرقاً اور غرباًفرض عین ہوگااور جو عدو اور بستیوں پر ہجوم اورقتل وغارت کاارادہ کریں تو اوس بستی والوں پر بھی فرض ہو جائے گا۔بشرط ان کی طاقت کے۔
دستخط ومواہیر
اس فتوے پرمذکوہ۲۸علمائے کرام کے دستخط اورمہریں شائع ہوئی تھیں وہ اس طرح ہیں:
سیدالحبیب احقرالعبادنورجمال عفی عنہ،العبدمحمدعبدالکریم، فقیر سکندرعلی، سید محمدنذیرحسین (محدث دہلوی)،رحمت اللہ (کیرانوی)،مفتی محمد صدرالدین (آزردہؔ) مفتی اکرام الدین معروف سیدرحمت علی،محمدضیاء الدین،عبدالقادر(لدھیانوی)، فقیر احمد سعید (مجددی دہلوی) ، محمد میر خاں، العبدمولوی عبدالغنی(مجددی دہلوی)،خادم العلمامحمدعلی، فریدالدین، محمدسرفراز علی ، سیدمحبوب علی جعفری،ابواحمد محمدحامی الدین،العبدسیداحمدعلی،الہٰی بخش،محمدکریم الدین،مولوی محمدسعیدالدین، محمد مصطفی خاںولدحیدرشاہ نقشبندی، محمد انصار علی،مولوی سعیدالدین ، حفیظ اللہ خاں،محمد نورالحق، محمد ہاشم،حیدرعلی، سیدمحمد امدادعلی عفی عنہ،سیدعبدالحمید،محمدرحمت اللہ خاں مفتی عدالت عالیہ سراج العلماضیاء الفقہا۔محمدعلی حسین رسول الثقلین قاضی القضاۃ خادم شرح شریف۔ 49؎
اس کے بعدانگریزوں سے جوبھی معرکے ہوئے وہ بخت خاںکی قیادت میں ہوئے ،مولوی محمدباقرنے انپے اخبار میں بخت خاں کے حسنِ انتظام، بہادری اورخلوص کی بہت تعریف کی ہے ۔ مولوی محمدباقرنے لکھاہے کہ
’’اب بعدتشریف ِآوری جناب سپہ سالاربہادرحسن انتظام اورفتوح صبح وشام رونماہے ۔………بتواترسناگیاکہ اب سپہ سالاربہادر کے آنے سبب انتظام سپاہیوں کا بھی جس نے کہ البتہ بہت شکایت اہل شہرسے سنی جاتی تھی ہوگیا۔البتہ بہت تعریفیں سپہ سالار بہادر ہر شخص کی زبان پر جاری ہے اورامیدہے کہ بعدِختم اس لڑائی کے جوکہ درپیش ہے انتظام بخوبی ہو جاوے گاکہ لوگ بہت آرام پاویں گے اورلڑائی پربھی اب جوفوج جاتی ہے توبہت ترتیب اوراہتمام سے بذات خود مہیا اور موجودِمورچال نہایت صاحب عزم اورباتدبیر اور پاسدارِدین اورخیرخواہِ خلق اللہ معلوم ہوتے ہیں،جو صورت اور اٹھان ان کے کاموں کی ہے افضالِ الٰہی سے ایساظاہرہوتاہیکہ کمالِ خوش قسمتی ہے‘‘۔
اخبارالظفر (2؍اگست 1857،نمبر31،جلد19)کی ایک اور خبرملاحظہ ہو:
’’حملہ براعدائے دین:۔پرسوںروزجمعہ سے فوج ِ منصورہ واسطے قلع وقمع ونگونساریٔ کفار بدکردار کے گئی ہے مگر کثرت بارش بھی خوب رہی۔فوجِ ظفرموج نے اس پربھی خوب دادِ مردانگی اوررات کو بھی بیرونِ شہراور طرف علی پوروغیرہ کے واسطے تنبیۂ مخالفین کے قیام گوارارکھا۔اس حملے میں بہت لوگوں کی زبان مدائح ثابت قدمی وعرق ریزیٔ فوج ظفرموجِ خوردوکلاںآئندہ گان وروِندگان کی زبان سے سنی گئی،علی الخصوص سپہ سالار بہادرکی ہمت ومردانگی وجفاکشی کابہت لوگوں کوثنا خواں پایا —امیدقوی ہے کہ ایک دن نگونساری کفاراس پہاڑ سے بھی ہم عاجز بندوں کے کان میں پہنچ جاوے۔یہ بھی سناگیاکہ ایک مورچہ مخالفوں کی تین توپیں فوج ِظفرموج نے لے لیں جو مورچہ کہ سوائے پہاڑی کی مورچوں کے انہوں نے بنایاتھا لیکن اس کی بخوبی تحقیق بتفصیل بات ہمیں ابھی نہیں معلوم ہوئی۔کہتے ہیں کہ بارش کے سبب التواہواورنہ فوج منصورہ کایہ حال اور ارادہ نمایاں تھ اکہ پہاڑپربے دھڑک چڑھ جاویں —-جس وقت عنایت ایزدی سے پہاڑخاشاک ِکفرستانی سے صاف ہوگیاتوتمام راجہ بابو رئیس چھوٹے بڑے سب دست بستہ درِ دولت سلطانی پرفوراً حاضر ہوں۔کہتے ہیں کہ سب ہی اس کی راہ دیکھ رہی ہیں اورکفارفریب کارنے یہ جعل سازی کررکھی ہے کہ شہروں میں دیہات میں جہاں قابو پاتے ہیں شہرت دیتے ہیں اپنے دبدبہ اورعمل داری کی اورہرطرح سے ان باتوں کی جس سے کہ لوگوں کو ان کی طاقت اورعمل داری کایقین دل میں مستحکم ہو،جس وقت کہ پہاڑ پر سے یہ دفع ہوئے سونی پت اورباغپت کے درے درے زمیندار انشاء اللہ پھرانہیں چھید ڈالیں گے پھرانشاء اللہ ایک گورہ میرٹھ اورپانی پت تک بھی نہیں نبھ سکے گا۔‘‘
دہلی میں زوروشورسے جنگ جاری تھی۔انقلابی فتح پارہے تھے اورآگے بڑھ رہے تھے۔اخبارالظفر( 9؍ اگست 1857،نمبر32،جلد19) میں ’’قتل اعدائے دین‘‘کے عنوان سے یہ خبرشائع ہوئی تھی۔
’’قتل اعدائے دین:۔بہت شکرہے خداوندتعالیٰ کاکہ تین دن سے جوفوج ِظفرموج واسطے تنبیہ وقلع و قمع نصاریٰ بد کردارکے بیرون شہر گئی ہے ہرروزبفتح ونصرت نئے مورچہ بناتی جاتی ہے اوررات کوبھی باہرہی رہتی ہے۔کل کی رات کئی دفعہ گروہ گروہ گورہائے معدودنے حملہ کیامگرفوجِ منصورہ ٔ دینی نے بہ تائیدالٰہی سب گوروں کو گور میں پہنچایا ۔اب امیدہے کہ جلدصفائی کی جاوے۔یہ سناگیاکہ کانٹر بیٹا طامس صاحب کاکہیں سے کچھ رسدلاتاتھا،سورستہ میں چھین لی گئی اوروہ بھاگ گیاباغپت کی طرف اورموضع بھٹہ کی طرف سے سناہے کہ گوجر رسد پہنچاتے ہیں۔ امید ہے کہ اس طرف کی رسدبھی بندہوگی اوردوسری طرف پانی پت کی رسدبندہوگی تو خود بخود کفاردارالبوارجہنم کو پہنچ جاویں گے۔‘‘
جب ہندستانی سپاہیوں کو تھوڑی بھی فتحیابی نصیب ہوتی تو دہلی کے بازاروں اور لوگوں کے گھروں کولوٹناشروع کردیتے تھے ۔ جس سے لوگوں میں بڑی بے چینی اورانتشار پیدا ہوجاتے تھے۔۶؍جولائی کومرزا ابو بکر نے اپنے سوارفوجیوں کے ہمراہ تراہابہرام خاں کے ایک حصہ پرحملہ کر دیا۔وہ نشے کی حالت میں تھا۔ اس نے منشی اکرام الدین اورفرخندہ زمانی بیگم کے گھرلوٹ لیے۔بادشاہ بہت ناراض ہوئے،بخت خاں کو پروانہ جاری کیاکہ ابوبکرکو قید کرکے لائیں۔معلوم ہواکہ وہ مرزامغل کے گھرمیں ہے لہٰذاخضرسلطان کوحکم ہوا کہ گرفتارکریں اورسوار فوج کی کمانڈری سے برخاست کردیں۔ 50؎ اخبارالظفر(19؍ جولائی1857، نمبر29جلد 19) ایک خبرملتی ہے:
’’عرض ہوئی کہ مرزا(انگوٹھے کی سیاہی کانشان ہے اورنام پتھرسے اڑاہواہے۔یہ ابوبکر ہیں ۔ارتضی کریم) نے بحالت نشہ متصل تراہہ بہرام خاں قریب مکان مفتی اکرام الدین بنائے فساد برپا کی۔ وہاں کی رعایا کوتکلیف پہنچائی اوراکثر لوگوں کا اسباب بھی تلف ہوا اور نائب کوتوال اورخلفِ مفتی اکرام الدین سے بھی جنگ وجدل ہوئی اوراس کامال بھی لٹ گیا سوحکم قضا تواَم صادر ہواکہ شقہ خاص کرامت اختصاص بنامِ کوتوال ِشہراس مضمون کاجاری کہ جو کوئی فرزندوں یا سلاطینوں میں سے شہر میں رعایا کو تکلیف پہنچاوے فوراً گرفتارکرکے حضورمیں بھیج دیاجاوے اورمال و اسباب پسرِمفتی اکرام الدین واپس دیاجاوے اوریہ بھی ارشادہوا کہ سوائے مرزامحمد ظہیرالدین بہادر اور مرزا جواں بخت کے دیوان خاص میں کوئی فرزندوں میں سے نہ آوے اورکوئی شخص کوئی حکم ان کاعمل میں نہ لاوے کہ حضورسے کوئی امرمتعلق بفرزندان ِنامدارنہیں رہا اورتمام اوپررائے زریں سپہ سالاربہادرکے متعلق ہوئے ہیں۔‘‘
اسی طرح کی حرکتیں دوسرے شہزادوں سے بھی سرزدہوتی رہیں۔جگل کشوراورشیوپرشادنے شکایت کی کہ شہزادوں نے ان کو لوٹنے اورگرفتار کرنے کی دھمکی دی۔بعض باغی افواج کے سپاہیوں نے بھی شہرکے عوام کوتنگ کیا۔ کاشی پرشادکابیان ہے کہ بادشاہ نے شہزادوں کو سختی سے قابومیں کیا۔ 51؎ ڈاکٹر سین نے اپنی کتاب اٹھارہ سوستاون میں لکھاہے کہ بادشاہ کی ناراضگی اورسخت تادیبی کارروائیوں کے باوجودان آوارہ شہزادوں پرکوئی اثرنہیں ہوا۔ 52؎ سپاہیوں کے اس رویوں سے مولوی محمدباقرکوبہت دلی تکلیف ہوتی تھی اوراپنے اخبار(16؍اگست1857، نمبر33، جلد19)میں سخت الفاظ میں اس کی مذمت کی۔
1857کی جنگ کے دوران انگریزوں کے جاسوس پورے شہراورلال قلعہ میں پھیلے ہوئے تھے۔ انگریزوں کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے شہر کے اندرسے پل پل کی خبریں موصول ہورہی تھیں۔وہ باغی فوج میں انتشار اور ان کے پاس خوراک اوراسلحہ کی کمی سے بھی مکمل طورپرآگاہ تھے۔7؍اگست کو شمرو بیگم کی حویلی میں میگزین کاپھٹنابھی اسی قسم کی کاروائیوں کاایک حصہ تھا جوحکیم احسن اللہ خاں اورزینت محل وغیرہ کی سرکردگی میں انجام دی جارہی تھیں۔53؎ جیساکہ9؍اگست1857 کے اخبارالظفرکی خبر سے تصدیق ہوتی ہے:
’’دہلی:۔سناگیاکہ فوجِ ظفرموج پرسازش احترام الدولہ حکیم احسن اللہ خاں بہادرکے ساتھ نصارائے کفارکے دلوں میں منتقش اورثابت ہوگئی ہے۔کہتے ہیں کہ باروت خانہ جو روزجمعہ کواڑگیااس میں کئی سوآدمی ہلاک ہوئے ان کے نزدیک ا س کاخیال بھی ادھرہی کو ہوا اور ادھرکے لوگ کہتے ہیں کہ چکی میں کنکر آگیا تھا۔غرض بہرکیف فوج ظفرموج نے خان ِممدوح کوقیدکرلیا اور مال ومتاع خانماں لوٹ لیا واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔‘‘
’’غداروں کے خطوط‘‘میں انگریزوں کے ایک جاسوس کی رپورٹ میں بھی بتایاگیاہے کہ’کل بارودکے کارخانے میں جو دھماکہ ہوا۔اس میں پانچ سو افراد ہلاک ہوئے۔فوج کوحکیم احسن اللہ خاں پر شک ہے کہ یہ دھماکہ اس کے ایماپرکرایاگیا۔اس کے گھرکی تلاشی لی توان کو انگریزی کیمپ کے کسی منشی کابھیجاہواخط ملا۔اس سے باغیوں کو یقین ہوگیا اور انہوں نے حکیم احسن اللہ کاگھرجلادیا۔بادشاہ نے بڑی مشکل سے اس کی جان بچائی۔‘‘ 54؎ ظہیردہلوی کی کتاب’’داستان غدر‘‘میں بھی اس واقعہ کی تفصیل موجودہے۔55؎ اخبارالظفر(16؍اگست1857) میں ایک خبر درج ہے:
’’محلہ چوڑی والوں میں کہ مکان وسیع تھا اورآتش بازوں اور مزدورانِ مردوزن کے ہاتھوں باروت تیارہوئی تھی اوروہ سب مشغول ساختن تھے کہ یکایک آگ لگ گئی اورسب خورد وکلاںجل گئے اورمثل کباب سوختہ کوئلہ ہوگئے بھسم ہوگئے اوراس کے صدمہ سے مکان بھی گرپڑااورایسی آگ روشن ہوئی اورایسے لوگ وہاںکے جل گئے کہ شکل نہیں پہچانی جاتی تھی۔پس ماندہ ان کے گریاںونالاںدوڑے جونیم جان بھی پایاجاتاہے وہ تومعلوم ہوااورنہ شناخت تک بھی نہیں۔۔۔۔المختصرفوزِ عظیم جان کراتہام آتش زنی کاحکمت پناہ پرباندھا گیا اورواقعہ طلب اورمفسدی و حاسدہرطرف سے اٹھے اور لوگوں کواغوا کیا اور مکان حکمت مآب کا لٹوا دیا ۔ یہاں تک کہ ہرکہہ ومہ کو جوکچھ ہاتھ آیا تمام لوٹ لے گئے۔بلکہ ہم سایوں تک تباہی میں آگئے۔ حضورِبندگان اقدس ِسلطانی اس بات سے بہت برآشفتہ ہوئے فرمایا غارت گروں نے سخت دست تعدی درازکیاہے اورحکمت پناہ کوشہریارعالم پناہ اپنے ہمراہ لے گئے او ر اپنے پاس رکھا اوراسباب مفروتہ انجام کومسترکروادیااوربہ حکم سلطانی منادی نے ندادی کہ اسباب یاکوئی چیزاس میں کی کسی کے گھرمیں اب نکلے گی اوروہ نہیں لاتا تو اس کاپیٹ چاک کیاجاوے گا۔‘‘
اخبارالظفرکاآخری شمار32شہرمحرم الحرام1274ھ بمطابق 13؍ستمبر1857بروزاتوار کو منظرعام پرآیا ۔ اس شمارے میں خاصی مایوسی کی کیفیت نظرآتی ہے۔اس وقت تک دہلی کامیدان مجاہدین کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔اس کے دوسرے دن انگریزی افواج فاتحانہ انداز میں شہردہلی میں داخل ہوئیں اسی دن مغلیہ سلطنت کاخاتمہ بھی ہوگیا۔’’ اخبارالظفر‘‘ کے آخری شمارہ کی ایک چھوٹی سی خبر جو معنی خیزہے یہاں نقل کی جاتی ہے جو گوناگوں اسباب کے باعث بے حد اہم ہے۔اخبارالظفر(13؍ستمبر1857،نمبر37،جلد19)کے شمارے میں’’جنگ پیش پاافتادہ‘‘ کے عنوان سے یہ خبرہے:
’’چاردن سے دن رات خوب لڑائی توپ وتفنگ کی ہورہی ہے۔کفارنے کئی مورچے نئے بنائے ادھرسے بھی کئی مورچے جدید بنے۔ چونکہ اخبار سوائے شہرکے باہر تو جاتا نہیں کہ ضرورت تفصیل کے واسطے ناظرین ناواقفین کے لازم ہے اورشہر کے لوگ خود روز مرہ بچشم خود دیکھتے ہیں تو کچھ ضرورت تحریرتفصیل کی نہیں معلوم ہوتی۔منجملہ اتنابس ہے کہ انشاء اللہ صبح و شام تائیدایزدوقہار اورقدرت قادرذوالجلال سے فتح اسلام وہلاکت کفارنمایاں ہوتی ہے ۔‘‘
مذکورہ اقتباسات سے مولوی محمد باقر کے سیاسی شعور اورجذبہ حریت کااندازہ ہوتاہے۔کیوںکہ اس قسم کی اپیلوں، خبروں، رپورٹوں، نظموں، وعظوں،فتوؤں اورمضامین وغیرہ سے انگریزافسران، ان سے برہم ہو گئے تھے بلکہ ان پراپنے اخبارکے ذریعے بغاوت بھڑکانے کاالزام بھی لگانے لگے تھے۔پھربھی آپ نے ہمت نہیں ہاری اوراپنی منزل کی جانب گامزن رہے۔انہیں مجاہدانہ کاوشوں کی پاداش میں ان پر جھوٹ الزام لگائے گئے۔ دہلی محاصرے کے بعد 15؍ستمبر 1857کوانہیں گرفتار کر لیا گیا جس میں سب سے بڑاالزام یہ تھا کہ انہوں نے جدو جہد آزادی کے دوران اپنے ہم وطنوں کا ساتھ دیااورانگریز افسر ٹیلر کو قتل کرانے میں کلیدی رول اداکیا۔16؍ستمبرکو انہوں نے آخری سانس لی ۔ جب اسے میجر ولیم اسٹیفن رائکس ہوڈسن کے سامنے پیش کیاگیا جس نے اسے بغیر کسی مقدمے کے پھانسی دینے کاحکم دیاتھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہڈسن نے مولوی محمد باقرکو پوائنٹ بیلنک ریج میں گولی مارکرشہیدکردیا۔بلاشبہ وہ پہلے شہیدصحافی تھے۔13؍ستمبر1857کے بعد’’دہلی اردواخبار‘‘بند ہوگیا، تاہم اس کے صفحات کودیکھ کرہمیں دہلی کی ابتدائی طباعت ، سماجی ،تہذیبی اورثقافتی جھلک ملتی ہیں۔
حواشی
1۔ آب حیات ص26،تاریخ صحافت اردو،جلد2،حصہ اول ص26، عبدالسلام خورشیدصحافت پاکستان وہند میں، ص103
2۔ دہلی اردواخبار،19؍جولائی1857۱ ، جلد19 نمبر29،(مرتبہ) ارتضی کریم،شعبۂ اردو،دہلی یونی ورسٹی2010 ص 107
3۔ دہلی اردو اخبار،1840(مرتبہ)خواجہ احمدفاروقی،مقدمہ،شعبۂ اردو،دہلی یونی ورسٹی1972
4۔ امدادصابری،تاریخ صحافت اردو(جلداول)،چوڑی والان ،دہلی،1953، ص126
5۔ محمدعتیق صدیقی،اٹھارہ سوستاون ،اخباراور دستاویز ،مکتبہ شاہراہ،اردوبازار،دہلی1966،ص16
6۔ امدادصابری،تاریخ صحافت اردو(جلداول)،چوڑی والان ،دہلی،1953،ص283
7۔ طاہر مسعود،اردوصحافت ،انیسویں صدی میں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،2009،ص194
8۔ دہلی اردواخبار1840(مرتبہ)خواجہ احمدفاروقی،مقدمہ،شعبۂ اردو،دہلی یونی ورسٹی1972
9۔ طاہر مسعود،اردوصحافت ،انیسویں صدی میں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،2009،ص184
10۔ روزنامچہ جیون لال،ص111بحوالہ امدادصابری،تاریخ صحافت(جلداول)،چوڑی والان ،دہلی، 1953 ،ص210
11۔ خان بہادرشمس العلمامحمد ذکاء اللہ ،تاریخ عروج عہدسلطنت انگلشیہ ،حصہ پنجم،باب اول،شمس المطابع، دہلی1904،ص669
12۔ صدیق الرحمن قدوائی(مرتب)،معرکۂ عظیم (1857)غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی2008،مـضمون،بغاوت عظیم،تلمیذخلدون،ص267
13۔ ایضاً(Forty one years in India, vol.1.1908.p.341 )
14۔ ایضاً
15۔ ساورکر،ونائک دامودر،1857کاسوتنترسمر،پربھات پرکاشن،دہلی2000،ص66
16۔ صدیق الرحمن قدوائی(مرتب)،معرکۂ عظیم (1857)غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی2008،مـضمون،بغاوت عظیم،تلمیذخلدون،ص270
17۔ بحوالہ غلام حیدر، آزادی کی کہانی،اخباراورانگریزوںکی زبانی،نیوڈیرآرٹ پرنٹرس دہلی1987، ص54
18۔ گارساں دتاسی،خطبات ،جلداول(1850ء۔1869)انجمن ترقی اردو،دکن،1953، ص218
19۔ ساورکر،ونائک دامودر،1857کاسوتنترسمر،پربھات پرکاشن،دہلی2000،ص121
20۔ خورشیدمصطفی رضوی،تاریخ جنگ آزادی ہند1857،یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور2007 ،ص263
21۔ پنڈت کنہیالال،محاربہ ٔ عظیم(تاریخ بغاوت ہند1857۱)عفیف آفسیٹ پریس شاہدرہ،دہلی2008،ص84
22۔ خان بہادرشمس العلمامحمد ذکاء اللہ ،تاریخ عروج عہدسلطنت انگلشیہ ،حصہ پنجم،باب اول،شمس المطابع، دہلی1904،ص420
23۔ ایضاً،ص427
24۔ طاہر مسعود،اردوصحافت ،انیسویں صدی میں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی2009،ص373
25۔ ایضاً،ص371
26۔ سریندرناتھ سین،اٹھارہ سوستاون،مترجم،خورشیدہ پروین،پبلی کیشنزڈویژن،نئی دہلی2001،ص64
27۔ ظہیردہلوی،داستان غدر،اکادمی پنجاب ،ادبی دنیامنزل،لاہور1955،ص109
28۔ سریندرناتھ سین،اٹھارہ سوستاون،مترجم،خورشیدہ پروین،پبلی کیشنزڈویژن،نئی دہلی2001،،ص64
29۔ ایضاً
30۔ حسن نظامی(مرتبہ)،غدرکی صبح وشام،حلقۂ مشائخ،دہلی1926، ص61
31۔ سریندرناتھ سین،اٹھارہ سوستاون،مترجم،خورشیدہ پروین،پبلی کیشنزڈویژن،نئی دہلی2001،ص65
32۔ پنڈت کنہیالال،تاریخ بغاوت ہند1857:محاربہ ٔ عظیم،عفیف آفسیٹ پریس شاہدرہ،دہلی2008، ص55
33۔ یادداشت احسن اللہ خاں بحوالہ خورشیدمصطفی رضوی،تاریخ جنگ آزادی ہند1857،یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور 2007،ص261
34۔ ظہیردہلوی،داستان غدر،اکادمی پنجاب ،ادبی دنیامنزل،لاہور1955،ص103
35۔ پنڈت کنہیالال،محاربہ ٔ عظیم(تاریخ بغاوت ہند1857۱)عفیف آفسیٹ پریس شاہدرہ،دہلی2008،ص55
36۔ خورشیدمصطفی رضوی،تاریخ جنگ آزادی ہند1857،یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور2007،ص267
37۔ صدیق الرحمن قدوائی(مرتب)،معرکۂ عظیم (1857)غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی2008،مـضمون،بغاوت عظیم،تلمیذخلدون، ص273۔272
38۔ ایضاً، ص273۔272
39۔ دہلی اردواخبار5؍جولائی1857، نمبر27، جلد19،(مرتبہ) ارتضی کریم،شعبۂ اردو،دہلی یونی ورسٹی2010، ص 89۔ 88۔ 87۔86۔85
40۔ معصوم مرادآبادی،اردوصحافت اورجنگ آزادی1857،خبردارپبلی کیشنز،نئی دہلی2008، ص 108۔107
41۔ سریندرناتھ سین،اٹھارہ سوستاون،مترجم،خورشیدہ پروین،پبلی کیشنزڈویژن،نئی دہلی2001،ص69
42۔ سیدخورشیدمصطفے رضوی،تاریخ جنگ آزادی ہند1857،یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور2007،ص277
43۔ طاہر مسعود،اردوصحافت ،انیسویں صدی میں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،2009،ص379
44۔ بحوالہ فضل حق خیرآبادی،باغی ہندوستان،(مترجم)عبدالشاہدشیروانی،مدینہ بک ڈپو، بجنور1947،ص215
45۔ 1857کے مجاہد،غلام رسول مہر،علمی پرنٹنگ پریس ،لاہور1960، ص204
46۔ ڈبلیو،ڈبلیوہنٹر،ہمارے ہندوستانی مسلمان،مترجم،ڈاکٹرصادق حسین،الکتاب انٹرنیشنل،نئی دہلی 2002،ص121
47۔ سرسیداحمدخان،اسباب بغاوت ہند،یونی ورسٹی پبلشرز،مسلم یونی ورسٹی،علی گڑھ1958،ص17
48۔ خان بہادرشمس العلمامحمد ذکاء اللہ ،تاریخ عروج عہدسلطنت انگلشیہ ،حصہ پنجم،باب اول،شمس المطابع، دہلی1904،ص676
49۔ سیدخورشیدمصطفے رضوی،تاریخ جنگ آزادی ہند1857،یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور2007،ص347۔348
50۔ یادداشت حکیم احسن اللہ،۔سریندرناتھ سین،اٹھارہ سوستاون،مترجم،خورشیدہ پروین،پبلی کیشنزڈویژن،نئی دہلی 2001،ص65
51۔ بحوالہ سریندرناتھ سین،اٹھارہ سوستاون،مترجم،خورشیدہ پروین،پبلی کیشنزڈویژن،نئی دہلی2001،ص84
52۔ ایضاً،ص85-84
53۔ خورشیدمصطفی رضوی،تاریخ جنگ آزادی ہند1857،یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور2007،ص294
54۔ اسلم قریشی(مترجم)،غداروںکے خطوط،الطبعبۃ العربیہ،لاہو1999،ص123
55۔ ظہیردہلوی،داستان غدر،اکادمی پنجاب ،ادبی دنیا منزل،لاہور1955ص140
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page