ا
اردو زبان میں علمی خدمات کے اعتراف کی روایت کم و بیش ستّر سال پرانی ہے۔ اگرچہ اس عرصے کو طویل قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن اتنے کم وقت میں اس کی جڑیں بہت مضبوط ہو چکی ہے اوردیکھا جا سکتا ہے کہ اس کا دائرہ ادب، تاریخ، سیاست، فنونِ لطیفہ اور مذہب تک پھیل چکا ہے۔ اردو میں اس کے لیے ’ارمغان‘ اور ’نذر‘ کی اصطلاح مستعمل ہے، مثال کے طور پر ’ارمغانِ علمی‘، ’ارمغانِ مالک‘ یا ’نذرِ عرشی‘ وغیرہ۔ اوّلین ارمغانِ علمی ۱۹۵۵ء میں پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیع کی خدمت میں پیش کیا گیا، جس کے بعد خواجہ غلام السیدین (۱۹۶۴ء)، مولانا امتیاز علی خاں عرشی (۱۹۶۵ء)، جسٹس ایس اے رحمٰن (۱۹۶۶ء)، ڈاکٹر ذاکر حسین (۱۹۶۹ء)، مقبول احمد لاری (۱۹۷۰ء)، مالک رام (۱۹۷۱ء)، ڈاکٹر سید عابد حسین (۱۹۷۴ء)، پروفیسر حمید احمد خاں (۱۹۸۰ء)، کرنیل بشیر حسین زیدی (۱۹۸۰ء)، حکیم عبدالحمید(۱۹۸۱ء)، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (۱۹۸۶ء)، خواجہ احمد فاروقی (۱۹۸۷ء)، ڈاکٹر مختار الدین احمد (۱۹۸۸ء)، خواجہ منظور حسین (۱۹۹۱ء)، فخر الدین علی احمد (۱۹۹۴ء)، ڈاکٹر وحید قریشی (۱۹۹۸ء)، قاضی عبدالودود (۲۰۰۰ء)، سید حامد (۲۰۰۱ء)، خدا بخش (۲۰۰۱ء)، حافظ محمود شیرانی (۲۰۰۲ء)، ڈاکٹر یوسف حسین خاں (۲۰۰۴ء)، ڈاکٹر سید عبداللّٰہ (۲۰۰۵ء)، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی (۲۰۰۹ء)، علامہ علاء الدین صدیقی (۲۰۱۲ء)، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی (۲۰۱۳ء)، ڈاکٹر سلیم اختر (۲۰۱۴ء)، پروفیسر ملک محمد اسلم (۲۰۱۴ء)، پروفیسر حافظ احمد یار (۲۰۱۵ء)، ڈاکٹر معین الدین عقیل (۲۰۱۶ء)، ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی (۲۰۱۹ء)، شمس الرحمٰن فاروقی (۲۰۱۹ء)، ڈاکٹر خالد علوی (۲۰۲۲ء)، محمد اکرام چغتائی (۲۰۲۲ء)، ڈاکٹر امان اللّٰہ خاں (۲۰۲۳ء) منظر عام پر آ چکے ہیں۔
یہ تمام نذورِ علمی شخصیات سے متعلق ہیں، البتہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کی ساٹھ سالہ خدمات کے اعتراف میں ’عصرِ حاضر میں اسلامی تہذیب کی علمی و ادبی جہتیں‘ کے عنوان سے یادگاری مجلہ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا تعلق کسی علمی شخصیت سے نہیں، بلکہ ایک علمی ادارے سے ہے۔ ادارہ معارفِ اسلامی کراچی کی بنیاد ۴؍ مارچ ۱۹۶۳ء کو رکھی گئی۔ اس ادارے کی علمی خدمات سید ابو الاعلیٰ کی کتب کے مستند مواد کا تحفظ و اشاعت، شش ماہی تحصیل اور شش ماہی معارف مجلہ تحقیق، پندرہ روزہ معارف فیچر، شعبہ تفہیم القرآن، نَوجوان تحقیق کاروں کی تیاری اور شعبہ پرنٹنگ اینڈ پبلی کیشنز شامل ہیں۔ ڈاکٹر خالد امین کا کہنا ہے کہ ’اکیڈمی اپنے پہلے اجلاس کے فراہم کردہ لائحہ عمل پر اسلامی نظریات سے ہم آہنگ علمی و تصنیفی کاموں میں مصروفِ عمل ہے۔ اکیڈمی کی گزشتہ ساٹھ سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس نے اسلامی نظریات اور تہذیبِ اسلامی کو فروغ دینے کے لیے فکر و دانش سے آراستہ نَوجوان مختلف شعبہ ہاے زندگی کو فراہم کیے‘۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’دَورِ حاضر کی صورتِ حال پر نظر دَوڑائی جائے تو مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کی کیفیت دَورِ زوال سے بھی اَبتر ہے۔ دنیا میں مسلم حکمرانوں کی بگڑی ہوئی گوناگوں کیفیات نے مسلم تہذیب و ثقافت کو بھی شکست خوردگی اور مایوسی سے دوچار کر دیا ہے‘ اور یہ کہ ’دَورِ حاضر ایک بار پھر سیاسی، علمی اور فکری سطح پر نئے اشکالات اور سوالات اسلامی تحریکوں کے سامنے رکھ رہا ہے۔ یہ سوالات ماضی کے مقابلے میں کافی پیچیدہ اور فکرانگیز ہیں‘، چنانچہ ادارہ معارفِ اسلامی کراچی کے زیرِ اہتمام سید تنویر واسطی (انقرہ)، رضی الاسلام ندوی (ہندوستان)، عبدالرحیم قدوائی (ہندوستان)، ابو سفیان اصلاحی (ہندوستان)، شہاب یاد خاں (بوسنیا ہرزگووینا)، حسن بیگ (آئرلینڈ)، خورشید احمد (لیسٹر)، معین الدین عقیل (کراچی)، عارف نوشاہی (راولپنڈی)، خواجہ رضی حیدر (کراچی)، ارشد محمود ناشاد (اسلام آباد)، خالد ندیم (سرگودھا)، سید شاہد ہاشمی (کراچی) اور اظہار الحق (کراچی) کی مشاورت اور ڈاکٹر خالد امین کی ادارت میں اس ان اشکالات اور سوالات کو حل کرنے کے لیے اہلِ علم کے خیالات کو ارمغانِ زیر بحث کے لیے حاصل کرنے کے لیے اہلِ علم سے رابطے کیے۔ موصولہ مقالات کے موضوعات تنوع کو دیکھتے ہوئے مدیرِ محترم نے نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’جنوبی ایشیا اور دنیا بھر کے دانشور کسی ایک طرزِ فکر کے حامل نہیں ہیں، بلکہ ان کے طبعی میلانات، میدان ہاے کار اور علمی ذوق انھیں متنوع علمی جہات پر سوچنے اور سمجھنے پر اُکساتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ مجلہ اپنی ترتیب و تزئین میں کافی تنوع اور نیا پن لیے ہوئے ہے‘۔
موضوعاتی اعتبار سے یہ ارمغان بین المذاہب مطالعات، جنوبی ایشیا میں تحاریکِ اسلامی، قرآن مجید، تراجمِ قرآن، تراجمِ قوانین، جدید قوانین بین الممالک، مغربی تہذیب، سرمایہ داری، تشکیلِ جدیدیت، علامہ اقبال، ضیا گوک الپ، مولانا مودودی، مسئلہ فلسطین، ترکی، مکاتیبِ مشاہیر اور ادب پر محیط ہے۔ اردو مقالات میں ’بین المذاہب مطالعات: خوش آئند رجحانات کے چند نادر پہلو‘ از عبدالرحیم قدوائی، ’مولانا ابومصلح: جنوبی ایشیا میں تحریکِ اسلامی کے داعی‘ از معین الدین عقیل، ’قرآن کا تصورِ امن اور اس کے اساسی پہلو‘ از ابو سفیان اصلاحی، ’مولانا حالی نثری تصنیف مولود شریف کی تدوینِ نَو: جائزہ اور محاکمہ‘ از ارشد محمود ناشاد، ’جدید قوانینِ بین الممالک: ڈاکٹر محمد حمید اللّٰہ کی خدمات‘ از زیبا افتخار، ’تشکیلِ جدیدت کے تہذیب و تاریخی عناصر‘ از محمد رشید ارشد، ’بین المذاہب تعلقات میں میثاقِ مدینہ کا عصری اطلاق‘ از محمد سہیل شفیق، ’مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا ترجمۂ قرآن: لسانی اور علمی انفرادیت‘ از حافظ سراج الدین، ’سید ابو الاعلیٰ مودودی: مسئلہ فلسطین کا تاریخی تناظر‘ از نگار سجاد ظہیر، ’مکاتیبِ غلام رسول مہر بنام محمد حمزہ فاروقی: مسئلہ فلسطین کے حوالے سے‘ از محمد حمزہ فاروقی، ’تاریخِ قضیہ فلسطین: علامہ اقبال، فیض احمد فیض اور اقوامِ عالم‘ از فیض الدین احمد، ’خطوط نعیم صدیقی بنام معین الدین عقیل‘ از خالد امین، ’اردو زبان میں انگریزی قوانین کے تراجم کا آغاز‘ از رفیق یار خاں یوسفی، ’کیا مغربی تہذیب آفاقی ہے‘ از مریم جملہ ؍ فیضان الحق اور ’مذہب اور عروجِ سرمایہ داری: سولھویں اور سترھویں صدی کے تناظر میں‘ از اظہار الحق؛ جب کہ انگریزی مقالات میں The Poet of the East: Muhammad Iqbal in a Turkish Setting از تنویر واسطی،Ziya Gokalp’s Intellectual Influence on the Independence of Modern Pakistan از بوراک کرک چو اور Flexile Dunes in Urdu Press: Development of Urdu language culture from pre to post-Mutiny از محمد ذیشان اختر شامل ہیں۔
حسنِ انتخاب،پیشکش اور طباعتی کے اعتبار سے یہ مجموعہ بِلاشبہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ بڑے سائز کے ۴۱۲؍ صفحات کو محیط یہ تالیف اہلِ علم کے لیے ایک ارمغان سے کم نہیں۔ اس کی اس اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے مطالعے سے متعدد نئے موضوعاتِ تحقیق کا پتا چلتا ہے۔ کسی کتاب کی یہ بہت بڑی دین ہے کہ اس کے مندرجات محققین کو نئی راہیں سجھا دیں۔
ڈاکٹر خالد امین نے عالمی معیارات کے حامل اس مجموعے کی اشاعت سے ارمغان کی تاریخ میں ایک مرتب کی حیثیت سے اپنی جگہ ہی نہیں بنائی، بلکہ مستقبل کے مرتبین کے لیے ایک ایسی کسوٹی پیش کر دی ہے، جس سے کم تر مجموعہ بازارِ علم و حکمت میں قبول نہیں کیا جا سکے گا۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسا مرتب میسر آیا ہے، جس نے ایک علمی ادارے کی علمی خدمات کےا عتراف میں نہایت عمدہ مجموعہ مرتب کر کے دیگر علمی و طباعتی اداروں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دیگر ادارے اس جانب کب توجہ دیتے ہیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
2 comments
مدیر محترم، مضمون میں مرتب کا نام محمد امین درج ہو گیا ہے، جب کہ ان کا اسم گرامی ڈاکٹر خالد امین ہے۔ یہ غلطی میری طرف سے بھیجی گئی پہلی ای میل میں موجود تھی۔ اگرچہ پہلی میل کے فوری بعد تصحیح کے بعد دوسری فائل میل کر دی گئی تھی، لیکن بدقسمتی سے وہ آپ کی نظر سے نہیں گزری اور سابقہ غلطی برقرار رہی۔ اگر ممکن ہو تو درستی فرما دیجیے گا۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر محمد امین کے بجاے ڈاکٹر خالد امین پڑھیں۔
شکریہ سر۔۔۔۔معذرت خواہ ہوں۔۔۔۔ غلطیوں کو درست کرلیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔