عنوان: "گرگِ شب” ، پیش منظر کی کہی سے پس منظر کی ان کہی تک
علی حسن اُویس
ناول کو زندگی کی تصویر کہا جاتا ہے، ایک ایسی تصویر جو زندگی کی کئی جہات کا احاطہ کرتی ہے۔ لکھنے والے اور اچھا لکھنے والے میں یہ فرق ہوتا ہے کہ اول الذکر اس تصویر میں خلا چھوڑنے اور حقیقت کو ملفوف کرنے سے قاصر ہوتا ہے مگر مؤخر الذکر نا صرف حقیقت کو پسِ پردہ بھیج کر کہانی کو ابھارتا ہے بلکہ کچھ ان کہی چھوڑ دیتا ہے جس تک پہنچنے کا کام قاری کو کرنا ہوتا ہے۔ حکومت ہمیشہ اس ‘ان کہی’ سے ڈرتی ہے اور خالی جگہوں میں پنہاں مفاہیم کی جبریت سے خوف زدہ ہو کر اسے تلف کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ افسانوی ادب کی تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا کہ حکومت کو ایسی تحریروں پر پابندی عائد کرنا پڑی جو معاشرے کے تلخ حقائق کو سامنے لانے کی سعی کر رہی تھیں۔ سعادت حسن منٹو کی تحریریں ہوں یا عصمت چغتائی کی ، پاپندی کا سامنا کرنے کی وجہ یہی تھی کہ ان کی تخلیقات معاشرتی مسلمات کو توڑ کر نئے مسلمات قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اکرام اللہ کے ناول "گرگِ شب” کے تناظر میں اس مقولہ کو سچ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ناول پہلے رسالہ ” سویرا” میں "سُپن بھکاری” کے عنوان سے شائع ہوتا رہا اور آخر 1978ء میں سنگِ میل نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا۔ یہ ناول جب منظر عام پر آیا تو تب ایک ایسا دور چل رہا تھا کہ سچ لکھنا تو درکنار ، بولنے پر بھی پابندیاں مسلط کی جارہی تھیں۔ اس ناول کو سماجی، سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی اخلاف ورزی کی پاداش میں ضبط کر لیا گیا۔
بقول ریاض احمد:
"اکرام اللہ کے ناول "گرگِ شب” پر آج سے بہت پہلے حکومت نے پابندی لگا دی تھی۔ یہ ثبوت ہے کہ ان کا لکھا ملک کے بالادست طبقے کی نظر میں کھٹکتا ہے۔”
اس ناول میں ایک ایسے انسان کی زندگی کی سیاہیاں بکھری پڑی ہیں، جو اپنے باپ کی اولاد نہیں بلکہ اپنے سوتیلے بھائی کے صلب سے پیدا ہوا ہے۔ مرکزی کردار شفیع، حمیدہ کے عشق میں گرفتار ہونے سے قبل اس بات سے لاعلم تھا کہ وہ ایسا بچہ ہے جسے معاشرہ تو کیا، اس کا اپنا وجود بھی تسلیم نہیں کر پائے گا۔ حمیدہ سے محوِ وصل ہونے سے چند لمحے قبل، جب حمیدہ اور وہ کپڑے اتار چکے تھے، حمیدہ اس سے پوچھتی ہے کہ ایک سوال پوچھوں تو برا تو نہیں مانو گے، اور وہ سوال کیا پوچھتی ہے شفیع کی دنیا اجاڑ دیتی ہے، اس کی ذات کو ایسی شے بنا دیتی ہے جس سے تعفن اٹھ رہا ہو۔ وہ کہتی ہے کہ اس کی اماں کہتی ہے کہ شفیع اپنے باپ کا نہیں بلکہ اپنے سوتیلے بھائی کا بیٹا ہے۔ شفیع پر نفسیاتی حملہ ہوتا ہے اور وہ ذہنی لحاظ سے نامردانگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس خوف سے چھٹکارا پانے کی خاطر وہ نام تبدیل کرتے ہوئے شہر کا رخ کرتا ہے اور وہاں جا کر کاروبار شروع کرتا ہے۔ اس کا نیا نام "ظفر” اس نکتہ کو عیاں کرتا نظر آتا ہے کہ کاروبار میں وہ خوب کامیاب ہوا۔ مگر وہاں بھی حرامی ہونے کا خوف اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور خوابوں کی صورت اس کی "ظفریت” کو تہس نہس کر دیتا ہے۔
شفیع/ظفر مے خانے کا رخ کرتا ہے اور شراب میں پناہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر بے سود۔ بھیانک خواب اسے سونے نہیں دیتے اور وہ اندرونی توڑ پھوڑ سے گھبرا کر کسی عورت کی آغوش میں پناہ لینے کا فیصلہ کرتا ہے اور مسسز ایم بی شیخ سے تعلق قائم کرتا ہوا بستر تک کا سفر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر محوِ وصل ہونے میں ناکام ۔۔۔۔۔۔۔ اسے یہ خوف ہے کہ کہیں مسسز ایم بی شیخ اس سے یہ نا پوچھ لے کہ وہ اپنے باپ کا نہیں بلکہ سوتیلے بھائی کی اولاد ہے۔ ہر رات دیواریں اسے ڈراتی ہیں اور وہ خوابوں میں خود کو ایسی دلدل میں گرتا محسوس کرتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ یہاں یہ نکتہ بیان کرنے کے قابل ہے کہ جب ظفر شراب اور عورت کی صورت ، اپنی زندگی کی سیاہی مٹانے سے قاصر رہتا ہے تو خواب کتھارسس کرتے ہوئے اس کی شخصیت کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ اپنی ذات سے اس قدر ڈر چکا ہے کہ خواب تندرستی کے بجائے ، پاگل پن کا باعث بن جاتے ہیں اور وہ پاگل خانہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔ ناول کے مرکزی کردار کا اس کے حرامی ہونے میں کوئی قصور نہیں تھا مگر معاشرے کی کثافت نے اس کو ایسا داغ دار کیا کہ اس کی روح زخمی ہو کر فرار پر آمادہ ہوئی اور وہ گاؤں سے بھاگ کر شہر آیا، دنیا سے لڑا، کامیاب تاجر بنا، گاڑی، بنگلہ ، پیسہ سب کچھ حاصل کیا مگر اپنی ذات سے اپنے وجود سے چھٹکارہ حاصل نہ کر پایا۔ اور اسی گناہ کی پاداش میں پاگل پن کا شکار ٹھہرا۔
بقول محمد سلیم الرحمٰن:
“آپ اُن تمام افراد سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں جن کی صرف موجودگی ہی طعنہ ثابت ہوتی ہے۔ اُس جگہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ سکتے ہیں جس سے نا خوش گوار یادیں وابستہ ہوں، مگر اپنے آپ سے، اپنے اندر پلتے اور پھیلتے عذاب سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ دنیا میں ہر آسائش ، ہر رہائش، ہر حیثیت کو تجنا ممکن ہے، مگر اپنے آپ سے گلو خلاصی نا ممکن ہے”
یہاں ایک سوال ابھرتا ہے کہ آخری وہ کیا وجہ تھی کہ مرکزی کردار کی ماں کو اپنے سوتیلے بیٹے سے ناجائز تعلقات قائم کرنا پڑے۔ ناول میں اکرام اللہ نے اس کا جواب ان کہی کی صورت دیا ہے اور پس منظر میں اس کو چھپا دیا ہے۔
شفیع / ظفر کی ماں کی عمر بہت کم تھی جبکہ اس کا نام نہاد باپ بڑھاپے کو چھو رہا تھا۔ آپ خود اندازہ کریں کہ ایک ایسا شخص جس کا بیٹا اس قابل ہو کہ بچے پیدا کر سکے تو اس کی عمر کیا ہو گی۔ اور یہی وجہ ہے جو غیر منکوحہ اولاد کا سبب بنی اور شفیع جیسا کردار پیدا ہوا جو بچپن ہی میں موت کا شکار ہو گیا مگر تمام عمر اپنی لاش کو کندھوں پر اٹھائے، اس میں روح تلاش کرنے کے لیے پھرتا رہا۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
"میرے بھائی نے معاف کیجئے میرے باپ نے اگر اپنی سوتیلی ماں سے مل کر مجھے پیدا کیا تو پرانے نہایت پرانے دستور کے مطابق نہ اچھا کیا نہ برا کیا، لیکن آج کے زمانے میں مجھے بدترین حرامی ہونے کی لعنت سے کیونکر چھٹکارا ملے۔ نئی اقدار ابھی پیدا نہیں ہوئیں۔ خدا کہیں گم ہے۔ میں ابتدائے آفرینش سے اپنی ذات کے ساتھ بندھا ہوا ہوں، ان حالات میں مجھے نا واقفیت کی دیوار کے پیچھے چلے جانا چاہیے۔”
شفیع/ ظفر کے حرامی ہونے میں قصور شفیع کا نہیں تھا بلکہ سماج کی ان روایات اور خاندان کی ان رسمیات کا تھا جو باپ بیٹی کے عمر کے دو لوگوں کو رشتہ ازدواج میں لایا۔
مختصراً یہ ناول ایک ایسا فن پارہ ہے جو اس بات پر زور دیتا نظر آتا ہے کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے جب نئی اقدار کو جنم لینا چائیے تاکہ آئندہ کوئی اور ظفر حرامی کا تمغہ لیے، زندگی کی لاش کو اٹھائے پاگل پن کا شکار نہ ہو سکے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page