نفیس اکبر بھٹو
( اُردو اسکالر، نمل یونیورسٹی اسلام آباد )
"چراغ ساز ” ایک ایسا ناول جس کے عنوان نے مجھے پڑھنے پر مجبور کیا ۔مجھے لگا کہ جیسا ناول کا نام ہے ویسی ہی کوئی کہانی ہوگی۔ ایک منفرد اور نیا نام سامنے آیا کیونکہ اس سے پہلے ناول کی صنف میں ایسے نام کو نہیں دیکھا تھا۔ بس پھر لگ گئے ناول کو پڑھنے۔ آغاز میں تو ناول کی کہانی میں چراغ ساز کے چراغ ہی چراغ سامنے آئے اور اس قدر چراغ چراغ کی تکرار ہوئی کہ مجھے گھر میں جلتا ہوا لیمپ بھی چراغ ہی لگنے لگا۔شروع کے پندرہ بیس صفحات پڑھنے کے بعد چراغوں کی لو ذرا کم ہونے لگی اور کہانی کسی اور رخ کی طرف مڑنے لگی۔ آغاز تو چراغوں اور چراغی سے ہی ہوا لیکن طویل انتظار کے بعد کہانی کا بیانیہ انداز سامنے آیا۔ اس کہانی کو بیانیہ انداز میں مصنف نے خاصا دلچسپ بنایا ہے۔لیکن کہانی کا بنیادی موضوع قدیم اور جدید تصورات کا ٹکراؤ ہے۔ مصنف نے بہت عمدہ انداز میں جدید اور قدیم خیالات اور روایات کی بحث و تکرار کو پیش کیا ہے۔ لیکن یہاں ایک بات طبیعت پہ گراں گزری کہ یہ بحث و تکرار بعض دفعہ ایک تقریر یا کسی مضمون کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور پڑھنے والا یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کوئی ناول پڑھ رہا ہے اور یہ بحث و تکرار اسی ناول کا حصہ ہے اس تکرار کی طوالت کا اندازہ لگائیں کہ صفحہ ستر سے شروع ہوتی صفحہ سو پہ جا ختم ہوتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصنف نے اسے بیانیہ انداز میں پیش کیا ہے تو اس میں ایسی باتوں کی گنجائش رہتی ہے۔ اسی طرح سے ایک اور پہلو بھی سامنے آیا کہ جہاں چراغ کے جلنے کا ذکر ہوا اس کی منظرنگاری کو مصنف نے بڑی تفصیل اور جزیات سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور کہیں کہیں تو یہ منظرنگاری پورے ایک ایک صفحے پر جا پہنچی۔ چراغ کے ارد گرد اڑنے والے اور مرنے والے پتنگوں کامنظر قاری کی ذہن میں تو بیٹھ ہی جاتا ہے لیکن اس کی آنکھیں بھی اس منظر کو اپنے اندر مقید کر لیتی ہیں۔
زبان کے استعمال کو سامنے رکھیں تو کہانی چونکہ ایک دیہاتی علاقے کے متعلق ہے تو مصنف نے زبان بھی خالصتاً دیہی علاقوں والی بیان کی ہے۔ جملوں کی ادائی میں گاؤں کی جھلک نظر آتی ہے۔ جہاں تک لفظوں کی بات ہے تو لفظ اس میں زیادہ تر پنجابی کے ہی لیے گئے ہیں۔ اس قدر ٹھیٹھ پنجابی یہاں نظر آئی کہ ایسا لگتا جیسے مصنف کا یا تو تعلق ہی ایسے علاقے سے ہے یا پھر مصنف کی زبان کے حوالے سے تحقیق بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے تو ہر صفحے کے آخر میں پنجابی سمجھانے کے لیے ان لفظوں کے معانی دیے گئے ہیں۔ ناول کے آغاز میں پہلے صفحے پر ہی پنجابی کے تین الفاظ آئے اور ساتھ ان کے حاشیہ میں معنی بھی درج کردیے گئے ۔”پبر اور ٹھیکرے”، "چپا بیل”، "کھرلی” لیکن یہ کوئی ایسے الفاظ نہیں کہہ جن کو باآسانی سمجھا نہ جا سکے البتہ جنہیں پنجابی زباں بالکل ہی سمجھ نہ آتی ہو ان کے لیے یہ الفاظ پڑھنا اور سمجھنا ایک مشکل عمل ہوگا اسی لیے مصنف نے ایسے قاریوں کی آسانی کے لیے حاشیے کا اہتمام کیا۔ پنچابی زبان کے استعمال کی چند مثالیں ملاحظہ کریں:
"نٹھ کے پتھلا مار کے بیٹھ گیا”
"یہیں گوت کنالے ہوئے”
"مدھرے قد کا خوبصورت شخص”
"بھٹی کو تایا”
"ڈیگر کا وقت”
"اجڑ کی طرح”
"ساہن بنے پھرتے ہو”
"کتاب خود بخود ٹھپی گئی”
"تھاپڑا دیتے ہوئے کہنا”
"کس بھمبل بھوسے میں پڑ گئے ہو”
"یہ ہریار تھوڑی ہے”
"جیہڑا جتیا اوہ ہریا، جہیڑا ہریا اوہ مریا”
جہناں دے کار دانے اوہناں دے کملے وی سیانے”
یہ پنجابی کے عام اور سادہ الفاظ ہیں ان میں کسی قسم کے د قیع الفاظ شامل نہیں ہیں پھر بھی مصنف نے قاری کی آسانی کے لیے معانی بھی ساتھ دیے ہیں ۔
اب زبان کی بات چل نکلی ہے تو اس کہانی میں لکھاری نے ایسے ایسے جملے بھی لکھے ہیں جو زندگی سے بھرپور ہیں اور ان جملوں کو جب قاری پڑھتا ہے تو پیر ایک بار رکتا ہے جملے کو دوبارہ پڑھتا اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر آگے بڑھتا ہے کیونکہ بعض دفعہ ہمیں ایک جملے میں ہی پوری کہانی مل جاتی ہے۔۔ ایسے جملے وہی لکھ سکتا ہے جسے نہ صرف زبان پر عبور حاصل ہو بلکہ وہ زندگی میں بہت سے تجربات سے گزرا ہو۔ ایسے جملوں کی چند مثالیں ملاحظہ کریں:
"وہ اسی بات میں کھو گیا کہ غم زندگی کی حقیقت ہے یا دھوکا۔ اگر حقیقت ہے تو ایک ہی بار سامنا کیوں نہیں کرتا اور اگر دھوکا ہے تو ہم اس سے بچ کیوں نہیں سکتے ۔”
"سچائی ہمیشہ بے نقاب ہوتی ہے بس اس کا سامنا کرنے کی ہمت ہونی چاہیے۔ جو سامنا نہیں کر پاتے وہ سمجھتے ہیں شاید سچائی کسی پردے میں ڈھل چکی ہے مگر ایسا ہوتا نہیں۔”
"حادثے انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے، یہ ماضی اور حال کو ایک ساتھ جوڑ کر مستقبل کو اپنے اندر کھینچ لاتے ہیں یوں ہر زمانے کا کرب ایک زمانے کا کرب بن جاتا ہے۔”
” اسے بار بار احساس ہو رہا تھا کہ زندگی اور چراغ دونوں میں کسی بھی طور تیل ختم ہو جائے تو اندھیرے روشنیوں پہ غالب آجائیں گے۔ اپنے اپنے حصے کا تیل بچا کر رکھنا چاہیے۔”
” غم زندگی میں ٹھہراؤ اور شعور پیدا کرتا ہے۔ ”
یہاں ان جملوں میں ہمیں فلسفہ حیات نظر آتا ہے۔ مصنف نے زندگی کے ایسے پہلو سامنے رکھے جو واقعتاً پوری انسانی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ زندگی کے متعلق اس قدر حقیقت نگاری اسی کی قلم بیان کر سکتی ہے جو زندگی کے راز کو پا چکا ہو جسے تخلیق کے اصل مقصد کی آگاہی حاصل ہو چکی ہو۔ یہ وطیرہ لکھنے والوں میں اکثر ہی پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی کہانی میں زندگی کے فلسفے کو لازمی لے آتے ہیں۔ اسی دور میں دو ناول جو میری نظر سے گزرے ہڑپا اور ہری یوپیا ان میں بھی لکھنے والوں نے زندگی کے فلسفے کو اس کی حقیقت کو ایک ایک جملے میں سمو کر رکھ دیا ہے۔ یہی کام "چراغ ساز” میں بھی اپنے عروج پر نظر آیا ہے۔
اب ناول میں جہاں ایسے ایسے جملے اور بھرپور لفظی کاریگری کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہیں ساتھ ہی کچھ ایسے الفاظ بھی سامنے آئے جو مصنف کی قلم کو راہ فرار کی طرف لے جاتے ہیں۔ کہانی میں جہاں ہیرو کی بیوی کا ذکر آتا ہے وہاں ایسے لفظوں کا استعمال کیا گیا ہے کہ جن کو مصنف کا ذہنی اضطراب کہہ لیں یا قلم کی لذت سمجھ لیں، کو اجاگر کیا گیا ہے۔ایسے جملے پڑھ کر قاری کو بھی لذت محسوس ہونے لگتی ہے۔ حالانکہ مصنف کے پاس لفظوں کی کمی نہیں ہو گی پھر بھی یہ وہ لفظ ہیں جو سفید چادر پہ لگے صرف سادہ پانی کے نشان کو بھی واضح کر دیتے ہیں ۔ان میں سے ایک آدھ جملے کو دیکھیں ذرا:
"سینے کے ابھار اپنے جوبن پر جنھیں دیکھ کر اس کا دل پھر للچایا مگر ساتھ ہی اس کی نظر ننگے پیٹ پہ پڑی جس سے کپڑا پلٹ کر چھاتی کے ابھاروں سے لگ گیا تھا۔ اس نے نظریں ننگے پیٹ پہ گاڑھ دیں اور اسے ہوش ہی نہ رہا کہ قدرے نیچے ڈھلکی شلوار میں کیا کچھ ہے جہاں کچھ گھنٹے پہلے اس نے پر زور ہل چلا کر بیج بکھیرے تھے ۔”
یہاں اگر بیوی کا ذکر آیا ہے اس سے محبت کا ذکر اور بھی اچھے انداز میں کیا جا سکتا تھا اور اچھے لفظوں کا چناؤ بھی ہو سکتا تھا آگے چل کے مزید جب ایسے بیوی کے ساتھ محبت کا ذکر آتا ہے تو بالکل اسی انداز اور انہی لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ اب یہاں مصنف نے ایسا کیوں کیا یا ان کے قلم کی روانی میں لفظ بہہ گئے یا جان بوجھ کر کہانی میں ایسے جملے لکھے گئے جو واقعتاً باقی پورے ناول کو ایک طرف کر دیتے ہیں کیونکہ جس قدر خوبصورتی سے جملوں اور لفظوں کے چناؤ میں جتنی پختگی باقی کے ناول میں نظر آئی ہے وہ یہاں ان دو پیراگراف میں مانند پڑ گئی ہے ۔
لفظی کاریگری کے علاوہ دیکھیں تو بعض جگہوں پہ بے جا طوالت بھی اختیار کی گئی ہے۔ منظرنگاری بے شک بہت عمدہ کی گئی لیکن یہاں بھی طوالت کو ہی ملحوظ خاطر رکھا۔ منظرنگاری زیادہ تر چراغوں کے جلنے بجھنے اور اس کے اردگرد منڈلانے والے پتنگوں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیہات کے مناظر کے ساتھ ساتھ یہاں کی روایات رسم و رواج یہاں کا ماحول لوگوں کے عادات اطوار رہن سہن کے طریقے اور یہاں کے چوہدریوں یعنی وڈیروں کی سیاست کے جلوے بھی دکھائے ہیں۔مصنف نے دیہات کے مناظر اور رہن سہن کو کچھ اس طرز میں بیان کیا ہے کہ:
"چراغی اپنے گھر کے دروازے پہ کھڑا اس بوسیدگی پہ غور کرنے لگا۔ جگہ جگہ سے گھن لگا یہ دروازے گارے اور مٹی سے بنی دیواروں کے اندر جیسے چن دیا گیا تھا۔ اتنی جگہ سے مرمت ہوچکی تھی کی اسے یہ گرتا ہوا محسوس ہونے لگا۔”
"ایک پتنگا کب سے چراغ کے گرد جھوم رہا تھا اس کی لو پہ مستانہ وار گرا۔ بوڑھے نے اپنا ہاتھ اس کے اور لو کے درمیان اتنی تیزی سے بڑھایا کہ پتنگا،ہاتھ اور لو تینوں آپس میں ٹکرا گئے ۔”
"پیشی کی نماز ادا ہوچکی تھی۔ سب لوگ آج پڑھیا کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ پڑھیا اتنی جلدی کیوں رکھی گئی ہے حالانکہ پڑھیا کا دن تو جامعہ تھا۔یہاں تک پنچوں سر پنچ تک کو معلوم نہیں تھا کہ چودھری کی اس میں کیا حکمت عملی ہے۔ مگر چودھری کے ذہن میں جو چیز تھی وہ شام کو ہی پتا لگنے والی تھی۔”
"چودھری دور بیٹھا بھی ان سب میں موجود تھا اور اپنی تخریبانہ چالیں چل کر کیل چکا تھا۔ جس کا چراغی،نوجوان یا لوک کے کسی فرد کو کچھ اندازہ نہیں تھا۔”
"وہ یہی چاہتا تھا کہ لوک میں بجلی آجائے۔ مگر چراغی بھی نہ رہے اور تم بجلی آنے کے بعد ہیرو بننے کے بجائے شہید کی طرح یاد کیے جاؤ۔ کیوں کہ اسے خدشہ ہے کہ اگر تم زندہ رہو گے تو بجلی آنے کے بعد کچھ بھی اس کے اختیار میں نہیں رہے گا۔ اسے اس بات کا مکمل ادراک ہوگیا ہے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ سارے سانپ بھی مر جائیں اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سارا لوک مکمل طور پر اس کے قبضے میں آجائے۔”
اس کہانی کے ذریعے گاؤں میں چودھریوں کی سیاست کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ گاؤں میں ایسے ہی چودھری اپنی حکومت چلانے کے لیے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ کبھی پسند نہیں کریں گے کہ گاؤں کے لوگ شعور حاصل کریں کیونکہ شعور آنے پر لوگ ان کی اصل چالوں کو پہچان جائیں گے اور پھر کسی بھی گاؤں میں کسی چودھری کی کوئی حکومت نہیں چلے گی لوگ ان کے نیچے نہیں لگیں گے ان کو ہمیشہ سے ہی لوگوں کو اپنے ماتحت رہ کر ہی کام کرانے کی عادت رہی ہے لوک میں بجلی کا آنا لوگوں کے لیے فائدے مند تھا اور چودھری بھی یہی چاہتا تھا کہ بجلی آئے لیکن اس نے چراغی اور نوجوان کے کاندھے پہ رکھ کہ بندوق چلائی اسے آخر میں کرنا تو یہی تھا کہ بجلی بھی آ جائے چراغی بھی نہ رہے نوجوان بھی بجلی کی آمد کی وجہ سے لوک کا ہیرو نہ بن جائے اس لیے یہ سب چودھری کے اشاروں پر ہی ناچ رہے تھے اس ساری پڑھیا میں جو بجلی اور چراغ کی جنگ لڑی رہی تھی چودھری کی ہی ساری منصوبہ بندی چل رہی تھی۔ روایت اور جدت کی لڑائی کی آڑ میں چودھری یہ جنگ جیت گیا کیونکہ اسے کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں تھا ما سوائے اس کے کہ اس کے ہاتھ سے گاؤں کی چودھراہٹ نہ نکلے۔
مصنف نے بڑے خوبصورت پیرائے میں انہیں بے نقاب کیا ہے لیکن کہیں کہیں کہانی میں مبہم باتیں بھی آجاتی ہیں۔ جیسے چودھریوں کو مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا اور چراغی کے خاندان میں ہمیشہ لڑکے ہی پیدا ہوتے ہیں اور وہ بھی صرف اکلوتا بیٹا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ چراغوں کے کاروبار کو چلانے کے لیے لوگوں کو مار مار کے کنوئیں میں لاشیں پھیلانا اور چودھری کے فیصلے پہ دو لوگوں کو آنکھوں سے بالکل ہی معزور کر دینا اور پھر ان کے نام نفقے کا انتظام بھی کرنا یہ سب افسانوی انداز تو ہو سکتا ہے اس میں حقیقت کا کوئی پہلو سامنے نہیں آتا۔ یہ ساری باتیں قاری کو الجھا کر رکھ دیتی ہیں۔ لیکن ناول کے آخر میں جب چراغی کی بیٹی کا ذکر آتا ہے تو کچھ کچھ معاملات سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ اس افسانوی انداز کی ایک مثال دیکھیں!
"بچے کا نام چراغی رکھا جاتا ہے۔ نہ دوسرا بچہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی دوسرے نام کی کبھی ضرور پیش آئی۔ لہٰذا پلیٹھی کا بھی وہی اور پیٹ گھروڑی کا بھی وہی۔ اور ہاں ہمارے ہاں کبھی بچی بھی پیدا نہیں ہوئی۔ ایک ہی بچہ اور وہ بھی بیٹا جو یہی روایتی کام کو باپ دادا کی عظمت سمجھ کر کرتا ہے اور خود کو چراغی کہلواتا ہے ۔”
اس کہانی میں چراغ اور بجلی کو قدیم اور جدید روایت کی علامت کے طور پر پیش گیا ہے۔ اردو ادب میں علامت نگاری کی باقاعدہ ایک تحریک چلی تھی جس کے زیر اثر کئی بڑے لکھاریوں نے بہت عمدہ تحریریں ہمارے سامنے پیش کی ہیں یہاں نثر میں انتظار حسین کا نام سر فہرست ہے اور شاعری میں ہم اقبال اور میراجی کا حوالہ بھی دے سکتے ہیں۔ یہاں بھی مصنف نے چراغ اور بجلی کا سہارا لیتے ہوئے اپنی نئی نسل کو قدیم اور جدید روایات کی اہمیت بتانے کو کوشش کی ہے۔ اس کہانی میں نہ تو قدیم روایات کو پس پشت ڈالا ہے اور نہ جدید روایات کو اپنانے کی خاطر قدیم روایات کو کچلا ہے۔ یہاں مصنف نے بڑی خوبصورتی سے ان کا دفاع کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ جن روایات کو مضبوطی سے تھامے رکھنے میں مسقبل میں نقصان ہو ان کو چھوڑ دو اور جن سے فائدہ حاصل ہو انہیں اپنائے رکھو۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مصنف یہی کہنا چاہ رہے کہ چلو اسی سمت جس سمت ہوا چلے مخالف سمت میں چلنے سے نقصان ہی ہوگا۔ چراغوں کا جلنا قدیم روایت کی پاسداری کو واضح کرتا ہے اور بجلی کا آنا جدت کی پیروی کرتا ہے ۔لیکن یہاں ان دونوں کا ایک حسین ملاپ کروایا گیا ہے۔ مصنف نے بہت عمدہ انداز میں قدامت اور جدت کا بحث و مباحثہ دکھایا ہے۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ کریں:
"روایت کے دھبوں کو جدت کے پانی سے دھونے کی ضرورت ہے ۔”
"ہمیں آگے بڑھنا ہے اور اپنے آپ کو پہچاننا ہوگا اور اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے جدت سے ہم کنار ہونا ضروری ہے ۔”
"کل کو یہی بچے والدین کو بھی پرانا سمجھ کر چھوڑ دیں گے ۔”
"پرھیا کسی کے لیے روایت کی لڑائی اور عزت کی جنگ تھی۔ تو کسی کے لیے جدت کی آمد کا پہلا دروازہ ۔کسی کے لیے دونسلوں اور سوچوں کے مابین تصادم تھا۔۔۔”
” تجربہ ہماری آزمودہ روایت کی جڑیں ہیں جو کبھی بھی کسی بھی حال میں غلط نہیں ہو سکتا۔”
"یہی فضا میں صرف کتاب بلند کر دینے سے لوگوں میں ہلچل مچ گئی ہے اور یہ نشانات سالن کے ہیں یعنی علم اور رزق باہم ہوئے ہیں۔ اگر یہی نشانات لہو کے ہوتے تو علم اور شہادت اکھٹے ہو جانے سے انقلاب بھی آسکتا تھا خونی انقلاب۔ ”
"نہیں ہمیں محنت کے نئے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔ روایت کے ساتھ ساتھ ہمیں جدت کو بھی آزمانا ہوگا۔ دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اپنی رفتار تیز کرنی ہوگی۔ ”
” آپ ایک ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہیں۔ جس کی بدبو نئی نسلوں کے دماغوں کو تباہی کر رہی ہے۔ ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک جھرنے کے سامنے بوہڑ کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے ۔”
"بجلی سے زیادہ موتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ہمارے لوک میں بجلی سے چلنے والی مشینیں بھی آجائیں گی جو فضا کوخراب کردیں گے۔ پانی گندا ہوا جائے گا۔ زمین کلر اٹھی ہو جائے گی۔ لوگ بیمار پڑنا شروع ہو جائیں گے۔ بجلی کی تاروں پہ بیٹھنے سے پرندے مریں گے مویشی کھمبوں سے ٹکرا کے مریں گے۔ ہمارے وسائل غیر محفوظ ہو جائیں گے ۔”
” اگر پہلا چراغ نہ بنایا جاتا تو آج ہم سب اندھیروں میں رہنے کے عادی ہوتے۔ کیا جس نے پہلا چراغ بنایا اس نے بھی تو یہ نظریہ ہی نہیں اپنایا تھا کہ میں لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آؤں گا ۔”
یہاں یہ اقتباسات دینے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس کہانی میں بنیادی نکتہ جو اٹھایا گیا ہے وہ روایت اور جدت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ساری کہانی بیانیہ انداز اور بحث و مباحثہ پر مبنی ہے۔ کہیں روایت کی پاسداری اہم ہو جاتی ہے تو کہیں جدت کو اپنانا ضروری ہو جاتا ہے ۔زندگی میں اگر آگے بڑھنا ہے تو پرانی روایت کو یاد رکھتے ہوئے جدید دور کو اپنانا ہوگا ۔
اس کہانی میں ہمیں جو ایک اور بات نظر آئی کہ بڑے بزرگ اپنے جوانوں سے نالاں ہیں اور جوان بڑے بوڑھوں سے خفا نظر آتے ہیں۔ نسلی تصادم بھی اس کہانی میں اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ کریں:
” آخر ان بڑوں کا مسئلہ کیا ہے۔ یہ کیوں نہیں چاہتے کہ آرام سے زندگی گزاریں اور نئی نسلوں کو اپنی زندگی گزارنے کی اجازت دیں ۔”
اب جیسے جوانوں کو اپنے بڑوں سے شکایت ہے کہ وہ انہیں جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے سے روکتے ہیں۔ ان کے بڑے ہمیشہ روایت کی پاسداری کا درس دیتے ہیں اسی طرح بڑوں کو اپنے بچوں سے بھی شکایت رہتی ہے۔ملاحظہ کریں :
” یہ تمھاری نسل کی عام بات ہے پہلے غلطی کی پھر معذرت کر لی ۔”
"اس نئی نسل کی بے حیائی اور بد تمیزی۔ اگر ان کی بات نہ مانیں تو یہ ہمیں یعنی اپنے بڑے بوڑھوں کو کم عقل کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم سٹھیا گئے ہیں اور ان جیسی تعلیم نہیں رکھتے۔”
یہ نسلی تصادم ہر دور میں ہی رہا ہے۔ مصنف نے اس تصادم کو خوبصورت پیرائے میں ڈھال کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہاں جو بات قابل غور ہے مصنف نے کسی بھی نسل کے نمائندے کو برا نہیں بنایا دونوں لوگوں کو حق بہ جانب بات کرتے دکھایا ہے اور دونوں ہی کی جیت بھی ہوئی یہاں مقابلہ بازی ہوئی بھی تو دونوں فریقین ایک دوسرے کو نیچا نہیں دکھا رہے تھے بلکہ اپنے اپنے خیال اور سوچ کے مطابق اپنی اپنی نسل کی بات کر رہے تھے۔
اس کہانی میں مصنف نے "کتاب” کی اہمیت پر بھی آواز بلند کی ہے ۔یہاں کتاب سے مراد علم اور علم سے مراد پڑھے لکھے لوگ اور وہ لوگ جنہیں شعور حاصل ہو جائے وہ ترقی کی رواہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ حقیقی ترقی یافتہ وہی خطے ہوتے ہیں جہاں لوگ علم حاصل کرتے ہیں اور شعور کی منزل کو پا جاتے ہیں ۔جاہل اور عالم کا بھلا کوئی مقابلہ ہو سکتا ہے۔ جاہل اپنی جہالت کی وجہ سے ناکام اور رسوا ہوتا ہے جب کہ عالم اپنی عالمیت کی سے پورے عالم میں راج کرتا ہے اور اس کی عزت و تکریم بھی کی جاتی ہے۔ اسی کہانی میں سے ملاحظہ کریں کتاب اور علم کی اہمیت کس قدر اہم ہے ۔
” آج بہت سے لوگوں نے یہ جان لیا تھا کہ علم سے مراد کتاب ہوتا ہے اور کتاب ہی ایک ایسی چیز ہے جو ہر زمانے میں پہلے زمانوں سے طے شدہ رسم و رواج اور روایات کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور ہمت دیتی ہے ۔”
اس ناول میں کتاب کی اور علم کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے آج کے جدید دور میں بھی جہاں تعلیم عام بھی ہے اور گورنمنٹ کی طرف طالب علموں سے بہت سی سہولیات بھی دی جا رہی ہیں پھر بھی ہمارے دیہاتوں میں ابھی لوگ پسماندگی کا شکار ہیں وہاں تعلیم کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی خاص کر تعلیم نسواں کو تو لوگ گناہ کے زمرے تک پہنچا دیتے ہیں۔ مصنف نے یہاں ایک اچھا قدم اٹھایا کہ علم کی بات کریں اور ہمارے دیہاتوں میں تعلیم عام کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔
اس کہانی میں مصنف نے ہمارے معاشرے کے ایک اور اہم نکتے کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ہمارے معاشرے میں معاملہ کوئی بھی ہو اس میں مذہب اور فرقے کو لوگ آگے لے آتے ہیں پھر اسی مسئلے کو مذہب کی آڑ میں ایک ایسا سنگین مسئلہ بنا دیا جاتا ہے کہ جس میں کوئی حل نہیں نکلتا سوائے خون خرابے کے اور پھر ایک دوسرے کی نسلوں تک یہ دشمنی چلی جاتی ہے۔ لیکن مصنف جب اس نکتے کی طرف آتا ہے تو کہانی میں بہت جھول پایا جاتا ہے قاری کے سامنے واضح طور پر کچھ نہیں رکھا گیا بس چند جھلکیاں اور اشارے ہیں جن سے ساری بات سمجھ آجاتی ہے لیکن اس میں مصنف قاری کو الجھا کر رکھتا ہے اور پھر سے سارا قصہ کہانی میں ایک تو دلچسپی کو کم کر دیتا ہے دوسرا قاری کو ذہنی طور پر تھکان کا احساس بھی ہونے لگتا ہے۔ مصنف نے کس طرح مذہب کی آڑ میں لوگوں کو اپنے مفادات کی خاطر لڑتے دکھایا ہے اس کی مثال ملاحظہ کریں :
” گستاخ خدا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ایک زناٹے دار تھپڑ چراغی کو جڑدیا۔ اس کو کچھ سمجھ نہیں آئی اور زمین پر گر گیا۔ نکالو کہاں ہے وہ جانور جو تم نے بنایا ہے۔۔۔۔۔۔وہ مٹی کا بنا ہوا ایک ہرن اٹھا لائے اور اسے امام صاحب کے سامنے رکھا۔۔۔۔۔۔جان ڈال سکتے ہو اس میں۔ ایک اور تھپڑ۔ گستاخ اور بے حیا۔ سںب مارنے لگے۔”
اب یہاں مصنف نے جس ہرن کا ذکر کیا یہ کہانی میں ایک طرح کا نیا موڑ لایا گیا ہے۔ یہ سب چودھری کی ہی شرارت تھی اس نے چراغی کو یہ بڑا ہرن بنانے کے لیے کہا تھا اور بعد میں امام مسجد اور عیسائیوں کے ساتھ مل کے اس ہرن کو ایک غیر مذہبی مجسمہ قرار دے کر چراغی اور نوجوان کو مارنے کی سازش رچائی اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوگیا لیکن لوک کے لوگ کبھی بھی یہ گتھی نہ سلجھا پائے کہ آخرکار یہ سب ہوا کیسے اس کے پیچھے کسی کی چال بھی ہو سکتی ہے۔ مصنف نے لوگوں کے رویوں اور خیالات اور نظریات کو بہت عمدہ طریقے سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مذہب پرست لوگ کیسے بنا کسی تصدیق کے بنا کسی چھان بین کے کیسے لوگوں پر فتوے لگا دیتے ہیں اور انہیں مذہب کے تقدس کی آڑ میں جان تک نکال لیتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے یہ مذہب پرست لوگوں کا سب ڈھونگ اور دکھاوا ہوتا ہے اور اسی کو شاید مصنف نے بھی بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی کی ایک اور مثال ملاحظہ کریں:
"چراغی نے تو مسلمان ہونے کے ناتے یہ گستاخی کی کہ وہ خود کو خدا سمجھنے لگا اور مٹی کا جانور بنا ڈالا۔ اب اس میں جان ڈالے گا تو ہی بچے گا۔۔۔۔جنھوں نے مجھ پرحملہ کیا اور مجھے مارا وہ تو دونوں غیر مذہب تھے۔ انہوں نے جان بوجھ کے مجھ پرحملہ کیا۔۔۔۔معاملے کی سنگینی تو صلیبی جنگوں جیسی لگ رہی تھی۔ میں نہیں چھوڑوں گا ان گستاخ عیسائیوں کو۔”
اب یہاں آکر پڑھیا کے سر پنچوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے کہ یہ تو ایک
مذہبی معاملہ ہے اس پر ہم کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کی لڑائی کو دکھایا گیا ہے کیونکہ روز اول سے یہاں جب عیسائی مشنری وارد ہوئے ان کا ارادہ ہی یہاں حکومت کرنے کا تھا اس لیے لوک کے باسی بھی یہی سمجھنے لگے کہ یہاں کے عیسائی بھی یہی کرنے آئے ہیں ہم سب کو آپس میں لڑوا کر یہ ہمارے لوک پر قبضہ کرلیں گے ۔اسی موقف کو مصنف نے کیا خوب واضح کیا ہے کہ:
” اگلا دن اتوار کا تھا عیسائیوں کے اکٹھ کا دن تھا اور تمام عیسائی جو تقریباً سو کے لگ بھگ تھے ،آج اپنے چرچ میں جمع تھے۔ فادر بھی غصے میں ڈوب چکا تھا۔۔۔۔۔یہ دو مذاہب کی جنگ ہے ۔۔۔۔۔بلکہ لوک میں ایک بھی مسلمان باقی نہیں بچنا چاہیے ۔سب نے ہاں میں ہاں ملائی اور تیاری میں مشغول ہوگئے۔”
اس لڑائی میں چراغی، نوجوان، اور لوک کے باسیوں کا بہت نقصان ہوا لیکن اس کا بھرپور فائدہ چودھری نے اٹھایا تھا کیونکہ یہ سارا کھیل چودھری نے ہی رچایا تھا۔ اس حصے میں آ کر ناول میں مصنف کی قلم کی گرفت ذرا ڈھیلی ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ یہاں کہانی کو مبہم کر دیا گیا تھا جو کسی بھی ناول میں خوبصورتی کو مانند کر دیتا ہے۔ یہاں مصنف وہ دلچسپ انداز نہیں اپنا سکا جو اس نے روایت اور جدت کے تصادم کے عمل میں اپنایا تھا۔
کہانی کے اختتام پر مصنف پھر افسانوی انداز کو اپناتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ اس جملے سے اس انداز کو پرکھنا جاسکتا ہے کہ:
"چراغی بچہ نہیں بلکہ بچی ہے۔”
اس ایک جملے نے کہانی کا رخ ہی بدل ڈالا کیونکہ چراغی کی ساری جنگ تو اپنے نئے آنے والے ننھے چراغی کے لیے تھی جو اب لڑکا نہیں لڑکی تھی۔ یہاں سار مایوسیاں اور ہر طرف سے شکست کا سامنا چراغی کو کرنا پڑا۔ مصنف نے بے شک ایک ایسا انداز اپنایا جو قاری کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا
کیونکہ کہانی پڑھتے پڑھتے قاری اس کہانی کے اگلے حصوں کے متعلق اپنے دماغ میں ایک خاکہ تیار کر لیتا ہے لیکن یہاں مصنف نے قاری کے دماغ کا مات دے ڈالی۔ اسی طرح کی مات قاری کی سوچ اور فکر کو مصنف ناول کی آخری سطور میں بھی دیتا نظر آتا ہے۔ملاحظہ کریں:
” تو کیا وہ چراغی کی بیٹی آپ ہیں۔ایک سکالرز نے دیدے پھاڑتے ہوئے پوچھا۔ میم نے کچھ نہیں کہا اور بس روتے ہوئے چہرے کو ہلا کر ہاں میں جواب دیا۔۔۔۔۔تو میم اس کہانی کا کیا نام رکھیں گی ۔۔۔۔”چراغ ساز”
یہاں اس جملے پہ ناول کا اختتام ہو جاتا ہے لیکن اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہاں مصنف کیا چاہتا ہے اور قاری نے اسے پڑھ کے کیا حاصل کیا۔ اب مجھے اس کے اختتام پہ آکے ایسے لگا کہ یہ کوئی ناول نہیں کوئی افسانہ پڑھا ہے کیونکہ ناول اور افسانے کی فضا اور ماحول میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے افسانہ زیادہ تر فرضی ہوتا ہے اور ناول کی فضا میں حقیقت کا رنگ ہوتا ہے۔ ناول کا آغاز، وسط اور اختتام ایک تسلسل رہتا ہے اس میں کردار جتنے متحرک ہوتے ہیں اتنی ہی کہانی جاندار ہو جاتی ہے۔ چراغ ساز میں آغاز، وسط، اختتام موجود ہیں لیکن وہ جو ایک پختگی ہوتی ہے ان تینوں حصوں میں وہ ذرا کم نظر آئی۔ اسی لیے آغاز میں کہانی روکھی لگی وسط میں جہاں روایت جدت کا بحث و مباحثہ دکھایا گیا وہاں کہانی ناول نہیں کسی مضمون یا تقریر کے رنگ میں ڈھل گئی اور اختتام ایسے ہوا کہ لگا جیسے کسی افسانہ کا آخر ہو کیونکہ ناول کو اختتام ایسا نہیں ہونا چاہیے جس میں قاری کے سوچنے اور سمجھنے کے لیے کچھ چھوڑا ہی نہ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page