ڈاکٹر جہاں گیرحسن
شاہ صفی اکیڈمی/ جامعہ عارفیہ ،سید سراواں
ضلع کوشامبی(یوپی) ،پن کوڈ: 212213
نام ،تخلص اور نسبتی صفت:اصل نام’’ انصاراحمد‘‘اورقلمی نام ’’ اعظم کُریوی‘‘ہے۔اِس میں’’اعظم‘‘ تخلص اور ’’کُریوی‘‘ آبائی گاوں ’’کُرئی‘‘کی طرف منسوب ہے۔ ایک بار ذکر ہےکہ اُستاذ نوح ناروی نے اُن سے پوچھا: اعظم! یہ تم اپنے نام کے ساتھ’ ’کُریوی‘‘ کیوں لکھتے ہو؟اعظم کُریوی نے جواب دیا:اُستاذ! بالکل اُسی طرح جیسےآپ اپنے قصبے ’’نارہ‘‘کی مناسبت سے ’’ناروی‘‘ لکھتے ہیں۔اُستاذ! ایک دن آئےگا جب ’’کُرئی‘‘ دور-دور تک مشہور ہوگا۔(1)
اُن کی یہ پیشین گوئی صدفیصددُرست ثابت ہوئی کہ آج ’’اعظم کُریوی‘‘ایک دمدار ستارے کی مانندفکشن کی دنیا میں چمک دمک رہے ہیں۔
آباواَجدادکے نام:’’ فیاض احمد‘‘والدمکرم ہیں۔ ’’قادربخش‘‘جداَمجدہیں۔جب کہ اسراراَحمد (کریوی) اَور محمداحمددونوں بالترتیب چھوٹے بھائی ہیں۔اعظم کُریوی اُن میں سب سے بڑے ہیں۔1947ء سانحے کے شکار اعظم کُریوی بھی ہوئےاور باوجود یکہ والدین سے بڑی محبت کرتے تھے برادر اوسط اَسراراحمد کے ساتھ پاکستان ہجرت کرگئے۔اس کے برعکس والدمکرم فیاض احمد اَور برادراصغر محمد اَحمد نے ہند وستان میں رہنا پسند کیا ۔اِس طرح اُنھیں دوسانحوں سے دوچار ہونا۔ایک والدین کے سایۂ عاطفت سے محروم اور ایک آبائی وطن کی دردناک جدائی۔
اعظم کُریوی کو وَالدین کریمین سے کس قدر محبت تھی۔اس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ جب بھی اُس کے پاس والدین کا کوئی خط آتا، تو وہ اُسے پڑھنے کے بعد اَپنے بچوں کو دِیتے اور کہتے: بیٹا! ’’اِسے چومو، یہ تمہارے دادا -دَادی کا خط ہے۔ــ‘‘(2) اعظم کُریوی اپنی اولاد کوبرابر سے کہتے رہتےتھے کہ’’ میرا کہابےشک ایک دفعہ ٹال جانا مگر ماں کو کچھ نہ کہنا۔‘‘اعظم اپنےماں-باپ سے متعلق بہت ہی Touchy واقع ہوئےتھے۔ وہ سب کچھ سن لیتےتھے اوربرادشت بھی کرلیتے تھے لیکن اپنی ماں کے بارے میں بالخصوص وہ کچھ نہیں سن سکتے تھے۔(3)
خاندانی نسب نامہ:مشربی سلاسل میںقادریہ،چشتیہ،نقشبندیہ کی طرح سہروردیہ ایک اہم سلسلہ ہے۔ اس کے بانی عارف باللہ شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہٗ ہیں۔اسی سلسلےمیںایک مشہورومعروف شخصیت شیخ بہاؤالدین زکریاملتانی قدس سرہٗ گزرے ہیںجن کی خاندانی شرافت ونجابت کا ایک عالم قائل ہے، اورجن کی یادگارکےبطور ’’بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی‘‘ نامی ایک تعلیمی ادارہ پاکستان میں موجود ہے۔یہ عظیم الشان دانشگاہ 1975ء میں قائم کی گئی تھی ۔ اعظم کُریوی کاتعلق اُسی معزز گھرانے اورخاندان سے تھا۔ کُریوی خاندان کے ایک قلمی شجرے کے بموجب: شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی مشہور صوفی سلسلہ سہروردیہ کے رکن رکین تھےاورحسباً و نسباً پیغمبراِسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان بنوہاشم سےتعلق رکھتےتھے۔بایں سبب کُریوی خاندان بھی اور ہاشمی کہلاتےہیں۔ اِس خاندان کا تذکرہ’’ منبع الانساب‘‘ اور حکیم نجم التقی خاں رام پوری کی مشہور کتاب’’آئین اُردو‘‘میںبالتفصیل موجود ہے۔ اِس خاندان کے مورث اعلیٰ ( شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی)کا مزار مبارک ملتان (پاکستان)میں زیارت گاہِ ہر خاص وعام ہے۔(4)
یہ بابرکت اور نیک خاندان الہ آباد کے ایک چھوٹےسے گاؤں ’’کُرئی‘‘میں کیسے پہنچا؟ تواِس کی تفصیل یہ ہے کہ غیرمنقسم ہندوستان کی مشہور ومعروف شخصیت اور سہروردیہ سلسلے کے عظیم بزرگ حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریاملتانی قدس سرہٗ کے نامور نبیرہ وخلیفہ حضرت شیخ عمادالدین شاہ اسمٰعیل قریشی ہاشمی کو اُن کے علم وفضل کی بناپرشاہانِ تغلق میںسے کسی بادشاہ نے الہ آباد میں ایک جاگیر عطا کی۔لہٰذاوہ ملتان سے الہ آبادپہنچے اور موضع بمرولی میں آباد ہوئے۔یہ موضع اِلہ آباد سےچھ میل دورمغربی طرف گنگاندی کے داہنے کنارےپر واقع ہے۔ (5)پھر آپسی اختلافات کےباعث خاندان کے کچھ افرادنے بمرولی کو خیرباد کہا اوراِلہ آباد کے مختلف علاقوں میں جابسے۔خواجہ محمداُسی خاندان سے متعلق تھے چناںچہ اُنھوںنے اپنے اہل وعیال کے ساتھ لب گنگا ’’کورئی‘‘ نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کواَپنا مستقل مستقر بنایا اور یہ خاندان 1947ء تک مقیم رہا۔(6)
اِس طرح سہروردی خاندان کاقافلہ جو شاہ اسمٰعیل کے ساتھ الہ آبادآیاتھا اُس کی مختلف شاخوں نے الہ آباد واطراف میں خوب پھیلا اور سیاست ومعاشرت پراپنی علمیت وادبیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔یہی وہ اسباب ہیں کہ اعظم کُریوی کو اپنی خاندانی نجابت و شرافت کا غیرمعمولی احساس تھا۔ (7)چناںچہ اِس کااظہار وہ اِس طورپر کرتے تھےکہ ’’پدرم سلطان بود‘‘کانعرہ لگانامیں کچھ اچھا نہیں سمجھتا، ورنہ اپنے خاندانی بزرگوں کے تذکرے سے کئی صفحات بھردیتا۔مختصر طورپریہ سمجھئےکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سہروردیہ ایسے معزز خاندان کا ایک فرد ہوں۔(8)
انتباہ:قلمی شجرے کے مطابق سلسلۂ نسب شیخ زکریاملتانی کے نامورخلیفہ اور سہروردی سلسلے کے عظیم بزرگ حضرت اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے جس کی تائید اعظم کریوی کے اِس دعویٰ سے ہوتی ہے:مختصر طورپریہ سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سہروردی ایسے معزز خاندان کا ایک فردہوں۔ گویا اعظم کریوی کا خاندانی رشتہ سہروردی سلسلے کے ایک بزرگ شیخ عمادالدین شاہ اسمٰعیل ملتانی سے ہوناتو اَمرواقعی ہے جواُن کی عظمت وشرافت کے لیے کافی ہے اور مزید کسی اضافی دلیل کی ضرورت نہیں۔لیکن اُن کا سلسلۂ نسب شیخ زکریاملتانی قدس اللہ سرہٗ تک پہنچتا ہے اِس تعلق سے حتمی طورپر کچھ کہنا مشکل ہےاور بالکلیہ انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ بھی امکان ہے کہ شیخ زکریا ملتانی سے شاہ اسمعٰیل ملتانی کاارادتی تعلق ہونےکے ساتھ ساتھ نسبی تعلق بھی ہو،مگر یہ ایک گمان ہی ہے اَمرمتحقق نہیں۔
خاندانی نسب نامہ درج ذیل ہے:
1۔حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی قدس سرہٗ
2۔حضرت شاہ اسمٰعیل (نامورنبیرہ و خلیفہ شیخ زکریاملتانی)
3۔خواجہ محمد
4۔بشارت علی
5۔جان عالم
6۔قادر بخش
7۔فیاض احمد
8۔انصار احمد(اعظم کُریوی)
انتباہ:خاندانی قلمی شجرے میں حضرت شاہ اسمٰعیل ملتانی کو شیخ زکریاملتانی کا نامورخلیفہ بتایا گیاہے اورخالدکاخط بنام حامدکمال ناروی میںشیخ عمادالدین شاہ اسمٰعیل قریشی ہاشمی کوشیخ زکریا ملتانی کا پوتا/ بھتتیجہ کہاگیا ہے۔پس اگر یہ دونوں ایک ہی ہیںتواُن کے والد ماجد کا کیا نام ہے یہ معلوم نہیں، پھر خواجہ محمد اور شاہ اسمٰعیل کے درمیان کیا رشتہ ہے یہ بھی واضح نہیں !!حالاںکہ ہم نے خالد بن عمر کے خط پر اعتماد کرتے ہوئے شاہ اسمٰعیل ملتانی کو شیخ زکریا ملتانی کا نبیرہ فی الحال تسلیم کرلیاہے تاآنکہ کوئی اور تحقیق سامنے نہیں آجاتی۔ اِسی لیےہم نے ماقبل میں شاہ اسمٰعیل ملتانی کے ساتھ’’ نبیرہ ‘‘اور ’’خلیفہ‘‘ دونوں تحریر کیا ہے۔
تاریخ وسال پیدائش:اعظم کُریوی 1899ء کوہندوستان میںپیدا ہوئے۔ آبائی وطن کورئی ہےجوپرگنہ(تحصیل)چائل،ضلع الہ آباد، اترپردیش میں واقع تھا اور ضلع کوشامبی میں واقع ہے۔(9)کورئی، بوڑھی گنگا کےکنارے ایک خوب صورت گھاٹ تھا جہاں بمشکل ساٹھ (60)گھر بستے تھے ۔ آج بھی یہ گاؤں، بوڑھی گنگاکےکنارے واقع ہے ۔البتہ! تعلیم و تعلّم کے اعتبار سے آج کل اِس گاؤں کی حیثیت پہلے جیسے نہیں رہی۔
انتباہ:ماہنامہ ’’اخباراعظم، اعظم نمبر‘‘میں22؍ جون 1898ء سال وتاریخ پیدا ئش ہے اور مدت ملازمت میں دوسال کی توسیع کے لیے جس سرٹیفکیٹ کودرخواست کے ساتھ منسلک کیا تھا اُس میں 16؍دسمبر1901ء مندرج ہے۔اِس لحاظ سے دیکھاجائے تو تاریخ و سال کے سلسلے میں حتمی طورپر کچھ کہنا بڑا مشکل ہے۔ لیکن چوں کہ اعظم کُریوی نے بذات خود اپنا سال پیدائش 1899ء درج کیا ہے، لہٰذاہمارے نزدیک یہی زیادہ قرین قیاس اور درست معلوم ہوتا ہے۔بایں سبب 1899ء کو ہی ہم نے لائق اعتبار اور درست تسلیم کیا ہے۔
کُرئی گاؤں کا محل وقوع:’’کُورئی‘‘ گاؤںکے محل وقوع کے تعلق سے اعظم کریوی خود اپنی ایک تحریر ’’میں افسانہ کیوں کرلکھتا ہوں‘‘ میں لکھتے ہیں:میرا گاؤں کورئی، چائل پرگنہ، ضلع الہ آباد میں گنگاجی کے کنارے واقع ہے۔قریباً پانچ سال ہوئے میں الہ آباد سے لاری پر کورئی کے لیے روانہ ہوا۔الہ آباد سے گیارہ(11)میل پر ایک گاؤں کوئلہا رسول پور ہے، وہاں مجھے لاری سے اُترنا پڑا۔ اب کورئی پہنچنے کے لیے مجھے چھ میل پیدل چلنا تھا۔(10)۱۱گویااعظم کریوی کا آبائی وطن شہر الہ آباد سے سترہ(17) میل کی دوری پر دریائے گنگاکے کنارے واقع ہے۔
کُرئی گاؤں کی وجہ تسمیہ:’’کورئی‘‘ گاؤں کی وجہ تسمیہ مختلف تحریروں میں جوہمیںملی وہ یہ ہے کہ رام چندرجی کو جب بن باس ہوااَور اجودھیا سے روانہ ہوئے تو راجہ پور گھاٹ ہوتے ہوئے ’’کورئی گھاٹ‘‘پر اُترے۔یہاں سیتاجی کی انگوٹھی اُن کی انگلی سے نکل کر دریائے گنگامیں گرگئی جسے تلاش کرنے کے لیے دیوتا اور آسمانی وجودپانی میں اُترے۔انگوٹھی تلاش کرنےکے دوران ایک جگہ بہت زیادہ کھدائی ہوگئی اور وہاںپردریائےگنگا بہت گہرا ہوگیا، لہٰذا اُسے ’’سیتاکنڈ‘‘کہا جانے لگا۔نیز کھدائی کے وقت دریائےگنگا کی تہہ سے نکلی ہوئی مٹی چوںکہ اُس کے دائیں کنارے پر رکھی گئی جس سے وہاں ایک اونچی جگہ بن گئی اِس لیے اُس جگہ کو پاس پڑوس کے لوگ ’’کورئی‘‘ کہنے لگےاور اِس طرح ’’کورئی‘‘ نام قرب وجوارمیں ہرطرف مشہور ہوگیا۔
انتباہ: اعظم کریوی کے آبائی گاؤں کانام متعدد تحریروں میںمختلف طریقےپر درج ہے، مثلاً: کورئی،کوری، کُرئی وغیرہ۔ہمارے خیال سے درست اِملا ’’کورئی‘‘ہوناچاہیے،کیوں کہ یہ لفظ ’’کورائی بمعنی کھودائی‘‘کامتبادل ہونے سے زیادہ قریب ہے۔
عہد طفولیت اورپرورش:اعظم کُریوی کے والد فیاض احمدعلاقے کے بڑے زمیندار تھےاِس لیےاُن کا بچپن بڑی خوش حالی اور بےفکری میں بسر ہوا۔ چوں کہ کورئی کےایک طرف دریائےگنگا واقع تھا اور ایک طرف کھیت-کھلیان کی صاف وشفاف اورسرسبزفضائیں، اِس لیے اعظم کُریوی نے سیپیاںچننے کا بھی لطف اُٹھایا اور سیروتفریح اوراُچھلنے کودنےکابھی مزہ لیا۔ شاید اِسی خوشحالی اوربےفکری نے اُن کی طبیعت میں صفت ضد کا عنصر غالب کردیا تھا۔کیوں کہ اُن کے فیاض احمد جب کہیں باہر جاتے تو اعظم کُریوی زبردست چیخ وپکارمچاتے اور زمین لوٹ لوٹ جاتے کہ ہم بھی ہمراہ چلیںگے۔ چناںچہ اِن سے آکرعاجز اُنھوںنے یہ حل نکالاکہ کہیں جانےسےدوتین گھنٹے پہلے باغ میں گھوڑی، کاٹھی اورچارہ وغیرہ بھیجوادیا کرتے تاکہ اعظم کو اُن کےنکلنےکا پتا نہ چل سکے۔ (11)علاوہ ازیںاعظم انتہائی جری اوردلیر ہونے کے ساتھ بلا کی قوت فیصلہ رکھتے تھے۔ایک بار فیاض احمد بُسہڑی (بسیہڑھی) شادی کی ایک تقریب میں گئے ہوئےاور اعظم بھی اُن کے ساتھ تھے۔ اُس وقت اعظم کی عمربمشکل سات سال رہی ہوگی۔لیکن غروب آفتاب کےبعد کسی کوکچھ بتائے بغیر تن تنہا کورئی واپس چلے آئے ۔بسیڑھی سے کورئی دو میل کے فاصلے پرتھا۔(12)ایک اورخصوصیت جو اعظم کواُن کے معاصربچوں سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ ہے اُن کی حسی قوت جس کے اَثرات اُن کے افسانوں پر بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔
حصول تعلیم :چوںکہ گھراناشریف و نجیب اورتعلیم یافتہ تھا اِس لیے اعظم کریوی کی تعلیم و تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ تعلیم کی ابتداگاؤں ہی سے ہوئی اور پھر مزید تعلیم کے لیے شہر کا رُخ کرنا پڑا۔(13)لہٰذاحصول تعلیم کی غرض سے اپنے ماموں احتشام الدین کے پاس سہارن پورگئےجہاں وہ پولیس انسپکٹر کی حیثیت سے تعینات تھے۔وہاں اعظم کا داخلہ ایک اسکول میں کرایا گیا۔اِسی درمیان چندن نامی ایک پنڈت دوشیزہ سے محبت کارشتہ اُستوار ہوگیا۔جب اس کا شہرہ اہل خانہ تک پہنچا تو چند ن کا اسکول جانا بندہوگیا اوراِس کےباعث ماموں کی طرف سےاعظم کو بھی بہت کچھ سخت وسست سنناپڑا۔
کچھ عرصہ بعد اِحتشام الدین کا تبادلہ علی گڑھ ہوگیاتو اَعظم بھی اپنےماموں کے ساتھ علی گڑھ پہنچ گئے۔لیکن ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ الہ آباد لوٹ گئے اور آگے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اعظم کاداخلہ بورڈنگ اسکول میں کرادیا گیا۔(14)الہ آباد ہی میںانٹر پاس کیااورایف.اے. میں داخلہ لیا لیکن ابھی ایف.اے .کورس کا دوسرا سال ختم نہیں ہونے پایاتھا کہ تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا اور ملازمت کی طرف مائل ہوگئے۔
عہدملازمت :آثار وقرائن بتاتے ہیں کہ اعظم کریوی نے اپنی ملازمت کا آغاز کلرک سے کیا۔ اولین دفعہ وہ سہارن پورکے ایک سرکاری دفتر میں بحیثیت کلرک ملازم ہوئے۔یہاں ایک بار پھر چندن سے ملاقات ہوئی اورپُرانی یادیں تازہ کیا ہوئیں کہ محبت آمیز خط وکتابت کا دور شروع ہوگیا۔لیکن جب اِس معاشقے کی بات چندن کے قریبی رشتے داروں تک پہنچی تووہ اعظم کی جانی دشمن ہوگئے۔1916ء میں میرٹھ چلے گئے اور1920ء تک وہاں قیام پذیر رہے اورمیرٹھ سے ہی سال1919ء میں اُن کےرومانی خطوط پر مشتمل ایک مجموعہ ’’پریم پتر‘‘ کے نام شائع ہوا۔اِس کے بعدالہ آباد واپسی ہوئی اور یکم ستمبر1921ء کو الہ آباد کے ایک فوجی ادارے میں عارضی سویلین کلرک کے طورپربحال ہوئے۔18؍مئی 1922ء کو مستقل کلرک بنائے گئے اور 18؍ اکتوبر 1926ءتک الہ آباد میں ہی رہے ۔
یہی وہ زمانہ ہے کہ اعظم کریوی ’’ماہنامہ طوفان‘‘ الہ آباد کی ادارتی بورڈ سے منسلک ہوئےاورنوح ناروی کی سرپرستی میں نکلنے والے اِس ماہنامے کے مدیر قرار پائےاوراِسی میںاُن کا پہلا افسانہ ’’پریم کی انگوٹھی‘‘شائع ہوا۔
الہ آباد سے تبادلہ ہوا تو کوئٹہ چلے گئے اور 19؍ اکتوبر 1926ء سے 19؍اکتوبر 1928ء تقریباً دوسال تک جبل پور میں تعینات رہے۔اِس کے بعدبھی مختلف مقامات پر تبادلہ ہوتارہا۔لیکن ایکبارپھر میرٹھ جاپہنچے اور12؍ اپریل 1941ء سے 22؍دسمبر1942ء تک ہیڈکوارٹرز میرٹھ ڈسٹرکٹ کے ویٹنری برانچ کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر مامور ہوئے اور اِس درمیان کچھ دنوں کے لیے ’’دہرہ دون‘‘ میں بھی تعینات رہے ۔
اعظم کریوی کے لیے1928-1942ء کا زمانہ تحریروتالیف کے لحاظ سے بڑا زَرخیز معلوم ہوتا ہے، مثلاً:
1۔ زمانہ، نگار، الناظر، عصمت، مخزن، ہمایوں وغیرہ مشہورو معروف رسائل میں اعظم کے افسانے شائع ہوئے۔
2۔ اُن کی مختلف کتابیں منظر عام آتی ہیں، مثلاً:ایک کتاب ’’ہندی شاعری‘‘ 1931ء میں کتابستان،الہ آبادسے شائع ہوئی اور ایک کتاب ’’دیہاتی گیت‘‘1939ء میں ہندوستانی اکیڈمی، الہ آباد سے شائع کی گئی۔جب کہ اُن کا اولین افسانوی مجموعہ ’’پریم کی چوڑیاں‘‘ 1942ء میں شائع ہوا۔ اِس زمانےمیں اعظم کریوی رسالہ ’’اکبر‘‘کے شعبۂ ادارت سے بھی منسلک رہے۔
اس کے بعدسال1943-1942ءمیںچھ -سات مہینے کےلیے بنگال میں تعینات رہے، پھر اَنبالہ چلے گئے اور 1943ء سے23؍نومبر 1947ء تک انبالہ/ سباتھو میں رہے۔یہی وہ زمانہ ہےکہ کافی جدوجہد اور عمل پیہم کےبعدہندوستان کو آزادی ملی اور تشکیل پاکستان عمل میںآئی۔
1924-1947ء کا عہد افسانہ نگاری کے اعتبار سے انقلابی ثابت ہواکہ اِس دوران تقریباًچھ افسانوی مجموعے منظر عام آئے۔ مثال کے طورپر ’’شیخ وبرہمن ‘‘اور’’دکھ سکھ‘‘ یہ دونوں مجموعے 1943ء میں، ’’انقلاب‘‘ اور ’’کنول‘‘یہ دونوں مجموعے 1944ء میں، ’’ہندوستانی افسانے ‘‘ اور ’’روپ سنگھار‘‘ یہ دونوں مجموعے 1945ء میں یکے بعد دیگرے شائع ہوئے۔
تقسیم ہندکے بعدپاکستان ہجرت کرگئے، وہیں سرگودھامیں ملازم بحال ہوئے اور 24؍ نومبر 1947ء سے 29؍دسمبر 1947ءتک رہنے کے بعد وہاں سے اُن کاتبادلہ راولپنڈی کردیا گیا۔یہاں وہ 30؍دسمبر1947ء سے9؍ اگست 1948ءتک ہیڈکوارٹر ڈویژن:7میں تعینات رہے، پھر 10؍ اگست 1948ء سے 28؍اگست 1948ءتک انٹر سروس پبلک ریلیشن ڈائریکٹریٹ منسٹری آف ڈیفنس راولپنڈی میںخدمات انجام دیں۔اِس کے بعد ملیرکینٹ تبادلہ ہوگیا،جہاں اعظم نے ہفتہ واری اخبار ’’مجاہد‘‘ کے مدیر رہے اور29؍اگست 1948ء سے 17؍مئی 1949ء تک منصب ادارت سےوابستہ رہے۔ کچھ دنوں تک انگریزی اخبار’’ اسٹینڈرد ‘‘پاکستان کے ایڈوٹوریل شعبے میں بھی کام کیا، اور بالآخر اپنی ملازمت کی تیس سالہ مدت پورا کرنے کی بعد ریٹائر ہوگئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ وقفے وقفے سے کچھ عرصے تک سرکاری، نیم سرکاری اورپرائیویٹ اداروں میں ملازمت کرتے رہے۔ مثلاً: ایک فرم ’’یونائیٹڈنیشنز‘‘کے دفترمیں کچھ عرصہ تک کام کیااور کچھ دنوں تک حفیظ جالندھری کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی رہے۔ جب کہ ضمیر جعفری کے ایک مضمون ’’ڈاکٹر اعظم کُریوی کے ساتھ دوسال‘‘ مشمولہ ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر 1955ء، ص:31سے انکشاف ہوتا ہے کہ اعظم نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی 1953ءتک’’ مورال بلڈنگ محکمے‘‘ میں اُن (جعفری)کے ماتحت کام کیا۔
پاکستان ہجرت کرجانے کے بعد اعظم کریوی کی افسانہ نگاری میں کمی آگئی تھی اور فقط چند گنے چنے افسانے ہی لکھ پائے۔ اُن میں ایک افسانہ ’’مہاجر کی عید‘‘ اور ایک کہانی کا سلسلہ ’’دکھیاکی کہانی میری زبانی ‘‘قابل ذکر ہے۔’’دکھیا کی کہانی میری زبانی‘‘کے عنوان سےایک سلسلہ وار کہانی ماہنامہ ’’عصمت‘‘ کراچی کےلیے شروع کیاتھالیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور مذکورہ کہانی کا یہ سلسلہ پانچ کے عدد پر ہی رُک گیا۔
ازدواجی زندگی:اعظم کُریوی نےیکے بعد دیگرے کل چارشادیاں کیں،بیویاں اور اُن سے ہونے والی اولاد کی تفصیل حسب ذیل یہ ہے:
بیویاں/زوجات
1۔خلیق النساء : یہ قریبی رشتے دار کی دختر تھی جس سے کُریوی کی پہلی شادی ہوئی، لیکن اُن کی پہلی بیوی زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکی۔
2۔چندن عرف چاند سلطانہ: چندن سےشادی کیسے ہوئی؟ اس کی تفصیل جاننے کے لیے افسانہ ’’کنول‘‘پڑھنا مناسب رہےگا۔ ہمارے خیال سے اعظم کریوی کی آب بیتی کامطالعہ افسانہ ’’کنول‘‘میں بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔
3۔نام معلوم نہیں:یہ افتخاراحمدکی والدہ ہے، اعظم کُریوی نے جب اِن سے نکاح کیا تھا توغالباًیہ بیوہ تھی۔
4۔خیرالنساء بیگم:(تفصیل ندارد)
اولاد امجاد
بیٹے:
1۔اسلم:یہ خلیق النساء کے بطن سے پیدا ہوا، اور ہندوستان ہی میں سکونت اختیارکی۔
2۔مہتاب احمد:یہ چندن عرف چاندسلطانہ کا بیٹا تھا جو 22؍ سال کی عمر میں قیام میرٹھ کے دوران نہر میں ڈوب کر اِنتقال کرگیا۔اِس کی موت کا اثر اعظم پر کافی گہرا پڑا، جس کی وجہ سے کچھ دنوں تک وہ کافی اضطراب وپریشانی میں بھی رہے۔
3۔افتخاراحمد( تیسری بیوی کے بطن سے)
4۔نیراعظم(تیسری بیوی کے بطن سے)
5۔سلیم اعظم(چوتھی بیوی خیرالنساء کے بطن سے)
6۔خالد اعظم(چوتھی بیوی خیرالنساء کے بطن سے)
8۔عزیز احمد(تیسری بیوی کے پہلے شوہر سے)
8۔حبیب احمد(تیسری بیوی کے پہلے شوہر سے)
بیٹیاں:
چندن عرف چاندسلطانہ سے تقریباًسات بیٹیاں پیدا ہوئیںمثلاً:
1۔خورشید سلطانہ 2۔اختر سلطانہ
3۔قمرسلطانہ(یہ کوئٹہ میں پیداہوئی اور صرف آٹھ ماہ زندہ رہی)
4۔ثریا سلطانہ 5۔نجمہ سلطانہ
6۔شمع سلطانہ 7۔ناہید اعظم
تیسری بیوی سے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
8۔زینت النساء 9۔تہذیب النساء 10۔فرحت یاسمین
خیرالنساء سے دو بیٹیاں پیداہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
11۔صالحہ 12۔صبوحی(صبیحہ،صبی)(15)
گویا ڈاکٹر اعظم کُریوی کی تقریباً 20؍ اولاد ہوئیں جن میں 8؍ لڑکے اور12؍ لڑکیاں شامل ہیں۔
وفات: اعظم کریوی جو کبھی انتہائی عیش وعشرت کی زندگی بسرچکے تھےآخری عمر میں اُنھیں کافی دقتوں کا سامنا کرناپڑا۔لیکن اُن کی پیشانی ذرہ برابر بھی شکن آلود نہیں ہوئی۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ایک بارپھر کہانی لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور سچی کہانی پر مشتمل ایک سلسلہ ’’دکھیا کی کہانی‘‘ کے نام شروع کیا اورابھی اُس کے غالباً چارپانچ سلسلے ہی شائع ہوئے تھے کہ اُسی کہانی کے سبب جان لیوا حملہ ہوا اَور 1955 ء میں اس دنیاکو خیرباد کہہ دیا۔
شخص وعکس: اعظم کریوی کےاوراق حیات پلٹنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعظم کی شخصیت تضادات کامجموعہ ہے۔ ایک طرف احباب ومتعلقین اُنھیں تیز مزاج، غصیلے، کھردری طبیعت کا مالک بتاتے ہیں تو دوسری طرف اصدقا اُنھیں نازک مزاج، زندہ دل، بذلہ سنج، ہمدرد اور دوست نوازشخصیت کہتے ہیں۔مثلاً برادراوسط اسراراحمد کریوی اپنے مضمون ’’ذکراعظم کریوی‘‘میں لکھتے ہیں کہ ضدی طبیعت پائی تھی اورتیزغصہ والےتھے۔(16)یہاں تک کہ اپنے غصے کی تیزی کے باعث انگریزوغیرہ کو گالی دینے اور انگریزافسروں کو پیٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔بایں سبب وہ ترقی نہ کرسکےجب کہ اعظم کے ساتھی نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ فوج میں اُن کی ترقی نہ ہونے کی وجہ صرف اُن کا غصہ تھا۔(17)اس کے برعکس ایک مراسلہ جو اعظم کریوی نے 1934ء کے اخیر میں ’’نیرنگ خیال‘‘ لاہور کے ایڈیٹرکو لکھا تھا اُس کےبموجب:اعظم بڑےنازک مزاج اور جذباتی معلوم ہوتےہیں۔ مراسلہ میں درج ہےکہ شوروغل سے بہت گھبراتاہوں۔دل پر کسی خاص واقعہ یانظارہ کا اثر ہواکہ میں تنہائی میں افسانہ لکھنے بیٹھ جاتا ہوں، اس عالم میں اگر میرے کسی کرم فرمانے پکارا، یامیرے بچوں نے شور مچایاتو پھر لاکھ کوشش کرنے پر بھی اس وقت اپنے افسانے کو مکمل نہیں کرسکتا۔چناںچہ اس نقص کی وجہ سے سال میں دوچار ہی اوریجنل افسانے لکھ پاتا ہوں۔(18)
اعظم کُریوی اپنے والدین کے بڑے چہیتے، لاڈلے اور پیارے تھے، اور اِس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اِس سے پیشترفیاض احمد کی جوبھی اولاد ہوئیں وہ زندہ نہیں رہ سکیں۔ اگر اعظم کُریوی باحیات رہےتو اِس لیے کہ اُن کے والدین نے کسی بزرگ سے اُن کے لیے دعا کرائی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا۔غالباً بزرگ ہی کی دعا کا اثر تھا کہ وہ اقرباپروری اور انسان دوستی کی مثال تھے۔ کیوں کہ اپنے عزیز واقارب سے اُنھیں بڑی محبت تھی۔ گاؤں کے غریب غربا سے خلوص کے ساتھ ملتے تھے اور گاؤں کے لوگوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔ چھوٹی ذات کے ہندؤں، مثلاً: چمار، پاسی، گوالے اور دوسرے غریب لوگوں کے پاس بیٹھ کر اُن کا دکھ- دردبانٹا کرتے تھے۔(19)لیکن اُن کی شخصیت کا یہ پہلو بڑا ہی حیرت انگیز ہے کہ وہ اپنے اعزہ واقارب کی عزت کرنے اور اُن سے حد درجہ محبت رکھنے کے باوجود اَپنے بیٹوں کو رِشتے داروں سے دوری بنائے رکھنے کی تاکیدوتلقین کرتے تھے۔ بقول افتخار احمد:والد صاحب مجھ کو سمجھاتے تھے کہ رشتےداروں سے اور خاندان والوں سے کوئی تعلق نہ رکھنا، خاندان میں رشتہ دینا نہ رشتہ لینا۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔وہ دادا کے علاوہ کسی سے نہیں ملاتے تھے(20)اوراِس کی خاص وجہ یہ تھی کہ اعظم کریوی اپنے خاندان والوں سے اُن کی بعض غلط حرکات کے باعث بدظن تھے،کیوں کہ والد صاحب کا کہنا تھا کہ رشتے داردھوکے باز ہیں ۔ اُنھوں نے جعلی شجرے بنائے ۔یہ اپنے کو مقید کرنا ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔(21)لیکن اِن سب باتوں کے باوجود خاندان کے بڑوں کی عزت اور اُن سے محبت رکھنے پر کوئی حرف نہیں آتا، کیوں کہ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی وہ اپنے خاندان کے بڑوں کی عزت اور اُن سے محبت کرتے رہے۔پھر رہ گئی یہ بات کہ اپنے بچوں کو اُن سے دوری بنائے رکھنے کی تاکیدوتلقین کی تو میرے خیال میں اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
1۔اہل خاندان کی غلط حرکتوں کےسبب اُن کے بچوں کوکوئی نقصان نہ ہو۔
2۔ اُن کے بچے خاندان والوں کی بے عزتی نہ کردیں۔
3۔یا وہ رسم ورواج توڑناچاہتے تھے جوخاندان والوں نے اپنا رکھا تھاکہ شادی بیاہ خاندان سے باہر نہیں ہونی چاہیے۔
کیوں کہ وہ خاندانی حد بندیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے،اُنھوں نے بعد میں جو تین شادیاں کی وہ بھی خاندان سے باہر ہی کی تھیں۔
جناب ضمیر جعفری جو1953ء میں ’’مورال بلڈنگ محکمے ‘‘کے تحت ملازمت کے دوران ساتھ رہے ، وہ ڈاکٹر اعظم کُریوی سے بہت متأثر تھے اور اُن کی پرکشش اوراِنسان دوستی شخصیت سے کافی مرعوب و متحیر بھی تھے۔ اپنے مضمون ’’ڈاکٹر اعظم کُریوی کے ساتھ دوسال‘‘میںوہ لکھتے ہیںکہ ڈاکٹراعظم کریوی کی شخصیت اورکردارکواگر ایک لفظ میں بیان کرناچاہوں تووہ لفظ ہے ’’حیرت انگیز‘‘۔کیوںکہ اُن کی زندگی کاجو بھی گوشہ سامنے آیااُسے حیرت انگیز پایا۔(22)1951ءمیں ملیرکینٹ کے محکمہ’’مورال بلڈنگ‘‘میں اُن کاتقرر ہوا تو حفیظ جالندھری کے توسط سے اُنھیں پہلی بار دیکھنے کی مسرت حاصل ہوئی۔ دفتر میں تودونوں ساتھ ساتھ رہتے ہی تھے، رہائش بھی پاس پاس ہونے کی وجہ سے جلدہی ہم دونوں میں کافی اخلاص پیدا ہوگیا۔دفتر اور گھر قریب قریب تھا اِس لیے بسااوقات ہم لوگ شام کا کھانا بھی دفترہی میں منگوالیاکرتے تھے۔(23)محکمانہ تعلقات بہت جلد دوستانہ محبت میں ڈھل گئے۔ہم لوگ کسی مشترکہ دفتر کے کارکنان سے زیادہ دکھ سکھ کے شریک اورایک کنبے کے افراد معلوم ہوتے تھے۔ مرحوم کے الفاظ میں مرشد،ڈاکٹر صاحب اور بھائی صاحب! (24)دفتر سے اُٹھتے تو حفیظ جالندھری کے یہاں جابیٹھتے اور ظاہر سی بات ہے کہ اس حالت وکیفیت میں ڈاکٹر صاحب سے بے تکلف ہوئے بغیر میرے لیے کوئی چارہ نہ تھا۔اگرکبھی عمرمیں فرق کے باعث میں کچھ فاصلہ قائم کرنے کی کوشش بھی کرتاتو وہ آگے بڑھ کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیتے۔ حجاب وتکلف کے وہ سخت مخالف تھے۔دفتر میں مجھ سے پہلے ہی روز کہنے لگے کہ میں تو آپ کو بھائی کہا کروںگااور فی الحقیقت میرے ساتھ اُن کا سلوک ہمیشہ بڑے بھائی کاسارہا۔(25)
اعظم کُریوی کے مزاج وشخصیت سے متعلق اپنے ایک مکتوب بنام حامدکمال ناروی، مورخہ3؍ اگست 1922ءمیں ضمیر جعفری لکھتے ہیں کہ میںنے اپنی زندگی میں دو بیویوں والے کو اِتنابذلہ گفتاراور اِتنا بےفکرا کسی کواَور کبھی نہیں دیکھا۔(26)اورشاہد احمددہلوی اپنا مجموعی تأثر یوں دیتے ہیں کہ اعظم کریوی ایک عجیب وغریب انسان تھے۔(27)
اعظم کریوی نےکچھ دنوں تک لکھنومیں بھی قیام کیاجہاں اُن کی ملاقات ڈاکٹرعبادت بریلوی سے ہوئی۔ اِس ملاقات میں اُنھوں نے اُن کو کیسا پایا، اپنے ایک مکتوب بنام حامدکمال ناروی، ۱۶؍دسمبر ۱۹۹۲ءمیں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر اعظم کریوی کے بارے میں میری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ وہ ایک زمانے میں لکھنو تشریف لائے تھے اور چند ماہ اُن کے ساتھ میں نے گزارے لیکن ان کی شخصیت بہت عجیب تھی، اتنی عجیب کہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔اُن سے میری ملاقاتیں رہیں لیکن اب میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیسے آدمی تھے۔میں نے ہمیشہ اُنھیں اچھا دوست پایا۔ دانش محل میں روزانہ تشریف لاتے تھے اور اُن سے روزانہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ (28)
ڈاکٹر اعظم کُریوی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد جب وہ تقریباً 50/52سال کے تھےاُس وقت بھی نہایت محنت،مستعدی اور ایمانداری سے اپنی ذمے داری ادا کرتے تھے ۔مختلف النوع مصائب ومسائل میں گھرے ہونے کے باوجود اُنھوں نے کبھی بھی اپنے فرائض منصبی سے سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ اپنے معمولات میں کبھی کوئی رُکاوٹ آنے دی۔ ریٹائر ہونے سے چندسال پہلے اخراجات کی کثرت اور وسائل کی کمی سے ہجوم افکار نے اعظم کریوی کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔وہ پہلے کی طرح اب تنومند تو نہیں تھے لیکن ان کے حوصلے پوری طرح پست نہیں ہوسکے تھے اور اُن کی فرض شناسی اور فرض کی ادائیگی متأثر نہیں ہوسکی تھی۔(29) معمولات کے اتنے بڑے پابندتھے کہ ایسے انسان میںنے اپنی زندگی میںبہت کم دیکھے ہیں۔ احساس فرض کاجذبہ اس قدر شدید تھاکہ ان کی زندگی ایک سزابامشقت معلوم ہوتی۔ پاسبان عقل ہر وقت دل پر مسلط۔ (30)1951ء میں وہ پنشن کی حدپر جاپہنچے تھے۔ زندگی کچھ اس بیدردی سے ان کے اوپر سے گزری تھی کہ وہ اپنی عمر سے بھی کوئی پندرہ برس زیادہ معمرنظر آتے تھے۔ رخسارپچک گئے تھے۔ ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔دبلے پتلے، لاغروکمزور، آنکھیں اندرکو کہیں اتنی دورچلی گئی تھیںکہ چہرے پر ناک ہی ناک رہ گئی تھی۔مگراِس کے باوجود بلاکے مستعد تھے۔ غضب کے چوکس وچوبنداور کارفرما وکارکشا۔دیکھنے میں وہ تکان کا مجسمہ دکھائی دیتے تھے مگر تھکنا وہ جانتے ہی نہ تھے۔وہ اس مقام پر تھے جہاں تکان خود تھک کر بیٹھ جاتی ہے۔ (31)اُن کی گھریلو زندگی کا پھیلاؤ اُن کے وسائل وآمدنی کے بس کا روگ نہ تھا۔ معاملات الجھے ہوئے بھی تھے مگر یہ ناممکن تھاکہ محض ان کی کاہلی یا بےپروائی کے سبب کوئی معاملہ اُلجھنے پائے یا دیرتک الجھا رہے۔ جس وقت اُن کو جس مقام پر ہونا چاہیے وہ وہاں ضرور ہوتے۔ (32)اورایسے عالم میں اگر اُن کا کوئی سچاہمدردوغمگسا رتھاتو وہ تھی اُن کی بوسیدہ سی بائیسکل،جو زندگی کے تمام مشکلات میں اُن کے ساتھ ساتھ رہی اورتمام طرح کے فرائض منصبی کی ادائیگی میں اُن کی مددکرتی رہی۔ مثال کے طورپراپنی تمام ترذمے داریاں اورگھریلو کام کاج اسی بائیسکل پر سرانجام دیتے تھے اور بائیسکل بھی اسی طرح چلاتے تھے جیسے کوئی بیمارگھوڑا لدا ہوا تانگہ گھسیٹ رہا ہو۔ (33)
گویا اعظم کُریوی کی حیات کا ابتدائی دور جس قدر آسودہ حالی میں بسر ہوا، اس کے برعکس اُن کی زندگی کاآخری دور کسمپرسی اور تنگ حالی میں گزرا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہاجاسکتاہے کہ اُنھوں نے بچپنے میں گھوڑی اور کاٹھی کی شاہی سواری کا لطف اُٹھایاتو ضعیفی میں اُنھیں ٹوٹی پھوٹی اورکھٹارابائیسکل کی رفاقت برداشت کرنی پڑی۔ وہ خود کو مصروف رکھنے میں یقین رکھتے تھےاور خالی بیٹھنا اُنھیں سخت ناگوار تھا۔بقول ضمیر جعفری :ملیر سے ڈیوٹی ٹرک لے کر ہم لوگ جب کبھی کراچی جاتےتو اعظم اپنی بائیسکل بھی اُسی میں رکھ لیتے، جہاں ٹرک نہ جاسکتاوہاں وہ بائیسکل پر ہوآتے۔ بازارمیں اچھے بھلے چلتے چلتے اچانک معذرت کرکے یکبارگی غائب ہوجاتے۔پھر اللہ معلوم کہاں کا چکرکاٹ کراچانک کسی موڑپر آن ملتے۔ گویا ابھی تھے ابھی نہیں ہیں۔ آرام اُن کی سرشت ہی میں نہ تھا۔ دوستوں کی بےتکلف صحبتوں میں ان کی گفتگو پر بھی مشقت کا گمان ہوتا۔اعظم کو میں نے آرام سے فارغ بیٹھا کبھی نہ دیکھا۔ بعض اوقات گمان ہوتاکہ فارغ بیٹھنے سے اُنھیں شدید تکلیف ہوتی تھی۔ دفترتو خیر دفترتھا، گھرپربھی جب ملے تو ہمیشہ مصروف ملے،کبھی چارپائی کا بان ادھیڑ رکھاہے۔کبھی دھوتی باندھے گھر کی صفائی میں جٹے ہیں۔کبھی نواسے، نواسوں کے حلقے میں بیٹھےباتیں کررہے ہیں۔ کچھ نہیں کررہے ہیں تو بائیسکل پر چڑھے کسی طرف ہی چلے جارہے ہیں۔ (34) اُن کے پاسگھریلو ذمہ داریوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی ایک لمبی لسٹ ہوتی تھی اورکب کیا انجام دینا ہے وہ سب اُن کی ٹیبل ڈائری میں مندرج رہا کرتے تھے، مثلاً: ۶؍ تاریخ کو اِفتخار کی فیس،۹؍کو یوبوکا امتحان،۱۲؍ کو مارٹن روڈ پر لکڑی، ۱۵؍ کو لاڑکانہ حساب، ۲۰؍کوبڑی بیگم کے گھی،۲۴؍ کو بچوں کولے جانا وغیرہ وغیرہ۔(35)پھربھی وہ بڑے اطمینان وسکون سے اپنے کام میں مصروف رہتےاور بڑی سے بڑی ذمہ داری کوبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونےدیتے۔گویا اعظم کُریوی کی شخصیت ایک ایسے مضبوط مجسمے کی طرح تھی جو بادِ باراں کی تند یورشوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور اپنی جگہ اٹل رہتی ہے۔(36)
بحیثیت سوشل ورکر:چوںکہ اعظم کُریوی کا آخری زمانہ کسمپرسی اور کلفت میں گزرا اِس لیے وہ سامنے والے کا دکھ درد بخوبی سمجھتے تھے۔بنابریں دوسروں کے دکھ- درد میں کام آنا وہ اپنا فرض منصبی جانتے تھے، اور پیرانہ سالی میں لوگ عام طور پرآرام طلب واقع ہوتے ہیں بلکہ ایک گلاس پانی کے لیے بھی کسی نہ کسی کی مدد کے طالب ہوتے ہیں، لیکن اعظم کی شخصیت اِس اعتبار سے منفرد اورقابل رشک نظرآتی ہےکہ وہ نہ صرف اپنے گھریلو کام- کاج بذات خودکرنےمیں فرحت واِنبساط محسوس کرتے تھےبلکہ دوسرں کے کام آنے میں بھی اُنھیں یک گونہ فرحت وسرورکا احساس ہوتا تھا۔ وہ اکثرآتے جاتے اپنے آس- پاس والوں سے پوچھتے کہ کسی کو کچھ منگاناتو نہیں ہے؟ یہاں تک کہ کبھی کبھی تو پڑوس کے کچرے بھی خوشی خوشی باہر پھینک آتے تھے۔ یہاں تک کہ۔ نماز کےلیے جاتے ہوئے بھی وہ کچرا وغیرہ مانگ کرلے جاتے تھے ۔ (37)اوراِسی بس پر نہیں تھا بلکہ خانہ داری کے انتظام وانصرام میں اُن کی مشق ومہارت کا یہ عالم تھاکہ ازراہِ محبت اپنی ہم پیشہ ضمیر جعفری کے بعض گھریلو اِنتظامی اُمور بھی اُنھوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔(38)
یہی وہ انسانی جذبہ تھا جو اعظم کریوی کو کام ،کام اورصرف کام میں مصروف کررکھاتھا،ممکن ہے کہ وہ اس میں یقین رکھتے ہوں کہ’’زمین کے اوپر کام اورزمین کے نیچے آرام‘‘۔یہ گمان اس طورپربھی یقین میںبدل جاتاہے کہ اُنھوںنے جو بھی کام کیا وہ نہایت انہماک اور لگن کے ساتھ کیا، چاہے وہ گھریلو اُمورہوں،چاہے انسانی جذبے کے تحت کوئی کام ،یاپھر دفتری امور ہوں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی تو دفترکا وقت ختم ہوجاتاپھر بھی وہ دفتری کاموں میں مشغول رہتے اور بقایاکاموں کو نبٹاتے رہتے۔یعنی دفتر کا وقت ختم ہوچکاہوتا اورحفیظ صاحب آوازیں دے رہے ہوتےکہ ڈاکٹر صاحب آئیے! دن بھرکی محنت کے بعد اَب کچھ گپ شپ ہوجائے مگر وہ ہیں کہ اب نئے سرے سے دفترکھول کر بیٹھ گئے ہیں۔ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتے: مرشد! مجھے ابھی معذور ہی سمجھئے،بہت کام بقایاپڑا ہے۔ آپ افسرسہی، محکمہ تو مجھی کو چلانا ہے۔ کام نہ ہوتا تو پیدابھی کرلیتے، حفیظ صاحب دفتری ڈرافٹوں میں شعر کی جامعیت کے قائل تھے اورڈاکٹر صاحب افسانوی پھیلاؤ کے، اُن کی کوشش ہوتی کہ ڈرافٹ مرزاغالب کی غزل ہو،اِن کی کوشش ہوتی کہ ڈرافٹ میں تمہید، پلاٹ، مرکزی خیال، نقطۂ عروج سب کچھ ہو۔نتیجہ یہ نکلتاکہ کام پیدا ہوتا رہتا۔ (39)اور ایک دن آخر وہی ہوا جوہوناتھاکہ اعظم کریوی کی صحت بگڑنے لگی، کیوںکہ قوت برداشت سے زیادہ کام کااثر صحت پر تو پڑنا لازمی تھا،لہٰذا وہ چوطرفہ مسائل ومشکلات، مثلاً: ضعف و نقاہت، کثرت کاز، مالی پریشانی اور سیاسی افراتفری کے شکار ہوئےبغیر نہ رہ سکے،لیکن ایسے عالم میں بھی انھوں نے خود کو قابو میں رکھااور حالات کی سنگینی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے جہدمسلسل اورعمل پیہم کو اَپناشعار بنائے رکھا۔حالاںکہ اخیر سال میں صحت کمزور، آمدنی قلیل، تین چارکنبوں کی کفالت کے باعث اعظم کا رنگ مرنے سے پیشتر ہی زرد ہوچکا تھا۔ نہ جانے وہ زندگی کے کتنے محاذوں پرلڑرَہے تھے مگر زندگی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پرہرگزآمادہ نہ تھے۔ جس جس طرح کی مادّی وذہنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے اُنھیں دیکھاگیا،اگرکوئی اور ہوتا تومدتوں پہلے گھٹنے ٹیک دیتا مگر وہ برابرلڑتے جارہے تھے۔ (40)اوپر سے ہجرت اورمہاجر ہونے کے باعث اُن کی پریشانیوں میں اور اِضافہ ہوتاچلاگیا۔اُس پر ملازمت سے سبکدوشی نے رہی سہی اُن کی کمربھی توڑدی اور وہ اَن چاہامشکلات ومصائب میں گھرتے چلے گئے۔
بحیثیت انسان نواز:اِس سے قطع نظرکہ اعظم کُریوی بچپن میں ضدی اور غصہ ور طبیعت کے مالک تھے، جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی اُن کے اندر انسان دوستی اور احباب نوازی کا جذبہ بڑھتا گیا۔ چناںچہ جو کبھی بچوں کے شوروغوغا سے گھبرایاکرتے تھے اور کبھی کبھی بچوں کواُن کی شرارتوں پر اُنھیں طمانچے بھی ماردیاکرتے تھے۔ایک وقت ایسا بھی آیاکہ وہ اُنھیں پوتوں اور نواسوں کے ساتھ وقت گزارنے لگے۔ پھراُن کی یہ محبتیں اور شفقتیں صرف اپنوں تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ زندگی میں جوکوئی بھی ایک بار اُن سےمل لیا،یا اتفاقاًکسی سے کبھی کوئی ملاقات ہوگئی توبھی اُس کو ہمیشہ یادرکھتے اور جب دوبارہ اُس سے ملاقات ہوتی تو اُس کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آتے۔ شاہد احمد دہلوی مدیر ماہنامہ ’’ساقی‘‘ کراچی کے بقول:اتفاق سے اُن سے پہلی ملاقات میرٹھ کے نوچندی میں ہوئی۔ تعارف ہوتے ہی گلے سے لگایاکہ نہ جانے کب کے ترسے پھڑکے ہوئے تھے۔ پھراُس پر سخت مصرکہ نہیں ،ابھی میرے ساتھ میرے گھر چلو۔ میرٹھ میں کہیں اورٹھہرے ہی کیوں؟ بمشکل تمام انھیں اس پر رضامند کیاکہ کل دوپہر کو قافلہ آپ کے یہاں آئے گا اور خوب جی بھرکے باتیں ہوںگی۔ اگلے دن ہم ان کے گھر گئے توڈاکٹرصاحب خاطر ومدارات میں بچھے جاتے تھے اور باربارشکوہ کرتے تھے کہ میرٹھ آپ آئیں اور کہیں اور ٹھہرجائیں؟کئی گھنٹے اُن سے باتیں ہوتی رہیں۔ شام کی گاڑی سے ہمیں دہلی جانا تھا۔جب ہم چلنے لگے تو ڈاکٹر صاحب رنجیدہ ہوگئے اور اُس وقت تک ہمارا ساتھ نہ چھوڑاجب تک ہمارے تانگے روانہ نہیں ہوگئے۔(41)اور لوگوں سے راہ ورسم اورشناسائی پیدا کرنے میں بھی اعظم بڑے تیز واقع ہوئے تھے۔ راہ چلتے چلتے،بس یا ٹرم میں بیٹھیے بیٹھے ،اجنبی لوگوں سے اچھی خاصی جان پہچان بنالیتےتھے۔ ٹیلیفون کرتے ہوئے کوئی غلط نمبر مل جاتاتو اکثروبیشتر اس اتفاقیہ تقریب کو باقاعدہ تعارفی تقریب کے قالب میں ڈھال دیتے تھے اورکمال تو یہ تھاکہ ان لوگوں کو یادبھی رکھتے تھے۔ البتہ! گہری دوستیاں قائم کرنے کی طاقت اُن میں نہ تھی لیکن جس کسی سے بھی اخلاص کا رشتہ ایک بارقائم ہوجاتا تو وہ دیدہ ودل اس کے سامنے فرش راہ کردیتےتھے۔ (42)
حالاںکہ ایک وقت ایسا بھی آیاکہ اعظم کریوی سخت مالی بحران کا شکار تھے پھربھی اُنھوں نے احباب نوازی سے منھ نہیں موڑا۔ پُرانے تعلقات کے رکھ رکھاؤ،احترام اور وضع داری میں اپنی معذوریوں، مجبوریوں کو یکسر بھول جاتے تھے۔ایک مرتبہ کراچی سے اپنی سائیکل پرسوارواپس آئے اور کہنے لگے:بھائی صاحب! کل شام کا کھانا ہمارے یہاں کھائیےگا۔ خیرت تو ہے؟میں نے تعجب سے پوچھا۔معلوم ہواکہ ہندوستان کے ایک مشہورشاعرجواِن دنوں کراچی آئے ہوئے تھے،اُنھیں کھانے پر مدعو کرآئے ہیں۔یہی نہیں بلکہ اُن کے ساتھ 15-20؍ دیگراصحاب بھی، جو اُس وقت جناب شاعر کی خاطرداری میں مصروف تھے۔فرمایا:مجھے معلوم ہے کہ اس ایک دعوت کالایاہواقحط مہینوں اب میرے گھر میں رہے گامگر بھائی صاحب!مدت کے بعد اُن سے ملاقات ہوئی ہے۔ملنے چلاگیا تو اَب کیاکرتا …اُن سے کیا کہتا؟(43)گویا اعظم کریوی کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی آدمی اُن کے قریب رہے اور اُن کے اخلاص، اُن کے انکسار،اُن کی ہمدردی اورتعلقات میں اُن کی گرمجوشی سے متأثر نہ ہو پائے۔ وہ جس کسی کے قریب جاناچاہتے تواِنتہائی کشادہ دلی سے اپنے آپ کو اُس کے سپردکردیتے۔اُن کی شخصیت شہداورموم کی بنی ہوئی تھی۔میں نے کبھی ایک سنگریزے کی کسک بھی اُن میں محسوس نہیں کی۔مزاج ایسا پایا تھاکہ اس مزاج کا آدمی جہاں کہیں بھی مل جائےتواُسے اٹھاکر دفتر میں رکھ لیناچاہیے، مثلاً: ملائم، متحمل اور معاملہ فہم۔(44)اور اِن تمام باتوںکے پیچھے اُن کی غیر معمولی ذہانت کارفرما تھی۔ وہ جب بھی کوئی رائے دیتے تو بڑے سلیقے سے دیتے۔ضمیرجعفری بتاتے ہیں کہ معاملات پر اپنی ایک رائے بھی رکھتے،موقع محل دیکھ کر اُس کا اظہار بھی ضرور کرتے، مگر سب کچھ اِس سلیقے کے ساتھ کہ گویا اپنی کوئی رائے ہی نہیں۔ کوشش یہ ہوتی کہ ڈائریکٹر صاحب (حفیظ جالندھری) اُن کی رائے خوداپنی رائے سمجھ کر اُس پر عمل کریں۔وہ اپنے نقطۂ نظر کو واشگاف الفاظ میں بیان نہیں کرتے تھے،بلکہ افسر کو گھیرگھارکر اُس تک لے آتے تھے۔ اپنے کام کی اہمیت، اس کی مقدار ومعیارپر روشنی ڈالنے کا ملکہ اُن میں وافر اندازمیں تھا۔(45)
اعظم کُریوی کی انسان دوستی کے شاہدوہ خطوط بھی ہیں جو اُنھوں نے اپنے احباب اور متعلقین کو لکھے ہیں۔لیکن افسوس ہے کہ اُن کے خطوط، مجموعہ کی شکل نہ پاسکے اوراگر کچھ شائع بھی ہوئے تو اُنھیں قابل اعتنانہ سمجھاگیا۔مختلف مواقع پر شاہداحمد دہلوی اوراعظم کُریوی کے مابین مراسلاتی تعلقات قائم رہے،چناںچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ اُن(اعظم کریوی)کے خطوط سے بڑی محبت ٹپکتی تھی۔(46)انھوں نے وقتاً فوقتاًیوسف کمال ناروی کے نام بھی کئی خطوط لکھے جن سے اُن کی شخصیت پر بخوبی روشنی پڑتی ہے۔ مثال کے طورپر23؍ستمبر 1944ء کے اپنے ایک خط میں وہ لکھتے ہیں:والدصاحب،والدہ صاحبہ،محسن صاحب، مرشد، نور مرشد، ماسٹر صاحب، بڑے بابو کو سلام، بچوں کو پر خلوص دعائیں۔ (47) اور 13؍دسمبر 1944ء کو ایک دوسرے خط میں لکھاکہ میری بیگم آپ کو دعاکہتی ہیں۔بچے سلام عرض کرتے ہیں۔ نمبردار بحساب عمربچوں کے نام سن لیجئے:افتخاراحمد،زینت النساء، تہذیب النساء، نیراَعظم، نیراعظم سب سے چھوٹے ہیں۔ قیصرو توصیف سلمہ کو بہت بہت دعائیں۔ ہاں! میں نے دریافت کیاتھا کہ والد صاحب کا جو تبادلہ کلکتہ ہوگیا تھاوہ منسوخ ہوا،یانہیں؟مگر آپ نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا۔ میری طرف سے والدہ صاحبہ، والدصاحب، مرشد، محسن صاحب، نورجہاں، ماسٹر صاحب، بڑے بابو،ڈرائیور صاحب وجملہ پُرسان حال کو سلام۔ (48)اِس طرح سے نام بنام سلام ودعائیں بھیجنا،یہاں تک کہ ڈرائیور کو بھی سلام، اعظم کُریوی کی انسان دوستی کی واضح دلیل ہے ۔
مذہب و ملت نوازی:اعظم کُریوی کی پیدائش اورتعلیم وتربیت جس خاندان میں ہوئی اُس کاماحول مذہبی اور دینی تھا۔ اُنھوں نے اپنے خاندان کو حضرت بہاء الدین زکریاملتانی قدس سرہٗ سے منسوب کیاہے جو اَپنے وقت کے جید عالم دین اور شریعت وطریقت کے امام تھے۔اس اعتبارسے دیکھاجائے تو مذہبی اور دینی رجحان اُن کو وَرثے میں ملا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پختہ مذہبی اور دیندار طبیعت کے مالک تھے۔ اسلامی عقائد سے اُنھیں بڑی رغبت تھی اور مذہبی اکابرین سے بھی اُنھیں خاصہ لگاؤ تھا،بلکہ وہ اسلامی احکام وشعائر کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔منقول ہے: دوسری عالمی جنگ (1943-1944ء) کے وقت اُن کا تبادلہ بنگال میں کردیا گیا۔ وہاں سے محمد یوسف کمال ناروی کی درخواست پر اُن سے ملنے کے لیے بنڈیل جنکشن، ناروی صاحب کے گھر گئے۔ اس وقت وہ انگریزی پتلون میں تھے لیکن پتلون کے نیچے چوڑی دار پائجامہ پہن رکھاتھا۔جب نمازکاوقت ہواتو اُنھوں نے پتلون نکال دی اورچوڑی دار پائجامہ میں نماز ادا کرلی۔اِس طرح اُنھیں نماز ادا کرنے میں کوئی قباحت اوردقت نہیں ہوئی۔(49)حکیم اسراراحمد کریوی لکھتے ہیں کہ اعظم کریوی بڑے خشوع وخضوع سے نماز اداکیاکرتے تھے اورسورۂ یس کی تلاوت باقاعدگی سے کیاکرتے تھے۔ (50)ناہید اَعظم کا کہنا ہے کہ اُن کو شہدائے کربلا سے بھی بڑی عقیدت تھی اور اِس کا واضح ثبوت سات اشعار پر اُن کاایک ’’سلام ‘‘ہے جوماہنامہ ’’اخبار اعظم‘‘ کراچی ، جون-جولائی 1990ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔یہ مذہبی وملی جذبہ ہی تھاکہ اُنھوںنے ’’ایودھیا مسجد‘‘پر ایک تفصیلی مضمون لکھا،اوراُس میں ہندو-مسلم تنازع، مسجد کی تاریخ اور حکومت کی سستی وکاہلی اوراُس کی جانب داری وتعصب کو نمایاں کیا۔یہ مضمون ’’خلافت‘‘میں 1937ء میں شائع بھی ہوا تھا۔ سال 1955ء میں جب اعظم کُریوی ایک جانکاہ حملے میں اِس دنیا سے چل بسے تواُس وقت خراج عقیدت کے طورپر ’’خلافت‘‘کے ایڈیٹررئیس احمد جعفری نے اُن کی شخصیت پر ایک مضمون بنام ’’ڈاکٹر اعظم کریوی مرحوم‘‘ لکھاتواُس میں اُنھوں نے ایودھیا مسجدپر مشتمل مضمون کے بارے میں بالتفصیل ذکرکیا، وھ لکھتےہیں:’’اجودھیا کی مسجد کاہنگامہ چل رہا تھا۔یہ واقعہ غالباً 1937ء کا ہے۔ میں ’’خلافت‘‘کا ایڈیٹر تھا۔اُس مسجد سے متعلق ایک مفصل مقالہ جوبہترین معلومات پر مشتمل تھا ۔جس میں مسجد کی تاریخ،ہندومسلم تنازع کی تاریخ، حکومت کے تساہل اور جانب داری کی مستند اورمفصل تاریخ درج تھی، میرے پاس آیا۔نیچے اعظم کریوی کے دستخط تھے۔ میں نے اُسے پڑھا اور نمایاں طورپر ’’خلافت‘‘ میں شائع کیا۔پھر اُسی پر پے درپے مقالات ِادارت لکھے۔ حکومت نے ضمانت طلب کرنے کی تیاریاں کیں لیکن کیس اتنامضبوط تھا کہ نہ کرسکی۔مضمون نگار کانام معلوم کرناچاہا۔میں نے بتانے سے انکارکردیا۔ مراسلہ مانگا۔میں نے کہا وہ ضائع ہوگیا۔ڈاکٹر صاحب فوج میں ملازم تھے۔ میرے اِس طرز عمل سے بہت متأثر ہوئے۔ یہ واقعات اُن کے علم میں آچکے تھے۔ محبت بھرے خط آنے لگے۔… ‘‘(51)’’ خلافت ‘‘کے ایڈیٹرمحترم رئیس جعفری کی مذکورہ تحریر سے اعظم کریوی کی مذہبی وملی جذبے کے ساتھ اُن کی حق گوئی اور بےباکی کابخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
حب الوطنی:شاہد احمد دہلوی کے مطابق اعظم کُریوی نے عرصۂ دراز تک دیہات میں زندگی گزاری اور ڈاکٹر حامدکمال ناوری کا یہ کہناکہ اعظم کُریوی زیادہ تر اپنے وطن سے باہر رَہے اور شہر میں اُن کا وقت زیادہ گزرا۔اِن دونوں باتوں میں مطابقت تلاش کرنے کے بجائے یہاں یہ دیکھنااہم ہےکہ اعظم کُریوی کو اپنے وطن اور گاؤں سے کس قدر محبت تھی اوراُنھیں علاقہ اورعلاقہ کے باشندوں کا کس قدر خیال تھا؟اب چاہے وہ دیہات میں زیادہ رہے ہوں یا شہر میں، بہرصورت اُنھیں اپنے وطن اور گاؤں سے حددرجہ محبت تھی۔ یہی وہ اصل وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے قلمی نام ’’اعظم‘‘ کے ساتھ اپنے گاؤں’’کُرئی‘‘کی نسبت کے باعث ’’کُریوی‘‘لکھناشروع کیا۔ اِس سے تعلق ایک مرتبہ شاعرنوح ناروی نے اعظم کریوی سے دریافت کیا:
’’اعظم !اپنے نام کے ساتھ ’’کُریوی‘‘کیوں لکھتے ہو؟ تواُنھوں نے جواب دیا: اُستاذ ! میں چاہتا ہوںکہ میرا گاؤں پوری دنیا میں مشہور ہو، اور ایک دن دیکھئے گا کہ میرے گاؤں کانام پوری دنیا میں ضرور مشہور ہوگا۔‘‘
اورآج اُن کا یہ کہناسچ ثابت ہورہا ہے کہ آج ایک معمولی گاؤں ’’کرئی‘‘دنیامیں معروف ہے۔نیز اِس میں دورائے نہیں کہ اعظم کُریوی تعلیم وتعلّم یا پھر ملازمت کے سلسلے میں اپنے وطن سے باہر رہے ،مگر وہ ہمہ دم اپنی وطن دوستی کاثبوت فراہم کرتے رہے۔ مثلاًجب بھی وہ کچھ تحریرکرتےتواُس تحریرکے آخرمیں اپنے گاؤں کا نام ضرورلکھتے۔چناںچہ جب’’ہندی شاعری‘‘کادیباچہ لکھا تو اُس کے خاتمے میں اپنانام اور اپنے گاؤں کانام اِس نہج پر لکھا:
اعظم کریوی
کورئی ،الہ آباد
25اگست 1928ء
جب کہ اُس وقت اعظم کریوی کی پوسٹنگ ’’کوئٹہ ‘‘میں تھی،لیکن پھر بھی اُنھوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’کوئٹہ‘‘ کی جگہ اپنے چھوٹے سے گاؤں ’’کُرئی‘‘ کا نام لکھا جواُن کے آبائی وطن سے بے لوث محبت اورمثالی لگاؤ کی دلیل ہے۔اُسی طرح اپنےافسانہ’’پریم کی لیلا‘‘میں اپنے وطن کا ذکراِس طورپر کیا ہےکہ گویا اُن کاگاؤں نہایت ہی مشہور و معروف گاؤں میں سےایک ہو،مثلاً: ’’کورئی گھاٹ کے پاس گنگاجی کے کنارے الہ آبادکے ضلع میں ایک گاؤں رام چورا ہے۔‘‘ یہاں’’کورئی گھاٹ‘‘کے ذکرکی کوئی ضرورت نہیں تھی،کیوںکہ ’’کورئی گھاٹ‘‘ کے بالمقابل ’’گنگاجی‘‘،’’الہ آباد‘‘ اور ’’رام چورا‘‘ زیادہ مشہور تھا۔بلکہ صرف اتناکہہ دینابھی کافی تھا کہ ’’گنگاجی کے کنارے الہ آباد ضلع میں ایک گاؤں رام چورا ہے۔‘‘ لیکن اعظم کریوی نے اپنے غیرمعروف گاؤں کو بھی اِس طرح پیش کیاکہ جیسےوہ کوئی مشہورِعالم گاؤں ہو۔یہ بھی اپنے گاؤں اور وطن سے اُن کی محبت کی واضح دلیل ہے۔
ملازمت کے سلسلے میں اعظم کریوی ملک کے مختلف گوشوں میں رہے، لیکن جہاں کہیں بھی رہے وطن اورگاؤں کی یاد اُنھیں ستاتی رہی۔یہی وجہ ہےکہ جب جہاں اُنھیں اظہارکاموقع ملا اپنے گاؤں سے محبت اوروطن دوستی کامظاہرہ کربیٹھے۔ خواہ نثرکے توسط سے ہویانظم کی توسط سے، مثلاً:
اعظم تمام عمر غریب الوطن رہا
خانہ بدوش ہوں کہیں دنیا میں گھر نہیں
وطن میں عیدنہ مناپانے پر اَپنے غم کااظہارکچھ اس انداز سے کرتے ہیں:
ہم تو ہیں پردیش میں اعظم منائیں عید کیا
دید کے قابل مگر اہل وطن کی عید ہے
اعظم کُریوی کے کئی خطوط ایسے بھی ہیں جن سے اُن کی وطن دوستی ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر 13؍دسمبر 1944ء کو اُنھوں نے ایک خط محمدیوسف کمال ناروی کے نام لکھا۔اُس میں وہ لکھتے ہیں کہ سخت انتظارکے بعدنارہ شریف کا چلاہواخط مجھے یہاں ملا۔ مجھے کیا معلوم تھاکہ آپ اب تک وطن کی فضاؤں سے لطف اندوز ہورہے ہوںگے۔ چناںچہ میں بغرض یاد دِہانی خط لکھنے ہی والا تھا کہ آپ کا گرامی نامہ مل گیا۔بہت خوشی ہوئی۔
پھر 20؍اگست 1946ء کو اَنبالہ چھاؤنی سے محمدیوسف کمال ناروی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ آپ کا 17؍اگست کا کارڈ ملا۔آخر آپ ہگلی سے جو پھسلے لب گنگا پہنچے۔ وطن پہنچ ہی گئے۔اِس سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے۔والد صاحب بھی فیض آباد آگئے ۔ یہ سب اللہ کا فضل وکرم ہے۔بنڈیل ہزار رُومانی مقام ہو مگر’’حب وطن از ملک سلیماں خوش تر‘‘۔اب آپ الہ آباد آگئے ہیں تو آپ سے ان شاء اللہ جلدجلد ملاقات ہوتی رہے گی۔ یہاں کا موسم خوش گوار ہے، میرے الہ آباد کا کیا حال ہے ؟(52)
خلاصہ یہ کہ اپنے وطن سے ایسی محبت کون کرسکتاہے۔اعظم کریوی نے یہ نہیں لکھاکہ ’’الہ آباد‘‘ کا کیا حال ہے؟بلکہ یہ لکھاہے کہ ’’میرے الہ آباد‘‘ کا کیاحال ہے؟الہ آباد کے ساتھ ’’میرے‘‘ کا لفظ وجدانی کیفیت کا مظہرہے۔(53)لیکن یہ کون جانتا تھا کہ ایک دن وہ بھی آئے گا کہ اعظم کریوی نہ صرف اپنے وطن سے دور ہو جائیں گے بلکہ اپنے گاؤں اور وطن کی گودمیں سونے کے بجائے دیارِغیرمیں ایک مہاجر کی طرح دنیاسے رخصت ہوںگے۔
تحریک آزادی :ایک غیورقوم اورسچے ہندوستانی کی طرح اعظم کُریوی بھی آزادی کے حامی اور دلدادہ تھے ۔انگریز اُنھیں ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ ملازمت میں جوترقی اُنھیں ملنی چاہیے تھی وہ نہ مل سکی،کیوں کہ اعظم کُریوی دفترمیں بھی انگریزوں اور اُس کے بہی خواہوں کے آداب و تعظیم اُن کی مرضی کے مطابق نہیں کرپاتے تھے،اورکبھی کبھی نوبت تواِس حدتک پہنچ جاتی تھی کہ اعظم کُریوی انگریزافسروں سے بھڑبھی جاتے تھے۔ سرکاری ملازم ہونےکے باوجود اَعظم کُریوی خفیہ طورپر قومی اورملی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔خود بھی ولایتی سامان سے احتراز کرتے اور دوسروں کو بھی اِس بات کی ترغیب دیتےکہ وہ لوگ بدیسی سامان کے بجائے دیسی سامان استعمال کریں اور بدیسی دکانوں کے بجائے دیسی دکانوں سے چیزیں خریدیں۔انگریزبیزاری اور آزادی کی خواہش صرف اُن کے قلب کے اندرہی نہیں تھی بلکہ یہ سب باتیں اُن کی تحریروں اور افسانوں میں بھی باقاعدگی سے نظرآتی ہیں ۔اِس تعلق سے اُن کے افسانے ’’انقلاب‘‘،’’کرنی کاپھل‘‘ وغیرہ بطورمثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹراعظم کُریوی ویسے تومطلق انگریز سے نالاں تھے، لیکن بالخصوص اُن کی بدسلوکی اور ہندوستانیوں کے ساتھ ان کاغیر انسانی رویہ اُنھیں بالکل پسندنہیں تھا۔ان کے متعدد افسانے ایسےہیں جن میں اُنھوں نے انگریزوں کی بدسلوکیوں اوراُن کی غیرانسانی حرکتوں کو عوام الناس کے سامنے واضح طورپر پیش کیاہے۔چناںچہ اپنے ایک افسانے میں وہ لکھتے ہیں کہ سرکاری ملازم ہوکر بھی وہ پوشیدہ طورسے ملی اور قومی کاموں میں بہت حصہ لیتے ۔ولایتی دکانوں کے بجائے وہ ہمیشہ دیسی سے سودا سلف خریدتے تھے۔ونے کرشن ایسے مشہور لیڈر کا درشن کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب آگے بڑھے۔
انگریزوں کا جو گھٹیارویہ ہندوستانیوں کے ساتھ جاری تھا اُس پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ کلکتہ جانے والی گاڑی پلیٹ فارم کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی اور وِنے کرشن دوسرے درجے میں بیٹھنے کے لیے بڑھے، جیسے ہی وہ کھڑکی کھول کرکمرے میں داخل ہونے لگے اندربیٹھے ایک یورپین صاحب بہادر نے ڈانٹ کر کہا: ’’یو،کالاآدمی کی گاڑی نہیں۔‘‘وِنے کرشن نے کہا: ’’کیوں، میرا روپیہ بھی کالاہے؟میرے پاس سیکنڈ کلاس کاٹکٹ ہے۔‘‘
ایک توحکم نہ ماننااور دوسرے گستاخانہ جواب ایک کالے آدمی کی طرف سے سفید چمڑے والانہ سہن کرسکا۔ اُٹھا اور دھوتی قمیص ریشمی چادر اوڑھنے والے سوراجی لیڈر کو پلیٹ فارم پر ڈھکیل دیا، اور اِس کے ری ایکشن میں اسٹیشن پر اُس انگریز کی جودرگت بنی اُس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: جووالنٹئیراورقوم پرست لوگ وِنے کرشن کو پہنچانے آئے تھے وہ سب اُن کی بے عزتی ہوتے دیکھ کر آپے سے باہر ہوگئے۔ والنٹیئروں نے بندے ماترم کانعرہ لگایا اوردوتین آدمی کمرے میں گھس کر صاحب بہادرکو باہر کھینچ لائے اورچاروں طرف سے بے بھاؤ کے پڑنے لگے ۔ شوروغل سن کر اِس طرف گارڈ آرہاتھا وہ صاحب بہادر کی گت دیکھ کر چپ چاپ بریک وان میں گھس گیا، بڑی مشکل سے سمجھ دارلوگوں نے صاحب بہادر کو بچالیا۔ (54)
یہ تمام مناظردراصل اعظم کریوی کی آزادی کی حمایت اورانگریز سے نفرت کو بیان کرتا ہے۔مذکورہ افسانے میں اعظم کریوی نے اپنے دلی جذبات اور چشم دید حال پیش کیاہےکہ کس طرح قومی وملی پروگرام میں وہ چھپ چھپاکر حصہ لیتے،مجاہد آزادی سے ملاقات کرتے(جیساکہ ونے کرشن سے ملاقات کی)، اوراِس طرح ملازمت میں رہتے ہوئے ملکی وملی مفادکے لیے سرگرم عمل رہے۔
ز ز ز
مصادر ومآخذ
(1-2)ماہنامہ اخباراعظم،کراچی، اعظم کریوی نمبر، جون و جولائی، 1990ء، ص:62
(3-6)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب:2،فصل:4( قلمی نسخہ)
(7)ماہنامہ اخباراعظم، اعظم نمبر،جون-جولائی،1990ء، ص:62
(8-9)میرا پسندیدہ افسانہ،ص:105،مصنفہ بشیر ہندی بحوالہ اخباراعظم،کراچی
(10-13)ماہنامہ اخبار اعظم،اعظم نمبر،جون-جولائی، 1990ء، ص:62
(14)میرا پسندیدہ افسانہ،ص:106،مصنفہ بشیر ہندی بحوالہ اخباراعظم،کراچی،1990ء
(15)اُردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب:2،فصل:4(قلمی نسخہ)
(16)ماہنامہ اخباراعظم، اعظم کریوی نمبر،جون-جولائی ،1990ء
(17)اُردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب:2،فصل:4(قلمی نسخہ)
(18)ماہنامہ نیرنگ خیال،سالنامہ نمبر،دسمبر 1934ء،ص:30
(21-19)اُردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب:2،فصل:4(قلمی نسخہ)
(25-22)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر، 1955ء،ص:32-31
(26)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب:۲،فصل:۴(قلمی نسخہ)
(27)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر، ۱۹۵۵ء،ص:۳۱-۳۲
(28-29)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب:2،فصل:4(قلمی نسخہ)
(30-31)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر،1955ء،ص:32
(32-35)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر،1955ء،ص:33
(37-36)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب:2،فصل:4(قلمی نسخہ)
(39-38)ماہنامہ ساقی کراچی،نومبر،1955ء،ص:32
(40)حوالہ سابق،ص:34
(41)حوالہ سابق، ص:12
(42)حوالہ سابق،ص:34
(43-45)حوالہ سابق،ص:33
(46)حوالہ سابق، ص:12
(47-49)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب:2،فصل:4 ( قلمی نسخہ)
(50) ماہنامہ اخباراعظم، کراچی ،جون-جولائی، 1990ء، ص:26
(51)روزنامہ زمیندار،لاہور،27؍جون 1955ء
(52-53)اردوافسانے کی تشکیلی روایت میںڈاکٹر اعظم کریوی کا حصہ، ص:321-320
(54)افسانہ ’’کرنی کاپھل‘‘
مراسلت کا پتا:
(ڈاکٹر)محمد جہاں گیر حسن
شاہ صفی اکیڈمی/ جامعہ عارفیہ ، سید سراواں، ضلع کوشامبی(یوپی) پن کوڈ: 212213
Dr. Md Jahnagir Hasan
Shah Safi Academy/Jamia Arifia
Saiyed Sarawan, Kaushmabi (U.P.)
Pin. 212213
E-mail:- mjhasan2009@gmail.com
Mobile: 9910865854/9794364306
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page