المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام احمد سعید ملیح آبادی کے انتقال پر تعزیتی نشست
دربھنگہ (نمائندہ) المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام احمد سعید ملیح آبادی کے انتقال پر ملال پر ایک تعزیتی نشست کا اہتمام ٹرسٹ کے دفتر شوکت علی ہوائس ، پرانی منصفی دربھنگہ میں انور آفاقی صاحب کی صدارت میں منعقد کی گئی۔ مہمان خصوصی کے طور ڈاکٹر عطا عابدی رہے۔ نظامت کے فرائض ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر نے انجام دیئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے کہا کہ اردو صحافت میں جن اصحاب نے اپنی کاوشوں کے ذریعہ نمایاں مقام حاصل کیا ان میں سے ایک احمد سعید ملیح آباد ہیں۔ انہوں نے ”آزاد ہند“ کے ذریعے ایک معتدل اور عوامی فلاح کی پالیسی پر کام کرتے ہوئے اردو قارئین کو خوب خوب متاثر کیا۔ ان کی کارکردگی اور مقبولیت کا سبب کہ انہیں راجیہ سبھا کے لئے کثیر مینڈٹ سے کامیابی ملی ۔ ان کا سیاسی جھکاﺅ کانگریس کی جانب تھا مگر وہ بایاں محاذ میں بھی مقبول تھے۔ ان کے انتقال سے اردو صحافت کا ایک مضبوط ستون گر گیا۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے ۔ آمین ، ڈاکٹرعطا عابدی نے کہا کہ احمد سعید ملیح آبادی اردو صحافت کی بڑی شخصیت تھے ۔ آزاد ہند اور اجالا کے ذریعہ ان کی صحافتی خدمات اس قدر روشن ہیں کہ ان کو بھلایا نہیں جاسکتا ۔ عوامی نمائندگی کا حوالہ ایک اضافی صورت ہے ورنہ بنیادی طور پر وہ صحافی تھے۔ مختلف ادوار میں مختلف موضوعات پر ان کے خیالات کی بلندی و بیباکی کی آزاد ہند کے صفحات میں اداریوں کے طور پر محفوظ ہیں۔ ان کی رحلت اردو صحافت و سماج کے لئے بڑا نقصان ہے۔ آج اس رکھ رکھاﺅ کے صحافی کا فقدان نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آج کی محفل کے صدر انور آفاقی نے کہا کہ احمد سعید ملیح کی وفات اردو صحافت کے لئے بڑا خسارہ ہے۔ ۷۷۹۱ءمیں جب کلکتہ میں قیام پذیر تھا تو اتفاقاً ایک بار ان سے ان کے دفتر میں ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ وہ نہایت مخلص انسان تھے اور لوگوں سے محبت کرتے تھے۔ ادب نواز تھے۔ ادبی لوگوں سے ان کا قریبی رشتہ بھی تھا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ آمین ۔ آن لائن سے جڑنے والے ٹرسٹ کے سرپرسٹ ایس ایم اشرف فرید نے کہا کہ احمد سعید ملیح آبادی کا انتقال اردو صحافت کا ایک بڑا خسارہ ہے. انہوں نے اردو صحافت قوت و توانائی عطا کی. اردو صحافت ان کی کم و بیش ستر سالہ صحافتی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ہے. ان کے انتقال سے اردو صحافت کا ایک اہم اور مضبوط ستون گر گیا۔معروف صحافی ڈاکٹر ریحان غنی: احمد سعید ملیح آبادی کا تعلق اردو صحافیوں کی اس جماعت سے تھا جس نے آزادی سے پہلے اور بعد دونوں کے زمانے دیکھے. انہوں نے اپنے صحافتی اصولوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا. ان کا انتقال اردو صحافت کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔معروف صحافی سید احمد قادری نے کہا کہ احمد سعید ملیح آبادی کا انتقال پرملال اردو صحافت کے لئے بلاشبہ ناقابل تلافی ہے۔ انہوں نے اردو صحافت کی جس طرح آبیاری کی اور تقریباً ۶۳ برسوں تک اپنے روزنامہ آزاد ہند کے حوالے سے اردو صحافت کے حسن و معیار میں اضافہ کیا ۔ وہ یقینی طور پر سنہری الفاظ میں لکھے جانے لائق ہے۔ کامران غنی صبانے کہا کہ آج جب اردو صحافت اپنے مشن اور نصب العین کو بھول چکی ہے، ایسے میں احمد سعید ملیح آبادی کا موجود ہونا ہی کسی حد تک اطمینان کا باعث تھا. ان کے انتقال نے طمانیت کا آخری احساس بھی ختم کر دیا ہے. اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور اردو صحافت کو ان کو بہتر نعم البدل فراہم کرے.ڈاکٹر احسان عالم نے کہا کہ احمد سعید ملیح آبادی نے ایک طویل عرصے تک اردو صحافت کی آبیاری کی۔ زندگی کے آخری لمحات تک انہوں نے صحافت اور اردو زبان کی خدمت کی ۔ ان کا تعلق کانگریس پارٹی سے رہا ۔ اس کے علاوہ وہ دیگر پارٹیوں کے اچھے کارناموں کو سراہتے رہے۔ یہ ان کی بڑی خوبی تھی۔ ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر نے کہا کہ سعید ملیح آباد اپنے روزنامہ ”آزاد ہند“ کے ذریعہ اردو صحافت کی خدمات کئی دہائیوں تک کرتے رہے۔ ان کی سوانح حیات ”میری زندگی اور اردو صحافت“ کافی اہم رہی ہے۔ ڈاکٹر ریحان احمد قادری نے سعید ملیح آبادی کے انتقال پر کہا کہ ان کے انتقال سے اردو صحافت کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ آخر میں ملیح آبادی کے لئے دعائے مغفرت کے ساتھ نشست کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page