(نوٹ: معروف جرمن فلسفی اور شاعر گوئٹے نے ایک نعت (سانگ آف محمد) کہی تھی جسے
علامہ اقبال نے بعنوان "جوئے آب” فارسی میں منظوم ترجمہ کیا اور ان کے فارسی شعری مجموعہ "پیام مشرق” میں شائع ہوا۔ شان الحق حقی نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔اسے ایک جرمن خاتون ایمیلی ایزسٹ نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ناچیز نے ان بزرگوں کی پیروی میں اور اس میں شامل مضمون اور جذبہ کی ترجمانی کی ناچیز کوشش کی ہے، جو ہدیۂ ناظرین ہیں۔)
وہ حرا کی پہاڑی سے پھوٹا تھا اک چشمۂ ناب و جو
پھر تو اک نورِ حیرت سے سب مات و خیرہ، فرو
پھر وہ آہستہ رو
ریگزاروں میں اترا
سنگ ریزانہ پگڈنڈیوں کوچوں گلیوں میں بڑھتا گیا
ہر زمیں خشک و تشنہ کڑی دھوپ میں ہو گئی تھی
روح کی وادیاں جاں کنی میں پڑی تھیں
الاماں العطش کی پکاریں وہ سنتے ہوئے
اپنے دستِ تلطف سے سیراب کرتا گیا
اپنے موجِ سریع رو کے دھاروں میں کنکڑوں پتھروں کو سمیٹے
پھر چلاتے پھراتے دُر و گوہرِ آبداراں بناتا گیا
اور انھیں ریگزاروں میں گلشن بنے
جن میں کلیاں کھلیں، پھول خنداں ہوئے
آگہی سے جو وجدانِ آدم میں صدیوں پلی
نورِ قرآن سے،
جو ودیعت ہوئی نطقِ رحمٰن سے
چشمۂ فیضِ رحمت ابلتی رہی
اور جہاں بھر کے گوشوں میں چلتی رہی
اس کے آبِ زلالی کی شیرینیت
راہ میں سارے پیاسوں کو ملتی رہی
ہر نشیب و فرازِ زمان و مکاں سے گذرتی رہی
اور نہ جانے ہی کتنے جہاں سوز طوفاں اٹھے
دھرتی تپ سی گئی، آندھیاں پھر چلیں
کتنے شاہ و جہانگیر آئے، گئے
پر سبھی مٹ گئے، ان کے سارے نشاں
اور یہ چشمہ، جو نورِ ازل تھا، رہا
اس کی سیرابیاں ارض و آفاق میں روز افزوں رہیں
آج بھی ہے رواں
کل بھی ہوگا رواں
اس کی میراث ہے جاں گزیں، بے کراں
اس کا پیغام ہے دلکشا، دل کَشاں
وہ ازل تا ابد، جاوداں جاوداں
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |