انٹرویو نگار : علیزےنجف
زندگی فطری طور سے پیچ و خم سے عبارت ہے جس کا تجربہ ہر کوئی کرتا ہے، بلکل اسی طرح ایک فنکار کی زندگی بھی ہوتی ہے، ایسی بےشمار شخصیات کا ذکر تاریخ کے صفحات میں موجود ہے جنھوں نے نامساعد حالات کے سامنے سر جھکانے کے بجائے خود اپنے حوصلوں سے اپنی دنیا تعمیر کی ہے۔ جاوید دانش بھی ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جنھوں نے علامہ اقبال کے شعر کے مصداق ‘آپ اپنا جہاں خود پیدا کیا”۔ ان کا بنیادی تعلق شہر نشاط کلکتہ سے ہے اس وقت وہ کینیڈا مقیم ہیں، جاوید دانش فطرتاً جہاں نورد ہیں، آوارگی ان کی سرشت میں ہے بقول ان کے آوارگی ہمیشہ مجھے راس آئی ہے۔ وہ اب تک بہت سارے یوروپین ممالک کا سفر کر چکے ہیں جیسے لندن، فرینکفر، کوپن ہیگن وغیرہ ناگفتہ بہ حالات کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے انھوں نے اپنے شوق و جنون کو ایک پہچان دی۔ وہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں، حالات کی ستم ظریفی سے جب ان کا سامنا ہوا تو انھوں نے اس کا شکوہ کرتے ہوئے شب و روز بسر کرنے کے بجائے محنت کی راہ اپنائی اس سلسلے میں انھوں نے ہجرت بھی کی۔ جب وہ کینیڈا پہنچے تو جھوٹی شان کے ساتھ جینے کے بجائے زندگی کی سچائی کو قبول کیا اور ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ویٹر سے لے کر وینڈر تک کے سارے کام کئے، جو کہ ان کے جہد مسلسل کی وجہ سے ایک امپورٹ بزنس میں تبدیل ہو گیا تھا، اس کے بعد انھوں نے اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لیے "تندوری کلچر” ریسٹورینٹ کی بنیاد ڈالی، لذیذ دیسی و چائنیز ڈشز سے لوگوں کا دل جیتنے میں لگے رہے، مالی آسودگی کے حاصل ہو جانے تک وہ اس سے جڑے رہے ساتھ ہی اپنے ڈرامے کا شوق بھی پورا کرنے میں لگے ہوئے تھے ایک وقت کے بعد انھیں لگا کہ اب اس ریٹ ریس سے باہر نکل جانا چاہئے انھون نے سارے بزنس کو خیر آباد کہا اور پوری طرح ادبی دنیا کی طرف متوجہ ہو گئے۔ جاوید دانش صاحب نہ صرف ایک ڈرامہ نگار ہیں بلکہ داستان گو اور شاعر و مترجم بھی ہیں ان کی اب تک سترہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں، انتیس سالوں سے وہ رنگ منچ کینیڈا کے نام سے پروگرام کر رہے ہیں، ساتھ "Awargi With Danish” کے نام سے فنون لطیفہ سے متعلق فنکاروں کے آن لائن انٹرویوز بھی کر رہے ہیں، جاوید دانش صاحب کی شخصیت بزلہ سنجی اور سنجیدگی کا بہترین امتزاج ملتا ہے ۔ گونا گوں خصائص کی حامل شخصیت جاوید دانش صاحب کے سامنے اس وقت میں بطور انٹرویو نگار کے موجود ہوں، ہمیشہ کی طرح سوالات کی ایک لمبی فہرست بھی ہے، آئیے ان کے بارے میں مزید اب انھیں سے جانتے ہیں ۔
علیزے نجف: سب سے پہلے ہم آپ سے آپ کا بنیادی تعارف چاہتے ہیں آپ کہاں پیدا ہوئے اس وقت آپ کہاں پہ مقیم ہیں؟
جاوید دانش : آداب مجھے دنیا جاوید دانش کے نام سے جانتی ہے، بنیادی طور پر میں ڈرامہ نویس ہوں اور سفر نامہ نگار بھی ہوں، ترجمہ اور شاعری جب ڈرامہ نہیں لکھتا تو کر لیتا ہوں، مگر آج کل داستان گوئی سے عشق ہوا ہے، ساری دنیا اس بہانے گھومتا رہتا ہوں اور مجھے یہ افتخار حاصل ہے کہ مغرب یعنی شمالی امریکہ اور یورپ کا واحد داستان گو ہوں۔
میری پیدائش شہر نشاط کلکتہ کی ہے، والدین کا تعلق لکھنؤ سے تھا، پچھلے چالیس سالوں سے ٹورنٹو کینیڈا میں آباد ہوں۔
علیزے نجف: آپ کے آباء و اجداد کا تعلق لکھنؤ سے رہا ہے وہ ہجرت کر کے کلکتہ جا بسے آپ کی پرورش و ہرداخت کلکتہ میں ہی ہوئی، پھر علیگڈھ میں بغرض تعلیم آپ کا قیام رہا ان مختلف تہذیبوں نے آپ کی شخصیت سازی میں کیسا کردار ادا کیا؟
جاوید دانش: میرے والد جنت مکانی ویسٹ بنگال فائر سروس کلکتہ کے چیف موبلائزنگ آفیسر تھے، بلیو کالر جاب تھی، محمد حنیف نام اور اسیر تخلص تھا، یعنی شاعر تھے اس کے علاوہ مغربی ادب کے مترجم بھی تھے، گھر کا ماحول خالص ادبی اور لکھنوی تھا، میرے پھوپھا صاحب علامہ یوسف قدیری معروف نعت گو شاعر تھے ان کی مشہور نعت:
” زہے مقدر حضور حق سے سلام آیا پیام آیا
جھکاؤ نظریں بچھاؤ پلکیں ادب کا اعلی مقام آیا”
ساری دنیا میں ان کو شہرت حاصل ہوئی ، بعد میں وہ کراچی منتقل ہو گئے، گھر پر محفل نعت اور شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں، اس وقت کے معروف شعراء ان نشستوں میں تشریف لایا کرتے تھے جن میں علامہ آرزو سہارنپوری ، اعزاز افضل، جرم محمدآبادی، نازش سکندر پوری، نواب دہلوی، وغیرہ وغیرہ، مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔
گھر کے باہر کا ماحول یعنی محلے میں( 64 کے فسادات کے بعد) ملی جلی ابادی ہو گئی تھی، اماں جان جنت مکانی بہت سخت مزاج تھیں، گلی کے بچوں کے ساتھ کھیل کود کی قطعی اجازت نہیں دیتی تھیں کہ زبان بگڑ جائے گی، محلے کی زبان کا لہجہ بنگالی اور بہاری اور ان دونوں کو ملا کر کلکتیہ ہوا کرتا تھا۔ ہم دو دو طرح کی تہذیب کے بچپن سے عادی ہو گئے تھے، اسکول کا ماحول خالص اینگلو انڈین، کانونٹ اسکول کے دوست اردو بولنے میں تکلف فرماتے، محلے کے بچے انگلش سے گھبراتے تھے، پھر علیگڈھ یونیورسٹی کا اپنا مزاج اور دلکش ماحول، اس ملی جلی تہذیبی اور لسانی آمیزش نے میرے ڈرامہ نگاری کو بولی ٹھولی کا تحفہ عطا کیا، میں بڑی فراوانی سے مختلف زبانوں کی بولی ٹھولی، یعنی لہجوں کو اپنے ڈرامے اور خاص کر داستان گوئی میں بےدریغ استعمال کرتا ہوں، یعنی بنگلہ، گجراتی ، ہندوی، بمبیا، لہجے مجھے بہت بھاتے ہیں، اور بلا تکلف بولتا ہوں، ایک مزیدار بات یہ بھی تھی کہ ہمارے گھر کا دسترخوان خالص لکھنوی تھا اور چالیس سال بعد بھی ٹورنٹو میں اس کا اثر ہے، اور محلے کے دوستوں کے یہاں کھانے پر بہار کے مرچ مسالے اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ ایک عجیب بات یاد آئی یہاں ٹورنٹو میں ایک بڑی آبادی، ٹرینیڈاڈ اور گیانا، ویسٹ انڈیز کی آباد ہے، کوئی دو سو برس پہلے ان کے آباء و اجداد بہار سے گنے کی کاشتکاری کے لئے ویسٹ انڈیز لائے گئے تھے، ان کے یہاں زبان مذہب ثقافت سب خلط ملط ہوئے، لیکن کھانا ابھی تک بہاری طرز کا بنتا ہے، تیز مرچوں اور ہلدی سے بھرپور، یہاں ان کے گروسری اسٹورز میں ویسے مسالہ جات سب ایک ساتھ "کری پاؤڈر” آج بھی دستیاب ہیں۔ کچیلا نامی آم کا اچار یہاں کینیڈا میں دستیاب ہے۔ اسی طرح ہماری والدہ کی قیمامی سیوایاں آج بھی اپنے یہاں میں خود بناتا ہوں، مصروف ترین زندگی ہونے کے باوجود سفر اور کوکنگ میرا محبوب ترین مشغلہ ہے، کچن کی کہانی پھر کبھی سہی۔
علیزے نجف: آپ کی شخصیت میں مزاح اور سنجیدگی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے زندگی کے نشیب و فراز نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا آپ اپنے اس مزاح گوئی اور سنجیدہ فکری کو پروان چڑھانے میں کن عوامل کو سب سے زیادہ معاون سمجھتے ہیں آج کے وقت میں مزاح اور سنجیدگی میں در آنے والی سطحیت کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جاوید دانش: مزاح میری فطرت و طبیعت میں بچپن سے شامل ہے، گریڈ 3 سے لہک لہک کر نظمیں اور فلمی گانے سناتا تھا، ہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے skits and comedy میں خوب دل لگا لیا ۔
کون یقین کرے گا کہ میں کبھی ایک کامیاب کامیڈین تھا مگر میرے والد صاحب کی اچانک 49 سال کی عمر میں وفات سے گھر کی ساری ذمےداری مجھ پہ آن پڑی۔
مجھ سے پوچھو کہ زندگی کیا ہے
میں نے ہنس ہنس کے غم چھپائے ہیں
ظرافت کی جگہ زندگی میں سنجیدگی دبے پاؤں چلی آئی، کامیڈی کی جگہ تحریر میں ٹریجڈی کا آغاز ہوا مگر اپنے دل سے مجبور تھا آج بھی تمام تر ٹریجک ڈراموں میں ایک کردار کامک ریلیف کے طور پہ خود بخود آجاتا ہے جو تازہ ہوا کا جھونکا ہوا کرتا ہے اور دیگر سنجیدہ کرداروں کی دکھ بھری کہانی میں صبح روشن کی برسات اور امید کی کرن بن جاتا ہے، قصہ مختصر تمام تر آزمائشوں کلفتوں اور دکھوں کا سامنا میری طبیعت کی ظرافت کی وجہ سے آسان ہوا، صبر اور حوصلے کی عادت بنی، نہ چاہتے ہوئے وطن عزیز کو خیرآباد کہا ہجرت کی چکی میں ہنستے ہوئے پس کر مشقت کی راہ پہ چلتا رہا، آج قدرت کا دیا سب کچھ ہے بھائی بہنوں کی ذمےداریاں رفتہ رفتہ پوری ہوئیں الحمدللہ۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں مزاح کا معیار اور مزاج بہت سطحی اور پھکڑ پن والا ہو گیا ہے،۔ ہمارے مزاح نگاروں کے لئے پہلے مدرسہء مشتاق احمد یوسفی میں زانوئے ادب کو تہہ کرنا لازمی ہے، اس کی دو وجہ ہے پہلا مطالعے کا فقدان، دوسرا ہر کوئی شارٹ کٹ کے چکر میں بس فورآ لکھ کر کیش کرانا چاہتا ہے بقول یوسفی اس کو پال میں نہیں لگاتا ہے، میں یوسفی صاحب کا انٹرویو لے رہا تھا موصوف نے ہدایت کی کہ اس کو کچھ عرصے پال میں لگا دینا، میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا … کیا سمجھے؟ ہم نے دست بستہ عرض کیا دادا حضور لکھنؤ سے آئے تھے گھر پہ دسہری آموں کو پال میں لگایا جاتا تھا، وہ ہنسنے لگے، کہا تم کامیاب ہو گے۔ خداوند ان کے درجات بلند کرے ۔
علیزے نجف: ہمارے یہاں بےشک تعلیمی رجحان کو فروغ حاصل ہوا ہے لیکن بدقسمتی سے لوگ اس کے اس قدر اسیر ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے تمام ہی بچوں کو ڈاکٹر انجینئر فلاسفر بنانا چاہتے ہیں اس کے علاوہ دیگر آرٹ اور فنون لطیفہ کے شعبہ جات کے متعلق قنوطیت کا شکار ہیں اس ضمن میں پہلے کے مقابلے میں تھوڑی بہت تبدیلی بےشک پیدا ہوئی لیکن صورت حال اب بھی تسلی بخش نہیں جب کہ اس میں بھی دولت شہرت سب کچھ ہے اس غیر متوازن نظریے کے پیچھے کس طرح کی نفسیات کارفرما ہے اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جاوید دانش : مشرقی خاندانوں میں والدین ہر بچے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا اس لئے چاہتے ہیں کہ مستقبل سیکیور ہو جائے، تعلیم صرف جاب کے لئے ہو کر رہ گئی ہے عقل اور ذہنی بالیدگی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں رہا مگر تمام ترقی شہرت اور دولت سب حاصل کر لینے کے بعد بھی تسلی اور تشفی عنقا ہوتی ہے، میرا ایک ڈاکٹر دوست والدین کی ہر خواہش پورا کر لینے کے بعد بھی اپنی زندگی سے خوش نہیں۔
رہی بات فنون لطیفہ کی وہ تو بےچارے تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس کے لئے ہوا کرتا ہے شاید ہی اس سے کوئی والدین خوش اور مطمئن ہوں، اس نفسیاتی رسہ کشی میں طالب علم بھی خود کو غیر محفوظ اور ناکام سمجھتا ہے، میں ہمیشہ اسکول میں فرسٹ پوزیشن پر رہا St. Anthony’s Higher Secondary School کلکتہ میں میرا نام سائنس کی لسٹ میں تھا جب ہم نے اسکول پرنسپل سے کہا کہ میں ہیومینیٹیز یعنی آرٹس میں جانا چاہتا ہوں مجھ سے کہا گیا کل والد صاحب کے ساتھ آئیے والد نے دوسرے دن بڑی خندہ پیشانی سے کہا اگر جاوید آرٹس میں جانا چاہتا ہے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ۔ پرنسپل صاحب نہ صرف مجھے بلکہ والد صاحب کو حیرت کے ساتھ دیکھا کئے، راستے میں بابا نے صرف یہ کہا کہ آپ کسی بھی شعبے میں جاؤ مجھے امید ہے آپ اپنی پوزیشن سلامت رکھیں گے۔
ایک مسئلہ مشرقی تعلیمی سسٹم کا ہے جو اسٹوڈنٹ بادل نخواستہ جس فیلڈ میں گیا وہیں پھنس گیا تبدیلی ناممکن، جب کہ مغرب میں اسٹوڈنٹس کو کئی ساری چوائسز دستیاب ہیں جیسے کہ اگر آپ سائنس کے اسٹوڈنٹ ہیں تو آپ ایک میوزک کا بھی ایک سبجیکٹ لے سکتے ہیں، اسی طرح اگر آپ آرٹس کے اسٹوڈنٹ ہیں تو آپ کوکنگ کے کلاس بھی لے سکتے ہیں، پھر کسی طرح کی وقت کی کوئی بندش نہیں، آپ چونتیس سال میں بی اے مکمل کریں یا بیچ میں چھوڑ کر کام کرتے رہیں پھر جہاں چھوڑا تھا واپس جا کر وہیں سے گریجویشن مکمل کریں۔ سونے پہ سہاگا کوئی بھی اسٹوڈنٹ سائنس کی ڈگری لے کر یا پھر ماس کمیونیکیشن اور لاء کی ڈگری لینے کے لئے پھر سے گریجویشن کر سکتا ہے، کوئی نہیں کہے گا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ میرے بڑے صاحبزادے عدیل دانش نیورو سائنس اور سائیکالوجی کی ڈگری لے کر فائنانس میں چلے گئے، آج ان کی اپنی آٹو فائنانسنگ کی کمپنی ہے۔ نہ ہمیں حیرت ہوئی نہ ہمیں برا لگا، والدین کو اعتراض اس لئے بھی نہیں ہوتا کہ طالب علم خود مختار ہوتے ہیں اپنی تعلیم کے خرچ خود اٹھاتے ہیں، طالب علم لون لیتے ہیں اور خود ہی ادا کرتے ہیں، مشرقی والدین کی طرح نہیں کہ ان کا خرچ والدین کے ذمے ہو، میری اہلیہ عظمی دانش اسکول ٹیچر اور سماجی کارکن تھیں بعد میں میرے بوتیک کے بزنس اور ریسٹورنٹ میں وہ بھی میرے ساتھ شامل ہوگئیں اس دوران عظمی کو خیال آیا کہ پھر سے یونیورسٹی جائیں اور ریسرچ کا کام کریں، آج وہ پی ایچ ڈی میں مصروف و مگن ہیں، یہ آزادی اور مواقع صرف کینیڈا میں ممکن ہے۔
علیزے نجف: آپ ایک پیدائشی ڈرامہ نگار ہیں اسکول لائف میں قدم رکھتے ہی آپ نے اس میں طبع آزمائی شروع کر دی تھی اس کے بعد یہ سفر دراز ہوتا چلا گیا آپ ڈرامہ نگاری کی ہی طرف کیوں ملتفت ہوئے ڈرامہ نگاری کی وہ کون سے خوبی ہے جو اسے افسانہ نگاری سے الگ کرتی ہے ؟
جاوید دانش: یہ ٹھیک کہا کہ میں پیدائشی ڈرامہ نویس ہوں، میرے نزدیک زندگی ایک ڈرامہ ہی تو ہے، ڈرامہ زندگی کے سفر کا ایک علامتی اظہار ہے انسانیت کو سمجھنے اور انسانی رشتوں کے سفر کی اس میں عکاسی کی جاتی یے کیوں کہ تھیٹر اپنی تمام تر بازیگری کے باوجود ہمیں زندگی گزارنے کا ہنر خود زندگی سے بہتر سکھاتا ہے۔ میرے مہجری ڈراموں کے کردار محض بہروپئے نہیں دیار غیر میں آباد ہمارے اور آپ کے کردار ہیں، یہ ہماری شخصیتوں کا نقاب لگائے ہوئے زندہ کردار ہیں، ان کرداروں کے حوالے سے میں نے یہاں کے لوگوں کی بود و باش کی منظر کشی کی ہے ہم نے یہاں کے وسائل و مسائل کو انھیں کرداروں کی وساطت سے سمجھنے و پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ اس کاوش میں مجھے کہاں تک کامیابی ملی ہے اس کا اندازہ کسی قاری سے زیادہ تارکین وطن کر سکتا ہے۔
بقول نیر مسعود ” ‘ہجرت کے تماشے’ نے خود کو اول تا آخر پڑھوا کر چھوڑا کتاب ختم کر کے سب سے پہلے یہ تاثر قائم ہوا کہ ہجرت کے موضوع پر افسانوں اور نظموں سے زیادہ انصاف ڈرامے کی ہیئت کر سکتی یے، اور ڈراموں کی ہیئت سے سب سے زیادہ انصاف آپ کر سکتے ہیں یا وہ لوگ جو عملاً اسٹیج سے متعلق رہے ہوں اور ادب کی ایسی پہچان رکھتے ہوں کہ کتابی ادبی زبان کو ڈرامے میں بےجا مداخلت نہ کرنے دیں۔ آپ کے مکالموں نے ان سیدھے سادے پلاٹ والے ڈراموں میں جان ڈال دی ہے ”
میں سمجھتا ہوں ڈرامہ افسانہ سے مختلف اس طرح ہے کہ افسانہ پڑھ کر جو بھی کیفیت ہو آپ تنہا اس سے متاثر ہوتے ہیں مگر جب ہم تھیٹر سے رخصت ہوتے ہیں تو خود کو آڈینس کی صورت موجود افراد سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ اس تجربے میں وہ ہمارے ہمسفر تھے ہم بڑی گہری نظر اور باریکی سے اسٹیج پر ہونے والے واقعات اور کرداروں کو دیکھتے ہیں جو ہم میں سے ہو کر بھی ہم سے کتنے مختلف لگتے ہیں۔ ان کی زندگی اور کردار ہم سے زیادہ حساس مرکز نگاہ مرصع و آسودہ اور مکمل لگتی ہے، اسٹیج کے اس سفر سے ہمارے اندر غمگساری اور انسان دوستی کی صلاحیت ابل پڑتی ہے، ہم خود کو زیادہ مہذب تصور کرنے لگتے ہیں۔ اپنی پسند اور ناپسند کا برملا اظہار اپنے آڈینس کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کرتے ہیں، تالیاں بجا کر یا دوسروں سے نظریں بچا کر اپنے آنسو ٹشو پیپر میں خشک کرتے ہوئے، پھر اٹھتے وقت دوسروں کے ساتھ مسکرا کر رخصت ہوتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ ایک کامیاب ڈرامہ نگار ہیں آپ کی ڈرامہ نگاری نے ترقی کے کئی منازل طئے کئے آج لوگ اس کی اقتداء کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ آپ کن ڈرامہ نگاروں سے متاثر ہوئے اپنی ڈرامہ نگاری کی صلاحیت کو سنوارنے کے لئے کن ذرائع سے استفادہ کیا ؟
جاوید دانش: جب میں کلکتہ میں اسٹوڈنٹ تھا بادل سرکار اور اتپل دت سے بڑا مرعوب تھا، انھیں کے زیر اثر انقلابی ڈرامے لکھے اور کام کیا مگر علیگڈھ یونیورسٹی آکر حبیب تنویر صاحب سے ملاقات ہوئی پھر ان کو ہی اپنا منثور بنا لیا، کولکاتہ دہلی اور ٹورنٹو میں ان سے کئی بار ملا، ان کا ایک تفصیلی انٹرویو بھی کیا، حبیب تنویر صاحب نے یہ بتایا کہ جہاں رہو مشرق یا مغرب میں اپنی زمین سے جڑ کر رہو۔ انھوں نے ہی مجھے ترجمے کے کام سے بھی لگایا یعنی جب طبع زاد نہیں لکھ رہے ہو تو ترجمہ کرتے رہو، آج ہم مہاجری ڈرامے لکھ رہے ہیں، جو تارکین وطن کے دکھ سکھ کی کتھا ہے۔ اس کے ساتھ موضوع پر جو آج بھی مشرق میں ایک ٹیبو ہے اور اردو میں اس پر طبع آزمائی نہیں ہوئی یے، جیسے AIDS, MERCY KILLING, RAPE, SINGLE MOTHERS, AUTISM وغیرہ ڈرامہ ہو یا کوئی بھی فنون لطیفہ سیکھنے اور سمجھنے کا عمل زندگی بھر چلتا رہتا ہے، آج بھی خود کو طفل مکتب گردانتا ہوں، اپنے ارد گرد سے سیکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔
علیزے نجف: آپ فطرتا جہاں نورد رہے ہیں اور ہمیشہ ہی اس شوق کو پورا کرنے کی کوشش کرتے رہے اس جہاں نوردی کے شوق میں آپ نے پہلا سفر کہاں کا کیا اور اب تک کہاں کہاں کی سیاحت کر چکے ہیں اس شوق سیاحی نے آپ کو کیا کیا سکھایا اور کن ملکوں کی کن تہذیبوں سے آپ ازحد متاثر ہوئے اور کیوں؟
جاوید دانش : جی میں فطرتاً جہاں گرد ہوں بلکہ یہ جنون بچپن سے تھا کہ دنیا دیکھنی ہے۔ کولکاتہ میں چورنگی کے علاقے میں ایک بڑا بل بورڈ اسکول جاتے ہوئے ایک بار دیکھا، AROUND THE WORLD in 80 DAYS RS 11,000 only، بس خواب میں وہ اشتہار گردش کرنے لگا، پھر کیا تھا گریڈ 7 سے ٹیوشن سے پیسے جمع کرنا شروع کیا، یہ سوچ کر کہ گریجویشن کے بعد مجھے دنیا کے سفر پر نکلنا ہے، جیسے جیسے دن گزرتے گئے میری پونجی میں اضافہ ہوتا گیا، واقعی بی اے تک ہمارے پاس پندرہ ہزار روپیہ جمع ہو گیا، مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ہمارے بابا اچانک بیمار ہوئے اور تین مہینے میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے، کوئی دس برسوں میں جمع کیا گیا اثاثہ ایک جھٹکے میں خرچ ہو گیا۔ مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری نئی تدبیریں دیکھا و سوچا کرتے تھے کہ سفر کیسے ممکن ہو یہاں تک کہ پانی کے مرچنٹ شپس پر صفائی کے کام پر نوکری ڈھونڈنے لگا، میری محنت اور جنون کو دیکھ کر قدرت بھی مسکرانے لگی کہ پھر ایسی تبدیلی اور مواقع ہاتھ آئے کہ میں جہاں نوردی کے لئے نکل پڑا۔ پہلا پڑاؤ پیرس تھا، 21 سال کا جوان اور پہلی بار مغرب کا سفر، ‘کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا’ اب اس کے لئے اختیار کردہ تدبیر کی تفصیل جاننے کے لئے آپ اور ہر جہاں گرد کو میری "آواری اور مزید آوارگی” کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
حسن اتفاق سے اس کتاب کو یو پی اردو اکیڈمی نے امسال پچیس ہزار روپئے کا انعام بھی دیا ہے۔ آوارگی میرے ” پیرس، فرینکفرٹ، کوپن ہیگن، لندن، نیویارک، واشنگٹن ڈی۔ سی۔، ہیوسٹن، ٹیکساس، ڈیلس، لاس اینجلس، ٹوکیو، ہانگ کانگ، ٹوکیو کا سفر نامہ ہے۔ ہندی میں اس کے چار ایڈیشن آ چکے ییں اور یہ سفر نامہ بہت مقبول بھی ہوا۔ اب تک اتنا سفر کر چکا ہوں کہ یاد ہی نہیں کہ کہاں نہیں گیا ہوں۔
پہلے سفر صرف سیاحت اور سیکھنے کی غرض سے کرتا تھا، آج داستان گوئی کے لئے دنیا بھر میں بلایا جاتا ہوں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آوارگی مجھے ہمیشہ راس آئی ہے۔ تمام سفری دشواریوں کے باوجود میں خود کو نئے سفر کے لئے پا بہ رکاب پاتا ہوں۔ جتنا سفر میں کر چکا ہوں اتنا ہی میں خود کو اور دنیا کو سمجھتا جا رہا ہوں، یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ سفر نہیں کر سکتے تو کم از کم آوارگی کا مطالعہ ضرور کریں، کیا پتہ اس کو پڑھ کر آپ سفر پر نکل پڑیں، آزمائشیں انسانی مقدر ہوا کرتی ہیں، ہم نے ہمیشہ خود کو مثبت فکر سے جوڑے رکھا ہے، آج تک مجھے کوئی بھی ملک برا نہیں لگا، مجھے ہر جگہ اچھے اور ہمدرد لوگ ملے، ہو سکتا ہے دوسروں کا تجربہ اس سے مختلف رہا ہو، لیکن ہم نے کسی بھی ملک کی نہ برائی کی اور نہ ہی اپنے ملک کو نیچا سمجھا، ہر جگہ کا ہنستے ہوئے تقابلی جائزہ ضرور لیا۔ ہمارے کرم فرما دوست دلیپ سنگھ مرحوم کو ہی پڑھ لیں
” ساری کتاب میں دانش کا تعصب کہیں نظر نہیں آتا کہیں اس نے یہ نہیں کہا کہ جاپانیوں میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ جاپانی نہاری نہیں کھاتے، کہیں یہ نہیں کہا کہ کینیڈا جہاں وہ رہ رہا یے، یا ہندوستان جس کی مٹی سے اس کا خمیر اٹھا ہے جاپان سے بہتر ملک ہے، سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے کہیں نہیں لکھا کہ جاپان کی تمام لڑکیاں اس پہ عاشق ہوئیں تھیں، جب کہ سفر نامہ لکھنے والوں کو کھلی چھوٹ ہوتی ہے۔ متعصب مسافروں اور سفرنامہ نگاروں سے اکثر ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں، مجھے ہمیشہ یہ یقین رہا ہے کہ صرف اچھے انسان ہی اچھی کتابیں لکھ سکتے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ میرا دوست جاوید دانش ایک اچھا انسان ہے”
اگر مسافر کے دل میں ایک تجسس و تحیر اور دل میں ایک ہمکتا ہوا بچہ ساتھ ہے تو ہر جگہ آپ کوئی نہ کوئی اچھائی ڈھونڈ لیں گے، سفر ہمیں کھلے ذہن اور کشادہ دل کے ساتھ کرنا چاہیے۔
علیزے نجف: آپ کی زندگی نشیب و فراز سے عبارت ہے اچھے حالات میں انسان اکثر وہ سبق نہیں سیکھتا جو برے حالات میں سیکھتا ہے جب آپ اپنی زندگی کے نشیبی دور سے گذر رہے تھے تو کن چیزوں نے آپ کے حوصلے و ہمت کو بلند کئے رکھا ؟
جاوید دانش: ڈرامہ ہو یا سفر ہر حال میں مثبت سوچ رکھنا ضروری ہے، مسکرائیے اور ڈپریشن سے خود کو دور کیجئے، میری زندگی کا منترا ہے ACCEPTANCE TOLERANCE AND LOVE, قبولیت، رواداری، محبت۔ حالات کا خندہ پیشانی سے استقبال کریں ، برداشت کا مادہ پیدا کریں اور محبت کرنے والا دل رکھیں، ہوجائیں گی ساری مشکلیں آسان اللہ پہ بھروسہ رکھیں، مگر سفر کہیں کا بھی ہو ضرور کریں۔
علیزے نجف: آپ کی زندگی پہ ہجرت نے غیر معمولی اثر مرتب کیا ہے یہ آپ کے ڈراموں کا موضوع بھی رہا ہے "ہجرت کے تماشے” نامی مجموعہ انھیں احساسات کے ساتھ لکھا اور مرتب کیا گیا ہے جب آپ نے ہجرت کی تو اس وقت آپ کی زندگی کس طرح کے مسائل سے نبردآزما تھی آپ نے ہندوستان میں ہی رہ کر حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ہجرت کو ہی ترجیح کیوں دی اس ہجرت نے آپ کی زندگی پہ کس طرح کے اثرات مرتب کئے؟
جاوید دانش: جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں اسکول لائف سے اسٹیج پھر A.I.R. Radio پر اپنی عمر کے حساب سے مقبولیت حاصل کر چکا تھا، علیگڈھ جا کر لوکل سے ایک نیشنل آرٹسٹ کے طور پر ڈرامہ اور A.I.R. کے طور پہ مگن تھا۔ مگر حالات کے تحت جو مجھ پہ ذمےداریاں یعنی تین بہنوں ایک بھائی اور والدہ کی دیکھ بھال دو شفٹ میں جاب کرنے کے باوجود بھی مشکل ہو رہی تھی، اس لئے مجبوراً مجھے ہجرت کرنی ہڑی، اس وقت بس یہ دھن تھی کہ پیسہ کمانا ہے اور گھر کو سنبھالنا ہے، خوب محنت کی ہوٹل کے ویٹر سے لے کر پٹرول پمپ پر نائٹ شفٹ اور پھر ٹیکسی ڈرائیور آخر میں ایک ٹی وی کمرشیل جِنگلز میں اپنی آواز بیچنے تک ہر باس نے خوب نچوڑا اور ہر کام نے خوب توڑا مروڑا۔ ڈرامے سے یہی سیکھا تھا کہ کوئی بھی رول چھوٹا یا بڑا اور برا نہیں ہوتا آپ اپنی بہترین پرفارمینس پیش کریں، پھر کیا تھا ہر کام کو ڈرامے کا ایک کردار سمجھ کر خوب دلجمعی سے کام کیا پھر رفتہ رفتہ مطلع صاف ہوتا چلا گیا، دس سال کی مشقت کے بعد والدہ کے اصرار پر شادی کی، امپورٹ بزنس کی شروعات کی، پھر دو بوتیک، ہول سیل کا کام، آخر میں ایک ریسٹورنٹ "تندوری کلچر” پھر ایک دن سنجیدگی سے یہ فیصلہ کیا کہ بہت Rat Race ہو چکی اس تگ و دو میں چالیس سال قربان کر چکا تھا اب اتنا ہی بس ہے۔ جب آپ فیصلہ کر لیں کہ بس اتنا کافی ہے، تو دل میں سکون اور قناعت بھی قدرت ڈال دیتی ہے، ہم نے سارے کاروبار کو خیر آباد کہہ دیا early retirement لی خود کو صرف ادب کے لئے وقف کر دیا اب ساری دنیا کی گردش ہے، داستان گوئی ہے اللہ کا کرم ہے۔
علیزے نجف: آپ نے بےشمار ڈرامے لکھے اور اپنے ارد گرد کی زندگی میں پائے جانے والے اتار چڑھاؤ کی ترجمانی کی آپ کا وہ کون سا ڈرامہ یا کردار ہے جو کہ جاوید دانش کی اصل شخصیت کا ترجمان رہا ہو خود کو کسی کردار کے روپ میں پیش کرنے کا تجربہ آپ کے لئے کیسا رہا ؟
جاوید دانش: ہجرت کا ہر شیڈ اور ہر موضوع میرے ڈرامے "ہجرت کے تماشے” میں موجود ہے۔ غیر شعوری طور پہ کچھ ڈراموں میں میرا عکس بھی دوستوں نے دیکھا ہے، جیسے "کنوارے بھلے” اس میں تین جوان شادی کے سلسلے میں کسی لڑکی کے گھر جاتے ہیں ایک سرجن ہے جسے والدہ بہت پسند کرتی ہیں ایک ریئل اسٹیٹ کرتا ہے، جس کو والد پسند کرتے ہیں، اور ایک رائٹر ہے جسے لڑکی پسند کرتی ہے والدین ریجیکٹ کرتے ہیں۔ یہ ایک کامیڈی ہے جو کہ حقیقت پر مبنی یے، اس میں رائٹر رامش کے کردار میں لوگ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح ایک ٹریجڈی ہے ” کوئل جان” یہ ٹرانسجینڈر پہ ایک سنجیدہ ڈرامہ ہے، اکثر ہمارے سماج میں ٹرانسجینڈر کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مگر اس ڈرامے میں ہم نے ان کی کینیڈا میں آبادکاری پر بحث کی ہے، اس میں پس پردہ ایک ڈائریکٹر کا ذکر ہے جو پِکی بابا کے نام سے ان لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ کردار بھی شعوری طور پہ میرا ہے۔ ہجرت کے تماشے میں پروفیسر سرمدی کے مکالموں میں بھی میری جھلک دیکھی گئی ہے، اسی طرح "بڑا شاعر جھوٹا آدمی” جس کی فلم بھی بن چکی ہے۔ اس میں شاعر سحر کا کردار بھی میرا ہے، ویسے اس فلم میں میرا بھی ایک رول ہے۔
یہ تو الگ الگ کرداروں کی بات ہے مگر یہ سارے ڈرامے چوں کہ سوانحی ہیں اس لئے مجھے لگتا ہے کہ ہر رول میں میں کسی نہ کسی طرح موجود ہوں، کیوں کہ ہم نے ہجرت کا کرب جھیلا ہے، اس کی آزمائشوں کو ہنستے ہوئے برداشت کیا ہے، یہ دراصل میری ہی زندگی کی کہانی ہے۔
علیزے نجف: داستان گو کا لاحقہ آپ کے نام کے ساتھ جڑ چکا ہے آپ نے داستان گوئی کی روایت کو ایک نئے انداز میں آگے بڑھایا آپ کے اندر داستان گوئی کا رجحان کیسے پیدا ہوا اور اس شوق کو نبھانے کے لئے آپ نے کیا تدبیریں اختیار کیں؟
جاوید دانش: ڈرامہ میرا اوڑھنا بچھونا تھا، مگر داستان گوئی اب کھانا پینا بن چکا ہے، یہ نیا عشق ہم نے کوئی دس برس پہلے پالا ہے، لکھنؤ کے ایک لٹریری فیسٹیول میں مدعو تھا میری کتاب "چالیس بابا ایک چور” کی اجراء کا پروگرام تھا، اس دن پہلی بار داستان گوئی کا شو دیکھا تھا، ایک دوست ساتھ تھے انھوں نے پوچھا یار تم نوٹنکی والے ہو داستان گوئی آج کل خوب چل رہی ہے تم بھی کچھ حوصلہ دکھاؤ۔ بات دل کو لگی ہم واپس ٹورنٹو ا کر "داستان ہجرتوں کی” لکھا پہلا ٹیسٹ شو ٹورنٹو کیا اور شدید برفباری والے دن ہاؤس فل ہوا پھر ایک تاریخ رقم ہوئی۔
داستان گوئی دراصل ایک فینٹسی ہوا کرتی ہے، ہم نے اس کو ریئلٹی شو میں تبدیل کیا، ہجرت میرا محبوب موضوع پہلے ہی سے تھا، ڈرامے کی آمیزش سے اس میں ہم نے پنچ کردار کا اضافہ کیا جو اپنی مخصوص بولی ٹھولی یعنی لہجوں میں اپنی کہانی سناتے ہیں۔ عموماً داستان گوئی میں دو یا تین لوگ داستان سناتے ہیں، بمبیا بھائی فیض آبادی شاعر بنگالی ڈاکٹر، میرٹھ کا باورچی، اور پروفیسر سرمدی کی بصیرت افروز لہجے، ہم نے اس کو سولو بنا دیا یعنی پیشکش روایتی، لکھنوی انگرکھا اور دوپلی ٹوپی مگر داستان خالص حقیقی. مڈل ایسٹ ہو یا امریکہ لوگ اس داستان سے خود کو ریلیٹ کرتے ہیں، اپنا عکس اس میں دیکھتے ہیں۔میں ہنساتا ہوں رلاتا ہوں، خود ہنستا اور سچ مچ رو پڑتا ہوں لوگ تالی بجاتے ہیں کہ کتنی اچھی ایکٹنگ ہے داستان ہمارے ادب اور زندگی کا ورثہ ہے۔ داستان ہی تمام فنون لطیفہ کی ابتدا اور انتہا ہے، یہ داستان گو پر منحصر ہے کہ وہ اس کو صرف تفریح کے لئے پیش کر رہا ہے یا اس کے ذریعے کوئی حقیقی کتھا پیش کرنا چاہتا ہے۔
دوسری داستان "داستان امیر خسرو” بھی لکھا اور مقامی طور پر کئی شو ہوئے اس میں امیر خسرو کی زندگی کی داستان ساتھ کوئی دس قوالیوں ان کے کلام پر پیش کی جاتی ہے، اس میں میرے ساتھ پانچ قوال بھی ہوتے ہیں، دراصل یہ ایک فرمائشی شو تھا مگر اس کو ساتھ لے کر سفر کرنا مشکل ہے، عموماً دعوت صرف داستان ہجرتوں کی ملتی ہے اور میں تنہا سفر کرتا ہوں۔
علیزے نجف: پچھلے اٹھائیس سالوں سے آپ رنگ منچ کینیڈا کے نام سے پروگرام کر رہے ہیں اس پروگرام کی ابتدا کن حالات میں ہوئی اور کن کن مراحل سے گذرا اور اس وقت اس رنگ منچ کے تحت آپ نامور فنکاروں کا انٹرویو کر رہے ہیں یہ تجربہ آپ کے لئے کیسا رہا؟
جاوید دانش: کینیڈا میں 80 کے آغاز میں میں آ چکا تھا مگر والدہ اور بھائی بہنوں کی ذمےداریوں کو میں نبھانے اور تکمیل تک پہنچانے میں دس سال لگے۔ اس دوران صرف اور صرف کام ہی کیا، ڈرامہ کرنے کا سوال ہی نہیں تھا پھر رفتہ رفتہ حالات نارمل ہونا شروع ہو گئے والدہ کے اصرار پہ شادی بھی کر لی تھی کیوں کہ ذمےداریوں کی لمبی لسٹ مکمل ہو چکی تھی۔ پ 1994 میں کچھ دوستوں کے مشورے پر ایک تھیٹر گروپ "رنگ منچ کینیڈا” کی شروعات کی۔ پچھلے دس سالوں میں جو کچھ دیکھا جھیلا اور محسوس کیا اس کو قلمبند کرنا شروع کیا۔ 1990 میں شمالی امریکہ کا پہلا ڈراموں کا مجموعہ "ہجرت کے تماشے” لاہور سے پبلش ہوا اس وقت تک کینیڈا میں کوئی قاعدے کا اردو تھیٹر گروپ نہیں تھا، کچھ ہندی والے، مندروں میں ڈانس ڈرامہ اور کبھی کبھی مہابھارت کے کچھ سین کسی اسکول کے ہال میں کر رہے تھے۔ اردو والے شام موسیقی یا کبھی کبھی ہونے والے مشاعروں میں مگن تھے۔ ڈرامہ صرف انگلش زبان میں ہوتا تھا، ہم لوگوں کو پہلی مشکل اداکاروں کی تھی جو ایکٹرز دستیاب تھے وہ غیر اردو والے تھے جو ملتے بھی تو ‘تلفظ’ کے مارے، رنگ منچ کینیڈا پھر نئے ایکٹرس کو فنکار بنانے میں لگ گیا، ایک خیال یہ بھی آیا کہ اردو ڈراموں کو دیگر ہندوستانی ڈراموں کے ساتھ اسٹیج کیا جائے۔ 1994 سے سالانہ "ہندوستانی ڈرامہ فیسٹیول” کا آغاز کیا، جس میں ایک ہی دن ایک اسٹیج پر دس مختلف انڈین زبانوں کے ڈرامے اسٹیج ہونے لگے، اس کا سلوگن تھا "دس ڈرامے دس ڈالرز میں” اس مرحلے میں سب سے زیادہ شکایت اردو والوں کی تھی، مگر ہم نے اردو کے ساتھ ہندی، بنگالی، تامل، پنجابی، تیلگو، ملیالم، گجراتی، مراٹھی اور یہاں تک کہ سنسکرت ڈراموں کے فیسٹیول کا ریکارڈ قائم کیا۔
2019 میں اس کی سلور جوبلی منائی گئی، آج تک یہ سلسلہ کوئی اور نہیں قائم کر سکا مگر میرے عالمی داستان گوئی کی وجہ سے سفر بہت ہونے لگے، اس لئے اس سالانہ فیسٹیول کو روکنا پڑا۔ پھر کوویڈ نے ایک الگ سلسلے کا آغاز کروایا، "”Awargi with Danish” جس میں فنون لطیفہ کے اساتذہ اور آرٹسٹوں سے گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے، اب تک آپ کی دعا سے 170 سے زائد ایپی سوڈ ہو چکے ہیں، میں اس کو اپنے سفر کی مصروفیت کی وجہ سے روکنا چاہتا ہوں، مگر یار دوست نہیں چھوڑنے دیتے ، دیکھئے کب تک چلتا ہے یہ سلسلہ۔
علیزے نجف : آپ کا دو ڈراموں کا مجموعہ اب تک آ چکا ہے جسے آپ مہجری ڈرامے کہتے ہیں آپ کو پہلا مہجری ڈرامہ نگار کہا جاتا ہے اس کے بارے میں کچھ بتائیے؟
جاوید دانش : ڈائسپورا لٹریچر، یا مہجری ادب میں شعری مجموعوں کی بھرمار ہے بہت سارے فکشن اور کچھ ناول بھی ہیں، تھوڑا تنقیدی کام بھی ہوا ہے، مگر اردو ڈراموں کی ایک بھی کتاب نہیں ہے ” ہجرت کے تماشے”, اور "چالیس بابا ایک چور” صرف دو کتابیں ڈراموں کی اب تک ہیں، انگلش انڈین ڈراموں کی کتاب شاید ہو، مگر اردو کا میدان بلکل خالی یے، یہ میں نہیں کہہ رہا ڈاکٹر محمد حسن جے۔ این۔ یو۔ نے سند پیش کیا ہے
” معاشرے کی تبدیلی سے پیدا شدہ تہذیبی کشمکش کی یہ آواز پہلی بار اردو ڈراموں میں ابھری ہے، ساتھ ہی پروفیسر ضیاء کہتے ہیں کہ دانش پہلا اردو ڈرامہ نویس ہے جس نے ہجرت کے مسئلے و مصائب اور غریب الوطنی کے دکھ درد کو اپنے ڈراموں کا موضوع بنا کر اسے ایک نئی جہت اور وقار بخشا ہے، اردو ادب ہمیشہ اس بات پہ ان کا شرمندہء احسان رہے گا۔”۔ ( prof. A.Q. Zia- Laurentian University – Canada)
2013 میں دہلی یونیورسٹی میں میرے ڈراموں پر پروفیسر ابن کنول نے ایک ایم۔ فل۔ کروایا ہے۔ اور آجکل تین اسٹوڈنٹ مختلف انڈین یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
علیزے نجف : حال ہی میں آپ کی کتاب "پرندوں کی ہنگامی سبھا” شائع ہوئی ہے جو کہ بچوں کا ڈرامہ ہے اس کا بھی بڑا نام ہو رہا ہے، ادب اطفال کے حوالے سے لکھنے کا خیال کیسے آیا اس ضمن میں آپ نے مزید کیا خدمات انجام دی ہیں؟
جاوید دانش: پچھلے پچیس سال رنگ منچ کینیڈا پر ہم بڑوں کے لئے ڈرامہ لکھتے اور اسٹیج کرتے رہے ہیں، پھر خیال آیا کہ ڈرامہ کو grass root level پہ شروع کرنا چاہئے، میں اور میری اہلیہ” INTL. HERITAGE LANGUAGE” کے ذریعے ویک اینڈ پر اردو پڑھاتے رہے ہیں اردو کی کلاس میں مشکل سے پچیس اسٹوڈنٹس ہوتے ہیں جب کہ اسی اسکول میں چائنیز اور تمل کے سو سے زائد اسٹوڈنٹس انرول ہیں۔ بچوں کی دلچسپی کے لئے ہم نے اردو میں "IN CLASS DRAMA” کی شروعات کی عموما کسی ڈرامہ فنکشن کے لئے کلاس ٹیچر بہترین اسٹوڈنٹ کا انتخاب کر کے ڈرامہ تیار کرواتا ہے، مگر ہم نے سالانہ اسکول فنکشن کی جگہ ہفتہ وار سلسلہ شروع کیا جس میں کلاس کا ہر بچہ حصہ لیتا یے، خواہ وہ اسٹوڈنٹ شرمیلے ہیں یا شریر ہیں، یا خاموش رہتے ہیں، ہر ایک کو ہر ہفتہ ڈرامہ میں حصہ لینا پڑتا ہے، اور ڈرامہ کلاس روم میں کھیلا جاتا ہے، یہ میری ڈرامہ تھیراپی ہے اس طرح اور اسٹوڈنٹس کو چانس بھی ملتا ہے اور ان میں خود اعتمادی بھی آتی ہے۔
ڈراموں کا موضوع ماحولیات ، نظام، پانی، کی اہمیت، کلاس میں شرارت/ غنڈی گردی، والدین کی عزت وغیرہ ہوتا ہے۔ کلاس میں ڈراموں کا تجربہ بہت کامیاب ہے، ایک بچی کی والدہ نے ہنستے ہوئے بتایا ” سر آپ کے ڈراموں کی وجہ سے عذرا اب ہمارے تلفظ کی غلطی پکڑنے لگی ہے” ایک والد کا کہنا تھا کہ ” میرا عرفان بڑا خاموش اور شرمیلا تھا اب ماشاءاللہ خود کو کھل کر بتاتا ہے”
"پرندوں کی ہنگامی سبھا” بھی ماحولیات کا ڈرامہ ہے جس میں جنگل کے بزرگ پرندے اس لئے پریشان ہیں کہ جواں سال پرندے شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں، ساتھ شہر کے لوگوں کی بدنیتی، جنگل کاٹے جانا، اور ماحولیات کی گندگی پہ تشویش اور بحث ہے”
ایک اور بہت کامیاب بچوں کا سولو ڈرامہ آٹزم کی جانکاری اور آگاہی کے لئے لکھا جس کا عنوان ہے "ہاں میرا رضی آٹسٹک ہے” اس ڈرامے کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اب تک اس کا 18 عالمی زبانوں میں تجربہ ہو چکا ہے۔
علیزے نجف: آپ کا ذریعہء معاش بزنس رہا ہے آپ نے بزنس کا آغاز کب اور کن حالات میں کیا اور آپ کا بزنس کیا تھا بزنس کرتے کرتے آپ نے تھیٹر میں کیسے قدم رکھا جب آپ اس طرف متوجہ ہوئے تو بزنس اور تھیٹر کو برابر توجہ دینے کے لئے کیا اقدامات کئے اس حوالے سے کچھ بتائیں؟
جاوید: بزنس میری مجبوری تھی دولت کا شوق نہیں، جب میں کینیڈا آیا علیگڈھ اور کولکاتہ کے کچھ دوستوں نے نہ صرف بزنس کا مشورہ دیا بلکہ ایک نے تو ایک باکس والٹ کا بھیج دیا کہ بک جائے تو پیسہ بھیج دینا، مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ان دنوں ایک ریسٹورنٹ میں ویٹر کا کام کر رہا تھا، دوپہر لنچ بریک میں ایک بیگ میں ایک درجن والٹ لے کر پھیری والوں کی طرح آواز لگا کر بٹوے بیچنے لگا ڈرامہ کا کانفیڈنس اور آواز کا سب سے اچھا استعمال، مال بکنے لگا، دیکھتے دیکھتے ہم امپورٹر بن گئے ، چند برسوں میں راستوں سے اٹھ کر ایک بوتیک کھول لی، پھر اللہ نے راستہ دکھایا تیس سالوں میں دو بوتیک، ہول سیل کا کاروبار، اور آخر میں ایک ریسٹورنٹ "تندوری کلچر” ۔ اس بزنس وینچر میں بیگم عظمی کے حوالے ایک اسٹور اور بھائی کے حوالے دوسرا اسٹور اور آخر میں اپنی ایک ایک دیرینہ خواہش ش یعنی ریسٹورنٹ میں پورا کنبہ لگ گیا، ڈرامے اور اسٹیج شوز میرے ریسٹورنٹ کی دوسری منزل پر ہونے لگے تھے، یعنی تمام بےپناہ کاروباری مصروفیات کے ساتھ تھیٹر کا مشغلہ بھی جاری رہا۔ اس کے لئے ہم بیگم اور بیٹوں کے شکر گزار و مقروض بھی ہیں۔ چار سال خوب تندوری چکن، افغانی کباب، اور شاہی ٹکڑوں کو ہضم کیا۔ پھر کمبخت یہودی مالک مکان نے کرایہ ڈبل کر دیا کہ گاڑی دوڑنے لگی ہے لیکن اس وقت تک گھر والے دو بجے کی پارٹیوں سے بیزار ہو چکے تھے۔ پھر ایک حسین صبح ہم نے فیصلہ کیا کہ اب بہت ہوا اب ریٹ ریس نہیں ہوگی۔ خوب کمایا خوب اڑایا ، آج سب بزنس بند، اللہ نے دل کو قناعت عطا کیا۔ ہم نے ریٹائرمنٹ لے کر فل ٹائم فائن آرٹس اور داستان گوئی میں آوارہ گردی شروع کر دی۔ عظمی واپس یونیورسٹی جا کر پی ایچ ڈی میں لگ گئیں۔ دو بیٹے ماشاءاللہ جوان ہو چکے تھے ان کی ذمےداری بھی نہیں تھی یعنی جب آپ ایک لائن کھینچ دیں کہ بس اب اور نہیں چاہئے تو اسی میں کام چلنے لگتا ہے الحمدللہ ۔
علیزے نجف: آپ ایک مترجم بھی ہیں آپ نے کتنی کتابوں کا ترجمہ کیا ہے اور اس کی زبان کیا رہی ہے ترجمہ کرنے کے لئے کیا محض زبان واقف ہونا کافی ہے یا اس کے لیے اس زبان کے اعلی ادبی اسلوب پہ کمال حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اس حوالے سے آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
جاوید دانش: ترجمہ اردو والوں کے نزدیک دوسرے درجے کے شہری کی طرح ہوا کرتا ہے، مگر ترجمے کا شوق مجھے اپنے والد محمد حنیف اسیر مرحوم سے ملا، وہ خود بھی رشین ناولز کا اور انگلش نظموں کا ترجمہ کیا کرتے تھے، مگر صحیح معنوں میں ترجمے کی لت اور مشورہ مجھے مشہور ڈرامہ نویس اور ڈائریکٹر حبیب تنویر صاحب نے دیا، میں کولکاتہ ریڈیو کے لئے گریڈ 12 میں ایک casual artist کے طور پر مصروف تھا، حبیب صاحب کے انٹرویو کا موقع ملا، اور انٹرویو کے دوران انھوں نے دیکھا کہ میں اپنے بنگالی کولیگ کے ساتھ بڑی روانی کے ساتھ بنگلہ بول رہا تھا، موصوف نے انٹرویو روکتے ہوئے پوچھا تم بنگالی ہو اتنی شستہ اردو کیسے بول رہے ہو، جب انھیں معلوم ہوا کہ میں اردو کا طالب علم ہوں تو حکم ہوا کہ برخوردار آج سے بنگلہ اردو ترجمہ میں لگ جاؤ انھیں کی حوصلہ افزائی سے میری پہلی کتاب "PROMETHEUS” بنگلہ ریڈیائی ڈراموں کا ترجمہ ہے۔
اس کے بعد جب میں کینیڈا آ گیا تو خالد سہیل سے دوستی ہوئی، وہ بھی یہ شوق پال رہے تھے، یہ فیصلہ ہوا کہ جب ہم طبع زاد کچھ نہیں لکھ رہے ہوں تو قلم سوکھنا نہیں چاہئے، ترجمے کا کام کرنا چاہئے، ہماری پہلی کتاب افریقی ادب کا انتخاب "کالے جسموں کی ریاضت” آئی۔ دوسری ادب اطفال "ورثہ” عالمی لوک کہانیوں کا انتخاب اور ترجمہ پھر ” ایک باپ کی اولاد” ( فلسطینی اور اسرائیلی ادب کا ترجمہ) "انقلاب زنج” (عالمی احتجاجی ڈراموں کا انتخاب اور ترجمہ ) "روشن ہے ریگزار” (فلسطینی اور عربی ادب کا انتخاب ) پروفیسر صفدر امام قادری کے ساتھ "عالمی لوک کہانیاں” عالمی لوک کہانیوں کا ترجمہ زیر طبع ہے فیض احمد فیض کا کہنا ہے کہ "پوری صحت کے ساتھ ترجمہ کرنا بہت عرق ریزی کا کام ہے، جس میں تخلیقی کام سے بھی زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے” میرے نزدیک ترجمہ کرنے کے لئے بڑا صبر و تحمل درکار ہے، یہ مترجم اور ادیب کے درمیان سخن وارانہ ہم کلامی ہے۔ اہمیت صرف ایک معلومات کو دوسری زبان میں منتقل کر دینے کی نہیں ہے بلکہ جذبات و احساسات تک دوسری زبان کے قاری تک پہنچا دینا اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے۔
علیزے نجف: آپ نے شاعری بھی کی مشاعروں میں شرکت بھی کرتے رہے پھر کیا وجہ تھی کہ آپ نے شاعری کو چھوڑ دیا جب کہ آپ کی صلاحیت اس بات کی متقاضی تھی کہ ایک دیوان مرتب کیا جائے ؟
جاوید دانش: میں بنیادی طور پر ڈرامہ نویس ہوں شعر موزوں کر لیتا ہوں مگر خود کو شاعر نہیں کہلواتا۔ گھر کا ماحول والد اور پھوپھا صاحبان اور ان کی نشستیں اور کتابوں نے مجھے بھی شاعر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اسکول میں جاوید شیدا تخلص رکھ لیا تھا، پھر علیگڈھ کی محفلوں اور ڈراموں کی ضرورتوں نے نظم کہنے پر لگا دیا، نظمیں آج بھی میں شوق سے پڑھتا ہوں مشاعروں میں دوستوں کی وجہ سے کبھی کبھی چلا جاتا ہوں، مگر شاعری ڈراموں اور داستان گوئی کی ضرورت ہے، مشاعروں کا شوق نہیں اس لئے میری سترہ کتابوں میں شعری مجموعہ ایک بھی نہیں سب کی سب نثری کتابیں ہیں۔
جاوید دانش صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرے لئے وقت نکالا اور میرے سارے سوالات کے جوابات بہت خوش اسلوبی کے ساتھ دئے ۔جزاک اللہ خیرا
آپ کا بھی بہت بہت شکریہ علیزے نجف صاحبہ ہمیشہ خوش رہیں اور یوں ہی ترقی کرتی رہیں
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page