صحافت غیر افسانوی نثر کا ایک ذریعہ اظہارہے اور تخیل کے بجائے تعقل کے سہارے آگے بڑھتی ہے۔تخیل کی عدم موجودگی کے سبب یہ چیزوں کو اس کی اصلی حالت میں پیش کرنے پر تو قادر ہے لیکن چیزیں کیسی ہو سکتی تھیں یہ بتانااس کے بس کا روگ نہیں۔جو لوگ صرف صحافتی تحریروں کی بنیاد پرخودکو ادیب منوانے کے لئے پنجوں کے بل کھڑے ہو جاتے ہیںانہیں ارسطوکے اس خیال کو ذرا رک کر پڑھنا چاہیے جہاں وہ ادیب اور مورخ کا فرق بیان کرتا ہے۔حقائق کے اطلاقی لیکن بے جان اظہار کی حد تک تاریخ اور صحافت کی سرحدیں کہیں کہیںاتنی مل جاتیں ہیں کہ ارسطو کے اس بیان کو ہم ادیب اور صحافی کے موازنے کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیںاس نے کہا تھاکہ’’شاعر کا تفاعل یہ نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کوبیان کرے جو واقع ہوچکی ہیں ۔دراصل اس کا تفاعل ان چیزوں کو بیان کرنا ہے جو واقع ہو سکتی ہیں ،یعنی جن کا واقع ہونا قانون لزوم یا احتمال کی رو شنی میں ممکن ہے۔شاعر اور مورخ میںفرق یہ نہیں ہے کہ ایک نظم میں اظہار خیال کرتا ہے اور دوسرا نثر میں۔ہیروڈوٹس کی تصنیفات کو اگر منظوم کر دیاجائے تو بھی جس طرح وزن و بحر سے معرا صورت میں وہ تاریخ تھیں ،اسی طرح وزن وبحر کے التزام کے باوجود وہ تاریخ کی ہی ایک صنف شمار ہوں گی۔اصل فرق یہ ہے کہ مورخ صرف وہی باتیں لکھتا ہے جو ہو چکیں ہیں اور شاعر ان باتوں کا ذکر کرتا ہے جو واقع ہو سکتی ہیں۔ـ‘‘ ـَ
صحافی واقعات بیان کرتا ہے ۔وہ سچائی کا متلاشی ہوتا ہے لیکن واقعات اور سچائی کو خلق کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ماورائے واقعات اور حقیقت کے بدلتے ہوئے تصورکے بجائے ان چیزوں کا مطلق تصور ہی اس کے پیش نظر ہوتا ہے۔جدید مادہ پرست تہذیب نے واقعات اور حقیقت کے مطلق تصور کو جس طرح چکنا چور کیا ہے اس کا احساس بھی صحافت کے لئے بند کتاب کی مانند ہے۔صحافت کی موجودہ قوت اور شہرت کے پیش نظر یہ بات کہنا بھڑوں کا چھتہ چھیڑنا ہے۔لیکن نطشہFriederich Nietzscheسے تو میں نے یہی سیکھا ہے کہ’’سچائی نے آج تک کبھی مطلق کے بازوں کا سہارا نہیں لیا‘‘۔اور یہ کہ ’’ہر وہ چیز جس کو تخیل میں لایا جا سکتا ہے،اس کا سچ ہونا لازمی ہے۔‘‘
اب تک کی بحث اور خصوصاََ ارسطو کی منقولہ عبارت کی روشنی میں ادب ،تاریخ اور صحافت کے امتیازات کو واضح شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ارسطو چونکہ ادب عالیہ پر گفتگو کر رہا تھا لہٰذا اس کی مملکت میں تاریخ یا علمیاتی سطح پر اس کے مما ثل اصناف نثر کے لئے بہت ہی کم جگہ تھی۔آگے چل کر ادب کے متعلق ارسطو کے بیان کردہ معیارات کو تھوڑی ڈھیل دی گئی اور صحافی بھی ادیب کہے جانے لگے ہمارے زمانے میں محمد حسن عسکری جیسے خالص ادب کے پرستارنے بھی یہ بات کہی کہ’’اب سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک ادب اور صحافت کے درمیان کوئی حدفاصل نہ تھی۔صحافت نگاروں کو بھی ادیبوں میں ہی شامل سمجھا جاتا تھا۔ادیب روز مرہ کے مسائل پر لکھنے میں اپنی کسر شان نہ سمجھتے تھے۔دوسری طرف صحافی لوگ اس احتیاط سے لکھتے تھے گویا ادب تخلیق کر رہے ہوں ،چنانچہ بہت سی چیزیں ہیں ،جو صحافت کے خانے میں آتی ہیں ،لیکن ادب کا حصہ بن گئی ہیں۔مثلاََآزادی رائے کے متعلق ملٹن کا پمفلٹ،یا سوفٹ کی سیاسی تحریریں۔‘‘غرض یہ کہ صحافت ادب کی کوئی باقاعدہ صنف نہیں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ انفرادی طور پر اسالیب بیان کی وجہ سے کوئی صحافتی تحریر ادب کا درجہ حاصل کر لے۔اردو کی حد تک یہ بات جن صحافتی تحریروں کے متعلق کہی جا سکتی ہے ان میں الہلال اورالبلاغ کی وہ تحریں بھی شامل ہیں جو مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے بہترین لمحات میں قلم بند کئے ہیں۔
الہلال اور البلاغ میں مولاناکی ادبی اور صحافتی صلاحیتوں کا بہترین امتزاج ملتا ہے۔چوبیس صفحوں کے اس جریدے نے اپنی زبان ،مواد اور حسین پیشکش کے اعتبار سے ان لوگوں کو سخت صدمہ پہنچایا جن کی گردنیں نو آبادیاتی نظام کے آگے ہمیشہ جھکی رہتی تھیں ۔سائنسی ترقی کے اس دور میں جو لوگ اخباروں کی زبان اور اس کی پیشکش پر اتراتے پھرتے ہیںانہیں الہلال اور البلاغ کے ان کرم خوردہ صفحوں کو دیکھنا چاہیے جو زبان اور اس کے جمالیاتی تفاعل کا بہترین نمونہ ہیں۔ان جریدوں کو مولانانے آج کے صحافیوں کی طرح اچھل کود کر اس لائق نہیں بنا یا تھا۔بلکہ اس کے پیچھے مولانا کا وہ ہمہ گیر ذہن کام کر رہا تھا جو فروعی چیزوں کو کاٹ کر فوراََ جوہر تک پہنچ جانے کی غیر معمولی صلاحیت سے مملو ہوتا ہے۔یہاں الہلال اور البلاغ سے معاصر صحافتی تحریروں کا کوئی موازنہ مقصود نہیں تاہم یہ کہنے میں بھی مجھے کوئی عار نہیں کے الہلال اور البلاغ کے ساتھ جب میں معاصر صحافتی تحریروں کوپڑھتا ہوں تو ان سے تانبے کے زنگ آلود پیسوں کی بو آتی ہے۔
مولانا کے ذہن میں صحافت کا ایک ایسا تصور موجود تھا جہاں بازاری پن اور مفاہمت کے لئے کوئی جگہ ہی نہ تھی۔الہلال کے مقاصد کو واضح کرنے کے لئے اس کے پہلے ہی شمارے میں مولانا نے یہ عبارتیں لکھیں جو صحافتی طرز سے بہت بلند اور ادبی اظہار کے بہت قریب ہے۔انہوں نے لکھا:
اگر خدا مجھ میں سچائی اور خلوص کی سر گرمی دیکھتا ہے،اگر اس کی ملت مرحومہ اور اس کے کلمۂ حق کی خدمت کی کوئی سچی تپش میرے دل میں موجود ہے،اور اگر واقعی اس کی راہ میں فدویت اور خود فراموشی کی ایک آگ ہے،جس میں برسوں سے بغیر دھوئیں کے جل رہا ہوں تو اپنے فضل و لطف سے مجھے اتنی مہلت عطا فر مائے کہ اپنے بعض مقاصد کے نتائج اپنے سامنے دیکھ سکوں۔لیکن اگر یہ میرے تمام کام محض ایک تجارتی کاروبار اور ایک دوکان دارانہ شغل ہیں جس میں قومی خدمت اور ملت پرستی کے نام سے گرم بازاری پیدا کرنا چاہتاہوں توقبل اس کے کہ میں اپنی جگہ پر سنبھل سکوں ،وہ میری عمر کا خاتمہ کر دے۔
الہلال اور البلاغ کے ذریعے مولانا کی جن صحافتی اور ادبی صلاحیتوں کا اظہار ہوا، اس کے پیچھے تجربوں کی ایک طویل داستان مودجودہے۔’’الندوہ ‘‘سے چل کر’’ وکیل‘‘ تک اور پھر الہلال سے لے کر البلاغ تک تجربوں کا یہ سلسلہ دلچسپ بھی ہے اور پیچیدہ بھی ۔عابد رضا بیدار نے دشت نوردی کے اس تجربے کو بیان کرتے ہوئے درست لکھا ہے کہ ’’عرب ماحول کے پروردہ ،مولانانے اپنے شعور کی ابتدائی منزلیں چونکہ مصر میں طے کیں ،لہذا قیام مصر نے ان پر بے اندازہ اثر چھوڑا۔۱۹۰۱سے۱۹۰۵ء تک ندوۃالعلمامیں قیام رہا جہاں عربی ماحول کے ساتھ مصر کی علمی دنیا سے بھی وابستگی رہی۔جب الہلال نکلا تو نہ صرف نام بلکہ پیٹرن ) (Patternتک مصری صحافت سے مستعار لیا ۔مصر میں ٹائپ میں چھپنے والے مصَورپرچے عام تھے۔انہیں میں جرجی زیدان کا ’’الہلال‘‘ بھی تھا ،جو نام کے ساتھ پوری ترتیب میں بھی ہندوستانی ’’الہلال ‘‘کے لئے نمونہ بنا۔پھر ۱۹۰۸ء کے دستوری انقلاب کے بعد ترکی میں بھی صحافت قدرے آزاد ہو چکی تھی اور وہاں کے اخبار اور رسائل بھی ترتیب و تہذیب میں مصری نمونہ پر چل رہے تھے۔لبنان میں بیروت سے نکلنے والے چند پرچے اسی انداز پر شائع ہوتے تھے (انہیں میں ایک البلاغ بھی تھا،الہلال بند ہونے کے بعد نیا نام البلاغ یقیناََ اسی پرچے سے لیا گیا ہو گا)۔یہی ترکی اور عربی اخبار الہلال کا پس منظر بھی تھے اور اس کی ترتیب و تہذیب کا سر چشمہ بھی۔‘‘
الہلال اور البلاغ میں ترتیب و تہذیب اور زبان کا جو نمونہ موجود ہے اس کو نظر میں رکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا صحافت اور ادب کے تمام بوسیدہ معیارات کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانا چاہتے ہیں۔ان جریدوں میں مختلف موضوعات پر مولانا کی جو تحریریں ملتی ہیں ان کے ایک بڑے حصے پر یہ رویہ غالب ہے۔یہ اقتباسات دیکھیں:
آہ کاش مجھے وہ صورِقیامت ملتا جس کو میں لے کر پہاڑوں کی بلندچوٹیوں پر چڑھ جاتا ۔اس ایک صدائے رعد آسا غفلت شکن سے سر گشتگانِ خوابِ ذلت ورسوائی کو بیدار کرتا اور چیخ چیخ کر پکارتا کہ اٹھو !کیوں کہ بہت سو چکے ا ور بیدار ہو کیوں کہ تمہارا خدا تمہیں بیدار کرنا چاہتا ہے۔پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ دنیا کو دیکھتے ہو پر اس کی نہیں سنتے جو تمہیں موت کی جگہ حیات ،زوال کی جگہ عروج اور ذلت کی جگہ عزت بخشتا ہے۔
(الہلال ۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء)
زمانے کے خیالات یکسر پلٹ گئے ہیں اور وقت کے طوفان نے بڑے بڑے محکم ستونوں کو بھی اپنی جگہ سے ہلا دیا ہے۔جو لوگ پچھلی صحبتوں کے مشہور رکن سمجھے جاتے تھے اور کل تک اپنے گذشتہ اصولوں کا وعظ کر رہے تھے،انہوں نے بھی زمانے کا رنگ دیکھ کر بالآخر اپنی جگہ چھوڑی ،اور زیادہ نہیں تو نئے خیالات وعقائد کی طرف دو چار قدم تو ضرور بڑھ آئے،مگر تاہم لوگ دیکھ رہے ہیں کہ نواب صاحب ممدوح اپنے خیالات پر اسی استحکام و استواری سے قائم ہیں جس طرح گذشتہ عہد میں تھے۔
……….
یقین کرو کہ جب حضرت( مسیح)نے بنی اسرائیل کی ذات و ہلاکت پر ماتم کیاتو شریعت موسوی کے احکام و اعمال کا بعینہ یہی حال تھا۔جو آج تم نے خدا کی شریعت کا بنا رکھا ہے۔مسیح اگر ان فروسیوں اور صدوقیوں پر روتا تھا،جو گوبڑی بڑی آستینوں کے جبے پہنتے ،ہر وقت دعائیں مانگتے،اور بڑی بڑی مہیب تسبیحیں اپنے ہاتھوں میں رکھتے تھے،پر شریعت کے حکموں کو انہوں نے مسخ اور اعمال صالحہ کو بے اثر کردیا تھا ، تو ہمیں بھی اپنے عالموں اورصوفیوں پر ماتم کرنا چاہیے جو ان کی طرح یہ سب کچھ کرتے ہیں پر انہیںکی طرح حقیقت سے بھی خالی ہیں۔
……….
آئرش تحریک کے مشہور لیڈروں میں ایک جانباز شخص ’ ’چارلس اسٹوارٹ پارنل ‘‘تھا۔آئرش تحریک کے تمام ہوا خواہوں میں اس کی پرستش کی جاتی تھی اور تمام قوم اس کی مطیع و منقاد تھی۔ لیکن اس کے بعد کچھ ایسے واقعات پیش آگئے جن کی وجہ سے پارنل یکایک نظروں سے گر گیا،اور خود اس نے بھی محسوس کیا کہ اس کی علمی قوت شکست کھا کے اسے چھوڑناچاہتی ہے۔یہ انقلاب جو ایک محبوب القلوب اور پر عظمت و رفعت زندگی میں ہوا۔اور جس سے آفتاب شہرت کو عین نصف النہار کے وقت گہن لگ گیا،اس کی علت ایک عورت کی نگہ ساحر کی افسوں طرازی تھی، جس کے آگے آئر لینڈ کو استقلال دلانے والے دماغ نے اپنے تئیں بلکل بے دست و پا پا یا ،اور ہمت و عزائم کے جس تاج و تخت کو حکومت کی سطوت و ہیبت مرعوب نہیں کر سکتی تھی، وہ ایک متبسم چہرے،ایک شگفتہ چشم و ابرو ، ایک پراز عشق نگہ ناز کے آگے اضطراب و تزلزل سے کانپنے لگا۔
(الہلال،تبصرہ)
درج بالا اقتباسات کے اسالیب بیان نے اخباری طرز کو بلکل شکست دے دی ہے۔ان بیانات کو اگرکسی افسانوی نثرکے درمیان رکھ دیا جائے تو معمولی نقاد تو خیر کیا بیچتا ہے تیز نظر اورنہایت محتاط نقاد بھی دھوکا کھا جائے۔
اخبار کی حیثیت سے الہلال اور البلاغ کی مو جودہ عزت و شہرت کے پیش نظر ان کے بارے میں کوئی نئی بات کہنا خود کو خطرے میں ڈالنا ہے۔نئی بات کہنے میں خوف جان تو ہے لیکن پٹے ہوئے میدانوں کی شہ سواری سے بہتر ہے کہ ہم یہ جو کھم مول لیں۔مذ کورہ دونوں اخباروں کے متعلق میری ہمیشہ سے یہ اختلافی رائے رہی ہے کہ یہ اخبار تو ہیں لیکن ان معنوں میں نہیں جن معنوں میں ہم معاصر اخباروں کا یاخود بیسویں صدی کے نصف اول کے اخباروں کا نام لیتے ہیں۔جن چیزوں نے الہلال اور البلاغ کو اخبار کے مروجہ معنوں سے ممتاز کیا و ہ مولانا اور ان کے چند ممتاز معاصرین کی تحریں ہی تھیں ۔ان تحریروں کی موجودگی میں الہلال اور البلاغ کے لئے اخبار کے بجائے ایک رجحان ساز رسالے کی اصطلاح زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے۔محمود الٰہی صاحب نے درست لکھا ہے کہ:
الہلال ہفتہ وار اخبار نہیں تھابلکہ یہ ایک جرنل تھا،جسے آسانی کے لئے مجلہ یا رسالہ کہہ لیجیے اور جرنل بھی وہ جس نے مغربی زبانوں کے معیارکو مشعل راہ بنایا تھا۔کسی جرنل میں عام طور پرایسا مواد پیش کیا جاتا تھاجو ایک طرف تو علم و ادب کے تقاضوںکو پورا کرتا تھا اور دوسری طرف حیات شناسی اور کائنات کی گرہ کشائی کا محرک ثابت ہوتا تھا۔مولانا آزاد نے بھی الہلال کے لئے یہی راہ اپنائی ۔اس میں تنوع تھا مگرتنوع کے نام پر سستا اور مبتذل مواد نہیں کھپایا جاتا تھا۔
الہلال اور البلاغ میں مضامین کا تنوع اور تجربٔہ حیات کی کثرت ہمیں حیرت میںڈال دیتی ہے۔سیاست سے چل کر فلسفے تک اور ادب سے لے کر تنقیدو تبصرے تک ان کا سفر اس قدر طویل اور امکانات سے پر ہے کہ ہمیں رشک آتا ہے۔شمس الرحمن صاحب فاروقی کے متعلق ایک دفعہ کسی نے یہ بات کہی تھی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ہماری زبان میں فاروقی جیسا شخص لکھ رہا ہے۔الہلال اور البلاغ کے متعلق میں بھی کچھ اسی طرح سوچتا ہوں کہ یہ اسی زبان کا جریدہ ہے جس میں ہم بھی اظہار خیال کرتے ہیں ۔قومیت کا تصور ہو یا سیکولرزم کا فروغ ،روشن فکری کی بات ہو یا مذہبی مسائل،آزادی کا مطالبہ ہو یا سماجی اور سیاسی تقاضوں کا بیان الہلال اور البلاغ کسی چیز میں بند نہیں تھے۔ان دونوں جریدوں نے اردو صحافت کو اتنی ترقی دی کے اس کے آگے سوچنا محال ہو گیا۔صحافت کو الہلال اور البلاغ نے جس مقام تک پہنچایا ان کو نظر میں رکھیں تو معاصر اردو صحافت کے زوال اورنام نہاد صحافیوں کے ذہنی اضمحلال کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
عسکری صاحب کہتے تھے کہ استدلال سے کسی چیز کے نقصانات کم نہیں ہوتے ۔موجودہ اردو صحافت خود کو قائم کرنے کے لئے خواہ جتنے بھی استدلال لائے مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف نہیں کہ اس کا معتد بہ حصہ زوال کے اس مقام پر ہے کہ پستی کو ناپنے کا کوئی ایسا آلہ ہی نہیں جو اس کی گہرائی کو ناپ سکے۔
٭٭٭
Nadim Ahmad
Department of Urdu
Calcutta University
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page