محمد اکرام
9654882771
کوثر مظہری کی شناخت تخلیق کار کے طور پر بھی ہوتی ہے۔ ان کا اکلوتا ناول ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ (2000) میں اشاعت پذیر ہوا۔ عموماً سچے تخلیق کار بہت حساس اور جذباتی سمجھے جاتے ہیں۔ انسانی سماج اور معاشرے پر رونما کسی بھی ناگہانی آفات یا حادثات انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ تخلیق کار ایسے دلدوز اور سفاک مناظر کو آنکھوں کے ذریعے ذہن و دل میں اتار لیتے ہیں، پھر ایک دن وہ جذبات و احساسات قلم و قرطاس کے سہارے منظرعام پر آکر سماج کو بیدار کرنے کے ساتھ انقلاب برپا کرنے میں بہت معاون اور کارگر ثابت ہوگے ہیں۔ کوثر مظہری کا شمار بھی ایسے ہی تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے سیتا مڑھی اور آس پاس کے میں برپا فساداور ظلم و بربریت کے شکار عام انسانوں کے دکھ درد کو محسوس کیا۔ انھوں نے ان گاوؤں کا دورہ کرکے فساد کی وجوہات اور حقائق کوجاننے کی کوشش کی۔ اس تعلق سے کوثرمظہری لکھتے ہیں:
’’میں نے سیتامڑھی کے دو تین گاؤں کا دورہ بھی کیا۔ کچھ حقائق جمع کیے۔ جنوری 1993 تک اس کے پچاس صفحات لکھ لیے گئے۔ا س کے بعد نامساعد حالات نے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچنے نہیںدیا مگر ا س کا پلاٹ، اس کے کردار اور واقعات مستقل سات برسوں تک میرے دل و دماغ پر چھائے رہے۔ جب ذہن کو فراغت نصیب ہوئی تو پرانے پولی بیگ میں سینت کررکھے ہوئے کاغذات کو باہر نکالا اورجھاڑ پونچھ کر صاف کیا۔ مسودے کوپڑھا، سمجھا اور پھر سوچا۔ اس طرح پڑھ کر سمجھنے اور سمجھ کرپڑھنے کے بعد سوچ کو ایک سمت ملی۔ اب تمام واقعات، کردار اور تلازمات کو ذہن میں حاضر کرنے کی کوشش کی۔ جب میں نے محسوس کیا کہ اب قلم اٹھایا جاسکتا ہے تو لکھنا شروع کیا۔ جس طرح زندگی اچانک ختم ہوجاتی ہے اسی طرح ناول بھی ختم ہوسکتا ہے کہ یہ بھی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے بلکہ زندگی ہوتا ہے۔‘‘ (آنکھ جو سوچتی ہے، ص 8)
کوثر مظہری کے اس ناول ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ سے کچھ لوگ خوش ہوئے، اور ان کے اس قدم کی ستائش کی، لیکن کچھ بھی ایسے بھی تھے جنھوں نے کھل کر نکتہ چینی کی۔ دراصل کوثر صاحب اس وقت شاعر اور نقاد کے طو ر پر ادبی دنیا میں شناسا تھے۔ اچانک اس ناول نے نقادوں کو چونکانے کے ساتھ حیرت میں بھی ڈال دیا۔ اس تعلق سے کوثرمظہری لکھتے ہیں:
’’کچھ دوستوں نے میرے اس میلانِ طبع پر نکتہ چینی کی کہ آپ کا میدان شاعری اور تنقید ہے، اِدھر کہاں؟ میں نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ میںنے کوئی زبردستی والی تحریر پیش نہیں کی ہے۔ میں نے اپنی تحریر کو آنکنے کے لیے ایک غیررسمی ریڈنگ سیشن رکھا۔ دوستوں کا تاثر حوصلہ افزا رہا۔‘‘ (ایضاً، ص 8-9)
منفی تنقید اور نکتہ چینی سے کبھی کبھار تقویت ملتی ہے۔ ان نکتہ چینیوں سے کوثر صاحب وقتی طور پرپریشان تو ضرور ہوئے ہوں گے، مگر انھیں ان سے سبق اور دوستوں کے حوصلہ افزا کلمات سے بہت فائدہ ہوا۔ گوکہ کوثر مظہری کے ناول’آنکھ جو سوچتی ہے‘ کا موضوع نیا نہیں ہے، ہندو۔ مسلم فسادات پر درجنوں ناول منظر پر آچکے ہیں، پھر بھی ناول نگار کے بیانیے نے اس ناول کو پرکشش بنا دیا ہے۔
یہ ناول بابری مسجد کے انہدام اور اس کے نتیجے میں ممبئی، سیتامڑھی اور ہندوستان کے کئی دوسرے شہروں میں برپا فساد کے کئی برسوں بعد لکھا گیا، مگر زیادہ ترتنقید نگاروں نے اسے بابری مسجد انہدام کے سانحے سے جوڑ دیا ہے۔ شاید یہ درست بھی ہے، دو مختلف المذاہب کے مابین فساد کہیں بھی ہو، اس کے اثرات دو چار نہیں کئی دہائیوں تک رہتے ہیں۔ کوثر مظہری انسانی معاشرے اور سماج سے جڑے ہوئے ایسے حساس تخلیق کار ہیں جنھیں ظلم و بربریت قطعاً برداشت نہیں ہے، ظلم کے شکار کسی بھی نسل، مذہب کے ہوں ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا کوثرمظہری کاایمان ہے مگرجب ظلم اور بربریت اپنے ہم مذہب پر ہو تو پھر یہ کہاں گوارہ ہے۔ ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ میں ان کے اندر کے درد و کرب، غم و غصے،بے چینی، لاچاری اور بے بسی کا بھرپور اظہار ہوا ہے۔ایک حساس تخلیق کار جو ناراض ہے، سسٹم سے، ناراض ہے سیاسی رہنماؤں سے، ناراض ہے اپنے منافق بھائیوں سے، ناراض ہے خاموش تماشائی بنے لوگوں سے اور ناراض ہے ان لوگوں سے جو طاقت اور منصب کے باوجود گوشہ نشین ہوجاتے ہیں، شاید یہ سوچ کر کہ ان کی لپٹیں ان کے گھر نہیں پہنچیں گی۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ آگ کے شعلے کسی کے مابین تفریق نہیں کرتے۔ اس کی زد میں جو آتے ہیں وہ خاک میں مل جاتے ہیں۔ راحت اندوری نے صحیح ہی کہا ہے:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
’آنکھ جو سوچتی ہے‘ گرچہ ریاست بہار کے ضلع سیتامڑھی میں بابری مسجد کے سانحہ کے بعد بھڑکے فساد پر مبنی ہے، مگر اس فساد کا دائرہ دھیرے دھیرے کئی اور علاقوں گاؤں پنچھورا، بکھری، ایجورہیا، گنیش پوروغیرہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس ناول کا اصل کردار ’رضوان‘ ہے ۔ یہ ایک غریب گھرانے کا طالب علم ہے جو نہایت حساس طبیعت کا مالک ہے۔ اگر وہ اپنی قوم کے لیے پریشان ہے تو دوسری طرف اپنے ہندودوست راجیش کے لیے بھی بے چین ہے ۔وہ حالات سے نپٹنے اور سازگار ماحول کی کوشش ضرور کرتا ہے مگر یہ کسی اکیلے کے بس کا نہیں۔ اپنی کوششوں سے وہ اس میں مزید کچھ لوگوں کو شامل کرتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ زیبا جو ایک امیر باپ کی آزاد خیال لڑکی ہے، وہ جرنلسٹ بھی ہے، فساد کے بارے میں اس سے ذکر کرتا ہے ۔ زیبا کے ری ایکشن سے رضوان جذباتی ہوجاتا ہے۔ اس کے جذباتی ہونے پر زیبا کہتی ہے:
’’’ریلیکس مسٹر رضوان ‘ ریلیکس ، یہ کون سی نئی نیوزہے ۔لوگ تودنیامیں مرتے ہی رہتے ہیں اوریہ Communal Riotsکاہوناتواس دیش میںعام سی بات ہے گویا روزمرہ میںشامل ہے اورجیساکہ ہم کومعلوم ہے کہ روزمرہ کے واقعات نیوز نہیں کہلاتے ۔‘‘ (آنکھ جو سوچتی ہے، ص 37)
لاچاری اور بے بسی میں وہ اپنے دوست نسیم کے کمپیوٹر کوچنگ سینٹر جاتا ہے لیکن اس کا بھی یہی جواب:
’’ایسا تو لائف میں ہوتا ہی رہتا ہے، ان باتوں میں اپنا وقت ضائع کیوں کرتے ہیں؟ میں تو کہتا ہوں کہ آپ بھی کمپیوٹر سیکھ لیجیے، پھر دیکھیے کہ لائف کتنی Busy ہوجاتی ہے۔‘‘ (ص 39)
دھیرے دھیرے رضوان کے ساتھ ظفر کے علاوہ زیبا کلیم اور خالد اورنسیم بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ اس موقعے پر چودھری کلیم الدین اورپروفیسر صابر بھی موقعے موقعے پر رضوان کی مدد کرتے ہیں۔ ایک موقعے پر فساد زدگان کی مدد کرتے ہوئے پولیس کو رضوان گرفتار بھی کرلیتی ہے، مگر چودھری کلیم الدین کی کوششوں سے رہائی ہوجاتی ہے۔ مولوی صاحب، ویدناتھ جی، چودھری کلیم الدین،سہیل اور جھا جی بھی امن کے خواہاں ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس موقعے پر کچھ لوگ ایسے بھی جو چاہتے ہی نہیں ہیں کہ امن قائم ہو۔ ایسے لوگوں کے بارے میں رضوان کے یہ جملے ملاحظہ ہوں:
’’جب تک اس ملک میں سید سلام الدین، بی ایل مٹکانی، گھوش منگل، پریما بھارتی، سیف اللہ اعظمی، امام سعداللہ ہزاری جیسے لوگ رہیں گے ،ہمیشہ یہاں اتھل پتھل ہوتی رہے گی۔ حالانکہ یہ سب مذہب کی آڑ میں سیاسی سطح پر کرسیاں ہتھیانے کی دھن میں رہتے ہیں۔مذہب اسلام یا ہندو مذہب سے انہیں دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ایسے ہی لوگوں کو گندم نما جو فروش کہتے ہیںیا پھر شیر کی کھال میں بھیڑیا‘‘
اس ناول میں کچھ کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ تو فساد بھڑکاتے ہیں اور نہ فساد کراتے ہیں، بلکہ وہ موقعے کی تلاش میں ہوتے ہیں، کہ ان سے وہ کیسے فائدہ حاصل کریں۔ میرے خیال میں ایسے لوگ سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ سیتامڑھی کے کچھ مسلمان پناہ کی غرض سے مسلمانو ںکے گاؤں آجاتے ہیں۔ یہ بیچارے اَن پڑھ ہیں، کسی طرح محنت مزدوری کرکے گزر بسر کرتے ہیں۔ انہی میں ایک شخص درگاہی بھی ہے جو اپنی گونگی بیٹی کے ساتھ اس گاؤں میں پناہ لیتا ہے۔ کچھ اوباش قسم کے نوجوان موقعے کی تاک میں رہتے ہیں۔ آخر میں درگاہی کی گونگی بیٹی ان اوباشوں کے ظلم کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس موقعے پر لاچار اور بے بس باپ کے یہ جملے سننے کے لائق ہیں:
’’کاکہیں جفر بابو!… رات ہمرے گھرمیں دوتین آدمی گھس کر بتہی (گونگی بیٹی ) کے ساتھ گلط کام کیاہے… ہم تَ باجا پارٹی میںدس بیس روپیہ کمانے چلے گئے تھے۔آج سبیرے آئے ہیں… سن کے تن بدن میں آگ لگ گیاہے… آپ ہی لوگ کہئے مسلمان گاؤں میں آکر ہم کوکاپھل ملا؟ ‘‘ (ایضاً، ص 110)
یہاں رضوان کے دوست راجیش کا ذکر یوں بھی ضروری ہے کہ بظاہر مسلمانوں کا ہمدرد ہوتے ہوئے وہ اندر سے فسادیوں سے مل جاتا ہے، لیکن رضوان ہے کہ وہ اپنے دوست کے لیے ان حالات میں بھی فکرمند ہے۔ پتہ نہیں فساد میں وہ محفوظ بھی ہے یا نہیں۔ وہ جان جوکھم میں ڈال کر فساد زدہ ماحول میں وہ اپنے دوست راجیش کی خیریت لینے بتیا پہنچ جاتا ہے اور وہاں کے حالات کو نارمل کرنے کے لیے دونوں فرقوں کے دانشوروں سے مل کر ایک میٹنگ بھی منعقد کرتا ہے۔ امن اور شانتی کے لیے میدان میں سبھی اکٹھا ہوتے ہیں، مگر کچھ لوگ امن اور شانتی کے خلاف ہیں۔ جلسے کے دوران کچھ لوگ بم پھینک دیتے ہیں۔ اس میں بہت سارے لوگ زخمی ہوتے ہیں۔ اس حادثے میں رضوان اور راجیش کے باپ بھی زخمی ہوتے ہیں۔بالآخر رضوان اسپتال میں دم توڑ دیتا ہے اور بلا کسی نتیجے کے یہ جلسہ ختم ہوجاتا ہے۔
ناول میں رضوان کا کردار بہت متاثر کرتا ہے۔ یہ کردار زندہ جاوید ہے۔ بعض تنقید نگاروں نے لکھا ہے کہ اس ناول میں تخلیق کار نے ہی خود کو رضوان کے کردار میں پیش کیا ہے۔یہ ناول زبان و بیان اورپیش کش کے اعتبار سے متاثر کن ہے۔ کردار کے حساب سے زبان کا بہت عمدہ استعمال ہوا ہے۔
اس ناول کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے جو 2020 میں عرشیہ پبلی کیشنز سے شائع ہوا ہے۔ بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر دوسرے ایڈیشن کی ضرورت کیا تھی۔ وہ دوسرا ناول بھی لکھ سکتے ہیں۔ اس بابت کوثر مظہری صاحب لکھتے ہیں:
’’اس ناول کی دوبارہ اشاعت کا جواز یہ ہے کہ اس کا موضوع آج کی حسیت سے بالکلیہ ہم آہنگ ہے۔ وہی تناظر، وہی طرزِ زندگی، وہی قتل و غارت گری، وہی سیاسی و سماجی اتھل پتھل(بلکہ کچھ زیادہ ہی)، وہی فسادات، وہی نفرتوں کا کاروبار، سیاست کے وہی کریہہ چہرے— اور ان سب کے درمیان ایک بے حد حساس کردار ’رضوان‘ جو چاہتا ہے کہ انسانیت کا خون نہ ہو۔ وہ قومی یکجہتی کے نغمے لکھتا ہے۔ وہ ہندو مسلم کے درمیان کی ’نفرتوں‘ کو ختم کرکے ’محبت‘ بھر دینا چاہتا ہے۔ چمن ہند کے پھولوں سے سایۂ بوم کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دینا چاہتا ہے۔ کوئی بھی ادیب سماج کے بدقماش لوگوں کو آئینہ ہی دکھا سکتا ہے۔‘‘ (ص 7,8(
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہندوستان کے موجودہ سیاسی پس منظر کی یہ ناول سچی تصویر پیش کرتا ہے۔ ظالم اور مظلوم تا قیامت رہیں گے۔ بس فرق یہ ہوگا کہ فساد کے مقامات اورظالم و مظلوم کے چہرے بدلتے رہیں گے۔
ll
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page