افسانہ ‘ عید گاہ’ اور ‘عید گاہ سے واپسی ‘ – ایک تقابلی جائزہ
ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہ اردو، ملت کالج دربھنگہ (بہار)
اردو افسانے کے ایسے کرداروں کی ایک فہرست بنائی جائے جو ابتدا سے اب تک قاری کے ذہن میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں تو بلاشبہ پریم چند کے افسانوں کے کرداروں کی تعداد زیادہ ہوگی. ان میں بھی افسانہ ‘عیدگاہ’ کا چار سالہ حامد سرفہرست ہے. اردو افسانے کا یہ واحد کردار ہے جس نے قاری کوسب سے زیادہ رلایا ہے.موجودہ دور کے معروف افسانہ نگار اسلم جمشید پوری نے اپنے افسانہ ‘عید گاہ سے واپسی ‘میں پریم چند کے اسی چار سالہ حامد کوایک ضعیف کردار کی شکل پیش کیا ہے . دونوں ہی افسانے کی پلاٹ سازی مختلف انداز میں کی گئی ہے. لیکن دونوں ہی افسانے میں حامد کا کردار قاری کو رلاتا ہے یہ پریم چند اور اسلم جمشید پوری کا کمال فن ہے.
عید گاہ کا پلاٹ کوئی پیچیدہ نہیں ہے تاہم حامد کی نفسیاتی الجھن اور کم عمری میں ہی اس کےاندر احساس ذمہ داری کی پھوٹنے والی کونپلوں نے اسےدلچسپ بنا دیا ہے. عید گاہ سے واپسی کے پلاٹ میں بھی پیچیدگی نہیں ہے. لیکن ستر سال کے ضعیف حامد کا عید کے دن عید گاہ جاتے ہوئے اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرنا اور واپسی میں فساد میں اس کا اور اس کے پوتے کا مارا جانا عدم رواداری کا ایک کریہہ منظر پیش کرتا ہے .
افسانہ ‘عید گاہ ‘کا پلاٹ یہ ہے کہ حامد چار سال کا یتیم بچہ ہے جس کی پرورش اس کی بوڈھی دادی اپنی خودداری اور اپنی دعاؤں کے سائے میں کرتی ہے. عید کے دن عیدگاہ جانے اور میلہ گھومنے کے لئے امینہ اپنے یتیم پوتے کو تین پیسے دیتی ہے. کہانی کی باقی تفصیلات مثلاً عید کے دن کی رونق اور اس دن کی خوشی،بچوں میں عید گاہ جانے کا اشتیاق ،دوران سفر ان سب کا مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال اور عید کی نماز میں بلا تفریق نمازیوں کی صف بندی وغیرہ کا ذکر حامد کے اس نفسیاتی الجھن سے دلوں کو تڑپا دینے والی حقیقت کو پیش کرنے کے لئے کیا گیا ہے جہاں بچے نماز کے بعد میلے میں مٹھائیاں اور کھلونے کی دکان پر پہنچ کر خریداری میں مشغول ہوتے ہیں. حامد غریب ہے یتیم ہے اور اس کے پاس صرف تین پیسے ہیں. اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ بھی اور بچوں کی طرح جھولا جھولے، مٹھائیاں خریدے اور دوستوں کے ساتھ مل کر کھائے. لیکن وہ کچھ بھی نہیں کر پاتا ہے. وہ ان ساری چیزوں کو للچائی نظروں سے دیکھتاہے .دراصل نماز کے بعد میلےکے شوروغل میں حامد ایک غیر معمولی نفسیاتی جنگ لڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے. اس جنگ میں ایک طرف حامد یکا و تنہا مفلسی کی بوسیدہ چھڑی لئے کھڑا دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف اس کے مقابل طفلانہ اشتیاق کی ایک کثیر فوج تمام حربے لیے سامنے کھڑی ہوتی ہے. اس غیر معمولی جنگ میں مقابل فوج حامد کو زیر کرنے اور اس پر غالب ہونے کا بار بار زور لگاتی ہے.تاہم حامد کے پاس خود ساختہ دلیلوں کا حربہ ہےجس کے سامنے مقابل فوج بےبس ہے
نہیں کھلونے فضول ہیں. کہیں ہاتھ سے گر پڑے تو چور چور ہو جائے. ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دھل جائے. ان کھلونوں کو وہ لے کر کیا کرےگا، کس مصرف کے ہیں؟
ابھی یہ جنگ چل رہی ہوتی ہے کہ حامد کی نظر لوہے کی دکان پر پڑے دست پناہ پر پڑتی ہے اور اسے خیال آتا ہے کہ توے سے روٹیاں سینکتے وقت اس کی دادی کی انگلیاں جل جاتی ہیں .اور بالآخر چار سال کے بچے کے اندر احساس ذمہ داری کا جذبہ طفلانہ اشتیاق کی کثیر فوج کو شکست دے دیتا ہے .حامد اپنے کل اثاثے یعنی تین پیسے میں دست پناہ مول لینے کے بعد ایک جیتے ہوئے جرنیل کی شان کے ساتھ اپنے دوستوں کے غول میں شامل ہو کراپنی دلیلوں اور تاویلوں سے نہ صرف دوستوں کے کھلونوں کی دھجیاں اڑا دیتا ہےبلکہ اپنے چمٹے کو برتر ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہوتا ہے
عید گاہ سے واپسی کے بعد حامد دست پناہ لئے ہوئےامینہ کے پاس جاتا ہے.یہاں امینہ کا ایک غیر متوقع صورتحال سےسامنا ہوتا ہے. وہ ناراض ہوتی ہے. اور دل مسوس کر رہ جاتی ہے کہ حامد نے کیا خرید لیا. لیکن حامد جب دست پناہ مول لینے کا جواز پیش کرتا ہے تو اس کا غصہ کافور ہو جاتا ہے اور وہ حامدکوڈھیر ساری دعائیں دینے لگتی ہے .
افسانے کے پورے پلاٹ کے تانے بانے میں پریم چند نے حامد کے کردار کو نکھارنے میں اپنی فنکارانہ شعور کی ساری طاقت جھونک دی ہے. حامد چار سال کا بچہ ہے لیکن اس کا شعور مادی حقائق کی تلخیوں سے دل برداستہ نہیں ہوتا اور نہ ان کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہے بلکہ ہر نہج پر اس کا مقابلہ کرتا ہے.بلا شبہ عیدگاہ کی کردار نگاری لاجواب ہے. ایسا لگتا ہے حامد کا کردار افسانہ نگار کا محتاج نہیں ہے بلکہ افسانہ نگار اس کی انگلی پکڑ کر چل رہا ہے.یہی وجہ ہے کہ کہانی کے اختتام پر حامد کے جذبہ ایثار یا دادی کے تئیں اس کی محبت کے لئے امینہ کی دعائیں دولت بے بہا کو بھی شرمندہ کر دیتی ہیں. یہاں قاری بھی اپنا دل مسوس کر رہ جاتا ہے کہ کاش افسانے کا یہ کردار اس کے سامنے آجائے تو اسے ڈھیر ساری مٹھائیاں اور کھلونے خرید کر اس کے ہاتھوں میں تھما دے. افسانے کے اسی وحدت تاثر نے اس افسانے کو لازوال بنا دیا ہے. پریم چند نے عید گاہ کا اختتام جس نہج پر کیا ہے وہ قابل تعریف ہے. کیونکہ یہاں افسانے کے چار سالہ کردار کی معصومیت اور امینہ کی دعائیں قاری کے ذہن میں محفوظ ہو جاتیں ہیں
عیدگاہ کے اس اختتام کے بعد اگر کوئی دوسری کہانی جنم لیتی ہے، خواہ اس کا پلاٹ کچھ بھی کیوں نہ ہو،امینہ کی خودداری، اس کی دعائیں اورحامد کے احساس ذمہ داری کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلم جمشید پوری کی کہانی’ عید گاہ سے واپسی ‘کے ہر ایک واقعہ کے بیان میں چار سالہ حامد قاری کے ذہن میں موجود رہتا ہے .
(ب) عید گاہ سے واپسی –
اسلم جمشید پوری کی کہانی ‘عیدگاہ سے واپسی’ میں چار سالہ حامد ستر سال کا ضعیف ہو چکا ہے. جس غربت سے اس کا واسطہ بچپن میں تھا اسی غریبی اور مفلوک الحالی میں اس کی جوانی گزرتی ہے . اور اب بوڈھاپے کی زندگی بھی زکوٰۃ اور پڑوسیوں کے امداد پر گزر رہی ہے.البتہ اس کے کردار میں وہی تہذیب ہے. سچا، منزہ اور پاک. تقدیر سے کوئی گلہ نہیں کوئی شکوہ نہیں. اس کا بیٹا فساد کی نذر ہو چکا ہے. گھر میں اس کی بیوہ بہو ہے اور پندرہ سال کا ایک پوتا ہے. عید کے دن اپنے پوتے کے ساتھ عیدگاہ جاتا ہے.اسے عیدگاہ جاتے ہوئے اپنے بچپن کی ساری باتیں یاد آتی ہیں. بدقسمتی سے عیدگاہ سے واپسی میں فساد برپا ہو جاتا ہے. اورتمام کوششوں کے باوجود حامد اور اس کا پوتا گولیوں کا شکار ہو جاتے ہیں
ان ستر سال کے طویل مدت میں سماجی تبدیلی کا ایک فرد پر کیا اثر پڑتا ہے، حامد کے کردار کے توسط سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے. اسلم جمشید پوری نے نہایت فنکارانہ شعور کے ساتھ اس حقیقت کو بیان کیا ہے. لیکن قاری ایک بےچینی محسوس کرتا ہے کہ حامد کا زندگی بھر دکھوں سے ہی واسطہ پڑا. دادی امینہ کی دعائیں بھی کام نہیں آئیں. سماج کے بدلتے مزاج نے اس کی دنیا ہی پلٹ دی. جوان بیٹا فساد میں مارا جاتا ہے اور عمر کے آخری پڑاو میں اپنے پوتے اور بہو کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے. آمدنی کا کوئی مناسب ذریعہ نہیں ہے. صدقہ اور زکوٰۃ پر اس کی زندگی منحصر ہے. عید گاہ سے واپسی کو پڑھنے کے بعد قاری کو اس امر کا افسوس ہوتا ہے. کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے افسوس کی شدت بھی بڑھتی جاتی ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ کہانی میں چار سالہ حامد کی معصومیت کا احساس موجود رہتا ہے. قاری کو یہ بھی یاد رہتا ہے کہ اس کی پرورش مجبوری اور مہقوری کے باوجود خودداری کے سائے میں ہوئی ہے. امینہ اپنی تمام تر مجبوری کے بعد بھی صدقہ فطر یا زکوٰۃ نہیں لیتی. لیکن حامد صدقہ اور ذکواۃ پر منحصر ہے. کردار سازی کا تقاضہ تو یہ کہتا ہے کہ فرد کی تربیت جس انداز میں ہوتی ہے اس کے اثرات پوری زندگی پر مرتب ہوتے ہیں.لیکن سماجی تبدیلی کے نتیجے میں فرد کی زندگی میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے. غالباً افسانہ نگار کا موقف ہے کہ ہندوستان میں اقلیتی طبقہ اقتصادی طور پر اس قدر پسماندگی کا شکار ہے کہ اس کے لئے صدقہ یا زکوٰۃ ہی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے.
پریم چند کے افسانہ عیدگاہ اور اسلم جمشید پوری کے افسانہ عیدگاہ سے واپسی میں پلاٹ کے تانے بانے میں کوئی مماثلت نہیں ہے.عید گاہ میں ایک غریب بچے کی ایثار و محبت کی کہانی ہے جبکہ اسلم جمشید پوری نے فرقہ وارانہ فساد یا مذہبی منافرت کو موضوع بنایا ہے اور اس کی روداد کو حامد اور اس کے پوتے کے کردار سے بخوبی سمجھانے کی کوشش ہے.
دونوں کہانی کا کردار ایک ہی ہے. فرق صرف زمانے کا ہے. ایک فرق اور ہے جس کی شدت بے چین کرتی ہے. عیدگاہ کا حامد کہانی خود گڑھتا ہے. افسانہ نگار معدوم ہو جاتا ہے.یہی کیفیت ‘عید گاہ سے واپسی میں بھی موجود ہے. یہاں دونوں ہی افسانے کا حامد ایک پل کے لئے بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتا. یہ اسلم جمشید پوری کا کمال فن ہے. یہ درست ہے کہ کردار پر زمانے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جن کی کردار سازی اس نہج پر ہوتی ہے کہ وہ وقت کے مزاج کو بدل دیتے ہیں. عیدگاہ سے واپسی میں حامد فساد کا شکار نہ ہو کر فساد کو کسی صورت میں روک سکتا تو اس کا کردار اور زیادہ نکھر کر سامنے آتا. ممکن ہے کہ ہندوستان کے بدلتے سیاسی اور سماجی منظرنامےکی جو ستر سالہ تاریخ ہے اس میں اقلیتی طبقہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی بےچینی نے افسانہ نگار کو مجبور کیا ہو کہ وہ کہانی کی پلاٹ سازی اسی نہج پر کرے. کیونکہ بدلتے ہندوستان میں رواداری اور وسیع المشربی جیسی سماجی قدریں فرقہ پرستی کی زد میں آکرجس طرح سے لہولہان ہوئیں ہیں ، اس کا بیانیہ حامد جیسا کردار ہی ہو سکتا ہے جو لوگوں کے دلوں میں ایک. مدت سے رچا بسا ہے .واقعی کہانی میں حالات کی ایسی بے بسی ہے کہ دل کٹ کر رہ جاتا ہے. لہٰذا کردار نگاری کے متعلق میرا موقف یہ ہے کہ’ عید گاہ’ کا حامد جن صفات سے قاری کی توجہ کا مرکز بنتا ہے وہی حامد’عید گاہ سے واپسی’ میں ایک بار پھر قاری کے ذہن میں آ کر اسے بے چین اور مضطرب کر دیتا ہے . عید گاہ سے واپسی میں افسانہ نگار نے فرقہ واریت اور اس کے نتائج کو ترجیح اول کے طور پر ضرور پیش کیا ے. لیکن کہانی کے اختتام پر’ عید گاہ’ کا چار سالہ حامد قاری کے ذہن میں ایک بار پھرآ دھمکتا ہے.ستر سال کا حامد معدوم ہو جاتا ہے. ‘عید گاہ سے واپسی ‘ میں یہی وحدت تاثر اس افسانے کی روح ہے. اور یہی وحدت تاثر فرقہ واریت پر ایک کاری ضرب بھی ہے .
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page