لکھنؤ (13 جون / رپورتاژ: شاہد حبیب) آج معروف ڈراما نگار، شاعر اور براڈ کاسٹر جناب رفعت سروش (2008-1926) کو یاد کرنے اور ان کی فنی ریاضتوں کی قدرشناسی کے لیے "انڈین ڈائسپورا واشنگٹن ڈی سی میٹرو” کے فعال منتظم جناب رضی رضی الدین نے ایک خوبصورت آن لائن میٹنگ زوم پر سجائی تھی۔ پروگرام میں آخر تک جس طرح شرکاء کی حاضری رہی اس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وفات کے 14 برس بعد بھی رفعت سروش کس قدر مقبول ہیں۔ ظاہر ہے فنون لطیفہ کی جس ہمہ رنگ انداز میں انھوں نے اور زبیر رضوی صاحب نے خدمت انجام دی تھی، اس تنوع رنگ جہات کا تقاضا تھا کہ ہر بڑے فنکار کی طرح انھیں بھی کم از کم سال میں دو بار (یوم پیدائش اور یوم وفات کے موقع پر ) تو بھرپور طریقے سے یاد کیا ہی جائے۔ لیکن عرصہ بعد ایک واٹس اپ گروپ پر ان کی بیٹی اور معروف براڈکاسٹر پروفیسر شاہینہ سروش خان کے شیئر کردہ ایک فلائیر کے توسط سے اس پروگرام کے انعقاد کی خبر ملی تو بے حد خوشی اور اطمینان کا احساس ہوا کہ چلو بھارت کے ادبی ایکٹیوسٹوں نے انھیں بھلا دیا تو کیا ہوا، امریکہ کے کشادہ ظرف سماجی سروکاروں سے وابستہ افراد نے تو یاد رکھا ہوا ہے۔ خیر پروگرام ہندوستانی وقت کے مطابق ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے شب کو شروع ہوا تو زوم اسکرین پر ہمارے اساتذہ پرو فیسر فاروق بخشی (صدر شعبہء اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد)، محترم انیس اعظمی (مشہور ڈراما نگار، ہدایت کار اور اداکار)، ڈاکٹر شکیل اختر (ایسو سی ایٹ پروفیسر اے جے ایم سی، جامعہ ملیہ اسلامیہ) اور ودوشی سُمن دیوگن (معروف غزل اور ٹھمری سنگر) جیسی 80 سے زائد شخصیات کی باوقار موجودگی کو دیکھ کر انتہائی مصروفیت کے باوجود پروگرام میں آخر تک شامل رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
سب سے پہلے رفعت سروش کی آواز میں ان کی ایک مقبول نعت پلے کی گئی جسے کبھی مرحوم نے آل انڈیا ریڈیو کے لیے ریکارڈ کیا تھا۔ پھر ڈاکٹر شکیل اختر صاحب کو رفعت سروش کی زندگی پر خاکہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خاص انداز میں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بہت ہی کم الفاظ میں بیان کر کے سامعین پر ایک بھرپور تاثر مرتسم کیا۔ فنکار کی مذہبی اور ترقی پسند سوچ کی وضاحت کی اور ساتھ ہی ساتھ ذاتی اور ادبی نوعیت کے روابط کو یاد کیا اور کہا کہ رفعت سروش نے اپنی 55 مطبوعات اور دسیوں غیر مطبوعہ کتابوں کا جو ورثہ چھوڑا ہے، وہ نہایت قیمتی ہے۔ رفعت سروش جیسی ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں، اس لیے ان کے ورثے کو نئی نسل تک پہنچانا لازمی ہے۔ ڈاکٹر شاہینہ سروش خان اور محترم انیس اعظمی نے رفعت سروش کے ایک منظوم ڈرامے کو ان ہی کے مخصوص لب و لہجے میں پیش کر کے ایک سماں باندھ دیا۔ اور اس نغمگی میں مزید چار چاند اس وقت لگ گیے جب ودوشی سُمن دیوگن نے رفعت سروش کی ایک یادگار غزل ساز کے ساتھ چھیڑی تو ویڈیو اسکرین پر شرکاء کے چہرے منتر مُگدھ نظر آنے لگے۔ غیر متوقع علالت کے باعث معروف طنز و مزاح نگار، شاعر، صحافی اور رفعت سروش کے ہم نشین جناب اسد رضا پروگرام میں شریک نہ ہو سکے تو ان کا تحریر کردہ مضمون پروفیسر شاہینہ سروش نے پڑھ کر سنایا۔
آخر میں شرکاء نے اپنے تاثرات اور رفعت سروش کے خانوادے کے افراد جو مختلف ممالک میں علم و ادب کی خدمت کے سلسلے سے مقیم ہیں نے اپنی میٹھی یادیں شیئر کیں، جس سے اس خاندان کے اعلیٰ ذوقِ ادب کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ جناب رضی الدین کے کلماتِ تشکر کے ساتھ "انڈین ڈائسپورا واشنگٹن ڈی سی میٹرو” کے اس خاص ایپی سوڈ کے التوا کا اگلے ہفتے تک کے لیے اعلان کیا گیا۔
رفعت سروش : زندہ بادباد
انڈین ڈائسپورا : پائندہ باد۔
اچھا یہ کرم ہم پہ تو صیاد کرے ہے
پر نوچ کے اب قید سے آزاد کرے ہے (رفعت سروش)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page