آفتاب رشکِ مصباحی
شعبہ فارسی بہار یونیورسٹی ، مظفرپور، بہار
8210586235- aftabrashk@gmail.com
موجودہ دور میں غربت و معاشی پسماندگی ایسی برائی بن کر سامنے آئی ہے جس نے فرد سے لے کر سماج تک کو مختلف قسم کی برائیوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ جس کا سرسری ادراک ان بستیوں کے معائینے سے ہی ہو جاتا ہے جہاں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنھیں دو وقت کا کھانا بھی بمشکل مل پاتا ہے۔ نتیجۃً ایسے لوگ چوری چکاری سے لے کر شراب تسکری، اسمگلنگ، ڈرگس فروشی ، بلکہ جسم فروشی تک کے شکار ہوئے جا رہے ہیں۔ جو نہ صرف ان کے لیے ، بلکہ پوری انسانی برادری کے لیے شرم و ہلاکت کا باعث ہے۔ اسلام رہبانیت کا نہیں ، خیر دنیا کا داعی ہے۔ اس لیے اس نے غربت سے باہر نکلنے کے بے شمار راستے بتائے ہیں۔ خود پیغمبر اسلام ﷺ نے غربت سے پناہ مانگی ہے۔ عمدۃ القاری میں صحیح روایت سے نقل ہے کہ نبی کریم ﷺ نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! میں کفر سے، غربت سے اور عذاب کبر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ اسی طرح صحیح الجامع للالبانی میں ایک روایت یوں لائی گئی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اس طرح دعا کرتے تھے: اے اللہ! میں معاشی پسماندگی سے، تنگ دستی سے اور ذلت سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ ان دعاؤں کی وجہ یہ ہے کہ غربت و معاشی تنگی بسا اوقات انسان کو کفر تک لے جاتی ہے، جس کا مشاہدہ آئے دن ہوتا رہتا ہے کہ تنگی کی وجہ سے لوگ اپنا دین و مذہب تک ترک کیے جا رہے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی ہے۔ وجہ یہی غربت و معاشی پسماندگی ۔ العیاذ باللہ من ذالک۔ یا کم از کم صحت، تعلیم، صاف صفائی، طرز رہن سہن اور اخلاقی قدریں تو ضرور متاثر ہوتی ہیں جو ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔ اس لیے اسلام نے بنیادی طور پر مسلمانوں کو بار بار اس بات کی ابھارا ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے سماج سے غربت کا حتی المقدور خاتمہ کرنے یا علی الاقل بڑی حد تک کم کرنے کی کوشش کریں۔
اسلام کی بنیاد جن چیزوں پر ہے ان میں سے ایک زکات ہے۔ اموال زکات میں اللہ سبحانہ نے لازمی طور پر غربا و مساکین کا حصہ رکھا ہے(3) (سورہ توبہ: 60)تاکہ مسلم سوسائٹی اپنا ایک مخصوص حصہ انھیں ضرور دیں، اور اس دینے کو فلاحِ دارین کا ذریعہ بتایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: کامیاب ہوئے وہ مومن جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں، اور جو بیہودہ باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں اور جو زکات ادا کرنے والے ہیں۔(سورہ مومنین ) زکات کے علاوہ دیگر بہت سی چیزوں میں اسلام نے یہ ترغیب دی ہے کہ غربا و مساکین پر خرچ کیا جائے اور انھیں وقتا فوقتا کچھ نہ کچھ دیا جائے۔ چناں چہ کئی ایسے مواقع ہیں جہاں اسلام یہ بتاتا ہے کہ انھیں بھی کچھ دے دیا کرو۔ مثلاً: جس وقت ترکہ جو کہ خالص متوفیٰ کے وارثین کا حصہ ہے، تقسیم ہو رہا ہو اور کوئی غریب مسکین پہنچ جائے تو ہمیں یہ حکم ہے کہ ان غربا و مساکین کو بھی کچھ دے دیا جائے، انھیں محروم واپس نہ کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جب تقسیم ترکہ کے وقت دور کے رشتہ دار، یتیم اور غریب لوگ آ جائیں تو ان کے حصے میں سے کچھ ان کو بھی دے دیا کرو۔ (سورہ نسا) ایسی طرح ایک شخص اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں پر مال خرچ کرتا ہے تو اسے یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ جو کچھ مال و دولت تم ان پر خرچ کر رہے ہو انھیں کے ساتھ ملا کر کچھ غربا و مساکین پر بھی خرچ کیا کرو۔ جیسا کہ سورہ بقرہ میں ہے:کہہ دو جو کچھ تم مال خرچ کرو ماں باپ، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں(غربا) اور مسافروں پر خرچ کرو۔ نیز کبھی کفارہ، کبھی صدقہ فطر تو کبھی انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ مختلف ذرائع سے غربا و مساکین پر مالی خرچ کی ترغیب اس بات پر ابھارتی ہے کہ مسلم سوسائٹی جس طرح بن پڑے سماج سے غربت کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ انسان کو مالی اعتبار سے اتنا بلند ہونا چاہیے کہ وہ خرچ کرنے ولا بن کر زندگی گزارے سائل بن کر نہیں ۔ اس حوالے سے پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک حدیث صحیح بخاری میں بڑی معنی خیز ہے: اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا، جب کہ نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔ بخاری شریف ہی ایک دوسری روایت ہے: اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی نے کبھی نہیں کھایا اور حضرت داؤد علیہ السلام جو اللہ کے نبی ہیں ، اپنے ہاتھوں سے کما کر ہی کھایا کرتے تھے۔
انسانی سماج سے غربت و پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے جہاں اہل ثروت مالداروں کو یہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ وقتا فوقتا مختلف ناموں پر سماج کے غربا و مساکین کی مالی امداد کیا کریں وہیں لوگوں کو (بشمول غربا و مساکین) بہت سی ایسی چیزوں سے بچنے کی سخت تلقین کی ہے جو غربت و ناداری کی طرف لے جانے کا ایک ذریعہ ہیں۔مثلاً: فضول خرچی ، شراب نوشی، جوا بازی، سحر و توہم پرستی اور بے حیائی کے کام۔ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: اور مال و دولت کو بے جا نہ اڑاؤ، جو لوگ مال و دولت کو بے جا اڑاتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ سورہ مائدہ میں ہے: اے ایمان والو! بیشک شراب اور جوا اور نصب کیے گئے بت اور فال کے تیر سب ناپاک شیطانی کام ہیں۔ تم سب ان سے پرہیز کرو تاکہ فلاح پا سکو۔ سورہ اعراف میں ہے: کہہ دیجیے! میرے رب نے بے حیائی کے کام خواہ کھلے طور پر ہوں یا چھپ چھپا کر، گناہ اور ناحق بغاوت کو حرام کیا ہے۔ انسانی سماج سے غربت و پسماندگی کو دور کرنے کے لیے لوگوں نے اپنے اپنے طور پر مختلف چیزیں اختیار کیں، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ مثلاً: بخل، چوری، خیانت اور جھوٹ کا سہارا لے کر مال بچانے کی اور زیادہ کمانے کی کوشش کی گئی اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں یہ چیزیں سماج میں موجود ہیں۔ اس سے غربت کم تو نہیں ہوئی ، سماجی امن و سکون اور انسانی عظمت و وقار کو نقصان ضرور ہوا۔اسی لیے اسلام نے ان بری عادتوں پر قدغن لگائی ہے اور انھیں بڑا جرم قرار دیا ہے۔ سورہ آل عمران میں ہے: اور جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں، وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے، بلکہ یہ ان کے لیے برا ہے۔ جس مال میں ان لوگوں نے بخل کیا عنقریب قیامت کے دن طوق بنا کر انھیں پہنا دیا جائےگا۔ سورہ مائدہ میں ہے: اور چوری کرنے والے مرد اور عورت دونوں کا ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کے کیے ہوئے جرم کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے سخت سزا۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ سورہ انفال میں ہے: اے ایمان والو! جان بوجھ کر اللہ و رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کا ارتکاب کرو۔ سورہ آل عمران میں ہے: اور جو خیانت کرےگا تو اپنی خیانت سمیت قیامت میں حاضر ہوگا ور ہر نفس کو ظلم کیے بغیر اس کے کیے کا بدلہ دیا جائےگا۔ سورہ زمر میں ہے: بے شک اللہ جھوٹے احسان فراموش کو ہدایت نہیں دیتا۔
اب ذیل میں چند تجاویز لکھی جاتی ہیں ، اگر ان پر دیانت داری کے ساتھ مسلم سوسائٹی عمل کرتی ہے تو ان شاء اللہ بڑی حد تک غربت و پسماندگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی اپنی زکات کا اجتماعی نظم قائم کیا جائے اور جہاں سب سے زیادہ ضرورت ہو وہاں اسے خرچ کرے اور قرآن مصارف کو فوقیت دے۔مان لیا جائے کہ کوئی ایسا علاقہ ہے جہاں دو ہزار مسلم گھرانے موجود ہیں جن میں سو گھرانے غربت و پسماندگی کے شکار ہیں۔ ایسی صورت میں وہاں اگر اجتماعی زکات کا نظام نافذ ہوتا ہے تو انیس سو گھرانے کی زکات ایک جگہ جمع ہوگی جو یقینا ایک خطیر رقم ہوگی۔ اس سے ان سو گھرانوں کے لیے ایسے انتظامات کر دیے جائیں کہ آئندہ وہ زکات کے منتظر نہیں ، بلکہ زکات دینے والوں کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہوں۔ دوسری چیز صاف صفائی اور عمدہ غذا کو یقینی بنایا جائے۔ کیوں کہ گندگی اور نقصان دہ غذائیت کی وجہ سے انسانی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے، لوگ مختلف قسم کی متعدی، غیر متعدی مہلک بیماریوں کے شکار ہو جاتے ہیں جن کے علاج و معالجہ میں بڑی بڑی رقمیں خرچ ہوتی ہیں اور انتظام نہ ہو پانے کی وجہ سے زمین جائداد بسا اوقات سب کچھ بیچنا پر جاتا ہے۔ اور اس طرح نسلاً بعد نسل ایک طرح کی غربت مسلط ہو جاتی ہے۔
تیسری چیز مسلم سوسائٹی میں علی الخصوص غربا و مساکین کو تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ اگرچہ اپنی اپنی سطح پر بہت سے مدارس اس اہم کام کو انجام دے رہے ہیں۔ مگر قدیم نصاب و نظام کی وجہ سے آج وہاں تعلیم پانے والوں کی تعداد آئے دن کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ قدیم صالح اور جدید نافع کا مرکب ایک نیا نصاب جو ایک ہی وقت میں ایک ہی چھت کے نیچے جدید اسکول اور قدیم مدارس کی بنیادی ضرورتوں کو پوری کرتے ہوئے نئے طرز پر پڑھایا جا سکے، نافذ کیا جائے ساتھ ہی ریاستی اور ملکی اسکیموں سے بھی فائدہ اٹھایا جائے تاکہ آنے والے طلبہ و طالبات کے لیے جدید سہولیات فراہم کی جا سکے اور ایک اچھے ماحول میں انھیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جا سکے۔ اس عمل کو ابتداءً دو مرحلوں میں اور آخراً تین مرحلوں میں تقسیم کر کے بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ پہلے مرحلے میں میاری مکاتب کا قیام جہاں کم عمر کے ابتدائی بچے لکھنا پڑھنا سیکھ سکیں۔ اور اس کے بعد معیاری اور جدید سہولیات کے ساتھ عصر طرز پر یائی اسکول اور انٹر کالج کے لیول پر اسکول/ مدرسہ۔ اور ان دونوں جگہوں پر تجربہ کار، محنتی، ایمان دار اور مخلص باصلاحیت اساتذہ کی ٹیم رکھی جائے ، خاطر خواہ وظائف ہوں۔ غریب و نادار طلبہ و طالبات کے لیے ایک مخصوص کوٹا ہو۔ محنتی ذہین طلبہ کے لیے اسکالر شپ کا اتظام ہو۔ دوسرے مرحلے میں ٹیکنکل کورسیز پر زور دیا جائے، مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرائی جائے اور ایک آبادی کو نہایت اعلی تعلیم سے استوار بھی کیا جائے۔ اس طرح سماج سے جہالت جو غربت کا ایک بڑا سبب ہے ختم کر کے پسماندگی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ غربت کو ختم کرنے کے لیے ایک آخری کام یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ سماج کو ابتدائی سطح پر چھوٹے چھوٹے کار و بار اور ہنر سے جوڑا جائے تاکہ رفتہ رفتہ اس کے ذریعہ وہ ترقی کی طرف بڑھ سکیں۔ مثلاً: دست کاری، سلائی، فرنیچر، لانڈری، بیکری، ریڈی میڈ گارمنٹس، مفید غذائی پروڈکٹس، الیکٹرانکس پروڈکٹس، لکڑی اور بمبو پروڈکٹساور اسی طرح کی چھوٹے چھوٹے کار و بار ، تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعہ ایک حد تک غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page