جہاں نور ہی نور تھا (حج کا سفرنامہ) – محمد اویس سنبھلی
ہربندہ ٔخدا کے دل میں حرمین شریفین کی زیارت کا شوق اورجذبہ ہوتا ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، فقیر ہو یا دو لت مند سب کا مرکز و محور شہر مکہ و مدینہ ہیں۔ہر شخص کی تمناؤں اور آرزوؤں میں ان دو مقدس مقامات کو مخصوص اہمیت حاصل ہے۔ان مقامات کا نام آتے ہی ذہن و دل تمام تر توجہ کے ساتھ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ان مقدس سرزمینوں کی زیارت قسمت اور نصیب والوں کو ہی حاصل ہوتی ہے، نہ جانے کتنے اہل ثروت اس نعمت سے تادم حیات محروم رہتے ہیں اور کتنے ہی بے حال اور مالی اعتبار سے کم تر لوگ خدا کے اس انعام کو پالیتے ہیں۔ زندگی میں ایک بار ہی سہی ہر مسلمان کعبۃ اللہ کی زیارت اور روضۂ اطہر پر حاضری کی آرزو اپنے دل میں لئے پھرتا ہے۔ہر سال بے شمار افراد حج بیت اللہ کے لئے جاتے ہیں اور خدا کے جلال وجمال،اس کی نعمتوں اور برکتوں سے فیض حاصل کرتے ہیں، جو نہیں جاسکتے وہ آنے والوں سے اس شہر کے احوال پوچھتے اور شوق کے کانوں سے سنتے ہیں، بعض لوگ اس سفر کے اکرام وانعامات کو تحریری شکل میں پیش کرتے ہیں تاکہ ان کے جذبات کی ترجمانی ہوسکے اور پڑھنے والے پڑھ کر ان شہروںکی مقدس گلیوں میں خود کو چلتا، پھرتا اور بھٹکتا ہوا تصور کرسکیں۔ اپنے جذبات وکیفیات اور لوگوں کی معلومات کے لئے آج تک حج کے بے شمار سفرنامے لکھے گئے، انہیں میں ایک سفرنامہ ’’جہاں نور ہی نور تھا‘‘ کے عنوان سے معصوم مرادآبادی کا حال ہی میںشائع ہوکرمنظر عام پرآیا ہے، جس میں انہوں نے اس مبارک سفر کے تئیں اپنے جذبات واحساسات اور دلی کیفیات کے ساتھ آنکھ نے جو کچھ دیکھا اور سمجھا اسے لفظوں کی شکل دینے کی سعی کی ہے۔
موجودہ اردو صحافت میں معصوم مرادآبادی کا نام اپنے آپ میں ایک اعتبار رکھتا ہے، جنہوں نے سنجیدہ حلقوں میں اپنی سیاسی وسماجی بصیرت سے پذیرائی حاصل کی ہے، صحافت کے میدان میں کئی دہائیاں گزارنے کے باوجود انھوں نے اپنی زبان کی شائستگی اور لطافت کو بچائے رکھا، صحافت کی خشک مزاجی ان کی زبان اور ادبی ذوق پر حاوی نہ ہوسکی۔ انھوں نے جہاں ایک طرف صحافت میں مقبولیت حاصل کی، وہیں اہل علم وادب کو اپنی جانب متوجہ کرانے میں بھی کامیاب رہے۔ مختلف موضوعات پر معصوم مرادآبادی کی اب تک ایک درجن سے زائدکتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں، جس میں پانچ کتابیں صحافت کے موضوع پر اور دیگر خاکے، انٹرویوز اور مضامین پر مشتمل ہیں،تاریخ مرادآباد ان کی شاہکار کتاب ہے۔
گذشتہ40؍برس میںمعصوم مرادآبادی نے صحافت کے میدان میں اپنی موجودگی کا قدم قدم پر احساس کرایا، مختلف اخبارات کے لیے سیاسی، سماجی، تعلیمی ، علمی و ادبی موضوعات پر کالم لکھ کر شہرت حاصل کی ۔ ایک طویل مدت تک روزنامہ ’’جدید خبر ‘‘ کے اڈیٹر رہے ۔ فی الحال’’جدید خبر‘‘ کے ہی نام سے ایک اردو نیوز پورٹل اور پندرہ روزہ اخبار’’خبردار جدید‘‘ کے مدیر ہیں، مختلف ریاستوں کی اردو اکادمیوں نے صحافتی خدمات کے لئے انھیں ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔
معصوم مراد آبادی کا یہ سفرنامہ 2005 کے سفر حج کی روداد ہے، جیسا کہ انھوں نے پیش لفظ میں لکھا ہے۔ حج سے واپسی کے فوراً بعد انھوں نے لکھ لیا تھا مگر بوجوہ کتابی صورت اب دی جاسکی، پروفیسر محسن عثمانی اپنے مقدمہ میں اس سفرنامہ سے متعلق لکھتے ہیں:
’’اس سفرنامہ میں معصوم مرادآبادی نے اپنے عاشقانہ شوق وذوق کے جذبات کو بہت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے اور ایسے تمام واقعات پر وہ صحافی سے زیادہ قادر الکلام ادیب نظر آتے ہیں، ان کے دل کی ولولہ انگیزی انشاء پردازانہ اسلوب سے بدل جاتی ہے، ان کے جملے ان کے دل کی دھڑکنوں کے آئینہ دار بن جاتے ہیں۔‘‘(ص: 13)
128؍ صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب میں پیش لفظ اور پروفیسر محسن عثمانی کے مقدمہ کے علاوہ گیارہ عناوین ہیں، جس میں سے چند اس طرح ہیں: جہاں نور ہی نور تھا، مسجد نبوی میں حاضری، خانہ کعبہ کے پہلو میں، حرم شریف کی چہل پہل،آنسوئوں کا سمندر اور میدانِ عرفات کا بدلتا ہوا سماں وغیرہ۔ مزید ضمیمہ کے طور پر پانچ وہ تحریریں شامل کی گئی ہیں جو ان کے دوسرے حج اور عمرہ کی داستان پر مشتمل ہیں۔
معصوم مرادآبادی کا یہ سفرنامہ مختصر لیکن معلومات اور کیفیات سے بھرپور ہے، جس کے مطالعہ سے ان دو مبارک شہروں کی تاریخی حیثیت کے علاوہ مسلمانوں کے دل میں ان کی عظمت ورفعت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ پہلا عنوان’’جہاں نور ہی نور تھا‘‘ہے اور یہی کتاب کا نام بھی ہے۔ سفرنامہ کی ابتدا مدینہ کی مبارک سرزمین سے ہوتی ہے جب ان کا جہاز محمد بن عبدالعزیز ائیرپورٹ پر اترا۔یہیں سے ذوق وشوق کی نئی داستان شروع ہوجاتی ہے، روضۂ اطہر پر حاضری کی کیفیت کا بیان معصوم مرادآبادی کی زبانی ملاحظہ کیجئے اور اس کیف کو اپنے دل کے نہاخانوں میں تلاش کیجئے:
’’ہم ہوٹل میں ہی وضو کر کے حرم نبوی کی طرف چل پڑے۔ اس وقت کی کیفیت نا قابل بیان ہے۔ جس کی تڑپ اور طلب میں کتنے دن اور راتیں گزاری تھیں اب وہ منزل نگاہوں کے سامنے آنے والی تھی۔ لیجئے، وہ منزل عقیدت آ بھی گئی۔ پہلی نظر مسجد نبوی کے بلند و بالا مینار پر پڑی تو آنکھیں چھلک گئیں۔ رات کی تاریکی میں طاقتور سرچ لائٹوں کی مدد سے میناروں پر ایسی رونق اور نور بکھرا ہوا تھا کہ اس سے نظریں ہٹانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ جوں جوں ہم مسجد نبوی کے قریب پہنچ رہے تھے، ہماری قلبی کیفیت پر بہار آرہی تھی۔‘‘ (ص: 21)
’’مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ‘‘ کے ذیل میں حالات سفر ، خانہ کعبہ کے دیدار کی سرشاری اور کعبۃ اللہ کی تعمیر کو تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے ۔انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں خانہ کعبہ روحانیت اور باطنی لطف وسرور کا منبع ومرکز ہے وہیں مکہ کے بازار خالص بازار، جہاں تاجروں کے رویے حجاج یا حرمین کی زیارت کرنے والوں کی جیب پر قطعی رحم نہیں کرتے۔ اسی طرح معصوم مرادآبادی نے مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت اللہ کی زیارت اور ایام حج میں مکہ کی گلیوں اور سڑکوں کی جو منظر کشی کی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، جس میں ایک صحافی اور ادیب کا خوشنما سنگم دیکھنے کو ملتا ہے:
’’مکہ مکرمہ کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں سب سے زیادہ متاثر کرنے والا منظر وہ ہوتا ہے جب عمرہ کرنے والے لوگ قافلوں کی شکل میں احرام باندھ کر اپنی قیام گاہوں سے نکلتے ہیں اور لبیک اللہم لبیک کی گردان کرتے ہوئے جوش و عقیدت سے حرم شریف کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں، ایام حج کے قریب آتے آتے یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے اور سفید احرام میں ملبوس مرد و خواتین کو حرم شریف کی طرف آتے ہوئے دیکھ کر ایک عجیب و غریب سماں پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح پرندوں کے غول در غول کسی خاص موسم میں ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف ہجرت کرتے ہیں، اسی طرح عازمین حج کے ان قافلوں کو سفید احرام میں ملبوس حرم کی طرف بڑھتے دیکھئے تو محسوس ہوتا ہے کہ انسانی اجسام میں یہ بھی پرندے ہیں جو اپنی منزل کی طرف بڑھے جا رہے ہیں۔‘‘ (ص: 48)
زیر نظر کتاب کے اگلے مضامین ’’خیموں کی بستی‘‘،’’آنسوؤں کا سمندر‘‘،’’عرفات سے مزدلفہ روانگی‘‘ اور’’وقت کی کشمکش‘‘ وغیرہ میں ارکان حج کی ادائیگی اور اس درمیان پیش آنے والے واقعات اور جمرات کے پل پر ہونے والی بھگدڑ کا بیان نیز اس کی وجوہات کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ معصوم مرادآبادی نے میدان عرفات کو’ آنسوؤں کے سمندر‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس وسیع وعریض میدان میں خدا جل وشانہ سے اپنے گناہوں کی تلافی اور لغزشوں کی معافی کے لئے حاجیوں کی آہ وبکا کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ پتھر دل بھی پسیج جائیں، وہ لکھتے ہیں:
’’میدانِ عرفات میں کوئی آنکھ ایسی نہیں ہوتی جو آنسوئوں سے شرابور نہ ہو۔ کسی کی آنکھ میں گناہوں کی ندامت اور شرمندگی کے آنسو ہوتے ہیں تو کوئی اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کی معافی آنسوئوں میں ڈبو کر طلب کرتا ہے۔ کسی کی آنکھ میں فرط مسرت کے موتی رواں دواں ہوتے ہیں اور کوئی اپنی حاجت کو پورا کرنے کے لیے اپنے مالک کے حضور میں آنسوبہاتا ہے۔غرضیکہ آپ جدھر دیکھیں گے وہاں آپ کو آنسوئوں کا سیل رواں نظر آئے گا۔۔۔۔۔۔عرفات کے میدان میں اس مختصر سے قیام کے دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ ہر خیمے اور شامیانے سے رونے بلکنے اور گڑگڑانے کی ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں کہ ہر طرف آہ وبکا کا سماں پیدا ہوتا چلا گیا۔‘‘ (ص: 70)
اس کے علاوہ کتاب کے اختتام پر وقوف عرفات کی دعا کے اردو ترجمہ کی شمولیت پسند آئی، جو پڑھنے والوں کے لئے ایسے مواقع پر ضرور نفع بخش ثابت ہوگی، جب ہاتھ اٹھتے تو ہیں لیکن دعا یاد نہیں رہتی۔ ضمیمہ میں شامل ’’سرزمین حجاز میں دس روز‘‘ کی سرخی سے سرکاری دعوت پر عمرہ کی مختصر روداد ہے۔ اور’’مدینہ منورہ کی حرمت‘‘ کے نام سے ذیلی عناوین کے ساتھ قرآن وحدیث اور تاریخ کی روشنی میں مدینہ کے تمام مقدس مقامات کا بالاستیعاب ذکر کیا ہے، علاوہ ازیں مسجد نبوی کے منبر ومحراب کی ایک ایک چیز تاریخی حوالوں کے ساتھ نہایت باریکی سے واضح کی ہے۔ اسی طرح’’مدینہ منورہ کی مسجدیں‘‘کے عنوان سے مدینہ میں واقع اسلامی تاریخ کی تیرہ اہم مساجد کا سنہ تعمیر اور وجہ تسمیہ بیان کرنے کے ساتھ تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے مدینہ کی تمام مشہور وادیوں اور تاریخی پہاڑوں کے بارے میں گفتگو کی ہے اور لائبریری، سرکاری وذاتی کتب خانوں میں موجود مخطوطات کی تعداد بتاتے ہوئے دیگر اہم چیزوں کا ذکر کیا ہے، جس کے مطالعہ سے ہمارے سامنے مدینہ کی موجودہ علمی اور تاریخی تصویر بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔
معصوم مرادآبادی کا یہ سفرنامہ کیف وسرور اور سرشایت سے معمور ہے، لفظ وبیان کی پختگی قاری کو اپنے سحر میں باندھے رکھتی ہے، البتہ بعض مقامات پر پندونصیحت اور تقریری انداز بھی نظر آتا ہے ۔ ضمیمہ میں شامل آخری کچھ تحریریں تاریخی نوعیت کی ہیں جن کو سفرنامے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا لیکن موضوع کا تقاضا سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کاغذ اور طباعت کے اعتبار سے عمدہ اور سرورق پر بنی روضۂ اطہر اور خانہ کعبہ کی تصویر مذہبی سفرنامہ کی طرف اشارہ کرتی ہے، امید ہے قارئین اس سفرنامہ کو پسندیدگی کے نظر سے دیکھیں گے اور حرمین شریفین کے تئیں اپنی عقیدت وجذبات کو مزید جلا بخشیں گے، اخیر میں دعا ہے خدا عزوجل مصنف کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے، آمین۔
کتاب حاصل کرنے کے لیے خبردار پبلی کیشنز، دہلی(موبائل:9810780563) سے رابطہ کریں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page