شعبہ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں بعنوان ”تحقیق میں مواد کی فراہمی“ پروفیسر جمال احمد صدیقی کا لیکچر
میرٹھ26/ اگست2023ء
شعبہ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی، میرٹھ کے پریم چند سیمینار ہال میں پری پی ایچ۔ڈی طلبہ کے لیے ایک خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ یہ لیکچرصدر شعبہئ لائبریری سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے پروفیسر جمال احمد صدیقی نے بعنوان”تحقیق میں مواد کی فراہمی“پر دیا۔
اس سے قبل صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے پروفیسر جمال احمد صدیقی کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر جمال احمد صدیقی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں اور انہوں نے شعبۂ لائبریری میں کئی ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں جن پر ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ان کے عہد میں لائبریری نے بہت سے اہم مقامات حاصل کئے ہیں حتیٰ کہ کئی شعبوں میں لائبریری نے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنائی ہے۔شکریہ کی رسم ڈاکٹر شاداب علیم نے ادا کی۔
پروفیسر جمال احمد صدیقی نے تحقیق کی اہمیت و افادیت کے ساتھ ساتھ اس کے مسائل اور حل پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ریسرچ میں داخلے کے بعد عموماً طلبا یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ابھی پانچ سال کا وقت باقی ہے۔ جب کہ اسکالرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ داخلے کے فوراً بعد ہی اپنا تحقیقی کام شروع کردے۔ کیو نکہ ایسا نہیں کیا اور ایک دن بھی ضائع کردیا تو تحقیق کے پورے دورانیے میں اس کمی کو پورا نہیں کیا جاسکتا۔ ریسرچ فل ٹائم تحقیقی مشغلہ ہے۔ اس میں ایمانداری اور محنت اولین شرط ہے۔تحقیق کا معیار مسلسل گرتا جا رہا تھا۔ اس لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے اس کے معیار کو بلند کر نے کے لیے مختلف اقدا مات کیے ہیں جن کی پابندی لازمی ہے۔طلبا خود اپنے ممتحن ہیں وہ جو کچھ بھی تحریر کریں اسے اس وقت تک خود جانچے اور پرکھیں کہ جب تک ان کا ضمیر اس بات کی گوا ہی نہ دے دے کہ اس میں اب کوئی ایک لفظ بھی سرقہ یا غیر معیاری نہیں ہے۔ اس کے بعد ہی اپنے سپر وا ئزر سے چیک کرا ئیں۔
انہوں نے مواد کی فراہمی کے تعلق سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ جدید ٹیکنالوجی نے ریسرچ اسکالرز کے لیے بہت سی آسانیاں مہیا کرادی ہیں۔ وہ آج گھر در بدر کی ٹھو کریں کھانے اور دور درازلائبریریوں کی خاک چھاننے کی بجائے اپنے آرام دہ کمرے میں بیٹھ کر دنیا کی تمام تر زبان و ادبیات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مختلف ڈیجیٹل پورٹل کا حوالہ اور ان کی کلپ دکھانے کے بعد مثال دیکر سمجھاتے ہوئے کہا کہ نیشنل ڈیجیٹل لائبریری پر نو کروڑ کتابیں، شودھ گنگا پر تین ہزار پی ایچ ڈی مقالے، سپرنگر نیچر پرچھ ہزار ای بکس اور تین سو بتیس ای جنرلس، ای شودھ سندھو پر سات ہزار جنرلس، انسٹی ٹیوشنل ڈیپوزیٹری پر تین ہزار ای کنٹینٹس، سترہ ہزار کتابیں اور بونڈ ولیوم کے ستائس ہزار جنرلس دستیاب ہیں۔
اس خصوصی لیکچر میں ڈاکٹر آصف علی، ڈاکٹر شاداب علیم، ڈاکٹر ارشاد سیانوی، ڈاکٹر الکا وشسٹھ، سعید احمد سہارنپوری، محمد شمشاد کے علاوہ پری پی ایچ ڈی کورس کے طلبہ شریک رہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |