طـلـعـت جـہـاں
جونیئر ریسرچ فیلو، شعبہ اردو،
ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی (باراسات)
ڈاکٹر روحی قاضی وقت کے گرد میں چھپی وہ فن کار ہیں، جنہیں زمانے نے مکمل طور پر فراموش کردیا ہے ۔ وہ ایک لائق معلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ معروف افسانہ نگار، ناول نویس اور مضمون نگار بھی تھیں۔ان سب کے علاوہ وہ ایک صابر و شاکر اور سادہ لوح زندگی گزارنے والی خاتون تھیں ۔ اُن کی شخصیت مرنجان مرنج تھی ۔روحی قاضی کی پیدائش 5 ؍اپریل 1950 ء کو کلکتہ میں ہوئی۔ابھی کم عمری ہی تھی کہ والد بدرعالم جلیلی کا انتقال ہوگیالیکن والدہ کی تربیت اور اپنے ذاتی شوق اور کاوشوں کی بنا پر اُن کا تعلیمی سلسلہ منقطع نہ ہونے پایا۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کلکتہ یونیورسٹی کا رُخ کیااور ایم – اے مکمل ہونے کے بعد پروفیسر ظفر اوگانوی کی زیرِ نگرانی ’آزادی کے بعد اردو ناول میں جدید رجحانات اور تکنیک‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اس طرح انہیں کلکتہ یونیورسٹی سے اردو میں پہلی ڈاکٹریٹ یافتہ خاتون ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ 7 ؍ نومبر 2020 ء کو وہ اس دارفانی سے رخصت ہوگئیں۔
روحی قاضی کے والد ادبی دنیا سے منسلک تھے ، لہٰذا انہیں لکھنے کا ہنر وراثت میں ملا۔70 ء سے 90 ء کی دہائی تک انہوں نے اپنی زندگی ادب کی خدمت میں صرف کی۔اس دوران مختلف رسائل و جرائد، جیسے ’خاتون مشرق‘ (دہلی) ، ’سہیل‘ (گیا) ، ’حریم‘ (لکھنؤ) اور’ آجکل‘ (دہلی) وغیرہ میں روحی قاضی کے مضامین اور افسانے تواتر سے شائع ہوتے رہے بلکہ رسالہ ’خاتون مشرق‘ کے مدیرعبداللہ فاروقی نے انہیں ’ادیبہِ بنگال‘ کا خطاب بھی دیا تھا۔ ادبی کارکردگی کی بنا پر انہیں مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی جانب سے گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔ ان کی تصانیف میں دو افسانوی مجموعے ’سلگتی چاندنی‘ (۱۹۷۴ء) اور ’ نئی کہانی‘ (۱۹۹۷ء) کے علاوہ دو ناول ’وفا کی ڈور‘ (۱۹۷۴ء) اور ’شام غم ‘ (۱۹۷۶ء) اور ایک اصلاحی مضامین کامجموعہ ’آج کی بیٹی کل کی ماں ‘ (۱۹۷۸ء) شامل ہیں۔میں اپنے اس مضمون میں روحی قاضی کے افسانوی مجموعہ’نئی کہانی‘ کے منتخب افسانوں سے ڈِسکورس قائم کرنے کی جسارت کررہی ہوں۔ اس مجموعہ میں شامل پہلا افسانہ ’نئی کہانی‘ کے عنوان سے ہی ہے جو مفلسی و غربت کے موضوع پر مبنی ہے۔ مذکورہ کہانی میں مصنفہ نے خود کو شامل رکھا ہے۔ افسانہ ’کالو بھنگی‘ کے خالق کرشن چندر کی طرح یہاں بھی کہانی کار ایک کہانی تخلیق کرنے کا متمنی ہے لیکن بار بار اُس کا ذہن منتشر ہوجاتا ہے کیونکہ ایک ایسے چشم دید واقعے کی جانب اس کی توجہ مبذول ہوجاتی ہے جو آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے ، چاہے وہ عجیب و غریب طریقے سے ایک گداگر کی گداگری ہو یا آٹھ دس برس کے چار پانچ بچوں کا کوڑے کے انبار سے بھوک مٹانے کی کوشش ہو یا غریبی و مفلسی کے باعث ایک جوان لڑکی کی ڈولی کی جگہ جنازہ اٹھنے کا واقعہ ہو۔ آخر الذکر موضوع پر عصمت چغتائی نے ’چوتھی کا جوڑا‘ جیسا مثالی افسانہ اردو ادب کو دیا ہے۔ ’نئی کہانی‘میں بھی ان مختلف واقعات کو اختصار میں پیش کیا گیا ہے۔
افسانہ ’شناخت‘ میں اخلاقی پستی کو موضوع بنایا گیا ہے،جہاں راوی دس سال کے بعد اپنے شہر لوٹتا ہے لیکن اسے کئی مصیبتیں درپیش آتی ہیں۔ اب اس شہر میں کوئی اُسے پہچاننے والا نہیں کیونکہ اب وہ شہر تبدیل ہو گیاہے۔ تبدیل بمعنی ترقی کر چکا ہے۔یہاں ایک گہرا طنز ہے کہ تکنیکی اعتبار سے تو شہر نے ترقی کے زینے طے کر لیاہے لیکن اخلاقی اعتبار سے زینے سے گر بھی چکا ہے۔ا ب تقریباً ہر کامیاب شخص میں اس قدر اخلاقی گراوٹ آگئی ہے کہ اُسے اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کا وقت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ راوی اپنے بزنس مین بھائی سے بغیر ملے ہی اُس کے دروازے سے واپس لوٹنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ اُسے اُس کی شناخت تب ملتی ہے ، جب اُس کی بھابھی ، جو اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد ایک طوائف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ، اُس کے نام سے پکارتی ہے۔ یہاں افسانہ نگار نے فنّی ہنر مندی سے کام لیتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ غربت اور افلاس میں زندگی گزارنے والوں میں ہمدردی او ر رفاقت کا جذبہ ہمیشہ قائم رہتا ہے لیکن جیسے ہی انسان کا رُتبہ بڑھتا ہے ، اُس کے اندر سے خلوص و محبت غائب ہوجاتا ہے۔
روحی قاضی کا افسانہ ’بھاشن‘ کا پرمود بابو فرق کو پَھرَک کہتا ہے لیکن اسٹیج پر حُسین کی لکھی ہوئی تقریر کو اشعار کے ساتھ پڑھ کر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن یہی پرمود بابو جیسا لیڈر منتخب ہونے کے بعد غبن میں اس قدر ملوث ہوجاتا ہے کہ عوام کے مسائل اور ان کی پریشانیوں اور شکایات پر کان نہیں دھرتا۔ افسانہ نگار نے محض تین صفحات پر مشتمل افسانہ ’بھاشن‘ کے ذریعہ پرمود بابو جیسے لیڈر کو تنقید کا گہرا نشانہ بناتے ہوئے اس کے چہرے پر سے نقاب اُتارنے کی کامیاب سعی کی ہے۔
افسانہ ’یہ تاریک گلیاں‘ بھی مفلسی و ناداری کے موضوع پر لکھا گیا ہے۔یہاں غریبی کے ذریعہ پیداکردہ جن حالات کی تصویر کشی کی گئی ہے ، وہ بہت اہمیت رکھتی ہے، جنہیں پڑھ کرنرم دل قاری کی آنکھیں نمناک ہو جائیں گی یا اگر کوئی حساس انسان ہو تو اُس کا دل ایک بار کچوکے ضرور لگائے گا۔اس افسانہ میں دو مختلف واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔ ایک طرف آٹھ نو سال کی ایک بچی ہے ، جو اسکول جاکر تعلیم حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے ۔یہ ناکامی اس لیے ہے کیونکہ اس کا باپ شرابی ہے۔ کمائے گئے تھوڑے بہت پیسے کو بھی وہ شراب اور جوئے میں اڑا دیتا ہے ، اس لیے اُس لڑکی کی ماں ٹھونگا بنا کر ضروریات زندگی پورا کرنے پر مجبور ہے لیکن اگر یہ اسکول گئی تو کام میں اس کی ماں کو مدد کون کرے گا۔لہٰذا اسکول جانے کی ضد نہ چھوڑنے پر اُسے بُری طرح سے زدوکوب بھی کیا جاتا ہے۔دوسری طرف ایک غریب کمسن لڑکی شبنم کی کہانی ہے جس کی درجہ ہشتم تک کی تعلیم کے بعد خالہ زاد بھائی سے شادی کردی جاتی ہے ، جو قوت ِ گویائی سے محروم ہے ۔یہاں افسانہ نگارکا کمال ہنر یہ ہے کہ ان حالات کو ذرا مختلف انداز سے درشایا ہے۔ افسانہ میںشبنم ایک گونگے سے شادی کے بعد بھی خود کو خوش نصیب تصور کرتی ہے کیونکہ غریب ہونے کے باوجود بھی اُس کی شادی ہوگئی ہے۔دراصل حقیقت یہی ہے کہ غریبی ایک ایسی بیماری ہے جو جسمانی تمام اعضاء کے درست ہوتے ہوئے بھی انسان کو اپاہج بنا کر رکھ دیتی ہے۔
ڈاکٹر روحی قاضی نے اپنے مضامین کی طرح ، اپنے افسانوں میں بھی بغیر پڑھا لکھا کر، محض نان و نفقہ کی خاطر لڑکی کی شادی کی پُر زور مذمت کی ہے۔ اُن کے نزدیک لڑکیوں کا تعلیم یافتہ ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ وہ اپنی کفالت خود کرنے کے قابل ہو سکیں اور شادی محض نان و نفقہ کے لیے نہ کی جائے۔یہی وجہ ہے کہ افسانہ نگار’ فرشتے کی تحریر ‘کی سیما اور’ وہ ‘ کی راوی کا کردار خلق کر کے زندگی کو مُثبت طریقے سے گزارنے کا پیغام بھی دیتی ہیں۔ یہ وہ کردار ہیں ،جو ناموافق حالات سے نبرُد آزما ہونے اور زندگی کی ڈگر کو راہ پر لانے کا بھرپور حوصلہ رکھتے ہیں ۔
روحی قاضی کے فن پر آئی پہلی کتاب ’سب کچھ دھواں دھواں سا کا۔۔۔‘ عنوان اُ ن کی ذاتی اور ادبی دونوں شخصیت کے عین مطابق ہے۔یہ درست ہے کہ بنگال کے ناقدین نے دانستہ طور پر اُنہیں نظر انداز کردیا۔ روحی قاضی کی ادبی کمائی زمانے کی ناقدری کے ہاتھوں ضائع ہوجاتی ، اگر اُن کی ہمشیرہ وصیت کی تعمیل میں اُن پر قلم نہ اٹھاتیں۔ ڈاکٹر روحی قاضی کے یہاں تانیثیت کی گونج زیادہ سنائی دیتی ہے۔ خوشگوار حیرت کی بات ہے کہ ان پر قلم اٹھانے والی پہلی قلمکارایک خاتون ہی ہیں ۔امید ہے کہ اس کتاب کے بعد مرحومہ کی ادب میں دھندلی تصویر تھوڑی واضح ہوجائے گی جس کے لیے قلبی اکرام صاحبہ کی یہ کاوش لائق تحسین ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page