تحریک آزادی اور اردو صحافت کا مضبوط اور اٹوٹ رشتہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے تو یہ ہوگا کہ اژادی کی جنگ میں صحافت ہی ہندوستانیوں کا ہتھیار تھا اردو صحافت کی جس میں پیش پیش تھی۔ اس کے ذریعے آزادی کی راہ ہموار کی گئ اور ملک کو انگریزوں کے ظلم و استبداد سے نجات حاصل ہوئی اور ملک کو آزادی کی صبح دیکھنی نصیب ہوئی۔
آزادی ایک نعمت غیر مترقبہ ہے اور غلامی انسانی فطرت کے خلاف ہے اس وقت دنیا میں ملک اور افراد کی غلامی کا تقریبا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ہمارا ملک ہندوستان بھی اس وقت اپنی آزادی کی پچھترویں سالگرہ منا رہا ہے ہے ایسے موقع پہ اردو صحافت کی خدمات کا اگر ذکر نہ کیا جائے تو یقینا اردو صحافت کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی۔ اس آزادی کی جنگ میں اردو صحافت نے انگریزوں کے دبدبے اور رعب کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے اس کو للکارا اور بنیادی انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کی اور اپنے مطالبات پر ڈٹ گئے یہاں تک کہ انگریز طاقتیں پسپا ہوگئیں اور مجاہدین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو آزادی کا تحفہ دیا۔
محققین کی رائے کے مطابق ہندوستانی اخبار نویسی کا مزاج اپنی ابتدا سے ہی باغیانہ تھا اس میں شروع سے ہی اپنی بات کو بڑی بیباکی کے ساتھ کہنے کی جرآت پائی جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ اس نے انگریز حکومت کے آگے کبھی پسپائی اختیار نہیں کی اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود یہ اپنی آواز کو پست کرنے پر مائل نہیں ہوئے۔ ان اردو صحافیوں نے استقلال اور ایثار کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول تک توپ خانوں کے آگے صحافتی زرہ بکتر اوڑھ کر توپوں کی رفتار کو سست کر دیا یوں تو اور کئی زبانوں کے اخبارات نے اس جنگ آزادی میں اپنا حصہ ڈالا لیکن اردو صحافت ذہن و دل کی ترجمانی اور اس کو تسخیر کرنے میں پیش پیش رہی۔ بقول ظ۔ انصاری
"مزاج اس زبان کا بہرحال سوداوی ہے اسے گرمی جلدی چڑھتی ہے اور موسم بھی گرم ہو (کسی سیاسی یا ہنگامی مسئلے پر) تو اس کے بدن سے پسینے کے فوارے اور بھپکے پھوٹتے ہیں ۔۔۔۔ گرم مزاجوں کو اس زبان کی صحافت راس آئی ہے ۔ آتی ہی ہے۔ جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو کا منظر ہماری زبان کی صحافت میں الٹا چل رہا ہے یہاں اخبار کے میدان کارزار میں توپ نکالی جاتی ہے”
یہ اقتباس بتاتا ہے کہ تحریک آزادی میں اردو صحافت نے قائدانہ کردار ادا کیا ۔ اس وقت اردو بیشتر ہندوستانیوں کی زبان تھی خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب و مسلک سے ہو۔ یہ گنگا جمنی مشترکہ تہذیب کی زبان تھی اس لئے اردو صحافیوں سے مراد صرف مسلم صحافی ہی نہیں بلکہ غیر مسلم صحافی بھی ہیں۔ اردو صحافت جو کہ اپنا دو سو سالہ سفر مکمل کر چکی ہے تحریک آزادی کے عروج کے وقت اردو صحافت کی باز گشت ملک کے ہر خطے میں گونجنے لگی تھی۔ بیسویں صدی کے پہلے عشرے یعنی 1901ء تا 1910 میں بابو دینا ناتھ نے ہفت روزہ ہندوستان جاری کیا تھا جس میں اس وقت کے تمام اعلی پائے کے صحافیوں کے مضامین شائع ہوتے تھے جو کہ جرآت، بےخوفی، اور حق گوئی کی اعلیٰ مثال تھے اور اس کے اداریے ایسے ہوتے تھے گویا انگریز طاقتوں کا کوئی ڈر ہی باقی نہیں رہا۔ اس حق گوئی اور بیباکی کی وجہ سے اردو صحافیوں کو قید و بند کی اذیت سے بھی گزرنا پڑا اور اپنی جان بھی قربان کرنی پڑی۔ اس عہد کے اخبارات میں دہلی اردو اخبار کا کارنامہ سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے کیوں کہ ملک کی آزادی کے لئے سب سے پہلے جس صحافی نے جام شہادت نوش کیا وہ دہلی اردو اخبار ہی کے صحافی مولوی محمد باقر تھے۔ مولوی محمد باقر کی صداقت بھری صحافت سے انگریز طاقتیں اس قدر خوفزدہ ہوگئیں کہ ان کی جان کے دشمن بن گئے اور بالآخر انھیں تختہء دار پر چڑھا کر ہی دم لیا۔ اور اس کے پس پشت یہ مقصد بھی کارفرما تھا کہ دوسرے صحافیوں کو خوفزدہ کیا جائے اور ان کی حق گوئی کو لگام ڈالی جائے لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ اور ان کا یہ ظالمانہ عمل جلتی پر تیل کا کام کر گیا اور انگریز حکومت سے نفرت کا لاوا ابل پڑا جس نے ان کی ایوانوں کی چھتیں اڑا دیں۔ اور ان کا چین و سکون حرام کر دیا اور ملک پہ ان کی مزید حکمرانی کا خواب دھند آلود کر دیا۔
مولوی محمد باقر کی شہادت کے بعد اردو صحافیوں کے لفظوں کے ترکش سے اور بھی شدت کے ساتھ تیر و نشتر نکلنے شروع ہو گئے۔ انگریزوں کے خلاف جنگ کو جہاد سے تعبیر کیا گیا تاکہ عوام کا جذبہ سرد نہ ہونے پائے اور اردو اخبارات کو ہتھیاروں کی طرح ہر فرد کے ہاتھ میں پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا گیا۔ اس وقت اخبار نکالنا اور اسے ملک کے چپے چپے میں پہنچانا آسان کام نہیں تھا کیوں کہ اس وقت ٹکنالوجی کے تصور تک نہیں تھا اس مشکل وقت میں مجاہدین آزادی نے اپنے جذبہء حریت کے دم پہ اپنی شب و روز کی محنت اور جانفشانی سے اردو اخبارات کو لاکھوں لوگوں تک پہنچایا۔ اس وقت کے اردو صحافیوں کو اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ انگریز طاقتوں کی ظلم و بربریت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہندوستانی عوام کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا اور ان کے اندر اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور آزادی کے خیالات و جذبات کو ہر دل میں بھرنا ہوگا اور یہ کام صرف روزنامہ اخباروں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسی لئے وہ اور بھی تندہی کے ساتھ اپنے مشن میں لگ گئے اور قریب قریب ہر اہم علاقے سے اخبار جاری ہوئے جس نے لوگوں کے اندر آزادی کا شعور پیدا کیا اردو کے پہلے اخبار جام جہاں نما سے لے کر 1947ء تک نکلنے والے ہر اخبار نے آزادی ہی کو اپنا مطلوبہ ہدف بنایا اور بڑی پامردی کے ساتھ اس پرخطر سفر کو طئے کیا۔
اس دور کے اردو صحافیوں منشی محبوب عالم، سید ظہور الدین طور، مولانا حسرت موہانی، مولانا ازاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، لالہ لاجپت رائے، رنبیر سنگھ وغیرہ وغیرہ نے جنگ آزادی میں تن من دھن سے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا ۔ مولانا حسرت موہانی کی بےباک صحافت نے انگریزوں کو اس قدر زچ کردیا کہ انھیں عدالتوں کے ذریعے سزا دلوائی لیکن پھر بھی ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے رہائی کے بعد پھر سے اپنے مشن میں لگ گئے۔
دہلی اردو اخبار کے بعد ‘سید الاخبار’ کو دہلی کا مؤقر اخبار مانا جاتا ہے جس کے ایڈیٹر مولوی عبدالغفور صاحب تھے اور اس کے مالک سر سید احمد خاں کے بھائی سید محمد خاں تھے اس میں سر سید احمد خان باقاعدگی کے ساتھ مضامین لکھا کرتے تھے سر سید احمد خاں کی بصیرت ایسا موضوع ہے جو کہ کسی کے لئے بھی اجنبی نہیں ہے اس میں انھوں نے اپنے خیالات و نظریات کو پیش کرنے میں کبھی بھی خوف محسوس نہیں کیا اور تہذیب الاخلاق کی طرز پر اس میں بھی مضامین لکھے۔
اس وقت کم و بیش تمام اردو صحافیوں نے اپنی صحافتی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر برطانوی ایوان میں بھونچال برپا کر دیا اور ان کے تخت سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ان کی ہر چالوں کو ناکام بنا دیا یہ صحافیوں کا ہی ولولہ تھا کہ ان کی ہر ہر حرکت پر نظر رکھتے ہوئے اس کے پیچھے ان کی ذہنیت کو اجاگر کرتے تھے۔ ان کی صحافتی خدمات تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ سنہرے لفظوں میں لکھی جاتی رہے گی۔
مولنا آزاد کے اخبار الہلال، البلاغ نے اردو صحافت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا وہ ہندو مسلم اتحاد کے لئے کوشاں رہتے تھے اور اس کے لئے انھوں نے باقاعدہ کوششیں بھی کیں 30 جون 1914 کے الہلال میں انھوں نے ہندو اور مسلمان کو ایک ہونے کا مشورہ دیا۔ کیوں کہ انگریزوں کی استعماری طاقتوں کو پسپا کرنے کے لئے بلا تفریق مذہب و ملت کے اتحاد ضروری تھا۔
مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد کا اجراء 23 فروری 1913ء میں ہوا تھا اس سے قبل وہ کامریڈ نکالتے تھے۔ ہمدرد نکالنے کا ان کا مقصد کیا تھا اس کا اندازہ ہمیں اس اقتباس سے ہوتا ہے۔
” وہ ( محمد علی جوہر) صحافت کو پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ صحیح اور سچی خبریں پہنچانا اخبار پڑھنے والوں کو ایمانداری سے نیک مشورہ دینا اور صورت حال کا بےلاگ تجزیہ کرنا ایک صحافی کا فرض منصبی سمجھتے تھے اس لئے اخبار نکالنے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے ہندوستانیوں میں آزادی کی روح پھونکی جائے اور ملک کے مختلف فرقوں میں اتحاد کی فضا قائم و پیدا کی جائے” (انتخاب ہمدرد صباح الدین عمر اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ 1989 ص8)
برصغیر کی تقسیم سے قبل تمام اخبارات کا متفقہ مقصد ملک کو انگریز طاقتوں سے آزاد کرانا تھا اور اس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی نے اپنی گراں قدر خدمات سے ہندوستان سے انگریزوں کو جانے پر مجبور کر دیا اور یوں اردو صحافت کی بےبہا خدمات سے ہم تمام ہندوستانیوں کو آزادی کی فضا میسر ہوئی اور ملک کے سیاسی و سماجی حالات کو بہتر بنانے اور وقت کی بدلتی قدروں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں اردو صحافت کبھی بھی پیچھے نہیں رہی۔ آزادی کی اس پچھتر سالہ جشن کے موقع پہ ہم اردو صحافت اور اس وقت کے تمام صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
مضمون نگار : علیزے نجف
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page