ڈاکٹر وصیہ عرفانہ
سمستی پور،بہار
تخلیقی شعور قدرت کی عطاکردہ ایک وہبی نعمت ہے لیکن اس شعور کی بالیدگی اکتساب کی رہین منت ہوتی ہے ۔اکتساب کا یہ عمل وسیع و عمیق مطالعہ،آس پاس کے ماحول اورعصری حالات کے مشاہدے،جینیاتی عناصر اور چشم بصیرت سے پروان چڑھتا ہے ۔ یہ تمام چیزیں انسان کے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن جاتی ہیں ۔جب ایک تخلیق کار کے ذہن کو کوئی واقعہ یا کوئی احساس مہمیز کرتا ہے تو اس کا شعور اور لاشعور دونوں متحرک ہوکر خیالات کو الفاظ کا پیرہن عطا کرتے ہیں۔کلیم الدین احمد نے تخلیقی عمل میں خیال اور لفظ ایک ساتھ نازل ہونے کی بات کہی ہے۔خیالات اور لفظیات اسی زمین سے آتے ہیں چنانچہ اکثر اوقات شاعروں اور ادیبوں کے یہاں ان میں قدرِ مشترک پائی جاتی ہے لیکن ہر تخلیق کار کا پیرایۂ اظہاراور طرز ادا کا انداز مختلف ہوتا ہے جو اسے منفرد شناخت عطا کرتا ہے۔ خصوصاً شاعری کے معاملے میں یہ نظریہ سو فیصد درست پایا جاتا ہے۔
بقول محمد حسین آزاد ،شعر فیضانِ رحمت ہے جو اہلِ دل کی طبیعت پر نازل ہوتا ہے،اسی طرح اچھی شاعری بھی قاری کی طبیعت پر ابرِ باراں کی صورت برستی ہے اور فیضیاب کرتی ہے۔نوشاد احمد کریمی کا ایک شعری مجموعہ ’’آوازیں‘‘ مجھے اتفاقاً دستیاب ہوا اور مطالعے سے گزرا۔موصوف کے کلام کی سادگی و پُرکاری اور بے خودی و ہشیاری نے ذوقِ طبع کویوں تسکین دی کہ ان کے دیگر مجموعہ کلام کا مطالعہ لازمی ٹھہرا۔’’انفراد‘‘ اور ’’جنوںآثارِ ‘‘ ان کے دیگر مجموعے ہیں۔بلاشبہ نوشاد احمد کریمی کے تخلیقی وجدان کی بالیدگی لائقِ دید اور قابلِ داد ہے۔ان کی شاعری میں آمد کی کیفیت نمایاں نظر آتی ہے۔وہ شاعری کی درجہ بندی سے بے نیاز نظر آتے ہیں کہ ان کی تخلیق ادب کے کس زمرے میں شامل کی جائے گی جس کا اعتراف بھی انہوں نے ’’آوازیں‘‘ کے پیش لفظ میں کیا ہے۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ کام ان کے ناقدین کا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
اپنا منصب صداقتیں لکھنا
کارِ نقاد موشگافی ہے
نوشاد احمد کریمی شاعری کو اپنی روح کی غذا مانتے ہیں اور زندگی کی دیگر ضروریات کی طرح اپنے وجود سے وابستہ قرار دیتے ہیں۔ان کا منصب اپنے محسوسات اور مشاہدے کو شعری پیکر میں ڈھالنا ہے۔ انہوں نے اپنے گھر میں شعری اور افسانوی ماحول پایا جس کے اثرات نے انہیں روایت سے دامن کش ہونے نہ دیا اور اپنے عہد کے حقائق نے ان کے لہجے کو جدت اور لفظیات کو نیا استعاراتی نظام بخشا ہے جو ان کی شاعری کو منفرد اسلوب عطا کرتا ہے۔ اپنی شاعری کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
’’جو کچھ بھی لکھوں وہ میری ذات اور میرے عہد کا عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ ماضی کا غماز اور مستقبل کا اشاریہ بھی ہو، نیز فنی اسقام سے پاک اور زبان و ادب کی صحت مند قدروں کا ترجمان و مروجہ شعری نظام کا پاسدار ہو اور اس باب میں موضوع اور اندازِ بیان دونوں سطح پر کچھ نیاپن اور انفرادیت پیدا کرنے کی سعی کرتا ہوں۔‘‘
نوشاد احمد کریمی کی خوش نصیبی یہ ہے کہ ان کی پیدائش ایک ادبی و علمی ماحول میں ہوئی۔ان کے دادا شیخ عنایت کریم برترؔ کا تعلق شہر آرہ کے قصبہ کواتھ سے تھا ۔لکھنؤ سے حصول علم کے بعد وہ ملازمت کے سلسلے میں بتیا گئے اور وہیں مستقل طور پر مقیم ہوگئے۔شیخ عنایت کریم برترؔ قادرالکلام شاعروں میں شمار کئے جاتے تھے۔شمشادؔ لکھنوی فرنگی محلی کے شاگرد خاص تھے اورنوح نارویؔ کے ہمعصر بھی تھے۔ ان کی غزلیں ادبی رسالوں کی زینت بنتی رہیں ۔اکثرداغؔ دہلوی کی شعری مجلسوں میں شرکت کا فیض حاصل ہوتا رہتا تھا ۔شیخ عنایت کریم برترؔ کا علمی و ادبی فیضان اگلی نسلوں تک جاری رہا۔ان کے بیٹے صابر کریمیؔ اور شاکر کریمیؔ بھی شاعری اور افسانہ نگاری کے رموز ونکات سے آشنا اور ادب کی صالح قدروں سے روشناس تھے۔ صابر کریمی نوح ناروی ؔکے شاگردوں میں شامل تھے اور شاکر کریمی نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کے بعد صنف افسانہ میں اپنی پہچان قائم کی۔نوشاد احمد کریمی کی دادی حافظ قرآن تھی ۔ اردو فارسی پر اچھی دسترس رکھتی تھیں اور بالیدہ ادبی ذوق کی مالک تھیں۔ان کی تربیت میں دادی کا اہم رول رہاہے جنہوں نے زباندانی کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی دی اور خدا سے محبت کے شعور کو پروان چڑھایا۔
نوشاد احمد کریمی کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت ایک عمدہ علمی و ادبی ماحول میں ہوئی جس نے ان کی ذہن سازی میں اہم رول ادا کیا۔ادبی رجحان اور تخلیقی صلاحیت ورثے میں ملی۔ابتدا میں افسانہ نگاری،شاعری،مقالہ نگاری ،تنقید و تحقیق ، گویا ہر میدان میں خود کوآزمایا ۔رفتہ رفتہ اپنے اندر کے فنکار کی شناخت کا مرحلہ انجام پایا اور یہ اندازہ ہوا کہ طبیعت شاعری کی جانب زیادہ مائل ہے۔بالآخر شعر گوئی کو ہی وسیلۂ اظہار منتخب کیا اور غزلوں میں نت نئے امکانات کی تلاش و جستجو شروع کی۔خدا کی عطا پر گہرا یقین زاد راہ کے طور پر وجود کا حصہ بنا رہا۔
تیرے ہی فیض سے روشن ہوا نوشاد ؔ کا فن
اس کا کچھ بھی نہیں سب کارِ ہنر تیرا ہے
مجھ پہ روشن کردے اب لفظ و معانی کا ہنر
معتبر ہوجائے میری بے زبانی اے خدا
پھر بخش دے وہ حوصلہ میری اڑان کو
کارِ جنوں کی پھر سے ہو تجدید اے خدا
یہ لفظ و معانی کا سفر کس کے لئے ہے
تو میرا ہے تو حرفِ دگر کس کے لئے ہے
نوشاد احمد کریمی نہ روایتوں کے اسیر رہے اور نہ ہی ان سے دامن کش، البتہ وہ لگے بندھے فارمولے کے قائل نہیں ہیں بلکہ آزادانہ طور پر اپنے ذاتی تجربات اور گردوپیش کے ماحول سے کشید تاثرات کو سہل انداز میں اشعار کے توسط سے پیش کرنے کے حامی ہیں۔ وہ جدیدیت یا روایت کی حدبندیوں سے خود کو آزاد رکھتے ہوئے اپنی فکر کو فکرِ حیات قرار دیتے ہیں۔اصنافِ شاعری میں غزل گوئی سے ان کی طبعی اور ذہنی ہم آہنگی ہے۔
اردو غزل کو عموماً محبوب کی پیکر تراشی،جلوہ سامانی اور عشوہ طرازی کے اظہار کا وسیلہ مانا جاتا رہا ہے لیکن عصرِ حاضر کے گنجلک مسائل ،اقتصادی کشاکش،سیاسی انتشار نے اردو غزل سے روایتی محبوب کا یہ تصوربھی چھین لیا ہے۔یہ واقعہ ہے کہ آج کے شعراء کے یہاں عصر حاضر کے مسائل اور ذات کا کرب دیگر موضوعات کے تناسب میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے لیکن اس کا افادی پہلو یہ ہے کہ اردو غزل روایت کے حصار سے باہر آگئی،موضوعات کا دائرہ وسیع ہوا،زندگی کے تمام معاملات غزل میں جگہ پانے لگے اور غزل میں ندرت و جدت پیدا ہوگئی۔غزل کی لفظیات اور موضوعات کے امکانات لامحدود ہو گئے۔ نوشاد احمد کریمی نے بھی حالات کے موجودہ منظرنامے کو حساسیت کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔زندگی میں ہر نہج پر انسان ترقی یافتہ ہو گیا ہے لیکن اس کے اندر خوشی و مسرت اورسکونِ قلبی کا شدید فقدان وقوع پذیر ہوچکا ہے۔انسانی اخلاقیات کے زوال،معاشرتی بے حسی،دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام،نسلی تفریق،مذہبی انتہا پسندی،ذرائع ابلاغ کی منفی توانائی نے انسان کو وہم کے آسیب کا قیدی بنادیا ہے۔انسان کو انسان سے خوف و خدشات اور خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔نوشاد احمد کریمی نے اپنی ذات کے آئینے میں انسانی وجود کے کرب کو محسوس کیا ہے اورموجودہ عہد کی بے چہرگی ،احساس تنہائی،انسانی لاتعلقی،خوف و اندیشوں اور بے سمتی کی عمومی کیفیات کولفظوں کا پیکر عطاکیا ہے۔خوبی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے سپاٹ اور تلخ حقائق کو جمالیاتی احساس کے ساتھ بیان کیا ہے جس کی وجہ سے موضوعات کا کھردراپن لطیف پیرائے میں ڈھل گیا ہے جو قاری تک حقائق کی ترسیل کے ساتھ ساتھ اس کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا سامان بھی مہیا کرتا ہے۔
ہم میں رہتے ہیں کئی وہم و گماں کے آسیب
ایسا لگتا ہے کوئی اندھا کنواں ہیں ہم لوگ
بے اماں دیکھ کے ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح
لے چلوں تجھ کو کدھر مجھ سے ہوا پوچھتی ہے
اکیلا میں ہی نہیں ہوں اسیرِ منظرِ خوف
کسی کی آنکھوں میں خوابِ گراں اُدھر بھی ہے
عمر بھر رہ جائے گا،شاید یہی اک مشغلہ
جو نہیں ہے آنے والااس کا رستا دیکھنا
بہت دنوں سے میں خود میں سمٹ کے رہتا ہوں
شکستِ خواب نے بخشا ہے یہ قرینہ مجھے
عجیب دور سے موسم گزر رہا ہے یہاں
سمندروں کو بھی احساسِ تشنگی ہے بہت
تمہاری آنکھوں میں نوشادؔ یہ کیسی اداسی ہے
تم اپنے شہر میں بھی خود کو تنہا کیوں سمجھتے ہو
سلگتی دھوپ میں صحرا کا منظر ہم نے دیکھا ہے
جہاں پانی نہیں ہو وہ سمندر ہم نے دیکھا ہے
دھند ہی دھند ہے ہر سمت،سویرا کیا ہے
زندگی خواب ہے،خوابوں کا بھروسہ کیا ہے
سائبانی کے لئے دھوپ کی چادر ہے بہت
اب کہاں راہ میں وہ سایۂ دیوار رہا
برگِ خستہ کی طرح اپنے شجر سے میں بھی
ٹوٹ جاؤں گا کسی روز بکھرنے کے لئے
کٹ گئی عمر مری اپنا تعاقب کرتے
اپنے ہی سائے کو ہر بار صدا دی میں نے
گردشِ وقت کو ہے خاص تعلق مجھ سے
یہ بھی جائے گی مرے ساتھ،جدھر جاؤں گا
سرابوں کا تسلسل ہے ،دہکتے ریگزاروں میں
سفر دشوار ہے اور تشنگی قسمت میں لکھی ہے
خوابوں کی شکستگی،وہم و گماں کے آسیب،ضروریاتِ زندگی کی کمیابی،کساد بازاری،جان لیوا مہنگائی،انتہا پسندی،اخلاقی زوال،بے امانی،بے نام خوف ،احساس تنہائی اور بے سمتی کے احساس نے آج کے انسان کو اس قدر شکستہ پا کردیا ہے کہ سفر اور مسلسل سفر اس کی زندگی کا استعارہ بن گیا ہے۔ بحالت مجبوری سہی،آبلہ پائی کواس نے اپنا مقدرمان لیا ہے۔
ہر روز مسافت کی نئی راہ کھلی تھی
تاعمر کوئی لمحۂ آرام نہ آیا
عجیب موڑ پہ لے آئی ہے حیات مجھے
سفر سفر ہے،ہر اک زادِ راہ تمام ہوا
عجیب طور سے میں عمر بھر سفر میں رہا
حدود شہر سے نکلا نہ اپنے گھر میں رہا
ہم کو تمام عمر رہی جس کی جستجو
نکلا ہے وہ سفر پہ ہمارے بغیر ہی
ختم ہوتی ہی نہیں نقلِ مکانی اپنی
عمر بھر ساتھ رہے گا یہ سفر لگتا ہے
سلگتی دھوپ ہی تقدیر بن گئی اپنی
ہماری راہ میں کوئی شجر نہیں آیا
مرا وجود تھا اک بحرِ بیکراں کی طر ح
تری تلاش نے صحرا بنادیا مجھے
مجھے پسند ہے دریائے جسم و جاں کا سفر
میں اوب جاتا ہوں ساحل کی بیکرانی سے
ایسا نہیں ہے کہ حالات کا جبر انسان نے پہلی بار دیکھا ہے لیکن پہلے مسائل کی نوعیت کچھ اور تھی۔بے کسی اور بے بسی پہلے بھی تھی لیکن پہلے انسان جسمانی طور پر مجبور و محبوس ہوا کرتا تھا لیکن آج انسان کا دل زخمی ہے اورروح اذیتوں میں گرفتار ہے۔ ذرائع ابلاغ کی سہل دستیابی،حدود و قیود سے بے بہرہ اور منفی و اشتعال انگیز سوشل میڈیانے نئی نسل کو نہ صرف گمراہ کر رکھا ہے بلکہ ایک خاص نوع کی سفاکیت اس کے مزاج کا حصہ بن گئی ہے جس نے خود غرضی،نفس پرستی،اخلاقی زوال،شہوانیت اورمادہ پرستی میں مبتلا کر کے اسے رشتوں کے تقدیس و تحریم سے ناآشنا کردیا ہے۔اپنی نظروں کے سامنے اپنی نسل کو تباہی و بربادی کی منزل کی طرف جاتے دیکھنا نہایت کرب آمیز ہے۔اہلِ اقتدار کی بے لگامیاں، سیاسی بازیگری،انسانوں کے مابین نسل، ذات، مذہب، مال و دولت کی بنیاد پر تقسیم کے اقدامات،رشتوں کے درمیان خلیج،جان لیوا مہنگائی،مشینری اور الیکٹرانک وسائل کے عروج کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری،تہذیب و تمدن کو بے نام و نشاں کرنے کی کاوشیں،تاریخ کو مسخ کرنے کی سازشیں وہ سماجی صداقتیں ہیں جن کے کرب و اذیت سے آج کا انسان ہم کنار ہے۔ایک غیر یقینی کی فضا ہمارے عہد کے مزاج پر طاری ہے۔آج کاانسان دوسروں پر اعتماد کرتا نظر نہیں آتا بلکہ صرف اپنے تجربے پر انحصار کرنا چاہتا ہے۔نتیجتاًوہ اپنی ذات میں تنہا ہوگیا ہے ۔ نوشاداحمد کریمی نے اپنے عہد کے مسائل کو سمجھا ہے،حرزِ جاں بنایا ہے اور احساس ذات سے ہم آمیز کرکے جمالیاتی انداز میں پیش کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار حسن و لطافت اور تغزل سے عاری نہیں ہیں۔
مجھے معلوم ہے کس سمت اب پتوار چلتی ہے
تمہارے ہی اشارے پر ندی کی دھار چلتی ہے
یہاں کے لوگ اپنے خول سے باہر نہیں آتے
ہوائے آگہی اس شہر میں بیکار چلتی ہے
کروں کیا میں،خود اپنے آپ سے بیگانہ رہتا ہوں
غنیمِ وقت کی چارہ گری قسمت میں لکھی ہے
اب یہاں کوئی کسی سے بے غرض ملتا نہیں
کس قدر اس شہر کا بدلا ہے نقشہ دیکھنا
ہوا کے ساتھ چراغوں کی دوستی ہے جہاں
مرا سفر ہے اسی شہرِ بے اماں کے لئے
ٹھہرگیا ہے کہاں جاکے موسمِ خوش رنگ
بہت دنوں سے زمیں اس کے انتظار میں ہے
کہیں بھی چاند،سورج سے اجالا اب نہیں ہوگا
اندھیروں نے یہاں ہر سمت ڈیرہ ڈال رکھا ہے
عجب بے نام سی سیمابیت ہے میری رگ رگ میں
کوئی موسم ہو مجھ کو چین سے رہنا نہیں آتا
جانتا ہوں میں بھی کیا موجِ بلا لے جائے گی
ریت کی مانند مجھ کو بھی بہالے جائے گی
تعمیلِ حکمِ ظلِ الٰہی بھی خوب ہے
جب لٹ چکا ہے گھر تو نگہبان آئے ہیں
ہر راستے میں نت نئے الجھاؤ دیکھ کر
میں دم بخود ہوں وقت کا برتاؤ دیکھ کر
اٹھتے ہیں اب تو روز ہی شعلے زمین سے
لے جاؤں میں اٹھاکے کہاںگھر جلا ہوا
اب تشنگی کی آگ ہے ہر سمت خیمہ زن
آنکھوں کے سامنے ہے سمندر جلا ہوا
بے چہرہ ہے زمانہ چلو اس کو سونپ دیں
گردن پہ اپنی بوجھ ہے اب سر جلا ہوا
یہ اپنی اپنی بصارت کا فیصلہ ٹھہرا
تجھے چراغ،مجھے وہ دھواں دکھائی دے
قیدِ تنہائی سے باہر کوئی آیا ہی نہیں
اس قدر شاخِ تعلق پہ زوال آیا ہے
تمام شہر برہنہ دکھائی دیتا ہے
ہوائے تازہ بھی کس درجہ بے ادب نکلی
اب اس سے بڑھ کے مہذب یہ شہر کیا ہوگا
برہنگی یہاں شکلیں بدلتی رہتی ہے
رکھ دیا سب کچھ بدل کر موسمِ بے آب نے
پھر نظر میں تشنگی کا مرحلہ رہ جائے گا
لے جائے گا راتوں سے مری نیندیں چراکر
اور خواب بھی آنکھوں میں وہ رہنے نہیں دے گا
عصری حالات کی تلخیاں اور ذات کا کرب اپنی جگہ مسلم ہے لیکن شاعر کے حوصلوں کی اڑان کمزور نہیں ہے۔اسے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ تمام راہیں پُر خطر ہیںکیونکہ اس کا حوصلہ سلامت ہے۔اس کاسفینہ آندھی کی زد میں ہو ،تب بھی بادبان میں مقابلے کی جسارت ہے۔شاعر کا زندگی کو دیکھنے اور برتنے کا نظریہ مثبت ہے۔ہواؤں کی شوریدہ سری اگرگھونسلے اجاڑدیتی ہے تو شاعر خود میں وہ جرآت پاتا ہے کہ ہوا کی شاخ پر بھی آشیانہ بنالے یا پھر مثلِ غبار ہواؤں کی ہمسفری اختیار کرلے۔شاعر سوچتا ہے کہ اگرزندگی سے بہار رخصت ہو جائے تو خزاں کے زردرنگوں سے شب و روز کو رنگین کیاجاسکتا ہے۔چہارسو اندھیروں کی حکمرانی ہو تو مکانِ جاں کو جلاکر روشنی کر لی جائے۔وہ سوچتا ہے کہ تشنگی مقدر بن جائے تو سرابوں سے اپنی تشنہ لبی کا رشتہ استوارکرلینا چاہئے ۔ شاعر حوصلہ مند، خوش گمان اور جرآت آزما ہے۔بادِ مخالف کے اندیشوں کے باوجود اس کی نگاہ نئی منزلوں پر مرکوز ہے۔دراصل شاعر کی طبیعت میں فقر و قناعت اور عزم محکم ہے جس نے اسے گردشِ دوراںسے بے نیاز کر رکھا ہے ۔
تمام راستے مسدود ہیں تو رہنے دو
جو حوصلہ ہے سلامت تو رہگزر ہیں بہت
بات تو جب ہے کہ ہر موج ہو اپنے بس میں
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا کیا ہے
زورِ دستک سے تو میں شہر کو جگادوں،لیکن
ہاتھ کا لمس نہ سمجھے تو دریچہ کیا ہے
نہیں ہے غم ہمیں جنگل کے خشک ہونے کا
ہوا کی شاخ پہ بھی آشیانے رہتے ہیں
قلم سے چاند اُگاتا رہا جدائی میں
یہ مشغلہ بھی مرا،جادۂ ہنر میں رہا
مری نگاہ نئی منزلوں پہ رہتی ہے
میں بھول کر کبھی ماضی نہ حال دیکھتا ہوں
ہماری پیاس کا پانی سے رشتہ ہی نہیں اب
ہمارا راستہ برسوں سے دریا دیکھتا ہے
مرا سفینہ تو آندھی کی زد میں ہے،لیکن
مقابلے کی جسارت بھی بادبان میں ہے
ہوا کے ساتھ میں رہتا ہوں ہمسفر کی طرح
کہ میں نے خود کوبھی مثلِ غبار کرلیا ہے
اگر بہار کاموسم نہیں تمہارے لئے
تو پھر خزاں ہی سے تزئینِ زندگی کرلو
دکھائی دیتی ہے ہرسمت تیرگی خود میں
چلو چراغ جلائیں مکانِ جاں کے لئے
تجھے اے گردشِ دوراں کہاں معلوم ہے یہ بھی
مرے دستِ ہنر میں قوت تسخیر اب بھی ہے
امتحاں تشنہ لبی کا وہ مری کیا لیں گے
مجھ کو آسان سرابوں کا سفر لگتا ہے
نہاکر خون میں اپنے نکھرنا کچھ نہیں مشکل
خزاں کی شاخ پر اکثر گلِ تر ہم نے دیکھا ہے
گردشِ شام و سحر سے مجھے خدشہ کیا ہے
یہ فقیری ہے غنیمت تری سلطانی سے
بس ایک رات کے ڈھلنے کا انتظار ہے اب
ہزاروں خواب ہیں آنکھوں میں ہم سجائے ہوئے
یہ واقعہ ہے کہ حالات کی کڑی دھوپ جسم و جاں کو جلادیتی ہے لیکن سونا تپ کر ہی کندن بنتا ہے۔مصائب کا طوفان جتنا زورآور ہوگا ،جہد فی البقا کی قوت اتنی ہی توانا ہوگی۔ویسے یہ کلیہ ہر وجود پر صادق نہیں آتا۔خس و خاشاک بے نام و نشاں ہو جاتے ہیں لیکن جس کی ذات میں ہمت و حوصلہ کی چنگاری ہو،جو بادِ مخالف میں بھی اپنی اڑان کو بلند رکھنے کا عزم رکھتا ہو،جو سمندر کی تیز و تند لہروں کو چیرتے ہوئے اپنے سفینۂ حیات کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت سے آشنا ہو،جو نامساعد حالات کو سازگار کرلینے کی قوت سے بہرہ ورہو،اسے ہی اپنی ذات کا عرفان حاصل ہوتا ہے اور خود شناسی و خود اعتمادی اس کی جاگیر ٹھہرتی ہے۔ نوشاد احمد کریمی کی ذات میں یہ جواہر جابجا دکھائی دیتے ہیں جن کا برملا اظہار ان کے اشعار کے توسط سے ہوتا ہے۔موجِ حوادث کے سفر نے انہیں خاص نوع کی پختگی عطاکردی ہے اورایک اعلیٰ درجہ کی خوداعتمادی ان کی شخصیت سے ہویدا ہے۔
کرچکا ہوں میں بہت موجِ حوادث کا سفر
اے سمندر ترے گرداب میں رکھا کیا ہے
فلک کی بیکرانی گم ہو جس میں وہ پرندہ ہوں
شکاری دیکھ کر مجھ کو نشانہ بھول جاتے ہیں
خاک چھانی ہے بہت شہرِ جنوں کی میں نے
جس کو جانا ہے وہاں،مجھ سے پتہ لے جائے
میں پانیوں پہ بھی دیوارودر بناتا ہوں
وہ صرف مدحتِ اجداد کرتے رہتے ہیں
ظلمتِ گزیدہ شب کا طلبگار میں ہی تھا
بجھتے ہوئے چراغوں کا غم خوار میں ہی تھا
رفتہ رفتہ جو ہراک مرحلہ آسان ہوا
جادۂ غم بھی مجھے دیکھ کے حیران ہوا
اے بزمِ نگاراں تجھے معلوم نہیں کیا
اس شہر میں میرا کوئی ثانی بھی نہیں ہے
رازِ ہستی بھی کسی روز یہاں پر نوشادؔ
دیکھنا مجھ سا کوئی خاک بسر کھولے گا
سمندروں کی رفاقت نے پیاس بخشی ہے
یہ اور بات کہ سرشار اپنے گھر میں رہا
میری منزل تھی جدا ،میرا سفر بھی تھا الگ
اس لئے میں بھی رہِ عام سے باہر نکلا
وہ گرمیٔ بازار بھی کچھ تھم سی گئی تھی
میں چشم ِ خریدار میں جب تک نہیں آیا
زمانے بھر کو اندھیرے ستارہے تھے بہت
مرا چراغ سا جلنا بہت ضروری تھا
دانستہ لٹا دیتے ہیں اس راہ میںسب کچھ
ہم خاک نشینوںکی یہ شہرت نہیںیوں ہی
جہاں جہاں بھی قدم میں نے رکھ دیا نوشادؔ
وہیں کی خاک سے کوئی شجر نکل آیا
مرتبہ نوشادؔ میرا ہے فرشتوں سے بلند
ایک دن لکھوں گا میں اپنا قصیدہ دیکھنا
جس کی گہرائی سے خائف ہیں شناور کتنے
اس سمندر کو بھی نوشادؔ کھنگالے ہوئے ہیں
یہ صحیح ہے کہ ایک سفاک دور کی اذیت ناک حقیقتوں کو نوشاد احمد کریمی نے اپنے افکار و احساسات کی انفرادیت سے مزین کرکے اشعار کے گل بوٹے کِھلائے ہیں لیکن ان کی شاعری محض حقائق کی پیشکش تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں رومان کا لطیف تصور بھی مجسم ہوا ہے۔غزل بنیادی طور پر حسن کی جلوہ آرائی اور عشق کی شوریدہ سری،حسن کی نازپروری اور عشق کی بے تابیوں،حسن کی عشوہ طرازی اور عشق کی کوہِ کنی سے عبارت کی جاتی رہی ہے۔ کسی شاعر کی غزل میں حسن و عشق کی کہانیاں نہ ہوں تو ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے۔نوشاد احمد کریمی کے یہاں بھی حسن و عشق کی جلوہ گری دکھائی دیتی ہے۔ایک عام انسان کی طرح محبت نے ان کے درِ دل پر بھی دستک دی ہے۔کسی خوش خرام اور نازک اندام نے ان کے اندر بھی چراغاں کیا ہے لیکن ان کا محبوب پردہ نشیں ہے جس کے لب و رخسار کا ذکر کرنے سے انہوں نے شعوری طور پر اجتناب کیا ہے۔دراصل عشق نے ان کے تخلیقی وجدان کو مہمیز کرنے کارِ گراں انجام دیا ہے۔محبت ان کے یہاں ایک روپہلے خواب،ایک آرزومندی، احساس کے کیف و کم،جذبات کی تابندگی،ظلمتِ شب کی روشنی کی مانند ہے جو زندگی کی پُر خار راہوں کو سہل کرتی ہے۔حالات کی تلخیوں کو رومان کی شیرینی میں مبدل کرتی ہے۔حقیقت کی سنگلاخ راہوں سے ان کا ہاتھ تھام کر خوابوں کی سنہری وادی میں لے جاکر سکون آور لمحات عطا کرتی ہے۔
عجیب تیرگی بکھری تھی خانۂ دل میں
وہ آگئے تو دروبام جگمگانے لگے
اگر وہ موسمِ خوش رنگ ہے تو اس سے کہو
کہ میرے باغِ تمنا کو اب نکھارے بھی
جہانِ عشق کا روشن ہوا استعارہ بھی
کبھی تو مجھ کو نظر آئے وہ ستارہ بھی
تابندہ تجھی سے ہے مرے خواب کی دنیا
اے جانِ غزل تو بھی تو جگنو کی طرح ہے
چمک رہے ہیں ستارے کسی کی آنکھوں میں
جہاں میں عشق کا کب سلسلہ تمام ہوا
خواہش دید نے ہر رات جگایا ہے مجھے
کام آنکھوں کا رہا خواب سجاتے رہنا
ظلماتِ شبِ ہجر میں تھی روشنی جس سے
اس شوخ کو بھی ذہن کے محور سے نکالا
یہ رات بھی تو بہت مختصر ہے اپنے لئے
نکل کے خواب کے پردے سے روبرو آؤ
تمہاری یاد کی خوشبو ہے خانۂ دل میں
تمہارا عکس بھی دیوارودر میں دیکھا ہے
کوئی دن ہم سے بھی ناراض ہوا ے جانِ وفا
دیکھنا ہم تری ایسی بھی ادا چاہتے ہیں
لوگ کہتے ہی رہے عشق کو بھاری پتھر
میں نے یہ بوجھ بھی نوشادؔ اٹھایا تھا کبھی
کھُلا نہیں ہے کسی پر جو آج تک نوشادؔ
کتابِ عشق کا میں نے وہ باب دیکھا ہے
نوشاد کریمی کے یہاں محبت ایک کہی،اَن کہی کے درمیان کی کیفیت ہے۔اسلاف کی تہذیب،سماجی بندشیں، روایتوں کی پاسداری، عشق کے مراحل میں در آنے والی رکاوٹیں یا بے حوصلگی، جو بھی سبب ہو ، ان کے یہاں عشق کی تکمیل ہوتی نظر نہیں آتی۔کتابِ عشق کا باب انہوں نے دیکھا ضرور ہے لیکن وصل سے پہلے ہجر کی وارداتیں وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ان کا دل محبتوں سے لبالب بھرنے کی بجائے خواہش و خواب سے عاری خالی مکان کی صورت نظر آتا ہے۔ نہ کوئی تلاش،نہ جستجو،نہ ہی کوئی آرزو جو ان کی ہستی کو متحرک کردے۔ناتمام عشق نے ایک حزن کی کیفیت طاری کر رکھی ہے لیکن محبوب تک پہنچنے کا حوصلہ ناتواں ہے اور پندار کا تقاضا ہے کہ خود سے وابستہ کہانیوں کی نفی کردی جائے۔اب شاعر حسن و عشق کی ترجمانی اور محبوب کے تخیل سے اپنے دل کی انجمن کو آباد کرنے کی بجائے عقلیت پسندی کو ترجیح دیتا ہے اور ایک خاص نوع کی بیگانگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
حدودِ جسم کا طے فاصلہ میں کیا کرتا
کہ چند گام چلا،حوصلہ تمام ہوا
وہ جس کے واسطے دہلیز ِدل منور تھی
تمام عمر وہی میرے گھر نہیں آیا
بدن کی شاخ سے پتہ جنوں کا ٹوٹ گیا
بساطِ دل پہ مجھے مات ہونے والی ہے
کوئی تلاش نہیں،کوئی جستجو بھی نہیں
کسی سے ملنے کی اب مجھ کو آرزو بھی نہیں
کسی کی یاد ،نہ خواہش نہ خواب ہے کوئی
یہ میرا دل بھی ہے خالی مکان کی صورت
چراغِ عاشقی کی لَو کبھی مدھم نہیں ہوتی
بچھڑتے وقت ہم تم مل کے رولیتے تو اچھا تھا
درونِ دل سے جو اٹھتا ہے روزوشب نوشادؔ
وہ شوروغل کہاں سب کو سنائی دیتا ہے
ایک محور پر ٹھہرنے ہی نہیں دیتا مجھے
پھر نیا غم دے کے وہ یادیں پرانی لے گیا
اس سے ملنے کی امیدیں بھی نہیں ہیں نوشادؔ
پھر بھی دل کہتا ہے اس شہر میں جاتے رہنا
نہیں ہے ایک ستارہ بھی اس کے دامن میں
یہ دیکھ ،ہجر کی شب کس قدر غضب نکلی
کوئی موسم ہو لیکن قربتوں کا در نہیں کھلتا
ہوائے صبح سے بھی زخم مجھ کو تازہ لگتا ہے
مجھے محفوظ اپنی آنکھ کے البم میں کرلینا
بکھرتا ہجر میں مجھ کو مرا شیرازہ لگتا ہے
میں بھی اک کورے کاغذ کی مانند ہوں
مجھ سے وابستہ کوئی کہانی نہیں
یاد پھر آنے لگی ہے ایک بھولی داستاں
چاہتا تھا،آئینے میں خود کو تنہا دیکھنا
سمٹ کے رہ گئے سارے خطوط نقطے میں
تعلقات کا جب دائرہ تمام ہوا
غزل ہر دور میں انسانی جذبات و احساسات کی عکاسی کا بہترین وسیلہ رہی ہے۔قدیم غزلوں میں حسن و عشق کے قصے، رومان کی داستانیں،زمانے کی بندشیں ،رقیب کی روسیاہی اورتصوف و معرفت کا ذکر زیادہ حاوی تھا۔رفتہ رفتہ غزل کے امکانات وسیع ہونے لگے اور دنیا کے دیگر مسائل موضوع بننے لگے۔اب اردو غزل میں زندگی کے حقائق،عصری حسیات، معاشرتی و معاشی مسائل، نفسیاتی پیچیدگیاں،سماجی شعور،سیاسی ہنگامہ خیزی بھی جگہ پانے لگی۔ذات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اجتماعی معاملات بھی غزل کے منظر نامے میں شامل ہونے لگے۔اس طرح دیکھا جائے تو موجودہ غزل نے غزل کی روایت کو استحکام،توانائی اور وسعت خیالی بخشی ہے۔غزل کسی دور کی ہو،اس کی اصل اوربنیادی خصوصیت ہوتی ہے سمندر کی کوزہ گری یعنی دو مصرعوں میںاثر آفرینی کے ساتھ معانی کا ایک جہان آباد کردینا۔ اس عمل کی تکمیل کے لئے لفظیات اور علامتوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور اسی سلسلے میں ابہام، رمزیت، ذومعنویت ، ایمائیت اور تہہ داری سے مدد لی جاتی ہے۔اشعار میں تہہ داری پیدا کرنے کے لئے استعارات و تشبیہات ، تلمیحات،اشارے و کنایے اور دیگر صنعتوں جیسے شعری وسائل سے کام لیا جاتا ہے۔یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ علامت نگاری غزل کی اساسی خصوصیت ہے۔ہر دور میں اپنے عہد کے مزاج کے مطابق علامتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں جن میں معانی کا ایک جہان آباد ہوتا ہے ۔علامت کی خوبی اس کی معنیاتی وسعت اورترسیل کی آسانی ہے ۔ چونکہ علامتیں تہذیب و معاشرت، مذہب و عقائداور تاریخ کی پروردہ ہوتی ہیں،لہٰذاایک تمدنی ورثے کے طور پر قاری کے شعور اور لاشعور میں محفوظ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے معانی کی ترسیل میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔
مذکورہ تناظر میں جب ہم نوشاد کریمی کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے یہاں ایک اچھوتی تخلیقی ہنرمندی، زبان و بیان کی پاسداری،شعری رنگ و آہنگ،فنی التزام،حسنِ ترتیب،لفظوں کی نادر ترکیبیں،قافیوں کی ندرت،ہموار طرزِ اظہاربدرجہ اتم نظر آتا ہے۔انسانی جذبات کا اظہار ہو یا گردوپیش کے حالات و واقعات کی تصویر کشی،انہوں نے ہر مقام پر شعری حسن کو مدنظر رکھا ہے اور شعر گوئی کے معیار سے کہیں سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ان کی شاعری کو جو چیز سب سے زیادہ منفرد بناتی ہے ،وہ ہے ان کے بیان کی سادگی اور سہل ممتنع کا جابجا استعمال لیکن ان کی سادہ بیانی سپاٹ نہیں ہے بلکہ لفظوں کی تہہ داری میں لطف و کیف اور سرور و انبساط بدرجہ وافر ملتا ہے ۔انہیں خود بھی اپنی سادہ بیانی کا ادراک ہے اور وہ سادگی کے طلسم سے آشنا بھی ہیں۔وہ کہتے ہیں:
اتنی بھی سہل نہیں،سہل بیانی میری
میرے شعروں کے لئے شہرِ معانی کم ہے
آیا نہ تھا جو حلقۂ ادراک میں کبھی
اب وہ بھی مری سہل بیانی میں آگیا
طلسمِ لفظ و معانی سے تیز تر نوشادؔ
سماعتوں پہ اثر حرفِ سادہ کرتے ہیں
زندگی کا حسین عکس ہے فن،مگر
کوئی قصہ یہاں جاودانی نہیں ہے
لفظ و معنی سے کہاں کھُلتا ہے تحریر کا فن
دیکھنے والے تو انداز بیاں دیکھتے ہیں
نوشاد کریمی نے نہایت سادگی و سلاست کے ساتھ اپنے جذبات و احساسات ،محبوب کی کج ادائی،ہجر کی سوختہ جانی، زمانے کی نیرنگی، حیات کی گنجلک راہوں،حالات کی کسمپرسی،بے بسی اور بے سمتی کی حکایتوں کو اشعار کے پیکر میں ایجاز و اختصار اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔اشعار میں مانوس علامتیں استعمال ہوئی ہیں جو قاری کو شاعر کے خیال کی وسعت اور فکر کی گہرائی تک بہ آسانی پہنچادیتی ہیں اور ذوق جمال کو بھی آسودہ کرتی ہیں۔
پھر نئی رہگزر پاؤں کی زنجیر ہوئی
میں کہاں گردشِ ایام سے باہر نکلا
دیارِ خواب کا موسم ہے خوشگوار،مگر
ڈھلی جو رات تو سب واہمہ تمام ہوا
وہ پیکرِ خیال اگر ہوتا روبرو
ہم بھی نمازِ عشق اداکرکے دیکھتے
وہ توڑکر حصارِ اَنا کو بھی آئے گا
پہلے ہماری بات کا اس پر اثر تو ہو
عجیب دیدنی منظر ہے یہ بھی میرے
چراغِ ہجر کا طاقِ وصال میں رہنا
آتشِ عشق کا ہر شئے پہ اجارہ نکلا
راکھ کی ڈھیر سے پھر کوئی شرارہ نکلا
ایک احساسِ غم تو نہاں ہے ،مگر
میری غزلوں میں جادو بیانی نہیں ہے
تمہاری کاغذی کشتی بھی دریا پار کرتی
ذراسا ربط موجوں سے بڑھانا چاہئے تھا
کچھ اس طرح سے ہوا ہے وہ مہرباں مجھ پر
غمِ حیات بھی اب بے مثال دیتا ہے
منتظر کب سے مری تشنہ لبی تھی جس کی
وہ گھٹا مجھ سے سمندر کا پتہ پوچھتی ہے
وہ ماضی کا آئینہ تھا کس کام کا میرے
کیا دیکھتا میں عکسِ پشیماں کے علاوہ
میں ہوں گر تیرے لئے حرفِ دعا کی صورت
اپنے ہونٹوں پہ بھی کچھ دیر بکھرنے دے مجھے
کہیں ایسا نہ ہو ظلمت کدہ بن جائے دنیا
چراغوں سے ہوا کی دوستی ہونے لگی ہے
ڈھلے گی رات تو نکلے گا آفتاب کوئی
کہ شہرِ خواب پہ آئے گا پھر عذاب کوئی
غضب کی بے محابا زندگی قسمت میں لکھی ہے
بگولوں کی طرح آوارگی قسمت میں لکھی ہے
سادگی بذات خود بیان کا ایک عمدہ پیرایہ ہے لیکن سادگی سے مراد سپاٹ بیانیہ نہیں ہے بلکہ خیال اور الفاظ کے گنجلک اظہار سے احتیاط برتنا ہے۔ہر شے کے دو پہلو ہوتے ہیں،ایک حقیقی دوسرا مجازی۔کبھی کبھی حقیقت کوعریاں کرنا بیان کو ناقابل برداشت بنا دیتا ہے۔ ایسی صورت میں اشیاء کے مجازی معنوں کو برتنے میں تخلیقی حسن پیدا ہوجاتا ہے۔عام حقیقت اور شعری صداقت میں فرق ہوتا ہے۔حقیقت کو عام انداز میں بیان کردینا پیشکش کو سپاٹ اور بدصورت بنادیتا ہے جبکہ شاعری احساس جمال اور اظہار جمال کے وصف سے متصف ہونی چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ اردو غزل کی زبان بنیادی طور پر استعاراتی ہوتی ہے۔استعارہ شاعری کا جوہر ہے جس کے ذریعے معنی کی متعدد صورتیں پیدا کی جاتی ہیں۔نوشاد کریمی خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں:
نکل کر راکھ سے روشن شرارہ ہوہی جاتا ہے
غزل میں کچھ نہ کچھ تو استعارہ ہوہی جاتا ہے
نوشاد کریمی نے اپنی اشعار میں مانوس اور اطراف و اکناف سے ماخوذ استعاروں کو کمالِ خوبی سے برتا ہے جو ان کے خیال کی وسعت ، عمیق فکر، دوررس نگاہی،وسیع مطالعے اور گہرے مشاہدے کا اظہار کرتی ہیں۔بقول ارسطو، استعاروں کو خوبی سے استعمال کرنے کی لیاقت مشابہتوں کو محسوس کرلینے کی قوت پر دلالت کرتی ہے۔ نوشاد کریمی نے برگ،شجر،ثمر،شاخ، بہار، خزاں ،تشنگی،صحرا،سمندر،دھوپ،سورج ،موسم اور سب سے بڑھ کر سفرکو بطور استعارہ خوب برتا ہے۔کبھی حزن ویاس کے لئے تو کبھی امیدویقین کے لئے۔ یہ استعارے کبھی نئی منزلوں کی دریافت کی علامت بن جاتے ہیں تو کبھی مسلسل سفر اور در بدری کا نوحہ۔ کبھی ماضی کی یادیں ہیں تو کبھی مستقبل کے سنہرے امکانات پر نظر ہے۔ ان تمام مراحل میں شاعر کا رویہ مثبت اورامید افزا ہے ۔ شکستگی یا بے دست و پائی کی کیفیت نے اسے اسیر نہیں کیا ہے بلکہ عزم،حوصلہ اور خود شناسی اس کا طرہٗ امتیاز نظر آتی ہے۔
جو کررہے ہیں پرندوں کو بے اماں نوشادؔ
انہیں خبر ہی نہیں باغ میں شجر ہیں بہت
ہر ایک شاخ پہ آنے لگے ہیں برگ و ثمر
خزاں رسیدہ شجر میں بھی تازگی ہے بہت
یہ غلط ہے،صرف وہ برگ و ثمر لے جائے گا
آندھیوں کا زور تو اب کے شجر لے جائے گا
ہمارا رشتہ بھی اپنے شجر سے ٹوٹا ہے
شکستہ برگ کی صورت فضا میں ہم بھی ہیں
نوشادؔ کو تم گھر میں کہاں ڈھونڈ رہے ہو
مٹی کی طرح وہ بھی کسی چاک پہ ہوگا
ان ہواؤں سے کوئی جاکے یہ کہہ دے نوشادؔ
شاخِّ امید پہ پھر برگ و ثمر آئے ہیں
یورش ہے جہاں دھوپ کی اس راہگزر میں
سرسبز ہراک برگ و شجر کس کے لئے ہے
سسکتی صبح کے ماتھے پہ گزری رات کا بوسہ
کسی کی برف یادوں کا مجھے خمیازہ لگتا ہے
کسی بھی موڑ پہ نوشادؔ پاؤں رکتے نہیں
یہ زندگی کا سفر جانے کس مدار میں ہے
عجیب تیرگی پھیلی ہے ہر طرف نوشادؔ
قدم قدم پہ منور چراغِ ظلمت ہے
تشنگی کہتی ہے صحرا کا سفر ہے درپیش
راستہ روکے ہوئے آبِ رواں ہے تو رہے
ہم سے پیاسوں کی ہی ٹھوکر سے نکلتا ہے فرات
خشک ہیں ہونٹ مگر پاسِ انا زندہ ہے
کمھلائے ہوئے پھول پہ شبنم کا یہ قطرہ
پلکوں پہ لرزتے ہوئے آنسو کی طرح ہے
بے خودی راہ کی زنجیر بنی ہے ،ورنہ
ہم بھی دریا کا پتہ تشنہ لبی جانتے ہیں
چاہتا ہوںکہ کسی لمبے سفر پر نکلوں
گھر کی دہلیز مگر پاؤں کی زنجیر ہوئی
اسی کے ساتھ سفر پر مجھے نکلنا ہے
سمجھ سکا ہے جو اب تک نہ دائرہ اپنا
دیارِ ہجر میں سورج کی کرنیں کون دیکھے گا
شعاعِ درد سے بڑھ کر کوئی تنویر ہوگی کیا
ہوا خوش رنگ جب بھی یہ خس و خاشاک کا موسم
جنوں کو راس آیا حالتِ صد چاک کا موسم
درج بالا تجزئیے کے تناظر میں کہنا غلط نہ ہوگا کہ نوشاد احمد کریمی نے بلاشبہ اردو غزل کے سرمایے کو وسیع تر کیا ہے۔ان کی غزلوں میں فکر اور اسلوب دونوں اعتبار سے وسیع امکانات نظر آتے ہیں۔مختلف اور متنوع موضوعات کو انہوں نے بڑی خوبی اور دلکشی سے اپنی غزلوں میں برتا ہے۔عصری اور جدید حسیت سے ہم آمیز ہونے کے باوجود ان کی فکر کا آہنگ اور لب و لہجے کا رنگ اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔ انہوں نے انسانی ذات کے کرب اور اجتماعی مسائل کی پیشکش میں بھی ہمیشہ احساسِ جمال اور حسنِ اداکو مدنظررکھا اور اپنے لہجے کو خشک اور کھردرا نہیں ہونے دیا۔ ان کی منفرد شناخت کو قائم کرنے کے ذیل میں ان کی سادہ بیانی اور سہل ممتنع،نئے نئے الفاظ و تراکیب ،قافیوں کی ندرت، مانوس علامات،تشبیہات و استعارات کا موزوں استعمال،لہجے کی قلندری صفات اور مدھم آہنگ نے خاص کردار ادا کیا ہے۔ان کے حوصلوں کی اڑان کتنی ہی بلند ہو،ان کے لہجے کا آہنگ مدھم رہتا ہے۔ غم و اشتعال کی کیفیت اور زمانے سے شکایت بھی وہ اسی مدھم آہنگ ، نرم اور ہموار لہجے میں کرتے ہیں جو انہیں ان کے ہم عصروں کے درمیان منفرد اور ممیز کرتا ہے۔نوشاد احمد کریمی کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اور ان کا تخلیقی سفرمسلسل جاری اور مائل بہ ارتقاء ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page