گلزار دانش کے افسانوی مجموعہ ” گماں سے بیاں تک” پر ایک سرسری نظر – خضرہ
خضرہ
ایم فل سکالر، شعبہ اردو، شہید بے نظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور
شاعر افسانہ نگار گلزار دانش کا اصل نام محمد گلزار ہے ۔ آپ 25 اپریل 1996ء کو محمد شفیق کے گھر پنجاب کے نواحی علاقے ہلوال میں پیدا ہوئے.آپ نے مڈل تک کی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول ہلوال سے حاصل کی ۔ اور میٹرک کرنے آپ گورنمنٹ اسلامیہ ہائیر سکینڈری اسکول تلونڈی بھنڈراں چلے گئے ۔ میٹرک کرنے کے بعد آپ نے (i. Com)آئی کام کے لیے گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج بدومہلی میں داخلہ لیا ۔ اور گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج بدومہلی سے آئی کام کر کے اپنے تعلیمی سلسلہ کو خیر باد کہہ دیا ۔
اب تک آپ کا ایک افسانوی مجموعہ "گماں سے بیاں تک” سال 2024ء میں یاسر پبلیکیشنز لاہور کے ہاں سے منظر عام پر آچکا ہے ۔جس میں کل افسانوں کی تعداد تئیس ہیں ۔ جو ذیل عنوانات سے ہیں ۔
1۔ گماں سے بیاں تک
2۔ لاحاصل
3۔ کیوں؟
4۔جڑواں
5۔چیخ
6۔نارسائی
7۔معاہدہ
8۔حربہ
9۔زندان
10۔خوف
11۔وصال
12۔جستجو
13۔مسلط
14۔نقاب
15۔خفتہ بخت
16۔کنج خلقی منصب
17۔وسوسہ
18۔زندگی
19۔لاعلاج
20۔بے حس
21۔ذات
22۔رسم
23۔گوشت
کتاب کے ابتدائی صفحات میں ناصر علی سید کا تبصرہ شامل کیا گیا ہے ۔ جو نہ صرف خیبرپختونخواہ کے بلکہ دنیائے اردو ادب کے ایک جانی مانی شخصیت ہیں۔
علاوہ ازیں کتاب میں شامل افسانوں پر اگر بات کی جائے تو ایسا گماں ہوتا ہے کہ یہ گلزار دانش کا پہلا افسانوی مجموعہ نہیں بلکہ کوئی دوسرا تیسرا مجموعہ ہے ،تبھی گلزار دانش کی اردگرد سماج پر پڑتی نظر اور موضوع پر قلم کی گرفت اتنی مضبوط ہے ۔
گلزار دانش کے اس چھوٹے سے افسانوی مجموعے کے مختصر افسانوں میں موضوعات کی دنیا سمائ ہوئ ہے ۔ جس میں ہمارے سماج کا ہر وہ باریک پہلو چھیڑا گیا ہے ۔ جس پر میرے خیال سے کوئی عام لکھاری لکھنے سے کتراتا ہے ۔ یہ باریک پہلو ذیر بحث افسانوی مجموعہ میں مختلف افسانوں میں نظر آتا ہے ۔ مثال کے طور پر افسانہ خفتہ بخت سے ایک مثال ملاحظہ ہو:
"ہشام خدا کے لئے گڑیا کو بچالو۔“ اس نے ہاتھ جوڑ کر التجا یہ لہجے میں کہا۔کچھ نہیں ہوتا گڑیا ک تم یقین رکھو کچھ نہیں ہو گا سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ میں نے اسے دلاسہ دیا اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب اس نے اپنی تمام عمر کی اس نفسیاتی کیفیت کو، اس خوف کو جو اس کے چہرے پر واضح تھا ، اس بے حسی کو جو اس میں واضح پائی جاتی تھی کی حقیقت بتائی، وہ راز کھولا تو میں ایک دم سے کمرے کا دروازہ کھول کر بنا جوتے پہنے چیخنا چلا تا کمرے کے اس پچھلے ہال کی طرف بھاگا جہاں گڑیا کو لے کر گئے تھے۔میری آواز کی ہکلاہٹ لہجے کی بوکھلاہٹ سن کر میری امی پریشان ہو گئیں ۔امی امی گڑیا کہاں ہے؟ ۔ یہ رسم روک دیں ۔“ تم کیا کہہ رہے ہو۔؟“ میں نے امی کی بات کا جواب دیئے بنا دروازے کو کھولا تو سامنے پانچ گڑیا کی ہم عمر بچیاں اور بھی تھیں ۔ لیکن گڑیا بیہوش ہوئی پڑی تھی۔ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی میں نے خود کو کوسنے کے ساتھ ساتھ اس رسم کو دین کا فرض حصہ بنانے والے لوگوں کو بھی کوسا میں بھی ان میں شامل تھا مگر دیر ہو چکی تھی۔ میں گڑیا کو کبھی دوسری لیلیٰ نہیں بننے دے سکتا تھا۔لیکن میرے پہنچنے سے پہلے اس کے ختنے ہو چکے تھے۔
افسانوی مجموعہ خفتہ بخت میں عورتوں کے ختنے کے علاوہ ایک افسانہ ” لاحاصل ” سائنس کے ایسے موضوع پر بھی پیش کیا گیا ہے جو ( آئی وی ایف ) ایک مغربی ریسرچ کے مطابق ہے ۔ جس کے ذد میں اب مشرقی معاشرہ بھی آرہا ہے ۔ اور یہاں بھی اب قدرتی ذرائع کو چھوڑ کر لوگ رفتہ رفتہ مصنوعی طریقوں کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ افسانہ لاحاصل سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
"لوگوں مجھے پتھروں سے مارو۔۔۔۔لوگوں میں نے اپنی بیوی پر ظلم کیا ۔۔۔۔۔ لوگوں! میں نے آئی وی ایف نہ کی ہوتی تو شریعت کے مطابق انتظار کرتا تو میرا نورا ہیجڑا پیدا نہ ہوتا میری خواہش نے اس کا سکون کھا لیا۔
مجموعی طور پر گلزار دانش کے افسانوی مجموعہ میں آپ کا انداز سادہ اور سلیس ہے ۔ آپ نے نہایت سادہ اور آسان لفظوں میں ہمارے معاشرے میں چھپے عیوب سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔
آپ کی کتاب دنیائے اردو ادب میں تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک اچھا اضافہ ہے ۔ جس میں ان کو تحقیق کے لیے بہت سارے پہلو مل سکتے ہیں ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page