مطالعہ راشد (چند زاویے) /مصنف:ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری- طفیل خان
کسی شخصیت کی تشکیل و تعمیر پہ جہاں گھریلوماحول کا اثر ہوتا ہے۔وہاں اچھا ادارہ بھی انسان کے عقل و فہم اور ادراک پر دیرپا نقوش ثبت کرتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ راشد کی شخصیت میں میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کی سطح پر گورنمنٹ کالج لائل پور (فیصل آباد) کا کردار اعلیٰ و ارفع ہے۔ یہاں آکر راشد نے کالج کے رسالے "دی بیکن” (The Beacon) جو کہ انگریزی رسالا تھا اور پروفیسر سید سعادت علی شاہ (استاد شعبہ انگریزی) کی نگرانی میں نکلتا تھا۔راشد نے طالب علم مدیر کی حیثیت سے "پانچ مضامین” رسالے کے لیے لکھ کر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ یوں راشد کی قابلیت کے ترانے کالج میں ہر عام و خاص کی زبان پہ جاری و ساری رہیں۔ یہ کارنامہ ن م راشد کی زمانہ طالب علمی کی یادگار ٹھہرا۔
نذر محمد راشد آزاد خیال تھے اور مشرق کو مغرب پر قربان کرتے تھے۔ابتداء میں راشد اتنے ہی مذہبی تھے کہ وہ فرد کی آزادی کو اپنا ایمان سمجھتے تھے۔چاہے مذہب کی پیروی ہو یا مذہب سے دوری انسان کو اس پہ شدت سے قائم رہنا چاہیئے۔ابتداء میں راشد کا مذہب سے لگاؤ خاکسار تحریک کی مرہونِ منت تھی۔اس تحریک کے روح رواں علامہ عنایت اللہ مشرقی تھے۔بعد میں راشد نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن جیسے جیسے راشد کا ذہن پختگی کی طرف سفر اختیار کرتا گیا۔ ذہن کی اس بلوغت نے مذہب کے خلاف سوالات کو جنم دیا۔ (وہ سوالات کیا تھے؟ اس کا مفصل ذکر زیر نظر کتاب میں موجود ہے۔) ان سوالات کے جوابات راشد کو مذہب میں نہیں ملے اور وہ مایوس ہو گئے اس لیے "خاکسار تحریک” کو چھوڑا، اور آل انڈیا ریڈیو کے سلسلے میں دہلی چلے گئے یہاں سے راشد کے مذہب سے دوری کا سفر شروع ہوا۔
روایت کی پیروی سے انحراف اور نئے آدرشی انسان کے تصور نے ن م راشد کو ایک رجحان ساز شاعر کے طور پر متعارف کرایا۔ ان کی شاعری فن و فکر،ہیئت و تکنیک اور صوت و آہنگ کے اعتبار سے نئی شاعری ہے۔راشد اس اعتبار سے بھی بڑے شاعر ہیں کہ انہوں نے اپنی دور میں آزاد نظم (Free Varse) کا سکہ رائج کیا۔جس دور میں آزاد نظم کو محض نثر سمجھا جاتا تھا اور دوسرا حوالہ یہ ہے کہ راشد نے اپنے ہمعصر شعراء کی طرح خود کو دہرایا نہیں جب جب ان کی تخلیقی صلاحیت پست ہوتی گئی انہوں نے شعری تخلیق کو ترک کیا اور جب ان کی تخلیقی صلاحیت بام فلک پر تھی وہ لکھتے رہیں۔ راشد نے نہ صرف روایت سے بغاوت کی بلکہ روایت اورجدت کو آپس میں ملایا اور ان سے ایک اچھوتا پن تخلیق کیا۔بلاشبہ راشد نے ایک رجحان ساز شاعر کے طور پر ابھر کر اردو شاعری کو جدید نظم کے دامن سے مالامال کیا۔
۔۔۔۔۔
طفیل خان
ایم۔فل سکالر اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی،لاہور
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
جناب طفیل خان کو راشد کے بجاے ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری کے مضامین اور ان کے مندرجات کا تجزیہ کر کے ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا چاہیے تھا۔ موجودہ تبصرے سے کتاب کے مضامین کی بابت کچھ معلوم نہیں ہو پاتا اور نہ ہی یہ پتا چلتا کہ کہ مصنف کی نظر میں راشد کا کیا مقام قرار پاتا ہے۔