پریس ریلیز
ماہنامہ الفرقان کے خصوصی شمارہ ’ذکر عتیق‘ کی رسم رونمائی پر مقررین کا اظہار خیال
(دہلی)مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے ہندوستانی مسلمانوں کی فکری قیادت کی ہے۔ ماضی قریب کے ہندوستان میں ایسے چند ہی لوگ ملیں گے ۔ وہ ہندوستان کی عام صورت حال اور مسلمانوں کے حالات سے اچھی طرح واقف تھے اور اسی امتیازی خصوصیت کی بنا پر مولانا کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ان خیالات کا اظہار ممتاز دانشور پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے ماہنامہ الفرقان کی خاص اشاعت’ذکرعتیق ‘ کی رسم اجراء کے موقع پر غالب اکیڈمی ، بستی حضرت نظام الدین ، نئی دہلی میں کیا۔ تقریب کی صدارت ڈاکٹر سید فاروق نے فرمائی۔جب کہ دارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے صدر مولانا رضی الاسلام ندوی اور جماعت اسلامی ہند کے نائب امیرمولانامحمد جعفر بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔مہمانوں کا استقبال جنیدالرحمن ندوی نے کیا۔نظامت کے فرائض مشہور صحافی سہیل انجم نے انجام دیے۔ مولانا احمد شیث ندوی نے قرآن پاک کی تلاوت کی۔سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے پروفیسرمحسن عثمانی نے یہ بھی کہا کہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی سے ہمیں ایسی عقیدت تھی اور ہے جیسی کسی طالب علم کو اپنے استاد سے ہوتی ہے۔ میں الفرقان اور ندائے ملت میں مولانا کے اداریے بہت شوق سے پڑھتا تھابلکہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے لکھنا اور خاص فکر اختیار کرنا ، مولانا مرحوم کے مضامین اور اداریہ پڑھ کر سیکھا تھا۔
صدارتی خطاب میںڈاکٹر سید فاروق نے کہا کہ مولانا ہر بات کو سلیقہ کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر رکھتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے پڑھنے والوں کا اپنا ایک حلقہ تھا۔مولانا اپنی تحریروں سے مخالفت کرنے والوں کا نہ صرف احترام کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ محبت کا برتائو بھی کرتے تھے۔مولانا کی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت کے لیے وقف تھی۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا مشغلہ تھا ہی نہیں۔ آج کی یہ تقریب مولانا کی شخصیت ، حیات و خدمات کے اعتراف میںاور انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی ہے۔
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے تقریب رسم اجرا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی حضرت والد ماجد ؒ کی پہلی اولاد تھے۔وہ ان کی اسلامی حمیت اور دینی غیرت کے سب سے بڑے وارث بھی تھے۔مولانا سنبھلی ان عبقری شخصیات میں تھے جن کی نظر ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل کے متعدد بلکہ متضاد پہلوئوں پر ہمیشہ رہتی تھی۔قرآن مجیدسے مولانا کو گہری مناسبت تھی۔ان کی تفسیر ’محفل قرآن‘ اس کا بہترین نمونہ ہے۔
مولانا رضی الاسلام ندوی نے محفل کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا سب سے بڑا امتیاز ملت کے لیے ان کی دردمندی اورملک میں مسلمانوںکے حالات پرفکر مندی تھی ۔وہ ملت اسلامیہ کے خلاف سازشوں پر اپنا دو ٹوک نظریہ رکھتے تھے۔انھوں نے نامساعد حالات میں بھی ملت اسلامیہ کی فکری رہنمائی کی۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر مولانا محمد جعفر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ایک دیدہ ور صحافی ، محقق اور مفسر قرآن تھے۔محفل قرآن کے نام سے ان کی تفسیر ۶؍ جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔اس تفسیر میں طلباء ، اہل علم اورعلماء کے لیے بڑی بصیرت افروز رہنمایاں موجود ہیں۔یہ اللہ کے کلام کی برکت ہی تھی کہ مولاناؒ کے قلب میں بھی اسلامی حمیت رچی بسی تھی ۔ یہی سبب ہے کہ ان کے ذہن سے نکل کر جوبات سامنے آتی تھی اس میں اسلامی رنگ پوری طرح غالب رہتا تھا۔
ممتاز صحافی اور خبردار جدید کے اڈیٹر معصوم مرادآبادی کے کہا کہ ہم نے طالب علمی کے زمانے میں جو رسائل و جرائد پڑھے ہیں اور جنھوں نے ہماری ذہن سازی کی ۔اس میں ماہنامہ الفرقان کا پہلا نمبر ہے۔ ’ذکرعتیق ‘ ماہنامہ الفرقان کی خصوصی پیشکش ہے۔اس کے مطالعہ سے مولانا سنبھلی کے طرز فکر سے واقف ہونے کا موقع ملے گا۔اس موقع پر خطا کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ حضرت مولانا منظور نعمانیؒ کے پورے خاندان نے بڑی علمی و دینی خدمات انجام دی ہیں۔مولانا عتیق الرحمن سنبھلی اپنے والد کے حقیقی جانشین تھے۔انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ ملت اسلامیہ کی صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔اور آج کے دور میں ملت اسلامیہ کو جن مسائل و مصائب کاسامنا ہے اس میں مولانا سجاد نعمانی جیسے بے لاگ ، بے باک اور بے خوف لوگوں کی ضرورت ہے۔
بزرگ صحافی منصور آغا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے آج کی اس محفل میں شرکت باعث سعادت اس لیے ہے کہ آج کے زمانے میں کتنی محفلیں ایسی ہوتی ہیں جس میں کسی ’عتیق‘ کا ذکر ہو۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی سے میرا تعلق قلبی تھا۔ ایمان کے بغیر اعمال کی کوئی حیثیت نہیںاور ایمان عمل کے ساتھ ہی کامل و اکمل ہوتا ہے۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے اپنے ایمان کو خالص کیا۔صالح اعمال کرتے رہے اور محبوب الٰہی ہوئے۔
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے صاحبزادے اکبر عبیدالرحمن سنبھلی کے مولانا کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اباجان نے ہر کام کو پورے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ سے اجر کی امید پر کیا۔معروف اسلامی اسکالراورملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم صاحب اپنی مصروفیت کی بنا پر شرکت نہیں کرسکے لیکن انھوں نے اس موقع پر اپنا ایک پیغام بھیجا ، جسے سہیل انجم صاحب نے پڑھ کر سنایا۔
عام طور پر کسی کتاب کے اجرا کی تقریب میں چند لوگ شریک ہوتے ہیں لیکن ماہنامہ الفرقان کے خصوصی شمارہ کے اجراء کی تقریب میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔اس تقریب میںدہلی اور لکھنؤ کی علمی ادبی شخصیات نے پروگرام میں شرکت کی۔
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page