الف عاجز اعجاز
کولگام کشمیر
alifaajiz07@gmail.com
’’اگر من پسند عورت اپنے خشک سفید ہونٹ لیے پہلو میں بیٹھی ہے تو مرد پر فرض ہے وہ اپنی نس کاٹے اور اس کے ہونٹوں کو سرخی بخشے‘‘
وہ کمرے میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی اور اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ رہا تھا۔ وہ یادوں میں غرق تھی کہ اُس کے فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو فائز کی کال تھی۔ خود کو سنبھالتے ہوئے ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھ کر اُس نے فون اُٹھایا تو آگے سے بنا رُکے فائز بول پڑا۔ یار عائشہ کہاں ہو؟ کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں، کہاں پہنچی ہو؟ کہو تو تمہیں اسٹاپ پر لینے آجاؤں، جلدی کرو یار، رات ہونے کو آئی اور تمہارا ابھی تک کچھ پتہ نہیں، سب لوگ آگئے ہیں صرف تمہاری کمی رہ گئی ہے۔ جانتی ہو نا مجھے آج اپنی دلہن کو لینے جانا ہے تم وقت پر نہیں پہنچی تو میں تمہارا انتظار نہیں کر پاؤں گا۔
عائشہ خاموشی سے فائر کو سُنتی رہی اور اُس کے آنسو اب اِس روانی کے ساتھ بہنے لگے تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ عائشہ کی خاموشی پر فائز دوبارہ پوچھنے لگا، ہیلو عائشہ، یار تم ٹھیک تو ہو کچھ جواب کیوں نہیں دے رہی ہو، کچھ بولو یار، دیکھو تمہاری خاموشی خوفزدہ کر رہی ہے مجھے۔
جی فائز میں ٹھیک ہوں آپ فکر نہ کریں عائشہ نے فائز کی پریشانی دور کرتے ہوئے کہا تو آگے سے فائز پھر پوچھنے لگا اچھا بتاؤ کہاں پہنچی ہو۔
ساری تیاری اچھے سے ہوگئی ہے نا کچھ رہ تو نہیں گیا، عائشہ نے بات ٹالنے کی کوشش کی لیکن فائز نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے دوبارہ پوچھا ہاں یار سب کچھ ہوگیا ہے بس تمہاری کمی رہ گئی ہے جلدی سے بتا دو کہاں ہو۔
میں گھر پر ہوں عائشہ بھرائی آواز میں کہنے لگی۔
کیا! فائز نے چونک کر پوچھا یہ کیا کہہ رہی ہو تم۔ دیکھو یار یہ مذاق کرنے کا وقت نہیں ہے سیدھا سیدھا بتا دو کہاں پر ہو بہت دیر ہو رہی ہے۔
میں سچ کہہ رہی ہوں فائز میں گھر پر ہوں، میں بھلا آپ سے مذاق کیوں کرنے لگی اور وہ بھی اس وقت۔۔۔۔۔۔۔ عائشہ معصومانہ انداز میں کہنے لگی۔
لیکن کیوں عائشہ، تمہیں تو اس وقت یہاں ہونا چاہیے تھا پھر تم آئی کیوں نہیں۔ فائز نے ناراض ہوکر پوچھا؟
عائشہ: میں نہیں آسکتی فائز۔۔۔۔۔۔۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری زندگی کا اتنا بڑا دن ہے آج۔ دیکھو میں کچھ نہیں جانتا تم بس آرہی ہو۔ تیار رہو میں تمہیں لینے آرہا ہوں فائز نے حاکمانہ انداز میں کہا
عائشہ: نہیں فائز آپ نہیں آئیں گے، سمجھنے کی کوشش کریں میں نہیں آسکتی اور ذرا سوچیں آپ کے گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ آپ اپنی تقریب چھوڑ کر مجھے لینے آئے ہیں تو سب لوگ کیا سوچیں گے۔
عائشہ کی بات پر فائز جھنجھلا کر کہنے لگا مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے جس نے جو سوچنا ہے، جو کہنا ہے کہیں میں بس یہ چاہتا ہوں کہ میرے نکاح پر میری سب سے قریبی دوست میرے ساتھ ہو
عائشہ: آپ کو کیا لگتا ہے میرے بس میں ہوتا تو میں نہ آئی ہوتی۔
فائز: مطلب میں کچھ سمجھا نہیں۔
فائز میری طبیعت بہت خراب ہے کل رات سے بستر پر پڑی ہوں مجھے معاف کر دیجیے میں نہیں آسکتی۔ میں کہیں آنے جانے کی حالت میں نہیں ہوں۔
اب عائشہ کی آواز میں بے بسی دیکھ کر فائز سمجھ گیا کہ وہ رو رہی ہے تو وہ پریشان ہوکر پوچھنے لگا۔ کیا! تمہاری طبیعت خراب ہے، لیکن تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا اور رونا تو بند کرو یار رو کیوں رہی ہو۔
عائشہ: آپ کی زندگی کا اتنا بڑا دن ہے آج میں اپنے بارے میں بتا کر وہ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
فائز: لیکن عائشہ۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ بات کاٹتے ہوئے لیکن ویکن کچھ نہیں۔ آپ بس اپنے نکاح پر دھیان دیجئے میں آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی۔
فائز اپنی خواہش ظاہر کرتے ہوئے، لیکن تم آجاتی تو کتنا اچھا ہوتا تمہارے بنا سب ادھورا لگے گا، میری خاطر ہی سہی میری خوشی میں شریک تو ہو جاتی۔
آج تک آپ کی خاطر ہی تو اتنا کچھ کرتی آئی ہوں، آپ کی خوشیوں کی خاطر تو میں نے اپنے آپ کو بھی قربان کردیا ہے۔ لیکن آج ہمت نہیں ہے اور میں وہاں نہیں ہوں تو کیا ہوا میری دعائیں تو آپ کے ساتھ ہے نا۔ عائشہ نے بھرائی آواز میں کہا۔
فائز: کیا مطلب، میں کچھ سمجھا نہیں، عائشہ تم کیا کہنا چاہتی ہو۔
عائشہ بات ٹالتے ہوئے یہی کہ آپ خوش رہے اور اپنے نکاح پر دھیان دیں، آپ کی دلہن، آپ کی خوشیاں، آپ کی منتظر ہیں اور آپ میرے ساتھ باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ میں فون رکھ رہی ہوں خدا حافظ۔
فون رکھتے ہی عائشہ کا رونے سے بُرا حال ہوگیا، اُس کی ہچکیاں بندھ گئے۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائیں اور وہ اُس میں سما جائیں۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی مجھے معاف کر دیجیے فائز میں نے آپ سے جھوٹ بولا لیکن میں کیا کرتی مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنی آنکھوں سے آپ کو کسی اور کا ہوتا ہوا دیکھوں۔ کاش فائز کاش آپ کبھی جان پاتے کہ میں نے آپ کو کس قدر چاہا ہے، کاش آپ دیکھ پاتے کہ میں آپ کے عشق میں کس مقام کو پہنچی ہوں لیکن اس سے پہلے کہ میں آپ سے اظہارِ عشق کرتی آپ نے اپنی محبت کو میرے سامنے لاکر کھڑا کر دیا اور میری محبت کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر گئے۔
عائشہ بچپن سے لے کر جوانی تک لڑکوں سے دور رہی تھی۔ وہ بڑی خاموش مزاج لڑکی تھی اور لڑکوں سے بات کرنا تو دور وہ کسی لڑکے کی طرف دیکھتی بھی نا تھی۔ اُس نے گریجویشن مکمل کی تھی اور اب یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری کر رہی تھی۔ وہ حسب معمول اپنے کمرے میں پڑھائی میں مگن تھی جب ماں نے آکر کر اطلاع دی کہ وہ شام کو تیار رہے بابا کے دوست کے یہاں جانا ہے تو چونک کر وہ کہنے لگی لیکن امی آپ جانتی تو ہیں مجھے اس طرح کسی کے یہاں آنا جانا پسند نہیں ہے پھر آپ نے بابا کو انکار کیوں نہیں کیا۔ تو جواباً اس کی امی کہنے لگی بیٹا تمہارے انکل کا بیٹا پانچ سال بعد لوٹا ہے تو اس کی خیر خبر لینے ہم جا رہے ہیں میں کیسے انکار کرتی۔
کیوں امی وہ پانچ سالوں سے کہاں تھے کہیں کھو گئے تھے کیا عائشہ شرارتی انداز میں پوچھ بیٹھی تو اس کی ماں نے ٹوک کر کہا کسی کے بارے میں ایسا نہیں کہتے بیٹا وہ تمہارے انکل کا بیٹا ہے۔ پڑھائی کرنے گیا تھا باہر اب ماں کے اسرار پر ماسٹرز کے لئے اپنے گھر آیا ہے۔
لیکن امی اگر وہ باہر پڑھ رہا تھا تو ماسٹرز کے لئے یہاں کیوں آگیا جبکہ وہاں یہاں سے بہتر ماسٹرز کی ڈگری مل سکتی تھی۔ آنٹی کو کیا سوجھی اس کو واپس بلانے کی عائشہ اپنی ماں سے پوچھنے لگی۔
بیٹا تمہاری آنٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں اور زندگی کا کیا بھروسہ اسی لئے وہ چاہتی ہے کہ اس کا لخت جگر اس کی آنکھوں کے سامنے رہے۔
تو ٹھیک ہیں نا ماں آپ لوگ چلے جائیں مجھے کیوں گھسیٹ رہے ہیں اس سب میں۔
بیٹا کیونکہ تمہارے انکل نے بابا سے تاکید کی ہے کہ وہ تمہیں ضرور ساتھ لے کر آئیں۔ اس لئے بابا نے کہلوایا ہے شام کو تیار رہنا تم نہیں گئی تو تمہارے بابا بہت ناراض ہو جائیں گے اس لئے میری جان جانے کی تیاری کرو۔
شام کو وہ اپنے بابا اور ماں کے ساتھ اپنے بابا کے جگری یار کے گھر پر تھی۔ وہ بہت خاموش تھی اور سب کی باتوں کا جواب ہوں ہاں میں دے رہی تھی تبھی فائز نے اس کی حالت بھانپ لی کہ وہ بڑوں سے بات کرنے میں جھجک محسوس کر رہی ہے اور اپنے باپ سے اجازت لے کر اپنی بہن کے ساتھ وہ عائشہ کو باہر لاؤنچ میں لے آیا۔عائشہ چونکہ لڑکوں سے بات کرنے میں بہت محتاط رہتی تھی لیکن پہلی ہی ملاقات میں فائز کی پُر اسرار شخصیت نے اُس پر اتنا گہرا اثر چھوڑا کہ وہ گھر جاکر ساری رات فائز کے بارے میں سوچتی رہی اور پہلی بار کسی لڑکے سے بات کرتے ہوئے اُس کو کوئی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔
عائشہ اور فائز کا ایک ہی یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا اسی لئے روز دونوں کا آمنا سامنا ہوتا رہتا تھا اور رفتہ رفتہ دونوں میں اتنی گہری دوستی ہوگئی کہ فارغ وقت میں دونوں ساتھ ہی نظر آتے تھے۔ عائشہ کی زندگی نے ایک بڑی کروٹ لے لی اور اُس کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اُس کو فائز سے محبت ہوگئی اور محبت بھی ایسی کہ وہ ہر وقت فائز پر مر مٹنے کے لئے تیار رہتی تھی۔ عائشہ فائز سے بہت محبت کرتی تھی اور فائز کی ہر بات عائشہ کے لئے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ وہ ہر مشکل وقت میں فائز کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی رہی اور فائز کا بھرپور ساتھ نبھایا۔ فائز کی دوستی کو وہ اللّٰہ کی طرف سے عنایت سمجھتی تھی لیکن جب بھی اُس کو محبت کا خیال آتا تھا وہ ڈر جاتی تھی کہ کہیں اُس کے دل کی بات جان کر وہ عائشہ سے ناراض نہ ہوجائیں اور اسی ڈر کی وجہ سے وہ کبھی اظہار عشق نہ کر پائی۔ لیکن جس طرح سے فائز اُس کے ساتھ تھا اُس کو لگتا تھا فائز کو بھی اُس سے محبت ہے اور اُسی امید میں وہ جی رہی تھی کہ ایک دن وہ جب یونیورسٹی سے گھر پہنچی تو فائز اور اُس کے گھر والے پہلے سے اُس کے گھر پر موجود تھے اور سلام دعا کے بعد جب ماں نے اُس کو مٹھائی کھلا کر اُس کا منھ میٹھا کرایا تو اُس کو لگا شاید فائز کے گھر والے اُس کا رشتہ لے کر آئیں ہیں لیکن اُس پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی جب اُس کی ماں مٹھائی کا ڈبہ میز پر رکھتے ہوئے کہنے لگی مبارک ہو بیٹا فائز کی اُس کی ماموں زاد کے ساتھ بات پکی ہوگئی ہے دو دن بعد دونوں کی منگی ہے بھیا بھابی دعوت دینے آئے ہیں اور خاص طور سے تمہیں بُلایا ہے کیونکہ تم فائز کی بہت اچھی دوست ہو اس لئے۔
عائشہ کے چہرے پر حیرانی دیکھ کر فائز اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس کو باہر لاؤنچ میں بات کرنے کے لئے لے گیا۔
اور بے جھجک پوچھنے لگا کیا ہوا عائشہ تم میری شادی کی خبر سُن کر اتنی حیران کیوں ہو۔
نہیں فائز ایسی کوئی بات نہیں وہ آپ نے کبھی اپنی شادی کو لے کر کچھ ذکر نہیں کیا نا تو اس لئے تھوڑا سا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عائشہ سر جھکا کر کہنے لگی۔
فائز عائشہ کو بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا۔ ادھر بیٹھ جاؤ بتاتا ہوں۔ میں تمہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا یار اور دیکھنا چاہتا تھا کہ میری شادی کی خبر سُن کر تمہارا رِیکشن کیسا ہوگا۔ مجھے تو لگتا تھا تم خوشی سے جھوم اُٹھو گی لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ بات کاٹتے ہوئے آپ خوش ہیں اس شادی سے۔
ہاں یار بلکل میری رضامندی سے ہی تو شادی طے کر دی گئی ہے فائز نے پر جوش انداز میں کہا۔
عائشہ: آپ خوش ہیں فائز تو میری ناخوشی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
فائز شرارتی انداز میں، کیوں تمہیں لگا تھا کہ مما بابا نے زور زبردستی کر کے مجھ سے شادی کے لئے ہاں کروائی ہیں اور اس بات پر دونوں ہنسنے لگے
نہیں فائز بس میری دعا ہے اللّٰہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھیں عائشہ دعا دینے لگی۔
لیکن یار کچھ بھی ہو میری منگنی پر تمہیں ضرور آنا ہے اگر تم نہیں آئی تو میں منگنی نہیں کروں گا۔ فائز حاکمانہ انداز میں اپنی بات منوانے لگا۔
عائشہ: میں پوری کوشش کروں گی فائز
وہ لوگ چلے گئے تو عائشہ نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ اُس کا رو رو کر بُرا حال ہوگیا رات کو اُس کی ماں اُس سے کھانے پر بُھلانے کے لئے آئی تو وہ بستر پر پڑی بخار سے تپ رہی تھی اور بڑی مشکلوں سے لاڈ سے پیار سے بچوں کی طرح کھانا کھلا کر اُس کو دوائی دے کر سُلا دیا۔ عائشہ اتنی دکھی تھی کہ وہ دو تین دنوں
تک یونیورسٹی بھی نہیں گئی اور اُس نے اپنا فون بھی بند کر رکھا تھا وہ کسی سے بھی بات نہیں کرتی تھی۔ جس دن فائز کی منگنی تھی تو فائز نے لگاتار عائشہ کا فون بند پا کر اُس کی ماں کو کال کی لیکن فائز کے فون کا سُن کر ہی وہ سونے کا ناٹک کرنے لگی اور اُس کی ماں نے فائز کو بتایا کہ اُس کی طبیعت بہت خراب ہے اِس لئے وہ فائز کی منگنی پر نہیں آسکتی۔
ایک ہفتے بعد وہ یونیورسٹی چلی گئی تو اُس کو دیکھتے ہی فائز اُس کے پاس آیا اور اُس سے کہنے لگا ویسے تو میں بہت ناراض ہوں تم سے لیکن عائشہ تم میری بہت اچھی دوست رہی ہوں اِس لئے تمہارا حال چال پوچھنے تمہارے پاس آیا۔
دوست رہی ہوں، مطلب اب ہم دوست نہیں رہے ہے کیا۔ عائشہ نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔
میں نے کہا تھا نا عائشہ تم میری منگنی پر نہیں آئی تو میں منگنی نہیں کروں گا لیکن تم پھر بھی نہیں آئی اور تمہاری غیر حاضری میں مجھے منگنی کرنی پڑی اب اِس کی سزا تو تمہیں اُٹھانی پڑے گی نا۔ فائز ناراضگی والی شکل بنا کر کہنے لگا۔
عائشہ جھنجھلا کر اور میرے نا آنے کی سزا آپ مجھے دوستی توڑ کر دیں گے یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں بیمار تھی۔
فائز شرارتی ہوکر کہنے لگا ارے ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا میری شادی کی خبر سُن کر تم بیمار ہوگئی۔ کیا ہُوا تھا تمہیں۔ کہیں تمہیں مجھ سے محبت تو نہیں ہوگئی ہے جو کسی فلم کے ہیروئن کی طرح صدمے میں بیمار پڑ گئی۔
فائز کی اِس بات نے عائشہ کے دل پر وار کیا، اُس کی آنکھیں نم ہونے لگی لیکن اپنا درد چھپا کر مضبوط ہوکر وہ فائز سے کہنے لگی۔ محبت اور آپ سے، اگر آپ دنیا کے آخری آدمی بھی ہوں گے نا تب بھی میں آپ سے محبت نا کروں، آپ نے شکل دیکھی ہے اپنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں اُس بیچاری کا کیا ہوگا جس کے آپ گلے پڑ گئے۔
فائز ہنستے ہوئے اتنا غضہ عائشہ، مجھے تو یقین نہیں آرہا ہے یہ تم ہو۔ ویسے میں اتنا بھی بُرا نہیں ہوں جتنی تم نے تعریفیں کی ہے میری۔ میں مزاق کر رہا تھا۔ تم سے دوستی کیسے توڑ سکتا ہوں لیکن سزا کے طور پر آج تمہیں مجھے کھانا کھلانا ہوگا اپنی طرف سے۔
عائشہ: شادی آپ کی ہونے جا رہی ہے اور کھانے میں کھلاتی پھروں۔
فائز: جی مس عائشہ کیونکہ یہی آپ کی سزا ہے
عائشہ: ٹھیک ہیں آپ بھی کیا یاد کریں گے کہ آپ کا پالا کس دل والی سے پڑا تھا۔ اب چلیں کلاس کا وقت نکلا جا رہا ہے۔
اس سب کے باوجود بھی دونوں کی دوستی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ فائز کی شادی کی ساری شاپنگ عائشہ نے خود کروائی۔ اُس نے ساری تیاریاں خود کی۔ ہر وہ کام کیا جس میں فائز کی خوشی تھی اور دوست ہونے کا ہر فرض نبھایا اگرچہ اُس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا لیکن فائز کو اُس نے کچھ بھی محسوس نہیں ہونے دیا۔
آج فائز کی شادی تھی اور یہ اُس کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ وہ لگاتار روئے جا رہی تھی، رونے سے اُس کی سانسیں پھولنے لگی، دم گھٹنے لگا، سینے میں درد محسوس ہونے لگا۔ وہ بار بار خود سے یہی کہے جا رہی تھی عائشہ تم نے فائز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیا ، میری محبت ہار گئی فائز اور یہی کہتے ہوئے ’’ ساحر لدھیانوی‘‘ کا گیت گنگنانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں
ابھی ابھی تو آے ہو بہار بن کے چھائے ہو
ہوا ذرا مہک تو لے نظر ذرا بہک تو لے
یہ شام ڈل تو لے ذرا یہ دل سنبھل تو لے ذرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر گیت گنگناتے ہوئے وہ بے ہوش ہو گئی ۔ رات تک جب وہ کمرے سے باہر نہ آئی تو بہن اس کو بلانے کے لیے آگئی لیکن عائشہ کو فرش پر بے ہوش پاکر اس نے گھر والوں کو بلایا اور فوراً اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کو مردہ قرار دے دیا۔
’’ ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر ‘‘
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page