نفیس اکبر بھٹو
( اسکالر بی ایس اردو، نمل یونیورسٹی اسلام آباد)
اردو ادب میں ناول ایک ایسی صنف ہے جس میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے۔ناول نگار کو کھل کر اپنی بات کرنے کے لیے ایک وسیع کینوس مل جاتا ہے ۔اس کینوس میں کہانی کار اپنی ہر بات کو قاری کے دل کیا روح تک ترسیل کرتا ہے۔گزرے زمانے میں بھی لوگ دوسروں کو اپنی بات سمجھانے کے لیے کسی نہ کسی کہانی کا کسی کردار کا کسی گزرے واقعے کا سہارا لیتے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ کہانی سننے اور سنانے کا عمل بنی نوع انسان کا ہمیشہ سے ہی شیوہ رہا ہے۔ ناول ایسی صنف ہے جس نے ادب میں تقریباً ڈیڑھ سوسال میں وہ مقام بنایا جو شاعری نے پانچ سوسال میں حاصل کیا ہے۔اردو ادب میں ناول کے متعلق اگر بات کی جائے تو یہ صنف اردو میں مغرب سے آئی ہے۔مغرب میں جو ناول کو عروج حاصل ہے اس کی کوئی مثل نہیں ملتی۔ لیکن اردو ادب میں بھی شاہکار ناول موجود ہیں جن کی کہانیاں اور کردار اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے متعلق سہیل بخاری یوں لکھتے ہیں کہ:
” ناول انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ اس سے ایک مخصوص صنف افسانہ مراد ہوتی ہے۔جب انگریزی ادب کے زیر اثر یہ صنف ہماری زبان میں منتقل ہوئی تو اس کا نام”ناول“ بھی اس کے ساتھ ہی چلا آیا۔ فن کی رو سے ناول اس نثری قصے کو کہتے ہیں جس میں کسی مخصوص نقطہ نظر کے تحت زندگی کی حقیقی و واقعی عکاسی کی گئی ہو ۔ “ (١)
ناول نگار زندگی کو اساس بنا کر کہانی لکھتا ہے۔ ناول حقیقت کا ترجمان ہے۔کوئی بھی ذی شعور انسان اپنے سماج سے الگ ہو کر زندگی نہیں گزار سکتا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ادیب اس سے مبرا ہو۔ اس لیے ناول میں اردگرد انسانی زندگی کے واقعات نظر آتے ہیں۔ زندگی کی پریشانیاں،بد عنوانیاں،بدگمانیاں،اور دیگرحقائق موضوعات بن جاتے ہیں۔ ناول نگار خود کو ان کے حوالے کر دیتا اور پھر قلم کو اجازت دے دیتا ہے کہ حالات جس طرف لے جائیں چلتے جاؤ ۔ادیب کا قلم پھر کسی بحر بے کراں کی طرح رواں دواں چلتا ہی رہتا ہے۔ ناول کے متعلق احمد صغیر کی رائے ہے کہ:
”ناول کی جو خصوصیت اسے دیگر نثری اصناف سے الگ کرتی ہے وہ اس کا مرکزی خیال ہے۔ ناول نگار لکھتے وقت حقیقتوں کو پیش نظر رکھتا ہے انہیں دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ حقیقت کا علم اسے نئی حقیقوں کی تلاش کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ اس علم و آگاہی اور جستجو سے وہ نتائج اخذ کرتا ہے اور ان نتائج کی روشنی میں زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے۔ زندگی کی راہوں کا تعین اور رائے کا قیام ہی اس کا تصور حیات بن جاتا ہے ۔ اس تصور حیات کے تحت ایک دنیا کی تخلیق اور زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ کہیں اس کی تخلیقی دنیا بہت وسیع ہوتی ہے جس میں زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے ناول نگار زندگی کے چند پہلوؤں کا انتخاب کرتا ہے۔ “ (٢)
داستان کے دور میں جو کہانیاں منظر عام پر آئی ان میں مافوق الفطرت عناصر پائے جاتے تھے اور انسان ان جنوں، پریوں، دیو کی کہانیوں سے بس محظوظ ہوتا تھا اس کا اپنی عملی زندگی میں ان کہانیوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا نہ انسان ان سے کچھ سیکھ پاتا تھا۔ اس لیے ناول کے لیے یہ بہت اہم مقصد تھا کہ وہ انسان کو ان عناصر سے باہر نکالے۔ ناول نگار زندگی کے حقیقی عکس کو کامیابی سے واضح کرتا ہے تاکہ کہانی کو پڑھنے والے نہ صرف اس سے محظوظ ہوں بلکہ اپنی زندگی کی پوشیدہ حقیقتوں سے بھی آگاہی حاصل کریں۔ اسی طرح کی رائے وقار عظیم بھی دیتے نظر آتے ہیں کہ:
”زمانے نے ادیب اور فن کار سے کہانی کی ایک ایسی صنف کا تقاضا کیا تھا جو رومان کی رنگینیوں کے بجائے زندگی کی سادہ اور پر پیچ حقیقتوں کی حامل ہو ایک ایسی صنف جس میں فن کار کے تخیل اور تصور کی جدت پسندی نہیں بلکہ تفکر کی گہرائی شامل ہو، جس میں انسان زندگی کی تلخیوں سے گھبرا کر ایک ان دیکھی دنیا کی سیر کرنے کی جگہ اس کی کش مکش سے دو چار اور نبرد آزما ہو، جہاں اسے زندگی سے فرار کی نہیں، اس سے الجھنے اور اس کی الجھنوں کو سلجھانے کی تعلیم ملے ۔۔۔ جہاں فن کار محض مصور نہیں، مبصر نقاد اور معلم کے فرائض اور منصب پورے کرنے کی خدمت انجام دے جہاں جذبات اور احساسات پرفن کی منطق حاوی اور غالب نظر آئے۔ زمانے کی اسی طلب اور تقاضے نے ناول کی تخلیق کی اور آہستہ آہستہ اس نے داستان کی جگہ لے لی ۔ “ (٣)
میری تحقیق کا موضوع بھی ایک ناول ہی ہے۔ ناول زندگی کی حقیقت کا ترجمان ہے اس لیے میرے لیے ناول کا موضوع بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جب ہم کوئی کہانی پڑھتے ہیں تو دراصل وہ ایک کہانی نہیں ہوتی اس کے اندر ایک تہذیب ایک معاشرہ اور سب سے بڑھ کر پڑھنے والے کی لیے لکھنے والا ایسے معاملات اور افکار لے کر آتا ہے کہ جو اس کی عملی زندگی میں اس کے لیے کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ میرے موضوع کا تعلق بھی ایسی ہی ایک کہانی سے اور ایسے ہی کہانی کار سے جو کہ اپنے قاری کو غوروفکر پر مجبور کردیتا ہے ۔
”ہڑپا“اس عنوان میں ہی قاری کے لیے دلچسپی کا ساماں ہے ۔جنہیں تاریخ سے لگاؤ جنہیں پرانی تہذیب پرانے لوگ پرانے وقت کے متعلق واقعات اور حقائق کی جستجو رہتی انہیں یہ ناول اپنی طرف کھینچتا ہے ۔اس سے پہلے ہم ناول کے تنقیدی جائزے کے طرف آئیں پہلے اس کے مصنف کے بارے میں جان لینا زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ لکھت کو ہم لکھاری سے الگ کرکے نہ سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی اس کہانی کی روح تک پہنچ پاتے ہیں جہاں ہمیں مصنف لے کے جانا چاہتا ہے ۔
طاہرہ اقبال جدید اردو فکشن میں اپنا نام منوا چکی ہیں۔انہوں نے اردو ادب میں جدید فکشن میں اپنے نام کی مہر ثبت کی ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں کرداردں اور اپنی فکری اور فنی صلاحیتوں کو خوب ابھارا ہے ۔ہمیں طاہرہ اقبال سے پہلے یہ انداز بیاں اور فکر اردو ادب میں ملتا ضرور ہے مگر جتنی مضبوط گرفت ان کی ہے کسی اور کی نہیں ہوسکی ۔طاہرہ اقبال نے ایک نئے اور اچھوتے اندازمیں اپنے فن کو متعارف کرایا ہے۔ اسی لیے تو مستنصر حسین تارڑ ،اصغر ندیم سید،افتخارعارف،فتح محمد ملک ،گلزار جاوید،منشا یاد،انیس ناگی،احمد ندیم قاسمی ،رشید امجد،عطاالحق قاسمی،انور سدید،وزیر آغا اور الطاف فاطمہ یہ سب جو فکش کے بڑے نام ہیں، طاہرہ اقبال کے منفرد فکر،فن اور اسلوب کو سراہتے ہیں۔رشید امجد ان کے متعلق اپنے مضمون ”مٹی کی سانجھ“ میں لکھتے ہیں کہ: ”طاہرہ اقبال جدید اردو فکشن میں ایک مخصوص کلچر،زبان اور اسلوب حیات کی ترجمان بن کر سامنے آئی ہیں۔“ (۴)
طاہرہ اقبال کو بطور فکشن نگار تو بہت پذیرائی حاصل ہوئی لیکن ان کے سفر ناموں میں بھی انہیں اور ان کے فن کو داد دی گئی۔اسی ضمن میں مشہور سفر نامہ نگار عطا الحق قاسمی لکھتے ہیں کہ :
” سفر تو بہت سے لوگ کرتے ہیں مگر سفرنامہ تو کوئی تخلیق کار ہی لکھ سکتا ہے جو راستے کے منظروں کو ایک زاویہ نگار اور منفرد فریم سے دیکھتا ہے اور سفرنامے کو سفر سے بھی زیادہ دلچسپ،خوبصورت اور پراسرار بنا دیاتا ہے۔ میں نے طاہرہ اقبال کا تسلیم،بندگی اور نیاز میں گندھا ہوا مکہ ،مدینہ کو سفر نامہ بھی پڑھا ہے۔ اور دل کو کچوکے لگاتا ہوا دلخراش سفر نامہ بنگلہ دیش بھی پڑھا ہے ۔ان دو سفرناموں میں مجھے جس بات نے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی حقیقت نگاری ہے. وہ اپنے سفرناموں کو مقبول اور بیسٹ سیلر بنانے کے لیے مبالغے سے کام نہیں لیتیں بلکہ تصویر کا وہی رخ قاری کو دکھانے کی کوشش کرتی ہیں جو وہ خود دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ “ (۵)
طاہرہ اقبال نے افسانہ،ناول،سفر نامہ ،کالم،اور تحقیقی،تنقیدی حوالے سے جو بھی کام کیا اس میں انہیں شہرت ملی۔ان کی افسانوی مجموعےمیں” ریخت “ ،” سنگ بستہ “ ،”گنجی بار “ اور ”زمیں میں رنگ،“ بہت مقبول ہوئے۔ سفرنامہ ”نگیں گم گشتہ“ ۔ اس کے علاوہ ناول میں ”نیلی بار “ ،”گراں“ ،اور ”ہڑپا“ نے ان کی شہرت کو مزید چار چاند لگا دئیے۔
”ہڑپا“طاہرہ اقبال کی تمام تر کاوشوں اور ادبی کاموں میں اہم نظرآتا ہے ۔اس ناول کی تخلیق نے طاہرہ اقبال کے نام کو اردو فکش نگاری کی صف اول میں شمار کروادیا ہے ۔ناول تین حصوں پر محیط ہے جن کو ”آباد ہڑپا“ ، ”کھنڈر ہڑپا“ اور ” ہڑپا فطرت“ کا نام دیا گیا ہے جب کہ ہر حصے میں دس کے قریب باب ہیں جو کسی نہ کسی کردار کے نام ہیں۔اس ناول کو ناول نگار نے کرداروں کے نام کے حوالے سے ابواب میں تقسیم کیا ہے اور کیا ہی خوب کردار تراشے ہیں۔ہر کردار کو اسکے نفسیاتی ،معاشرتی ،معاشی تناظر میں بیان کیا ہے۔ ناول کا مطالعہ شروع کرتے ہی قاری خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ہڑپا تو یہاں کے باسیوں کے خمیر میں رچی بسی منہ زور حُسن، جوانی، طاقت، اقتدار اور دولت کے چکر پر مشتمل فطرت کا نام ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم ۔ انسانوں پر انسانوں کے اختیار کا چکر جو ایک خاص دورانیے کے لیے کچھ لوگوں کو ملتا ہے اور پھر جب وہ اپنے آپ جو مالکِ کل سمجھ لیتے ہیں تو یہ ان کو فنا کر کے ان سے اگلی نسلوں میں منتقل ہوجاتا ہے۔
”ہڑپا “کا فکری حوالے سے جائزہ لیں تو اس کہانی میں طاہرہ اقبال نے فکری لحاظ سے بہت سے نئے اور اچھوتے خیال سامنے رکھے ہیں ۔سب سے پہلے تو انہوں نے عورت کے موضوع پر بات کی ہے ۔طاہرہ اقبال کے فکشن کی بنیادی تھیم عورت ہی ہے ۔انہوں نے عورت کی زندگی کے جن مسائل پر اس ناول میں آواز اٹھائی ان میں اہم مسئلہ تو عورت کی بڑھتی عمرکے ساتھ اس کی جسمانی تبدیلیاں کیسے اسے دماغی طورپر اذیت میں مبتلا کرتی ہیں۔طاہرہ اقبال نے یہاں گہرے طنز سے بڑے گھرکی بڑی عمر کی عورتوں کے متعلق بات کی ہے کہ کیسے وہ اپنے گھر کی نوعمر لڑکیوں کو ان کے جسمانی مسائل سے آگاہ نہیں کرتی اور جب وہ بلوغت کے دورمیں آتی ہیں توان کو حقارت کی نظرسے دیکھا جاتا ہے اور ان پر طرح طرح کے الزام لگا دئیے جاتے ہیں ۔ناول کی چند مثالیں ملاحظہ کریں:
”لیکن اس قلعے نما گھرمیں بند شہزادی کو ان جسمانی تبدیلیوں کی،بلوغت کے اظہار کی اجازت نہ تھی ۔صنوبر کی بلوغت کسی عذاب کی طرح آئی اور عفریت کی طرح اس کے چڑ مڑوجود کے ساتھ چپک گئی۔“ (٦)
”گٹھ تے مٹھ بےحیا،قددیکھوعمردیکھوممے نکال لیے ہیں۔ارے ہم اتنی اونچی لمبی،قدکاٹھ والیاں تھیں لیکن پتا بھی نہ تھا۔سیدھا سینہ اور یہ گٹھ تے مٹھ۔گندی سوچ گندے خیالوں کا گندا نتیجہ ۔۔۔۔اسے یقین ہوگیا تھا کہ جسم میں آنے والی تبدیلیاں اس کے کسی گناہ کا بھیانک نتیجہ ہیں۔“(٧)
”وہ جتنا دھوتی زخم اتنا ہی کھلتا جاتا وہ رو رو کر گڑ گڑا کر خدا سے معافیاں مانگتی نہ شلوارپھرنہ بھرے پر وہ پھربھر جاتی۔۔۔ہائے ہائے نکی بی بی جی آپ کا تو سر پلید ہو گیا ۔“(٨)
یہاں طاہرہ اقبال نے بلوغت کے وقت عورت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان پر بات کی ہے ۔طاہرہ نے بہت کھلے لفظوں میں ان مسائل کے متعلق اپنا قلم چلایا ہے ۔روز مرہ زندگی میں عورتوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جن میں سے زیادہ کا تعلق نسوانییت کے تقاضوں،عبادات اور معاشرتی مسائل سے ہوتا ہے ۔عموما خواتین ان مسائل کو پوچھنے میں جھجھک محسوس کرتی ہیں جب کہ ان مسائل کا جاننا پاکیزہ زندگی گزارنے کے لیے بہت ضروری ہے۔معاشرے میں عورت کی اہمیت اور مقام مسلمہ ہے۔اگر آپ معاشرے کومہذب دیکھنا چاہتے ہیں تو عورت کو مہذب بنا نا ہوگا۔
طاہرہ اقبال نے اس ناول میں ایک زمیندار گھرانے کی اکلوتی بیٹی کو ان مسائل سے دوچار دکھایا ہے۔گھر کی بڑی عورت نے اسے پاگیزگی اور صفائی کی ترغیب نہیں دی بلکہ اس کے برعکس اسے ہر مہینے تاریخ آنے پہ برے سے برے الزام کا سامنا کرنا پڑتا ۔وہ اپنے وجود سے نفرت کرتی اور خود کو چھپا کے رکھتی کہ کہیں زمانے کو اس کے اس گناہ کی خبرنہ ہو جائے ۔ہمارے معاشرے کی یہ ستم ظریفی ہے کہ عورت کو آغاز حیض اور اس کے بعد کی جسمانی تبدیلیوں سے آگاہ نہیں کیا جاتا ۔اسے یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ سب قدرتی عمل ہے اور اس عمل سے ہر عورت کو گزرنا ہوتا ہے ۔
طاہرہ اقبال نے ایک اور انتہائی اہم نکتے پر بات کی ہے کہ گھریلو عورت اور طوائف کی زندگی میں کیا فرق ہے ۔ایک طوائف کو معاشرہ عزت دیتا ہے اور گھریلو عورت ذلت کی زندگی گزارتی ہے ۔اس کے علاوہ ہمارے معاشرے مرد اگر کوئی برائی کرتا ہے تو اسے مرد کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور عورت کو اس کی سزا دی جاتی ہے ۔طاہرہ اقبال نے اس اہم فکری پہلو کو بھی اپنی کہانی کا حصہ بنا یا ہے سمجھنے والوں کے لیے مصنفہ نے ناول میں بہت کچھ کہا ہے ۔یہاں ایک دو مثالوں کے ساتھ ان کے اس اہم نکتے کو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ :
”میں پہلے نوٹ رکھواتی ہوں پھر انگیا کو چھونے دیتی ہوں ۔تم جس مرد سے دن رات پٹتی ہو اس کے ساتھ مفت میں سوتی بھی ہو ۔ہر سال اس کا بچہ بھی جنتی ہو ۔تمھارے پاس نہ صاف کپڑے ہیں نہ نہانے دھونے کو تیل صابن نہ سک نہ سرمہ کرنے کی جرات ۔تجھ گندیوں بو ماریوں کو کوئی دیکھتا ہی نہیں خریدے گا کیا ۔“(٩)
”بیوی کا شوہرسے پٹنا اس معاشرت میں اتنا ہی ضروری ہوگیا ہے کہ جتنا ضروری مباشرت۔“(١٠)
”ایک مرد کے ساتھ رہنے کی چاہ میں نامو موچی کے ساتھ بھاگی ،گامو چدھڑ کے ساتھ بھاگی ،صابو کچی کے ساتھ بھاگی اور پتا نہیں کون کون ہر ایک نے پنچائیت کی ایک بڑھک کے بدلے مجھے ہار دیا وہ نہائے دھوئے گھوڑا سوار اور میں ہر بارمنہ کالا کرواکے گدھے پربٹھائی گئ ۔“(١١)
”لیکن منہ کالا کرکے گدھے پر صرف بالی کو ہی کیوں بٹھایا جاتا ہے وہ کہیں ادھل گیا یہ ادھلنے کی سزا صرف بالی کو ہی کیوں ۔وہ بھی تو اپنی بیوی کو چھوڑکر کسی کے ساتھ فرارہوا ہے ۔“(١٢)
ان مثالوں سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ عورت کا مرد سے پٹنا کسی دور میں بھی نہیں جاتا ۔مرد اپنی مردانگی ظاہرکرنے کے لیے ایک یہ واحد ہربہ استعمال کرتا ہے کہ وہ اپنی طاقت عورت پہ آزماتا ہے ۔عورت کو مارنا مرد کے لیے باعث افتخار ہے ۔مردکو لگتاہے کہ اگر اس نے عورت پر ہاتھ چلالیاہے تو عورت پر اس کا قبضہ ہوگیا ہے ۔عورت پر حاوی رہنا مرد کی فطرت ہے ۔ہمارے معاشرے کا یہ سنگین مسئلہ ہے اور خاص کر ہماری دیہی علاقوں میں یہ ظلم بیویوں کو عام طورپر سہنا پڑتا ہے اسی لیےطاہرہ اقبال نے اس موضوع کو اپنی کہانی کا حصہ بنایا ہے تاکہ باشعور لوگ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ عورت کو بہ حیثیت بیوی اس کے حقوق حاصل ہو سکیں۔
یہاں طاہرہ اقبال نے گھریلو عورت خاص کر بیوی جیسے اہم رشتے کو بہت حقیربنادیا ہے ۔طوائف کو اس پر فوقیت دی ہے اور بیوی جس کا ایک مقام ہے جو گھرکی مالک ہے جو شوہر کی تابع ہے اس کے بچوں کی ماں ہے اسے بالکل ہی فراموش کردیا ہے ۔اس قدر حقیرکہ اسے یہ کہ دیا کہ تم اپنے مرد کے ساتھ مفت میں سوتی ہو ۔بیوی پر گہرا طنز کیا ہے ۔اس کے ساتھ مرد جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کی بخشش ہوجاتی ہے صرف اس بنا پر کہ وہ مرد ہے اور اسے معاشرے میں برتری حاصل ہے عورت کم تر ہے تو ہر غلطی اور برائی کی سزاورٹھہری۔
آج اس جدید دور میں جہاں عورت مرد کے مقابل آ کھڑی ہوئی ہے۔ خواتین مردوں سے زیادہ محنت اور لگن اور دلجوئی سے کام کرتی ہیں اسی بنا پر ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔ آج بہت سے شعبوں میں عورت مرد کے ساتھ کام کر رہی ہے اور کہیں تو عورت اپنی قابلیت اور محنت کی بدولت اپنے ساتھ کے مردوں کو بھی مات دے جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی کچھ گھرانے اب بھی اپنی عورتوں کو گھروں سے باہر نہیں نکالتے۔ ان کی تعلیم و تربیت ان کے لیے ضروری نہیں بس ان کے بلوغت کو پہنچنے کی دیر ہے یا تو ان کی شادیاں کردی جاتی ہیں یا پھر زندگی بھر اپنے والد اور بھائی کی غلامی میں رہتی ہیں۔عورتوں کے تعلیمی مسائل کے ساتھ وارثت میں ان کا کوئی حق نہیں جیسے مسائل سے بھی دوچار ہیں۔ ایسے ہی موضوعات طاہرہ اقبال کے اس ناول میں بھی ملتے ہیں۔
”دس مربعے ملک افتخارکے آٹھ آپ کے چھوٹی بی بی جی کو تو وراثت میں حصہ ملنا نہیں۔“ (١٣)
”مستے کیا بکواس کررہا ہے ۔لڑکیوں کا کون سا حصہ ؟انہیں جہیز نہیں مل جاتا اتنی بڑی برات کوکھانا کھلایا جاتا زیور نہیں چڑھایا جاتا۔“ (١۴)
”ہائے قہر خدا کا اب مردوں میں پڑھے گی تاکہ کسی کے ساتھ نکل جائے ادھل جائے۔“ (١۵)
اس کہانی کے ذریعے طاہرہ اقبال نے پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں عورت کن مسائل سے گزر رہی ہے اس کی نشاندہی کی ہے۔ لکھنے والا اپنی قلم کو ساتھ لےکر جس حد تک ہو سکتا ہے معاشرتی برائیوں کے سدباب کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ طاہرہ اقبال کی تحریروں کا یہی تو خاصا ہے کہ وہ ایک جنگ جو کی طرح ظلم اور علظ رویوں کے خلاف ڈٹ جاتی ہیں۔
اس ناول میں ایک اور موضوع جو بالکل ہی ایک الگ نکتے کو پیش کرتاہے ۔طاہرہ اقبال نے شادی جیسے بندھن کو ایک ناقد کی نظر سے دیکھاہے۔ ان کے خیال میں عورت اور مرد جب کسی بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو انہیں کسی قسم کا لالچ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں ازدواجی رشتہ بنا ہی اس لیے ہے کہ اپنی اپنی خواہش کو مار دیا جائے اور ایک دوسرے کی خواہش اور سکون کے تابع ہوجانا چاہیے ۔اسی تابع داری کی نافرمانی کرتی طاہرہ اقبال اس کہانی میں نظرآتی ہیں ۔ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
”کیا ساتھ رہنے کو کسی مقصدکی برآوری ضروری ہے ۔کسی طمع کسی توقع کسی نتیجے کے بنا محض اپنی خواہش پرمل کررہا نہیں جا سکتا ۔میرا خیال ہے کہ رہا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔زیادہ اطمینان سے زیادہ قناعت سے۔بنا کسی فیوچر پلاننگ کسی نتیجہ کی آس میں اپنے لیےرہنا کسی نسل کی آبپاری کے لیے نہیں رہنانسلیں تو بہت بارآورہورہی ہیں۔اگرہم اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے تو شاید نیکی کریں گے اس بڑھتی ہوئی دنیا پر ۔ہم ساتھ رہیں گے ساتھ رہنے کو ۔دنیا بڑھانے کو نہیں ،کسی نسل کے لئے نہیں ایک دوسرے کسی اور وجود کے لیے نہیں اپنے اپنے وجود کے لیے۔“ (١٦)
ہڑپا ناول کے فکری پہلووُں میں عورت کی زندگی کو ہی موضوع بنایا گیا ہے ۔طاہرہ اقبال کی لکھت میں یہی خصوصیت تو اہم ہے کہ انہوں نے عورت سے متعلق ایسی باتیں کی ہیں جو ہمارے معاشرے میں عام طور پر اشاروں کنایوں کے ذریعےکی جاتی ہیں۔یہاں یونس جاوید کا ایک اقتباس طاہرہ اقبال کے اس انداز کومزید تقویت دیتا ہے کہ:
”جہالت اور جبرکے خلاف جہادہی معاشرے کے ٹھیکداروں کوآئینہ دکھانے کے مترادف ہے ۔عورت کی صعوبتیں نہیں ،نس نس میں پروئی اس کی بے بسی۔۔۔۔اور طاقت ور کوعدل کا روپ سمجھنا کیسی انوکھی تثلیت ہے جسے طاہرہ مصور کرتی ہے تو قاری کوزنجیراوراسیرکردینے کی صلاحیت ہے کہ لفظوں کی تاثیرکی گواہی یہی ثابت کرتی ہے۔“ (١٧)
ناول کا فنی لحاظ سےتجزیہ کیا جائے تو چند لوازمات کو دیکھنا بہت اہم ہے۔ کسی ناول کی کامیابی اور مصنف کی شہرت و ترقی انہی فنی لوازمات پر منحصر کرتی ہے۔ ناول میں جن چیزوں کو پرکھا جاتا ہے ان میں قصہ یا کہانی،نقطہ نظر،پلاٹ،کردار،مکالمہ،جزیات،منظر،قابل ذکرہیں۔انہی کی بنا پر ناول کا تجزیہ کیا جاتا اور یہ تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ ناول معیاری اور ادبی ہے یا نہیں۔اس ضمن میں سید صفی مرتضیٰ لکھتے ہیں کہ :
” ناول کی بنیاد بھی وہی انسان کا فطری طور پر قصہ پسندی کا رجحان ہے۔۔۔۔ناول کے بنیادی عناصر تین ہیں۔ خاکہ،کردار اور ماحول ان کے علاوہ مصنف کی زبان اور مکالمہ نگاری بھی اہمیت رکھتے ہیں۔۔۔۔خاکہ یا پلاٹ ناول کے ریڑھ کی ہڈی ہیں جس پر اس کے تمام جسم کا قیام و نظام منحصر ہے۔ “ (١٨)
”ہڑپا “ کی کہانی بہت جاندار ہے اس کہانی کا عنوان ہی اپنے اندر کشش رکھتا ہے۔ تاریخی پہلو سے دیکھیں تو اسی کہانی کو قاری خاصی دلچسپی سے پڑھے گا کیونکہ تاریخ کو ایک کہانی میں پڑھنا دلچسپی ہی ہے۔ تاریخ ایک روکھی پیکھی دستاویز ہے سمجھ لیں اسے کم لوگ ہی دل لگا کر کھوجتے اور سمجھتے ہوں گے۔ ”ہڑپا“کے تاریخی حوالے، دلچسپ قصے طاہرہ اقبال جو اپنے بچپن سے سنتی آرہی تھیں اس لیے قاری کو انہوں نے ”ہڑپا“ کے متعلق بہت عمدہ طریقے سے واضح کیا ہے ۔عام طور پر تاریخی ناول لکھنا آسان نہیں اس میں بہت سے نازک معاملات کو مدنظر رکھنا ہوتاہے۔”ہڑپا“ تو پھر اجڑنے کے بعد بار بار آباد ہو جانے کی کہانی ہے۔ اس میں طاہرہ اقبال نے ”ہڑپا“ کی فطرت اجاگر کی ہے جو ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی نہیں بدلی۔ ڈاکٹر احسن فاروقی ناول کے عناصر کے متعلق بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
” ناول کاسب سے اہم عنصر قصہ یا کہانی ہے۔ عام طور پر ناول کو محض قصہ ہی سمجھا جاتا ہے اور عام ناول میں قصہ کے سوا کچھ ہوتا بھی نہیں ۔مگر اعلیٰ سے اعلیٰ ناول بھی بغیر قصہ کے وجود میں نہیں آسکتا۔ خواہ اس میں قصہ بہت ہلکا کیوں نہ ہو۔ قصہ ہی ناول کوناول کہلانے کا مستحق بناتا ہے۔۔۔۔قصہ سے لطف اندوز ہونا ہماری فطرت میں داخل ہے۔انسان ہمیشہ سے قصہ میں دلچسپی لیتا آیا ہے اور ہمیشہ دلچسپی لیتا رہے گا۔ “ (١٩)
انسانی فطرت ہے کہ وہ قصے میں دلچسپی لیتا ہے اس لیے ناول میں کہانی یا قصے کا ہونا ایک بہت لازم ہے۔ قاری کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے مصنف اپنی کہانی کو مصبوط بناتا ہے کہانی میں مختلف موڑ لاتا ہے چونکا دینے والے جن سے تجسس بڑھتا ہے یہی حیرانی اور تجسس ہی قاری کو ناول میں جکڑے رکھتا ہے۔ طاہرہ اقبال بہت حد تک کامیاب ہوئی ہیں قاری کو اپنی پکڑ میں لیے رکھا اپنی کہانی کے مختلف رنگوں میں۔ اس کہانی میں چونکا دینے والے قصے میں اہم بات چنی کا چاند بیگم بن جانا اور ایک طوائف بالی کنجری کا اپنا پیشہ چھوڑ کر پھر سے ایک مرد کے بندھن میں بندھ جانا اور زمیندار کے تینوں بیٹوں کی موت کا قصہ اور پھر زمیندار کے فوت ہو جانے کے بعد اس کے جائیداد کے دو وارث اور نکل آنا۔اس کے ساتھ صنوبر کی زندگی کے مختلف رنگ سب ہی کہانی کو بہت دلچسپ بناتے ہیں۔ قاری کو ناول میں کہیں بھی نہیں لگتا کہ اس نے کوئی ایسا قصہ پڑھ لیا ہے جو لکھنے والے نے صرف طوالت کی غرض ڈالا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ”ہڑپا“ کی کہانی دل و دماغ پر اپنی گہری چھاپ چھوڑتی ہے۔
پلاٹ کا تعلق بھی عمومًا تو کہانی سے ہی جوڑا جاتا ہے ۔لیکن پلاٹ کہانی میں آنے واقعات اور کرداروں کی ترتیب اور ربط کو کہا جاتا ہے ۔”ہڑپا “میں بھی کہانی میں جو بھی کردار آئے ان کا آپس میں بہت خوبصورت طریقے سے جوڑا گیا ہے۔ اس کے علاوہ واقعات کی بے شک بھر مار ہی سہی لیکن وہ ناول کے قاری کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتے۔طاہرہ اقبال کے لکھنے میں یہ خاصیت ہے کہ وہ واقعات کو بڑے عمدہ طریقے سے ترتیب کے ساتھ منظم کرتی ہیں جیسے ایک موتیوں کی لڑی میں موتی پروئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد یٰسین پلاٹ کے متعلق لکھتے ہیں کہ :
”پلاٹ (Plote) ناول کا اہم ترین جز تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس فن میں مصنف واقعات کی ترتیب سے ہمارے سامنے زندگی کی ایک ایسی جھلک پیش کرتا ہے جس سے ہم نہ صرف لطف اندوز ہونے ہیں بلکہ انسانی زندگی کے متعلق نئے حقائق کے انکشاف سے بھی بہرہ ور ہوتے ہیں ۔“ (٢٠)
ہڑپا میں بہت سے واقعات پیش کیے گئے ہیں جتنے کردار ہیں ہر کردار کے ساتھ واقعہ جوڑا گیا ہے اور ناول کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ بعض جگہوں پہ واقعات اور کرداروں کی بھرمار طوالت اختیار کر جاتی ہے لیکن اسی طوالت کے ساتھ واقعات میں تسلسل بھی پایا جاتا ہے اور قاری کے لیے کچھ نیا خیال کوئی نئی فکر سامنے آتی ہے۔
کردار نگاری کی بات کریں تو طاہرہ اقبال نے اس ناول کے ہر چھوٹے بڑے کردار کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ انہوں نے جیسے کسی کردار کا آغاز کیا ویسے ہی اسے انجام تک بھی پہنچایا ہے ۔طاہرہ اقبال اپنے کرداروں کو لاوارث نہیں چھوڑتی ہیں ۔محمد یٰسین ناول میں کردار نگاری کی اہمیت پر بات یوں کرتے ہیں کہ :
”ناول کے بڑے کینوس پر ہر کردار کا اپنا الگ الگ منصب ہوتا ہے۔ ہیرو یا مرکزی کردار پلاٹ کو آگے بڑھاتے ہیں اور اپنا مخصوص رول ادا کرتے ہیں لیکن سطحی اور یک رخے کردار زیب داستان کے لیے شامل کیے جاتے ہیں۔ ناول کے سارے کردار گوشت پوست کے انسان معلوم ہوتے ہیں اور ہماری طرح ہی جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے افکار و اعمال اور ہمارے دلوں پر نقش چھوڑ جاتے ہیں۔“ (٢١)
اس ناول کے کردار بھی ایسے ہی ہیں جو دیر تک قاری کے دل پر اثر پذیر ہوتے ہیں۔اس کے مرکزی کرداروں میں صنوبر،بالی اور چنی ہیں لیکن جو ضمنی کردار ہیں وہ بھی مرکزی کرداروں کی طرح اپنی حیثیت کو منواتے ہیں۔کہانی میں کرداروں کی بھرمار ہے اور اتنے کردار اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ناول کو بےجان اور بے وقعت بنا دیتے ہیں ۔لیکن یہاں اس کے برعکس ہے ۔اس کہانی میں جان ڈالنے کے لیے ہر کردار چاہے مرکزی ہے یا ضمنی اپنا بھرپور حصہ ڈالتا ہے ۔صنوبر سے لے کر املی تک کا کردار اہم ترین ہیں اس ناول میں کرداروں کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے ۔طاہرہ اقبال نے چنی کے کردار کو ایک معمولی انسان سے شروع کیا تھا اور آخر میں بہت سے معاملات اور واقعات سے گزر کر وہ چنی سے چاند بیگم بن گئی اس کی ذلت نے اسے عزت بخش دی ۔
”عجیب سانحہ ہوا تھا کہ بدنامی نیک نامی بن گئی بے عزتی عزت ہوگئی۔برحرمتی حرمت بن گئی۔وہ فعل جس سے کوئی بھی عورت کنویں میں ڈوب مرتی ہے وہی فعل چنی کا افتخار بن گیا وہ چنی سے چاند بیگم بن گئی ۔“ (٢٢)
بالی کا کردار ایک طوائف کے طور پر سامنے آتا ہے ۔اس کردار کے معاملات بڑے نازک رہے اسے ایک مرد کے ساتھ رہنے کی چاہ میں کئی مردوں کے ساتھ بھاگنا پڑا آخرکار اس نے خود کو کنجری مشہور کر دیا اب اسے بھاگنے کی ضرورت نہیں تھی مرد خود اس کے پاس آتے تھے ۔لیکن آخر میں پھر وہی ہوا بالی نے ایک مرد کے ساتھ ہی رہنے کو غنیمت سمجھا کیونکہ معاشرے میں عورت کو جینے کے لیے مرد کے ساتھ اور نام کی ضرورت ہے اس کے بنا عورت ادھوری ہے ۔
صنوبر کا کردار آغاز میں ایک ڈری سہمی عورت کا رہا اور آخر میں وہ اتنی بہادر ہمت والی اور اپنے فیصلے آپ کرنے والی عورت بن جاتی ہے۔طاہرہ اقبال نے اس کر دار سے جڑے اپنے خیال اور فکر کو بار بار دہرایا ہے اور بار بار دہرانے کے چکر کا ایک نقصان یہ ہوا کہ اس کردار کا ذکر جب بھی ناول میں آتا تو صرف دو ہی باتیں ذہن میں گردش کرنے لگ جاتی ایک تو بلوغت تک پہنچنا اس کا گناہ ہے دوسرا گندی ٹاکیاں اور خون کے فوارے آنکھوں کے سامنے آجاتے ۔اگر طاہرہ اقبال اس کو بار بار نہ بھی دہراتی تو گزارہ ہو سکتا تھا۔لیکن اگر دوسرے رخ کو دیکھیں تو یہ واقعی ہی عورتوں کا ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر زور دینے کے لیے شاید بار بار اسے دہرایا گیا۔
”کیا یہ سب صنوبر کے نام چلا جائے گا۔وہ کھولے کی وٹوانی جسے کبھی پرانی ٹاکیوں پر دسترس نہ دی تھی۔وہ مربعوں جاگیروں کی مالک بن بیٹھے گی ۔“ (٢٣)
یوں تو اس کہانی کے ہر کردار کو طاہرہ اقبال نے بخوبی نبھایا ہے۔لیکن یہاں ایک زمیندار گھرانے میں ماں اور بیٹی کے ایک مقدس اور عظیم رشتے کو بڑے ہی عجیب انداز میں پیش کیا ہے جسے دل اور دماغ دونوں تسلیم نہیں کرپاتے۔لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ طاہرہ اقبال کا جاگیردار گھرانوں کے متعلق مشاہدہ بہت گہرا ہے واقعی ہی ان گھروں میں ماں بیٹی کا رشتہ ایساہو۔اس میں ماں اپنی بیٹی سے ایسے سلوک کرتی دکھائی گی ہے کہ اس کی بیٹی نہیں سوتن ہے۔ماں کا بیٹی کو طعنے کسنا اور خود کو بیٹی سے زیادہ حسین سمجھنا یہ سب ایسی باتیں ہیں جو ایک ماں اور بیٹی کے درمیاں نہیں ہو سکتیں۔
”یہ ہوتی کون ہے مجھے آرڈر دینے والی۔ہائے تعویز ہائے جادو۔مجھے مارنے کی سازش۔بلاؤ اس گدھی کو۔ساری عمر میری سکن بنی رہی ۔“ (٢۴)
اس ناول میں تقریبا چالیس کردار سامنے آۓ ہیں اور طاہرہ اقبال نے ان سب کرداروں کو ناول میں مناسب جگہ دی ایسا کوئی کردار نہیں جس کا ذکر بس نام کی حد تک تک ہو اس کا کہانی کو آگے بڑھانے میں کوئی عمل دخل نہ ہو۔ہر کردار کو طاہرہ اقبال باری باری سامنے لے کر آئی ہیں اور اسے کہانی کا بھرپور اور اعلانیہ حصہ بنایا ہے ۔ڈاکٹر شاہ محمد مری لکھتے ہیں کہ :
”ہڑپا ناول میں دوسرے تمام ناولوں ،افسانوں کی طرح رائٹر اپنے بے شمار کرداروں کو آگے چل کر لاوارث نہیں چھوڑتی ۔اس نے کوئی کریکٹر فراموش نہیں کیا ۔چھوٹے سے چھوٹے کرداروں کو بھی انجام تک پہنچا کے چھوڑا ہے ۔“ (٢۵)
طاہرہ اقبال کے ہاں مکالمہ نگاری کو دیکھا جائے تو ان کا مکالماتی انداز دیگر ناول نگاروں سے خاصا مختلف ہے۔ان کے زیادہ تر کردار جب بولتے ہیں تو ان کے دل و دماغ کی آواز ان کی آواز سے زیادہ بلند اور دبنگ محسوس ہوتی ہے۔ان کے مکالمے بے جان نہیں ہیں بعض تو ایسے ہیں کہ قاری کو ازبر یاد ہو جاتے ہیں جیسے کوئی مکالمہ نہیں ضرب المثل ہے جسے یاد رکھا جانا چاہیے۔اس کے ساتھ طاہرہ اقبال کے ہاں مکالمے کرداروں کے آپس میں کم ہوتے ہیں اور خود سے باتیں کرنا اور اپنے تمام سوالوں کے جواب خود کو خود ہی دیتے نظر آتے ہیں۔ایسا لگتا ہے اس میں خودکلامی کا انداز اپنایا گیا ہے۔طاہرہ اقبال کے کردار کم بولتے ہیں وہ خود زیادہ بولتی نطر آ تی ہیں۔ چند مثالیں دیکھیے:
”بدن میں تبدیل ہونے والی تبدیلیاں اسے شدید خوف ،شرمندی ،اور کرب کا شکارکرگئی تھیں۔اس کے بس میں ہوتا تو وہ اپنے وجود کی یہ بغاوت یہ فطرت کی دست درازیاں کہیں کاٹ پھانٹ کر کسی کالے کنویں میں پھینک دیتی یا ان سمیت کسی قبر میں خود کو دفن کر دیتی ۔۔۔۔ دفن ہو جانا زیادہ مناسب تھا یوں اس کے بدن تک کسی کی رسائی نہ ہو پاتی اور فطرت کی سیاہ کاریاں بھی چھپ جاتیں۔“ (٢٦)
”کسی کے بدن پر ایسی غلاظتیں نہ چمٹی تھیں۔جیسی اس پر مسلط ہوگئی تھیں۔اسے تو ان غلاظتوں سے نفرت کرنا سکھایا گیا تھا اور ہمیشہ نفرت ہی کرتی رہی۔“ (٢٧)
”وہ کنجری ہے نا اس لیے سب اس کی بڑی عزت کرتے ہیں۔وہ کسی سے نہیں ڈرتی الٹا اسی سے ڈرتے ہیں سارے۔تیرے جیسی سوہنی ہے تو اگر کنجری بن جائے نا تیری بھی بڑی عزت ہو۔“ (٢٨)
”یہ ہڑپا کو بیچتے ہیں اپنا من مرضی کا بنا کر بیچتے ہیں۔ہر ہڑپا اس ہاتھی کی طرح ہے جو مرنے کے بعد سوا لاکھ کا ہو جاتا ہے ۔“ (٢٩)
”کبھی ایسا بھی جگ میں ہوا کہ بے عزت ہو کر کوئی زیادہ با عزت ہوجائے۔بے حرمت ہو کر با حرمت ہو جائے۔بےعزتی چھپانے کی بجائے اشتہارلگاپھرے۔“ (٣٠)
”میں پہنچانتی ہوں ان افراد کو نہیں سلسلوں کو وہی سلسلے جو افراد کے جثوں پر خود کندہ کر دیتے ہیں۔ہرخاندانی قبیلے کے نین نقش ،آواز،ٹور،چال ڈھال قد بت کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ انسانی ،جسے آج تک کوئی آثار قدیمہ نگل نہیں سکا ۔افراد مٹ جاتے ہیں سلسلے نہیں۔“ (٣١)
ناول میں مکالمہ نگاری کے حوالے سے علی عباس حسینی بات کرتے ہیں کہ :
”یہ ناول نگار کے ہاتھ میں اظہار خیال کا بہترین آلہ ہے ۔اور اس سے باقاعدہ فائدہ اٹھانا بہت بڑا کام ہے ۔مصنف اپنے کرداروں کی زبان سے جو کچھ اس کا جی چاہے ،جو وہ ضروری سمجھے یا جو امور وہ اہم جانے ادا کرسکتا ہے ۔اس کا صحیح اور بر وقت استعمال بہت بڑی کامیابی ہے ۔“(٣٢)
ہڑپا کی کہانی میں اگر جزیات یا تفصیل نگاری کی بات کی جائے تو اس کی بھی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں طاہر اقبال ہر بات ہر معاملے ہر چیز کی تفصیل میں جا کے بات کرتی ہیں۔شاید یہی تفصیل ناول میں طوالت کا سبب بنتی ہے۔چار سو تیس صفحات کے ناول میں طاہرہ اقبال نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ جس معاملے پہ بات کرے اس کی تمام تر جزیات کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔طاہرہ اقبال نے زندگی کے روزمرہ معاملات کے علاوہ زندگی کے دیگر پہلوؤں کابھی بڑا عمیق تجزیہ کیا ہے ۔انہوں نے اپنی اس کہانی میں ملک میں چلنے والی مختلف این جی اوز کا بھی ذکرکیا ہے اوران کے کاموں کے متعلق بھی بڑی تفصیل سےواضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس کے علاوہ میڈیا کی بھی تفصیلات سے اگاہ کیا ہے کیسے میڈیا کسی خبر کی جنگاری کو آگ کی طرح بھڑکا دیتا ہے ۔اور اس کہانی میں عدالتی فیصلوں اور قانون کے متعلق بھی بڑی اہم باتیں بتائی ہیں ۔ایک مثال ملاحظہ کریں :
”قانون وہی تھا جو انہیں فائدے دےسکتا تھا۔آئین وہی جانا جاتا تھا جوانہیں تحفظ دیتا تھا اخلاق واقداروہی تھیں جنہیں وہ نافذ کرتے تھے۔“ (٣٣)
اس ناول کے مطالعے کے دوران معلوم پڑا کہ اس کہانی میں طاہرہ اقبال نے فلسفہ زندگی پر بھی بہت زیادہ بات کی ہے۔ان کا زندگی سے متعلق گہرا مطالعہ ہے وہ زندگی کے ہر معاملے کو ایک فلسفی کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اسی لیے ناول میں بہت سے مقامات پر فلسفہ حیات کو پیش کیا ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر یٰسین لکھتے ہیں کہ :
”ناول بنیادی طور پر ایک تخیلی فن ہے لہٰذا اس میں کسی مربوط فلسفی کی گنجائش نہیں۔ناول نگار اپنے کرداروں یا کہانی میں چند واقعات کے ذریعہ اپنے نقطہ نگاہ کی وضاحت کر سکتا ہے۔لیکن اسے مسبوط نظریہ حیات نہیں کہہ سکتے ۔ بیشتر ناولوں میں مصنفف اپنے کرداروں کے اعمال کو مختلف ،واقعات ،سانحات کے پس منظرمیں اس طرح اجاگر کرتا ہے کہ خود ان کی روشنی میں اپنے اعمال اور ان کے ممکن نتائج کاجائزہ لینے لگتے ہیں اور یہی فن کا کمال ہے ۔“(٣۴)
طاہرہ اقبال نے بھی اس کہانی میں زندگی کا فلسفہ بڑے اچھے انداز میں پیش کیا ہے چونکہ کہانی میں زیادہ باتیں مصنفہ کرتی ہے کردار کم بولتے ہیں اس لیے بہت سے مقامات میں ہمیں کہانی میں ایک دو کرداروں کے درمیاں ایک تیسرے کردار کی آواز سنائی دیتی ہے جو کہ کہانی کار خود ہے ویسے تو وہ منظر سے غائب ہے لیکن اس کے ہونے کا ثبوت ہمیں بہت سی جگہوں میں ملتا ہے چند مثالیں ملاحظہ کریں:
”جس کے پاس اختیار ہوتا ہے وہ ایسے ہی گھمنڈی اور خود پسند ہو جاتا ہے۔ اپنے ماحول اور افراد کو زیر تسلط رکھنے کے لیے،انہیں محتاج،محکوماور بے بس رکھنے کو سزائیں دینے،حکم صادر کرنے،خود کو اعلیٰ وارفع دوسروں کوکمتر،ذلیل کرنے کے لیے خود کو عقل کل دوسروں کو احمق ثابت کرنے کے لیے حکم صادر کرے کرتا ہے اور سزائیں دیتا ہے۔دو ہی ہتھیار ہیں اس کے پاس حکم اور سزا۔“ (٣۵)
”دنیا کی بہترین تہذیب میں پتا نہیں کیوں اتنی تفریق اور بھید بھاؤ رہا ہے۔طبقوں میں،انسانوں میں ،رہائشی علاقوں میں،مکانوں میں،تعلیم میں،زندگیوں میں ،صنف میں اتنا بھید بھاؤ ۔خدا نے جب دینا خلق کی تو اپنی ذات اور صفات سے تھوڑا تھوڑا حصہ دے کر امام،سردار،پیشوا،بادشاہ بنا دیے اور ہر مذہب ،ہرقوم رنگ و نسل ،ملک بستی میں یہی نظام رائج کر دیا اور پھر اس قدر تفریق اور امتیاز پیدا کرنے کے بعد حکم لگا دیا مساوات کرو۔“ (٣٦)
” یعنی جو پیدا کرتا ہے اسے مار ڈالنے کا بھی پورا حق حاصل ہو جاتا ہے۔“ (٣٧)
”یہ انسانی رشتے ذاتی اغراض اور نفسیاتی مسائل کا عجیب گورکھ دھندا ہے۔“ (٣٨)
طاہرہ اقبال چوں کہ خود بھی ایک جگیردار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے وہ یہاں کے ماحول اور رہن سہن سے بخوبی واقف ہیں انہوں نے اپنی کہانی میں زندگی کا جو فلسفہ ہمارے سامنے پیش کیا انہوں نے اس کا نہ صرف عمیق مشاہدہ کیا بلکہ ایسا لگتا کہ جیسے انہوں نے بھی شاید ایسی زندگی گزاری ہو۔ڈاکٹر اسلم آزاد اس ضمن کچھ یوں بات کرتے ہیں کہ:
”ناول نگار زندگی کو ذاتی تجربوں کے پس منظر میں پیش کرتا ہے۔اس کے مطالعے کی وسعت اور مشاہدے کی باریکی اس کے تخلیقی تجربوں میں وہ تہہ داری پیدا کرتی ہے جس سے انسان کی خارجی اور داخلی زندگی تمام نفسی کیفیتوں کے ساتھ سامنے آجاتی ہیں۔“(٣٩)
اردو ادب میں خاص طور پر فکشن میں ہر مصنف اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر پہچانا جاتا ہے بلکہ اس کا اسلوب ہی اس کی پہچان بن جاتا ہے۔اسلوب کے معنی انداز ،وضع،ڈھنگ،روش ،طورطرز،ترتیب،انتظام،سلیقہ،راہ،صورت،روشن تحریر،اور نگارش کے ہیں۔ڈاکٹر اعجاز علی ارشد اسلوب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
” اسلوب لکھنے والے کے ذہنی کیفیات اور جذبات کا عکاس ہوتا ہے۔یہ لکھنے والے کا کمال ہوتا ہے کہ وہ تمام کیفیات، جذبات و احساسات کو بڑی کاری گری سے مجسم کرتا ہے۔دراصل یہی کاری گری اس کی تخلیق کو تاثر سے بھرپور بناتی ہے۔اسلوب میں زور اس وقت پیدا ہوتا ہے جب متعلقہ کیف مشاہدے اور تجربے کی تیز آنچ میں پگھل کر سامنے آئیں اور موضوع کا جزو بن جائیں۔“ (۴٠)
اسلوب کا تعلق لکھنے والے خاص انداز تحریر سے ہے ۔یہی انداز اسے باقی لکھنے والوں میں منفرد کرتا ہے۔طاہرہ اقبال کا اسلوب بھی اپنے ہم عصر لکھنے والوں سے الگ طرز کا ہے۔ انہوں نے جیسے اپنے منفرد فکری پہلوؤں کو موضوع بنا کر اردو فکشن میں اپنا نام نمایاں کیا ہے اسی طرح اپنے طرز تحریر میں بھی ان جیسی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ طارق سعید اسی الگ انداز تحریر کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
”اسلوب بہت ہی نایاب چیز ہے اس کے سبب صاحب اسلوب اس سے بھی نایاب چیزہے۔اور ہزاروں میں ایک پیدا ہوتا ہے ۔اچھی تحریر، دلکش تحریر، خوبصورت تحریر، شستہ،شایشتہ اور رواں تحریر پر دسترس کا نتیجہ ہے جو محنت لگن اور مشتاقی سے حاصل ہوسکتی ہے لیکن اسلوب ان سے ماوراء شے دیگر ہے جس کا تعلق منفرد شخصیت اور بے مثال تخلیقی تخیل سے ہے ۔“(۴١)
طاہرہ اقبال کی بھی محنت اور لگن ان کے منفرد طرز اسلوب میں نطر آتی ہے۔انہوں نے سادہ زبان ضرور استمعال کی لیکن اپنی شخصیت کا رعب اور دبدبہ قائم رکھا۔انہوں نے اس ناول میں اسلوب کے مختلف طریقے اپنائے۔دیہات کی خالص زبان اپنائی ہے انہوں نے کسی طرح کی بناوٹ اور تصنع کا کوئی بھی جملہ استمعال نہیں کیا جو کردار کے لیے اہم تھا وہی زبان کو رائج رکھا۔پنجاب کے دیہاتوں میں سادہ زبان سادہ دل لوگ رہتے ہیں اس لیے انہوں نے اپنے اسلوب میں اس کا خا ص خیال رکھا ہے ۔ نمونہ پیش نظر ہے ۔
”ہٹ ہٹ پرے دور دفع ہمارے بچوں پر نحس سایہ نہ ڈال ۔ “(۴٢)
”چولا اوپرکراٹھا اوپر۔چورنی!کل سے ڈھونڈوں رہی دھونڈوں،کہاں جانوں چورناک تلے ہے۔ “ (۴٣)
”اس کے پاس اپنے کپڑے اور بستر بچانے کے لئےاور کوئی دوسراراستہ نہ تھااوراگروہ بھرجائے تو وللی۔کھوتی۔بے عقلی ۔بے حیا کے شرمناک طعنے۔“ (۴۴)
” چل نیچے بھتنی !ان ماؤں کو لے کر کھنڈروں سے باہر نکل جا۔ “ (۴۵)
”ونڑ چناں،نی چنو ،او چنی۔“(۴٦)
”نہ چھمی کمنیانی زیادہ دانا بینا ہے ۔ہائے ہائے ظلم خدا کا ،نہ پوچھا نہ بھالا ۔میرا بیس سال سے سنبھالا ہوا دسترخوان پل میں چیر پھاڑ کرکھلے خاں کردیا بلا اس کھوتی کو میں پوچھوں ذرا گدھی کو۔ “(۴٧)
ناول کے اسلوب کو علاقائی زبان ،لوک گیت ،کہاوت،یہ سب بہت متاثر کرتے کرتے ہیں۔اسی لیے طاہر اقبال نے بھی ایسا ہی اسلوب اپنایا جو ایک علاقے کا مخصوص کلچر ہے وہاں کی سادہ زبان ہے۔دیہات میں خواتین کی عام بول چال کی زبان کو طاہرہ اقبال نے بہت جوبصورت طریقے سے اس کہانی میں برتا ہے۔وہاں عورتیں چوں کہ ناخواندہ زیادہ ہوتی ہیں اس لیے ان کا انداز بیاں بھی سادہ ہوتا ہے اس لیے جہاں پنجابی عورتوں کا بول چال پیش کیا گیا اس میں ان کی ہر بات گالی گلوچ کے انداز میں ہوتی دکھائی گئی۔ طاہر اقبال نے خالص ٹھیٹھ پنجانی زبان استمعال کی ہے۔یہ اسلوب صرف طاہرہ اقبال کا ہی ہو سکتا ہے اس قدر اعتماد کے ساتھ وہی ایسے پنجابی عورت کی زبان بول سکتی ہیں ۔انہوں نے پورے ناول میں اپنے اسلوب کی ایک الگ چھاپ چھوڑی ہے۔ان کے اسلوب میں ان کی شخصیت ابھرتی نطر آتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے ناول کے ہر کرادر کو بہت خوبی سے آعاز اور انجام تک پہنچایا ہے ۔
طاہرہ اقبال کی منفرد شخصیت نے اردو ادب میں آج اپنا ایک مقام بنا لیا ہے۔ ناول ”ہڑپا“طاہرہ اقبال کی زندگی کا وہ کینوس ہے جس میں انہوں نے زندگی کے بہت سے رنگ بکھیر دیے ہیں۔ان رنگوں میں زندگی کی رنگینیوں کے ساتھ اس کے سنگین مسائل کو بھی بکھیرا ہے۔طاہرہ اقبال نے اپنے علاقے کی تہذیب اور فطرت کی بات نہیں کی بلکہ انہوں تمام انسانوں کے لیے اس کہانی میں سوچ اور غور و فکر کی ترغیب دی ہے۔پنجاب کے دیہی علاقوں کی زندگی کی مصوری جس طرح طاہرہ اقبال نے کی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔کہانی کے تنقیدی جائزے کے دوران بہت سے ایسے معاملات سامنے آۓ جن سے ہمارا معاشرہ یا تو بے خبر ہے یا پھر یہ لوگ ڈھیٹ ہو گئے ہیں انہیں پرواہ نہیں کہ ان کے ارد گرد کتنی ہی زندگیاں ایسی ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔طاہرہ اقبال نے اپنا یہ فرض نبھانے کے لیے قلم کا سہارا لیا اور ناول میں عورت کو ایک حقیقی انسان کے طور پر متعارف کروایا ہے۔عورت کو آزادی دینے کی بات کی ہے لیکن آزادی اس حد تک نہیں پہنچی کہ عورت ہی عورت کو انسان نہ سمجھے۔طاہرہ اقبال کی تمام کہانیوں میں جو مشترک چیز ہے وہ عورت کی زندگی سے جڑے مسائل ہیں۔ اس ناول کی کہانی پیچیدہ نہیں ہے اسے عام قاری بھی آسانی سے پڑھ سکتا ہے ۔بہت سے کردار ہیں لیکن مرکزی کردار چنی، صنوبر اور بالی کے گرد کہانی آخر تک چلتی ہے لیکن اس دوران جو کردار اور واقعات سامنے آتے ہیں وہ انہی تین کرداروں کو آپس میں جوڑے رکھتے ہیں۔کہانی آگے آگے چلتی کردار آتے ہیں اور چلے بھی جاتے ہیں۔کرداروں کی بھرمار اور بہت سی چھوٹی چھوٹی کہانیاں اس پورے ناول کو جکڑے ہوئے ہیں بعض مقامات ایسے آتے ہیں جہاں سے طوالت اور کثیر کردار قاری کی طبیعت کا بوجھل کرنے لگتے ہیں لیکن طاہرہ اقبال کے منفرد اسلوب کی یہ خوبی رہی ہے کہ وہ جلد ہی پڑھنے والے کو واپس کہانی میں شامل کرلیتی ہیں ۔انہوں نےجن تفکرات،لفظیات،معاملات،اور اسلوبیات کا چناؤ ہڑپا میں کیا ہے کیا یہ سماج انہیں آسانی سے ہڑپ کر پائے گا۔۔۔۔
حوالہ جات
- سہیل بخاری،” اردو ناول نگاری”، الحمرا پبلشرز، دہلی، ١٩٧٢، ص ٨
- احمد صغیر،ڈاکٹر،” اردو ناول کا تنقیدی جائزہ”، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، ٢٠١۵ء، ص ٩
- وقار عظیم،” داستان سے افسانے تک”، طاہر بک ایجنسی، دہلی، ١٩٧٢ء، ص ١٢
- رشید احمد، "مٹی کی سانجھ” ،مشمولہ: ماہ نامہ چہار سو، ضمیر جعفری،سید، فیض الاسلام پرٹنگ پریس ٹرنک بازار، راولپنڈی، پاکستان، جلد ٢۵، شمارہ مئی،جون ٢٠١٢ء، ص ٢٧
- عطاءالحق قاسمی، "طاہرہ اقبال کی سفرنامہ نگاری”، مشمولہ: ماہ نامہ چہار سو، ضمیر جعفری،سید، فیض الاسلام پرٹنگ پریس ٹرنک بازار، راولپنڈی، پاکستان، جلد ٢۵، شمارہ مئی،جون ٢٠١٢ء، ص ٢٧
- طاہرہ اقبال، "ہڑپا”،بک کارنر جہلم،پاکستان، فروری ٢٠٢٣ء، ص ٦٧
- ایضاً، ص ٦٨
- ایضاً، ص ٧٩
- ایضاً، ص ٦٠
- ایضاً، ص ١٢٩
- ایضاً، ص ١٠٩
- ایضاً، ص ١١٠
- ایضاً، ص ٢٣٨
- ایضاً، ص ٢٣٩
- ایضاً، ص ٢٨٩
- ایضاً، ص ۴١١
- یونس جاوید،گل و گلزار جھاڑ کی بات، مشمولہ: "ریخت”،طاہرہ اقبال، دوست پبلی کیشن، اسلام آباد، ٢٠١٠ء، ص ١٠
- صفی مرتضٰی،سید،”اصناف ادب کا ارتقا”، نسیم بک ڈپو، لکھنو،. ١٩٦٩ء، ص ۴٦
- محمد احسن فاروقی،نور الحسن ہاشمی، "ناول کیا ہے”،دانش محل، لکھنو،١٩۵١ء، ص ١٧
- محمد یٰسین، "ناول کا فن اور نظریہ”،خدا بخش لائبریری،پٹنہ،انڈیا،٢٠٠٢ء، ص ٩
- ایضاً، ص ١۴
- طاہرہ اقبال، "ہڑپا”، ص ٣٨٧
- ایضاً، ص٣۵٩
- ایضاً، ص٣٦٧
- شاہ محمد مری،ڈاکٹر،فیوڈل معاشرے سے حالتِ جنگ میں، مشمولہ: "ہڑپا”، طاہرہ اقبال، بک کارنر جہلم،پاکستان،فروری ٢٠٢٣ء، ص ٢٣
- طاہرہ اقبال، "ہڑپا”، ص ٦٧
- ایضاً، ص ٦٩
- ایضاً، ص ٨١
- ایضاً، ص ١٠۵
- ایضاً، ص ٣٨٩
- ایضاً، ص ۴٢۵
- علی عباس حسینی "اردو ناول کی تاریخ اور تنقید”، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،١٩٨٧ء،ص ٢۵
- طاہرہ اقبال، "ہڑپا”، ص ١٨٣
- محمد یٰسین، "ناول کا فن اور نظریہ”، ص ١٩
- طاہرہ اقبال، "ہڑپا”، ص ٧٨
- ایضاً، ص ١٠١
- ایضاً، ص ٢٠۴
- ایضاً، ص ٢٠٦
- اسلم آزاد،ڈاکٹر، ” اردو ناول آزادی کے بعد "، نکھار پبلیکیشنز مئوناتھ، بھنجن،یوپی، ١٩٨١ء، ص ٢٨
- اعجاز علی ارشد،ڈاکٹر،”اسلوب و معنی”، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،جامعہ نگر،نئی دہلی، ١٩٨٩ء، ص ٧٢
- طارق سعید ،”اسلوب اور اسلوبیات "،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی ،١٩٩٦ء،ص١٨٣
- طاہرہ اقبال، "ہڑپا”، ص ٣١
- ایضاً، ص ۴۴
- ایضاً، ص ٧٨
- ایضاً، ص ٩٣
- ایضاً، ص ١۵٠
- ایضاً، ص ٢٢٨
کتابیات
بنیادی مآخذ:
- طاہرہ اقبال، "ہڑپا”،بک کارنر جہلم،پاکستان، فروری ٢٠٢٣ء
- طاہرہ اقبال، ریخت، دوست پبلی کیشن، اسلام آباد ٢٠١٠ء
ثانوی مآخذ:
- احمد صغیر،ڈاکٹر،” اردو ناول کا تنقیدی جائزہ”، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، ٢٠١۵ء
- اسلم آزاد،ڈاکٹر، ” اردو ناول آزادی کے بعد "، نکھار پبلیکیشنز مئوناتھ، بھنجن،یوپی، ١٩٨١ء
- اعجاز علی ارشد،ڈاکٹر،”اسلوب و معنی”، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،جامعہ نگر،نئی دہلی، ١٩٨٩ء
- سہیل بخاری،” اردو ناول نگاری”، الحمرا پبلشرز، دہلی، ١٩٧٢
- صفی مرتضٰی،سید،”اصناف ادب کا ارتقا”، نسیم بک ڈپو، لکھنو،. ١٩٦٩ء
- طارق سعید ،”اسلوب اور اسلوبیات "،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی ،١٩٩٦ء
- علی عباس حسینی "اردو ناول کی تاریخ اور تنقید”، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،١٩٨٧ء
- محمد احسن فاروقی،نور الحسن ہاشمی، "ناول کیا ہے”،دانش محل، لکھنو،١٩۵١ء
- محمد یٰسین، "ناول کا فن اور نظریہ”،خدا بخش لائبریری،پٹنہ،انڈیا،٢٠٠٢ء
- وقار عظیم،” داستان سے افسانے تک”، طاہر بک ایجنسی، دہلی، ١٩٧٢ء
رسائل و جرائد:
- رشید احمد، "مٹی کی سانجھ” ،مشمولہ: ماہ نامہ چہار سو، ضمیر جعفری،سید، فیض الاسلام پرٹنگ پریس ٹرنک بازار، راولپنڈی، پاکستان، جلد ٢۵، شمارہ مئی،جون ٢٠١٢ء
- عطاءالحق قاسمی، "طاہرہ اقبال کی سفرنامہ نگاری”، مشمولہ: ماہ نامہ چہار سو، ضمیر جعفری،سید، فیض الاسلام پرٹنگ پریس ٹرنک بازار، راولپنڈی، پاکستان، جلد ٢۵، شمارہ مئی،جون ٢٠١٢ء
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page