احمد سعید ملیح آبادی [ولادت:1926ء،….وفات:2؍اکتوبر2022ء]، مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے فرزند اور بنگال میں اردو صحافت کا معتبر حوالہ تھے۔وہ کثیر جہتی شخصیت کے حامل تھے ۔وہ دانشور، مدیر، صحافی،پارلیمنٹرین، انتظامی امور کے ماہر اور اردو زبان و ادب کے نکتہ شناس اور اس کی توسیع و تشہیر کے میر کارواں تھے ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنی بڑی چچی[ بڑے چچاعبد الوحید خاں کی اہلیہ] سے اردو کے علاوہ فارسی، عربی، ہندی اور انگریزی کی بالکل ابتدائی کتابیں پڑھیں۔محض پانچ سال کی عمر میں اسٹول پر کھڑا کرکے تقریرکی مشق انہی چچی نے کرائی تھی، جو اُن کے مستقبل کی زندگی میں بے حد مفید ثابت ہوئی۔چچی سے ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد درجہ دوم یا سوم میں داخلہ ہوا۔بعد کی اسکولی تعلیم والدہ کی علالت کی وجہ سے نہیں ہوسکی۔ پھر ُان کا داخلہ مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر، اعظم گڑھ میں کرایا گیا۔وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ دار المصنفین اعظم گڑھ کے اکابرعلماء مولانا ریاست علی،مولانا عبد السلام ندوی، مولانا مجیب اللہ ندوی اور مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کی صحبت میں رہے۔ دار المصنفین کے علمی ماحول کا اُن کی زندگی پر بڑا اثر پڑا۔احمد سعید ملیح آبادی مرحوم کے والدمولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کو اردو صحافت اور ملّی خدمات سے سروکار تھا اور کلکتہ ان کا میدان عمل۔ڈاکٹر سنجر ہلال بھارتی لکھتے ہیں:
’’ 29ء[1929ء] میں جب مولانا کی ادارت میں روزانہ’ ہند‘ کا اجراء ہوا تو تو اردو صحافت کی تاریخ میں سنجیدہ صحافت نے آنکھ کھولی۔ہیجان آمیز سرخیوں اور ولولہ انگیز اداریوں سے دورایک باوقار اخبار وجود میں آیا، جس نے ہندوستان کی آزادی کے لیے عَلم اُٹھایا۔برٹش حکومت یہ جرأت کیوں کر دیکھتی، چنانچہ اخبار چند ماہ کے اندر ہی بند کردیا گیا۔لیکن بند ہوکر بھی نام کی تبدیلی کے ساتھ جاری رہا۔اس طرح’ ہند ‘کے بعد’ الہند‘، ’ہند جدید‘، ‘ہند روزانہ‘،’روزانہ ہند‘ اور آخر میں ’ آزاد ہند‘ میں تبدیل ہوگیا۔ایک اخبار کے اتنے نام بدلنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ مولانا کو برٹش حکومت نے کبھی چین سے جینے نہیں دیا۔مگر حکومت مولانا کی افتاد ِ طبع اور عزائم کو سمجھ نہ سکی۔ان کے جذبۂ حب الوطنی کی اس سے بڑی اور شاندار مثال کیا ہوسکتی ہے کہ انہوں نے جتنے اخبار نکالے، اپنے وطن’ ہند‘ سے منسوب کیا‘‘۔ [قلم بدست محب وطن صحافی: مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی، ڈاکٹر سنجر ہلال بھارتی،سہ ماہی روح ادب،کولکاتا،اپریل تا جون2022ء،ص195]
احمد سعید ملیح آبادی کوایسی ہی فکر اور ایسے ہی جذبہ کے ساتھ روز نامہ ’ آزاد ہند‘ ملا تھا۔ابھی وہ اپنے والدمولانا عبد الرزاق ملیح آبادی سے صحافت کے رموز و نکات سیکھ رہے تھے کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے ان کے والد کو’ثقافۃ الہند‘ کی ادارت کے لیے دہلی آنے کا حکم دیا۔مولانا ملیح آبادی کو ذرا ترد ہوا کہ خدا جانے بیٹے احمد سعید ’ آزاد ہند‘ کی ادارت کا بار گراں اُٹھا پائیں گے یا نہیں، کہ اس میدان میں ابھی نئے ہیں۔اُنہوں نے مولانا آزاد سے کچھ مہلت چاہی تو مولانا آزاد نے ان سے کہا: ’’مولوی صاحب! بطخ کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا، پانی میں ڈال دو، تیرنے لگے گا‘‘۔ مولانا آزاد کا یہ جملہ نوجوان احمد سعید ملیح آبادی کے لیے تھا اور یہ1949ء کی بات ہے۔
احمد سعید ملیح آبادی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز’ روزانہ ہند‘ سے کیا، چند مہینے تک اس سے وابستگی کے بعد ’ آزاد ہند‘ سے متعلق ہوگئے۔مولانا آزاد کے پیہم صرار پر مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی ’ ثقافۃ الہند‘ کی ادارت کے لیے دہلی چلے گئے ،اور اپنے فرزند احمد سعید ملیح آبادی کے بہ ظاہر ناتواں کندھے پرروز نامہ ’ آزاد ہند‘ کا بار گراں ڈال گئے،مگر بہت قلیل عرصہ میں ہی اردو کی صحافتی دنیا کو احساس ہوگیا کہ وہ ناتواں کندھے نہیں ہیں اور مولانا آزاد کا قول بھی صادق نکلا کہ بطخ کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا۔تیرنااس کی فطرت میںہے۔چنانچہ انہوں نے نہ صرف روز نامہ’آزاد ہند‘ کو سنبھالا،بلکہ ہفت روزہ’ اجالا‘ کو بھی توانائی کے ساتھ جاری رکھا۔
احمد سعید ملیح آبادی نے جس دور میں ’آزاد ہند‘ کی ادارت سنبھالی تھی، وہ کلکتہ اور مغربی بنگال کا بڑا پُر آشوب دور تھا، کانگریس پارٹی کی حکمرانی تھی اور ڈاکٹر بی سی رائے [بدھان چندررائے] کا دور اقتدار تھا اورہر روزمسلمانوں پر جبر و استبداد کی نئی نئی تاریخیں رقم ہورہی تھی، نسیم عزیزی لکھتے ہیں:
’’ تقسیم ملک کا بُرااثر بنگال کے مسلمانوں پر پڑا۔احمد سعید کئی جہتوں پر لڑائی لڑ رہے تھے۔اُن کے اخبار ’ اُجالا‘ اور ’ آزاد ہند‘ بے سروسامانی کے عالم میں شائع ہورہے تھے۔پاکستان بننے کے بعد فرقہ واریت کازور ٹوٹ چکا تھا،لیکن برادران وطن میں ایک طبقہ متعصب اور فرقہ پرست تھا، جو مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے سے باز نہیں آرہا تھا۔ سیکولر جماعت میں بھی احیا پرستی کا مظاہرہ کرنے والا ایک طبقہ ایسا تھا ،جسے فرقہ وارانہ ہم آہنگہ اور اتحاد و اخوت سے خدا واسطے بیر تھی ۔ فسادات کا سلسلہ منظم سازش کی نتیجہ تھا۔1950ء کے فسادات کے بعد مغربی بنگال کے باقی ماندہ مسلم علاقوں میں ہُو کا عالم تھا۔ڈاکٹر بی سی رائے کے دور حکومت میں مغربی بنگال مسلمانوں کے لیے ایک ’ پولیس اسٹیٹ‘ بن گیا تھا۔مسلمانوں کی گرفتاری عام سی بات تھی۔ایسے عالم میں ان مفلوک الحال اور خانہ خراب مسلمانوں کے لیے ’ آزاد ہند‘ کی تحریریں اُن کے حوصلے کو بحال کرتیں ۔اخبار کے صفحۂ اوّل پر جلی حروف میں باکس میں ہر روز یہ نعرہ چھپتا: ’ یہ پاؤں اُکھڑنے نہ پائیں، ہندوستان تمہارا وطن ہے، برادران وطن کی طرح تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے‘۔ اسی نعرے کو مختلف انداز میں روزانہ شائع کیا جاتا تھا۔احمد سعید نے صرف تحریری جنگ جاری نہیں رکھی بلکہ انہوں نے کلکتہ کے مضافاتی علاقوں کا دورہ بھی کیا۔محنت کش مزدور اور غریب عوام کی حوصلہ افزائی کی‘‘۔ [احمد سعید ملیح آبادی:ممتاز صحافی و قائد ِ قوم و ملّت،نسیم عزیزی،سہ ماہی روح ادب،کولکاتا،اپریل تا جون2022ء،ص244-245]
کانگریسی رہنماپی سی سین[ پَرفلا چندر سین] کا دور حکومت[1962ء تا1967ء] بھی مسلمانوں کے لیے بڑا صبر آزما تھا، 1954ء میں ایک خوف ناک فساد ہوا اور اس کے پس پردہ نو آباد کاری کی ایک مہیب سازش تھی۔ نسیم عزیزی لکھتے ہیں:
’’ …مغربی بنگال میں ہندو رفیوجی در انداز ہوئے۔کلکتہ کے بعض اخبارات نے فرقہ وارانہ حالات کو پراگندہ کیا ۔ پی سی سین کا رول انتہائی مایوس کن تھا۔یہ ایک منظم سازش تھی۔کلکتہ کی مسلم بستیوں کو خالی کرا کر وہاں رفیوجیوں کو بسانے کا منصوبہ تھا۔اس میں کامیابی ملی۔ ہزاروں مسلمان اپنے اہل و عیال کے ساتھ زکریا اسٹریٹ اور کولو ٹولہ کے فٹ پاتھوں پر بھر گئے۔اسلامیہ اسپتال زخمی افراد کا مسکن بنا۔ملیح آبادی[احمد سعید ملیح آبادی] نے جواہر لعل نہرو سے بات کرنا چاہی،وہ بیمار تھے۔اندرا گاندھی سے رابطہ ہوا،انہیں اطلاع دی گئی کہ یہ فساد منظم ہے،حکومت خاموش ہے ، پولیس فسادیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔شہر کو فوری طور پر فوج کے حوالے کردیا جائے۔ دو گھنٹے کے اندر فوج آگئی اور لال بازار پولیس ہیڈ کوارٹر پر قابض ہوئی۔ فوجیوں نے رخنہ ڈالنے والے بعض پولیس والوں کی پٹائی بھی کردی۔ فوجیوں نے گشتی پولیس وین کی جب تلاشی لی تو بعض میں بم برآمد ہوئے‘‘۔ [احمد سعید ملیح آبادی:ممتاز صحافی و قائد ِ قوم و ملّت،نسیم عزیزی،سہ ماہی روح ادب،کولکاتا،اپریل تا جون2022ء،ص 245]
بہ ظاہر حالات قابو میں آگئے اور فوج واپس لوٹ گئی، نسیم عزیزی آگے لکھتے ہیں:
’’ وزیر اعلیٰ اور اُن کے تنگ نظر ساتھیوں کے غصّے کی آگ سرد نہیں ہوئی تھی۔فسادات کا سلسلہ ختم ہوتے ہی ڈی آئی آر[Defence of India Rule] کے تحت گرفتاریاں شروع ہوگئیں ۔ احمد سعید گرفتار کرلیے گئے۔ دم دم جیل میں تین مہینے سے اُوپر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘‘۔ [احمد سعید ملیح آبادی:ممتاز صحافی و قائد ِ قوم و ملّت،نسیم عزیزی،سہ ماہی روح ادب،کولکاتا،اپریل تا جون2022ء،ص 245]
احمد سعید ملیح آبادی کانگریس اور گاندھیائی ماحول میں پلے بڑھے تھے ۔گاندھی خاندان سے قریبی روابط تھے ۔ان کی باتیں توجہ سے سنی جاتی تھی اور عمل بھی ہوتا تھا۔مگر کانگریس کی پہلی اور دوسری قطار میں مضروب ذہنیت کی بڑی تعداد رہی ہے ،جو اعلیٰ قیادت کے وقتی دباؤ تحت چند قدم پیچھے ہٹ جاتی تھی اورمگر ذرا موقع ملا تو کسی اور فرضی معاملے میںانُ کی سرزنش کرنے باز نہیں آتی تھی ،در اصل وہ مسلم رہنماؤں کے حامیوں کو یہ باور کرانا ضروری سمجھتے تھے کہ اُن کے رہنما کی کوئی بہت زیادہ اہمیت اورحیثیت نہیں ہے۔در اصل بر سر اقتدارمضروب ذہن لوگوں کایہ ’گیم پلان ‘ہوتا ہے۔مسلم رہنماؤں کے حامیوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ جب تمہارے رہنما محفوظ نہیں ہیں تو تم لوگوں کی کیا اوقات؟۔مسلمانوں اور اُن کے رہنماؤں کے ساتھ ہر حکومت میں یہی رویہ رہا ہے، کانگریس پارٹی کے دور عروج میں بھی یہ ہوتا رہا ہے اور موجودہ دور میں کم و بیش ہر سیاسی قیادت یہی کرتی ہے ۔مغربی بنگال میں کانگریس دور حکومت میں یہ کھیل اس شدت سے کھیلا گیا کہ مسلم طبقہ ان سے بیزار ہوگیا، سدھارتھ شنکر رے کے دور اقتدار[ 1972ء تا1977ء] شاید اپنے پیش رؤوں کی نسبت کچھ بہتر تھا۔ احمد سعید ملیح آبادی اُن کو’ کھرا سیکولر ‘مانتے تھے،چنانچہ وہ اُن سے قریب ہوئے اور ریاست میں امن امان کے قیام پر اُن کی ستائش کی۔ڈاکٹر بی سی رائے کے دور اقتدار[1948ء تا1962ء] اور پی سی سین کے دور اقتدار [1962ء تا1967ء]کی ستم سامانیاں مسلمانوں کو خوب یاد تھیں۔ سدھارتھ شنکر رے کے دور اقتدار میں ہوڑہ میں ایک فرقہ وارانہ تصادم میں 30؍ افراد کو پولیس نے گرفتار کرلیا ،وزیر اعلیٰ سدھارتھ شنکر رے نے ہوڑہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو فون کیا ،اس نے کہا! گرفتاریاں ہوئی ہیں۔وزیر اعلیٰ نے دریافت کیا کہِ ان میں کتنے ہندو اور کتنے مسلمان ہیں؟ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اِس طرح کے سوالات کا عادی نہ تھا،گھبرا گیا اور کہا: سر! ابھی تھوڑی دیر میں بتاتا ہوں۔ اس نے جب بتایا کہ گرفتار شدگان میں29؍ مسلمان ہیں ، تو وزیر اعلیٰ نے یک طرفہ گرفتاری کا سبب پوچھا ۔اس سوال پر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور اُس نے انہیں بتایا کہ سب کو رہا کردیا گیا ہے۔یہ اور اس طرح کے متعدد واقعات احمد سعید ملیح آبادی کی کتاب’ میری صحافتی زندگی‘ درج ہیں۔
احمد سعید ملیح آبادی کو کانگریسی ماحول ، مزاج اور اردو صحافت اپنے والد مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی سے ورثہ میں ملی تھی، والد مشہور مجاہد آزادی تھے۔انگریزحکومت مخالف ہر تحریک میں آگے رہتے، مولانا ابو الکلام آزاد کے دست راست تھے، بایں ہمہ احمد سعید ملیح آبادی نے مغربی بنگال میں کانگریس پارٹی کی حکمرانی اور مسلمانوں کے بارے میں اُن کی سوچ اور اُن کی ظلم و زیادتی دیکھی تھی،۔ اس لیے اُنہیں مسلمانوں کے مسائل کے حل اور اردو صحافت کے بقا کے لیے دوسری جماعتوں سے بھی بہتر تعلقات رکھنے تھے۔اسی لیے جب وہاں بائیں محاذ کی حکومت بنی تو اُنہوں نے اپنے نئے لائحۂ عمل کو برتا۔ حکمراں پارٹی سے قرب اختیار کیا اور ملّت کے لیے مفید کام کرائے۔
رضوان اللہ لکھتے ہیں:
’’ احمد سعید صاحب کا تعلق ملیح آباد کے زمین دار پٹھان گھرانے سے ہے ، چنانچہ اسلاف کی علمی میراث اور خاندانی خواص اُن کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی تھے۔ اس طرح کانگریس پارٹی سے اُن کی ذہنی ہم آہنگی اسی میراث کا حصّہ رہی ہوگی لیکن بعد میں ریاست میں حکمراں مارکسی کمیونسٹ پارٹی سے اُن کی نظریاتی قربت محض بر بنائے مصلحت اور اخباری تجارت کی مجبوریوں کی وجہ سے رہی ہوگی۔ایسے میں جب ریاست میںکمیونسٹ حکومت اور مرکز میں کانگریسی حکومت ہو ، اس مخلوط سیاست سے فائدے ہی فائدے تھے۔ اس سیاسی مصلحت میں بظاہر کوئی قباحت نہیں معلوم ہوتی، کیوں کہ اخبارات کی پالیسیاں بہر حال سیاسی مصالح کی تابع ہوتی ہیں۔اگر ایسا نہ ہو تو کوئی اخبار بہت دور تک نہیں چل سکتا، جلد ہی ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ہاں اگر اس کی پشت پر بہت بڑا سرمایہ یا بھاری بھرکم شخصیت ہوتو اور بات ہے۔لیکن آزادی کے بعد جس دور کا ہم ذکر کررہے ہیں اس میں اردو اخباروں کی بساط ہی کیا تھی۔باد مخالف کا ایک ہی جھونکا اُنہیں خس و خاشاک کی طرح اُڑا لے جانے کے لیے کافی تھا اور در اصل ایسا ہی ہوا۔ان حالات میں احمد سعید صاحب ’ آزاد ہند‘ کو لے کر جس طرح چلے اس کے لیے ستائش کا لفظ ناکافی ہے‘‘۔ [کلکتہ کی اردو صحافت اور میں، رضوان اللہ،ص87]
رضوان اللہ نے احمد سعید ملیح آبادی کے اس طرز عمل کو محدود کنویس میں دیکھا اور اس تبدیلی کارشتہ روز نامہ’ آزاد ہند‘ کی بقا سے جوڑ دیا ہے، حالانکہ اس کا واضح بین السطور مسلمانوں کی آواز کو بائیں بازو کے ایوان اقتدار تک مستحکم انداز میں پہنچانا بھی بتاتا ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔رضوان اللہ ’ آزاد ہند‘ سے وابستہ رہے ہیں اور اس طرح وہ احمد سعید ملیح آبادی کے قریبی مشاہد بھی رہے ہیں، اس لیے ان کی تحریر میں داخلیت کے عناصر زیادہ ہیں اور مالک اور ملازم کے درمیان کی کشاکش اور غیر شعوری ذہنی و فکری بعد، بلکہ تصادم بھی ہے،اسی لیے رضوان اللہ کی بعض باتوں سے اتفاق نہیں کرتے اور اس کو مالک اور ملازمت سے وابستہ رشتہ کے نشیب و فراز پر محمول کرتے ہیں۔
احمدسعید ملیح آبادی نے ’ آزاد ہند‘ کے اپنے ابتدائی دور میں ہی کانگریس پارٹی کی حکومت کی چیرہ دستیاں بھی دیکھ لی تھیں اورکھادی پوش نیشنلسٹ رہنما طیّب بھائی کی فریب کاریاں بھی ، انہی طیّب بھائی نے ان کے والد کی غیر موجودگی میں اپنی مہربانیاں نچھاور کرکے ’ آزاد ہند‘ اور کاروبار پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،جس کا اثر اُن کے ذہن و دماغ پر اِس قدر پڑا کہ بعد میں وہ کسی سے بھی نہ مشورہ کرتے تھے اور نہ ہی ٹوٹ کر بھروسہ۔مالی بحران کی وجہ سے روز نامہ ’ آزاد ہند‘ کی سانسیں اُکھڑ نے لگی تھیں کہ ایک اچھے انسان بابو مول چند اگروال[ہندی روز نامہ ’ وشوامتر‘ کے مالک اور مدیر] نے سنبھالا دینے کی پیش کش کی اور جومعاشرے کے دو کردار اور دو طبائع کے فرق کو واضح کرتی ہے۔
رضوان اللہ لکھتے ہیں:
’’ وہ ’ آزاد ہند‘ کے سیاہ و سفید کے مالک تھے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ،وہ کسی معاملے میں ایک رائے قائم کرلیتے تو پھر ٹس سے مَس نہیں ہوتے اور ان کے فیصلوں میں کسی مشاورت کو بھی دخل نہیں ہوتا، اسی لیے ان کے جن خیالات یا قائم کردہ رائے کو میں اپنے ذاتی علم و اطلاع کے مطابق بے بنیاد سمجھتا تھا اس پر بھی وہ بدستور قائم رہے۔وہ کسی پر اعتماد کم ہی کرتے تھے ‘‘۔ [کلکتہ کی اردو صحافت اور میں، رضوان اللہ،ص84-85]
احمد سعید ملیح آبادی تقریر اور تحریر دونوں میں بے مثل تھے۔صحافت اُن کے گھٹّی میںتھی۔وہ ایک اخبار کے ایڈیٹر پہلے اور مالک بعد تھے،اس لیے وہ عملی طور پر ادارت سے وابستہ رہے ۔ رضوان اللہ لکھتے ہیں:
’’ احمد سعید ملیح آبادی اخبار کے مالک تھے ،ایڈیٹر تھے ۔اداریے لکھنے کے لیے ایک شخص کو ضرور رکھتے تھے۔لیکن کسی خاص موقع پر یا کسی خاص موضوع پر یا مسئلہ پر اظہار خیال کرنا چاہتے تو خود ہی لکھتے۔انہیں تحریر و تقریر دونوں پر عبور حاصل تھا۔چنانچہ اگر کوئی معاملہ یا مسئلہ اہم ہوتا توکئی قسطوں میں لکھ سکتے تھے۔دن میں گھنٹے دو گھنٹے دفتر میں بیٹھتے ، صرف بیٹھتے ہی نہیں بلکہ ترجمہ وغیرہ بھی کرتے اوراگر کسی مترجم کی کمی کی وجہ سے مشکل پیش آتی تو رات کو دیر تک کام کرتے رہتے۔وہ صحیح معنوں میں ’ ورکنگ ایڈیٹر‘ تھے، اور اب تک ہیں‘‘۔
[کلکتہ کی اردو صحافت اور میں، رضوان اللہ،ص82]
وہ معاملات میں اگر چہ مشاورت نہیں کرتے تھے یا کم کرتے تھے مگر اپنی تحریروں میں مشاورت بھی کرتے تھے اگر اُن کی تحریر میں کہیں خفیف سی بھی لغزش ہوتی اور ان کے علم میں آجاتی تو بلا چوں و چرا تسلیم کرلیتے اور اس کی اصلاح میں نہ خانصاحبی، نہ ایڈیٹرانہ انانیت، کوئی چیز آڑے نہ آتی تھی۔
انجم عظیم آبادی لکھتے ہیںؒ
’’ احمد سعید ملیح آبادی نے اپنے والد محترم عبد اکرزاق ملیح آبادی کی صحافتی روایت کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ ان کے ورثہ روز نامہ’ آزاد ہند‘ میں بھی چار چاند لگائے، قوم و ملّت اور وطن عزیز کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے صحافتی فرائض ادا کیے۔ حق گوئی سے کبھی جی نہیں چرایا ‘‘۔ [مغربی بنگال میں اردو کے اہم اخبار نویس،انجم عظیم آبادی،سہ ماہی روح ادب،کولکاتا،اپریل تا جون2022ء،ص229]
احمد سعید ملیح آبادی کی خدمات پر کوئی منضبط کام نہیں ہوا ہے۔ماہنامہ ’ انشاء‘ کے مدیر ف س اعجاز نے ’احمد سعید ملیح آبادی نمبر‘ نکالا اور ’ بابری مسجد نمبر‘ کے لیے بابری مسجد کے موضوع پر لکھے گئے اُن کے42اداریوں کو مرتب کیا۔خود اُن کی کتاب’ میری صحافتی زندگی‘ میں اُن کی ادارتی تحریریں موجود ہیں،جو اُن کی صحافت اور شخصیت کی تفہیم میں معاون ہوسکتی ہیں۔
افسوس اردو صحافت کا یہ نیر اعظم ایک طویل علالت کے بعد 2؍ اکتوبر2022ء کو لکھنؤ غروب ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
احمد سعید ملیح آبادی نے اردو صحافت کو کیا دیا ؟ اردو صحافت نے ان سے کیا حاصل کیا ، اور ما بعد احمد سعید ملیح آبادی اردو صحافت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ ان سب کا مطالعہ مستقبل قریب میں یقیناً ہوگا ۔ہم تو یہی کہیں گے!
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
مصادر
-1 اللہ کے گھر میں، احمد سعید ملیح آبادی،اُجالا پریس، ایڈن ہاسپٹل روڈ، کلکتہ،1972ء
-2 آج کا پاکستان، احمد سعید ملیح آبادی، کوہ نور آرٹ پریس پرائیویٹ لمیٹڈ، عبد العلی رو،کلکتہ،1975ء
-3آزاد نے کہا تھا: اتحاد اور آذادی، احمدسعید ملیح آبادی،لبرٹی آرٹ پریس ،پٹودی ہاؤس، دریا گنج، نئی دہلی،1997ء
-4 کلکتہ کی اردو صحافت اور میں، رضوان اللہ ،مکتبہ اشاعت القرآن، اردو بازار، جامع مسجد، دہلی،2006ء
-4 میری صحافتی زندگی، احمد سعید ملیح آبادی،اٹلائٹس، پبلی کیشنز، کراچی
-5 احمد سعید ملیح آبادیَ ممتاز صحافی و قائد ِ ملّت وقوم، نسیم عزیزی،سہ ماہی روح ادب،مغربی بنگال اردو اکاڈمی، کولکاتا،اپریل تا جون2022ء،ص244-246,238
حکیم وسیم احمد اعظمی
9451970477
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page