سال گذشتہ ( 2021ء) غم کا سال رہا، پوری دنیا اس سال کرونا جیسی مہلک بیماری میں مبتلا رہی ، اور امت مسلمہ نے نہ جانے کتنے علماء کو کھویا ، تقریباً ٢٠٠ سے زائد جید علماء کرام نے اس دار فانی کو الوداع کہا، اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے ، اس طرح امت مسلمہ نے اپنے سایہ دار درختوں کو کھودیا ۔
ملک بھارت میں نہ جانے کتنے فسادات ہوئے ، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے،اور جبرا نئے قانون تھوپے گئے ، حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک شاہین باغ بن گیا، اسی درمیان کرونا نے ملک ہندستان میں انٹری ماری، اور شاہین باغ جیسی تحریک کو ملتوی کر نا پڑا، لیکن حکومت نے اپنے طرز عمل کو نہیں بدلا اور ظلم و زیادتی بر قرار رکھا، بالآخر ملک کے کسانوں کو اپنا گھر چھوڑ نا پڑا، اور وہ آج بھی دھلی باڈر پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔
یہ تو عمومی رنج وغم ہے ، جس میں تمام لوگ شریک ہیں ، لیکن آج میں 2020 ء کا اپنے اس غم کا ذکر کر نے جا رہا ہوں، جو میں شاید ہی زندگی میں کبھی بھول پاؤں ، بات ٩ / جمادی الاولی ١٤٤٢ھ مطابق 25 / دسمبر 2020ء بروز جمعہ کی ہے، میں عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد کھانا کھا رہا تھا، اسی درمیان میرے چچازاد بھائی انصار کا مسکال کا میسج آیا( شاید موبائل میں نیٹورک نہیں تھا) جیسے ہی نیٹورک آیا، پھر گھنٹی بجی ، اس بار میر ے بہنوئی کا ریاض سے فون تھا ، میں نے فون ریسو کیا(فون اٹھایا) سلام کلام کے بعد انہوں جو کہا ، اسے سن کر ہمارے ہوش اڑ گئے ، اور ایسا لگا جیسے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ، صورت حال یہ ہے کہ میرے فون کی گھنٹی بجی، اور میں نے دیکھا یہ میرے بہنوئی کا فون ہے (جو رشتے میں میرے پھوپھا زاد بھائی بھی ہیں) میں نے فون ریسو کیا (فون اٹھایا) سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا ،ابو کے بارے میں کچھ حال احوال معلوم ہے، میں نے کہا جی الحمدللہ! آج عصر کے وقت والد محترم سے ویڈیو کال بات ہوئی ہے ، تب انہوں نے کہا انکا انتقال ہوگیا ہے ، اتنا سننا تھا کہ میں ایک دم سکتے میں آگیا ، پاؤں لرز گئے ، آنکھ اپنی بصیرت کے باوجود تھوڑی دیر کے لئے اندھی ہو گئی تھی، گو یا آنکھوں میں روشنی ہی نہیں تھی ، مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا، گو یا میں زمین پر نہیں ہوں ، میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی ہو، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کروں اور کیا نہ کروں، میں اپنے آپ کو سبنھالتےہو ئے گھر فون لگایا، (اسلئے کہ مجھے والد کے انتقال کا یقین نہیں آرہا تھا) لیکن فون ریسو نہیں ہوا، چونکہ پورا گھر ماتم اور صدمے میں تھا ، چاروں طرف لوگوں کے رونے کی آوازیں گونج رہی تھیں ، ادھر میری بےقراری بڑھ رہی تھی، میں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے گاوں کے ایک طالب علم محمد نعیم سلمہ کو فون لگایا ( واضح رہے کہ انڈیا کے وقت کے مطابق تقریباً ١١ / بج رہے تھے، ) نعیم سلمہ نے فون ریسو کیا ، سلام کے بعد میں نے اس سے کہا میرے گھر جاؤ اور وہاں کے حال احوال سے مجھے آگاہ کرو (میں نے اسے اس بات سے بےخبر رکھا کہ،،،،،،،) چونکہ اس کا گھر میرے گھر سے چند فاصلے پر ہے ، پھر میں گھر فون لگایا اتفاق سے ریسو بھی ہو گیا ، سب سے پہلے جو آواز ہمارے کانوں میں گونجی وہ یہ تھی *” ابا وفات پاگئے "* ساتھ ہی رونے کی آوازیں گونجنے لگیں ، میں نے فون ڈسکنٹ کر دیا ، اسلے کہ میری ہمت پست ہو رہی تھی، بعد ازاں محمد نعیم سلمہ میرے گھر جاکر والد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی زیارت کرائی ، اب میری بے چینی حد سے بڑھ گئی لیکن صبر و ضبط سے کام لیا ، فیصلہ خداوندی پر راضی رہا ۔
اپنے احباب اور محبین کو اس خبر سے با خبر کرنا مناسب سمجھا تو میرے دماغ میں یہ بات آئی کہ ایسا طریقہ اپنایا جائے جس سے ایک ہی مرتبہ میں تمام احباب کو اطلاع ہو جائے لہذا میں نے فیس بک اور واٹس ایپ گروپ (فضلاء تعلیم الاسلام ) کا سہارا لیا اور آنا فانا یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔
جیسے ہی والد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے وفات کی اطلاع فیس بک اور واٹس ایپ گروپ ( فضلاء تعلیم الاسلام) کے ذریعے احباب کو موصول ہوئی تو پھر کیا تھا ؟ احباب کے فون آنے شروع ہو گئے ، اور میں چند لوگوں کے علاوہ کسی سے گفتگو نہیں کر پایا ، اسلئے کہ میرے اندر گفت و شنید کی طاقت نہیں تھی، واضح رہے کہ یہ تمام کال ان احباب کے تھے ، جو سعودی میں مقیم ہیں ، چونکہ انڈیا میں اس وقت تقریباً ١٢ بج رہے تھے، اور تمام لوگ میٹھی نیند سورہے تھے ، لیکن ہماری نیند غائب ہوچکی تھی ، بھلا نیند کیوںکر آتی ، وہ سایہ دار درخت جن کی دعاؤں کی چھاؤں میں، میں میٹھی نیند سوتا تھا آج وہ خود خدا کی رحمت کے سائے میں سوگیا یعنی والد محترم ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گئے،اور اس فانی دنیا کو الوداع کہہ کر دار بقا کو کوچ کر گئے ، میں اشکبار آنکھوں کے ساتھ ذکر خدا میں مشغول ہو گیا، انکے لئے دعا ء مغفرت کرنے لگا ۔
*حدیت میں ہے کہ* :والدین کی وفات کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک کا طریقہ یہ ہے کہ:
1۔ انکے لئے رحمت کی دعا کی جائے
2 ۔ان کے لئے مغفرت و بخشش طلب کی جائے
3 ۔ان کے بعد ان کے وعدوں ( اور وصیت) کو پورا کیا جائے
4 ۔ اس رشتہ داری کو نبھایاجائے جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو ۔
5 ۔ ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کی جائے ۔
لیکن آنسو ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ، ساتھ ہی میں نئی اور پرانی باتوں کے متعلق غور فکر کر نے لگا، میں سوچ رہا تھا کہ آج ہی والد صاحب ( رحمہ اللہ ) سے ویڈیو کال بات ہوئی، وہ بیمار تھے اور دوائی چل رہی تھی، لیکن چلنا پھرنا اور تمام امور انجام دے رہے تھے، جس دن ان کی وفات ہوئی جمعہ کا دن تھا انہوں نے غسل کیا ، جمعہ کی نماز اداکی ، کھانا سے فارغ ہونے کے بعد کھیت گئے اسلیئے کہ مزدور لوگ کھیت میں کام کر رہے تھے، واپس آنے کے بعد عصر کی اذان انہوں نے خود دی اور نماز عصر ادا کی عصر کے بعد میری بات ان سے ہوئی ویڈیو کال، وہ ہنستا اور مسکراتا چہرہ آج بھی میری آنکھوں میں قید ہے، انہوں نے مجھ سے پوچھا تمہاری طبیعت کیسی ہے، میں نے کہا الحمدللہ!
ہم خیریت سے ھیں، اسکے علاوہ بہت ساری باتیں ہوئیں ، انہوں نے یہ بھی پوچھا:
*تم کب آؤ گے ،* جیسا وہ اکثر پوچھتے تھے، میں کہتا کورونا کی وجہ سے تھوڑی مشکل ہے، ان شاءاللہ عنقریب گھر آؤنگا، مجھے کیا معلوم تھا کہ آج جو یہ سوال ہم سے کر رہے ہیں، ہمارے آنے کے انتظار میں ہیں ، انتظار طویل اور زندگی چھوٹی ہو جائے گی ۔
۔۔۔کسی شاعر نے کہا ہے ۔۔۔۔۔
_آگاہ اپنی موت سے کوئی بشرنہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں_
مجھ سے گفتگو ہو نے کے بعد وہ بازار بھی گئے ، مغرب کے وقت واپس آئے ، مغرب کی اذان دیئے اور نماز سے فارغ ہوئے ، بعدازاں عشاء کی اذان اور نماز سے فارغ ہوئے ، کھانا نوش فرمائے ، دوا وغیرہ کھائے
اسکے ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد اچانک طبیعت خراب ہوئی ، حالت بگڑی اور مالک حقیقی سے جاملے ، اور میرا سایہ دار درخت ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگیا۔
میں اسی خیالوں کی دنیا میں کھویا تھا کہ نہ جانے کب آنکھ لگ گئی ، حسب معمول 4,30 صبح الارم کے بجنےسے میری آنکھ کھل گئی
علی الصباح جب میں خواب غفلت سے بیدار ہوا، تمام حاجات سے فارغ ہو کر فجر کی سنت ادا کر کے جماعت کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی ، دیکھا تو استاذ محترم مولانا مفتی محمد احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم استاذ مدرسہ تعلیم الاسلام جامع مسجد شہر اعظم گڑھ کا فون تھا، (جو اس وقت بہار و نیپال کے سفر پر تھے)لیکن گفتگو نہیں ہوئی، میں نے آڈیو ریکارڈنگ ارسال کیا کہ حضرت جماعت کا وقت قریب ہے،اور مصلی حضرات بھی موجود ہیں ، نماز بعد بات چیت ہو گی ( ان شاءاللہ) حسب وعدہ نماز بعد گفتگو ہوئی،(انڈیا میں تقریباً ٨ بج رہے تھے) حضرت نے صبر و شکر اور استقامت کی تلقین کی ، بعدہ مفتی فیضان احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم کا آڈیو ریکارڈنگ اور تحریری مضمون بھی دیکھنے کو ملا، واٹس ایپ گروپ *فضلاء تعلیم الاسلام* پر تمام احباب کے مکتوب بھی آئے ہوئے تھے ، بڑی ناشکری ہوگی اگر میں مولانامجیب الرحمٰن صاحب اور مولانا صدام حسین نعمانی کا ذکر نہ کروں جو ہمارے غم میں برابر کے شریک رہے (اللہ تعالیٰ احباب کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں ، تمام مصیبتوں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھیں) مولانا ابو بکر صاحب قاسمی نے وقت کی نزاکت کے مد نظر مختصر مگر جامع تحریر ارسال فرمائی ، وہ مختصر مضمون آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتا ہوں :
۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ باسمہ تعالیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
یہ دنیائےناپائدار مرکز آمد و رفت ہے ، سوائےذات وحدہُ لاشریک لہ کے کسی کو دوام وبقا حاصل نہیں یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو رخصت ہونے والے سے جتنا زیادہ قریب ہوتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ درد وغم،رنج والم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مبتلی بہ ایسے پر آزمائش وقت میں صبر و ضبط اور استقامت کے دامن کو تھامے رکھتا ہے تو عنداللہ ماجور و مثاب بھی ہوتا ہے لہذا بندہ ناچیز آں محترم کو اور جمیع اہل خانہ کو تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہےاور مرحوم کے لئے اپنے مدرسہ میں ایصالِ ثواب کا بھی اہتمام کریگا
دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ، سیئات کو معاف فرما کر حسنات کو قبول فرمائے آمین یارب العالمین
ابوبکر قاسمی استاذ مدرسہ فیض عام رسڑا بلیا یو پی
١٠/ربیع الثانی١٤٤٢
26دسمبر2020 )
ایسے نہ جانے کتنے مضامین تھے جسے میں پڑھ کر صبر و شکر کر رہا تھا ۔ الحمدللہ ! احباب کے انہیں مضامین نے مجھے سہارا دیا جس کے سہارے گویا مجھے نئ زندگی مل گئی ہو۔
*تجہیز و تدفین*
والد صاحب رحمۃ اللّٰہ کا انتقال چونکہ رات ہی میں ہوا تھا ، اب اگلا مرحلہ ان کے تجہیز و تدفین کا تھا، کیوںکہ آدمی کوکسی سے کتنی ہی محبت کیوں نہ اسے یہ عمل کرنا ہی پڑے گا، یہی خدا کا حکم ہے، جسم ایک امانت ہے ، امانت جس کی ہو اسے واپس کرنا ہی پڑے گا، یہی قدرت کا قانون ہے،
جنازے کی نماز کا وقت ظہر بعد متصل رکھا گیا، لوگوں کا کافی ہجوم تھا، جب کہ موسم سرما بھی جوان تھا ، ہمارے بچپن سے لیکر اب تک کی تاریخ میں کسی موقعہ پر یا کسی کے جنازے پر، مسجد میں دو مرتہ جماعت نہیں ہوئی تھی لیکن والد صاحب کے جنازے کے موقعہ پر دو جماعت کرنی پڑی، احباب کی جانکاری کے لئے بتا دیں کہ ہمارے گاؤں میں غیر مسلموں کی تعداد زیادہ ہے بنسبت مسلم کے، غیرمسلموں سے تعلقات بھی اچھے ہیں ، ہمارے کھیت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی اٹھاتے ہیں،(جب کہ انڈیا میں اس وقت حالات بہت خراب چل رہے ہیں ) والد صاحب کے انتقال سے تمام لوگوں کو برابر صدمہ ہوا، کیا مسلم کیا غیرمسلم، تمام لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں، جس کی وجہ یہ تھی کہ والد صاحب رح بلا تفریق مذہب و ملت تمام لوگوں کی مدد کرتے تھے، والد صاحب کی موجودگی تمام لوگوں کے لیے کارآمد تھی، والد صاحب ایک سایہ دار درخت کے مانند تھے ، جن سے تمام افراد فیضیاب ہو تے تھے، یہی وجہ تھی کی تمام گاؤں والے غمزدہ تھے، بہر حال والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے کی نماز بعد ظہر ادا کی گئی ، اور ہزاروں لوگوں نےاشکبار آنکھوں کے ساتھ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو سپردخاک کیا۔
اللهم اغفر له وارحمه
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
2 comments
ماشاءاللہ
اس مضمون کو ادبی دنیا میں شایع کرنے کے لئے ہم ادبی دنیا کے تمام احباب کے شکر گزار ہیں۔
اللّٰہ ادبی میراث کے تمام ممبران کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین یارب العالمین